کالا عمل: دو لڑکیوں کی سچی کہانی — ایک کی خوشی چھینی، دوسری پاگل ہوگئی
تحریر: فرزانہ خان
میرا نام عالیہ ہے، اور آج میں آپ سب کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک ایسا واقعہ شیئر کر رہی ہوں، جو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ یہ کہانی میری نہیں، بلکہ میری کزن کی بیوی کی زبان سے سنی ہوئی ہے… ایک ایسی کہانی جو سن کر میرے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
وہ بتاتی ہیں کہ،
“میری بہن کی شادی تھی، اور مجھے گاؤں جانا پڑا۔ دل تو میرا پہلے سے ہی گاؤں جانے کو نہیں مانتا تھا… کئی بار ارادہ کیا لیکن ہر بار کسی نہ کسی بہانے سے ٹال دیا۔ مگر اس بار بہن کی خوشی کے لیے جانا ہی پڑا۔
گاؤں پہنچی تو رونق ہی رونق تھی۔ اگلی صبح میں رشتہ داروں سے ملنے نکلی تو راستے میں اچانک کسی نے پیچھے سے میری چادر پکڑ لی۔
میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو سامنے ایک فقیرنی کھڑی تھی — میلا کچیلا لباس، خشک ہونٹ، الجھے ہوئے گندے بال۔ ایک لمحے کو تو میں ساکت رہ گئی… کیونکہ وہ کوئی اور نہیں، میری سیما تھی۔
وہی سیما… جس کے حسن پر کبھی پورا گاؤں فدا تھا، جو کبھی دوپٹے کے بغیر گھر سے نہیں نکلی… آج وہ بے بس اور بے حال میرے سامنے کھڑی تھی۔
پانچ سال بعد اسے دیکھ رہی تھی… میرا دل کانپ گیا۔ وہ میری سب سے قریبی دوست تھی، ہم دونوں کی دوستی ایسے تھی جیسے ایک جان دو قالب۔ میری بہن اکثر مجھ سے چڑتی تھی، کہتی تھی:
“لگتا ہے تُو میری بہن کم اور سیما کی بہن زیادہ ہے۔”
واقعی، سیما ہمارے گھر کا فرد تھی۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے، شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ سیما ہمیشہ کہتی،
“عالیہ… میں چاہتی ہوں ہم دونوں کی شادی ایک ہی گھر میں ہو، کہیں الگ الگ نہ ہونا پڑے۔”
پھر ایک شادی میں ہم دونوں گئے ہوئے تھے کہ ایک اجنبی عورت ہم سے نام اور پتے پوچھنے لگی۔ میں نے دھیان نہیں دیا، مگر کچھ دن بعد وہی عورت ہمارے گھر اپنے بیٹوں کے رشتے کے ساتھ آئی۔ بڑے بیٹے کا رشتہ میرے لیے اور چھوٹے کا سیما کے لیے۔
ہمارے گھر والوں کو رشتہ پسند آگیا، اور دونوں طرف سے ہاں ہوگئی۔
شادی کے دن قریب آئے تو میری بڑی بہن نے سمجھایا:
“عالیہ، یاد رکھنا… دیورانی جیٹھانی کا رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے، برداشت اور سمجھداری چاہیے۔”
میں نے ہنستے ہوئے کہا:
“ایسا کچھ نہیں ہوگا، ہم پہلے دوست ہیں، بعد میں دیورانی جیٹھانی۔ ہمارا تو سالوں کا خواب پورا ہورہا ہے۔”
شادی کے بعد میں اور سیما ایک ہی گھر میں آ گئے۔ زندگی جیسے جنت بن گئی تھی۔ ایک سال بعد میری گود میں بیٹا آیا اور سیما کی گود میں بھی ایک ننھا فرشتہ۔ خوشیوں کا زمانہ تھا۔
میرے شوہر کی نوکری شہر میں لگ گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بیٹے کے ساتھ شہر آ جاؤں، مگر میرا دل کسی صورت راضی نہیں ہوتا تھا۔ وہ جب بھی آتے، تحفے تحائف لاتے، پھر ہماری ایک بیٹی بھی ہوئی۔
