#میں_تم_اور_وہ
#قسط_چار_4
#از_قلم_نوشابہ_منیر
" میری پیاری مما دھڑم سے نیچے بیڈ پر آ گری تھی میں بھاگتے ہوئے مما کے پاس چلی گئی تھی وہ بیڈ پر اوندھے منہ گری تھیں ۔۔۔۔
" مما ۔۔۔ مما ۔۔۔ پلیز مما ۔۔ آنکھیں کھولیں دیکھیں آپکی بیٹی کو بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز مما مجھے کہیں چھپا لیں مم مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے مما مما پلیز آنکھیں کھولیں آپ نے تو کہا تھا سب ٹھیک ہو جائے گا دیکھیں ناں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا پلیز مما مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں مما اٹھیں ناں پلیز آپکی بیٹی کو بہت ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں رو رہی تھی چیخ رہی تھی کپکپا رہی تھی تڑپ رہی تھی مچل رہی تھی ۔۔ پر مما نے میری پیاری مما نے کوئی بھی جواب نہ دیا تھا مجھے ۔ پورا کمرا میری چیخوں اور سسکیوں سے گونج رہا تھا میرا خوف سے الگ برا حال تھا
دل تھا کہ جیسے ہر وقت باہر آنے کو تیار رہتا تھا میری سانسیں بے ترتیب تھیں مجھے آج اپنی موت صاف نظر آ رہی تھی تب ہی مین گیٹ پر گاڑی رکنے کی آواز آئی تھی ساتھ ہی کسی نے بیل بجائی میں ڈر کے مارے بیڈ کے نیچے جا چھپی تھی میرا سارا جسم کپکپا رہا تھا میں تھر تھر کانپ رہی تھی مجھے آج بھی جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آج بھی میں وہی خوف محسوس کرتی ہوں آج بھی میں وہی اذیت محسوس کرتی ہوں ۔۔ میں بیڈ کے نیچے چھپی اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھی سانس تک روکے ہوئی تھی ۔
مین گیٹ پر دوبارہ بیل ہوئی تھی
" ضرور یہ مجھے گمراہ کرنے کے لیے باہر بلا رہا ہو گا "۔۔۔ میں دل ہی دل میں سوچتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ ہو گئی تھی میرا بس نہیں چل رہا تھا میں کہیں بھاگ جاوّں
پر بھاگتی تو بھاگتی کہاں جہاں بھی جاتی وہ پہلے سے ہی پہنچ جاتا تھا ایک بار پھر کسی نے دروازے پر دستک دی تھی اس بار دستک دینے والے نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے دستک دی ۔ میں مما کے بیڈ کے نیچے چھپ گئی تھی میں نے خوف کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں میں نے اپنی سانس لینی تک بند کر دیں تھیں ۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کو دبائے سسکیاں روکنے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی تب ہی ایک بار پھر کسی نے دروازے پر بیل دی اور اس بار بیل دینے والا تو شاید بیل سے ہاتھ ہٹانا ہی بھول گیا تھا مسلسل ہونے والی بیل میری سماعتوں پر ہتھوڑے برسا رہی تھی میرے اعصاب شل کر رہی تھی ۔ اس کی آواز سے میرے دماغ کی شریانیں جیسے پھٹنے کو تیار تھیں پھر اچانک بیل بند ہو گئی ایک دم خاموشی چھا گئی تھی گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز بھی میرے کانوں کو بری لگنے لگی تھی ۔۔۔۔
