ٹرین کا سپاہی اور شنو دلہن کی خوفناک کہانی
The Train Guard and Shanu: The Bride’s Terrifying Tale
تحریر: فرزانہ خان
السلام علیکم!
زیرِ نظر آپ جو یہ مختصر پُر اسرار نوعیت کی سچی کہانی پڑھیں گے، اسے مجھے ایک بزرگ ریٹائر سپاہی اختر عباسی صاحب نے سنائی تھی۔ موصوف، راویِ کہانی، اس وقت پیرانہ عمری کے تحت بستر پر پڑے، لاتعداد بیماریوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے اپنے پوتے کے ذریعے اپنی زندگی میں بیتی سچی کہانی سنانے کے لیے اپنے شہر ایبٹ آباد بلایا تھا۔ بہرحال، میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے بڑے رکتے رکتے یا مشکل و تکلیف کے عالم میں زیرِ نظر کہانی سنائی، جو کہ میں نے سرسری، مختصر انداز میں سن کر من و عن لکھی۔
بقول اُن کے۔۔۔
1946، اوائل یعنی جنوری کے مہینے کی بات ہے کہ مجھے آگرہ شہر کے ریلوے اسٹیشن میں عارضی پولیس سپاہی کی نوکری مل گئی۔ میری تنخواہ 22 روپے طے کی گئی۔
دراصل اس زمانے میں سرکاری محکموں میں عارضی بھرتیاں فنڈز ملنے کی وجہ سے کر لی جاتی تھیں۔ مجھے میرے چیف ریلوے سیکیورٹی آفیسر مسٹر سجن سنگھ نے کہا کہ میں تمہیں بعد میں باقاعدہ ریلوے کے پولیس اسٹیشن میں بھیج دوں گا، لیکن فی الحال تمہاری ڈیوٹی مسافر ٹرینوں کے ڈبے میں بطور سیکیورٹی گارڈ لگائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اپنی نوکری شروع کرنے سے پہلے چند ضروری باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ پہلی یہ کہ تمہاری رات کی ڈیوٹی ہوگی، تم نے پوری رات ایمانداری سے جاگ کر مسافروں کی حفاظت کرنی ہے، اور دوسری یہ کہ کبھی بھی دورانِ ڈیوٹی کسی مسافر کا مال متاع نہیں چرانا اور نہ ہی کسی کو چرانے دینا ہے۔ میں نے اس وقت چیف سیکیورٹی آفیسر سجن سنگھ کی باتیں سرسری طور پر سنی تھیں۔ بہرحال، مجھے تین ملازم ساتھیوں کے ساتھ جنتا ایکسپریس میں بطور سیکیورٹی لگا دیا گیا۔
یہاں یہ بتلانا ضروری ہے کہ جنتا ایکسپریس آگرہ شہر سے دہلی تک چلا کرتی تھی اور بعض دفعہ ہاترس گاؤں کا چکر کاٹ کر جاتی تھی۔ اس سے اس کا سفر آدھا گھنٹہ مزید بڑھ جاتا تھا۔ میری ڈیوٹی جن ڈبوں میں لگتی تھی، اس میں میرے ساتھ مرزا نصیر، ادھو کمار، گوپال وغیرہ سیکیورٹی مین ہوتے تھے۔ چونکہ ہماری رات کی ڈیوٹی تھی، اس لیے ہم لوگ ٹرین کے ڈبے کے ایک کونے میں بیٹھ کر آپس میں تاش وغیرہ کھیل کر اپنا وقت گزارتے تھے۔ ہمارے پاس محکمے کی جانب سے اسلحہ دیا گیا تھا، جو بہت بےکار اور صرف ڈرانے دکھلانے کے لیے تھا۔
ٹرین میں کبھی کبھار کوئی نہ کوئی چھوٹے لیول کی واردات ہو جاتی تھی، یعنی کسی کا بیگ چوری ہو جانا، یا مسافروں کے مابین معمولی سطح کی لڑائی وغیرہ۔ تو اُسے ٹرین میں ہی حل کر لیا جاتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ دورانِ ڈیوٹی ہلکی پھلکی کرپشن کر لیا کرتے تھے۔
