#میں_تم_اور_وہ
#قسط_دو_
#از_قلم_نوشابہ_منیر
بابا نے باتوں ہی باتوں میں ایکسیڈنٹ کا سارا ماجرا انہیں سنا دیا تھا ۔ جسے سن کر وہ حیرت زدہ رہ گئے تھے
پھر کچھ توقف کے بعد انہوں نے بہت ہی آہستگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
" ایک عامل بابا کو میں بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں ۔ یوں سمجھ لیں وہ میرا بھائیوں جیسا دوست ہے اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اسے بلاتا ہوں شاید وہ ہماری کچھ مدد کر سکے "۔۔
بابا نے بھی سر اثبات میں ہلا کر انہیں اجازت دے دی تھی ۔
انہوں نے اپنی جیب سے موبائیل نکل کر وہی بیٹھے بیٹھے اس عامل بابا کو کال کی اور انھیں یہاں کا مکمل ایڈریس سمجھا دیا تھا اور یہاں آنے کو بولا تھا اور اپنی لوکیشن بھی انہیں سینڈ کر دی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بابا کے دوست کا نام جو اس وقت یہاں موجود تھے انکا نام انکل عرفان تھا ۔ وہ عامل بابا جس کا نام عرفان انکل نے حسن بتایا تھا ۔۔۔۔
انکل حسن انکل عرفان کے بلانے پر کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچ گیا تھا ۔۔۔
" ارے میرے یار یہاں آنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی "۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے انکل حسن سے مسکراتے ہوئے بغلگیر ہو کر پوچھا تھا ۔۔۔
" ارے نہیں نہیں جانی میں آرام سے ہہنچا ہوں ۔ بس دو بار مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے چلتی موٹر سائیکل سے دھکا دیا ہو ۔ میں دو بار مرتے مرتے بچا ہوں ۔ باقی گھر ڈھونڈنے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا "۔۔۔۔۔۔۔ حسن نے اچانک ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
" کیا بات ہے جانی کیا دیکھ رہے ہو ۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرفان نے اسکے چہرے پر پریشانی کے اثار بھانپ لیے تھے ۔۔
" مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں کوئی ہو ۔ مجھے اپنے نام کی پکار سنائی دے رہی ہے جیسے کوئی آہستہ آہستہ مجھے بلا رہا ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن گھبرائے ہوئے لہجے میں کہتا ہوا کرسی سے کھڑا ہوا تھا
اور سر کو دائیں بائیں گھومتے ہوئے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
" ارے یار تو بیٹھ تو سہی تجھے سب کچھ بتاتے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرفان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ کرسی پر بیٹھا کر مجھے سر کے اشارے سے چائے لانے کو کہا تھا ۔۔۔۔۔
تب ہی میں چائے بنانے کچن میں آئی تھی ۔ انکل کی بات سن کر ڈر تو کافی لگ رہا تھا
پر مجبوری تھی مما بھی انہیں کے کمرے میں تھیں ابھی میں چائے بنانے کے لیے کیٹلی میں پانی اور پتی ڈال کر چولہے پر رکھی تھی کہ مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہو کسی کی نظروں کی تپش میرے پورے وجود کے آر پار محسوس ہو رہی تھی ۔ میں نے
بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا
تو واقعی وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا مجھے غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا ۔۔
میں دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی
تھی ۔
وہ دو قدم چل کر میرے نزدیک آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" زویا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آواز میرے کانوں کے بلکل پاس گونجی تھی میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے شروع ہونے لگے تھے ۔ خوف سے میرا برا حال تھا ۔ ٹانگوں میں جان ختم ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
" یہ تم کیا کرنے لگی ہو زویا کیوں مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں تم پر سختی کروں ؟؟ میں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ۔ پر تم مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑے سخت لہجے میں مجھے سخت سست کہا ۔۔
اس کے سخت لہجے نے میری ٹانگوں کی رہی سہی جان ہی نکال لی تھی ۔ میری ٹانگوں نے کھڑے ہونے سے مزید انکار کر دیا تھا ۔ میں نیچے زمین پر گر پڑی تھی ۔ تب ہی وہ بے قراری سے میرے کچھ اور قریب آیا تھا ۔
" کیوں ڈرتی ہو ہر وقت مجھ سے کتنی بار تمھیں بتا چکا ہوں کہ میں تمھیں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں اس محبت کے ہاتھوں مجبور ہوں ۔ میں چاہ کر بھی تمھیں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن تم بھی تو میری بے بسی کو سمجھو ۔ کیوں مجھے مجبور کرتی ہو کہ میں تم سے سخت رویہ اختیار کروں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر کچن کی شلف پر زور سے دے مارا ۔ شلف کے دو ٹکڑے ہو کر نیچے گرے تھے ۔
یہ تو شکر تھا میں چائے دوسری شلف پر رکھے چولہے پر سے بنا رہی تھی ورنہ میری چائے کا نقصان ہو جاتا ۔ دوسرے ہی لمحے اس نے کرب سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
" میری بات کو سمجھو
میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا ۔ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ بس تم مجھ سے ڈرنا چھوڑ دو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا لہجہ ایک ماں جیسا شفیق محبت کرنے والا مہربان تھا ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا وہ کیسے اتنے غصے میں ہونے کے باوجود نرمی سے بات کرنے لگ جاتا تھا ۔ بلکل ایک ماں کی طرح ۔ ایک پل میں غصہ آتا اور اگلے ہی پل وہ پھر سے بہت ہی نرمی سے بات کرنے لگ جاتا تھا ۔ اگر وہ انسان ہوتا تو میرا دعویٰ ہے ۔ ہر لڑکی اسکی خواہش کرتی وہ ہر لڑکی کا آئیڈیل ہوتا ۔ اتنی محبت کرنے والے تو انسان بھی نہیں دیکھے تھے میں نے ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پھر بھی اس سے بے حد ڈر لگتا تھا ۔ میں نے خوفزدہ ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں ۔
