![]() |
حضرت محمد ﷺ کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ |
مکہ کی سرزمین پر سورج نے اپنی روشنی بکھیرنا شروع کی۔ فضاؤں میں ایک انوکھی روشنی چھا گئی تھی، یوں لگتا تھا جیسے کائنات کسی خاص مہمان کے استقبال کی تیاری کر رہی ہو۔
اسی زمانے میں مکہ میں ایک نیک اور پاک باز خاتون حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ وہ فرماتی ہیں:
"جب میرا بچہ میرے پیٹ میں تھا تو میرے ساتھ ایسی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں کہ میں خود حیران رہ جاتی۔ اگر میں گھر سے باہر نکلتی تو بادل کا ایک سایہ میرے اوپر چھا جاتا، تیز دھوپ بھی مجھے چھو نہیں پاتی۔ اگر میں پانی بھرنے کے لیے زمزم کے کنویں کی طرف جاتی تو راستے کے درختوں کی شاخیں میرے سامنے جھک جاتیں، جیسے مجھ سے سلام کر رہی ہوں۔"
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مزید بیان کرتی ہیں:
"جب میں کنویں کے پاس پہنچتی تو نیچے کا پانی خود بخود اوپر آنے لگتا، یہاں تک کہ وہ کنویں کے منہ تک آ جاتا اور میں بنا کسی مشکل کے اپنے ہاتھوں سے پانی بھر لیتی۔ مکہ کی عورتیں مجھے کنویں کے پاس روک لیتیں اور کہتیں، 'اے آمنہ! ذرا دیر اور یہیں کھڑی رہو، تمہارے جانے سے پانی واپس نیچے چلا جائے گا اور ہمیں پانی بھرنے میں دقت ہوگی۔' یہ سب دیکھ کر میں حیران رہ جاتی کہ آخر یہ سب کچھ صرف میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔"
وہ مزید فرماتی ہیں:
"میں نے اکثر عورتوں سے سنا تھا کہ حمل کے مہینے بہت مشکل ہوتے ہیں — کبھی بخار، کبھی الٹیاں، کبھی چکر، کبھی جسم میں درد۔ لیکن مجھے ان نو مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رحمت عطا فرمائی کہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہوئی؛ نہ سر درد، نہ طبیعت میں خرابی، نہ ہی کمزوری۔ میں خود سوچتی کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہے۔"
اسی دوران حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کئی عجیب و غریب خواب بھی آنے لگے۔ ایک خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جو مشرق و مغرب، شمال و جنوب، پوری دنیا کو روشن کر رہا ہے۔ اس خواب نے ان کے دل میں یہ یقین پیدا کر دیا کہ ان کے بطن میں پلنے والا بچہ کوئی عام انسان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہے۔
دوسری طرف، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا، حضرت عبدالمطلب، دن رات اللہ کے حضور دعائیں کرتے رہتے۔ ہاتھ اٹھا کر روتے اور فریاد کرتے:
"یا اللہ! میرا بیٹا عبداللہ تو اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن اس کے گھر میں ایک بچہ آنے والا ہے۔ اے ربِ کریم! اس بچے کی حفاظت فرما، اسے اپنی رحمت میں جگہ دے، اور میرے بیٹے کی نسل کو باقی رکھ۔"
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی ہر دن بے تابی سے انتظار کرتے کہ کب وہ گھڑی آئے جب حضرت عبداللہ کا بیٹا اس دنیا میں قدم رکھے۔
اسی دوران یہودیوں میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔ ان کی مقدس کتاب تورات میں لکھا تھا کہ جب آخری نبی کی آمد قریب ہوگی تو اس کی پیدائش سے دس دن پہلے آسمان پر ایک خاص لال رنگ کا تارا چمکے گا۔ چنانچہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت میں دس دن باقی رہ گئے تو وہ لال تارا آسمان پر نمایاں ہو گیا۔