بلکہ ہم کیا، ہمارے ساتھ کے تقریباً سارے ملازمین موقع ملنے پر محکمے کو ٹانکا لگا دیا کرتے تھے۔ یعنی ریلوے کے ڈبے میں کسی مسافر سے ٹکٹ سے کم پیسے لے کر اسے سوار کر لیتے، ریلوے انجن سے آئل، کوئلہ وغیرہ چوری کر لیتے، اور بعض دفعہ وہاں کے چھوٹے موٹے پرزے ہم چرا لیتے تھے۔ ریلوے کا 90 فیصد اسٹاف آپس میں ملا ہوا تھا۔
جیسا کہ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ جنتا ایکسپریس دہلی سے آگرہ تک چلتی تھی اور بعض دفعہ وہ ہاترس کی جانب سے جاتی تھی، تو وہاں کے درمیانی راستے میں زیادہ تر ویران جنگل تھے۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں جگہ جگہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کے خفیہ ٹھکانے ہیں۔ اس علاقے میں سے ٹرین کو بہت تیز رفتاری سے گزارا جاتا تھا کیونکہ یہاں کے ڈاکو لٹیرے بہت تیز تھے۔ وہ نہ جانے کیسے تیز چلتی ٹرین میں چڑھ جاتے اور لوٹ مار کرتے۔ اس علاقے کو خطرناک قرار دیا جاتا تھا، اور ہاترس خوف کی علامت بن چکا تھا۔
مجھے چیف سیکیورٹی آفیسر نے کہا کہ یہاں گیلو پہاڑی کے پاس اوپری مخلوق کا ڈیرہ ہے، اور واقعی جب ٹرین ہاترس، بالخصوص گیلو پہاڑی اور مانتو گاؤں کی حد سے گزرتی تو وہاں میرا دل بہت ڈولتا، بے چین سا ہوتا تھا۔
ایک دن میں اپنے دیگر ساتھیوں، مرزا نصیر، اُدھو کمار، گوپال کے ساتھ بیٹھا تھا، مسافر ٹرین کے ڈبوں میں ڈیوٹی دے رہا تھا، تو مجھے کونائی جو گیلو پہاڑی کے قریب تھا، وہاں عجیب سا دل دہلا دینے والا احساس ہوا۔ اسے آپ ہیولہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور وہ ہیولہ ایک خوبصورت لڑکی کا تھا، جس نے دلہن جیسے قیمتی عروسی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
اس کا ذکر میں نے اُدھو کمار سے کیا، تو اس نے میرا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ یہ تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہ سب گھڑی گھڑائی فضول باتیں ہیں۔ مجھے اس کی باتوں سے کچھ تسلی تو ہوئی، البتہ چند روز پہلے گیلو پہاڑی کے علاقے سے چند ڈاکو نہ جانے کیسے ٹرین میں چڑھ گئے تھے، حالانکہ اس وقت ٹرین اپنی مخصوص رفتار سے زیادہ تیز چل رہی تھی۔ خوش قسمتی سے ہمارے ایک گارڈ نے ان ڈاکوؤں کو دیکھ لیا تھا۔ اس نے بندوق سے دوچار فائر کر کے انہیں بھگا دیا تھا۔
ہم نے اس واقعے کی رپورٹ ہیڈ کوارٹر میں کر دی تھی، لیکن دفتری کارروائی کسل مندی کی وجہ سے وہاں سنوائی دیر سے ہو رہی تھی۔ سجن سنگھ، چیف سیکیورٹی آفیسر، نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ وہ ریلوے پولیس کے مزید ریگولر سپاہی بھیج دے گا (یہ سب کچھ صرف تسلی کے لیے تھا)۔
