رات کو دروازہ مت کھولنا☠️
"کہانی سنانے والا: وِکرَم شرما، عمر: 32 سال"
✍️ رائٹر: فرزانہ خان
میرا نام وِکرَم شرما ہے۔ عمر بتیس سال۔ پچھلے چھ ماہ سے میں اتراکھنڈ کے ایک چھوٹے سے پہاڑی گاؤں "نگین پور" میں مقیم ہوں۔ میں دہلی میں اسکول ٹیچر تھا، مگر شہر کی تیز رفتار، بے روح زندگی سے تنگ آ کر میں نے یہ پرسکون گاؤں چن لیا۔ مقصد صرف ایک تھا — تنہائی، فطرت، اور سکون۔
نگین پور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جو ضلع چمولی سے تقریباً 40 کلومیٹر دور، پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے۔ یہاں کی آبادی بمشکل 300 لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک چھوٹا پرائمری اسکول، چند چھوٹے دکانیں، اور ہر طرف ہریالی، پہاڑ، اور کہرا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے کبھی اتنی خاموشی نہیں دیکھی تھی
میں نے گاؤں کے آخری سرے پر ایک پرانا سا لکڑی کا مکان کرائے پر لیا۔ مکان دیودار کے درختوں سے گھرا ہوا تھا اور اس کے بالکل پیچھے جنگل شروع ہو جاتا تھا۔
مالک مکان، چچا ہری رام، 65 سالہ ایک کم گو شخص تھے۔ وہ صرف ایک بات بار بار کہتے:
"بس رات کو دروازہ بند رکھنا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔"
میں نے سوچا کہ یہ کسی پرانی رسم کا حصہ ہوگا یا شاید جانوروں کا ڈر ہو۔ خیر، میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
میں روز صبح سات بجے اٹھتا، اسکول جاتا، بچوں کو پڑھاتا، اور شام کو واپس آ کر کسی پہاڑی پر بیٹھ کر سورج کا غروب دیکھتا۔ گاؤں کے لوگ خاموش، مگر خوش اخلاق تھے، مگر ایک بات بہت عجیب تھی —
شام ہوتے ہی گاؤں پر سناٹا چھا جاتا تھا۔
لوگ چھ بجے کے بعد اپنے دروازے بند کر لیتے۔ نہ کوئی گلی میں نظر آتا، نہ کوئی کسی کے دروازے پر دستک دیتا۔ یہاں تک کہ کتے بھی خاموش ہو جاتے۔
ایک دن، اسکول سے واپسی پر میں نے گاؤں کے بزرگ ترین شخص، دادا بجرنگی سے پوچھا:
"یہ سب شام ہوتے ہی اندر کیوں بند ہو جاتے ہیں؟ باہر کیا ہے؟"
انہوں نے میری طرف دیکھا، نظریں نیچی کیں اور آہستہ بولے:
"رات کو دروازہ مت کھولنا بیٹا… جو باہر آتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا۔"
میں نے اس پر ہنسی میں بات ٹال دی، لیکن ان کے چہرے پر سنجیدگی مجھے بے چین کر گئی۔
اس رات، سردی کچھ زیادہ ہی تھی۔ میں ہیٹر آن کر کے کمبل میں گھسا ہوا تھا کہ ایک عجیب سی آواز نے مجھے جگا دیا۔
ٹپ… ٹپ… ٹپ…
دروازے پر کوئی آہستہ آہستہ دستک دے رہا تھا۔
گھڑی دیکھی — رات کے 12:13 منٹ ہورہے تھے ۔۔
میں دبے پاؤں کھڑکی تک گیا۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر دوبارہ وہی آواز:
ٹپ… ٹپ… ٹپ…
"شاید کوئی جانور ہے"، میں بڑبڑایا اور واپس لیٹ گیا۔
اگلی رات، پھر 12:13 پر وہی دستک ہوئی۔
ٹپ… ٹپ… ٹپ…
