#میں_تم_اور_وہ
#از_قلم_نوشابہ_منیر
آخری قسط
شدت والی محبت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے وہ محبت ہی کیا جہاں کسی اپنے کو کھونا پڑ جائے ۔ مجھے ایسی محبتیں نہیں چاہیں تھیں ۔۔۔۔
" مجھے نہیں پتہ میں نہیں جانتا کہ تم کیوں مجھ سے اتنا ڈرتی ہو میں نے تم سے کتنی بار تو کہا ہے میں چاہ کر بھی تمھیں کچھ نہیں کہہ سکتا کوئی تکلیف کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ مجبور ہوں میں اپنی اس دیوانگی کے ہاتھوں مت رویا کر تو میرے سامنے تیرے آنسو مجھے کمزور کر دیتے ہیں ۔ بہت تکلیف دیتے ہیں ۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتے یہ تیرے آنسو میں نے تم سے محبت تمھیں رولانے کے لیے نہیں کی تھی ۔ تم میری محبت کی دیوانگی ہو میرا جنون ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا تھا ۔۔
میں نے سر اٹھا کر مومن کی طرف دیکھا وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہا تھا اس نے آنکھوں کے اشاروں سے مجھے چپ رہنے کا اشارہ دیا تھا ۔ تب میں نے سامنے بیٹھے اسد کی طرف نظر ڈالی تھی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اسکی آنکھیں نم ہوں آنسووّں سے بھیگی ہوئی ہوں ۔ یا شاید مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کچھ توقف کے بعد اس نے دھیمی آواز میں ایک بار پھر بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" میرے اس جنون اور پاگل پن کو کبھی خود غرضی کے ترازو میں مت تولنا میں نے کبھی تم سے صلہ پانے کے لیے محبت نہیں کی تھی اور کبھی میں نے صلے میں تم سے کچھ مانگا بھی نہیں ۔ کبھی یہ نہیں ہے کہ تم بھی مجھ سے محبت کرو میرے جتنی نہ صحیح پر تھوڑی سی تو کر لو ۔ میری محبت کا کچھ تو صلہ دے دو اس محبت میں مجھے سوائے ذلت کے کبھی کچھ نہیں ملا میں نے وہ ذلت بھی محبت سمجھ کر اپنی آنکھوں سے لگا لی تھی ۔ چلو تمھاری محبت نہ صحیح نفرت ہی سہی ۔ کرنے کو میں بہت کچھ کر سکتا تھا پر میری اس دیوانگی میں تمھاری آنکھوں سے جو پانی بہتا یہ مجھے کبھی گوارہ نہیں ہوتا ۔ میں نے محبت کسی لالچ میں نہیں کی یہ ایک لاشعوری عمل تھا جو مجھ سے سرزد ہوا ہے ۔ جس کے لیے مجھے کبھی بھی پچھتاوّا نہیں ہو گا میرا ایسا کون سا عمل ہے جو تجھے پسند نہیں مجھے بتاوّ میں وہ کرنا چھوڑ دوں گا جس سے تمھیں تکلیف پہنچے میں وہ کبھی نہیں کروں گا۔ بس جو تمھیں مجھ سے جدا کرے مجھے یہ گوارا نہیں ہو گا تم ان سب کو روک دو خدا کی قسم پھر میں کسی کو کچھ نہیں کہوں گا بس مجھے تم سے جدا نہ کریں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ
بے بسی کی آخری حد پر تھا ۔۔
" اگر میری محبت ہوس ہوتی تو جب تم نے شادی کر لی تھی میں تمھیں اسی وقت چھوڑ دیتا پر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میری محبت ہوس نہیں میری دیوانگی میرا پاگل پن میرا جنون تھی ۔۔۔۔ اگر یہ محبت واقعی ہوس ہوتی تو مجھے چاہیے تھا میں تیری جان لے لیتا یا پھر تیرے شوہر کو ہی مار دیتا پر میں نے ایسا بھی نہیں کیا جانتی ہو کیوں ؟
کیونکہ جب میں تمھارا چہرہ دیکھتا ہوں تو میری محبت میرا پاگل پن میرا جنون میری نفرت پر حاوی ہو جاتا ہے پھر میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا اور میری محبت اتنی خود غرض نہیں کہ وہ تمھیں دکھ اور تکلیف پہنچائے ۔۔ تکلیف پہنچانے کا تو دور میری محبت سوچنا بھی گناہ کیبرہ سمجھتی ہے ۔ مجھے تم سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے ۔ پر نا جانے کیوں
نا چاہتے ہوئے بھی ہر بار ہر دکھ میری وجہ سے ہی تمھیں ملتا ہے تم میرا یقین کرو تم میری دیوانگی کی آخری حد ہو ۔ میں مر تو سکتا ہوں لیکن تمھیں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ مجھ میں سکت نہیں ہے تجھے کھونے کی تجھے چھوڑ کے جانے کی اگر میں تمھارے پاس سے چلا گیا تو ہو سکتا ہے یہ دنیا ہی چھوڑ دوں تم لوگ مجھ سے بے زار کس لیے ہوتے ہو اب تو میں تمھارے پاس بہت کم آتا ہوں تنگ بھی نہیں کرتا
اور تو اور میں اب آپ لوگوں کے گھر سے بھی چلا گیا ہوں میں تم لوگوں سے اور کچھ بھی نہیں چاہتا بس ایک اجازت دے دو کہ میں کبھی کبھار تم سے ملنے آ جایا کروں "۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ٹھنڈی سانس خارج کرتے ہوئے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر پوچھا تھا ؟؟؟