ایک رات ہم مسافر ٹرین میں رات کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔ میں بوگی نمبر چار میں تھا جبکہ مرزا نصیر اور اُدھو کمار بوگی نمبر 5 اور 6 میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ میرے پاس مرزا نصیر آیا اور اس نے مجھے کہا کہ تُو اپنے پاس میرا کچھ سامان رکھ لے۔ میں نے اس سامان کو دیکھا تو وہ ایک کپڑے کے تھیلے اور گٹھڑی پر مشتمل تھا۔ میں نے پر تجسس ہو کر پوچھا کہ تُو تو ڈیوٹی پر خالی ہاتھ آیا تھا، یہ سامان کہاں سے آیا ہے؟
اُس نے شیطانی طور پر مجھے آنکھ مار کر کہا: یہ کھانچے (چوری) کا ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے بندے، یہ تُو کیوں لے آیا؟
اُس نے مجھے کہا: اس میں قیمتی گھڑیاں، چار سو روپے نقد اور دیگر قیمتی چیزیں ہیں۔ میں نے اپنے "لٹیروں" بندوں کے ذریعہ حاصل کی ہیں، جو میں نے پہلے ہی سے اس ٹرین میں مسافروں کے روپ میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ نیز اس نے بتایا کہ وہ یہ کام پچھلے دو سال سے کر رہا ہے اور اس کام میں اُدھو کمار بھی شامل ہے۔
اس کی یہ بات سن کر سچی بات ہے کہ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔
مجھے بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ دونوں ریلوے گارڈ اتنی حد تک جا سکتے ہیں (حالانکہ چھوٹی موٹی بے ایمانی ہم کرتے تھے)۔ میں نے اُسے دھمکی والے انداز میں کہا کہ میں تمہاری اس حرکت کی خبر ہیڈ کوارٹر میں دوں گا۔
اس نے مجھے کہا کہ پاگل، ہمیں جو سرکاری طور پر پگھار ملتی ہے، اُس سے ہم غریبوں کی صرف بمشکل روٹی ہی چلتی ہے۔ بالآخر سرکار ہمیں دیتی ہی کیا ہے؟ مزے تو ان افسران کے ہیں۔ اس نے مجھے جذباتی کرتے ہوئے کہا کہ تُو کل ہی تو اپنا رونا رو رہا تھا کہ تُو نے اپنی بہن کی شادی کرنی ہے۔ اس کے لیے تجھے کم از کم دو ہزار روپے چاہییں۔ اتنی بڑی رقم کا بندوبست تُو کہاں سے کرے گا؟
اسی دوران اُدھو کمار بھی ہمارے درمیان آ گیا۔ اس نے بڑے ڈھیٹ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا: تُو بے شک ہم دونوں کی شکایت ہیڈ کوارٹر میں کر دے، اول تو تُو ہمارا کچھ بھی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے تجھے ثبوت دینے ہوں گے، عدالتوں اور دفتروں کے چکر لگانا پڑیں گے۔ ہمارا کیا ہے، ہم کسی نہ کسی طریقے سے بچ جائیں گے، پھر سے چوری چکاری کریں گے، اور ہم تجھے چھوڑیں گے بھی نہیں۔ لہٰذا تیرے لیے بہتر ہے کہ جو تُو نے دیکھا، سنا، اسے درگزر کر، اور ویسے بھی تیری عارضی نوکری بے اعتباری ہے۔ (مجھے پچھلے ماہ کی تنخواہ آدھی ملی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی محکمے کو مطلوبہ فنڈز نہ ملے تھے)۔
