درد آشنا
ترجمہ: عائشہ جمال
تحریر: فرزانہ خان
وہ اسے بے حد چاہتی تھی، اس سے شادی بھی کرنا چاہتی تھی،
مگر اپنے گھر لے جا کر والدین سے ملواتے ہوئے ڈرتی تھی۔ کیوں کہ اس سے پہلے جب بھی کسی کو اپنے ساتھ گھر لے کر گئی، وہ اسے چھوڑ کر اس کی حسین بہن کی زلفوں کا اسیر ہو گیا تھا۔
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے ایک درد آشنا کی تلاش تھی۔
میں بچوں کی ایک لائبریری میں ملازمت کرتی ہوں۔ اسٹیون کو جب میں نے پہلی مرتبہ وہاں دیکھا تو میں نے اسے شادی شدہ سمجھا تھا۔ بچوں کی لائبریری میں بھلا ایک غیر شادی شدہ آدمی کا کیا کام؟ وہاں یا تو بچے ہی آتے تھے یا پھر وہ والدین، جنہیں اپنے بچوں کے لیے کتابوں کی ضرورت ہوتی تھی۔
"اگر آپ مجھے بچوں کی عمریں بتا دیں تو شاید میں کتابیں منتخب کرنے میں آپ کی مدد کر سکوں"، میں نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا۔
"ان کی عمریں… یہی کوئی دس اور بارہ سال کے درمیان ہوں گی"، وہ جیسے خیالوں کی دنیا سے باہر آ کر بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا۔ میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی، کیونکہ اس کی اپنی عمر پچیس سال سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔
"ان کے رجحانات کیا ہیں؟" میں نے اپنی حیرت چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
"وہ دنیا کی ہر چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں۔" اس کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ "ان کی تعداد پینتالیس ہے، اس لیے دنیا کے کم از کم پینتالیس موضوعات سے تو انہیں دلچسپی ہوگی۔"
"پینتالیس بچے!" ایک لمحے کے لیے تو میری آنکھیں پھیل گئیں، مگر فوراً ہی اپنی حماقت پر شرمندہ ہو گئی۔ سنبھلتے ہوئے میں نے کہا، "آپ غالباً ٹیچر ہیں؟"
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ یہ تھی ہماری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد وہ اتنی کثرت سے آنے لگا کہ لائبریری کی کتابوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ معلومات اسے ہو گئیں۔ چھ ماہ بعد بالآخر اس میں اتنی جرات آ گئی کہ اس نے مجھے اپنے ساتھ سیر و تفریح اور باہر کھانا کھانے کی دعوت دے دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چھ ماہ میں ہم دونوں بری طرح ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میں نے اس عرصے میں اسے پولی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ پولی کی ایک جھلک بھی دیکھ پائے۔ مجھے معلوم تھا، جس دن بھی اس نے پولی کو دیکھ لیا، وہ میرے اور اس کے تعلق کا آخری دن ہوگا۔
پولی میری چھوٹی بہن تھی، مگر قدرت نے ہمارے انداز و اطوار میں زمین آسمان کا فرق رکھا تھا۔ میں تنہائی پسند، شرمیلی اور عام سی شکل و صورت کی مالک تھی۔ پولی، جو مجھ سے دو سال چھوٹی تھی، گویا دنیا بھر کی زندہ دلی اور شوخیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی۔ شکل و صورت میں بھی وہ مجھ سے بہتر تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا رواں رواں زندگی کی بھرپور توانائی سے معمور تھا، جس کی وجہ سے اس کی شخصیت زیادہ پرکشش محسوس ہوتی تھی۔ جبکہ میری شخصیت میں اگر کچھ کشش تھی بھی، تو میرا شرمیلا پن اور بجھا بجھا انداز اسے بے معنی بنا دیتا تھا۔
پولی جب پندرہ برس کی ہوئی تھی تبھی یوں لگنے لگا تھا جیسے قصبے کا ہر نوجوان اس کے وجود سے واقف ہے، جبکہ میرا ہونا یا نہ ہونا گویا ان کے لیے برابر تھا۔ وقت گزرتا گیا، اور میری طرف بھی کچھ لوگوں کی توجہ مبذول ہوئی، کچھ نے محبت کا اظہار بھی کیا۔ مگر جونہی میں انہیں والدین سے ملانے گھر لے گئی، ان کی ملاقات پولی سے ہو گئی، اور پھر وہ پروانے اسی شمع کا طواف کرنے لگے، اسی پر نثار ہونے لگے، اور میں پیچھے کھڑی دیکھتی ہی رہ گئی۔