" میں وعدہ کرتا ہوں میں کبھی تم لوگوں کے سامنے بھی نہیں آوّں گا کبھی تم لوگوں کو تنگ بھی نہیں کروں گا پر اتنا حق مجھے دے دو میں دور سے ہی تمھیں دیکھ کر چلا جاوّں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مومن کی طرف دیکھا مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے مجھے روکا تھا پھر میں نے بھی فوراً انکار کر دیا تھا ۔
" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تم چلے جاو یہاں سے میں اجازت نہیں دے سکتی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" پر ایسا کیوں ؟ کیوں اتنی نفرت کرتی ہو مجھ سے میں کون سا تم لوگوں کے سامنے آوّں گا بس دور سے دیکھ کر چلا جاوّں گا اتنا تو حق دے دو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑی آس و امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔
مجھے بھی اس پر ترس آ گیا تھا ۔
میں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اسے اجازت دے دی تھی ۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی ۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ مومن ایسا نہیں چاہتا پر نا جانے کیوں مجھے اس کے چہرے پر چھائی
بے بسی تکلیف درد دیکھ کر اس پر ترس آ گیا تھا اس نے سر اٹھا کر میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا
" بس آپ پانچ 5 منٹ رکو میں ابھی آپکی بیٹی کو لے کر آتا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے خوشی سے کہا اسکی ایک ایک حرکت سے خوشی ٹپک رہی تھی ۔
وہ جھٹکے سے اٹھا تھا ۔۔۔
" تم مجھے پاگل یا بے وقوف سمجھے ہو جو میں تمھیں جانے دوں گا اگر تمھیں جانے دیا تو ہو سکتا ہے تم واپس ہی نہ آو میری بیٹی دو پھر چلے جانا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن غصے سے چیخا ۔
" میں وعدہ کرتا ہوں میں واپس ضرور آوّں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا وہ جواب تو مومن کو دے رہا تھا پر اسکی نظریں میرے اوپر ٹکی ہوئی تھی کیونکہ میں اسکی نظروں کی تپش اپنے وجود کے آر پار محسوس کر رہی تھی میری نظریں اس پر نہیں تھیں پر اسکی نظروں کی گرمی سے میرا پورا وجود جھلس رہا تھا میں نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تو وہ پہلے سے ہی مجھے دیکھ رہا تھا میں نے فوراً اپنی نظریں پھیر لیں تھیں ۔
مومن نے ایک بار پھر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری تو وہ اچھل کر زمین پر جا گرا تھا ۔
" یار ایسا مت کر مجھے تکلیف ہو رہی ہے چھوڑ دے مجھے ۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔۔۔ وہ دھاڑا ۔۔۔۔
مومن اسے چھوڑ دو یہ واپس ضرور آئے گا مجھے پورا یقین ہے اس پر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ بات اس لیے کی تھی کیونکہ ایک بار انکل نے مجھے کہا تھا یہ وعدے کے بڑے سچے ہوتے ہیں دوسری اور سب سے اہم بات جو تھی وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا وہ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ میں اتنا جان گئی تھی ۔ اسکی باتوں میں جو سچائی تھی جو اسکے چہرے پر میرے لیے محبت تھی ۔ وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی تھی میں جان گئی تھی وہ مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا ۔۔
مومن نے میری بات سنی ہی نہیں تھی وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ اس پر پھونک مارتا ۔
اور وہ تڑپنے لگتا مومن نے یہ عمل تیز کر دیا تھا ۔
وہ تڑپتے تڑپتے نیم بے ہوش ہو چکا تھا ۔۔
" مومن اب تو بس کر دو خدا کے لیے وہ مر جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے دل میں پتہ نہیں کیوں اسکے لیے اتنی ہمدردی جاگ اٹھی تھی میں نے چیختے ہوئے اسے روکا پر اس نے میری بات نہ مانی تھی ۔
" خدا کے لیے مومن بس کر دو ۔۔۔۔۔ میری بیٹی اسکے پاس ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بے بسی لاچارگی سے اسے ایک بار پھر سے روکنا چاہا تھا
تب شاید اسکے دماغ میں میری بات جا لگی تھی تو اس نے عمل کرنا ترک کر دیا تھا ۔۔۔