میں بیک وقت یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کے منفی کاموں میں شامل ہو جاؤں یا نہیں؟ میرے دل و دماغ میں نیکی اور برائی کی قوتوں کی جنگ شروع ہو گئی۔ ایک طرف بہن کی شادی اور اپنی مالی بدحالی کا خیال آ رہا تھا تو دوسری جانب سجن سنگھ، چیف آفیسر کی نصیحت یاد آ رہی تھی کہ اپنی نوکری ایمانداری سے کرنا اور کسی مسافر کا سامان نہ چرانا۔ میں نے بالآخر شیطانی سوچ کو شکست دی اور ان دونوں کو کہا کہ مجھے تمہارے ساتھ نہیں ملنا، مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں نے ان سے مزید کہا کہ تم بھی ان بھیانک حرکات سے توبہ کر لو۔
"ارے پاگل، اور تھیلا تو کھول، اس میں پڑا مال تو چیک کر،" اُدھو کمار نے مجھے لالچ دیتے ہوئے کہا۔
گوپال، ہمارا چوتھا گارڈ ساتھی، جس کی ڈیوٹی کبھی کبھار ہمارے ساتھ لگتی تھی، وہ سب سے آگے ڈبوں میں اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ وہ بھی ہمارے درمیان آ گیا۔ اُس نے مجھے مخاطب ہو کر کہا: "یار، ان دونوں وارداتیوں کی بات پر اپنے کان نہ دھرنا، یہ کسی نہ کسی دن بہت بڑی خطا اٹھائیں گے۔"
اب اُدھو کمار اور مرزا نصیر ہم دونوں سے الجھنے لگے۔ میں نے جب دیکھا کہ یہ دونوں ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت ان دونوں کے لٹیرے ساتھی ٹرین میں موجود تھے، لہٰذا میں نے ان دونوں کو کہا کہ تم دونوں جو کرتے ہو اپنے طور پر کرو، میں اس بات کا ذکر ہیڈ کوارٹر میں نہیں کروں گا۔
"دیکھ لے، اگر تُو نے ہماری وارداتوں کا ذکر یا شکایت کی تو ہم تجھے تیری سوچ سے زیادہ عبرت کا نشان بنا دیں گے، اور ہاں، اگر تُو ہمارا ساتھ دے گا تو ہم تجھے چند دنوں میں دولت مند بنا دیں گے۔" یہ بات مرزا نے مجھ سے کی تھی، لیکن میں چپ رہا۔ میں نے دورانِ ڈیوٹی ان سے کنی کترائی ہوئی تھی، میں ان سے علیحدہ بیٹھا تھا۔
ایک دن ہماری ٹرین جنتا ایکسپریس میں آگرہ سے ہی ایک نوبیاہتا جوڑا ٹرین میں بیٹھا۔ اُنہوں نے دہلی شہر سے پہلے گڑھ گاؤں میں اُترنا تھا۔ ان دونوں نے اس بوگی کا ٹکٹ بک کروایا تھا جس میں میری ڈیوٹی تھی، جبکہ اُدھو کمار اور مرزا نصیر بوگی نمبر چھ اور سات میں تھے۔ لڑکی جو نئی دلہن لگ رہی تھی، اس نے انتہائی قیمتی اسکن نامی کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے گلے میں سونے کا جڑا ہوا ہار پہنا ہوا تھا جبکہ اس کے خاوند نے واجبی سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ غریب محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ اس مالدار لڑکی نے اس غریب لڑکے سے شادی کی ہوگی۔ بہرحال، ٹرین چلی تو ہاترس کے خطرناک ڈاکوؤں کے علاقے سے دہلی جانے لگی تھی۔
میرے پاس بہانے بہانے سے مرزا نصیر اور اُدھو کمار آنے لگے اور وہ بڑے غور سے اس نوبیاہتا جوڑے کو دیکھنے لگے۔ میرے ذہن میں اس وقت ہی ایک وسوسہ سا پیدا ہوا کہ یہ دونوں یقیناً اس لڑکی کو لوٹیں گے۔ میرا دل چاہا کہ میں انہیں متنبہ کروں کہ یہ جوڑا ان دونوں سے احتیاط کرے، لیکن میں کچھ ڈر سا بھی گیا تھا۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ میں ان منتظم بدمعاشوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
اسی دوران چند اور مسافر لڑکے مشکوک طور پر میری بوگی میں آئے۔ مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یقیناً اُدھو کمار اور مرزا نصیر کے ساتھی لٹیرے ہیں۔ مسافر ٹرین اپنی مخصوص رفتار سے دہلی کی طرف دوڑ رہی تھی۔ دلہن کچھ تھکی، بیمار سی لگ رہی تھی۔ وہ کبھی اپنی آنکھیں موند لیتی اور کبھی اپنے خاوند کے کندھوں پر اپنا سر رکھ دیتی۔
اُدھو کمار خواہ مخواہ میرے لیے چھولے اور چائے لانے لگا۔ میں نے حالانکہ اسے منع بھی کیا، لیکن وہ بضد ہو کر مجھے یہ چیزیں کھلاتا رہا۔
تم میرے پاس یوں کیوں آ رہے ہو، میں تمہاری نیت بھانپتا ہوں، خبردار تم نے اس لڑکی کو نہیں لوٹنا۔ میں نے اسے طنزیہ طور پر جب یہ جملہ کہا تو اس نے جواباً کہا کہ یہ کام تو ہم نے آج ہر صورت میں کرنا ہے۔ آج بہت عرصے بعد کوئی بڑی مہنگی مرغی پھنسی ہے۔ اس نے اپنے گلے میں جو ہار پہنا ہوا ہے وہ کم از کم دس ہزار روپے کا ہے۔ بیوقوف، آج یہ اپنی موت خود مرے گی۔ میں نے اُس کے منہ پر ہلکی سی چپت مارتے ہوئے کہا کہ میں تجھے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ اُس نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اختر، ہمارے معاملے میں نہ پڑ، ورنہ! (وہ چلا گیا)۔
تھوڑی دیر بعد اتفاق سے میری پچھلی بوگی میں چند مسافروں کے درمیان کسی مسئلے پر لڑائی ہوگئی۔ میں فوراً وہاں گیا۔ ادھر دراصل ایک موٹے ذہن والا لڑاکا قسم کا سکھ نوجوان اپنے ساتھی مسافر سے خواہ مخواہ برتھ کے لیے لڑ رہا تھا۔ میں نے اُسے سمجھانے اور اسے اس کی صحیح جگہ بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ ہی انکھڑ (ذہنی دماغی) تھا۔ اُس نے بلاوجہ میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ مجھے اس نوجوان سے چند مسافروں نے چھڑایا۔ اتنے میں جس بوگی میں باقاعدہ میری ڈیوٹی تھی وہاں سے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں۔ میں فوراً پلٹ کر اپنی ڈیوٹی والی بوگی میں آیا۔ وہاں وہی (دلہن) لڑکی روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اُسے ٹرین کے واش روم میں دو غنڈوں نے دبوچ کر اس کے گلے میں پڑا ہار چھین لیا ہے۔ جبکہ اس کے خاوند نے میرا گریبان پکڑتے ہوئے کہا کہ تُو اچانک عین موقع پر کہاں چلا گیا تھا؟ لگتا ہے کہ تُو بھی چور غنڈوں سے ملا ہوا ہے۔ میں تیرے خلاف آگرہ ریلوے اسٹیشن کے اسٹیشن ماسٹر اور ریلوے پولیس میں رپورٹ درج کرواؤں گا۔
میں نے اُسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ میرا گیروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ساتھ والی بوگی کے ڈبے میں لڑنے والے مسافروں کو چھڑانے گیا تھا۔
"لیکن تیری ڈیوٹی تو اس بوگی میں تھی اور تُو اُس وقت اس بوگی سے گیا جب یہ لڑکی واش روم میں گئی جہاں یقیناً تیرے بندے پہلے سے چھپے ہوئے تھے۔" لڑکی کے شوہر نے مجھے جھنجھوڑنا، مارنا، پیٹنا شروع کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس کے ساتھ والی بوگی میں بیٹھے ہوئے دیگر مسافر بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ میں نے لڑکی کے شوہر کو کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ لڑکی کا ہار لازماً مرزا نصیر اور اُدھو کمار نے یا ان کے ساتھی لٹیروں نے چرایا ہے۔ یہ پکے چور وارداتیے ہیں۔
بوگی کے مسافروں نے فوری طور پر اگلی بوگیوں میں موجود دونوں کو بلایا۔ اُدھو کمار نے ڈرامائی انداز میں تجسس سے مجھ سے پوچھا: "یہ تیری بوگی میں کیسے کسی لڑکی کے گلے سے ہار چوری ہو گیا؟"
"کیسے کیا، تُو نہیں جانتا؟" میں نے اُسے طنزیہ طور پر کہا تو اس نے مجھے چلاتے ہوئے کہا: "تُو الٹا مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ لڑکی کے گلے سے کیسے ہار چوری ہو گیا؟" اس دوران مرزا نصیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ "اختر، تُو جدی پشتی چور خاندان سے تعلق رکھتا ہے، میں تیرے پچھلوں سے جانتا ہوں۔"
"مجھے نہیں معلوم، میں آگرہ ریلوے اسٹیشن اور دہلی ہیڈ کوارٹر میں اپنی بیوی کے گلے کے ہار چوری کی شکایت کروں گا۔" لڑکی کا شوہر واویلا کرنے لگا۔
میں چور نہیں ہوں، میں نے اُسے سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ "تم دونوں ٹرین میں وارداتیں کرتے ہو اور تم نے میرے سامنے اس ٹرین میں چوریوں کا ذکر کیا تھا۔"
"اچھا! ہم اگر چور ہیں تو تُو نے ہماری شکایت آگرہ ہیڈ کوارٹر میں کیوں نہ لگائی؟ میرے پاس تمہارے کالے کرتوتوں اور چوریوں کے بارے میں بڑا اہم ثبوت موجود ہے۔"
"کیسا ثبوت؟" لڑکی کے شوہر نے چلا کر مجھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔ میں نے کہا: "گوپال کو بلاؤ، اُسے ان خبیثوں کی تمام حقیقت پتا ہے، چل اُسے اپنے دل کی تسلی کے لیے بلا لے۔"
ادھو کمار نے بڑے اطمینان سے کہا: "بلالو۔"
گوپال، جو ٹرین کی سب سے آگے کی بوگیوں میں اس واردات سے بے خبر اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا، اُسے بھی چند مسافر ہم سب کے درمیان لے کر آئے۔ گوپال نے مجھے کہا: "کیا ہوا؟"
میں نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: "وہی ہوا جو یہ دونوں چاہ رہے تھے، یعنی اس لڑکی کے گلے میں پڑے ہوئے ہار کی چوری۔" پھر اُس نے ایک لمحے کے لیے مجھے، ادھو کمار اور مرزا نصیر کو بغور گھورا لیکن منہ سے کچھ نہ بولا۔
"بول بھئی، تُو اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟" وہاں کھڑے ایک بوڑھے مسافر نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ تو اُس نے کہا: "یہ سب میرے دوست اور دفتری ساتھی ملازم ہیں۔ میں ان میں سے کسی کے خلاف فی الحال کچھ بولنا نہیں چاہتا۔" اُس نے مزید اپنی زبان نہ چلائی۔