اچانک ایسے محسوس ہوا جیسے بیڈ کے اوپر کوئی آ کر بیٹھا ہو بیڈ پر چرچراہٹ محسوس ہوئی تھی میں نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولیں تھیں تو میرے بالکل سامنے زمین پر وہی موٹی کالی بلی بیٹھی مجھے گھور رہی تھی اچانک اسے اپنے سامنے پا کر میں خوف سے ایک دم اٹھی تھی میرے منہ سے ایک خوفناک چیخ برآمد ہوئی تھی بیڈ کی سائیڈ کا ایک کونا میرے ماتھے میں پپوست ہوا جس سے میرے ماتھے سے خون ٹپکنے لگا تھا درد کی ایک ٹیس میرے پورے وجود میں سرایت کر گئی تھی میں درد کو بھلائے بیڈ کی دوسری سائیڈ سے باہر نکلی تھی میں یہ بات بھی بھول چکی تھی کہ میں اس وقت بیڈ کے نیچے دبی ہوئی تھی خون سے میرے ہاتھ بھر چکے تھے اب وہ میرے چہرے سے لڑکھڑاتا ہوا میرے کپڑے بھگو رہا تھا میں نے جلدی سے مما کے بیڈ کی دراز کھولی تھی میری مما کی ایک عادت تھی وہ بیڈ کی دراز میں ٹشو کا پیک ضرور رکھتی تھی تب میں نے دراز سے وہ ٹشو نکل کر اپنا ماتھا صاف کیا چہرے پر آیا خون صاف کیا
تب ہی انکل کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی جو مجھے پکارتے ہوئے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
" گھر میں کوئی ہے زویا بچہ آپ کہاں ہیں زویا آپ کا انکل آ گیا ہے آپ کہاں ہیں باہر آ جائیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے جھٹ سے مما کے کمرے کا دروازہ کھول دیا تھا ۔
" انکل "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے چیخ نکلی تھی ۔۔۔۔۔
" ارے بچہ کیا ہوا ہے آپکو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ انکل نے میرے ماتھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔
میں روتے ہوئے انکل کے گلے لگ گئی تھی ۔۔۔
" انکل میری مما کو بھی اس درندے نے مار ڈالا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے روتے ہوئے مما کی کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
" بچہ کیا ہوا آپکی مما کو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل بے قراری سے پوچھتے ہوئے مما کے کمرے کی جانب بڑھے تھے ۔۔
تب ہی اچانک سے مجھے یاد آیا کہ مین گیٹ تو بند تھا تو انکل اندر کیسے آئے ؟ ضرور وہ مجھے پھر سے گمراہ کرنے کی غرض سے آیا ہے ۔۔ جب تک انکل مما کے روم میں داخل ہو چکے تھے اور میں مما کے روم سے نکل کر گیلری میں کھڑی تھی ۔۔۔۔
" کون ہو تم "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
" بچہ کیا ہوا ہے آپکو آپ ایسے کیوں بات کر رہی ہیں میرے ساتھ میں آپکا انکل ہی ہوں مجھے کافی پریشانی ہو رہی تھی آپکی ۔ میں نے آپکو کال بھی کی تھی ۔ لیکن آپ نے رسیو ہی نہیں کی ۔ دوبارہ کال کی تو آپ کا سیل ہی آف جا رہا تھا اس لیے میں آپ کا پتہ کرنے چلا آیا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے مجھے تفصیل بتاتے ہوئے ایک بار پھر سے گلے لگایا تھا ۔
" آپ جھوٹ بول رہے ہیں مین گیٹ کا دروازہ بند ہے تو آپ اندر کیسے آئے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
میں پھدک کر ان سے دو قدم پیچھے ہٹی تھی میری آنکھوں میں شاید انہوں نے خوف کی پرچھائی دیکھ لی تھی تب ہی مسکرا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے تھے ۔
" بچے میں نے بہت بار بیل دی تھی آپ نے گیٹ ہی نہیں کھولا میری مسلسل بیل دینے پر ساتھ والا ہمسایہ باہر نکل آیا تھا ۔۔۔۔۔
" السلام علیکم !
کس سے ملنا ہے آپکو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے پوچھا تھا ۔
" وعلیکم السلام !