کاش اسد انسان ہوتا تو میرا انتخاب آج وہی ہوتا اور مجھے ہمیشہ اپنے اتتخاب پر فخر بھی ہوتا بس کبھی کبھی میں اسکی جنونی محبت سے ڈر جاتی ہوں اپنوں کو کھونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اگر یہ میرے اپنوں کو نہ مارتا اور ہوتا بھی انسان تو آج میرا انتخاب وہی ہوتا اس نے آج تک میری کوئی بات رد نہیں کی تھی ۔ محبت تو وہ مثالی کرتا تھا ۔ کبھی انسان کو اس قدر محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی وہ کرتا تھا یا الله پاک فرماتے انسان جنات سے بھی شادی کر سکتے ہیں میں تب بھی اسے اپنا لیتی بھلا کوئی اتنی محبت کسی سے کیسے کر سکتا ہے جتنی اس پاگل نے مجھ سے کی میں آج بھی حیران ہوتی ہوں اس کی محبت دیکھ کر وہ اس محبت کی خاطر کتنا ذلیل ہوا تھا ۔ اگر ایسا کوئی انسان ہوتا تو وہ کب کا اپنی محبت چھوڑ کر جا چکا ہوتا ۔
تب ہی کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اس کھڑکی سے ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی تھی وہ لڑکی اتنی خوبصورت تھی کہ میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی وہ کسی کو بنا دیکھے بنا کسی سے بولے سیدھی اسد کے پاس چلی گئی تھی اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سسک پڑی تھی پھر اس نے مومن کی طرف دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔
" کیا کر دیا ہے تم نے اسکے ساتھ ؟ یہ کچھ بولتا کیوں نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی اسکی پلکیں بھیگی ہوئیں تھیں ۔۔
" اگر اسے کچھ ہوا تو اتنا یاد رکھنا میں تم لوگوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی تم لوگوں سے میں ضرور بدلہ لوں گی
میں تمھاری بیٹی کبھی واپس نہیں کروں گی اب سسکتے رہو اپنی بیٹی کے لیے جس طرح آج میں سسک رہی ہوں اپنے اسد کے لیے تم لوگوں کا یہ میری طرف سے انتقام ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے غراتے ہوئے کہا ۔
" میں بھی دیکھتا ہوں تم مجھے میری بیٹی کیسے واپس نہیں کرتی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن نے تڑپ کر جواب دیا تھا میں الگ پریشان ہو گئی تھی ۔ میری غیر ہوتی حالت دیکھ کر مومن نے آنکھوں کے اشاروں سے مجھے تسلی دی تھی ۔
" کہا بھی تھا ناں تمھیں
یہ انسان بڑی ظالم مخلوق ہے کیوں چلے آئے ہو ان ظالموں کی دنیا میں ہم کتنے خوش تھے اپنی زندگی اور دنیا میں تمھیں بھی محبت ہوئی تو کس سے ایک ظالم اور سفاک لڑکی سے جسے تمھاری ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے ۔ جو محبت سے بھی آشنا نہیں تھی ۔ اٹھو میرے ساتھ اپنی دنیا میں واپس چلو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا تھا ۔ میں نے شرمندگی سے اپنا چہرہ جھکا لیا تھا واقعی اس بے چارے کو میری محبت میں ملا تو کچھ بھی نہیں سوائے ذلت کے وہ لڑکی اسے لے کر ہوا میں کہیں تحلیل ہوگئی تھی ۔ مومن نے بھی اسے جانے دیا تھا ۔
میں دو دن تک بیمار رہی تھی ایک تو مجھے اپنی بیٹی کی پریشانی نے آدھ مویا کر دیا تھا دوسرا رہ رہ کر مجھے اس بچارے کا خیال ستانے لگتا تھا اسی کشکمش میں دو دن پریشان اور بیمار رہی تھی مومن الگ پریشان تھا اس بات پر سارا گھر پریشان تھا ۔ مومن نے سب کچھ بتا دیا تھا جسے سن کر انکل تو اس سے بھی زیادہ پریشان ہو گیا تھا ۔
" انکل میں نے انکو روکا تھا کہ اگر وہ آنے کا کہہ رہا ہے تو ضرور ہماری بیٹی کو واپس لے کر آئے گا پر انہوں نے میری ایک بھی نہیں مانی عمل دوہراتے رہے وہ زخموں سے چور
بے ہوش ہو گیا تھا ایک لڑکی نے کہا ہے وہ میری بیٹی اب واپس نہیں کرے گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اتنا کہہ کر سسک اٹھی تھی
پتہ نہیں میرے دل کو کیا ہوا تھا میں سب کے سامنے بلک بلک کر رو پڑی تھی ساری فیملی اور انکل نے مجھے کافی حوصلہ اور تسلی دی تھی خود مومن نے بھی مجھے کافی تسلی دی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ سب جانتے تھے میں بیٹی کی وجہ سے بہت پریشان ہوں میرے دل میں بیٹی کی تکلیف تو تھی ہی اس بے چارے کا بھی بہت دکھ تھا میں یہ تو جانتی تھی وہ ہر صورت میری بیٹی مجھے واپس کر دے گا اصل دکھ تو مجھے اسد کی ذات کا تھا اس پیار میں اسے کیا ملا تھا سوائے دکھ اذیت کے ٹھکرائے جانے کا دکھ دل میں اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے جب جب میری آنکھوں کے سامنے اس کا چہرہ آتا تو میرا دل درد سے پھٹنے لگتا تھا اس بار جب وہ آئے گا میں خود اسے پیار سے سمجھاوّں گی یہ فیصلہ میں نے دل میں کر لیا تھا اور اس فیصلے پر میں دل سے مطمئن اور سرشار ہوگئی تھی ۔
