چھوٹی مالکن بڑی قیمت
اسکرپٹ رائٹر
فرزانہ خان
جیسے ہی رات ہوتی، مجھے محسوس ہوتا کہ کوئی آہستہ آہستہ میرے کمرے میں آتا ہے اور میرے پیروں کو چھونے لگتا ہے اور چومنا شروع کردیتا ہے۔ میں تھکن کے باعث ہر رات آنکھیں موندے رکھتی اور سوچتی کہ شاید یہ میرا وہم ہے۔ مگر آج، نہ جانے کیوں، اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ وہم نہیں تھا… کوئی واقعی میرے قدموں کے پاس کھڑا تھا۔ دھندلکے میں صرف ایک سایہ سا نظر آ رہا تھا، جو خاموشی سے مجھے تک رہا تھا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، لیکن میں ہمت کر کے کچھ بول نہ سکی۔ اور جب میری نظریں اس چہرے پر جمی تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی… یہ تو ۔۔۔۔
میں نے سارے کام نمٹائے اور خاموشی سے جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔ یہ کمرہ ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جو اسی حویلی کے ساتھ منسلک تھا۔ مجھ جیسی کئی اور عورتیں بھی ایسے ہی کوارٹروں میں رہتی تھیں۔ حویلی بہت بڑی تھی۔ ایک طرف اس کے بڑے بڑے کمرے تھے جہاں مالکان رہتے تھے اور دوسری طرف ہم جیسے نوکروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹر بنائے گئے تھے تاکہ ہمارے رہنے کا انتظام ہو سکے۔
چوہدری اچھے اور نیک دل انسان تھے لیکن اُن کا رعب اور دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی بھی اُن کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہ کرتا۔ ہم سب کے لیے یہی اصول تھا کہ اُن کے حکم کی تعمیل کریں اور چپ چاپ کام کرتے رہیں۔ میں بھی اُن ہی لوگوں میں سے تھی جن کے خاندان پچھلی دو پشتوں سے انہی چوہدریوں کے رحم و کرم پر کام کرتے آئے تھے۔ پہلے میری نانی، پھر میری ماں اور اب میں… ہم سب انہی کے گھروں میں نوکری کرتے رہے تھے۔
مجھے یہاں کام کرتے ہوئے تقریباً بیس سال کا عرصہ ہو چکا تھا اور اس وقت میری عمر تیس سے پینتیس برس کے درمیان تھی۔ بچپن سے ہی مجھے اس حویلی میں رہنے کی عادت تھی اور والدہ کے بڑھاپے کی وجہ سے میں نے ہی اُن کی جگہ یہاں کام شروع کر دیا تھا۔ پھر میری شادی میرے چچا زاد سے ہوئی، لیکن غربت میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ شادی کے بعد بھی مجھے اسی حویلی میں کام کرنا پڑا۔
ہاں، یہ بات ضرور تھی کہ میرے چچا زاد کا بیٹا بڑا سخت مزاج انسان تھا۔ اگرچہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا، لیکن اُس کا غصہ بھی بہت زیادہ تھا۔ معمولی سی بھی غلطی ہو جاتی تو وہ ایسے برتاؤ سے پیش آتا جیسے مجھے زمین پر دے مارے گا۔ شاید یہ ہر مرد کا مزاج ہوتا ہے کہ کبھی عورت کو باتوں سے آسمان پر پہنچا دیتا ہے اور کبھی پل میں زمین پر گرا دیتا ہے۔ بہرحال، میں خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہی تھی۔
شادی کے ایک مہینے بعد میں نے دوبارہ نوکری شروع کر دی اور مالکن کے گھر جانے لگی۔ حویلی میں نئی بہو بھی آ گئی تھی، جو ابھی ابھی بیاہ کر لائی گئی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ اُسے دیکھ کر مجھے اکثر لگتا جیسے اگر میرا نصیب بہتر ہوتا تو میں بھی شاید ایسی ہی زندگی گزار رہی ہوتی۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور میری اُس چھوٹی مالکن سے اچھی دوستی ہو گئی۔ زندگی کے کئی سال یوں ہی گزر گئے اور آج بھی میں اسی طرح اس گھر میں کام کر رہی تھی جیسے پہلے کیا کرتی تھی۔
آج بڑی مالکن کا انتقال ہو گیا تھا۔ چھوٹی مالکن بھی یہیں موجود تھی، اور میرا اُس کے ساتھ ہمیشہ دوستوں والا رشتہ رہا تھا۔ آج بھی میں اُسے اپنی دوست ہی مانتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو چھوٹی مالکن نے کہا کہ جلدی سے کام ختم کر کے کمرے میں جا کر آرام کر لوں۔ میں نے بھی ویسا ہی کیا اور خاموشی سے اپنے کمرے میں آ کر سو گئی۔