" ان لوگوں کو روک دو ۔ مجھے تم سے جدا نہ کریں ۔ اگر میں تم سے جدا ہوا تو سلامت کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ میں سب کو نیست و نابود کر دوں گا
محبت کرتا ہوں اس بات کا نا جاِئز فائدہ مت اٹھاوّ ۔ خدا کے لیے ان کو روک دو ۔ میں بار بار تم سے التجاء کر رہا ہوں ۔ میری محبت کو میری کمزروی سمجھنے کی بھول مت کرنا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے لاچاری سے کہا تھا ۔ اسکے انداز میں ایک
بے بسی اور دکھ چھلک رہا تھا
" تم ایک جن ہو تمھارا انسان سے ملن نہیں ہو سکتا ۔ تم آگ کے بنے ہو اور انسان مٹی سے بنا ہے ۔ آگ اور مٹی کبھی ایک نہیں ہو سکتی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا تھا ۔
میں نہیں جانتی انہوں نے اسکی کیا کیا باتیں سنی تھی ۔۔۔
میں نے چونکتے ہوئے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھول دیں تھیں ۔۔۔۔
" تم بیچ میں مت آوّ ۔ نہیں تو جل کر بھسم ہو جاو گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غراتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہٹا تھا ۔۔
" اسد میں تمھیں کہہ رہا ہوں اس رہ سے چلے جاو ۔
میں تمھارے بارے میں سب جانتا ہوں ۔ تمھارے سب گھر والوں کا بھی مجھے پتہ ہے کیوں اس بچی کو ڈرا رہے ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے انتہائی نرمی سے کہا تھا ۔
" میری دیوانگی کی حد تم نہیں جان سکتے ۔ چھ 6 سالوں سے ٹوٹ کر اسے چاہا ہے تو میں کیسے اسے چھوڑ دوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پتھرائی ہوئی آواز میں کہا ۔
" کہاں ملی تھی یہ تمھیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ انکل عرفان نے قدرے حیرانی سے استفسار کیا تھا ۔
" یہ میرے چاچو سے معافی مانگنے آئی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بہت ہی دھیمی آواز اور کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
میں نے حیرت سے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا ۔ میں نے اپنے ذہن پر کافی زور دیا کہ کب میں نے کسی سے معافی مانگی تھی پر مجھے ذرا بھی یاد نہیں آیا کہ وہ کب کی بات کر رہا ہے
" معافی ؟ پر کس لیے مانگی تھی اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے پہلے میری طرف حیرت سے دیکھا پھر اس پر ایک نگاہ ڈالی تھی
" میرے چاچو کے بیٹے کو اس نے اپنی سائیکل ماری تھی ۔ تب یہ معافی مانگنے آئی تھی "۔۔۔۔۔۔۔
" اف الله جی یہ تو بہت پہلے کی بات کر رہا تھا ۔ جب میں ساتویں کلاس میں پڑھتی تھی تب سائیکل چلاتی تھی ۔
پھر میں نے اپنے ذہن پر زور دیا مگر ایسا کوئی بھی واقعہ میرے ذہن میں نہیں آیا جس کی وہ بات کر رہا تھا _
" کیا تم بھی وہاں موجود تھے جب یہ معافی مانگنے آئی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل عرفان نے ایک بار پھر سے پوچھا ؟؟
" ہاں شاید ۔ اس دن کو میری خوش قسمتی کہہ لیں یا زویا کی بد قسمتی ۔ میں بھی چاچوں کے بیٹے کو دیکھنے آیا تھا ۔
تب یہ آئی تھی اس کے جانے کے بعد چاچو نے کہا ۔
انسان کتنے اچھے ہوتے ہیں غلطی بھی ہمارے بیٹے کی تھی پھر بھی اس نے ہم سے آ کر معافی مانگی ۔ اس بات پر میرے دل میں اسکے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا تھا ورنہ میں انسانوں کو بڑی ظالم بے رحم اور سفاک مخلوق گردانتا تھا ۔ یہ میرے زندگی سے چلی جاتی تو بھی شاید میں اس کو بھول جاتا
پر یہ روز ہی اپنی سائیکل پر ہمارے گھر کے پاس سے گزرا کرتی تھی اور میں اسے دیکھنے لگا تھا پھر ایک دن کچھ لوگوں نے اس کی سائیکل اس سے چھیننا چاہی تو تب میں نے ہی اسکی مدد کی تھی ۔ یہ ایک بار پھر میرے پاس میرا شکریہ ادا کر کے چلی گئی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے ذہن پر ایک بار پھر سے زور دیا تو تب مجھے یاد آیا کہ یہ بالکل سچ کہہ رہا تھا
یہ بات مجھے یاد آ گئی تھی جب میری سائیکل دو لڑکوں نے چھینی تھی تو ایک لڑکے نے واقعی میں میری مدد کی تھی میں نے تب اسکا شکریہ بھی ادا کیا تھا ۔
" پھر کیا ہوا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
انکل عرفان سارا ماجرا شاید آج ہی جان لینا چاہتے تھے ۔
میں نے انکل عرفان کو دیکھ کر سر نفی میں ہلایا
انکل عرفان نے اپنی آنکھوں کے اشاروں سے مجھے چپ رہنے کی تلقین کی تھی ۔۔۔۔۔
" پھر یہ روز ہمارے گھر کے پاس سے گزرا کرتی تھی میں بہت مصروف ہونے کے باوجود بھی اسکے آنے سے چند لمحے پہلے وہاں آ جاتا تھا ۔ تاکہ اسے دیکھ سکوں اپنی تپتی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکوں اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا سکوں ۔ جس دن یہ ہمارے گھر کے پاس سے گزرا کرتی تھی چاہے میں جتنا بھی مصروف کیوں نہ ہوتا مصروفیت کے باوجود بھی میں وہ ٹائم کبھی مس نہ کرتا تھا پھر ایک دن اچانک یہ نہ آ سکی تو اس دن میں نے کسی پاگل کی طرح اسے ڈھونڈا تھا
پر یہ نہ ملی تھی ۔
پھر یہ روٹین بن گئی تھی اس نے یہاں سے شاید گزرنا چھوڑ دیا تھا میں نے پھر بھی وہاں آنا نہ چھوڑا تھا جب یہ نہ آتی تو میں مایوس ہو کر لوٹ جاتا میں الله سے گڑگڑا کر اسکے لوٹ آنے کی دعائیں مانگا کرتا تھا