❤❤❤
اس بات کو آج تیسرا دن تھا جب وہ ایک بار پھر میرے روبرو کھڑا تھا اس کے بازو میں میری بیٹی بھی کھیل رہی تھی ۔۔
" میں نے جو وعدہ کیا تھا آج اسے پورا کرنے آیا ہوں میں اپنا وعدہ جلدی پورا کر دیتا پر میں اتنا زخمی تھا کہ یہاں تک چل کر آنا بھی میرے بس میں نہیں تھا ۔ اس لیے وعدے کو پورا کرنے میں کافی سارے دن لگ گئے جس کے لیے میں بے حد شرمندہ ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اسکی آنکھیں اور آواز بھیگی ہوئی محسوس کی تھی اس نے میری بیٹی میرے بازوؤں میں دیتے ہوئے شرمندہ لہجے میں کہا تھا ۔۔۔ اس دن والی لڑکی بھی اسکے ساتھ تھی ۔
میں نے اپنی بیٹی کو لے کر سینے سے لگایا تھا ۔۔۔۔
" چلو اب یہاں کھڑے کب تک اسے یوں ہی دیکھتے اور ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہو گے گھر نہیں چلنا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی نے پتھرائی مگر کرخت لہجے میں کہا ۔
وہ جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھا ۔
" سنو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے پکارا ۔۔۔۔
" میں نے تم سے کچھ بات کرنی ہے ایک پل کے لیے میری بات سن لو "۔۔۔۔۔۔۔
ان دونوں نے پیچھے مڑ کر میری طرف حیرت سے دیکھا تھا ۔۔۔
اس وقت مومن گھر پر نہیں تھا ۔
میں بالکل تنہا تھی ۔
" ایک بار تم نے یہاں آنے کی اجازت مانگی تھی ناں تمھیں آنے کی اجازت دینے سے پہلے میری ایک شرط ہے اگر تم میری وہ شرط مان لیتے ہو تو جب بھی تمھارا دل چاہے تم یہاں آ سکتے ہو مجھے دیکھ سکتے ہو بلکہ مل بھی سکتے ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی بیٹی کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے نرمی سے کہا کیونکہ میری بیٹی میرے بازوؤں میں کھیلتے کھیلتے سو چکی تھی ۔۔۔
" کیسی شرط "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس وقت اسکی آنکھوں میں حیرت تھی ۔
" مجھے آپکی ہر شرط منظور ہے بس مجھے یہاں آنے کی اجازت دے دیں کہ میں کبھی کبھار آپ سے ملنے آ جایا کروں آپکو دیکھ لیا کروں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آواز میں میں نے ہلکی سی خوشی کا عنصر محسوس کیا تھا ۔
" میری شرط ہے تم اس لڑکی سے شادی کر لو جو تم سے بے انتہا محبت کرتی ہے تمھاری فکر کرتی ہے تمھاری محبت میں دم بھرتی ہے"۔۔۔۔۔ میں نے اس کے پاس کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
اس لڑکی نے سر اٹھا کر میری طرف کافی حیرت سے دیکھا اسکی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے چمک ہوئی تھی دوسرے ہی لمحے وہ چمک مدھم پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
" یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم جانتی بھی ہو کتنی محبت کرتا ہوں میں تم سے اس کے باوجود بھی تم ایسا چاہتی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کافی حیرت سے پوچھا ؟ اور دو قدم چل کر میرے اور قریب ہوا تھا ۔۔۔۔۔
" ہاں میں ایسا چاہتی ہوں جتنی محبت تم مجھ سے کرتے ہو میری فکر کرتے ہو یہ شاید تم سے بھی کہیں زیادہ تم سے محبت کرتی ہے تمھاری فکر کرتی ہے تم میرے تو نہیں ہو سکتے تو کم سے کم اس کے ہی ہو جاو یہی محبت کا تقاضا ہے جس سے آپ محبت کرتے ہو وہ نہ صحیح جو آپ سے محبت کرتا ہے وہ صحیح "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کافی دھیمی آواز میں کہا تھا ۔
" یہ تمھاری نفرت ہے یا مجھ سے محبت "۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے مجھ پر نظر ڈالتے ہوئے بے قراری سے پوچھا ؟
" نہ محبت ہے نہ ہی نفرت ۔۔۔۔ یہ میرا تم پر ایک مان ہے ۔ اگر میں تم سے نفرت کرتی تو آج تم میرے روبرو نہ کھڑے ہوتے ۔
میں تم کو دیکھنا بھی پسند نہ کرتی ۔ میں چاہ کر بھی میں تم سے نفرت نہیں کر سکتی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو گئی تھی ان دونوں کی آنکھوں میں حیرت تھی میں نے سر اٹھا کر اس لڑکی کو دیکھا جو آنکھوں میں حیرت اور لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لیے مجھے دیکھ رہی تھی