اسٹیون سے ملاقات کے بعد میں کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس لیے میں اسے کبھی گھر لے کر ہی نہیں گئی۔ مگر ایک رات مجھے اپنی قسم توڑنی پڑ گئی۔ اس شام ہم نے اکٹھے باہر کھانا کھایا اور فلم دیکھی۔ اسی دوران دھواں دھار بارش ہو گئی۔ جب ہم سینما سے نکلے تو گلی گویا ندی میں بدل چکی تھی۔ اسٹیون نے مجھے برآمدے میں روکتے ہوئے کہا، "تم یہاں ٹھہرو، میں کار یہیں لے آتا ہوں اور تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔"
میں نے قدرے وحشت زدہ انداز میں اس کا بازو پکڑ کر کہا، "پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں بس سے چلی جاؤں گی۔ بس اسٹاپ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔"
اسٹیون نرم خو آدمی تھا، مگر اس وقت اس کی آنکھوں میں برہمی جھلک آئی۔ چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا، "یہ ٹھنڈ ہڈیوں میں اترتی جا رہی ہے اور تم بس اسٹاپ تک جانے کی فکر میں ہو؟ اور تم ہمیشہ بس میں ہی گھر جانے پر اصرار کرتی ہو۔ کیا میرے ساتھ کار میں گھر جاتے ہوئے تمہیں کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے؟"
میرے رخسار تمتما اٹھے۔ میں اسے کیا بتاتی کہ مجھے اس کے ساتھ کہیں بھی جاتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ خطرہ تو صرف اس بات کا ہے کہ کہیں اس کی ملاقات پولی سے نہ ہو جائے۔
"بات یہ نہیں ہے…" میں نے کمزور سی آواز میں کہا۔
"اگر بات یہ نہیں ہے تو پھر بحث کی ضرورت نہیں۔" اسٹیون فیصلہ کن لہجے میں بولا اور کار لانے چلا گیا۔
جب ہم گھر پہنچے تو دو کاریں پہلے ہی گھر کے سامنے کھڑی تھیں اور نوجوانوں کا ایک گروہ اندر جا رہا تھا۔ وہ یقیناً پولی کے دوست تھے۔ جیسے ہی اسٹیون نے کار روکی، میں نے تیزی سے کہا، "اسٹیون! تم تو اچھے خاصے بھیگ گئے ہو۔ تمہیں فوراً گھر جا کر گرم پانی سے نہا لینا چاہیے۔"
اس نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا اور شکوہ آمیز لہجے میں بولا، "میں تو اس خوش فہمی میں تھا کہ تم مجھے اندر آنے کی دعوت دو گی۔"
میں جانتی تھی کہ اخلاقاً مجھے اسے اندر لے جانا چاہیے تھا، ایک کپ چائے یا کافی پلانے کے بعد رخصت کرنا چاہیے تھا۔ مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ کون سے اندیشے میرے دل میں سر اٹھا رہے ہیں۔ میں نے بظاہر خوش دلی سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، "میں تو تمہیں زحمت سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اندر میری بہن کے دوستوں نے شور مچا رکھا ہوگا۔"
"بہت خوب!" وہ مجروح لہجے میں بولا، "تمہاری بہن اپنے تمام دوستوں کو گھر بلا سکتی ہے، لیکن تم مجھے اپنے ساتھ اندر لے جانے میں شاید شرم محسوس کرتی ہو۔ شاید میں اس قابل نہیں ہوں؟"
"نہیں… نہیں اسٹیون، ایسی کوئی بات نہیں!" میں نے گھبراہٹ میں کہا۔
"تو پھر تم مجھے اپنے گھر والوں سے کیوں نہیں ملواتیں؟" اس نے شکی لہجے میں پوچھا۔ اس کا شکوہ بجا تھا، کیونکہ وہ مجھے اپنے گھر والوں سے ملووا چکا تھا، اور اشاروں میں یہ امید بھی ظاہر کر چکا تھا کہ میں بھی اسے اپنے گھر والوں سے ملواؤں گی۔ مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ کم از کم اس وقت اسے اندر لے جانا مناسب نہیں۔
"میں ممی سے بات کروں گی"، میں نے کمزور سے لہجے میں کہا، "اگر انہوں نے اجازت دی تو ہفتے یا اتوار کی شام کو میں تمہیں ان سے ملاؤں گی۔" یہ کہہ کر میں اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کار سے نکل کر گھر میں داخل ہو گئی۔