آدھی رات کو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی میرے پیروں کو چوم رہا ہے۔ میں گہری نیند میں تھی اور سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ ایسا لگا جیسے کسی نے میرے پیروں پر ہاتھ رکھا ہو۔ اس سے پہلے کہ میں آنکھیں کھولتی، وہ ہاتھ میرے پیروں سے ران تک آ گیا۔ میرے پاؤں پر مجھے عجیب سی گرمی اور نرمی محسوس ہوئی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اور دیکھا تو ایسا لگا جیسے کسی نے میرے پاؤں کو چھوا اور رو رہا ہو کیونکہ میرے پاؤں پر آنسو کے قطرے گرے ہوئے تھے۔
یہ آنسو کس کے تھے اور کیوں تھے، میں کچھ سمجھ نہیں پائی۔ میرا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ میں نے فوراً اٹھ کر کمرے کا کونا کونا دیکھا، لائٹ جلائی، ہر طرف نظر دوڑائی مگر کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ شاید یہ میرا وہم ہے اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئی۔ لیکن اب نیند جیسے مجھ سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ میں کروٹیں بدلتی رہی اور بار بار یہی سوچ آتی رہی کہ آخر کس نے میرے پاؤں کو چھوا اور روتا رہا۔
یوں ہی سوچوں میں گم گم رات گزر گئی اور صبح ہو گئی۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی میں نے اٹھ کر وضو کیا، نماز پڑھی اور کچھ دیر قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد حویلی کا رخ کیا۔ کچن میں پہلے ہی میری ساتھی عورتیں موجود تھیں جو ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔ حویلی میں ناشتہ بھی الگ الگ بنایا جاتا تھا، ہر فرد کے ذوق اور پسند کے مطابق۔ ہم تین ملازمائیں صرف ناشتہ تیار کرنے پر ہی مامور تھیں۔
تقریباً ایک گھنٹہ کچن میں رہنے کے بعد جب میں باہر نکلی تو رات ہونے والا سارا واقعہ جیسے بھول ہی چکی تھی۔ کام کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔ میں باہر نکلی تو چھوٹی مالکن کی دس سالہ بیٹی ہادیہ خاموشی سے بیٹھی تھی۔ اُس کے آگے ناشتہ رکھا تھا، مگر وہ پلیٹ کو بس خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یہ وہ بچی تھی جو ہمیشہ شوخ مزاج اور ہنس مکھ رہتی تھی، مگر آج وہ چپ چاپ بیٹھی تھی اور پلیٹ کو گھور رہی تھی۔ اُس کی ماں لمبے فون کال میں مصروف تھی۔
میں نے کچھ دیر ہادیہ کو غور سے دیکھا۔ پھر جیسے ہی اُس نے محسوس کیا کہ میں اُسے دیکھ رہی ہوں، اُس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُس کی نظریں عجیب تھیں، جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں مگر زبان ساتھ نہ دے رہی ہو۔ میں حیران رہ گئی۔
"کیا ہوا، ہادیہ بیٹا؟ تم ایسے خاموش کیوں بیٹھی ہو؟ ناشتہ کیوں نہیں کر رہیں؟" میں نے نرمی سے پوچھا۔
وہ کچھ نہ بولی، بس آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھ گئی اور چلی گئی۔ چھوٹی مالکن نے اُسے جاتے دیکھا تو ہلکا سا مسکرا کر بولی:
"ارے، کچھ نہیں ہوا، بس ذرا موڈ خراب ہے۔ سکول سے واپس آئے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ تم فکر نہ کرو، میں نے اس کا لنچ اس کے بیگ میں رکھ دیا ہے، سکول میں جا کر کھا لے گی۔ گھر پر بس تھوڑی ضد کر رہی ہے۔"
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، مگر دل میں کہیں نہ کہیں ہادیہ کے لیے فکر بیٹھ گئی تھی۔
پورا دن اسی طرح کے معمولات میں گزرا۔ شام کے وقت جب میں نے سارے کام ختم کیے تو تھکن کے باعث واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ دیر مصلے پر بیٹھ کر ذکر و اذکار میں مشغول رہی۔ یہ اب میرا روز کا معمول بن چکا تھا۔ جب تک نماز اور ذکر نہ کر لیتی، نہ دل کو سکون آتا اور نہ نیند آتی۔ آج بھی میں نے ویسے ہی کچھ وقت عبادت میں گزارا اور پھر خاموشی سے جا کر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی۔
آدھی رات کے وقت ایک بار پھر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی میرے پیروں پر ہاتھ رکھ رہا ہو۔ پھر کچھ گرم گرم سا، نرم سا لمس میرے پاؤں پر محسوس ہوا، جیسے کوئی روتے ہوئے اپنے آنسو میرے پاؤں پر بہا رہا ہو۔ نیند اتنی گہری تھی کہ آنکھیں کھولنا مشکل لگ رہا تھا، مگر میرے لبوں سے بے اختیار نکلا:
"کون ہے؟ کون ہے میرے کمرے میں؟"
کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ میری یہ عادت تھی کہ سوتے وقت ایک بھی بتی جلنے نہیں دیتی تھی۔ مجھے روشنی میں نیند نہیں آتی تھی، اسی لیے آج بھی کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ پھر بھی مجھے یوں لگا جیسے ایک سایہ سا دروازے کی طرف بڑھا ہو۔ دروازہ ہلکا سا کھلا، باہر سے ذرا سی روشنی اندر آئی اور وہ سایہ باہر نکل گیا۔ پھر دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔
میں نے فوراً لائٹ جلائی اور بھاگ کر دروازے تک پہنچی۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو ہر طرف خاموشی تھی۔ صحن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، بس برآمدے میں جلتی ہوئی ہلکی لائٹس نظر آ رہی تھیں۔ بڑے ہال کے بلب بجھائے جا چکے تھے اور مالکوں کے کمرے بھی اندھیرے میں تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر وہ کون تھا اور کیا کر رہا تھا۔
کل تو میں نے یہ سب اپنے وہم پر ڈال دیا تھا، لیکن آج جو دیکھا تھا وہ حقیقت تھی۔ کوئی تھا جو میرے اتنے قریب آ کر میرے پاؤں پر ہاتھ رکھتا تھا اور رو کر چلا جاتا تھا۔ اندھیرے میں پہچان نہ پائی، مگر وہ لمس… وہ لمس جیسے برسوں سے پہچانتی ہوں۔
میں خاموشی سے واپس اپنے بستر پر آ کر بیٹھ گئی۔ نیند کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ میں دیر تک اپنے پیروں کو دیکھتی رہی، جو اب بھی گیلا محسوس ہو رہا تھا، جیسے تازہ آنسو ٹپکے ہوں۔ دل میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا: آخر وہ کون ہے؟ اور مجھ سے اس کا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
جب کوئی جواب نہ ملا تو وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر تہجد پڑھنے لگی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بس ایک ہی دعا زبان پر تھی:
"یا اللہ! جو بھی ہے، اُسے میرے سامنے لے آ۔ اگر اُس کی کوئی مشکل ہے تو اُس کی مشکل آسان کر دے، اور مجھے دکھا دے کہ وہ کون ہے جو میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کر روتا ہے۔"
دل میں بوجھ سا بیٹھ گیا تھا۔ دعا کے بعد جیسے ہی مصلے سے اٹھی تو صبح کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ نماز پڑھی، کچھ دیر قرآن کی تلاوت کی اور پھر معمول کے مطابق کچن کا رخ کیا۔
یہ دن بھی معمول کے کاموں میں گزر گیا، اور ایک بار پھر رات آ گئی۔ مگر آج میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ نیند کو قریب نہیں آنے دوں گی۔ آج مجھے اُس شخص کو دیکھنا تھا، جاننا تھا کہ آخر وہ کون ہے جو بار بار میرے پیروں کو چھو کر چپ چاپ چلا جاتا ہے۔
کمرے کی تمام روشنی بجھا دی اور خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔ آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ دل میں بس ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا۔ "یہ کون ہے؟ اور آخر مجھ سے چاہتا کیا ہے؟"
میں نے ہمیشہ سے اولاد کی خواہش کی تھی، مگر مجھے کبھی اولاد نصیب نہ ہوئی۔ میرا شوہر بھی کچھ عرصے بعد مجھے چھوڑ گیا، اور یوں میرا سب کچھ، میرا گھر، میرا سسرال سب ختم ہو گیا۔ بس یہ حویلی ہی میری دنیا بن گئی تھی۔
میں جانے کب جاگتے جاگتے نیند کی گرفت میں آ گئی، لیکن میرے کان دروازے کی ذرا سی آہٹ پر بھی متوجہ تھے۔ آنکھیں بوجھل تھیں مگر ذہن جاگ رہا تھا۔ اچانک دروازہ آہستہ سے کھلا۔ میں نے آنکھیں کھولنا چاہیں مگر کھول نہ سکی۔ پھر کوئی آہستگی سے میرے قریب آیا اور میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔ اُس کے رونے کی آواز میرے کانوں تک پہنچی۔
میں نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں، خود کو اٹھایا اور جلدی سے لیمپ کا بٹن آن کر دیا۔ کمرہ روشن ہوا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں سکتے میں آ گئی۔
میرے پیروں کے پاس کوئی اور نہیں، بلکہ چھوٹی بیوی کی بیٹی، ہادیہ بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی، لیکن اچانک روشنی ہونے پر ایسے چونکی جیسے پکڑی گئی ہو۔ وہ جلدی سے اٹھ ک
ر بھاگنے لگی، مگر میں نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور...