گھر میں دو حصے تھے، لیکن وہ صرف نام کے تھے۔ ہم ہمیشہ ایک ساتھ رہتے تھے۔ میں دوبارہ امید سے تھی، مگر سیما کے ہاں پہلے بیٹے کے بعد اولاد نہیں ہوئی۔
پھر ایک دن شوہر نے ضد پکڑ لی کہ اب میں بچوں سمیت شہر آ جاؤں۔ سسرال والے بھی یہی کہتے رہے کہ شہر جا کر بچوں کا مستقبل بہتر ہوگا۔ دل تو میرا نہیں مان رہا تھا، مگر آخرکار سب کی بات ماننی پڑی۔ طے یہ پایا کہ ولادت کے بعد میں شہر چلی جاؤں گی۔
جس دن یہ فیصلہ ہوا، سیما میرے پاس آئی، آنکھوں میں نمی لیے بولی:
“عالیہ… تم چلی جاؤ گی تو میرا دل کیسے لگے گا؟”
میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا:
“پریشان نہ ہو، وہ وعدہ کر رہے ہیں کہ ہر مہینے مجھے گاؤں لے کر آئیں گے۔ تم بھی کبھی کبھار آ جانا، اور میں بھی آتی رہوں گی۔”
پھر وہ مجھے گلے لگا کر رونے لگی، اور میں بھی ضبط نہ کر سکی۔
کچھ وقت گزرا۔ میرے ہاں ایک اور بیٹا ہوا — سرخ و سفید رنگت اور بڑی بڑی معصوم آنکھوں والا بچہ، جو سب کا دل موہ لیتا تھا۔ شوہر نے خوشی سے کہا:
“تمہیں اندازہ نہیں، عالیہ… تم نے مجھے کتنا بڑا تحفہ دیا ہے۔ اب تیار رہنا، میں آؤں گا تو تم سب میرے ساتھ شہر چلنا۔”
دو مہینے بعد ان کی واپسی تھی۔
ایک شام سب چائے پی رہے تھے تو میرے دیور نے اداسی سے کہا:
“بھابھی، تم چلی جاؤ گی تو گھر سونا ہو جائے گا۔”
میں نے ہنستے ہوئے کہا:
“پھر تم بھی چلو شہر، دل لگ جائے گا۔”
وہ مسکرا کر بولا:
“میں کیا کروں گا جا کے؟ کم از کم یہاں زمین پر کام کر کے بیوی بچوں کا پیٹ تو پالتا ہوں۔”
سیما خاموش بیٹھی تھی… بالکل گم سم… جیسے دل میں کچھ چھپا رہی ہو۔ مجھے عجیب سا احساس ہوا، لیکن میں کچھ نہ کہہ سکی۔
کچھ دن گزرے اور میری طبیعت میں عجیب سی بے چینی شروع ہوگئی۔ چڑچڑاہٹ بڑھ گئی، بچوں پر بلاوجہ غصہ آ جاتا۔ میرا چھوٹا بیٹا بھی بہت روتا رہتا۔ سیما نے کہا:
“لگتا ہے اس کے پیٹ میں درد ہے، چلو ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں۔”
ہم دونوں اسے قریبی کلینک لے گئے۔ ڈاکٹر نے دوائیاں دیں اور کہا سب ٹھیک ہے۔ لیکن رات ہوتے ہی بچہ پھر رونے لگتا… اتنا روتا کہ سب پریشان ہو جاتے۔ میں، سیما اور میرا دیور ساری رات اسے چپ کراتے رہتے، مگر وہ چپ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔
اب تو وہ کمزور بھی ہونے لگا تھا…
اور یہ کہانی میں آج بھی ایسے یاد کرتی ہوں جیسے سب کل ہی ہوا ہو۔
میرے بیٹے کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ اتنا کیوں روتا ہے۔ وہ بچہ جو ہر وقت مسکراتا تھا، اچانک خاموش ہو گیا تھا، اور دن بدن کمزور ہونے لگا۔
ہم دوبارہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ ڈاکٹر نے کہا:
“میں کچھ دوائیاں دے رہا ہوں، ان شاء اللہ فرق پڑے گا۔”
