ٹرین کا سپاہی اور شنو دلہن کی خوفناک کہانی – آخری قسط
The Train Guard and Shanu Bride’s Terrifying Story – Final Episode
تھانیدار نے ان تینوں کو کھانے پینے کو اعلیٰ اشیاء دیا لیکن مجھے صرف دو باسی پکوڑے اور آدھی روٹی کا ٹکڑا دیا، جسے میں نے بڑی مشکل سے حلق میں انڈیلا۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ جب میں حوالات میں بند تھا تو مجھے سلاخوں کے سامنے تھانے کی دیوار پر بالکل اسی طرح کا ہیولہ نظر آ رہا تھا جو کہ میں نے چند روز قبل ٹرین کے شیشے کے پیچھے دیکھا تھا، یعنی دلہن کی شکل والی لڑکی۔ وہ ہیولہ اتنی تیزی سے میری نظر کے سامنے سے اوجھل ہوا کہ مجھے اس کے نقش ذہن نشین نہ ہو سکے۔
اور دلچسپ بات میرے لیے یہ ہوئی کہ چند روز بعد ہی انسانی شکل والی نئی نویلی دلہن کے ساتھ دورانِ ڈیوٹی ہار چوری کی واردات ہو گئی تھی۔ بہرحال پانچ گھنٹے کے بعد ٹونڈولہ پولیس اسٹیشن میں بھجن سنگھ چیف سیکیورٹی آفیسر، ہان کا تھانیدار منوج اور پانچ سپاہی پہنچے (بعد میں مکیش سمبہادی ایس پی بھی آیا)۔ سجن سنگھ، چیف سیکیورٹی آفیسر، نے تھانیدار ملائم سنگھ کو حکمیہ طور پر کہا کہ بات لکھوانے والے جوڑے کو بھی بلاؤ۔
اُسے مچھن پورے سے بلوایا گیا۔ اس علاقے میں کچھ مالدار ہندو رہتے تھے۔ جب تک یہ جوڑا نہیں آیا تھا اُس وقت تک سجن سنگھ، منوج کمار اور مکیش سمبہادی نے مشکوک ملزمان میں سے کسی سے کوئی بات یا انکوائری نہیں کی تھی۔ ان کے آنے کے بعد سجن سنگھ نے لڑکی سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ واردات کس طرح ہوئی تھی اور تمہیں کسی پر شک ہے؟ اُس نے بیان دیا کہ: "میں ضرورت، حاجت کے تحت ساتھ والی بوگی میں قائم واش روم میں گئی تھی تو مجھے وہاں دو بندوں نے دبوچ لیا تھا، جو پہلے سے وہاں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے بے قابو، بے بس کر کے میرے گلے میں پڑا جڑاؤ ہار جھٹکے سے اتار لیا اور مجھے زدوکوب بھی کیا۔" اس نے ہم میں سے کسی پر شک نہ کیا۔
اور کہا: "ان میں سے کوئی چور نہیں ہے؟" البتہ اس کا خاوند بڑے ضد والے انداز میں بار بار مجھ پر ہی شک کا اظہار کیے جا رہا تھا۔ میری جانب انکوائری کی بارش شروع ہو گئی تو میں نے صاف صاف بتا دیا کہ مرزا نصیر اور ادھو کمار ہی نے یہ ہار اپنے بندوں کے ذریعے چرایا ہے اور انہوں نے مجھ سے اس کا ذکر بھی کیا تھا۔