کہنے لگی، "کیا ہوا بیٹا؟ تم کیوں رو رہی ہو؟" اور پھر جلدی سے اسے اپنے قریب کر کے میں نے اپنے سینے سے لگا لیا۔ لیکن وہ کافی دیر رونے کے بعد جب چپ ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا:
"بیٹا، آخر ایسی کیا بات ہے کہ تم روز میرے کمرے میں آ کر میرے ہی پاؤں پر ہاتھ رکھ کر روتی ہو؟ ایسی کیا بات ہے؟ اور کافی دنوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ تم بجھی بجھی سی دکھائی دیتی ہو، سب ٹھیک تو ہے نا؟"
تو اس نے اپنی زبان کھولی، اور جو بات بتائی، اس نے میرے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔
میں پروین، اپنے والدین کی تیسری اور آخری اولاد تھی۔ ہم تینوں بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی پیدا نہ ہوا تھا۔ لیکن میرے بابا اللہ پر توکل رکھنے والے ایک سچے دل کے مسلمان تھے۔ انہوں نے ہمیں بیٹوں کی طرح پالا اور بیٹوں جیسی تربیت دی۔
ہماری والدہ یہیں چوہدریوں کی حویلی میں کام کرتی تھیں اور ہمارے بابا روزانہ چوہدریوں کی زمینوں پر کام کرتے تھے۔ چوہدریوں کے غلام ہونے کی وجہ سے میری ماں بھی ہمیشہ سے چوہدریوں کے گھروں میں ہی رہی تھی۔
بچپن سے ہی اگر کوئی کام ہوتا تو ماں مجھے اور میری بڑی دونوں بہنوں کو ساتھ لے کر حویلی چلی جاتی اور صبح سے شام تک ہم وہاں کام کرتے رہتے۔ اسی وجہ سے حویلی کے سارے لوگوں سے ہماری جان پہچان ہو گئی تھی۔
حویلی میں رہنے والے سارے لوگ بڑے خدا ترس اور اچھے انسان تھے۔ ہاں، ان کا رعب بہت زیادہ تھا، وہ غلط بات کو غلط اور صحیح بات کو صحیح کہتے تھے۔ لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنا بڑا پن جتاتے رہتے تھے، جنہیں اور کوئی کام نہ ملتا تو وہ غریب لوگوں کو رسوا کرتے رہتے تھے۔
انہی میں سے بڑی مالکِن بھی تھیں۔ وہ کبھی کبھی جب اچھے موڈ میں ہوتیں تو ہر غریب کی مدد کرتیں، اور کبھی کبھی سب پر ظلم کیا کرتیں۔ اکثر نوکرانیوں کو تانے مارتی رہتیں جن سے نوکرانیوں کا دل ٹوٹ سا جاتا۔
اماں کے ساتھ ہم بھی حویلی میں آتے جاتے تھے۔ ہم پڑھے لکھے نہیں تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا ہنر جانتے تھے، کیونکہ اس گاؤں میں یہی روایت تھی کہ سب مزارع اور غریب لوگ چوہدریوں کے دباؤ میں ہی رہتے تھے اور انہی کی خدمتیں کرتے تھے۔ یہاں نہ تو کسی کو کوئی ہنر سیکھنے کی اجازت تھی اور نہ ہی پڑھائی کرنے کی۔
چنانچہ ہم تینوں بہنیں بھی اسی گھر میں کام کرنے لگیں۔ میری بڑی بہنوں کی تو جلد ہی شادیاں ہو گئیں، لیکن میں ابھی چھوٹی تھی۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے ساتھ ہی رہتی تھی۔
میری دونوں بڑی بہنیں شادی کے بعد دوسرے گاؤں جا چکی تھیں۔ وہ کبھی کبھار ایک دن کے لیے آ جاتیں اور پھر واپس چلی جاتیں۔
زندگی بڑے پرسکون انداز میں گزر رہی تھی۔ چوہدریوں کی خدمت کر کے ہمیں بھی سکون ملتا تھا کیونکہ چوہدری ہمارا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ہم اگر ان کے حقوق کی تعمیل کرتے تو وہ بھی ہمارا پورا پورا خیال رکھتے۔
