بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام سے آغاز کرتے ہیں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
Dear Friends!
آج کی اس ویڈیو میں ہم ایک ایسی قوم کا واقعہ سنائیں گے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا دردناک عذاب نازل فرمایا اور پوری قوم کو بندر بنا دیا۔
لیکن آخر یہ لوگ کون سا ایسا گناہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان پر یہ عذاب آیا؟
یہ لوگ بندر بننے کے بعد کتنے دن زندہ رہے؟
انہیں کس قدر دردناک موت آئی؟
جب یہ اپنے پیاروں کے سامنے بندر بن گئے تو ان کے دلوں سے کیسی چیخیں نکلیں اور وہ اپنے عزیز و اقارب کو دیکھ کر کیا کہتے تھے؟
اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا آج کے دور کے بندر اسی قوم کی نسل میں سے ہیں یا نہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ کے سامنے رکھیں گے۔
لہٰذا ہماری آپ سے گزارش ہے کہ ویڈیو کو آخر تک ضرور دیکھیے گا۔
Dear Friends!
انسانوں کے بندر بننے کی ابتدا حضرت داؤد علیہ السلام کے دور سے ہوئی۔ اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر کے کنارے "کیلا" نامی بستی میں رہتی تھی۔ اس وقت ان کی تعداد تقریباً ستر ہزار تھی۔
یہ ایک خوشحال اور فرمانبردار قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بے شمار نعمتیں نازل فرمائی تھیں۔ ہر طرف سرسبز و شاداب باغات تھے، زمین ہریالی سے بھری ہوئی تھی اور زندگی خوشیوں سے معمور تھی۔
چونکہ یہ قوم سمندر کے کنارے آباد تھی، اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص کرم فرمایا کہ سمندر میں مچھلیاں بکثرت آتیں۔ وہ انہی مچھلیوں کو پکڑ کر کاروبار کرتے اور خوشحال زندگی گزارتے۔
لیکن جب یہ قوم نعمتوں میں ڈوب کر عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگی تو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں مبتلا ہو گئی۔
پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لینے کا ارادہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم سے کہہ دیں:
"ہفتے کے دن (یعنی سنیچر کے دن) مچھلی کا شکار بند کر دو۔"
یوں حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے لیے ہفتے کے دن مچھلی پکڑنا حرام قرار دیا گیا۔
اور یہیں سے اس قوم کی بربادی کا آغاز ہوا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کا حکم سنا دیا۔ یہ سنتے ہی وہ سخت پریشان ہو گئے کیونکہ ہفتے کے دن ہی سب سے زیادہ مچھلیاں کنارے پر خود بخود آ جایا کرتی تھیں۔ باقی دنوں میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر مچھلیاں ملتیں۔
چونکہ ان کا گزر بسر مچھلیوں کے شکار پر تھا، اس لیے وہ سخت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ اللہ کی طرف سے صرف ایک آزمائش ہے۔
Dear Friends!
پھر ایک دن شیطان نے ان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا۔ اس نے کہا:
“کیوں نہ سمندر سے نالیاں نکال کر خشکی میں بڑے بڑے حوض بنا لیے جائیں؟ ہفتے کے دن جب مچھلیاں آئیں گی تو ان نالیوں کے ذریعے حوضوں میں داخل ہو جائیں گی۔ پھر ان نالیوں کو بند کر دیا جائے اور اگلے دن یعنی اتوار کے دن انہیں آسانی سے پکڑ لیا جائے۔ اس طرح نہ تو شکار کی ممانعت ٹوٹے گی اور نہ مچھلیاں ہاتھ سے نکلیں گی۔”
یہ حیلہ سن کر قوم کے بہت سے لوگ خوش ہو گئے۔ انہوں نے فوراً یہ کام شروع کر دیا۔ سمندر سے نالیاں نکال کر بڑے بڑے حوض بنائے گئے۔ ہفتے کے دن مچھلیاں جوق در جوق ان حوضوں میں آ گئیں اور وہ قید ہو گئیں۔
قوم کے بدبخت لوگ شیطان کے اس دھوکے کو بہت پسند کرنے لگے۔ لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اگر مچھلی ہفتے کے دن حوض میں قید ہوئی تو یہ بھی شکار ہی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا۔
Dear Friends!