ان دواؤں سے واقعی اسے کچھ آرام ملا، اور میں نے سکون کا سانس لیا… لیکن یہ سکون دو دن سے زیادہ نہ چل سکا۔ تیسرے دن اچانک اسے تیز بخار چڑھ گیا۔ میں بدحواس ہو گئی۔ میرا دل گھبرا رہا تھا، جیسے کچھ بہت بُرا ہونے والا ہو۔
اس کا رنگ جو ہمیشہ سرخ و سفید رہتا تھا، نیلا پڑنے لگا۔ میں اور سیما گھبرا کر اسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے کر دوڑیں، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے شوہر کو فون کر کے بلایا، وہ شہر سے فوراً گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔ فون پر بس اتنا کہا:
“تیار رہو عالیہ… ہم اسے شہر لے جائیں گے، کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھائیں گے۔ کچھ نہیں ہوگا، تم ہمت رکھو۔”
میں ہمت کہاں رکھتی؟ میں تو اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔ میرا صحت مند بچہ چند دنوں میں سوکھ کر تنکے جیسا ہو گیا تھا۔
اگلی صبح شوہر کے پہنچنے کا انتظار تھا، لیکن تقدیر نے مہلت نہ دی… فجر کے وقت میرے بیٹے نے میرے ہاتھوں میں آخری سانس لی اور ہمیشہ کے لیے میری گود خالی کر دی۔
میرے حواس جواب دے گئے… شوہر کا برا حال تھا، لیکن میں تو جیسے پتھر ہو گئی تھی۔ نہ رونا آیا نہ چیخنا، بس ایک خلا سا تھا جو مجھے نگل رہا تھا۔
پندرہ دن تک میں بستر سے نہ اٹھ سکی۔ نہ کھانے کا ہوش، نہ پینے کا۔ بس اتنا یاد ہے کہ سیما نے سب کچھ سنبھالا ہوا تھا — میرے بچے، گھر کے کام، میرا دھیان… ہر چیز وہ کر رہی تھی۔
ابھی بیٹے کے غم سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی… امی کا انتقال ہو گیا۔
اب تو جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی تھی۔ شوہر کو دفتر سے فون آ گیا، انہیں واپس جانا ضروری تھا۔ میں بستر پر پڑی رہتی، بچوں کو بھی خود سے لپٹا کر خاموش رہتی۔
پھر اچانک ماہین… میری گڑیا… کو تیز بخار نے جکڑ لیا۔ میرا دل خوف سے کانپ اٹھا۔ میں ایک بیٹے کو کھو چکی تھی، اب اس دکھ کو دوبارہ سہنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔
سیما میرے پاس بیٹھی مجھے حوصلہ دے رہی تھی:
“تم فکر نہ کرو عالیہ… میں ہوں نا، سب دیکھ لوں گی۔ ماہین ٹھیک ہو جائے گی، بس دعائیں کرتی رہو۔”
میری حالت ایسی تھی کہ بولنے کی بھی سکت نہیں تھی، مگر دل ہی دل میں میں سیما کے لیے دعا کر رہی تھی کہ اللہ اسے سلامت رکھے — وہ نہ ہوتی تو میں شاید زندہ نہ رہتی۔
وہ میرے لیے دن رات بھاگتی پھرتی تھی۔ بچوں کو کھلاتی، سلاتی، میرا دھیان رکھتی۔ رات کو میرے پاس ہی رہتی، زبردستی مجھے کھانا کھلاتی اور دوا پلانے کے بعد ہی اپنے کمرے میں جاتی۔
پھر ایک رات کچھ ایسا ہوا جس نے میری جان نکال دی۔
آدھی رات کو اچانک پیاس سے میری آنکھ کھلی، مگر جسم اتنا نڈھال تھا کہ بستر سے اٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، اور صحن واضح نظر آ رہا تھا۔
وہاں… ہاں، وہاں میں نے کسی کا سایہ دیکھا۔