یہ تارا دیکھ کر یہودی علماء کے درمیان کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے فوراً اپنے لوگوں کو جمع کیا اور کہا:
"یہ وہی نشان ہے جس کا وعدہ ہماری کتابوں میں کیا گیا ہے، اب آخری نبی دنیا میں آنے والا ہے۔ فوراً معلوم کرو کہ مدینہ یا اس کے آس پاس کس گھر میں ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کی پیدائش میں صرف دس دن باقی ہوں۔"
جب آسمان پر وہ لال تارا چمکا تو یہودی علماء کی زبان سے بے اختیار نکلا:
"اب آخری نبی کے ظہور کا وقت آ گیا ہے۔"
چند یہودی فوراً مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں گھر گھر جا کر دریافت کرنے لگے کہ کون سی عورت حاملہ ہے اور کس کا وقت قریب ہے، لیکن مدینہ میں جتنی بھی عورتیں حاملہ تھیں، کسی کی ولادت قریب نہ تھی۔ کسی کے ہاں دو مہینے باقی تھے، کسی کے ہاں چار۔ سب نے یہی کہا: "ابھی کوئی ایسا بچہ پیدا ہونے والا نہیں جس کا وقت بالکل قریب ہو۔"
یہ سن کر یہودی علماء نے کہا:
"اب مکہ جاؤ، ممکن ہے وہ بچہ وہاں پیدا ہونے والا ہو۔"
چنانچہ یہودیوں کا ایک قافلہ مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے تحقیق شروع کی کہ کون سی عورتیں حاملہ ہیں۔ لوگوں نے بتایا:
"مکہ میں اس وقت پانچ عورتیں ایسی ہیں جن کے ہاں جلد ہی بچوں کی ولادت ہونے والی ہے۔"
یہودیوں نے کہا:
"ہمیں ایسا بچہ چاہیے جس کا باپ اس دنیا میں نہ ہو۔"
لوگوں نے فوراً جواب دیا:
"ہاں، یہاں حضرت عبدالمطلب کا پوتا پیدا ہونے والا ہے۔ اس بچے کے والد، حضرت عبداللہ، کا چند مہینے پہلے انتقال ہو چکا ہے۔"
یہ سن کر یہودی چیخ اٹھے، کچھ نے اپنے چہروں پر ہاتھ مارے، کچھ زمین پر بیٹھ کر رونے لگے اور کہا:
"ہائے افسوس! نبوت تو ہماری نسل سے نکل کر اب مکہ والوں کے پاس جا چکی ہے!"
وہ اپنے علماء کے پاس واپس لوٹے اور روتے ہوئے کہنے لگے:
"اب وہ نبی، جس کا ہم صدیوں سے انتظار کر رہے تھے، جس کی نشانیاں ہم نے اپنی کتابوں میں بار بار دیکھی تھیں، اب ہم میں پیدا نہیں ہوگا، نبوت مکہ والوں کے حصے میں آ چکی ہے۔"
وقت گزرتا رہا اور پھر وہ مبارک دن آ گیا جس کا انتظار نہ صرف انسانوں نے، بلکہ آسمان، زمین، درختوں، پرندوں، ہواؤں اور فرشتوں نے بھی کیا تھا۔ یہ وہ دن تھا جس کے لیے کائنات کو پیدا کیا گیا۔ اگر وہ نہ آتے تو شاید زمین، آسمان، سورج، چاند کچھ بھی نہ ہوتا۔
آج وہ بچہ دنیا میں آنے والا تھا، جس کے لیے چاند دو ٹکڑوں میں بانٹا گیا، سورج کو اپنی جگہ روک دیا گیا، اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورج سے فرمایا:
"اے سورج! ابھی نہ ڈوب، میرے حبیب نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی۔"
وہ بچہ جس کے پاس ساری زندگی حضرت جبرائیل علیہ السلام چھبیس ہزار بار وحی لے کر آئے۔
پیارو دوستو! اب وقت قریب آ چکا تھا۔ آسمان پر چاند بادلوں میں چھپ گیا، زمین پر ایک خاص سکون چھا گیا، جیسے کائنات سانس روک کر کسی عظیم لمحے کی منتظر ہو۔ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے شکم میں ہلکی سی ہلچل محسوس کی اور ایک نرم سا درد اٹھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ وقت قریب آ گیا ہے۔
