قتل یا خودکشی آخری قسط
ملک صفدر حیات
یہاں کے تو میں بچے بچے سے واقف ہوں، ابراہیم سائیکلون والے نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"اس کو میں نہیں جانتا، جائیے کہیں اور جا کر پتہ کریں۔"
ہم فوراً ہی آگے بڑھ گئے۔ کرم داد نے کہا:
"جناب، وردی کے بھی اپنے ہی ٹور ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر ہم وردی میں ہوتے تو یہی شخص ہمارے آگے پیچھے پھر رہا ہوتا۔"
میں نے کہا:
"حسد کہتے ہو کرم داد، اکثر لوگ تو ہماری وردی کو ہی سلام کرتے ہیں۔"
دو چار اور دکانوں سے پوچھ گچھ کے بعد ہم ایک حجام کی دکان میں داخل ہوئے۔
چھوٹے علاقوں اور دیہاتوں میں حجام کی دکان کو ایک چوپال کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
حجام کی دکان پر بہانے بہانے سے لوگ آتے ہیں اور گھر کے معاملات زیرِ بحث رہتے ہیں۔
حجام بھی ہر بات میں دلچسپی لیتا ہے اور حسبِ توفیق اپنا تبصرہ بھی پیش کرتا ہے، اور اپنا کام بھی کرتا رہتا ہے۔
مجھے امید تھی کہ یہاں کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں۔
اس وقت دکان میں تین چار آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔
حجام ایک شخص کی شیو بنا رہا تھا اور باقی لکڑی کی بینچ پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
ہم اندر داخل ہوئے تو حجام نے ہمیں بھی کوئی گاہک سمجھا اور ہمیں دیکھتے ہی روایتی خندہ پیشانی سے کہا:
"آؤ جی، بسم اللہ، آپ بیٹھیں۔ میں بس ابھی فارغ ہونے والا ہوں۔"
میں نے کھڑے کھڑے کہا:
"ہم یہاں بیٹھنے نہیں آئے، راجہ صاحب۔"
دیہاتوں میں حجام کو عموماً لوگ "راجہ" بھی کہتے ہیں۔
میری بات سن کر اس کے چلتے ہاتھ رک گئے۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا:
"پھر دسو جی، آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟"
میں نے ماسٹر یونس کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا:
"ہمیں اس بندے کی تلاش ہے۔ یہ چند روز قبل یہاں آیا تھا۔"
تصویر دیکھنے کے بعد اس نے کہا:
"میری دکان پر تو نہیں آیا۔"
اتنی دیر میں کرسی پر بیٹھے شخص نے گردن نیچے کر کے تصویر پر نظر ڈالی۔
میں نے محسوس کیا کہ تصویر دیکھتے ہی اس کے چہرے پر شناسائی کے تاثرات ابھرے تھے۔
وہ بولا:
"میرے اندازے کی تصدیق ہو گئی۔ شکل تو کچھ دیکھی دیکھی لگ رہی ہے۔"
میں نے اسے بتایا:
"یہ بندہ فلاں دن ایک برقہ پوش عورت کے ساتھ اس علاقے میں آیا تھا۔ ہمیں اس سے ملنا ہے۔
آپ نے اسے کب اور کہاں دیکھا تھا؟"
اس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے اُلٹا مجھ سے سوال کر دیا:
"آپ کس سلسلے میں اسے ڈھونڈ رہے ہیں؟"
میں نے کہا:
"سلسلہ بھی بتا دیں گے، پہلے بندے کا کوئی سرا تو ہاتھ آئے۔"
وہ بولا:
"لگتا ہے کوئی گڑبڑ والا معاملہ ہے۔"
میں نے کہا:
"آپ گھر کی باتیں چھوڑیں، یہ بتائیں کہ اسے کہاں دیکھا تھا؟"
اس نے تصویر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
"بادشاہو، بڑے بھوکے بول رہے ہو، ذرا پہلے اپنا تعارف تو کراؤ۔"
میں نے اسے بتایا:
"میں ایک تھانے کا انچارج ہوں اور اس بندے کی تلاش میں یہاں تک آیا ہوں۔"
وہ فوراً بولا:
"ہاں ہاں یاد آیا جناب، یہ بندہ تو مشتاق باجوا کا پروہنا ہے۔"
میں نے مشتاق باجوا کے گھر کے متعلق پوچھا کہ کس طرف ہے۔