اب کی بار میرے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ میں چپ چاپ دروازے کے قریب گیا اور دروازے کے کنارے سے کان لگا دیا۔
آواز رک گئی۔
میں واپس پلٹا ہی تھا کہ دروازے کے باہر سے ایک دھیمی آواز آئی:
"کھول دو… بہت سردی ہے…"
میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ میں نے ہمت کر کے دروازے کی جھروکی سے جھانکا — ایک عورت کھڑی تھی۔
سفید ساڑھی، گیلے بال، جھکا ہوا چہرہ۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اور آواز اتنی کمزور کہ جیسے سانسیں ختم ہونے والی ہوں۔
تیسری رات میں نے طے کیا کہ اس کی شکل دیکھنی ہے۔ ٹھیک 12:13 پر، میں دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔
وہی دستک:
ٹپ… ٹپ… ٹپ…
پھر وہی آواز:
"کھول دو… تم ہی بچا سکتے ہو…"
میں نے کانپتے ہاتھوں سے جھروکی کھولی۔ اس بار عورت نے آہستہ آہستہ چہرہ اٹھایا —
اور اس کی آنکھیں…!
بالکل سیاہ، خالی، گڑھوں جیسی… ان میں نہ روشنی تھی، نہ زندگی… صرف سناٹا۔
اب میری زندگی بدل گئی تھی۔ میں دن بھر سائے میں رہنے لگا، اور رات کو خوف کے سائے میں۔ میں اکثر خواب میں اس عورت کو دیکھتا:
"کھول دو… صرف تم ہی بچا سکتے ہو…"
خواب اتنے حقیقت جیسے ہوتے کہ میں چیخ مار کر اٹھ جاتا، پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوتا، دل کی دھڑکن بے قابو
میں نے فیصلہ کیا کہ میں پیر بابا شیو ناتھ سے ملوں — گاؤں کے ایک جانے مانے فقیر، جو جنگل کے کونے میں مٹی کی جھونپڑی میں رہتے تھے۔
انہوں نے میرا حال سنا، اور فوراً چپ ہو گئے۔
"اس کا نام مت لو بیٹا…"
"پچاس سال پہلے ایک لڑکی تھی — پوجا۔ جنگل کے اُس پار ایک پرانے مکان میں رہتی تھی۔ ایک رات مدد کے لیے ہر دروازے پر گئی، مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ اس رات اس کا قتل ہوا۔ اب وہ ہر تنہا انسان کے پاس آتی ہے… اس آس میں کہ کوئی دروازہ کھول دے…"
پیر بابا کی آواز تھرتھرا رہی تھی۔ انہوں نے آخری بات کہی:
"تم صرف ایک بات یاد رکھنا… رات کو دروازہ مت کھولنا… چاہے کچھ بھی ہو جائے۔"
میں نے دروازے پر تالا لگایا، کانوں میں روئی ٹھونسی، لیکن اب تو سرگوشیاں گھر کے اندر سے آنے لگیں:
"تم بھی بند کر دو گے؟" "کیا تم بھی ڈر جاؤ گے؟" "تو پھر جینے کا حق کس کا ہے؟"
دیواروں پر ناخنوں سے ایک ہی نام لکھا ہوتا —
پوجا"
اور بعض اوقات دیواروں سے خون بہتا دکھائی دیتا… لیکن صبح ہوتے ہی سب کچھ معمول پر ہوتا۔
اب میں اس مقام پر پہنچ چکا ہوں جہاں میرا دماغ اور دل، دونوں خالی ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ عورت، اس کی پکار، اس کی سرد آنکھیں… دوسری طرف پیر بابا کی وارننگ… اور درمیان میں صرف دروازہ۔
یہ دروازہ کب کھلے گا؟
اور اگر کھل گیا تو… کیا ہوگا؟
وِکرَم، ایک شہر کا آدمی، تنہائی کی تلاش میں نگین پور کے جنگل کنارے آ کر رہنے لگا۔ مگر ہر رات 12:13 پر دروازے پر دستک ہوتی — ایک پراسرار عورت کی، جو کہتی، “کھول دو… بہت سردی ہے…”