انہوں نے فوراً حضرت عبدالمطلب کو اطلاع بھجوائی۔ حضرت عبدالمطلب نے محلے کی نیک صورت دائی، حضرت شفا کو بلایا اور کہا:
"آج رات تم حضرت آمنہ کے پاس ہی رہو۔ میرے بیٹے عبداللہ تو اب اس دنیا میں نہیں، مگر اس کے گھر سے اللہ کا ایک بہت خاص بندہ پیدا ہونے والا ہے۔"
حضرت شفا کو اس رات کی اہمیت کا اندازہ نہ تھا، لیکن ان کے دل میں ایک عجب سا سکون اتر آیا۔ وہ حضرت آمنہ کے گھر پہنچ گئیں اور ان کے ساتھ رات گزارنے لگیں۔
اُدھر آسمان گواہ تھا، فرشتے صف بستہ کھڑے تھے، زمین کا ہر ذَرّہ تیار تھا کیونکہ آج وہ آنے والا تھا جس کا نام ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
حضرت عبدالمطلب اور ان کے تمام بیٹے، یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، رات بھر گھر کے باہر بیٹھے رہے۔ ان کے دل میں ایک ہی فکر تھی کہ اگر حضرت آمنہ کے ساتھ کوئی مشکل پیش آئی تو فوراً علاج کا انتظام کریں گے۔ پورا خاندان جاگتا رہا، کسی کی آنکھ نہ لگی۔
رات ڈھلتی جا رہی تھی، سحری کا وقت آ چکا تھا۔ حضرت آمنہ کے شکم میں ایک ہلکا سا درد اٹھا، ان کے دل نے کہا:
"اب وقت قریب ہے۔"
انہوں نے فوراً دائی حضرت شفا کو آواز دی:
"مجھے درد ہو رہا ہے۔"
دائی حضرت شفا فوراً حضرت آمنہ کے پاس پہنچ گئیں۔ فضا خاموش تھی، دل بے قرار، آنکھوں میں انتظار۔ تقریباً ایک گھنٹہ گزرا اور پھر وہ لمحہ آ گیا...
صبح ہونے سے کچھ پہلے رحمت کے دروازے کھل گئے اور ہمارے پیارے آقا، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اس دنیا میں تشریف لے آئے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"جس رات میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی، ہمارے گھر میں غربت کا یہ حال تھا کہ چراغ میں تیل جلانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ اندھیروں کا عالم تھا — نہ روشنی گھر کے اندر تھی نہ باہر۔ لیکن اسی اندھیرے میں میرے بیٹے، میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، جو ساری دنیا کے لیے روشنی اور ہدایت بن کر آئے۔"
یہ کوئی عام پیدائش نہ تھی۔ دائی حضرت شفا کہتی ہیں:
"میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا۔ پیدائش کے وقت تین عجیب نشانیاں ظاہر ہوئیں جنہیں دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔"
پہلی نشانی یہ تھی کہ عام طور پر بچہ ماں سے ناف کے ذریعے جڑا ہوتا ہے، لیکن حضرت محمد ﷺ کی ناف پیدائش کے وقت مکمل طور پر کٹی ہوئی تھی، جیسے کسی نے پہلے ہی سے اسے جدا کر دیا ہو۔
دوسری نشانی یہ تھی کہ عام بچوں کی ولادت کے وقت جسم سے کچھ گندگی نکلتی ہے، لیکن جب حضرت نبی کریم ﷺ پیدا ہوئے تو جسمِ مبارک سے ایک قطرہ بھی گندگی کا نہ نکلا، گویا پاکیزگی اور صفائی آپ ﷺ کی فطرت میں شامل تھی۔
تیسری نشانی یہ تھی کہ عام لڑکوں کی پیدائش کے بعد ختنہ کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کا ختنہ ماں کے پیٹ ہی میں مکمل ہو چکا تھا، اور آپ ﷺ دنیا میں آتے ہی پہلے سے مخدوم اور مکمل تھے۔
