لوٹا گھوم گیا – قسط نمبر 1
احمد یار خان
تحریر: فرزانہ خان
نولکھا ہار کی چوری کی کہانی آپ نے پرانی کتابوں یا کہانیوں میں شاید کہیں پڑھی ہو گی۔ یہ بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کی دنیا کی ایک خیالی کہانی ہے۔
لیکن میں آپ کو ایک حقیقی ہار کی چوری کی کہانی سناتا ہوں۔ یہ راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی نہیں بلکہ ان گھرانوں کی کہانی ہے جہاں باپ اپنی بیٹیوں کے لیے سونے کا ایک ہلکا سا ہار ساری عمر کی محنت اور مشقت سے، پیسہ پیسہ کر کے جمع کی ہوئی پونجی سے بنایا کرتے ہیں۔ اور جہاں کوئی بیٹی اس وقت تک بیاہی نہیں جاتی جب تک اس کا باپ اپنا خون، اپنا سکون اور اپنی نیندیں سونے کے ہار کی صورت میں اپنی بیٹی کے گلے میں نہیں ڈالتا۔
اگر سونے کا یہ ہار، جس کی چمک میں ایک غریب باپ کے خون کی لالی ہو، چوری ہو جائے تو وہ باپ خودکشی نہ کرے تو پاگل ضرور ہو جائے گا۔
ایسا ہی ایک باپ میرے پاس آیا۔ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا، اس کی آنکھوں میں مجھے ذرا سی بھی چمک نظر نہیں آ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے موت نے اس کی آنکھوں کو نور سے محروم کر دیا ہو۔
اس نے آتے ہی کہا: "جناب، میرے گھر سے سونے کا ایک ہار اور کچھ نقدی چوری ہو گئی ہے۔"
میں نے پوچھا: "کب؟"
اس نے کہا: "پانچ چھ روز ہو گئے ہیں۔"
میں نے پوچھا: "آپ کو آج پتہ چلا کہ چوری ہوئی ہے؟"
اس نے کہا: "میں چوری کا صحیح دن اور وقت تو نہیں بتا سکتا۔ پانچ چھ روز قبل پتہ چلا کہ ٹرنک سے سونے کا ہار اور نقدی غائب ہے۔ میں بتا نہیں سکتا کب، کیسے، کس وقت اور کس طرح کوئی ہاتھ صاف کر گیا۔"
میں نے کہا: "آپ میرے پاس اتنی تاخیر سے کیوں آئے؟"
اس نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر چوری کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور چور کا سراغ لگا بھی لیا ہے۔ "چوری ایک عورت نے کی ہے، لیکن وہ مان نہیں رہی۔ مگر ثبوت ایسا ملا ہے کہ جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔"
میں نے کہا: "آپ مجھے وہ ثبوت بتائیں۔"
تو اس نے کہا: "اس عورت کے نام پر لوٹا گھوم گیا تھا۔"
اس نے مزید بتایا: "ہم نے مولوی صاحب کو بلایا تھا، وہ لوٹے والا عمل کرتے ہیں۔ اس عورت کے نام کی پرچی لوٹے میں پڑی تو لوٹا گھوم گیا۔ وہاں پر موجود سب لوگوں نے لوٹا گھومتا ہوا دیکھا۔"
پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں میں لوٹے کے ذریعے چوری کا سراغ لگانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دیہات میں اس کا رواج زیادہ ہے۔ لوٹے کا عمل اس طرح کیا جاتا ہے کہ ایک عامل کو بلایا جاتا ہے۔ وہ عامل مٹی کا لوٹا لے کر آتا ہے، لوٹا زمین پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اسے ایک دس بارہ سال کا لڑکا دونوں ہاتھوں سے تھام کر رکھتا ہے۔ جن افراد پر چوری کا شک ہو انہیں اردگرد بٹھا لیا جاتا ہے۔ عامل کچھ پڑھتا ہے، پھر ایک مشتبہ فرد کے نام کی پرچی لوٹے میں ڈالتا ہے۔