یہ میری خوش قسمتی تھی یا میری محبت کی تڑپ یا شاید میرے الله کو میری محبت میرا گڑگڑانا پسند آ گیا تھا یا پھر اس پاک ذات نے میری دعائیں سن لیں تھیں ۔ ایک دن یہ اپنی گاڑی میں بیٹھی ہوئی مجھے نظر آ گئی تھی ۔ یہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اپنی یادوں میں کہیں گم تھی ۔ میں موقعہ پاتے ہی اس کی گاڑی میں آ بیٹھا تھا میں اسکی زلفوں سے کھیلتا رہا اسکے کولج تک میں اسکے ساتھ گیا تھا ۔ پھر میں نے وہ سارا دن الله پاک سے دعائیں مانگنے میں گزار دیا کہ الله پاک وہ دوپہر کو بھی یہاں سے ہو کر گزرے اور الله پاک نے میری یہ دعا بھی سن لی تھی ۔ میں اپنے مقررہ وقت سے بھی کچھ پل پہلے آ گیا تھا ۔ اور وہی کچھ پل گزارنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے یہ خوف الگ کہ پتہ نہیں وہ یہاں سے گزرے گی بھی یا نہیں
تب ہی الله پاک نے میری بے تابی کو ختم کیا وہی گاڑی میری نظروں کے سامنے سے گزری تھی میں موقعہ پاتے ہی گاڑی کے اندر داخل ہوا تھا ۔ وہ اپنی سہیلی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی میں بس اسے دیکھتے ہی دیکھتے کہیں گم ہو گیا تھا ۔ جب یہ گاڑی سے نیچے اتری تب مجھے احساس ہوا تھا کہ اسکی منزل آ چکی ہے پھر میں نے انکا گھر دیکھ لیا تھا اس دن سے لے کر آج تک ہر پل میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں ۔ میں نے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اس دن سے لے کر آج تک میں اسکے آس پاس رہتا ہوں ۔ اس سارے واقعے کو چھ 6 سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ اب تم ہی بتاوّ میں اسے کیسے چھوڑ دوں جس کو میں نے رب سے گڑگڑا کے مانگا تھا یہ میری محبت نہیں میرا عشق میرا جنون ہے ۔ میری آخری دیوانگی ہے ۔ اگر اسے ایک پل کے لیے نہ دیکھوں تو میری آنکھیں کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ۔ اندھی ہو جاتیں ہیں میری آنکھیں
اسکی آواز نہ سنو تو کان بہرے ہو جاتے ہیں ۔ وہ کچھ اور آواز سننا ہی نہیں چاہتے ۔ اور تم بات کر رہے ہو اسے مستقل چھوڑنے کی ۔ جو میرے بس کی بات نہیں ہے ۔ بس موت ہی مجھے اس سے جدا کر سکتی ہے تم جیسے لوگ تو ہرگز نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" کچھ بھی ہو جائے تم نے اسے چھوڑ کر جانا تو ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے اسکی ساری داستان سننے کے فوراً بعد کہا تھا ۔۔
" یہ نہیں ہو سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غرایا ۔۔۔
" کیوں نہیں ہو سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے کہا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا تھا ۔ پھر اس پر پھونک ماری تو وہ نیچے زمین پر منہ کے بل گر کر تڑپنے لگا تھا ۔۔۔
" مت کرو ایسا مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے چھوڑو مجھے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تڑپ کر کہا تھا ۔
انکل عرفان نے اپنا عمل روکا نہیں تھا ۔ وہ جتنا روک رہا تھا انکل عرفان اپنا عمل اتنی تیزی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھا وہ پھونک مارتے رہے ۔ وہ جتنا تڑپ رہا تھا انکل بھی اتنی تیزی سے پڑھتے پھونک مارتے جاتے تھے ۔۔
" انکل وہ مر جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں مجھے اس کی ایسی حالت دیکھ کر بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔
" بیٹا یہ بہت ڈھیٹ ہے ۔ نہیں مانے گا اس لیے اسے مرنے دو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے ابھی بھی منہ ہی منہ میں پڑھنا نہیں چھوڑا تھا ۔
وہ نیم بے ہوش ہو چکا تھا ،۔۔۔۔
" نہیں انکل پلیز اسے چھوڑیں وہ بے چارا مر جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دلی افسوس کے ساتھ بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا اسے یہاں سے غائب کر دیتی ۔۔
تب ہی انکل حسن کچن میں داخل ہوئے ۔ اسے اس حال میں دیکھ کر افسوس کرنے لگے تھے ۔
" ہتھ ہولہ رکھ یار ۔ وہ مر جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اسے جی کر کرنا بھی کیا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے بہت ہی آہستگی سے کہا ۔۔
تب ہی اچانک ایک دم سے کچن کی کھڑکیاں کھلنے بند ہونے لگیں تھی ۔ ایک کھڑکی کا پٹ کھلتا دوسرا بند ہوتا میں بغور کھڑکی کو دیکھ رہی تھی کہ ایک عورت کچن کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئی تھی ۔ اس نے دور سے ہی اسد کی طرف دیکھا اور غصے سے چلاتے ہوئے کہا ۔۔
" یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ چھوڑو اسے وہ مر جائے گا ۔ اسے کچھ ہوا تو زندہ تم بھی نہیں بچو گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا ۔
" تم یہاں کیا کرنے آئی ہو ۔ آخر بیٹے کی محبت کھینچ لائی ہے ناں تمھیں اس دہلیز پر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل عرفان نے کرخت لہجے میں پوچھا ؟؟
" ماں ہوں ناں میں اسکی ۔ جب بیٹا ماں کو پکارے گا تو ماں کیسے نہیں آئے گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اپنے بیٹے پر پھونک ماری جو اس کے جسم پر زخم نظر آ رہے تھے اسکی ماں کی پھونک مارنے کے بعد آہستہ آہستہ بھرنے لگے تھے
تب میں نے الله پاک کا شکر ادا کیا تھا کہ کوئی تو تھا
اس بے چارے کے پاس ۔ ورنہ انکل نے تو اسے مارنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
" سمجھا دو اپنے بیٹے کو