جی یہاں میری بیٹی رہتی ہے مجھے ان سے ملنا ہے کافی دیر سے دروازے پر دستک دے رہا ہوں لیکن وہ دروازہ ہی نہیں کھول رہی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کافی پریشانی سے اسے بتایا ۔
" جی کچھ دیر پہلے ان کے گھر کافی شور شرابا تھا پر اب کافی دیر ہو گئی ہے سب امن ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے کافی شائستگی سے جواب دیا تھا
میرے دل میں عیجب سے واہمے اٹھ رہے تھے ۔
" یہ تو دروازہ نہیں کھول رہے بچے کیا ایسا ممکن ہے کسی طرح میں گھر کے اندر چلا جاوّں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بے چینی محسوس کرتے ہوئے پوچھا ؟
" انکل اور تو کوئی راستہ نہیں ہے میں مین گیٹ کے اوپر سے چڑھ کر اندر جاتا ہوں پھر اندر جا کر مین گیٹ کھول دیتا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اس لڑکے کو گیٹ پر چڑھنے میں مدد کی تھی وہ لڑکا گیٹ پر چڑھ کر گیٹ سے اندرونی حصے میں اتر گیا تھا پھر جا کر مین گیٹ کھول دیا تھا اس طرح بچہ میں اندر آ گیا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر مکمل تفصیل سے بتایا تھا ۔ پھر آگے بڑھ کر میرے ڈر اور خوف والے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے مجھے ایک بار پھر گلے سے لگا لیا تھا ۔۔۔
میں انکل کے گلے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر بلک بلک کر رو پڑی تھی ڈر خوف پریشانی نے میری حالت ہی غیر کر دی تھی مما کی جدائی کا غم الگ دماغ پر سوار تھا میرے سارے اپنے میری ہی وجہ سے مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے اس بات کا دکھ الگ ہوا تھا مجھے سارے غم مل کر اندر ہی اندر مجھے کرچی کرچی ہو چکے تھے مجھ میں اب کسی اور اپنے کو کھونے کی سکت بالکل ختم ہو گئی تھی میرے اپنے تھے بھی تو یہی جو میں نےکھو دیے تھے ،
" انکل مومن کیسا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ کچھ لمحوں بعد جب میرے دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو سب سے پہلا خیال مجھے مومن کا آیا تھا تب میں نے بے قراری سے پوچھا تھا ؟
انکل کسی سے موبائل پر بات کر ریے تھے ۔۔۔
میری بات سن کر سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے جواب دیا لیکن منہ سے کچھ بھی نہیں کہا ۔۔۔۔۔
" تم گاڑی میں ابھی زویا کی مما کے گھر پہنچو انکی مما کی ڈیٹھ ہو گئی ہے یار اگر گاڑی نہیں تو تم یاسر کی گاڑی میں آ جاو زویا اس وقت بالکل تنہا ہے اسے ہمارے سہارے کی اشد ضرورت ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( یاسر میرے دیور کا نام تھا )
میں نے وال کلاک پر نظر ڈالی تو
چار 4 بج کر تیس 30 منٹ ہو رہے تھے انکل نے مجھے بیڈ پر بیٹھایا ۔۔۔۔ اور کچن سے پانی کا گلاس بھر کر میرے قریب آتے ہی میرے ہونٹوں سے لگایا تھا ۔
" بچہ آج سے کبھی خود کو تنہا نہ سمجھنا یہ بابا آپکے ساتھ ہے اور ہمیشہ ساتھ دے گا بالکل ایک باپ کی طرح "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے وہ پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں پی لیا تھا میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا پیا تھا یہ پہلا گلاس تھا جو میں نے فٹافٹ سے پی لیا تھا ۔۔۔
❤❤❤
صبح ہمارے گھر سب موحود تھے میری ساس میری نندیں دیور دیورانی جٹھانی وغیرہ