جب بھی عید وغیرہ آتی تو ہمارے لیے نئے کپڑے خریدے جاتے، خاص طور پر ان عورتوں اور ان کے بچوں کے لیے جو چوہدریوں کے گھروں میں کام کرتے تھے۔ دوسرے مواقع پر بھی ہمارا خیال رکھا جاتا۔ عیدوں پر ہمیں خرچے کے لیے پیسے بھی دیے جاتے اور ہر فصل پر ہمیں آدھی فصل بھی دے دی جاتی۔ اس طرح ہمارا گزارہ اچھا ہو جاتا اور یوں چوہدریوں کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی نفرت پیدا نہ ہوتی۔
جتنا وہ سنگ دل ہوا کرتے تھے، اتنے ہی رحم دل بھی تھے۔ چنانچہ سبھی لوگ چوہدریوں کے بڑے وفادار تھے اور ہمارا بھی یہی حال تھا۔
دونوں بہنوں کی شادی کے بعد میں ہی تھی جو اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکتی تھی۔ چنانچہ گھر کے کام ماں مجھ پر ڈال کر صبح صبح چوہدریوں کے گھر نکل جاتی تھیں۔
مجھے کہتی، "تم میرے پیچھے آ جانا۔" میں گھر کا کام کیا کرتی، اُسے پانی بھر کر لاتی۔ پھر آہستہ آہستہ کنویں ختم ہو گئے اور ان کی جگہ گھر کے نلکوں نے لے لی، لیکن جب تک کنویں تھے، میں کنویں سے ہی پانی بھر کر لاتی تھی، اپنے گھر رکھتی اور جیسے ہی فارغ ہوتی، ابا کے لیے روٹی اٹھا کر ان کی زمینوں پر پہنچ جاتی۔
زمینوں پر ابا کو روٹی دینے کے بعد سیدھا میں چوہدریوں کی حویلی چلی جاتی اور وہاں اماں کے ساتھ کام شروع کر دیتی۔ آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی تو گھر کا تمام کام بھی میرے ذمے آ گیا۔ اب تو یہ حال ہو گیا تھا کہ اماں کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ میں نے اماں کو منع کر دیا کہ وہ کوئی بھی کام نہ کریں۔ پھر گھر کا سارا کام ختم کرنے کے بعد میں خود چوہدریوں کے گھروں میں چلی جاتی۔
اماں کو اب میں چوہدریوں کے گھر نہیں جانے دیتی تھی، کیونکہ میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا تھا کہ اماں بیمار ہوں اور بیماری کے ساتھ ساتھ وہ چوہدریوں کے گھروں میں کام کریں یا اپنے گھر کا کام سنبھالیں۔ انہیں ڈاکٹر نے مکمل آرام کا کہا تھا، اور میں نے انہیں آرام دینے کے لیے سارے کام اپنے سر لے لیے۔
دن گزرتے گئے اور اماں کی حالت مزید بگڑنے لگی۔ اب اماں کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جاؤں۔ میں خاموش رہی اور ان کی اس خواہش کے آگے سر جھکا دیا۔
انہوں نے میرا رشتہ میرے چچا کے بیٹے سے کر دیا۔ وہ بڑا سخت مزاج آدمی تھا۔ اس نے مجھے چوہدریوں کے گھروں میں کام کرنے سے مکمل طور پر منع کر دیا۔ شادی کے ایک مہینے بعد جب میں سسرال سے واپس آئی تو بڑی مشکل سے مجھے شوہر سے چوہدریوں کے گھروں میں کام کرنے کی اجازت ملی، کیونکہ ہمارے گھر کے حالات بڑے خراب تھے۔
میرا شوہر کوئی کام نہیں کرتا تھا اور مجھے بھی چوہدری لوگ گھر میں نہیں آنے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ میرے پاس کمانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ بڑی مشکلوں سے اماں نے میرے لیے اجازت لی اور پھر میں چوہدریوں کے گھروں میں واپس آئی تو دیکھا کہ چھوٹے صاحب کی شادی ہو چکی تھی اور ان کی نئی نویلی دلہن بھی حویلی میں موجود تھی۔