یہ میری بیٹی کے سائے سے بھی دور رہے اسی میں اسکی بھلائی ہے اگر یہ میری بیٹی کے پاس پھر آیا یا اسے تنگ کیا تو اگلی بار تجھے پکار نہیں پائے گا کیونکہ تجھے پکارنے سے پہلے ہی میں اسے موت کے گھاٹ اتار دوں گا اسے محض میری دھمکی نہ سمجھنا میں جو بات کہتا ہوں اسے کرتا بھی ہوں یہ تم بھی اچھی طرح جانتی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نے کرخت لہجے میں کہا ۔
" میں ماں ہوں اسکی مجھے امید ہے میرے سمجھانے سے یہ سمجھ جائے گا ۔ آپ فکر نہ کریں ۔ یہ اب اس لڑکی کے پاس پھر کبھی نہیں آئے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا پھر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اپنے بیٹے پر پھونک ماری تو دونوں ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے ۔۔
آپ یقین کریں مجھے دلی صدمہ پہنچا تھا کہ اب میں کبھی اسد کو دوبارہ نہیں دیکھ سکوں گی میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے انکل عرفان نے میرے آنسو دیکھ لیے تھے ۔ میرے پاس آ کر میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بہت ہی پیار سے کہا تھا ۔
" بیٹی تم پریشان نہ ہو یہ جنات قول کے بڑے پکے ہوتے ہیں جب اسکی ماں نے کہہ دیا ہے
کہ اب یہ تمھیں تنگ کرنے نہیں آئے گا تو مجھے بھی امید ہے اب یہ واقعی نہیں آئے گا نہ تنگ کرے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے میرے رونے کی وجہ میرا ڈر اور خوف سمجھا تھا لیکن درحقیقت مجھے اس کا دکھ ہو رہا تھا پتہ نہیں اس
بے چارے کا کیا حال ہوا ہو گا وہ ٹھیک بھی ہوگا یا نہیں ۔
وہ پھر مجھے ملنے آئے گا بھی یا نہیں میں اس لیے
بے حد ڈسٹرب تھی مجھے رہ رہ کر اس کا خیال ستانے لگتا تھا ۔۔۔
❤❤❤
پھر اس بات کو کافی سارے ماہ سال بیت گئے تھے وہ واپس نہیں آیا
اب تو تقریباً ہمارا ڈر خوف سب ختم ہو گیا تھا میں سب بھول بھی گئی تھی بابا بھی ٹھیک ہو کر پھر سے چلنے پھرنے لگے تھے کہ ایک دن اچانک مجھے وہی آواز پھر سے سنائی دی تھی جیسے مجھے کوئی پکار رہا ہو جیسے میرا نام لیا جا رہا ہو ۔۔
" زویا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جہاں بھی جاتی مجھے یہی آواز سنائی دیتی میں اپنا وہم سمجھ کر نظرانداز کرتی رہی کہ ایک رات مجھے جیسے کسی نے جگایا ہو نیند سے میری آنکھیں کھل گئیں تھیں
وہ سامنے ہی صوفے پر بیٹھا مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا مجھے ایسا لگا جیسے میں ابھی بھی نیند میں ہوں میں نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں پوری کی پوری کھول کر اسے دیکھا وہ کوئی خواب نہیں تھا جو یوں میری آنکھیں کھولنے سے ٹوٹ جاتا ۔ وہ تو ایک سچ تھا کڑوا سچ ۔ ایک تلخ حیقیت ۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک بار پھر سے اپنی دونوں آنکھوں کو ملنا شروع کر دیا تھا ۔ مجھے ایسا لگا جیسے مجھے وہم ہوا ہو ۔ لیکن وہ میرا وہم نہیں تھا وہ واقعی میں واپس آ چکا تھا میں نے ایک بار پھر اسے دیکھا ۔ وہ اب بھی مسکرا کر میری طرف دیکھ رہا تھا ۔
ڈر کے باعث میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا میرے بیڈ تک آیا تھا ۔ آپ یقین کریں اس وقت میری جو کیفیت تھی اگر میں لفظوں میں بتانا چاہوں تو نہیں بتا سکتی ۔
لفظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
لفظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں میری اس کیفیت کے سامنے ۔ میری ٹانگیں لرز رہی تھی ۔ دل کی دھڑکن اتنی آواز پیدا کر رہی تھی کہ اگر اس وقت کوئی میرے پاس بیٹھا ہوتا تو وہ میرے دل کی دھڑکن کی آواز با آسانی سن سکتا تھا ۔ میرے ماتھے پر پسینہ پھوٹ رہا تھا آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں ۔۔۔۔
میں آواز دے کر کسی کو بلانا چاہتی تھی پر میری آواز نے میرا ساتھ نہ دیا میری گگھی بندھ گئی تھی
" تم کیا سمجھتی ہو میں تمھیں چھوڑ کر چلا جاوّں گا تو یہ تمھاری بھول ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بولنا شروع کیا اسکی آواز میں اژدھا کی سی پھنکار تھی ۔
" میں سانسیں لینا تو چھوڑ سکتا ہوں لیکن تمھیں نہیں چھوڑ سکتا ۔ تمھیں چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے ۔ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں ۔ کیوں تم مجھ سے اتنا ڈرتی ہو پاگل لڑکی ۔ میں تیری خاطر سب کو چھوڑ سکتا ہوں ۔ اور تو اور اپنی ماں کو بھی کیونکہ وہ مجھے تیرے پاس آنے سے روکتی تھی ۔ اگر میں اتنے ماہ سال تیرے پاس نہ آ سکا تو وہ وجہ بھی میری ماں ہی تھی اس نے مجھے زنجیروں سے باندھ دیا تھا یہ تو کچھ دن پہلے میری ماں کی اچانک موت ہو گئی تو میں ان زنجیروں سے آزاد ہوا تھا اور جب میں آزاد ہوا تو سب سے پہلا خیال مجھے تمھارا آیا تھا تو اس لیے میں واپس آ گیا ہوں کبھی نہ چھوڑنے کے لیے ۔ کبھی نہ واپس جانے کے لیے ۔ اور ایک بات یاد رکھنا پہلے مجھے ماں کے لیے ڈر اور خوف ہوا کرتا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میری ماں کا کیا بنے گا ۔ میری ماں میرے مرنے سے پہلے مر جائے گی ۔ اب یہ خوف بھی میرے سر پر نہیں رہا اگر میں اس بار مر بھی گیا تو مجھے کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوگا
اس بار تم جس کو بھی بلانا ذرا سوچ سمجھ کر بلانا جس نے بھی مجھے تم سے جدا کیا تو اسے بھی اپنا کیا بھگتنا پڑے گا ۔ اس بار میں بھی ان سب کو نیست و نابود کر کے ہی جاوّں گا ۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔ پہلے اگر میں چپ تھا تو بس ماں کی تربیت کی وجہ سے کہ کوئی میری ماں کی تربیت پر انگلی نہ اٹھائے اب انگلی اٹھانے والے کو اپنا کیا بھگتنا پڑے گا ۔ اس لیے اب جس کو بھی بلانا سوچ سمجھ کر بلانا "۔۔۔۔
میں نے کچھ خوفزدہ ہو کر اسکی طرف دیکھا اسکی آنکھوں میں اس وقت چنگاریاں تھیں ۔
" تم مت ڈرا کرو چاہنے کے باوجود میں تمھیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا چاہے تم میرے ساتھ غلط ہی کیوں نہ کرو میں تمھیں کچھ نہیں کہہ سکتا
بے بس ہوں ناں شاید اس لیے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس پر غصہ بھی آیا اور ڈر بھی کافی لگ رہا تھا ۔ میں نے کچھ اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنی چاہی پر وہ بھی ڈر اور خوف کی وجہ سے پڑھی نہ جا سکی تھی ۔ تب وہ موقعہ پاتے ہی میرے بیڈ پر آیا تھا ۔
میں نے اٹھنے کی بہت کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکی تھی مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے رسیوں سے باندھ دیا ہو وہ میرے پاس جانے کتنی دیر بیٹھا مجھے تکتا رہا آپ یقین کریں وہ لمحے مجھ پر کسی قیامت کی طرح گزرے تھے وہ جب میرے پاس سے اٹھ کر گیا تو میرے سارے جسم میں درد ہونے لگا میرے سارے بدن میں جیسے چنگاریاں بھری ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
❤❤♥️
"میرے سارے جسم میں درد ہونے لگا سارے بدن میں جیسے چنگاریاں بھری ہوں میں جلن سے مرنے لگی تھی ۔ میں بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی تھی سر سے لے کر پاوّں کی ایڑی تک درد میں ڈوب رہی تھی ۔ اتنا درد اور جلن کبھی میں نے محسوس نہیں کی جو اس رات کی تھی ۔ مجھے آج بھی جب یہ باتیں یاد آتیں ہیں تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں ۔ وہ رات واقعی میں مجھ پر قیامت کی طرح گزری تھی ۔۔۔۔
" میں اب روز آیا کروں گا ۔ تم تو کیا مجھے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ تم پہلے میری محبت تھی اب محبت کے ساتھ میری بیوی بھی
ہو " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی کے لفظ پر میں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا
وہ سامنے والے صوفے پر سو رہا تھا ۔
" جب میں نے تم سے شادی نہیں کی تو بیوی کیسے بن گئی میں تمھاری ۔ میری بات کان کھول کر سن لو ۔ اگر تم ایسے نہیں مانو گے تو میں خود کا ہی نقصان کر بیٹھوں گی "۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بے حد غصیلے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔۔
" تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو ۔ جو ایسی باتیں کر رہی ہو ۔ اگر تم نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غصے کی حالت میں ہی صوفے پر اٹھ بیٹھا تھا ۔ اسکی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ اس کا چہرہ غصے کی شدت سے دھکتے ہوئے انگاروں کی طرح سرخ ہوا تھا ۔ ایک لمحے کے لیے اس کا چہرہ بدلہ تھا دیو ہیکل نما دوسرے ہی پل خود پر قابو پاتے ہوئے وہ پہلی شکل میں واپس آیا تھا ۔ میں اسے دیکھ کر چونک اٹھی تھی ۔ خوف کے مارے میرا برا حال تھا ۔ دل کی دھڑکن نے ایک دم سپیڈ پکڑی تھی ۔ میں نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا ۔۔
" تو تم نے مجھے بیوی کس لحاظ سے کہا نہ ہمارا نکاح ہوا نہ ہی ہماری شادی تو تم نے مجھے بیوی کیوں کہا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی اس کی بات پر حد سے بھی زیادہ غصہ چڑھا تھا ۔۔۔
" بہت جلد تم سے نکاح بھی کر لوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا کہہ کر ہوا میں تحلیل ہوا تھا ۔۔۔۔۔
پھر یہ اس کا معمول بن گیا تھا وہ رات کو آتا تھا مجھ سے باتیں کرتا اور محبت کر کے چلا جاتا تھا ۔
پھر وہ آدھی رات مجھ پر کسی قیامت کی طرح گزرتی تھی میرا سارا جسم درد کرتا میں الله پاک سے گڑگڑا کر اپنے مرنے کی دعائیں کرتی تھی ۔ لیکن موت بھی تو نہیں آتی تھی
اس بات کو پورے دس دن ہو گئے تھے ۔ میں آیاتیں بھی پڑھتی تھی آیت الکرسی بھی پڑھتی تھی پھر بھی وہ آ جاتا تھا ۔۔۔۔۔
میری مما نے میری آنکھوں کے گرد کالے سیاہ حلقے دیکھے تو حیران رہ گئیں تھیں ۔۔۔۔
" بیٹی تمھیں کیا ہوا ہے کیوں تمھاری صحت دن با دن گرتی جا رہی ہے ۔ چہرہ پیلا زرد ہوتا جا رہا ہے تمھارا ۔ مجھے تمھاری بڑی فکر ہو رہی ہے آج تم شام کو تیار رہنا میں تمھیں کسی اچھے سے ڈاکٹر کے پاس لے جاوّں گی " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح ناشتے کی میز پر مما نے میرا ہاتھ تھام کر میرے ماتھے پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے ہوئے محبت سے کہا تھا ۔
میں مما کو کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی پہلے بھی میرے بابا موت کے منہ سے بڑی مشکل سے واپس لوٹے تھے اس بار میں انکو کھونا نہیں چاہتی تھی اس بار تو اس نے دھمکی بھی الگ سی دی تھی ۔ اس لیے میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاوّں گی ۔۔۔۔۔
" میری جان کیا سوچ رہی ہو ؟ کچھ پریشان ہو تو مما سے شئیر کرو دکھ بتانے سے دل کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما نے میرے چہرے پر آئے میرے بال کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا ۔
میں مما کا پیار اور توجہ پاتے ہی نئے سرے سے بکھر گئی تھی مجھے ایک کندھے کی ضرورت تھی جس پر میں سر رکھ کر اپنے سبھی دکھ درد تکلیفیں کہہ دینا چاہتی تھی ان راتوں کی اذیت بتانا چاہتی تھی ان دس راتوں میں میرے ساتھ جو جو گزرا ہے وہ بتانا چاہتی تھی میرا کوئی بھی تو نہیں تھا جس سے میں اپنا دکھ اپنا غم ہلکا کرتی ۔ پھر وہ کندھا مجھے مما نے میسر کر دیا تھا ماں سے بڑھ کر مخلص بھلا اور کون ہو سکتا تھا ۔ میں نے روتے ہوئے پچھلے دس راتوں کے دکھ مما کو بتا دیئے تھے جسے سن کر مما شاکڈ رہ گئیں تھیں ۔