کمرا نشست موسیقی سے گونج رہی تھے۔ ریڈیو گرام پوری آواز سے بج رہا تھا اور پولی موسیقی کی دھن پر تھرک رہی تھی۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے تھرکنا بند کر دیا اور شریر لہجے میں بولی، "وہ کہاں رہ گیا؟ ہم تو اس سے ملنے کے اشتیاق میں مرے جا رہے ہیں!" اس کے سب دوستوں کی پرحجتی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میرے رخسار تمتما اٹھے۔ میں نے گھٹی گھٹی سی آواز میں کہا، "میں سمجھی نہیں، تم کس کی بات کر رہی ہو؟"
"تمہارے دوست کی… وہی جس کی گاڑی ہم نے باہر کھڑی دیکھی تھی۔ تم نے اس موسم میں اس بےچارے کو چائے یا کافی پلائے بغیر باہر ہی سے رخصت کر دیا… برا ہوا نا؟"
"پولی! ریکارڈ بدل دو!" سرخ بالوں والے ایک نوجوان نے ہماری گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے بےتابی سے کہا۔ یہ وہی نوجوان تھا جو پہلے مجھ سے متعارف ہو چکا تھا، لیکن پولی سے ملاقات ہونے کے چند دن بعد ہی یوں اجنبی بن گیا جیسے کبھی شناسائی ہی نہ رہی ہو۔ یہی کچھ کسی بھی دن اسٹیون کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے یک لخت مجھے اپنی بہن سے نفرت محسوس ہوئی۔
"وہ اس لیے اندر نہیں آیا"، میں نے زہریلے لہجے میں کہا، "کہ تمہاری شہرت قصبے میں کچھ زیادہ ہی پھیلتی جا رہی ہے اور وہ ایسی لڑکیوں کے گھروں سے دور رہنا بہتر سمجھتا ہے جن کے پیچھے لڑکوں کے غول کے غول پھرتے رہتے ہیں۔"
موسیقی کا ریکارڈ چند لمحے پہلے ختم ہو چکا تھا اور کمرے میں سکوت طاری تھا۔ میرے الفاظ نے اس سکوت کو اعصاب شکن بنا دیا۔ میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور پلنگ پر اوندھی گر کر سسکیاں لینے لگی۔ میں اس وقت بھی رو رہی تھی جب ممی نے دروازے پر ہولے سے دستک دیتے ہوئے باہر ہی سے کہا،
"فلورا! تم نے پولی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا… اور ہاں، تمہیں اپنے دوست کو بھی اندر بلانا چاہیے تھا۔"
"تاکہ وہ بھی پولی کی زلفوں کا اسیر ہو جائے؟" میں نے چادر سے چہرہ پونچھتے ہوئے کہا۔
"اوہ… اب میں سمجھی!" ممی اندر آ کر بولیں، "اس کا مطلب ہے کہ تم اس نوجوان کے بارے میں بہت سنجیدہ ہو؟"
"سنجیدہ؟ ممی، مجھے اس سے محبت ہے۔ میں اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی۔" میں نے سسکیوں پر قابو پاتے ہوئے کہا، "میں اس ہفتے اسے گھر آنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس روز پولی گھر سے باہر رہے؟"
"اگر تم چاہتی ہو تو میں یہ بات اس سے کہہ ضرور دوں گی"، ممی بولیں، "لیکن تم اپنی خوبصورت بہن کو اپنے دوست سے کب تک چھپاؤ گی؟ پولی کا کبھی نہ کبھی تو اس سے سامنا ضرور ہوگا۔ تمہیں اپنے اندر یہ جرات پیدا کرنی چاہیے کہ اس حقیقت کا سامنا کر سکو۔"
"ہفتے کا انتظار کیوں کرتی ہو؟ اسے کل ہی کیوں نہیں بلاتیں؟ اگر وہ آج پولی سے متاثر ہو سکتا ہے تو چار دن بعد بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ اس ناگوار حقیقت کا سامنا آج ہی کر لیا جائے۔ اور دوسری بات، تمہیں یہ اندازہ بھی ہو سکتا ہے کہ ضروری نہیں ہر مرد حسین چہرے سے متاثر ہو۔ بعض مردوں کے نزدیک حسن ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔"
اس رات میں نے ممی کی باتوں پر دیر تک غور کیا اور بالآخر اگلے روز اسٹیون کو فون کر کے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ اسٹیون ہمارے ہاں آیا تو میرے والدین سے اس کی ملاقات خوشگوار رہی۔ ممی کو اس کی سنجیدگی اور تحمل مزاجی پسند آئی اور ڈیڈی نے بھی اس کی لیاقت کی تعریف کی۔ لیکن میں اسٹیون کی موجودگی کے دوران مسلسل تناؤ کا شکار رہی۔ ہر لمحہ مجھے یہی دھڑکا لگا رہا کہ پولی واپس نہ آ جائے۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا اور پولی ایک بگولے کی طرح گھر میں داخل ہوئی۔ اس کے دوست بھی اس کے ہمراہ تھے۔ میں خوف زدہ ہو گئی۔
"ممی! میرے لیے کھانا مت نکالیے گا، میں کھا کر آئی ہوں۔" اس نے اطلاع دی۔ پھر اس کی نظر اسٹیون پر پڑی اور وہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولی، "اوہ…!"