ان تین نشانیوں کو دیکھ کر دائی شفا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ان کے دل پر ایک عجیب سا اثر ہوا اور وہ فوراً بول اٹھیں:
"اے آمنہ! میں نے آج تک ایسا بچہ نہیں دیکھا۔"
پھر دائی شفا نے پیارے نبی محمد ﷺ کو اپنی گود میں لیا اور احترام کے ساتھ زمین پر لٹا دیا۔ جیسے ہی انہوں نے نبی کریم ﷺ کو زمین پر رکھا تو ایک معجزہ رونما ہوا: نبی کریم ﷺ نے جھٹکے سے کروٹ بدلی، اپنے ننھے ننھے گھٹنوں کے بل جھکے اور سیدھے سجدے میں چلے گئے۔
یہ منظر حضرت آمنہ کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ ایک ننھا سا بچہ جو ابھی دنیا میں آیا ہو، وہ کس طرح سجدے میں جا سکتا ہے؟ لیکن یہ تو اللہ کا محبوب، رحمت للعالمین اور سید المرسلین ﷺ تھے۔
پندرہ منٹ تک آپ ﷺ سجدے میں رہے، پھر اپنا سر اٹھایا، آسمان کی طرف نگاہ کی اور اپنی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا، گویا ساری کائنات کو اعلان کر رہے ہوں:
"اے لوگو! یاد رکھو، اس دنیا کو پیدا کرنے والی صرف ایک ہی ذات ہے، اور وہ ذات اللہ ہے!"
اس لمحے زمین نے بھی سجدہ کیا، آسمان بھی جھک گیا، اور دنیا نے پہلی بار اللہ کے آخری نبی ﷺ کا چہرہ دیکھا، جو خود نور تھے اور نور بانٹنے آئے تھے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"جب میں نے اپنے بیٹے کو گود میں لیا تو میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جو شاید کسی ماں نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ آسمان کے سارے ستارے زمین کی طرف جھک رہے ہیں، جیسے وہ میرے بیٹے کا دیدار کرنے آئے ہوں۔"
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ ایک نورانی بادل کا سایہ ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بادل اتنا روشن تھا کہ اس کی روشنی سے سارا کمرہ جگمگا گیا۔ پھر اسی روشنی میں اچانک حضرت آمنہ کے ہاتھوں سے ان کا بچہ غائب ہوگیا۔
حضرت آمنہ حیران رہ گئیں، لیکن اسی بادل سے ایک آواز آئی:
"اے جبرائیل! اس بچے کو ساری دنیا کا چکر لگواؤ، اور اسے تمام انبیاء کی خوبیاں عطا کرو: یوسف کی خوبصورتی، ایوب کا صبر، ابراہیم کی دوستی، داؤد کی میٹھی زبان اور سلیمان کا علم و وقار!"
کچھ دیر بعد وہ نورانی بادل واپس چلا گیا اور جب حضرت آمنہ نے دیکھا تو ان کا بیٹا پھر سے ان کی گود میں آرام سے لیٹا ہوا تھا، اور مسکرا رہا تھا۔
صبح ہونے ہی والی تھی کہ دائی شفا نے خوشی سے دروازہ کھولا اور دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچ گئیں۔ جیسے ہی انہوں نے کہا:
"اے عبدالمطلب! آپ کو پوتے کی خوشخبری ہو!"
رات بھر جاگے اور فکر میں بیٹھے عبدالمطلب کی ساری تھکن ایک پل میں خوشی میں بدل گئی۔ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے اور وہ بے اختیار کہنے لگے:
"جلدی سے مجھے میرا پوتا لا دو!"
جب دائی شفا نے نبی کریم ﷺ کو باہر لا کر حضرت عبدالمطلب کی گود میں دیا تو سب کے ہوش اُڑ گئے۔ اتنا نور، اتنی خوبصورتی، اتنی پاکیزگی کہ مکہ کے لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ہر چچا اپنے بھتیجے کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھا۔
یہاں تک کہ جب حضرت ابو لہب کی باندی نے جا کر اپنے آقا کو خوشخبری دی:
"اے ابو لہب! آپ کو بھتیجے کی پیدائش مبارک ہو!"