وہ سایہ جھکا ہوا تھا، جیسے صحن کی مٹی کھود رہا ہو۔ میری آنکھوں نے صاف دیکھا… لیکن کمزوری اور غنودگی نے مجھے کچھ کرنے نہ دیا۔ میں سوچتی رہی کہ شاید میرا وہم ہے… اور پھر نیند مجھے دوبارہ اپنی گرفت میں لے گئی۔
اگلی صبح جب آنکھ کھلی، کمرے کی گھڑی دوپہر کے تین بجا رہی تھی۔ میں نے حیرت سے وقت دیکھا، سوچا:
“کیا میں اتنی دیر سوئی رہی؟”
ماہین اور میرا چھوٹا بیٹا دونوں میرے پاس سو رہے تھے۔ ماہین کا جسم ابھی بھی تپ رہا تھا، بخار کم نہ ہوا تھا۔ شاید اسی لیے سیما نے مجھے جگایا نہیں تھا۔
میں نے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اچانک صحن سے رونے کی آواز سنائی دی۔ رونے کی نہیں… بین کرنے کی آواز۔
میرے دل نے زور سے دھڑکنیں شروع کر دیں۔ میں آہستہ آہستہ، دیوار کا سہارا لیتے ہوئے باہر نکلی… اور یہ منظر دیکھا:
سیما… ہاں وہی سیما… اپنے بیٹے کو گود میں لیے چیخ رہی تھی۔
اس کے بیٹے کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے، سانس اکھڑ رہی تھی۔ میرا دل حلق کو آ گیا۔ میں نے گھبرا کر پوچھا:
“کیا ہوا سیما؟ یہ کیسے ہوا؟”
دیور نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
“پتہ نہیں بھابھی… صبح یہ آپ کے کمرے میں آیا تھا، بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے… لیکن آپ سو رہے تھے۔ پھر باہر جا کر کھیلنے لگا، اچانک گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دکھایا، مگر حالت دیکھیں… کچھ سمجھ نہیں آ رہا…”
سیما کا حال دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
“رو مت سیما… میں اپنے شوہر سے بات کرتی ہوں، ہم شہر جائیں گے، کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھائیں گے… کچھ نہ کچھ تو حل نکلے گا۔”
مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اگلی صبح کی بس کے ٹکٹ بھی ہو گئے، لیکن جانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ رات کو سیما کا بیٹا بھی… دم توڑ گیا۔
میرے سامنے… ایک اور ماں کی گود اجڑ گئی۔
میں بس خاموش، وحشت زدہ آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی۔ دل میں خوف اتر رہا تھا… کیا یہ سب اتفاق ہے؟ یا… یا کچھ اور؟
سیما تو اپنے حواس کھو بیٹھی تھی، اور میرا دل بار بار دھڑک رہا تھا… کہیں کوئی سایہ، کوئی نظر… ہمارے بچوں کو تو نہیں لگی؟
بیٹے کے جنازے کے بعد گھر کا ماحول سوگوار ہو گیا۔ اسی دن ہمارے گاؤں کے شاہ صاحب تعزیت کے لیے آئے۔
شاہ صاحب… مسجد کے بڑے اور نیک بزرگ، نورانی چہرہ، نرم لہجہ۔ ان کے الفاظ میں ایسا سکون تھا کہ سننے والا پل بھر کو اپنی پریشانی بھول جاتا۔
لیکن اس دن کچھ اور ہوا…
وہ بات کرتے کرتے اچانک خاموش ہو گئے… اور جیسے ہوا کو سونگھنے لگے۔ پھر گہری نظر سے صحن کو دیکھ کر بولے:
“یہاں… کچھ شیطانی بو ہے… کچھ منحوس سایہ… کوئی عمل کیا گیا ہے اس جگہ…”
یہ سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ شاہ صاحب صحن کی طرف بڑھے، بالکل وہاں جا کر رکے جہاں میں نے اس رات سایہ دیکھا تھا۔