حالانکہ اس کی گواہی کی مجھے اشد ضرورت تھی، لیکن وہ خاموش رہا۔ اُسے اس وقت کافی مسافروں نے زور بھی دیا کہ وہ میرے سچے موقف کی گواہی دے، لیکن باوجود اصرار کے وہ میرے حق میں یا ان دونوں کے خلاف کچھ نہ بولا۔ البتہ لڑکی خاموش اپنی سیٹ پر بیٹھی افسردہ روتی رہی۔
اگلے ہی لمحے ایک بڑھیا مسافر میرے خلاف بول پڑی: "یہی چور ہے، یہ بار بار لڑکی کے گلے میں پڑے ہار کی جانب بغور دیکھ رہا تھا۔"
ٹرین اسٹیشن پر رکی تو وہاں میری بوگی کے مسافروں، لڑکی کے خاوند اور مرزا نصیر و ادھو کمار وغیرہ نے مجھے زبردستی ٹونڈولہ ریلوے اسٹیشن پولیس کے حوالے کر دیا۔ میں خواہ مخواہ بے قصور اس کیس میں آگیا۔ اُس وقت جذبات اور غصے میں میں نے بھی ان دونوں کو خوب گالیاں، کوسنے اور سخت دھمکیاں دیں، لیکن میں اس وقت بے بسی کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
لڑکی کے شوہر نے پولیس کو میرے خلاف اس چوری کے پکے شک کی رپورٹ درج کروادی۔ ٹونڈولہ ریلوے اسٹیشن کے تھانیدار، ملائم سنگھ، نے مجھے بڑی بے دردی سے مارا کوٹا اور مجھ سے یہ کہلوانے کی ہزار کوشش کی کہ میں لڑکی کے ہار کی چوری میں ملوث ہوں۔ اس نے فوری طور پر آگرہ ہیڈ کوارٹر میں سجن سنگھ کو اس واردات کی اطلاع دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ "اختر کو (اے) لیول حوالات میں رکھو، جبکہ باقی تینوں کو (سی) کیٹیگری، یعنی معمولی آرام دہ حوالات میں ڈالو۔"
میں نے تھانیدار ملائم سنگھ سے اس جانبدار اور غیر قانونی عمل کے بارے میں احتجاج کیا اور کہا: "اس چوری کی واردات میں ادھو کمار اور مرزا نصیر کا نام بھی شامل ہے، تو پھر انہیں بھی میرے ساتھ اے کیٹیگری کے حوالات میں بند کرو۔"
اے کیٹیگری کی حوالات انتہائی گندی، بدبودار اور سہولیات سے بالکل محروم تھی، جبکہ سی لیول کی حوالات صاف ستھری اور کسی حد تک بہتر سہولیات کی حامل تھی۔
تھانیدار ملائم سنگھ نے مجھے زدوکوب کرتے ہوئے کہا: "کیونکہ اس کیس کا بڑا مجرم تُو ہے، اس لیے تجھے باقاعدہ سجن سنگھ، چیف سیکیورٹی آفیسر، ریلوے ہیڈ کوارٹر کے حکم کے مطابق یہاں رکھا گیا ہے۔"
"تُو ہم پر الزام لگاتا ہے؟ اب دیکھنا ہم تیرے ساتھ کرتے کیا ہیں!" ادھو کمار اور مرزا نصیر نے مشترکہ طور پر مجھے دھمکی دی۔ میں نے انہیں پھر غصے سے گالیاں اور کوسنیں دینا شروع کر دیں۔
تھانیدار ملائم سنگھ ان دونوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی کر رہا تھا۔ اس نے کسی سپاہی کے ذریعے یہ پیغام بھیجا کہ اگر میں پیسے دوں تو وہ مجھے حوالات میں مزید بہتر سہولیات فراہم کر دے گا۔
اس دوران متاثرہ لڑکی اور اس کے خاوند کو تھانیدار ملائم سنگھ نے کہا کہ آگرہ سے ایک انکوا
ئری ٹیم بمعہ پولیس آ رہی ہے، جب وہ آئیں گے تو آپ کو مطلع کر دیا جائے گا۔ آپ آجائیے گا۔ وہ چلے گئے۔