اب یہودی تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے:
1. ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو شکار سے سختی سے منع کرتے تھے۔ وہ نہ صرف شکار سے باز رہے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے اور اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے۔
2. دوسرا گروہ وہ تھا جو دل سے تو اس کام کو برا جانتا تھا مگر خاموش رہا۔ نہ خود شکار کیا اور نہ دوسروں کو روکا۔ وہ منع کرنے والوں سے کہا کرتے تھے:
“تم ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ عنقریب ہلاک کرنے والا ہے اور ان پر اپنا دردناک عذاب نازل کرنے والا ہے؟”
3. تیسرا گروہ وہ سرکش اور نافرمان لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی کھلم کھلا مخالفت کی۔ وہ شیطان کے حیلے کو مان کر ہفتے کے دن شکار کرنے لگے۔ وہ مچھلیاں پکڑتے، انہیں کھاتے اور بیچتے بھی تھے۔
Dear Friends!
حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم میں بارہ سو (1200) ایسے نافرمان تھے جو مسلسل ہفتے کے دن شکار کرتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے بار بار انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا اور سمجھایا کہ نافرمانی چھوڑ دیں۔ لیکن وہ لوگ باز نہ آئے بلکہ دن بہ دن اپنی سرکشی میں بڑھتے گئے۔
ان نافرمانوں کی گستاخی دیکھ کر وہ لوگ جو نافرمانی سے باز رہے تھے، انہوں نے اپنے اور ان سرکشوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی۔ دیوار کے ایک طرف وہ بارہ سو نافرمان رہتے تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کے حکم کے فرمانبردار تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے بارہا ان نافرمانوں کو سمجھایا، لیکن وہ اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ آخرکار ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام سخت غضبناک ہو گئے اور انہوں نے ان شکار کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔
Dear Friends!
پھر ایک دن ایسا آیا کہ ان نافرمانوں میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلا۔ یہ دیکھ کر کچھ لوگ دیواروں پر چڑھ گئے تاکہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔
جب انہوں نے اندر جھانکا تو ایک دل دہلا دینے والا منظر ان کے سامنے آیا۔
وہ تمام نافرمان بندروں کی شکل میں مسخ ہو چکے تھے!
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمایا اور انسانوں کو بندروں میں بدل دیا۔
Dear Friends!
جب لوگوں نے ان مجرموں کے دروازے کھولے اور اندر داخل ہوئے تو یہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے۔ وہ ان کے پاس آ کر ان کے کپڑوں کو سونگھتے اور زار و قطار روتے تھے، مگر وہ بول نہیں سکتے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر لوگ کانپ اٹھے۔
ان نافرمانوں کی تعداد بارہ ہزار (12,000) تھی۔ سب کے سب ایک ہی وقت میں بندر بنا دیے گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
> "اور بے شک تم جانتے ہو، وہ لوگ جنہوں نے ہفتے کے دن سرکشی کی تو ہم نے ان سے کہا کہ ہو جاؤ بندر، دھتکارے ہوئے۔"
Dear Friends!
یہ بارہ ہزار بندر تین دن تک زندہ رہے۔ ان دنوں میں وہ نہ کچھ کھا سکے اور نہ پی سکے۔ وہ بھوکے پیاسے تڑپتے رہے اور بالآخر تین دن کے اندر اندر سب کے سب ہلاک ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا اور ان کی نسل آگے نہیں بڑھائی۔
البتہ وہ لوگ جو نافرمانوں کو اس گناہ سے روکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں سلامت رکھا۔ اور وہ لوگ بھی جو دل میں برا جانتے تھے مگر خاموش رہے، اللہ نے انہیں بھی اس عذاب سے بچا لیا۔
Dear Friends!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے دور میں پائے جانے والے بندر انہی بدبخت لوگوں کی نسل ہیں؟
اس بارے میں روایت آتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
کسی نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا:
“یا رسول اللہ! کیا آج کے بندر حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم سے ہیں؟”
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“اللہ تعالیٰ جس قوم پر عذاب بھیجتا ہے یا جن کی شکلیں مسخ کرتا ہے، یہ عذاب صرف انہی پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ انہیں ہلاک کر دیتا ہے اور ان کی نسل آگے نہیں بڑھتی۔”
لہٰذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ آج کے بندروں میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کی نسل موجود ہے۔ وہ لوگ صرف تین دن زندہ رہے اور پھر سب کے سب صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔
Dear Friends!
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کو جھٹلاتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرتے ہیں، ان کا انجام ہمیشہ بہت برا ہوتا ہے۔
چاہے وہ کتنے ہی طاقتور اور خوشحال کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کا عذاب انہیں کہیں نہ کہیں آ لیتا ہے۔
آئیے ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں گے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
اے اللہ
! ہمیں اپنی اطاعت کرنے والا بندہ بنا، ہمیں گناہوں سے محفوظ رکھ اور اپنے عذاب سے پناہ عطا فرما۔ آمین۔