سب نے مجھے حوصلہ دیا تھا میری مما کو میری آنکھوں کے سامنے لے جایا گیا تھا میں روتی رہی گڑگڑاتی رہی کہ میری مما کو مت لے جائیں پر کسی نے میری ایک نہ سنی میری مما کو اسکے اصل مقام پر لے جایا گیا تھا میں آج خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھی میرے اتنے سارے اپنے تھے لیکن ان سب کے باوجود میں آج بالکل تنہا ہو گئی تھی میرے اتنے ساروں کے باوجود میری مما کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا تھا اتنا میں جان گئی تھی ۔۔۔۔
❤❤❤
جب میں شام کو مومن کو دیکھنے ہوسپیٹل گئی تو وہ ( آئی سی یو ) میں تھا ۔۔۔۔
ڈاکٹرز نے وہاں جانے سے منع کر دیا تھا کہ اتنے سارے لوگ ایک ساتھ نہیں جا سکتے ۔۔۔۔۔
بڑی منتوں سے بڑی مشکل سے میں نے اپنے لیے اجازت لے لی تھی ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے بس مجھے اتنی اجازت دے دی کہ میں باہر سے ہی ان کو دیکھ لوں اندر جانے کی اجازت نہیں دی تھی کہ اندر جانے سے پیشنٹ ڈسڑب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔
چلو اتنا ہی سہی ڈاکٹر نے اجازت دے تو دی باہر سے ہی سہی میں جیسے ہی ( آئی سی یو ) کے قریب پہنچی باہر لگے گلاس ڈور سے اندر کمرے کا جائزہ لیا تو ایک پل کے لیے میرے دل نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا ہو میں سکتے کے عالم میں کھڑی کمرے کے اندر دیکھ رہی تھی کسی کو مدد کے لیے بلانا چاہ رہی تھی لیکن میری آواز نے میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا پھر اچانک ایک دم سے میری چیخ فضا میں بلند ہوئی تھی میرے چیخنے سے پورا ( آئی سی یو ) لرز اٹھا تھا ۔۔۔۔
❤❤❤
پھر اچانک ایک دم سے میری چیخ فضا میں بلند ہوئی تھی میرے چیخنے سے پورا ( آئی سی یو ) لرز اٹھا تھا ۔۔۔۔
میری نظر جیسے ہی بیڈ پر لیٹے مومن پر پڑی تو چند لمحوں کے لیے میں سکتے میں آ گئی تھی میری اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے رہ گئی تھی کیونکہ سامنے بیڈ پر مومن تڑپ رہا تھا بن پانی کی مچھلی کی طرح اس کا سانس اکھڑ رہا تھا وہ ہاتھ پاوّں مار رہا تھا ایک دم سے میری چیخ نکلی تھی سارا کمرا میری چیخوں سے گونج اٹھا تھا ایک نرس بھاگتے ہوئے میرے پاس آئی ۔۔۔۔۔
" ایکسکیوز می میم کیا ہوا
ہے آپکو "۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا
" وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔۔
میں ہاتھ کے اشارے سے شیشے کے پار مومن کو دیکھتے ہوئے بس اتنا کہہ پائی تھی اس نرس نے میرے چہرے پر پریشانی اور گھبراہٹ بھرے تاثرات دیکھتے ہوئے گلاس ڈور کے پار دیکھا تھا ۔۔۔
" او نو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ ( آئی سی یو ) والے کمرے کی طرف بھاگی تھی اور ڈاکٹرز بھی بھاگتے ہوئے ( آئی سی یو ) والے روم کی طرف چلے گئے تھے انکے پیچھے انکل کی فیملی بھی بھاگ کر میرے پاس پہنچی تھی انکل نے میرے چہرے پر پریشانی اور خوف کے تاثرات دیکھ کر آنکھوں کے اشاروں سے پوچھا ؟؟
" کیا ہوا بیٹی سب ٹھیک تو ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آنٹی نے بھی میرے قریب آتے ہوئے پوچھا ؟؟
" جی جی آنٹی سب ٹھیک ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پتھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا ۔