وہ میرے ہم عمر تھی، شہر سے بیاہ کر آئی تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ آہستہ آہستہ میرا دل ان کے ساتھ لگنے لگا۔ بڑی بیگم صاحبہ کے ساتھ ساتھ اب چھوٹی مالکن بھی ہماری توجہ کا مرکز بن چکی تھیں۔ وہ میرے ساتھ بڑے پیار سے پیش آتیں، کیونکہ اس حویلی میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ ان کے ہم عمر نہیں تھے۔
آہستہ آہستہ ہماری آپس میں اچھی دوستی ہو گئی۔ یہ دیکھ کر بڑی مالکن بھی خوش تھیں، اور دونوں چوہدری صاحب بھی، کیونکہ باہر سے آنے والی بہو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں کیسے ایڈجسٹ کرے۔ لیکن مجھ سے دوستی ہو جانے کے بعد وہ بھی یہاں خوش رہنے لگی۔
یوں اس حویلی کا میرے ساتھ بڑا گہرا تعلق بن چکا تھا۔ میرا گھر حویلی کے بالکل ساتھ تھا، اسی لیے روز آنا جانا رہتا تھا۔ میری شادی کو بھی چھ مہینے گزر گئے تھے کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا۔
ماں کے انتقال کا صدمہ میرے بابا نے دل پر لے لیا اور وہ بھی بیمار رہنے لگے۔ زیادہ عرصہ نہ جی سکے اور جلد ہی وہ بھی وفات پا گئے۔ اب میں واحد اپنے شوہر کے رحم و کرم پر تھی۔
میرا شوہر جب چاہتا، مجھے مارتا پیٹتا، گالیاں دیتا، اور جب چاہتا مجھے نوکری سے نکال دیتا یا پھر واپس حویلی میں بھیج دیتا۔ میری اس حالت سے چھوٹی مالکن بخوبی واقف تھیں، لیکن بڑی مالکن کو یہ بات کھٹکتی تھی کہ آخر میں اتنا عرصہ درمیان میں کہاں چلی جاتی ہوں اور پھر واپس کیوں آ جاتی ہوں۔ انہوں نے کئی بار اس بارے میں پوچھا، لیکن میں ہر بار بات ٹال دیتی۔
چھوٹی مالکن دوستی کی وجہ سے میرے تمام حالات سے واقف تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں مکمل طور پر اس شخص سے علیحدگی اختیار کر لوں، لیکن میرا اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے زندگی گزار رہی تھی۔
زندگی کے تیز دھار کانٹوں پر چلتے ہوئے اچانک ہی ایک خوشی کی کرن نظر آئی۔ ایک روز میری طبیعت خراب ہو گئی۔ میں اسی دن حویلی میں کام کر رہی تھی جب میری حالت بگڑ گئی تو بڑی مالکن نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا۔
ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کیا تو خوشخبری دی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ یہ بات سن کر چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑی مالکن دونوں بہت خوش ہوئیں اور مجھے چند دنوں کے لیے آرام کے لیے گھر بھیج دیا گیا۔
جب میں گھر واپس آئی اور اپنے شوہر کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔ اس کی سختی کچھ کم ہو گئی تھی۔ شاید وہ اس لیے مجھ پر سختی کرتا تھا کہ وہ اولاد چاہتا تھا۔
اب جیسے ہی اولاد کی خوشخبری ملی، وہ ایک دم اچھا ہو گیا۔ مجھ سے کہنے لگا:
"کچھ دنوں کے لیے آرام کرو، اور اگر تم چوہدریوں کے گھروں میں کام کے لیے جاؤ تو بھی اپنا خیال رکھنا، اور زیادہ بھاری کام مت کرنا، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کچھ ہو۔"
اس کی یہ بات سن کر میں مسکرا دی اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ مجھے یقین
نہیں آ رہا تھا کہ میرا شوہر میرے ساتھ اتنا اچھا ہو سکتا ہے۔