تو خوشی میں ابو لہب نے کہا:
"جا، میں نے تجھے آزاد کیا!"
اپنے بھتیجے کی پیدائش کی خوشی میں وہ باندی آزاد کر دی گئی۔ ایسا نور، ایسی برکت، ایسا اثر کہ جس کے دل میں ذرا برابر بھی انسانیت تھی، وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔
حضرت عبدالمطلب اُس وقت کافی بزرگ تھے، لیکن پوتے کی محبت اور خوشی ایسی غالب آئی کہ وہ پاؤں میں جوتا پہنے بغیر ہی نبی کریم ﷺ کو گود میں لے کر کعبہ کی طرف دوڑنے لگے۔
راستے میں مکہ کے لوگ ان کے پیچھے چل پڑے، دعائیں دے رہے تھے، سب کے دل خوشی سے بھرے ہوئے تھے۔
کعبہ کے پاس پہنچ کر حضرت عبدالمطلب نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:
"اے اللہ! میرے پوتے کو سلامت رکھنا، اسے لمبی عمر دینا اور اسے بہت بڑا انسان بنانا۔"
شاید اس وقت حضرت عبدالمطلب کو اندازہ نہ تھا کہ ان کے ہاتھوں میں جو بچہ ہے وہ صرف ان کا پوتا نہیں بلکہ ساری کائنات کا سردار ہے۔ وہ بچہ جس کے لیے آسمان و زمین کو بنایا گیا، وہ بچہ جسے اللہ نے معراج کی رات آسمانوں سے بلا کر اپنے سامنے بٹھایا، وہی محمد مصطفی ﷺ تھے۔
پھر انہوں نے سب کے سامنے اعلان کیا:
"میں اپنے پوتے کا نام محمد رکھتا ہوں!"
یہ نام سنتے ہی مکہ کے لوگ حیرت میں پڑ گئے اور کہنے لگے:
"اے عبدالمطلب! یہ کیسا انوکھا نام رکھ دیا؟ ہم نے تو کبھی ایسا نام نہیں سنا!"
حضرت عبدالمطلب مسکرائے اور فرمایا:
"تم نہیں جانتے، ایک دن میرا یہ پوتا ایسا مہان انسان بنے گا کہ پوری دنیا اس کا نام محبت سے لے گی، لوگ اس کے پیچھے چلیں گے اور آسمانوں سے بھی اس کی تعریف کی جائے گی!"
وقت گزرتا گیا۔ ایک دن مدینے میں نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اسی محفل میں آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا:
"اے اللہ کے رسول! مجھے تو بچپن سے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ آپ بڑے ہو کر کوئی بہت ہی عظیم ہستی بنیں گے۔"
حضور اکرم ﷺ نے پوچھا:
"چاچا جان! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟"
حضرت عباس نے ایک پرانی یاد تازہ کی اور کہا:
"ایک رات کی بات ہے، آپ صرف دو مہینے کے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ چارپائی پر اکیلے لیٹے ہوئے رو رہے تھے۔ میں نے آپ کو چپ کرانا چاہا مگر آپ نے میری طرف نہیں دیکھا، بلکہ اچانک آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر مسکرانے لگے۔ میں حیرت سے آپ کی انگلیوں کی طرف دیکھنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چاند آپ کی انگلی کے اشارے پر چل رہا تھا، آپ جدھر انگلی لے جاتے چاند اُدھر چلا جاتا۔ اس دن میں نے جان لیا کہ آپ کوئی عام بچہ نہیں بلکہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔"
یہ سن کر نبی کریم ﷺ مسکرائے اور فرمایا:
"ہاں چاچا جان! آپ سچ کہتے ہیں، چاند میرا دوست تھا۔ بچپن میں وہ مجھے قصے سناتا، میرے ساتھ کھیلتا اور جب میں روتا تو وہ مجھے بہلایا کرتا تھا۔"
سبحان اللہ! دوسرے بچوں کے لیے کھلونے ہوتے تھے اور ہمارے نبی ﷺ کے لیے چاند کھلونا بن کر آتا تھا۔ کیونکہ ان کی ماں حضرت آمنہ اتنی غریب تھیں کہ اپنے یتیم بیٹے کے لیے ایک کھلونا تک نہ خرید سکیں، تو اللہ نے چاند سے کہا:
"اے چاند! میرے محبوب کو رونے مت دینا، تو ہی ان کے ساتھ کھیل، تو ہی ان کا کھلونا بن جا!"