وہ بھی سامنے کرسی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا پر اس بار وہ مما کو نظر نہیں آیا تھا ۔
مما نے جیسے ہی موبائیل ہاتھوں میں لیا تو مما کے ہاتھ ٹھٹھرے ہونے لگے تھے مما درد سے بلبلا اٹھیں تھیں
میں نے فوراً اسکی طرف دیکھ کر اسے سر کے اشارے سے منع کیا تھا کچھ لمحوں بعد اس نے میری پیاری مما کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔ موبائل مما کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گرا تھا ۔ زمین پر گرتے ہی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا ۔
تب بابا بھی ناشتے کی میز پر آئے تھے ۔۔۔۔
مما اور میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ کر انہوں نے ہم سے پوچھا تھا ؟؟
" کیا بات ہے تم دونوں اتنا پریشان کیوں ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مما اور مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا میری آنکھوں سے آنسو نکل کر کسی آبشار کی طرح چھم چھم بہنے لگے تو میرا بابا اور بھی حیران و پریشان رہ گیا تھا ۔۔۔
" بچے کیا ہوا ہے تمھیں تم اتنا کیوں رو رہی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا میرے قریب آ کر میرے ماتھے پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔؟؟
تو مجھے اور بھی رونا آ گیا تھا پھر میں نے روتے ہوئے بابا کو سب کچھ بتا دیا تھا جو وہ مجھ پر ظلم کرتا تھا وہ نہ بتا سکی کیونکہ ایک تو وہ میرے بابا تھے دوسرا وہ ایک مرد بھی تھے اس لحاظ سے مجھے بتاتے ہوئے سبکی محسوس ہوئی تھی تو بس میں بابا کے سامنے اتنا بتا سکی تھی کہ
" بابا وہ پھر سے آ گیا ہے اور اس بار وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا نے اپنے سر کو دائیں بائیں گھماتے ہوئے زور سے کہا تھا ۔۔
" میں ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دوں گا "۔۔۔۔
" میں ایسا کر کے دکھاوّں گا مجھے کون روک سکتا ہے کسی میں اتنا دم ہے تو مجھے روک کے دکھائے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے فوراً بابا کی بات کاٹ کر انکو جواب دیا تھا ۔
بابا نے جلدی سے آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی تھی تو اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا تھا..... ہاہاہاہاہاہاہا
اسکے قہقہے میں ایک عیجب سی کھنک تھی آپ یقین کریں اسکے قہقہے کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔۔۔۔
" اب مجھے تیری اس آیت الکرسی پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو جتنا زور لگانا چاہتا ہے اتنا ہی لگا لے مجھے اپنی بیٹی سے دور کرنے کا لیکن میرا بھی تجھ سے وعدہ ہے اسے لے کر ہی جاوّں گا یا سب کچھ نیست و نابود کر کے جاوّں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آواز تو ہم سب سن رہے تھے لیکن وہ نظر کسی کو بھی نہیں آ رہا تھا ۔ حتیٰ کہ مجھے بھی نہیں ۔۔۔۔۔
" میں بہت جلد آ کر تجھے اپنے ساتھ لے کر جاوّں گا ابھی میں وہ کام کر لوں جو میں نے پہلے کرنے تھے آج افسوس ہو رہا ہے کہ کاش وہ کام میں پہلے کر لیتا تو آج یوں خوار نہ ہوتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اس نے میرے کندھے پر دباوٰ دیا ہو میں نے حیرانی اور ڈر کی کیفیت سے ادھر ادھر دیکھا پر وہ مجھے نظر نہ آیا تھا ۔۔
بابا نے جلدی میں انکل عرفان کو کال کی کہ
" اپنے دوست حسن کو جلدی سے یہاں لے کر آوّ وہ واپس آ گیا ہے تو انکل عرفان نے بتایا کہ انکل حسن تو مری سوات کالام وغیرہ کی سیر و تفریح کرنے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں
اور تقریباً ایک ماہ بعد واپس آنے کا ارادہ ہے انکا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا انکی بات سن کر کافی پریشان ہوا تھا ۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زور دار قہقہے کی آواز پر ہم سب نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہ سامنے ہی چھوٹی سی مگر کافی اونچی سی دیوار پر بیٹھا تھا ٹانگیں ہمارے گھر کی طرف لٹکا رکھیں تھیں اگر یہاں کوئی انسان بیٹھنے کی کوشش کرتا پہلے تو اس کا یہاں بیٹھنا ممکن نہ ہوتا اگر وہ اس چھوٹی سی دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو اس دیوار پر بیٹھ نہ پاتا اور دھڑم سے نیچے گرتا ۔۔۔۔
" بلا لو جس کو بھی بلا سکتے ہو ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ اب ہمارے بیچ جو بھی آیا وہ زندہ نہیں بچے گا ۔۔۔۔
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی بات مکمل کی تھی بابا نے ایک بار پھر کسی کو کال کرنی چاہی تو اس بار بابا کا موبائل زمین پر جا گرا تھا آپ یقین کریں جب میں نے وہ موبائل اٹھا کر دیکھا تو اس موبائل کی ایسی حالت دیکھ کر ایک پل کے لیے میں سکتے میں آ گئی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے موبائل کو کسی نے شدید غصے میں زمین پر پٹخا ہو اسکی ایل سی ڈی تک ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکی تھی ۔ بیک سائیڈ تو بالکل رف ہو چکی تھی ۔۔۔
" کیوں ہماری زندگی اجیرن کر دی ہے تم نے چھوڑ کیوں نہیں دیتے میری بیٹی کو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پیارے بابا نے بے بسی سے کہا تھا ۔۔۔
" نہیں چھوڑ سکتا یہ میری کمزوری ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔… اس نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا ۔