اگر لوٹے میں کوئی حرکت نہ ہو تو اس مشتبہ کو شک سے بری کر دیا جاتا ہے۔ لوٹے میں سے اس کے نام والی پرچی نکال لی جاتی ہے اور کسی دوسرے مشتبہ فرد کے نام کی پرچی ڈالی جاتی ہے۔ اسی طرح باری باری کر کے پرچیاں ڈالی جاتی ہیں۔ اگر چور ان مشتبہ افراد میں سے ہو تو جونہی اس کے نام کی پرچی لوٹے میں پڑتی ہے، لوٹا تھوڑا گھوم جاتا ہے۔
میں ایسی کوئی رائے نہیں دوں گا کہ لوٹا چوری کی ہر پرچی پر واقعی گھومتا ہے یا نہیں، کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے لوٹا گھومتے کبھی نہیں دیکھا، لیکن متعدد افراد سے اس کے متعلق سن ضرور رکھا ہے۔
میں تھانیدار تھا۔ مجھے تو بس یہ معلوم تھا کہ چوری یا کسی اور واردات کی رپورٹ آتی تھی تو میرا سر لوٹے کی طرح گھومنے لگتا تھا، لیکن یہ پتہ لگانا محال ہوتا تھا کہ میرا سر کون سے مجرم کی پرچی گھما رہی ہے۔
یہ آدمی چوری کی رپورٹ دینے آیا تو مجھے یہ سن کر ذرا بھی اطمینان نہ ہوا کہ لوٹے نے چور کا سراغ لگا لیا ہے، کیونکہ میرے لیے لوٹا کوئی شہادت نہ تھا۔ قانون لوٹے کو تسلیم نہیں کرتا۔
میں نے اس آدمی سے کہا: "میں ثبوت مانگ رہا ہوں اور آپ مجھے لوٹے کی گواہی بتا رہے ہیں۔ میں کسی لوٹے کی گواہی پر اس عورت کو گرفتار نہیں کر سکتا۔"
اس نے کہا: "حضور، وہاں پر موجود لوگوں نے لوٹا گھومتا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ سب لوگ اور پھر مولوی صاحب خود بھی گواہ ہیں۔ مولوی صاحب ہماری مسجد کے امام ہیں۔ اب امام تو جھوٹ نہیں بولے گا۔ آپ مولوی صاحب اور ان سب لوگوں کو بلا کر ان سے پوچھ لیں، وہ سب آپ کو بتائیں گے کہ چور وہی عورت ہے۔"
اس نے مزید کہا: "میں نے اور مولوی صاحب نے اس عورت سے کئی بار کہا کہ وہ نقدی اور ہار واپس کر دے تو ہم خاموش رہیں گے، کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے، لیکن وہ عورت ہر بار لڑنے پر آ جاتی ہے۔ مولوی صاحب کا کہا بھی نہیں مانتی۔ ہم نے اس کے خاوند کو بھی ڈرا دھمکا کر دیکھا ہے، لیکن وہ دونوں میاں بیوی چوری سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ لوٹا اس عورت کے نام پر گھوما ہے، اور لوٹا یونہی نہیں گھومتا، جو چور ہوگا اسی کے نام پر گھومتا ہے۔"
آخر میں اس نے کہا: "آپ اس عورت کے گھر کی تلاشی لیں تو ہمارا مال اس کے گھر سے ضرور برآمد ہو جائے گا، کیونکہ لوٹا اس کے نام پر گھوما ہے۔"
اس آدمی نے زور دے کر کہا کہ: "آپ اس عورت اور اس کے خاوند کو تھانے میں بلا کر ذرا دبکا شبکا لگائیں گے تو وہ ہمارا مال واپس کر دیں گے۔"
میں نے کہا: "ہار اور نقدی کہاں رکھی ہوئی تھی؟ مجھے اچھی طرح تفصیل سے بتاؤ۔"