میرا خوف سے برا حال تھا دل انجانے خوف سے بے قابو ہو رہا تھا ۔
میں نے ایک بار پھر شیشے کے گلاس ڈور کے پار دیکھا تب سامنے صوفے پر ہلکا سا دھواں محسوس کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہلکا سا دھواں کمرے کی کھڑکی کے پار فضا میں تحلیل ہو گیا تھا ۔۔
" اففف یہ یہاں بھی پہنچ گیا "۔۔۔۔۔۔۔۔
( میں نے دل میں سوچا تھا ) ۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا میں کیا کروں یہ کیسی محبت تھی اسکی مجھ سے سب کچھ تو چھین لیا تھا میرا کل اثاثہ میرے ماں باپ تھے وہ بھی اس نے چھین لیے تھے ۔ مومن کا آخری سہارا بچا تھا اب یہ بھی چھیننا چاہتا تھا ۔
میں نے انکل کی طرف دیکھ کر سر کا اشارہ کرتے ہوئے انکو کمرے سے باہر چلنے کو کہا تھا ۔۔۔۔
انکل نے بھی شاید میرا اشارہ سمجھ لیا تھا تب ہی انکل بھی سر اثبات میں ہلا کر ایکسکیوز کرتے ہوئے باہر چلے گئے تھے
انکے پیچھے میں بھی کمرے سے باہر چلی آئی تھی ۔۔
" کیا ہوا بیٹا تم کچھ پریشان ہو ؟ بات کیا ہے مجھ سے شئیر کرو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے ایک کرسی پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دوسری پر وہ خود بیٹھے تھے ۔۔
" جی انکل میں واقعی میں کافی پریشان ہوں انکل اس نے مجھ سے سب کچھ تو چھین لیا ہے اب وہ میرا مومن مجھ سے چھیننا چاہتا ہے اور میں کسی صورت ایسا نہیں ہونے دوں گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مضبوط ارادوں سے کہا ۔۔
" بچہ کیا وہ یہاں بھی آیا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ؟؟
" جی انکل وہ آیا تھا کچھ دیر پہلے میں نے اسے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بہت ہی آہستگی سے بتایا مجھے ڈر تھا کہیں وہ اب بھی میرے آس پاس چھپ کر میری باتیں نہ سن رہا ہو
اور میرا شک درست ثابت ہوا تھا ۔ وہ بالکل انکل کے پیچھے اور میرے سامنے موجود تھا اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکان نے احاطہ کیا ہوا تھا ۔
مجھے اس پر بہت غصہ آیا تھا میں اپنی کرسی سے اٹھ کر بالکل اسکے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔
" تم چاہتے کیا ہو کیوں میری زندگی اجیرن کر دی تم نے آخر تم چلے کیوں نہیں جاتے میری زندگی سے اور میری دنیا سے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے انتہائی کرخت اور غصیلی آواز میں پوچھا ؟
کچھ لمحوں کے لیے بالکل خاموشی چھائی رہی ۔
انکل نے بھی گردن موڑ کر پیچھے دیکھا ۔
کوئی جواب نہ پا کر میں نے ایک بار پھر سے پوچھا تھا ۔۔۔
" بتاو مجھے تم کیا چاہتے ہو کیوں مجھے سکون کی سانس لینے نہیں دیتے میرے سامنے آوّ اور آ کر مجھے بتاو آخر تمھارا مسئلہ کیا ہے کیوں مجھے سکون سے جینے نہیں دیتے ہو سب کچھ تو چھین چکے ہو میرا
اور کیا چھیننا باقی رہ گیا ہے ؟ میری وجہ سے نا جانے کتنوں کا خون کر دیا ہے تم نے اور کتنوں کا کرنا باقی ہے ۔ مجھے ایک ہی بار بتا دو مجھ میں اور سکت نہیں ہے کسی اپنے کو کھونے کی میری ہمت ٹوٹ چکی ہے نہیں سہہ پاوّں گی کسی اور اپنے کی قربانی میں ایسا کرتی ہوں اپنی ہی جان لے لیتی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