" ہاں نفرت تو میں تجھ سے کبھی بھی نہیں کر سکی محبت میں اپنے شوہر سے کرتی ہوں تم نے میری کبھی کوئی بات رد نہیں کی تو یہ وہی مان ہے اور مجھے امید ہے تم یہ مان بھی نہیں توڑو گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پھر سے اپنی بات وہی سے جوڑی تھی
" آپ اتنا مان کرتیں ہیں مجھ پر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرت بھرے تاثرات سے میری طرف نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا ؟؟ تو میں نے بھی فورا سر اثبات میں ہلا دیا تھا پھر فورا اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔۔۔۔
" آپ نے جو بھی کہا میں نے آپکی ہر بات مانی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس بار آپ کو مایوس کر دوں ۔ جو آپ چاہتی ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہوگا "۔۔۔۔۔۔۔ اس نے میری بات تیزی سے کاٹی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں تمھارا مان اس بار بھی نہیں توڑوں گا نہ ہی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ تمھاری آنکھوں میں آنسو دیکھ سکوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مجبت پاش نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ۔
" اگر آپ یہی چاہتی ہیں تو میں یہ کڑوا گھونٹ بھی پینے کو تیار ہوں میں یہ شادی ضرور کروں گا اگر تمھاری خوشی اس بات میں ہے تو میں یہ ضرور کروں گا میرا وعدہ رہا آپ سے میں یہ شادی ضرور کروں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔
کمرے میں کھڑی وہ خوبصورت سی لڑکی دھیرے سے چلتے ہوئے میرے قریب ہوئی تھی کتنے ہی پل ٹکٹکی باندھے وہ مجھے گھورتی رہی پھر کچھ توقف کے بعد اس نے بہت ہی دھیرے سے کہا ۔۔۔۔
" میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی ۔ آپ نہیں جانتی جو خوشی آج آپ نے میرے نام کی ہے اسکا احساس کتنا مسحور کن ہے جس کو پانے کے لیے میں نے اپنا تن من دھن تک قربان کر دیا تھا اس نے پھر بھی میری طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا اور آج آپ نے بس اتنا کہا اور وہ مان گیا وہ آپ سے واقعی سچی محبت کرتا ہے میں کبھی اسے آپکا حوالہ نہیں دوں گی آپ نے تو میری پوری زندگی سنوار دی ہے میں آپ کا یہ احسان کیسے بھول سکتی ہوں میرے پاس آپکو دینے کے لیے اور تو کچھ بھی نہیں ہے جو خوشی آپ نے میرے مقدر میں لکھی ہے اسکے سامنے ہر قیمتی سے قیمتی تحفہ بھی چھوٹا اور حقیر سا لگتا ہے میرے سامنے تو ہیرے زیوارت بھی کوئی معنی نہیں رکھتے مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں آپکے سامنے ایسا کیا رکھوں کہ اس معیار پر پورا اتر سکے ۔ ابھی فلحال میرے پاس یہ چھوٹا سا تحفہ ہے آپ اسے قبول کر لیں تو مجھے بہت خوشی ہو گئی جب میری شادی ان سے ہو جائے گی تو میں آپکے پاس واپس آوّں گی اور وہ چیز آپکو انعام میں دوں گی جو اسد کی محبت کی شایان شان کے برابر ہو گی مجھے تو دنیا کی ہر چیز اسکی محبت کے آگے بہت چھوٹی حقیر سی لگتی ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے ہاتھوں میں ایک سونے کا بڑا سا ہار تھا اس نے وہی ہار میری طرف بڑھا دیا تھا ۔۔۔۔۔
" ارے نہیں نہیں مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں بس تم مجھ پر ایک احسان کر دینا اسے بہت خوش رکھنا اسے کبھی کوئی بھی غم نہ دینا یہ محبت کا ٹھکرایا ہوا ہے اسکی قدر کرنا اسے اتنا پیار دینا کہ یہ مجھے بھول جائے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد کے میرے زندگی سے چلے جانے کے تصور سے ہی میری آنکھیں بھیگ گئیں تھیں ۔
" آپ اس کی فکر نہ کریں میں اسے بہت خوش رکھوں گی آخر وہ میری بچپن کی محبت ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی سونے کا سیٹ میرے ہاتھوں میں تھما کر خود ہوا میں کہیں تحلیل ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
پھر بہت سارے سال گزر گئے تھے اسد واپس نہ آیا ۔ یہ بات میں نے بہت محسوس کی تھی انسان بھی ناں کتنا نا شکرا ہوتا ہے جو چیز اسکی ملکیت ہوتی ہے تب اس چیز کی کوئی قدر نہیں ہوتی جب وہ چیز اس سے چھین جائے تب اسے احساس کے ساتھ ساتھ وہی چیز دوبارہ بھی چاہیے ہوتی ہے پر افسوس ہم وہی چیز کھو چکے ہوتے ہیں ۔ وہ اس چیز کے لیے روتا گڑگڑاتا بھی ہے ۔ میری کیفیت بھی بلکل ایسی تھی جب وہ میرے پاس تھا تو مجھے اس سے بہت ڈر لگتا تھا دل چاہتا تھا یہ میری زندگی سے کہیں دور چلا جائے اور آج جب وہ چلا گیا تو میں اسکے لیے بہت پریشان اور