ممی نے اس کا تعارف اسٹیون سے کرایا۔ میں اس دوران اسٹیون کی طرف دیکھنے کی جرات اپنے اندر نہیں پا رہی تھی۔ پولی نے بےتکلفی سے مصافحہ کیا، دو ایک جملوں کا تبادلہ ہوا اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ غنیمت یہ تھی کہ وہ صرف اپنے موسیقی کے ریکارڈ لینے آئی تھی۔ ریکارڈ لے کر اپنے دوستوں کے ساتھ واپس چلی گئی۔
میں نے دیکھا کہ اسٹیون دلچسپی بھری نظروں سے اسے گھر سے باہر جاتے دیکھ رہا تھا، اور جب وہ جا چکی تو اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ تب میں نے بڑے دکھ سے سوچا: وہ پولی سے میرا موازنہ کر رہا ہے… اس کی ذہنیت بھی دوسرے عام نوجوانوں سے مختلف نہیں۔
یکایک میں نے خود کو بےحد تھکا ہوا محسوس کیا۔ دل چاہا کہ اسٹیون جلد از جلد رخصت ہو جائے تاکہ میں اپنے کمرے میں جا کر تنہائی میں اپنی بدقسمتی پر رو سکوں۔ چند لمحے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا، مگر رخصت ہونے کے بجائے بولا، "فلورا، کیوں نہ کچھ دیر کے لیے ٹہلنے چلیں؟"
میں مردہ دلی سے اس کے ساتھ ہو لی۔ مجھے معلوم تھا کہ بالآخر مجھے اس ناگزیر سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسٹیون یقیناً پوچھے گا، فلورا! تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہاری بہن اتنی خوبصورت ہے؟
لیکن اسٹیون راستے بھر خاموش رہا، حتیٰ کہ سڑک ختم ہو گئی اور ہم قصبے کے اس ویران سرے پر جا پہنچے جہاں سے کچا راستہ شروع ہوتا تھا۔ تب وہ بوجھل سی سانس لے کر بولا، "فلورا! اب اس معاملے کو ختم سمجھو۔"
میرے دل پر جیسے برچھی سی لگی۔ مجھے گمان نہ تھا کہ وہ ترکِ تعلق میں اس قدر سفاکی دکھائے گا۔ میں توقع کر رہی تھی کہ وہ کچھ نرمی اور بہانہ سازی کے ساتھ مجھ سے دامن چھڑائے گا، لیکن اس نے تو سیدھے الفاظ میں اعلان کر دیا کہ بات ختم ہو چکی ہے۔
میں نے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا تو حیرت ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں سرد مہری کے بجائے ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اندر ہی اندر کسی بات پر مسکرا رہا ہو۔ پھر وہ قدرے جھکتے ہوئے بولا، "میں پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جو تم مجھے گھر نہیں لے جاتیں۔ اور آج وہ وجہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔ تمہارا خوف بجا تھا، لیکن میں تمہیں بتاؤں کہ میں تمہاری شمعِ محفل قسم کی بہن کے حسن و کشش سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اسی قسم کی صورت حال کا میں نے بھی برسوں سامنا کیا ہے۔
میرا بھی ایک چھوٹا بھائی تھا، نہایت وجیہہ، چنچل اور بلا کا چرب زبان۔ وہ جہاں پہنچتا، جانِ محفل بن جاتا۔ لڑکیاں اس کی طرف کھنچی چلی آتیں۔ میں نے جن چند لڑکیوں سے یکے بعد دیگرے دوستی کرنے کی کوشش کی، وہ سب اسی کی گرویدہ ہو گئیں، اور میں ہمیشہ کی طرح تنہا رہ گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ کیلیفورنیا چلا گیا، لیکن ظاہر ہے وہ کبھی واپس بھی آ سکتا ہے۔
مجھے اب شدت سے ایک ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو مجھ جیسے سپاٹ، سادہ اور بردبار آدمی سے محبت کر سکے، مجھ میں کوئی خاص کشش نہ ہونے کے باوجود میری ہی گرویدہ ہو کر رہے۔ اور میرا خیال ہے ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت اچھے شریکِ حیات ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہم ایک دوسرے کا مسئلہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اگر تمہیں میری رفاقت قبول ہے تو میں کل ہی منگنی کی انگوٹھی لے کر تمہارے ہاں آ جاؤں گا… بولو، کیا تمہیں منظور ہے؟"
میری آنکھیں کچھ اور دھندلا چکی تھیں، لیکن اب ان
میں شکست کے آنسو نہیں تھے۔ تقدیر کبھی کبھی کیسے شریر سے انداز میں انسان کے لیے نئی زندگی کی نوید لے آتی ہے۔