" دیکھو میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہو رحم کرو ہم پر چلے جاوّ یہاں سے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا نے باقاعدہ اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے تھے ۔۔۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا ایک گہری خاموشی چھا گئی تھی ۔۔۔۔۔
" تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے تم سے جواب دو مجھے ۔ کیوں خاموش ہو جواب کیوں نہیں دیتے تم "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا نے ایک بار پھر سے کہا ۔
" میں ہر بات کا جواب نہیں دے سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتنا کہہ کر ایک بار پھر سے خاموشی اختیار کر لی تھی
" اسکے سوال کا جواب مت دو لیکن میری بات کا جواب تو تمھیں دینا پڑے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل عرفان نا جانے کہاں سے آ گئے تھے ۔۔۔۔
میں نے بے اختیار اپنا جھکا سر اٹھا کر انکل کی طرف دیکھا تو مجھے بے حد حیرانی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی تھی کیونکہ میں دل ہی دل میں الله پاک سے انکل عرفان کے آنے کی دعائیں مانگ رہی تھی اور جبھی انکل کے آنے کی مجھے بہت زیادہ خوشی کے ساتھ حیرانی بھی ہوئی تھی کہ الله پاک نے میری اسی ٹائم دعا سن کر قبول بھی فرما دی تھی ۔۔۔۔
" اگر اس بار تم ہمارے بیچ آئے تو برباد ہو جاو گے نست و نابود ہو جاو گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل ابھی منہ میں کچھ پڑھنے ہی والے تھے کہ اس نے ایک دم اچانک سے حملہ کر دیا تھا
انکل عرفان اچھل کر ہم سے کافی دور جا گرے تھے ۔
پھر بابا نے بھی قرآنی آیاتیں پڑھنی چاہیں تو اس نے بابا کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا میرے بابا میرے پیارے بابا میری آنکھوں کے سامنے ہوا میں اچھل کر ہم سے کافی دور جا گرے تھے
میں بھاگ کر بابا کے پاس جانا چاہتی تھی پر میرے پاوّں زمین پر جم کے رہ گئے تھے میں پاوّں کو اوپر اٹھنا چاہتی تھی لیکن میرے پاوّں زمین پر فکس ہو کر رہ گئے تھے ہلنا چلنا بھی بند ہو گیا تھا ۔۔۔۔ میرے بابا میرے پیارے بابا دوبارہ نہ اٹھ سکے زمین پر اچانک گرنے سے انکی ریڑھ والی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔۔
اس نے انکل عرفان کے گلے میں پھندہ ڈال کر درخت پر الٹا لٹکا دیا تھا ۔ وہ بے چارے دونوں موقع پر ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔۔
انکل عرفان اور بابا کی موت نے مجھے اندر تک ہلا ڈالا تھا ۔
میں پاگل ہو چکی تھی
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی تھی ۔ مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا میرے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا تھا ۔ میرے بابا کچھ لمحوں تک زندہ رہے تھے پھر وہ بھی ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اس فانی دنیا سے چلے گئے تھے ۔۔
" تجھے کہا تھا ناں سمجھا اپنے بڈھے کھوسٹ باپ کو ۔ مت جدا کر مجھے تجھ سے
میں سمجھانے کا موقع بس ایک بار ہی دیتا ہوں ۔ جو دے دیا تھا میں نے کہا تھا ناں جو بھی ہمارے بیچ آیا وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ہاہاہاہاہا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا مکروہ قہقہہ میری سماعت پر ہتھوڑے برسا رہا تھا میری وجہ سے دو انسان یہ دنیا چھوڑ چکے تھے اور پتہ نہیں کتنوں نے مجھے چھوڑ کر جانا تھا یہی بات مجھے اذیت میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
میں بابا کے لیے رو رہی تھی
وہ میرے بالکل سامنے بیٹھا تھا میرا رونا اسے بہت تکلیف دے رہا تھا میری ہر تکلیف پر وہ بلبلا اٹھتا ۔۔۔۔۔
یہ بات میں بھی جان چکی تھی
یہ جنگ اب مجھے خود ہی لڑنی ہوگی میں نے فیصلہ کر لیا تھا میں نے خود سے اسکو دور کرنا ہے کوئی کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ بھی کرنا تھا اب میں نے خود ہی کرنا تھا اب ہم گھر میں بس دو عورتیں تھی میں اور میری مما ۔۔۔۔
مما بھی کافی بیمار رینے لگی تھی بابا کی یوں اچانک موت نے انکو بستر پر لا چھوڑا تھا مما کے دماغ کا بھی پرابلم ہو گیا تھا ۔ وہ بیٹھے بیٹھے آپنے آپ ہی رونے لگتیں کبھی بابا کا نام لے کر رونے لگتیں ڈاکٹرز نے انکو ٹرنیکولائزرز پر رکھا ہوا تھا جب انکی ایسی حالت ہوتی تو وہ فوراً انکو نیند کا انجکشن لگا کر سلا دیتے تھے ۔ وہ زیادہ تر نیند کی گولیوں اور انجکشن کے زیر اثر سوئی رہتیں تھیں
میں نے سارا دن قرآن پاک پڑھنے میں خود کو مصروف کر لیا تھا مجھے بھی اندازا تھا وہ سارا دن میرے کمرے کا چکر لگاتا رہتا تھا میں اسے حد سے بھی زیادہ اگنور کرنے لگی تھی ۔ اور رات کو بھی مما کے روم میں چاروں قل آیت الکرسی پڑھ کر انکے روم میں چاروں کونے میں پھونک مار کر دم کرتی تھی
اور سوتی بھی مما کے ہی روم میں تھی ۔ وہ بھی پوری رات مما کے روم کے چاروں طرف پھرتا رہتا تھا اسکے قدموں کی چاپ میں اکثر سنتی رہتی تھی اور اسکی موجودگی کا بھی مجھے پوری رات احساس ہوتا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن ایسا ہوا جس کی مجھے امید بھی نہیں تھی اور خوشی بھی بہت زیادہ ہوئی تھی انکل حسن لوٹ آئے تھے بابا اور انکل عرفان کی یوں اچانک موت نے انکو کافی زیادہ افسردہ کر دیا تھا وہ افسوس کرنے کے لیے آئے تھے میں ان سے مل کر بہت روئی تھی وہ کافی دیر بیٹھے بابا اور انکل عرفان کی باتیں کرتے رہے پھر اٹھ کر جیسے ہی جانے لگے کہ ایک پل کے لیے وہ رک گئے تھے
" بیٹی یہ سب ہوا کیسے "۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
جس سوال کا مجھے ڈر تھا وہ وہی سوال ہی پوچھ رہے تھے ؟؟
اور میں انکو کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی انکل اور بابا کی موت کے بعد مجھے کسی اور کو کھونے کی سکت بلکل بھی نہیں تھی ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے ایک اور جان چلی جائے کیونکہ وہ واقعی میں بہت طاقتور تھا
اور ہم بہت ہی بے بس کمزور ناتواں انسان ۔۔۔۔۔
پہلے میں ٹال مٹول کرتی رہی وہ میری ہر بات کو جھٹلا رہے تھے اور مجھے فورس کر رہے تھے کہ میں انکو سب کچھ سچ سچ بتاوّں پھر نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے انکو سب کچھ سچ سچ بتا دیا تھا جس کا مجھے بعد میں افسوس بھی بہت ہی ہوا تھا ۔۔۔۔۔
" تم لوگوں نے کال کر کے مجھے بلایا کیوں نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے حیرت اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہو کر پوچھا تھا ۔۔۔؟؟
" میرا بچہ میں سیر کرنے گیا تھا کوئی اجل کے پاس نہیں گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ ہوتی میرے دوستوں سے بڑھ کر میرے لیے سیر و تفریح اہم نہیں تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کافی خفا ہوئے تھے میں سر جھکائے انکی باتیں سنتی رہی وہ بالکل بابا کی طرح غصہ کر رہے تھے مجھے اس بات پر بھی بہت رونا آیا تھا ۔
" اب تم پریشان نہ ہو بچہ میں اب آ گیا ہوں وہ تمھارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" مرے گا تو بھی بلکل ویسے جیسے ان کو مارا تھا ۔ انکی طرح تجھے بھی موت کے گھاٹ اتار دوں گا ۔ ہاہاہاہایاہا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے قہقہہ لگا کر انکل کی بات کا فوراً جواب دیا تھا مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کہاں چھپا ہوتا ہے کیا وہ ہر وقت میرے ساتھ ہوتا ہے ۔
جو میری ہر بات سن لیتا تھا میں کس وقت کس سے کیا بات کر رہی ہوں وہ ہر بات جان لیتا تھا ۔۔
" وہ علم کم جانتے تھے اس لیے تو نے انکو مار دیا میں علم زیادہ جانتا ہوں تو مجھے مارنا تو دور کی بات تو میری ہوا کو بھی نہیں چھو سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے غصیلی آواز میں کہا تھا ۔
" ٹھیک ہے چل اب تو بھی زور لگا لے مجھے زویا سے دور کرنے کے لیے پر اتنا یاد رکھنا میں جس دن زویا سے دور ہوا اس دن قیامت ہو گی تم لوگ بھی اپنے کیے کا بھگتان بھگتو گے ایک قیامت تم پر بھی آئے گی قیامت تم بھی دیکھو گے اس لیے کہہ رہا ہوں چلے جاوّ یہاں سے کہیں ایسا نہ ہو ان دونوں کی طرح تم کو بھی جلا کر بھسم
کر دوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے غراتے ہوئے کہا تھا اسکی آواز میں طوفانی سرسراہٹ تھی ۔۔۔۔۔
" یہ تو وقت بتائے گا کہ قیامت کس پر آتی ہے اور کون کس کو جلا کر بھسم کرتا ہے تو سامنے تو آ کیوں بزدلوں کی طرح چھپا ہوا ہے تو ۔ تو میری ایک آیت الکرسی کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تو کیا مجھ پر قیامت لائے گا تیرے لیے تو میری آیت الکرسی ہی کافی ہے پورا قرآن تو بعد کی بات ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے بھی کافی غصے بھرے لہجے میں کہا تھا ۔
" لو آ گیا تیرے سامنے کر لو جو کرنا ہے اکھاڑ لے جو اکھاڑنا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی وہ سامنے آیا تھا اسکی آنکھوں میں اس وقت چنگاریاں تھی چہرہ غصے کی شدت کی وجہ سے سرخ انگاروں کی طرح آنچ دے رہا تھا اسکی آواز میں بادلوں کی طرح گڑگڑاہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
میں نے ڈر کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں بند کر دیں تھیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے جبکہ میں جانتی بھی تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود مجھے کچھ کہہ نہیں سکتا وہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتا تھا پھر بھی نا جانے کیوں مجھے اس سے بے حد خوف محسوس ہوتا تھا ۔
" تم کیوں اس بچی کے پیچھے پڑ گئے ہو آخر کیا بگاڑا ہے اس بچی نے تمھارا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ انکل حسن نے اس بار کافی نرمی سے استفسار کیا تھا ۔
میں نے انکل کی آواز سن کر چونکتے ہوئے اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں تھیں وہ کچھ فاصلے پر کھڑا مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔
" کیا محبت کرنا گناہ ہے ؟ میں محبت کر بیٹھا ہوں اس سے یہی میرا سب سے بڑا قصور ٹھہرا ہے اب اسے چھوڑ کر جانا میرے لیے موت کے برابر ہوگا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے انکل کی بات کا جواب بالکل انکل کی طرح نرمی اور آرام سے دیا تھا اسکی نظریں اب بھی میرے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں اسکی آنکھوں کی تپش میرے پورے وجود کے آر پار محسوس ہو رہیں تھیں میں سر جھکائے زمین پر بچھی قالین پر نظریں گاڑے ہوئے تھی ۔۔۔
" دیکھو میں تمھیں کتنی بار کہہ چکا ہوں یہ ممکن نہیں ہے تم آگ سے بنے ہو اور وہ مٹی سے آگ اور مٹی کا ملن نہیں ہو سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے کافی دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
" اور میں بھی آپ سے کئی بار کہہ چکا ہوں اس نا ممکن کو میں ممکن کروں گا یہ میرا تم لوگوں سے وعدہ ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد نے بھی کافی نرمی سے انکل کی بات کا دیا تھا ۔۔۔
میں تم اور وہ، نوشابہ منیر ناول، اردو ہارر کہانیاں، جنات کی کہانیاں، Horror in Urdu, Main Tum Aur Woh, Nooshaba Munir, Urdu Horror Novel, Urdu Jinn Stories, Urdu Thriller, Urdu Suspense Stories