یقین کا پرچم
نورپور پنجاب کے ضلع خوشاب کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہ وہ گاؤں تھا جہاں صبح کا آغاز اذان کی مدھم مگر دل کو چھو لینے والی آواز سے ہوتا، پھر مرغوں کی بانگ، کھیتوں سے آنے والی مٹی کی خوشبو، اور دور سے بہتے نہر کے پانی کا شور، سب مل کر ایک ایسی فضا پیدا کرتے جس میں سکون ہی سکون تھا۔
گاؤں میں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ خوشی ہو یا غم، سب ساتھ ہوتے۔ مگر اس محبت بھرے گاؤں میں بھی کہیں نہ کہیں انا، ضد، اور پرانے جھگڑوں کی تلخ یادیں دبکی بیٹھی تھیں۔
اس گاؤں کے ایک سیدھے سادے کسان عبدالحمید، عمر تقریباً 55 سال، کا گھر چھوٹا مگر صاف ستھرا تھا۔ ان کی داڑھی میں سفیدی جھلک رہی تھی، آنکھوں میں عاجزی اور چہرے پر محنت کی لکیر۔ ان کی بیوی شاہینہ بی بی، عمر تقریباً 48 سال، نرم لہجے کی، دین پر عمل کرنے والی خاتون تھیں۔
عبدالحمید کا بیٹا حمزہ — 24 سال کا، درمیانہ قد، سانولی رنگت، آنکھوں میں سنجیدگی اور چہرے پر ایک عجیب سی وقار کی جھلک۔ گاؤں کے لڑکے اکثر اس سے مشورہ لینے آتے کیونکہ وہ ہمیشہ بات دین کے حوالے سے کرتا اور ہر کام میں اللہ پر بھروسہ رکھنے کا کہتا۔
گھر میں سب سے چھوٹی عائشہ، صرف 10 سال کی، معصوم اور شوخ مزاج، جس کی قہقہوں سے گھر کی دیواریں بھی مسکرا اٹھتی تھیں۔
14 اگست آنے والی تھی، اور گاؤں کے ہر کونے میں رونقیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ بچے جھنڈیاں لگانے میں مصروف، نوجوان کھیلوں کے مقابلے اور جلسوں کی تیاری کر رہے تھے۔ مسجد میں بھی امام صاحب نے اعلان کیا تھا کہ 14 اگست کی رات شکرانے کی دعا اور قرآن خوانی ہوگی۔
حمزہ بھی شام کو کھیتوں سے آنے کے بعد بچوں کو جھنڈے لگانے میں مدد دیتا۔ مگر وہ صرف خوشی کا ظاہری جشن نہیں مناتا، وہ اکثر دوستوں سے کہتا:
"بھائیو، آزادی کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان اور کردار میں بھی آزاد رہیں، جھوٹ، دھوکے اور ظلم سے۔"
لیکن 14 اگست سے تین دن پہلے ایک ایسا طوفان آیا جس نے اس گھر کی خوشیوں کو جمی ہوئی برف میں بدل دیا۔
دوپہر کے وقت گاؤں کے چوک میں پولیس جیپ آ کر رکی۔ دو سپاہی اور ایک انسپکٹر اترے۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ سیدھا عبدالحمید کے گھر جا رہے ہیں۔
انسپکٹر نے دروازے پر دستک دی:
"عبدالحمید، آپ کو تھانے چلنا ہوگا۔ زمین کے کاغذات میں دھوکہ دہی کا الزام لگا ہے۔"
یہ سنتے ہی شاہینہ بی بی کے ہاتھ سے چائے کا کپ گر گیا۔ حمزہ آگے بڑھا:
"افسر صاحب! یہ سب جھوٹ ہے۔ میرے ابّا نے کبھی حرام کا پیسہ نہیں کمایا۔"
انسپکٹر نے سخت لہجے میں کہا:
"یہ سب تھانے میں ثابت کریں۔ ابھی چلیں۔"
پورا گاؤں دیکھ رہا تھا جب عبدالحمید کو پولیس جیپ میں بٹھا کر لے جایا گیا۔ لوگ چپ چاپ کھڑے تھے — کچھ کے چہروں پر حیرت، کچھ کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ، جیسے وہ پہلے سے یہ سب سننے کے منتظر تھے۔
شام تک گاؤں میں خبر پھیل گئی۔ کچھ کہہ رہے تھے، "ارے، عبدالحمید نے تو بہت سیدھا بن کر دکھایا، اندر سے کچھ اور نکلے۔"
کچھ کہہ رہے تھے، "نہیں بھائی، یہ ان کے دشمنوں کی سازش ہے۔"