اور اب… وِکرَم نے دروازہ کھول دیا ہے۔
جیسے ہی دروازہ کھلا، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ وِکرَم کی سانسیں رک گئیں۔ دروازے پر وہی عورت کھڑی تھی — سفید ساڑھی میں، چہرہ دھند میں چھپا ہوا۔
اس بار اس کے چہرے پر صرف بھیک نہیں… ایک عجیب خاموش غصہ تھا۔
"تم نے کھولا…" "تو اب تمہیں سچ دیکھنا ہوگا…"
اس کی آواز جیسے زمین کے نیچے سے آ رہی ہو۔
وِکرَم کے قدم خودبخود دروازے سے باہر اٹھے — جیسے کسی نے اسے کھینچ لیا ہو۔ سامنے گہری دھند تھی… اور وہ عورت اس دھند میں چلنے لگی… وِکرَم بھی پیچھے چل پڑا۔
دھند چھٹنے لگی، اور وِکرَم نے خود کو سال 1971 میں پایا۔
گاؤں وہی تھا، لیکن در و دیوار نئے، لوگ جوان، اور آسمان پر مکمل چاندنی۔
درمیان میں ایک سولہ سال کی لڑکی بھاگتی ہوئی گاؤں کی طرف آ رہی تھی۔ وہ کانپ رہی تھی، رو رہی تھی۔ اس نے سفید قمیض پہن رکھی تھی، اس کا دوپٹہ پھٹا ہوا تھا۔ وہ تھی پوجا۔
پوجا، نگین پور کے جنگل پار، پہاڑی کے ایک مکان میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔
باپ ایک لکڑہارا تھا، ماں بیمار۔
پوجا روز صبح جنگل سے لکڑیاں چنتی، دن کو ماں کا علاج، اور شام کو گاؤں آ کر چیزیں بیچتی۔
خوبصورت چہرہ، لمبے بال، آنکھوں میں خواب۔
ایک دن، جب وہ گاؤں کی طرف آئی، تو اس کی زندگی کا سب سے بھیانک دن شروع ہو چکا تھا۔
گاؤں کے پرانے فقیر، بابا انند ناتھ، جو سب کے لیے درویش تھا — مگر اندر سے حیوان۔
اسی کے اشارے پر گاؤں کے چار بدمعاش —
1. رگھو عمر (35) سال پنچایت کا ممبر
2. بشنو عمر (30)سال ہنر مند لوہار
3. کملیش عمر (28) سال – نائی
4. سراج دین عمر (32)سال چائے والا
یہ سب مل کر ایک منصوبہ بناتے ہیں۔
بابا جی:
"یہ لڑکی دن بہ دن نکھر رہی ہے… اور جنگل کے اس پار رہتی ہے… رات کو جا کر لے آؤ، کوئی کچھ نہ دیکھے گا۔"
اسی رات… پوجا کے دروازے پر دستک ہوئی۔
پوجا جیسے ہی دروازہ کھولتی ہے، وہ چاروں اسے کھینچ کر باہر لے جاتے ہیں۔
اس کی چیخوں سے جنگل ہل جاتا ہے۔
اسے گاؤں کے بیچ و بیچ پنچایت کے کھنڈر میں لایا جاتا ہے۔
بابا جی وہاں موجود ہوتا ہے۔
پوجا رو کر کہتی ہے ۔
"مت کرو! خدا کا واسطہ… میں نے کچھ نہیں کیا…"
مگر رحم کسی کے اندر نہ تھا۔
اس کے کپڑے نوچے گئے، اس کا جسم روند دیا گیا، اور اس کی روح نوچ لی گئی۔
جب سب کچھ ختم ہو چکا، تو بابا جی نے کہا:
"زبان کھولی تو جان لے لیں گے… دفن کر دو…"
اور… پوجا کو زندہ دفنا دیا گیا۔
مگر وہ زندہ تھی۔ اس نے چالاکی سے ہاتھ نکالا اور مٹی سے نکل کر گاؤں کی طرف دوڑی۔
اس کی حالت خستہ، کپڑے خون میں رنگے، آنکھوں میں وحشت
ایک ایک دروازے پر گئی۔
"دروازہ کھولو… کوئی ہے؟ میں پوجا ہوں… مدد چاہیے…"
لیکن ہر دروازہ بند تھا۔
سب نے اندر سے چراغ گل کیے…
سب نے آنکھیں بند کر لیں۔
اور تب وہ چیخی:
"تم سب مجرم ہو! سب دروازے بند کیے گئے؟ تو اب سب قبریں کھولوں گی!"