میں نے گوپال کو اس معاملے میں اس کی گواہی دینے کو کہا تو حیرت انگیز اور خلافِ توقع طور پر وہ مکر گیا۔ اُس نے صاف صاف کہہ دیا کہ: "میں تو ٹرین کی اگلی بوگیوں میں اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ پچھلی بوگیوں میں کیا ہو رہا ہے۔" نیز اُس نے ٹرین میں مجھ سے ملاقات سے بھی انکار کر دیا۔ گوپال کی یہ بات سن کر میری ہوائیاں اُڑ گئیں۔ یوں سمجھو کہ میرے موقف اور بے گناہی کی صفائی کے لیے آخری راستہ بھی بند ہو گیا تھا۔
"اب تیرے بچنے کا کوئی راستہ نہیں رہا!" مکیش سمبہادی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"اچھا، یہ بتا کہ مان لیا کہ تیرا اس واردات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن تُو اپنی ڈیوٹی والی بوگی سے دوسری بوگی میں کیوں گیا؟ اور وہ بھی واردات ہونے سے چند منٹ پہلے؟"
اسے جواباً میں نے کہا کہ: "میں اس وقت کیا کرتا؟ ساتھ والی بوگی میں مسافروں کے درمیان شدید لڑائی ہو رہی تھی، اُسے چھڑانا میرا اخلاقی فرض تھا۔"
تھانیدار ملائم سنگھ نے درمیان میں خواہ مخواہ لقمہ دیا۔ وہ بولا: "ارے، تجھے نہیں معلوم کہ اخلاق اور قانون علیحدہ علیحدہ ہیں! سر جی، آپ اسے میرے حوالے کریں، میں اس کی ہڈیوں کو سیک دے کر اس کے اندر سے میڈم جی کے ہار کی چوری برآمد کروا دوں گا!" اُس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا میرے کولہوں پر مار دیا۔
دلہن نے جب یہ منظر دیکھا تو اُس نے تپتے ہوئے کہا: "ابھی یہ ملزم ہے، اس پر چوری کا الزام ثابت نہیں ہوتا، اسے کیوں مار رہے ہو؟"
"آپ چپ کریں میڈم، یہ ہمارے حوالے ہے، ہم آپ کا ہار اسی سے مل کر دیں گے!" تھانیدار پھر بولا۔
تو اُس لڑکی نے جھنجھلا کر کہا: "آپ تفتیش کریں لیکن اسے ماریں نہ۔"
اُس کے خاوند نے اُسے نحیف سا جھڑکتے ہوئے کہا: "شنو، تم درمیان میں نہ بولو نہ ٹوکو، یہ پولیس افسران بالا کا آپس میں معاملہ ہے، انہیں اس خبیث چور سے نمٹنے دو۔"
اس لڑکی نے ہلکے سے غصے سے اپنے خاوند کو دیکھا اور چپ ہو گئی لیکن اُس کے چہرے سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ غصے میں ہے۔
چند منٹ بعد ادھو کمار نے وہاں سب کو کہا: "آپ پولیس والوں نے تو اس کی جامع تلاشی ہی نہیں لی!"
"اوہ! یہ مجھ سے غلطی ہو گئی!" تھانیدار ملائم سنگھ نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
چل اوئے نتھر سنگھ، گلباز خان! اس کے پورے جسم، کپڑوں کے چپے چپے کی تلاشی لو۔ پھر ان دونوں سپاہیوں نے میرے پورے جسم اور کپڑوں پر ہاتھ پھیر کر تلاشی لی تو نہ جانے کیسے میری پینٹ کی دائیں جیب سے ایک انگوٹھی نکل آئی۔
"یہ کس کی ہے؟" تھانیدار منوج اور مکیش سمبہا نے مشترکہ طور پر مجھ سے پوچھا۔
"مجھے نہیں معلوم یہ کیسے میری جیب میں آئی۔"
"بکواس کرتا ہے! یہ بھی تو نے کسی کی چوری کی ہوگی!"
"لیکن سر، ہم نے ٹرین میں پہلے ہی اس کی گرفتاری سے پہلے جامع تلاشی لی تھی، وہاں..." ایک ادھیڑ عمر سپاہی نے درمیان میں بات کی۔
"کیا مطلب؟" مکیش سمبہا نے تشکرانہ لہجے میں اس سے پوچھا۔ ادھیڑ عمر سپاہی ایک قدم آگے بڑھا اور میرے حق میں یہ ذرا سی بات کی کہ: "میں نے اور روجا سپاہی نے ٹرین میں اس کی بڑی تفصیل سے تلاشی لی تھی۔ وہاں اس کی جیب میں اس قسم کی کوئی انگوٹھی وغیرہ نہ تھی۔"
"تجھے کس نے درمیان میں کچھ بولنے کو کہا ہے؟" تھانیدار ملائم سنگھ نے دانت پیستے ہوئے غصے میں اس سپاہی کو کہا۔
تو میں درمیان میں بولا: "اسے بولنے دو، یہ میری صفائی، بےگناہی کو ثابت کرنے کے لیے خدائی مددگار ہے۔"
"بکواس مت کر! تُو اپنی زبان بند کر۔"
"اسے بولنے دو، آپ کو اس کی بات بھی سننی چاہیے!" وہ لڑکی پھر سے بولی۔
"شنو! ہمیں اپنے ہار سے غرض ہے۔ اگر چور پکڑا جا رہا ہے تو درمیان میں کیوں بار بار تفتیشی عمل میں دخل ڈال کر سب کو ڈسٹرب کر رہی ہو؟" اس کے خاوند نے اسے تنبیہ کی۔
وہاں کافی دیر تک مجھ سے بڑے سخت قسم کے کئی الٹے سیدھے چبھتے سوالات سے انکوائری ہوتی رہی جبکہ ادھو کمار، گوپال، مرزا نصیر سے بہت نرم اور مقصدی سوالات پوچھے جا رہے تھے۔ میری ہر باتِ صفائی کو تھانیدار ملائم سنگھ اور سجن سنگھ، چیف سیکیورٹی آفیسر، رد کیے جا رہے تھے۔ بلکہ منوج تھانیدار نے میرے خلاف 17/C 1935 کا پرچہ چوری، فراڈ وغیرہ کے الزامات کے ساتھ درج کر لیا۔ اس نے گوپال، ادھو کمار، مرزا نصیر کا اس واردات میں کہیں بھی ذکر نہ کیا۔ الغرض سارا مدعا مجھ پر ڈال دیا۔
اس لڑکی کے شوہر نے وہاں بڑے وثوق سے کہا کہ: "میں ہر قیمت میں اپنی بیگم کا ہار حاصل کر کے رہوں گا!"
"آپ بے فکر رہیں، ہم آپ کو آپ کی امانت دلوا کر رہیں گے۔ یوں ہمارے محکمے کی بدنامی ہوئی ہے!" چیف سیکیورٹی آفیسر سجن سنگھ نے اسے کہا۔
لڑکی درمیان میں آئی اور اس نے اپنے خاوند کا کوئی نام لیتے ہوئے کہا: "جو ہونا تھا ہو گیا، میرا ہار چوری ہو گیا، چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ہم اس گارڈ پر اس چوری کا الزام کیوں دیں۔۔۔ دفع کریں بھائی۔ ہم نے کوئی اپنے ہار کی چوری کا کیس رجسٹر نہیں کرانا، آپ بھگوان کے واسطے اسے چھوڑ دیں، یہ غریب بے گناہ محسوس ہوتا ہے!"
وہ لڑکی میرے حق میں نہ جانے کیوں ہمدردانہ رویہ رکھے ہوئے تھی۔
"نہیں، نہیں شنو! میں ہر قیمت پر اپنے ہار کے مجرم کو قانون سے سزا دلوا کر رہوں گا!"
اس لڑکی نے اپنے خاوند کی طرف منہ کر کے کہا: "یہ ہار آپ کا نہیں، میرا تھا۔ میں نے ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے!"
"ارے میڈم! آپ نے اسے اگر چھوڑ بھی دیا تو ہم نے اس کے خلاف کوئی نہ کوئی مؤثر قانون کے مطابق تحکمانہ کارروائی تو کرنی ہی ہے۔ اس نے اپنی مخصوص ڈیوٹی کی جگہ چھوڑی، پھر اس کے پاس سے انگوٹھی برآمد ہوئی ہے!" یہ بات سجن سنگھ نے کی تو وہ لڑکی بولی: "آپ کا ہی سپاہی اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ دو سپاہیوں نے ٹرین میں اسے گرفتار کرتے وقت اس کی مکمل جامع تلاشی لی تھی، اور اس سے وہاں کچھ برآمد نہ ہوا تھا۔ اب آپ اس تھانے میں کہہ رہے ہیں کہ اس کے پاس سے یہ انگوٹھی برآمد ہوئی ہے۔ اس کا تو کوئی دعویدار بھی نہیں ہے!"
"میڈم! آپ مہربانی کر کے جائیں، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے اس کے جرم کی سزا دلائیں۔"
منوج تھانیدار سے لڑکی نے کہا: "نہیں نہیں! یہ زیادتی ہے کہ میری وجہ سے کسی بے گناہ کو ناجائز سزا ملے۔ یہ مہاپاپ ہوگا!"
اس کا خاوند اس بار اس پر قدرے تیز آواز میں مخاطب ہو کر بولا: "شنو! تم کیوں اس مجرم کی وکالت کر رہی ہو؟"
"نہیں نہیں، میں اس کی وکالت نہیں کر رہی بلکہ مظلوم کا ساتھ دے رہی ہوں۔ نہ جانے کیوں میرا دل کہہ رہا ہے کہ میرے ہار کی چوری میں اس کے ہاتھ صاف ہیں!"
تھانیدار منوج نے اس لڑکی کے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اسے یہاں سے لے جاؤ!"
"چلو شنو، مجھے بھگوان پر پورا وشواس ہے کہ ہمارا چوری شدہ ہار ایک آدھ دن میں مل جائے گا!"
"نہیں، آپ اس لڑکے کو چھوڑ دیں!" لڑکی نے چیف سیکیورٹی آفیسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"میڈم! اب اگر عدالت اسے چھوڑے تو چھوڑے، ہم تو بس حکم کے پابند ہیں!"
لڑکی کو کافی دیر تلک اس کا خاوند تھانے سے باہر جانے پر زور دیتا رہا لیکن وہ اس بات پر بضد رہی کہ: "اس لڑکے کو چھوڑو اور میں اپنی رپورٹ واپس لیتی ہوں!" تو تھانیدار منوج نے اسے کہا کہ: "ایک دفعہ اگر کسی مجرم کے خلاف ایف آئی آر کٹ جائے تو پولیس اس کی واپسی کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی، لہذا ملزم کی تقدیر کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔"
بہرحال بحث مباحثہ کے بعد لڑکا اور لڑکی (نو بیاہتا جوڑا) تھانے سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد دونوں تھانیدار، منوج اور ملائم سنگھ، نے مکیش سمبہا دی ایس پی کے اکسانے پر مجھے انتہائی زدوکوب کیا۔
جبکہ انہوں نے گوپال، ادھو کمار، مرزا نصیر کو کچھ بھی نہ کہا بلکہ آپس میں شغل میلہ اور مستیاں کرنے گئے۔ سجن سنگھ مجھ سے لاپرواہ ہو کر دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا۔
"کل صبح تجھے فیروز آباد کی کرائم عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ تیرا جسمانی ریمانڈ لیا جا سکے۔"
تھانیدار منوج نے مجھے مارتے ہوئے کہا۔
میں تکلیف میں بھی ان سب کو تسلسل سے گالیاں دینے لگا۔
"اخترے، تو تو بڑے خسارے میں رہا! اگر تو ہمارے ساتھ مل جاتا تو زندگی بھر نوٹوں میں کھیلتا، تو اب ہمارے خلاف گواہی دینے اور ہمارے ساتھ نہ مل کر اس کا بھیانک خمیازہ بھگتے گا!"
"جو ہوگا، میں اس کا دیدہ دلیری سے سامنا کروں گا!"
اس وقت میرے ذہن اور منہ میں سب الٹا سیدھا آ رہا تھا، میں بکے جا رہا تھا۔ کیا کرتا؟ ظالموں نے مشترکہ طور پر میرے خلاف ناگہانی محاذ لے لیا تھا۔ دونوں تھانیداروں نے ساری رات بیٹھ کر میرے خلاف بہت مضبوط اور پکے ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ باقاعدہ ایف آئی آر کاٹی۔
مختصر یہ کہ انہوں نے مجھے صبح کرائم کورٹ، شہر فیروز آباد کی عدالت میں پیش کر دیا۔ میں ذہنی طور پر بہت کوفت زدہ اور گھبرایا ہوا تھا۔ اس وقت میری حیثیت اس بکری کی مانند تھی جو بھوکے شیروں اور بھیڑوں کے کھچار میں ہو۔ میرے لیے اس وقت بڑی مصیبت یہ تھی کہ فیروز آباد میں میرا ساتھ دینے یا دل جوئی کرنے کے لیے کوئی شخص نہ تھا۔
دوسرے، میرے پاس نہ تو وکیل کرنے کے لئے پیسے تھے اور نہ ہی کوئی ایسا شخص جو میری صفائی یا بےگناہی ثابت کرنے کے لیے گواہ بنتا۔
کمرہ عدالت میں میرے خلاف گوپال اور نریندر نامی سپاہی نے گواہیاں دیں۔ منوج اور ملائم سنگھ تھانیداروں نے جھوٹے ثبوت پیش کیے۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے مجھ سے میری بےگناہی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ طلب کیے اور میرا موقف سنا۔
(کمرہ عدالت میں کٹہرے کے بالکل سامنے مجھے وہی دلہن لڑکی کا ہیولہ نظر آیا جو اکثر کبھی کبھار مجھے نظر آتا تھا۔ اس بار وہ ہیولہ کچھ زیادہ دیر ٹھہرا رہا، اس کی شکل پہلے کے مقابلے میں ذرا مختلف تھی)۔
میں نے مجسٹریٹ کو اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے بتایا کہ مرزا نصیر اور ادھو کمار مسافر ٹرینوں میں گارڈ کے روپ میں چوریاں کرتے ہیں اور انہوں نے شنو (دلہن) کا ہار چرانے سے پہلے مجھے بھی اس کا لالچ دیا تھا۔ میں نے گوپال کا ذکر بھی کیا جو واردات سے پہلے میرے پاس آیا تھا۔
مجسٹریٹ نے مجھے کہا:
"ثبوت اور حالات و واقعات تیرے خلاف جا رہے ہیں۔ تم اگر کورٹ کے وقت کے ختم ہونے تک اپنے حق میں گواہ نہ لائے تو مجھے مجبورا پولیس کو تمہارے خلاف چودہ روز کا جسمانی ریمانڈ دینا پڑے گا۔"
مجسٹریٹ عادتاً اخلاق کا اچھا، نرم لہجے والا اور ہمدرد سا شخص تھا۔ اس نے دورانِ عدالتی کارروائی پولیس تفتیشی افسران سے مختلف سوالات پوچھے:
"یہ کہ تم نے ملزم کے خلاف پہلے مکمل محکمانہ کارروائی کیوں نہ کی؟
موقعِ واردات پر جب پولیس کے دو سپاہی کہہ رہے ہیں کہ اس کے پاس سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا تھا تو یہ انگوٹھی کیسے برآمد ہو گئی؟
اتنی عجلت میں ایف آئی آر یکدم کیوں کاٹ دی گئی؟
گوپال، مرزا نصیر، ادھو کمار کو اس کیس میں نامزد کیوں نہ کیا گیا؟"
پولیس نے میرے خلاف عدالت سے جسمانی ریمانڈ مانگنے کی بہت کوشش کی لیکن مجسٹریٹ نے کہا:
"جب تک میرے ملزم کے موقف کی تسلی نہیں ہو جاتی، میں کوئی فیصلہ نہیں دوں گا۔"
اس نے مجھ سے گواہی طلب کی۔ میں نے اسے کہا کہ:
"سر، میرے پاس صرف گوپال ہی کی گواہی موجود تھی لیکن وہ بھی مکر گیا ہے۔"
مجسٹریٹ نے عدالت کا مقررہ وقت ختم ہونے تک مجھے گواہ پیش کرنے کا موقع دیا۔ دو بجے عدالتوں کا وقت ختم ہو جاتا تھا۔ مجسٹریٹ نے پولیس کو حکم دیا کہ:
"ملزم کو باہر لے جاؤ، میں پونے دو بجے دوبارہ تمہیں بلاؤں گا۔"
پولیس مجھے باہر لے آئی جبکہ میں ذہنی طور پر نیم پاگل سا ہو گیا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ منوج تھانیدار، ملائم سنگھ کے ساتھ چیف سیکیورٹی آفیسر سجن سنگھ بھی ہمارے ساتھ تھا جبکہ ادھو کمار، مرزا نصیر دور کھڑے تھے۔ گوپال عدالت کے ریڈر کے پاس تھا۔
منوج نے مجھے یہ کہا:
"اگر تو عدالت میں یہ کہہ دے کہ مجھ سے ہار چوری میں غلطی ہوگئی تھی تو میں تجھے 1935/Act-18 کے تحت عدالت سے سفارش کروا کر معاف کرواؤں گا۔"
وہ دراصل مجھے بہلا پھسلا کر عدالت کے سامنے پکا مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے بے وقوف بنا رہا تھا۔ دوسرے، اس نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں اس کی باتیں کافی دیر تک برداشت کرتا رہا۔ جب اس نے میرے کانوں پر زور سے تھپڑ مارا تو میں اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اپنے ہتھکڑی بندھے دونوں ہاتھوں کو ایک جھٹکا دے کر اس کی ناک پر مارا۔ اس سے وہ باولا اُٹھا۔ اس کی ناک کے تختوں سے خون کی پھوار اُمنڈ پڑی۔
پوری کچہری میں کھلبلی مچ گئی۔ قریب کھڑے پولیس والوں نے مجھے زمین پر لٹا کر انتہائی بے دردی سے لاتوں، گھونسوں اور لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیا۔ گوپال، ادھو کمار، مرزا نصیر بھی وہاں آ گئے اور انہوں نے مجھے مارنے کوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی اور جھگڑے کا شور سن کر عدالتی عملہ، حتیٰ کہ مجسٹریٹ جج بھی باہر آ گئے۔ منوج تھانیدار کو مرہم پٹی کے لیے قریبی ڈسپنسری لے جایا گیا۔ مجھے دوبارہ متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
مجسٹریٹ نے مجھ پر چلاتے ہوئے کہا:
"میں نے تیرے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا، تجھے اپنے حق میں گواہی فراہم کرنے کا موقع دیا، یہ مجھ سے غلطی ہوئی، تو نے اُلٹا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ میں تجھے منوج کمار کو زخمی کرنے، قانونی پامالی اور ٹرین میں لڑکی کے ہار کی چوری کے الزام میں مجرم ٹھہراتے ہوئے دس سال قید با مشقت کی سزا سناتا ہوں۔"
دس روز میں چلاتا اور واویلا کرتا رہا کہ "مجسٹریٹ صاحب، میں بے قصور ہوں!" لیکن کمرہ عدالت میں میری تمام چیخیں اور فریادیں ضائع اور بے معنی ثابت ہوئیں۔ مجھے اسی روز آگرہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ میرے پیچھے میرے بھائی آئے، میرے اپنے اور غیر سب میری نیکی کو برا کہہ رہے تھے۔ میرا دل یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ میں چور نہیں ہوں، میں بے گناہ ہوں۔ میرے بھائیوں اور باپ نے اگلی عدالت سے مجھے جیل سے نکالنے کے لیے ایک معمولی سا وکیل کیا تھا (ان کے پاس اتنے زیادہ روپے نہ تھے کہ جس کی بنا پر اچھے طریقے سے میرا کیس لڑ سکیں)۔
بہرحال تیسرے دن اس کہانی میں ایک نیا دلچسپ موڑ آیا، ہوا یوں کہ میں آگرہ جیل میں بند تھا کہ عین صبح مجھے جیل کی "رسولئی" (باورچی خانہ) کے قریب اس لڑکی کا ہیولہ نظر آیا جو مجھے اکثر نظر آتا تھا۔ میں نے اُسے بغور اپنی ڈیلے ڈیلے آنکھوں سے چیر کر دیکھا تو میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ وہ تو ہو بہو اس دلہن جیسی شکل کا تھا جس کا ٹرین میں ہار چوری ہوا تھا۔
میرے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ ہیولہ تقریباً بیس سیکنڈ میری نگاہوں کے سامنے رہا اور پھر یکدم غائب ہو گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے خوف پر قابو پایا تھا۔
مجھے صبح دس بجے جیل کے جیلر نے بتایا کہ "تجھے ایک بجے پچھلی عدالت کے مجسٹریٹ کی عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔" یہ حکم بذات خود مجسٹریٹ صاحب نے بذریعہ وائرلیس دیا تھا۔ (حالانکہ قانونی طور پر ایسا ہوتا نہ تھا، ایک عدالت اگر کسی مجرم کو سزا دے دے تو اس کے بعد معاملہ اگلی عدالت کا ہوتا ہے)۔
بہرحال، مجھے متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہاں کمرہ عدالت میں حیرت انگیز اور خلاف توقع وہی دلہن لڑکی بیٹھی تھی جس کا ہار چوری ہوا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا:
"اختر صاحب، میرا دل اور ضمیر نہیں مانتا تھا کہ آپ نے میرا ہار چرایا ہے۔ میں جب سے گھر گئی ہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی نیند نہیں آئی۔ تم یقیناً غریب انسان ہو، میں تمہیں اپنے ذرا سے نقصان کے لیے عمر بھر کی رسوائی اور پریشانی نہیں دے سکتی۔"
اس نے مجسٹریٹ کو کہا:
"میں اس کی جانب سے یہ گواہی دیتی ہوں کہ یہ بے قصور ہے اور ادھو کمار جھوٹ بولتا ہے کہ اس سے ٹرین میں اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ میرے سامنے اس کے پاس آیا تھا اور میرے گلے میں پڑے ہار کو بار بار غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس پر بھی شک ہے۔"
اس نے مجسٹریٹ کو کہا:
"جس نے بھی میرا ہار چوری کیا ہے وہ زندگی بھر پچھتائے گا، اسے یہ چوری ہضم نہ ہو گی۔"
اس کی گواہی میرے لیے ایک معجزہ، اوپر سے بھیجی ہوئی مدد ثابت ہوئی۔
میں نے بغور دیکھا، اس دلہن لڑکی کے نقش بالکل ویسے ہی تھے جو مجھے کسی ہیولے کی صورت میں نظر آتے تھے۔ اس کی گواہی پر عدالت نے مجھے بری کر دیا۔ میری جان میں جان آئی۔ عدالت کے باہر میرے ابا اور بھائی نے مجھے بتایا کہ تیری ناگہانی آفت کی وجہ سے ہمارے پاس جو روپیہ پیسہ تھا، اس کا دھیلہ دھیلہ خرچ ہو گیا ہے۔ ابا نے بتایا کہ انوری بہن کی شادی کے لیے اس کے سسرال والے رخصتی کے لیے تاریخیں مانگ رہے ہیں، لیکن ان کے پاس ایک دھیلہ بھی نہیں ہے۔
میرے ابا ٹانگوں کی بیماری کا شکار تھے، وہ ٹھیک سے چل نہ پاتے تھے۔ دوسری طرف مجھے سجن سنگھ، چیف سیکیورٹی آفیسر کی طرف سے نوکری سے فوری طور پر فارغ کر دیا گیا۔ جب میں اپنے گھر آیا تو وہاں زیادہ غربت اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ بہن کی آنکھوں میں اُداسی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کس طرح خاندان کو مسائل سے نکالوں۔ میں ریلوے کا عارضی ملازم تھا، اس لیے محلے کے ایک ہندو مستری کے ساتھ مزدوری کرنے لگا۔ وہ عمارتیں بناتا تھا اور مجھے ڈیڑھ روپیہ روز دیہاڑی دیتا تھا۔ جبکہ میرا بھائی انے پر آلو چھولے کی ریڑھی لگاتا تھا۔
دوسری جانب بہن کے سسرال والے بار بار رخصتی کے لیے زور دے رہے تھے۔ وہ چھپے الفاظ میں یہ رشتہ توڑنے کی بات کرتے تھے۔ رشتہ اچھا تھا، کسی حال میں چھوڑنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ لڑکا محکمہ ڈاک میں باعزت نوکری پر تھا۔ میں اس کے سسرال والوں کو بہانوں سے ٹالتا رہتا تھا۔
ایک دن جب میں ایک جگہ مزدوری کر رہا تھا تو مجھے بہت دن بعد اس لڑکی کا ہیولہ نظر آیا۔ اس وقت مجھے بڑی نوٹوں کی گڈی دکھائی دی اور وہ فوراً غائب ہو گئی۔ جب میں مزدوری کرکے گھر آیا تو میری بہن نے ایک بڑا خاکی لفافہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا:
"بھائی جان! ایک کار میں ایک خوبصورت سی لڑکی آئی تھی۔ اس کے ساتھ غالباً اس کا خاوند تھا۔ اس نے مجھے یہ خاکی لفافہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اختر صاحب کو دے دینا۔ اس نے مزید کوئی بات نہیں کی اور وہ چلی گئی۔"
میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ اس کی شکل و صورت کیسی تھی؟ تو اس نے ہو بہو وہی نقشہ بیان کیا جیسے کہ نشو لڑکی کا تھا۔ میری بہن نے یہ بھی بتایا کہ اس کا خاوند اسے کہہ رہا تھا کہ "ہمیں ابھی گیلو پہاڑی بھی جانا ہے"۔ میں نے سنا تھا کہ وہاں جنات اور بدروحوں کا ڈیرہ ہے۔
میں ذہنی طور پر پریشان ہو گیا۔ بہرحال، جب میں نے لفافہ کھولا تو اس میں بڑی رقم، سات ہزار روپے اور ایک قیمتی سونے کا جڑاؤ ہار تھا، بالکل ویسا ہی جیسا کہ شنو کا ٹرین میں چوری ہو گیا تھا۔ اتنی بڑی رقم اور سونے کا جڑاؤ ہار دیکھ کر سچ بات ہے کہ میں اپنی پریشانی بھول گیا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں نے فوراً بہن کی شادی کی تیاری شروع کر دی۔ ہار کو ایک مالدار جیولری کی شوقین خاتون کو فروخت کیا اور اس کے عوض مجھے آٹھ ہزار روپے مزید ملے۔
میرے تو سارے نیارے ہو گئے۔ میرے سب کام پراسرار طور پر اچھے ہو گئے۔ میں نے باقی رقم سے شہر کے مرکزی علاقے میں کمرشل پراپرٹی خریدی (دو دکانیں) جن کا مجھے اچھا خاصا کرایہ آتا تھا۔
یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی، ابھی اس میں دلچسپ باتیں باقی تھیں۔ بقول راوی، مجھے بہت عرصہ بعد پتا چلا کہ ادھو کمار ایک ٹرک تلے آ کر کچلا گیا۔ اس کی لاش کے پاس سے شنو کا ہار ملا تھا۔ اسے بعد میں نہ جانے کیسے مرزا نصیر نے حاصل کر لیا۔ وہ اس ہار کو ایک جیولر کے پاس فروخت کرنے صرافہ بازار جا رہا تھا کہ وہاں اس کے پیچھے ڈاکو پڑ گئے۔ انہوں نے مزاحمت کرنے پر اُسے گولی مار دی۔ ان ڈاکوؤں کو بعد میں پولیس نے پکڑ لیا۔ وہ ہار اب پولیس کے مال خانے میں موجود تھا، لیکن ایک رات بلا وجہ ایسی پراسرار آگ لگی کہ پورا مال خانہ والا پولیس تھانہ جل کر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
اتفاق سے وہاں اس وقت ملائم سنگھ کی ڈیوٹی تھی، جو وہاں آیا ہوا تھا، اور وہ بھی پراسرار طور پر جل کر مر گیا۔
گوپال ایک بار مجھے شہر کے چوراہے پر بھیک مانگتا ہوا ملا۔ اس کا حلیہ بالکل فقیروں والا ہو گیا تھا، شدید بیمار اور لاغر سا تھا۔ میں تجسس کے تحت اس کے قریب گیا تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ وہ مجھے دیکھ کر رونے لگا اور اس نے مجھ سے معافی مانگتے ہوئے کہا:
"جس دن میں نے تیرے ساتھ تیرے حق میں گواہی نہ دی تھی، اس دن کے بعد سے میری زندگی
میں تباہیاں ہی تباہیاں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ میں برباد ہو گیا ہوں۔"
میں نے اُسے مزید نہیں کریدا۔
بقول راوی، میں آج تک اس پراسرار دلہن (شنو) لڑکی کا راز نہیں جان سکا کہ وہ کون تھی؟
⚠️ کاپی رائٹ نوٹس:
یہ کہانی مکمل طور پر ہمارے رائٹر کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کی کسی بھی قسم کی کاپی، ری اپلوڈ یا دوبارہ استعمال بغیر اجازت کے سختی سے منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگر آپ اس کہانی کو اپنے یوٹیوب چینل یا کسی اور پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی ہم سے فیس بک پر رابطہ کریں اور مناسب قیمت ادا کر کے باقاعدہ اجازت حاصل کریں