انہوں نے شوہر سے کہا:
“یہ مٹی ہٹاؤ… ابھی، فوراً۔”
شوہر نے ہاتھوں سے مٹی کھودنا شروع کی، اور چند لمحوں میں زمین کے اندر سے ایک پتلا نکلا — مٹی کا بنا ہوا ایک بدشکل پتلا… اور اس کے ساتھ ایک پرچی، جس پر عجیب لکیریں تھیں اور ایک نام…
ماہین…
ہاں، میری بیٹی کا نام… اور اس کے اوپر واضح کراس کا نشان۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ یاد آیا وہ سایہ… وہی سایہ جو صحن میں مٹی کھود رہا تھا۔
پھر… شاہ صاحب کے لب ہلے، آواز غصے میں لرز رہی تھی:
“یہ عمل ہے… کالا عمل… جس نے یہ کیا ہے، وہ کسی کی جان لینا چاہتا تھا…”
شوہر اور دیور سکتے میں تھے۔ دیور لرزتی آواز میں بولا:
“شاہ صاحب… یہ کس نے کیا ہے؟”
شاہ صاحب نے کہا:
“جس کے دل میں حسد اور زہر بھرا ہو… وہی یہ کر سکتا ہے۔”
پھر وہ سیما کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ جیسے ہی وہ اندر گئے، ان کے چہرے کا رنگ غصے سے لال ہو گیا۔
“جو تم نے کیا… اسی کا پھل تمہیں ملا، سیما!” وہ دھاڑے۔
“اللہ کی تقسیم پر راضی نہ رہنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے!”
اور سیما… وہ اچانک چیخنے لگی… بین کرنے لگی… اور سب کے سامنے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا — کہ کس طرح اس نے حسد میں آ کر کالا علم کروایا… کس طرح چاہا کہ میری گود خالی ہو… اور پھر کیسے اس کا وار الٹا ہو کر اس کے اپنے بیٹے پر پڑا۔
میں دیوار کا سہارا لیے کھڑی رہ گئی… دل یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ یہ وہی سیما ہے… میری دوست، میری بہن جیسی۔
میں بس اتنا کہہ سکی:
“سیما… تم نے دشمنی مجھ سے رکھنی تھی، میرے بچوں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا…؟”
اور پھر… میں نے اپنا سامان باندھا… شوہر کے ساتھ اس گھر سے، اس گاؤں سے، اور اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل آئی۔
آج پانچ سال ہو گئے ہیں… میں نے پلٹ کر بھی اس گاؤں کی طرف نہیں دیکھا۔
لیکن اب جب دوبارہ وہاں گئی… وہی سیما سامنے کھڑی تھی… بکھرے بال، خالی آنکھیں… اور میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی۔
مگر میں نے اپنا ہاتھ چھڑایا… اور بنا کچھ کہے آگے بڑھ گئی۔
یہ کہانی سن کر… آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ میں آج بھی اس گاؤں کے نام سے کیوں لرز جاتی ہوں۔
⚠️ کاپی رائٹ نوٹس:
یہ کہانی مکمل طور پر ہمارے رائٹر کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کی کسی بھی قسم کی کاپی، ری اپلوڈ یا دوبارہ استعمال بغیر اجازت کے سختی سے منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگر آپ اس کہانی کو اپنے یوٹیوب چینل یا کسی اور پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی ہم سے فیس بک پر رابطہ کریں اور مناسب قیمت ادا کر کے باقاعدہ اجازت حاصل کریں۔