بے چین تھی تڑپ رہی تھی گڑگڑا رہی تھی ۔ مجھے اپنی کیفیت خود سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ چاہے جانے کا خمار انسان کو پاگل کر دیتا ہے چاہے آپ کسی کو پسند نہ کرتے ہوں پر کوئی آپ کو دل و جان سے چاہتا ہو اور یہ بات آپکو بھی معلوم ہو تو یہ سرور یہ خمار الگ ہی مزا دیتا ہے اسے یہاں سے گئے پانچ چھ سال ہو گئے تھے میں نے اسے پھر سے اپنے گھر میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا پھر ایک دن اچانک ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بیٹی کے کپڑے لینے بازار گئی ہوئی تھی ۔ ایک ٹرک والے نے میری بیٹی کو ٹکر ماری یہ دیکھ کر میری چیخ نکلی تھی میں تڑپتے ہوئے اسکی طرف بھاگی تھی ۔ آپ یقین کریں میں بالکل جھوٹ نہیں کہہ رہی جب میں نے دیکھا تو میری بیٹی صحیح سلامت کھڑی تھی اور ٹرک والے کا ٹرک الٹا پڑا تھا یہ منظر دیکھ کر مجھے اپنا منظر یاد آیا تھا
جب مجھے بھی ٹرک والے نے ٹکر ماری تھی تب مجھے بھی تو کچھ نہیں ہوا تھا پر وہ ڈارئیور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج مجھے اپنی بیٹی کو دیکھ کر احساس ہو رہا تھا ۔ آج میرا بھی دل چاہ رہا تھا ۔ میں اپنے پرس کے سارے پیسے اپنی بیٹی کے سر پر وار دوں ۔ جیسے اس دن ایک لڑکے نے ہزار کا نوٹ دے کر کہا اسے خیرات کر دیں کہا تھا ۔ آج وہی منظر ایک بار پھر سے دوہرایا گیا تھا فرق بس اتنا تھا کل میں تھی آج میری بیٹی ہے تب مجھے خاص احساس نہیں ہوا تھا کیونکہ تب دیکھنے والے کوئی اور تھے محسوس کرنے والے بھی کوئی اور تھے آج وہی بھیانک واقعہ میری لخت جگر کے ساتھ پیش آیا تھا آج دیکھنے والی بھی میں تھی محسوس کرنے والی بھی میں ہی تھی ۔ آج مجھے احساس ہو رہا تھا اگر اس لڑکے نے مجھے ہزار کا نوٹ دیا تھا تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی ایکسیڈنٹ بھی تو اتنا بھیانک تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں اس ٹرک والے کے کے قریب گئی اور دیکھا تو اس بے چارے کا بھیجا ہی باہر آیا پڑا تھا اس نے موقع پر ہی دم توڑ دیا تھا ۔
مجھے شک ہوا اسد یہیں کہیں آس پاس موجود ہے ۔ میں اسے ڈھونڈنے کے لیے نظریں ادھر ادھر دوڑا رہی تھی ۔ کہ وہ سامنے کچھ فاصلے پر کھڑا میری بچی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
" ہائے "۔۔۔۔۔۔ اس نے میری بیٹی کو دیکھ کر اسکی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
میری بیٹی بھی انکل کہتے ہوئے اس کی طرف بھاگی چلی گئی تھی ۔۔۔ جیسے برسوں کی شناسائی ہو اسکے ساتھ ۔ میں یہ منظر دیکھ کر کافی حیران ہوئی تھی ۔ جب یہ میری بیٹی کو لے گیا تھا تب وہ بہت چھوٹی تھی ۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے قریب ہو گی
اور اب وہ سات سال کی ہو گئی تھی ۔۔۔
تو یہ کیسے ممکن تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ وہ میری بیٹی کو یاد تھا ۔۔۔
" تم یہاں کیا کر رہے ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں نے اسکے قریب آتے ہوئے دھیرے سے پوچھا ؟ در حقیقت مجھے خود اسے دیکھ کر انوکھی خوشی ہوئی تھی ۔ بہت اچھا لگا اسے اپنے قریب دیکھ کر جو میری بیٹی کو بازوؤں میں اٹھائے ہوئے کھڑا تھا ۔
اس نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔
" کہاں جاوّں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اسکی آنکھوں میں دیپ روشن تھے اسکی آنکھیں اتنی خوبصورت اور روشن تھیں کہ مجھے اپنی آنکھیں اسے دیکھتے ہوئے جھکانی پڑ گئیں تھی ۔ کیونکہ اتنی خوبصورت آنکھوں کو دیکھنا میرے بس سے باہر تھا اسکی دراز پلکیں سایہ فگن تھیں میں نے اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت اور روشن روشن آنکھیں کبھی کسی کی نہیں دیکھیں تھیں ۔۔۔۔۔
" آپ کا حکم تو مان لیا تھا ۔ کر لی تھی شادی اس سے جس کا آپ نے حکم دیا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آواز میں گھنگروں کی جھنکار تھی ۔
" ارے واہ ۔۔۔۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں خوشی سے جھوم اٹھی تھی مجھے بے حد خوشی ہو رہی تھی ایک تو یہ خوشی محسوس کی تھی کہ وہ واقعی مجھ سے کتنی سچی محبت کرتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اس لڑکی سے شادی کر لی تھی کیونکہ یہ میرا جو حکم تھا وہ کیسے ٹال سکتا تھا اور دوسری خوشی یہ کہ اس نے میرا مان نہیں توڑا تھا اور وہ زندہ ہے ۔ جس کو دیکھنے کے لیے میری آنکھیں ترس رہی تھیں آج وہ میرے روبرو کھڑا تھا ۔ مجھے منزل نہ صحیح پر اس لڑکی کے راستے تو آسان ہو گئے تھے میرے لیے اس سے بڑھ کر اور خوشی کیا ہو سکتی تھی ۔۔۔۔
اس نے اپنے سر کو اثبات میں ہلایا تھا ۔ کھیل وہ اب بھی میری بیٹی عناب سے رہا تھا عناب بھی اسے چمٹی ہوئی تھی جیسے وہ اسے برسوں سے جانتی ہو مجھے عناب کا انداز کچھ عیجب سا لگا تھا میرے ہوتے ہوئے وہ کسی کے پاس بھی نہیں جاتی تھی اور آج وہ اس سے یوں گھل مل گئی تھی جیسے وہ اسے بہت قریب سے جانتی ہو ۔۔۔۔
" عناب نیچے آئیں ہمیں کپڑے لینے بھی چلنا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میری بات ان سنی کرتے ہوئے اس سے چپٹی رہی مجھے بہت غصہ آیا تھا ۔
" عناب میں نے آپ سے کچھ کہا ہے آپکو سمجھ نہیں آ رہا ۔ کہ مما نے کیا کہا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آپ جائیں مجھے انکل کے پاس رہنا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بس اتنا کہا تھا ۔۔ مجھے اس پر بے حد غصہ آیا تھا میں نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا تو وہ اسکے بازووّں سے لڑکھڑاتے ہوئے نیچے گری تھی وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگیں کہ مجھے نہیں چلنا ۔ مجھے انکل کے پاس رہنا ہے ۔
" آپ بچی پر غصہ نہ کریں آپ چلیں میں اسے چھوڑ دوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے غصے سے اسکی طرف دیکھا تھا اس کا چہرہ ستا ہوا تھا تو مجھے بھی اس پر ترس آ گیا تھا اس لیے میں خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چل پڑی ۔ میں نے کپڑے لینے کا ارادہ ترک کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو جب وہ میرے پہلو میں سو کر موبائل سے کھیل رہی تھی تو مجھے اچانک صبح والا منظر یاد آ گیا تھا تو میں نے اپنی بیٹی سے پوچھ لیا ۔
" عناب جان آپ مما سے ناراض ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
اس نے بے اختیار اپنا سر اٹھا کر مجھے حیرت سے دیکھا پھر سر نفی میں ہلا دیا تھا ۔۔۔۔
" میری جان جو صبح انکل آپکو ملے تھے کیا آپ انکو جانتی ہیں "۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے اسکے ہاتھوں سے موبائل لیتے ہوئے پوچھا ۔
" نہیں مما میں انکو جانتی تو نہیں ہوں پر کچھ مہینے پہلے جب آپ مجھے سکول چھوڑنے جا رہی تھی تب ان سے میری بات ہوئی تھی "۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔
" پھر جان "۔۔۔۔۔۔۔ میں مزید اس سے اگلوانا چاہتی تھی ۔
" مما پھر یہ انکل مجھ سے روز ملنے آتے تھے جہاں میں جاتی یہ انکل پہلے سے وہاں پر ہوتے تھے روز مجھے سیر کروانے بھی لے جاتے مجھے چاکلیٹ چپس ٹافیاں لے کر دیتے تھے "۔۔۔۔۔۔۔ میں اسکی باتیں سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔
پھر یہ اکثر ہونے لگا وہ میری بیٹی کے ساتھ سائے کی طرح رہنے لگا ایک دن اچانک یہ میرے سامنے آ گیا تھا ۔
" تم چلے کیوں نہیں جاتے آخر "۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔ میں نے تکلیف سے کہا ۔۔۔
" چلا تو گیا ہوں تمھاری زندگی سے "۔۔۔۔۔ اس نے انتہائی کرب سے کہا ۔۔۔ اسکے چہرے پر جو دکھ اور تکلیف کے آثار تھے اس سے اندازا لگایا جا سکتا تھا اس وقت وہ کتنی تکلیف سے گزر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں آپکے سامنے کبھی نہیں آوّں گا وعدہ کیا تھا میں نے آپ سے ایک اور بھی وعدہ کیا تھا آپ سے آپکو نہ چھوڑنے کا میں ان دونوں وعدوں پر عمل کر رہا ہوں آپکے سامنے بھی نہیں آوّں گا اور آپکو کبھی چھوڑوں گا بھی نہیں خود کے لیے مجھے ان دونوں وعدوں پر قائم رہنے دیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو میں شادی والا وعدہ بھول جاوّں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتنا کہا اور وہاں سے تحلیل ہو گیا تھا ۔۔۔
اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا یہ محبت کرنے والے جنات کبھی نہیں جاتے یہ میرے سامنے آنے سے تو رک گیا تھا پر اس نے مجھے چھوڑا بھی نہیں تھا میری بیٹی جوان ہو گئی تھی اس نے آنا اب بھی نہ چھوڑا تھا ۔ آتا کبھی کبھی ہے پر آتا ضرور ہے اسکے اپنے بچے بھی جوان ہو گئے تھے ۔ ایک دن اس نے بتایا تھا اسے بیٹی ہوئی تھی اب تو وہ بھی جوان ہو گئی ہوگی ۔
پر اس کی محبت آج بھی ختم نہ ہوئی تھی اب بھی وہ جب میرے سامنے آئے تو ویسی ٹھنڈی سانسیں لیتے نہیں تھکتا تھا جیسے پہلے وہ جوانی میں لیتا تھا جوان تو وہ اب بھی تھا ۔ مجھ پر بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو چکے تھے لیکن وہ اب بھی نوجوان تھا وہ اب بھی ویسا ہی خوبصورت اور روشن آنکھوں والا تھا ۔
میری ساس میرا سسر الله کو پیارے ہو گئے ہیں اب اس گھر میں بس میں میرا شوہر میری بیٹی عناب اور میرا بیٹا افنان رہتے تھے ۔
ارے یہ تو آپکو بتایا نہیں الله نے مجھے ایک چاند سا بیٹا بھی دیا تھا ۔ جو ماشاءاللّٰه اب جوان ہو چکا ہے اس نے اسد کو بھی دیکھا ہے اس سے باتیں بھی کرتا ہے میرا بیٹا افنان کہتا ہے میں بابا اسد کے ساتھ بہت خوش ہوتا ہوں اسد میری بیٹی کے پاس اب بھی آتا ہے وہ میری بیٹی کو بیٹی ہی بولتا ہے میری بیٹی نے کئی بار اس کے نین نقش مجھے بتائے ہیں ۔ جس کو سن کر میں بس مسکرا دیتی ہوں اب میں اسے کیسے بتاتی کہ وہ تمھاری ماں سے محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ محبت تو واقعی وہ مثالی کرتا تھا وہ تو اب بھی مجھ سے ویسی ہی محبت کرتا ہے میں خود کو خوش نصیب سمجھوں یا پھر بد نصیب ۔۔۔ خوش نصیب اس لیے کہ وہ آج بھی اتنی شدت سے مجھے چاہتا ہے اور بد نصیب اس لیے کہ اس کی پاگل محبت نے مجھ سے بڑی قربانیاں مانگیں تھیں میری مما بابا انکل اور آخر میں میرے جیون ساتھی کو بھی اس نے چھیننے کی بڑی کوشش کی تھی ۔
کئی بار وہ اپنی بیٹی کو بھی میری بیٹی اور مجھ سے ملوانے لے آیا تھا اسکی بیٹی بھی اس کی طرح خوبصورت اور روشن آنکھوں والی تھی ۔۔
اب میری عمر اڑسٹھ سال کی ہو گئی ہے میرا بیٹا ماشاء اللہ جوان اور برروزگار ہوگیا ہے اب اسکی شادی کے لیے لڑکیاں پسند کر رہی ہوں اور بیٹی کی شادی تو کچھ مہینوں کے بعد ہوگی اپنے بھائی کے بیٹے کو دی تھی اسکی تاریخ بھی مقرر ہو گئی ہے ۔
( اور اب آخر میں تھوڑی سی بات رائٹر نوشابہ منیر کے لیے بھی کہوں گی ۔ نوشابہ میری جان آپ نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میری کہانی کو اپنے لفظوں میں ڈھال کر میرے حالات لوگوں تک پہنچائے ہیں جس کے لیے میں اپنے الله پاک سے آپکے اچھے نصیبوں کی دعا کروں گی اگر آپ میری کہانی نہ لکھتی تو شاید میں اپنے حالات لوگوں تک نہ پہنچا پاتی میں نے بہت بار لکھنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن جو آپکے لفظوں میں تاثیر ہے شاید وہ کسی کے لفظوں میں نہیں کبھی جس کاغذ پر لکھتی وہ اچانک جلا دیئے جاتے صحفہ خوبخود جل جاتا ۔ موبائل پر لکھتی تو موبائل ہینگ ہو جاتا ہے سوفٹ ایر اڑ جاتا
مجھے اسد نے بہت روکا کہ میں یہ ناول نہ لکھوں اس لیے مجھے نوشابہ کا سہارا لینا پڑا اگر آپ نہ ہوتیں تو شاید میں یہ کہانی لکھنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتی آپ نے بھی خوب میری مدد کی ایک بیٹی کی طرح نوشابہ میری جان میری بیٹی میں تمھیں زندگی کے کسی بھی موڑ پر بھول نہیں پاوّں گی ۔ تم ہمیشہ اول روز کی طرح میری یادوں میں میرے دل میں رہو گی الله پاک آپ کا حامی و ناصر ہو آمین ایک اشعار تمھیں ڈیڈکیٹ کر رہی ہوں ۔ صرف تمھارے لیے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ہم تو ہر بار چمکیں گے نئے سورج کی طرح
مخالفــوں سے کہو وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ
وَتُذِلُّ مَن تَشَاء "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جان نوشابہ کے لیے وقف ہے
یہ اشعر
ختم شد
میں تم اور وہ, Main Tum Aur Wo, نوشابہ منیر, Noshaba Munir, ہارر ناول, Horror Novel, اردو ہارر کہانی, Urdu Horror Story, اردو کہانیاں, Urdu Stories, سنسنی خیز, Suspense, تھرلر, Thriller, معمہ, Mystery, خوفناک کہانی, Horror, اردو انوکھے کہانیاں, Urdu Anokhe Khaniyan, اردو ناول, Urdu Novel, جاسوسی کہانیاں, Urdu Detective Stories, معمہ خیز کہانیاں, Urdu Mystery Novels, کرائم فکشن, Urdu Crime Fiction, اردو ادب, Urdu Literature, ڈرامہ, Drama, خوف کی کہانیاں, Urdu Fear Stories, اردو تھرلر کہانیاں, Urdu Thriller Stories, اردو کرائم کہانیاں, Urdu Crime Stories