اس نے کہا: "ایک ٹرنک میں کپڑوں کے نیچے زیورات کے ڈبے پڑے ہوئے تھے۔ یہ زیورات میں نے اپنی بڑی بیٹی کے لیے پیٹ باندھ کر بنائے تھے۔ ان میں ہار ہی سب سے زیادہ قیمتی تھا۔ اسی زیورات کے ڈبے کے نیچے نوٹوں کی شکل میں کچھ نقدی رکھی ہوئی تھی۔"
میں نے پوچھا: "صرف ہار اور نقدی ہی چوری ہوئی ہے یا کچھ اور بھی نکل گیا ہے؟"
اس نے کہا: "باقی ڈبے بالکل محفوظ ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ کپڑوں کو دیکھو جو تہہ کیے ہوئے ان ڈبوں کے اوپر پڑے ہوئے تھے، وہ اسی طرح پڑے ہوئے تھے، انہیں کسی نے نہیں چھیڑا۔"
میں نے مزید پوچھا: "کیا ٹرنک کو تالہ لگا ہوا تھا؟"
اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "بالکل، ٹرنک کو تالہ لگا ہوا تھا اور تالہ ویسے ہی لگا ہوا تھا۔ تالے کو توڑا نہیں گیا تھا بلکہ کسی دوسری چابی سے کھولا گیا تھا۔"
میں نے کہا: "کیا وہ ٹرنک کسی ایسی جگہ پڑا ہوا تھا کہ جہاں سے باہر کا کوئی بھی آدمی یا عورت اسے آسانی سے کھول سکے؟"
اس نے بتایا: "ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ ٹرنک تو اندرونی کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ اس ٹرنک کے اوپر ایک اور ٹرنک تھا، اور اس ٹرنک کے اوپر ایک سوٹ کیس، اور اس سوٹ کیس کے اوپر بھی ایک اور سوٹ کیس تھا۔ مطلوبہ ٹرنک ان سب کے نیچے تھا۔"
میں نے پوچھا: "تو کیا دوسرے ٹرنک اور سوٹ کیس وغیرہ ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے؟"
اس نے کہا: "بالکل نہیں، سارے ٹرنک اور سوٹ کیس اسی ترتیب سے رکھے ہوئے تھے جس ترتیب سے ہم نے پہلے رکھے تھے۔"
میں نے کہا: "تو پھر آپ کو چوری کا پتہ کیسے چلا؟"
اس نے کہا: "میں نے اپنی بیوی کو کچھ اور پیسے اس ٹرنک میں رکھنے کے لیے دیے تھے۔ جب پیسے رکھنے کے لیے ٹرنک کو کھولا گیا تو چوری کا پتہ چلا۔"
میں نے کہا: "کیا چند دن پہلے آپ لوگ کہیں گھر کو تالہ لگا کر گئے تھے؟"
اس نے کہا: "میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک رشتہ دار کی شادی پر گیا تھا، لیکن گھر کو تالہ نہیں لگایا گیا تھا کیونکہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں یہیں گھر پر ہی تھے۔"
میں نے پوچھا: "ان کی عمریں کیا ہیں؟"
اس نے بتایا: "بڑے بیٹے کی عمر پچیس سال ہے۔ اس سے چھوٹی بیٹی ہے، اس کی عمر اکیس سال ہو چکی ہے۔ اس سے چھوٹی ایک اور بیٹی ہے، اس کی عمر سترہ سال ہے۔ اس سے چھوٹا ایک بیٹا ہے اور اس کی عمر چودہ سال ہے۔"
میں نے پوچھا: "کیا گھر میں پردہ ہے؟"
اس نے کہا: "بڑا سخت پردہ ہے، اتنا سخت کہ میں اپنی بیٹیوں کو باہر نہیں جانے دیتا۔"
میں نے پوچھا: "بیٹوں پر آپ نے کس قسم کی سخت پابندی عائد کر رکھی ہے؟"
اس نے کہا: "آپ میرے بیٹوں پر شک نہ کریں، وہ گھر میں کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتے۔"