یہ صرف بچپن کی باتیں نہیں تھیں، بلکہ اس دن بھی نشانیاں ظاہر ہوئیں جس دن ہمارے نبی ﷺ دنیا میں تشریف لائے۔ دنیا میں جتنے بھی بت رکھے گئے تھے، سب زمین پر اوندھے گر پڑے۔ ایران کے بادشاہ کے محل میں ایک ہزار سال سے لگاتار جلنے والی آگ، جس کی وہ پوجا کرتے تھے، اچانک بجھ گئی۔
بادشاہ کے محل کی دیواروں پر اس کی شکل کی 14 روشنیاں بنی ہوئی تھیں، اور جیسے ہی نبی کریم ﷺ کی ولادت ہوئی، وہ ساری چودہ روشنیاں بجھ گئیں، اور آسمانوں میں ایک خاص روشنی پھیل گئی۔
مکہ میں ایک اور عجیب واقعہ پیش آیا۔ دوسرے دن دوپہر کے وقت ایک یہودی عالم مکہ آیا، جو دراصل کچھ سامان خریدنے آیا تھا، مگر...
جیسے ہی اُس یہودی عالم نے آسمان کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اُس نے آسمان پر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں جو اُس کی کتابوں میں درج تھیں — کہ جب آخری نبی دنیا میں تشریف لائیں گے تو یہ نشانیاں ظاہر ہوں گی۔
وہ فوراً مکہ کے لوگوں کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:
"کیا آج مکہ میں کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے؟"
لوگوں نے جواب دیا:
"ہاں، فلاں فلاں عورتوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوئے ہیں۔"
یہودی نے نفی میں سر ہلایا اور کہا:
"نہیں، میں اُس بچے کی بات کر رہا ہوں جس کے والد اس دنیا سے جا چکے ہوں۔"
یہ سن کر ایک شخص نے بتایا:
"ہاں، عبدالمطلب کے گھر ایک پوتا پیدا ہوا ہے جس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔"
یہ سن کر وہ یہودی فوراً بولا:
"مجھے اُس بچے کے پاس لے چلو!"
جب وہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچا اور ننھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو جیسے اُس کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اُس نے پیار سے ننھے مصطفیٰ کو اپنی گود میں اُٹھایا، بڑے غور سے اُن کے چہرے کو دیکھا، اور پھر آہستگی سے اُن کی پشت کی طرف جھک گیا۔ وہاں اُس نے وہ خاص نشان دیکھا — مہرِ نبوت۔
جیسے ہی اُس کی نظر مہرِ نبوت پر پڑی، اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ بے اختیار زور زور سے رونے لگا۔ پھر ٹوٹے دل کے ساتھ کہنے لگا:
"ہائے افسوس! آج یہودیوں کے ہاتھ سے نبوت چھن گئی۔ آج وہ آخری نبی آ چکے ہیں جن کا انتظار ہم صدیوں سے کر رہے تھے۔ لیکن اب نبوت ہماری قوم کو نہیں ملی، اب ہماری تباہی قریب ہے!"
یہ منظر بہت عجیب تھا — ایک ماں کے آنسو خوشی کے تھے، اور ایک یہودی کے آنسو افسوس کے۔
یہ وہ
دن تھا جس نے تاریخ کا رُخ بدل دیا… وہ دن جب آمنہ کا لال پیدا ہوا، وہ لال جس کے آنے سے اندھیرا چھٹ گیا، اور وہ نبی، جس کی نسل سے آنے والا نواسہ حسین رضی اللہ عنہ بھی بے مثال ہوگا۔