" مجھے اب تم سے محبت نہیں ہے اب تم میری ضد بن گئی ہو بس "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نظر تو نہیں آ رہا تھا پر اسکی اژدھ جیسی آواز میری سماعت پر ہتھوڑے برسا رہی تھی ۔۔۔
" اگر میرے بیٹے کو کچھ بھی ہوا تو تم اتنا یاد رکھنا میں بھول جاوّں گا تمھاری ماں کی اچھائی ۔ تمھاری ماں کے سب احسانات ۔ میں تم کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا ایسا سبق سکھاوّں گا تو عاشقی کرنا بھول جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل کرسی سے ایک جھٹکے سے اٹھ کر میرے پاس آ کر غصے بھرے لہجے میں کہا ۔۔
" ہاہاہاہاہاہا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فضا میں ایک قہقہہ گونج اٹھا تھا اسکے مکروہ قہقہے میں ایک طوفان کا اندیشہ تھا پھر ایک دم خاموشی چھا گئی تھی جیسے طوفان آنے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے بالکل ویسی خاموشی ۔۔۔۔
" انکل یہاں سے چلیں کہیں وہ مومن کو کوئی نقصان نہ پہچا دے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گھبراہٹ میں انکل کی کلائی پکڑ کر سبک خرام قدموں سے چلنے لگی تھی
انکل بھی میری طرح تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھنے لگے تھے جیسے انکل کو بھی اندشہ ہو کہ وہ کچھ غلط نہ کر دے ۔۔۔۔
میں چل کم دوڑ زیادہ رہی تھی ہم ہسپتال کے اندرونی حصے میں پہنچ کر جیسے ہی
( آئی سی یو ) والے کمرے کے پاس پہنچے اور شیشے کے گلاس ڈور سے اندر جھانکا تو
تو وہ بالکل مومن کے پاس پہنچ چکا تھا اسکے کیا ارادے تھے میں نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔
میں فوراً اسی گلاس ڈور کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی ۔۔ وہاں اور بھی ڈاکٹرز موجود تھے ۔۔۔
" ایکسکیوز می ۔۔۔ میم ۔۔۔۔ آپ اندر نہیں آ سکتیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر باہر لے جانے لگے ۔
" میرے شوہر کی جان کو خطرہ ہے پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کریں ،
please try to understand me "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر کہا ۔
ڈاکٹر نے حیرت سے میری طرف دیکھا ۔۔
" میں آپکی بات سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟ کیا ہم ڈاکٹرز یہاں جھک مار رہے ہیں کیا آپکے شوہر کو ہم غلط ٹریٹ کر رہے ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کافی غصیلے لہجے میں ہوچھا ؟
" میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ڈاکٹر صاحب میں اپنے شوہر پر بس آیت الکرسی پڑھنا چاہتی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھنے سے بچا لیا تھا ۔ تب ہی مومن ہاتھ پاوّں مارنے لگا تھا اسکی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں ۔ یہ سب کچھ ڈاکٹرز بھی دیکھ رہے تھے
پھر وہ بھی اسے بچانے کی کوشش میں لگ گے تھے ۔
میرا وہی مسئلہ تھا پریشانی میں آیت الکرسی پڑھنا بھول جاتی تھی ۔ اور میں کبھی کبھی بیچ میں ہی بھول جاتی تھی اس بار بھی ایسا ہوا تھا میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے بیچ میں بھول گئی تو میں بھاگ کر انکل کو بلا لائی تھی جو دروازے کے وسط میں حیرت سے کھڑا سر کو کبھی دائیں تو کبھی بائیں کر کے گھور رہا تھا شاید انکل اسد کو کھوج رہے تھے اسد مومن کے پاس کھڑا تھا وہ مجھے تو نظر آ رہا تھا شاید انکل کو نہیں آ رہا تھا