گھر میں خاموشی چھا گئی تھی۔ شاہینہ بی بی قرآن ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھی تھیں، عائشہ بار بار امّی سے پوچھتی:
"امی، ابا کب آئیں گے؟"
شاہینہ بس یہی کہتیں: "اللہ سے دعا کرو بیٹی۔"
حمزہ کمرے میں اکیلا بیٹھا سوچ رہا تھا۔ دل میں غصہ تھا کہ کیسے لوگ جھوٹے الزام لگا سکتے ہیں، مگر پھر اسے امّی کی نصیحت یاد آئی: "بیٹا، ہر مشکل میں سب سے پہلا سہارا اللہ ہے۔"
رات گئے جب سب سو گئے، حمزہ اٹھا۔ وضو کیا، مسجد کے پچھلے حصے میں جا کر دو رکعت نفل پڑھا۔ سجدے میں اس کے آنسو زمین کو بھگو رہے تھے۔
"یا اللہ، میرے ابّا کی عزت کا سوال ہے۔ تو ہی حق کو ظاہر کرنے والا ہے۔ ہمیں صبر دے، ہمت دے۔"
اسے قرآن کی آیت یاد آئی:
> "اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔" (سورۃ الطلاق: 2-3)
اگلے دن گاؤں کے ایک بزرگ حاجی ادریس، جن کی عمر تقریباً 70 سال تھی، نے یہ سب سنا تو دل میں بےچینی پیدا ہوئی۔ وہ جانتے تھے کہ عبدالحمید ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ پرانے گاؤں کے ریکارڈ سنبھالنے والے شخص کے پاس گئے اور اصل زمین کے کاغذات نکلوائے۔
یہ دیکھ کر صاف پتہ چل گیا کہ عبدالحمید پر الزام جھوٹا ہے، اور اصل میں ایک بااثر شخص نے پرانے جھگڑے کا بدلہ لینے کے لیے یہ سازش کی تھی۔
حاجی ادریس نے کاغذات لے کر سیدھا تھانے پہنچ کر انسپکٹر کو دیے:
"یہ دیکھو بیٹا، یہ ہیں اصل ثبوت۔ ایک بے گناہ کو کیوں بدنام کر رہے ہو؟"
14 اگست کی صبح، جب گاؤں کے لوگ جھنڈے لگا رہے تھے، حمزہ کے گھر پولیس کا سپاہی آیا:
"تمہارے ابّا بری ہو گئے ہیں، وہ واپس آ رہے ہیں۔"
یہ سنتے ہی شاہینہ بی بی نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ عائشہ بھاگ کر گلی میں نکل گئی اور سب کو بتایا:
"میرے ابّا بے قصور ہیں!"
دوپہر کو عبدالحمید گھر پہنچے۔ گاؤں کے سب لوگ جمع ہو گئے۔ کچھ نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں، کچھ نے آگے بڑھ کر معافی مانگی۔
شام کو گاؤں کے میدان میں 14 اگست کا جلسہ ہوا۔ سبز پرچم فضا میں لہرا رہے تھے۔ تلاوت کے بعد نعت پڑھی گئی، پھر مائیک پر عبدالحمید کو بلایا گیا۔
انہوں نے کہا:
"آزادی کا مطلب صرف جھنڈے لہرنا نہیں، بلکہ دلوں کو جھوٹ اور نفرت سے آزاد کرنا ہے۔ میں نے اس آزمائش میں ایک چیز سیکھی — جو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، اس کے لیے وہ ایسا راستہ نکالتا ہے جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔"
حمزہ نے بھی مائیک سنبھالا اور کہا:
"بھائیو، ہم وطن کی عزت کا خیال رکھیں، مگر ساتھ ساتھ اپنے ایمان کی حفاظت بھی کریں۔ کیونکہ اصل آزادی ایمان کی آزادی ہے۔"
---
سبق
اس رات، گھر واپس آ کر عبدالحمید نے عائشہ کو پاس بٹھایا:
"بیٹی، یاد رکھو، زندگی میں مشکلات آئیں گی، مگر صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ سچ کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔"
اسے رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد آئی:
> "جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ ہے، آسانی تنگی کے ساتھ ہے، اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔" (ترمذی)