![]() |
"شک کا شور… اور مسجد کا خاموش مجرم |
مسجد کی اسپیکر والی الماری جو ہمیشہ بغیر تالے کے بند رہتی تھی، ایک دن عجیب واقعے کی گواہ بنی۔
جب بوڑھے مؤذن صاحب حسبِ معمول آذان دینے کے لیے اسپیکر کا بٹن دبانے گئے تو مشین تو چل پڑی، مگر آواز ہارن تک نہ پہنچی۔ حیرت سے مشین اور الماری بند کی، اور بنا مائک کے بلند آواز میں آذان دے دی۔
نمازی آئے تو مؤذن صاحب نے نوجوانوں سے اسپیکر چیک کروایا۔ معلوم ہوا کہ ہارن کی طرف جانے والی تار چاقو سے کٹی ہوئی تھی۔ فوراً بات پھیل گئی: “کوئی چور مشین چرانے آیا ہوگا، شاید کسی کی آہٹ سن کر بھاگ گیا۔”
محلے کے افراد اپنے اپنے اندازوں میں مشغول ہو گئے۔
"فلاں اوباش ہوگا!"
"نہیں، فلاں چھوکرا بگڑ چکا ہے!"
"مجھے تو اُس لڑکے پر شک ہے جو پہلے بھی چوری میں پکڑا گیا تھا۔"
یوں ہر ایک نے بغیر تحقیق، اپنے گمان کی بنیاد پر انگلیاں اٹھا دیں۔ فیصلہ کچھ نہ ہوا، اور لوگ باتیں کرتے کرتے مسجد سے چلے گئے۔ تار جوڑی گئی، اسپیکر ٹھیک ہو گیا۔
لیکن اگلے دن ظہر کی اذان کے وقت مؤذن نے جیسے ہی الماری کھولی، ایک بڑا چوہا نکل کر ان کے قدموں کو چھوتا ہوا بھاگا۔ مؤذن نے سنبھل کر مشین چلائی، مگر آواز پھر ندارد! وہی تار، ویسے ہی کٹی ہوئی۔
اب سب کو حقیقت کا سامنا تھا۔
یہ کام نہ چور کا تھا، نہ کسی بدنام شخص کا… بلکہ ایک معمولی چوہا دنوں سے سب کا مجرم نکلا!
📚 سبق (Moral of the Story):
ہم اکثر بغیر ثبوت، محض شک کی بنیاد پر دوسروں کو مجرم ٹھہرا دیتے ہیں۔ گمان اور مفروضے ہماری سوچ کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔
کاش ہم دل کو صاف رکھیں، تو سوچ بھی پاک ہو جائے گی۔
نفرتیں ختم ہوں گی، اور محبتیں جنم لیں گی۔