میں نے کہا: "آپ میرے پاس رپورٹ لے کر آئے ہیں، مجھے اس بات سے نہ روکیں کہ میں کس پر شک کرتا ہوں اور کیا شک کرتا ہوں۔"
اس نے کہا: "کسی اور پر شک کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ میں چور کی نشاندہی کر چکا ہوں، آپ اسے پکڑیں۔"
میں نے کہا: "کیا اس عورت کے آپ کے گھر والوں کے ساتھ تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ اسے یہ بھی علم ہو کہ آپ نے زیورات کہاں رکھے ہوئے ہیں؟ کیا وہ عورت صبح شام آتی ہے؟"
اس نے جواب دیا: "اتنی زیادہ تو نہیں آتی، اور میرا خیال ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ہم نے کیا کہاں رکھا ہوا ہے۔"
میں نے کہا: "پھر آپ نے اس عورت کو کس شک کی بنا پر لوٹے کے عمل کے لیے بلایا تھا؟"
وہ تھوڑا گھبرایا، فوراً بولا: "ہم نے نہیں، مولوی صاحب نے بلایا تھا۔"
اس آدمی کو اس عورت پر شک نہیں تھا، جس کا وہ بار بار نام لے رہا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق مولوی صاحب نے اس عورت کے گھر کی سمت ایک دو نشانیاں بتا کر کہا کہ چور وہاں ہے اور وہ کوئی عورت ہے۔ چنانچہ اس عورت کو بلایا گیا اور لوٹا اسی کی پرچی پر گھوم گیا۔
میرے مزید کریدنے پر اس نے بتایا کہ اس کے گھر میں کوئی نوکر یا نوکرانی نہیں ہے۔ گھر میں محلے کی جو عورتیں آتی ہیں وہ ٹرنکوں والے کمرے میں نہیں جاتیں۔
اس کی باتیں سن کر میرے دل میں شک پیدا ہوا کہ چور گھر میں ہی ہے۔ اسی شک کی بنا پر میں نے اس کی اولاد کی عمریں پوچھی تھیں۔
چوری کی یہ واردات اس آدمی کے لیے نئی اور حیرت انگیز تھی، لیکن میرے لیے یہ کوئی عجوبہ نہیں تھا۔ وہ جتنا پریشان تھا، میں اتنا ہی مطمئن تھا۔
اس نے کہا: "آپ میری رپورٹ لکھ لیں اور کارروائی شروع کریں۔"
میں نے کہا: "میں کارروائی شروع کر دیتا ہوں، لیکن آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ رپورٹ نہ لکھوائیں۔"
اس نے کہا: "آپ مجھے ٹال رہے ہیں۔ آپ کو یہ احساس نہیں کہ میں نے کس طرح بیٹی کے لیے یہ زیورات بنائے ہیں۔ میں غریب آدمی ہوں، دوبارہ زیور بنانے کے لیے مجھے ایک اور زندگی چاہیے۔"
میں نے اس سے کہا: "آپ میرے مسلمان بھائی ہیں، میں آپ کو ٹال نہیں رہا۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کو چور پکڑ دوں گا لیکن یہ واردات تھانے کے ریکارڈ میں نہ آئے۔"
وہ میری بات سمجھ نہیں رہا تھا۔ گھوم پھر کر مولوی کے لوٹے پر آ جاتا اور کہتا کہ میں اس عورت کو ڈرا دھمکا کر اس سے مال برآمد کراؤں۔ اور اگر وہ نہ مانے تو میں اسے گرفتار کر لوں۔ مگر چوری کی نوعیت ایسی تھی کہ میرا دماغ گھوم پھر کر اسی کے گھر پہنچ جاتا اور کہتا کہ چور اسی گھر میں موجود ہے۔
میں غلط بھی ہو سکتا تھا۔ اس کا یا اپنا وہم دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ میں اس کے ساتھ اس کے گھر جاؤں۔ اس کے بے حد اصرار پر میں نے رپورٹ
درج کر لی اور اس کے ساتھ اس کے گھر روانہ ہو گیا۔