دھند چھٹتی ہے — وِکرَم اب کھنڈر میں کھڑا ہے۔
پوجا، اب اس کی آنکھوں کے سامنے —
نصف چہرہ جلا ہوا، آنکھوں میں سیاہ دھواں، ہونٹوں پر وہی فقرہ:
"اب تم نے کھولا ہے، تو سنو بھی…"
وِکرَم ہمت کر کے بولتا ہے:
"میں… میں نے کچھ نہیں کیا… میں اس گاؤں کا نہیں ہوں…"
پوجا کی آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے — مگر وہ زخموں سے بھی زیادہ بھیانک لگتی ہے۔
"اسی لیے تم زندہ ہو… تم نے کھولا، اور سنا…
باقی سب کو اب میں سناؤں گی… اسی طرح… جیسے انہوں نے مجھے سُننے سے انکار کیا…"
"رگھو، بشنو، کملیش، سراج… سب کی روحیں میرے قبضے میں ہیں… اب ان کی اولادیں بھی اسی تکلیف سے گزریں گی۔"
پوجا نے وِکرَم کے کندھے پر ہاتھ رکھا —
اس کا ہاتھ برف جیسا ٹھنڈا تھا، اور سانسیں جیسے منجمد ہو گئیں۔
"تم یہاں کے نہیں ہو… تم نے میری سنی… تمہیں ایک رات کا وقت ہے… اگلی رات تم یہیں کے ہو جاؤ گے… اگر نہ گئے… تو پھر تم بھی…"
دروازہ بند کرنے والے بن جاؤ گے۔
صبح ہوتے ہی وِکرَم نے سامان باندھا، جنگل کی پگڈنڈی سے نیچے اترنے لگا۔
گاؤں کے باہر پہنچا، تو ایک آخری سرگوشی سنائی دی:
"تم نے کھولا… اسی لیے بچے…
نگین پور پیچھے رہ گیا… لیکن وِکرَم کا دل کبھی نہ بچ سکا۔
کہتے ہیں، اب نگین پور میں لوگ دروازے کھولتے نہیں… بلکہ دروازے خود بند ہو جاتے ہیں۔
اور جنہوں نے کبھی کھولنے سے انکار کیا تھا، اب وہی دروازوں کے پیچھے دستکیں دیتے ہیں۔
> "کھولو… بہت سردی ہے…"
"تم بھی دروازہ بند کرو گے؟"
"تو پھر جینے کا حق کس کا ہے؟"
✍️ رائٹر: فرزانہ پٹھان
✍️ یہ کہانی Nest of Novels کی ایک خصوصی اور حقوق محفوظ پیشکش ہے۔
اپنی یادداشتیں، سچی کہانیاں یا خوفناک قصے ہمارے ساتھ شیئر کریں —
تاکہ ہم اُسے آپ کے نام کے ساتھ ہزاروں قارئین تک پہنچائیں۔