وہ بولا:
"جناب، مشتاق باجوا کا گھر تندور والی گلی میں ہی ہے، آپ کسی سے بھی تندور والی گلی کا پوچھ لیں۔"
اب مجھے کسی سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ راستے میں آتے ہوئے میں نے ایک گلی کے کونے پر تندور دیکھا تھا۔
ہم دکان سے نکلنے لگے تو حجام نے کہا:
"تھانے دار صاحب، ایسے تو نہ جائیں، کوئی لسی پانی پیتے جائیں۔"
اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ایک شخص نے اُٹھتے ہوئے کہا:
"ٹینی جی، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔"
پھر وہ آدمی مشتاق باجوا کے گھر تک ہماری رہنمائی کر کے واپس چلا گیا۔
مشتاق باجوا کا گھر کافی بڑا تھا۔ میری دستک کے جواب میں ایک خوبصورت عورت نے دروازہ کھولا۔ اس کی عمر پچیس، چھببیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ وہ سرخ و سفید رنگ کی ایک پرکشش عورت تھی۔
اپنے سامنے اجنبی لوگوں کو دیکھ کر اس نے دروازہ ادھورا بند کر دیا اور ایک پٹکی اوڑھ کر دوبارہ سامنے آ گئی۔ پھر ہم سے پوچھا:
"آپ کو کس سے ملنا ہے؟"
میں نے پوچھا:
"مشتاق باجوا صاحب گھر میں ہیں؟"
اس عورت نے کچھ جھجھکتے ہوئے جواب دیا:
"وہ تو جی شام کو آئیں گے۔"
میں نے پوچھا:
"کہاں گئے ہیں؟"
اس نے جواب دیا:
"کسی ضروری کام سے شیخوپورہ گئے ہیں۔ پر اگر آپ کو کوئی ضروری پیغام دینا ہے تو مجھے بتا دیں، میں ان کی بیوی ہوں۔"
میں نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا:
"ہم تو بہت لمبا سفر کر کے آئے ہیں اور باجوا صاحب سے ملے بغیر واپس نہیں جا سکتے۔"
وہ بولی:
"اس سے پہلے میں نے آپ کو کبھی دیکھا نہیں، آپ کا نام کیا ہے؟"
میں نے سوالیہ نظروں سے حوالدار کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک آنکھ دبا کر مجھے اشارہ کیا۔
میں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا:
"میرا نام حیات ہے، اور میرے ساتھ چوہدری رحمت علی آئے ہیں۔"
میرا حوالدار اپنے چہرے اور مونچھوں کی وجہ سے واقعی کسی چوہدری جیسا ہی دکھائی دیتا تھا۔
وہ بولی:
"اچھا اچھا، چوہدری رحمت علی کاموکے والے؟"
میرا اندازہ بالکل درست نکلا۔ میں نے فوراً کہا:
"ہاں جی، ہم کاموکی سے ہی آئے ہیں۔"
وہ بولی:
"میں آپ کے لیے بیٹھک کھلواتی ہوں، مشتاق آپ کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں۔"
یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ ہمیں بآسانی گھر میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد ہم مشتاق باجوا کی بیٹھک میں بیٹھے ٹھنڈی ٹھار لسی پی رہے تھے۔
میں جانتا تھا کہ جب مشتاق گھر پہنچے گا تو ہمارا بھانڈا پھوٹ جائے گا، مگر اس کی مجھے ذرا بھر بھی پروا نہیں تھی۔
مشتاق کی بیوی نے اپنا نام "جمیلہ" بتایا۔ کچھ دیر بعد وہ بھی آ کر ہمارے ساتھ بیٹھ گئی۔
میں نے اس سے پوچھا:
"اتنے بڑے گھر میں خاموشی چھائی ہوئی ہے، کیا آپ کے علاوہ اس گھر میں کوئی نہیں رہتا؟"
اس نے جواب دیا:
"شام تک رونق لگ جائے گی، مہمان آنے والے ہیں۔"
وہ مسکرا کر بولی:
"آپ یہی سمجھ لیں... ویسے مہمان تو آ چکے ہیں، اور آنے والے بھی ہیں۔"
میں نے کہا:
"میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔"
اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا:
"یہ چوہدری صاحب ہی تو ہمارے مہمان ہیں نا!"
میں نے کہا:
"یہ تو ہے، پر وہ 'آنے والے' کون ہیں؟"
وہ بولی:
"دراصل بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے مشتاق کا ایک پرانا دوست، اپنی بیوی کے ساتھ، ہمارے گھر ٹھہرا ہوا ہے۔ بس وہی آنے والے ہیں۔"
میں نے کہا:
"آپ بہت مشکل باتیں کرتی ہیں۔ ایک طرف کہتی ہیں کہ وہ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، اور دوسری طرف کہتی ہیں کہ وہ آنے والے ہیں۔"
میری بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستے ہوئے بولی:
"آپ میری بات کو صحیح طرح سمجھے نہیں۔ دراصل وہ مہمان آج صبح ہی مشتاق کے ساتھ شیخوپورہ گئے ہوئے ہیں، اور شام کو واپس آئیں گے۔"
میں نے دل ہی دل میں اطمینان کا سانس لیا، ورنہ تو مجھے لگ رہا تھا کہ ہم یہاں پہنچنے میں دیر کر چکے ہیں اور ماسٹر یونس کہیں اور جا چکا ہے۔
جمیلہ نے اُٹھتے ہوئے کہا:
"اچھا جی، آپ لوگ بیٹھیں، میں ذرا ہانڈی روٹی کا بندوبست کر لوں۔ بس تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ بھی آنے والے ہیں۔"
مشتاق باجوا کے آتے ہی ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
جب اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ ہم نے اپنا تعارف "چوہدری رحمت علی" کے طور پر کرایا ہے تو وہ چراغ پا ہو گیا اور ہمیں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینے لگا۔
خیر، اس بات پر تو وہ حق بجانب تھا، مگر وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ اس کا دوست احد اپنی بیوی کو ساتھ لے آیا ہے۔
وہ اس بات پر بضد تھا کہ وہ دونوں میاں بیوی ہیں۔
جب میں نے اسے ساری صورتحال بتا دی تو وہ ٹھنڈا ہو کر بیٹھ گیا۔
اسی وقت ہم نے ماسٹر یونس اور راحت کو گرفتار کر کے تھانے لے آئے۔
جب سکندر علی کو پتہ چلا کہ اس کی بیوی بازیاب ہو گئی ہے تو وہ دوسرے روز تھانے آیا۔
آتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا:
"راحت کہاں ہے؟"
میں نے اسے ساتھ لیا اور حوالات تک لے گیا۔
ہم نے گزشتہ رات دونوں بھگوڑوں کو الگ الگ حوالات میں بند کر دیا تھا۔
سکندر علی نے خاموشی سے راحت کی طرف دیکھا، اور گرجنے یا برسنے کے بجائے ایک ہی لفظ تین بار دہرایا۔
اس نے اپنی بے وفا بیوی کو طلاق دے دی تھی۔
اس کے بعد وہ وہاں ایک منٹ بھی نہیں رکا۔
ماسٹر یونس نے نہایت شرافت سے اپنا جرم قبول کر لیا۔
راحت نے بھی
کھلا ڈلا بیان دے دیا۔
دونوں نے اقبالِ جرم کر کے میرا کام آسان بنا دیا، ورنہ مجھے سخت طریقے آزمانے پڑتے۔
دوسرے روز میں نے ان کا چالان تیار کر کے دونوں کو عدالت میں پیش کر دیا۔
ملک صفدر حیات, قتل یا خودکشی, جرم و سزا, اردو کہانیاں, سسپنس کہانیاں, پولیس تفتیش, ماسٹر یونس کیس, راحت کی بے وفائی, اردو ناول, تھرلر, اردو جاسوسی کہانیاں, اردو کرائم کہانیاں, عبرتناک انجام, اردو ادب, اردو انوکھے کہانیاں