تب ہی وہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
تب تک مومن ہاتھ پاوّں مارتے ہوئے نیم بے ہوش ہو چکا تھا سب ڈاکٹر اپنی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔
انکل نے آیت الکرسی کے ساتھ چاروں قل قرآن پاک کی پیچھلی سورتیں پڑھ کر مومن پر پھونک ماری تھی ۔
تب ہی کمرے میں دھواں اٹھا تھا پورا کمرا دھواں سے بھر گیا تھا ۔
انکل نے مومن کے بیڈ کے چاروں طرف پھونک ماری تھی بیڈ کے چاروں طرف ایک کڑا دیا تھا تب مومن کی حالت کچھ بہتر ہوئی تھی اور وہ دھواں کا ایک غول کمرے کی کھڑکی سے باہر کہیں ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا ۔
" یہ سب کیا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ایک ڈاکٹر جیسے ہی اپنے حواس میں لوٹا تو کچھ پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگا تھا ۔۔۔۔
انکل نے ڈاکٹر کے سامنے سب کچھ من و غن بیان کر دیا تھا ۔
میں نے وہ پوری رات ہوسپیٹل میں گزاری تھی کیونکہ مجھے گھر جانے سے بہت خوف اور ڈر محسوس ہوتا تھا اس لیے میں انکل کو بتا کر وہیں ہسپتال میں رک گئی تھی ۔۔۔
صبح سات بجے انکل کی ساری فیملی ہمارے گھر پر موجود تھی انہوں نے کال کر کے مجھے گھر آنے کو کہا تھا ۔۔
" بچہ تم ایسا کرو ٹیکسی کر کے گھر چلی جاو تمھاری مما کی تعزیت کے لیے لوگ گھر آ رہے ہیں اور تمھارا وہاں ہونا بے حد ضروری ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے میرے سامنے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا ۔ جو کچھ دیر پہلے میرا دیور دے کر گیا تھا ۔۔
سلائس جام کے ساتھ ایک تھرماس بھی تھا جس میں گرما گرم چائے تھی ۔۔۔
میرے سر میں کافی درد تھا میں نے بنا کچھ کھائے بس ایک کپ چائے پی لی تھی ۔
" ٹھیک ہے انکل میں چلتی ہوں شام کو ان شاء الله پھر سے چکر لگاوّں گی آپ نماز کے بعد آیت الکرسی کے ساتھ چاروں قل پڑھ کر مومن پر ضرور پھونک مار دیجیئے گا ۔ مجھے لگتا ہے وہ پھر آئے گا ۔ مجھے بہت پریشانی ہو گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ انکل نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر سر اثبات میں ہلا دیا تھا ۔۔۔۔
وہ ابھی بھی منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے ۔
" تم فکر نہ کرو بچہ میں ہوں ناں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے پہلے ایک پھونک بیڈ پر سوئے مومن پر ماری ۔ پھر میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیر کر مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔
میں نے بھی نظر اٹھا کر مومن کو دیکھا
تو وہ سکون سے سو رہا تھا ۔۔۔۔
میں اتنا کہہ کر خاموشی کے ساتھ ہوسپیٹل کے گیٹ سے باہر نکل آئی تھی ۔۔۔۔
میں گھر واپس آ گئی تھی ایک دو دن تک میں صبح شام مومن کے پاس ہو آتی تھی کچھ ہی دن ہوئے تھے
❤❤♥️
پھر ایک دن انکل کی کال آئی کہ مومن کو ہوش آ گیا ہے وہ اب خطرے سے باہر ہے ہم سب نے الله پاک کا
بے حد شکر ادا کیا تھا ہم سب بے حد خوش تھے ۔۔۔۔
میں شام میں مومن سے ملنے ہوسپیٹل گئی تو وہ پہلے سے کافی بہتر تھا اسے ( آئی سی یو ) والے کمرے سے دوسرے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔
ہم کچھ دن ہی ہوسپیٹل رہے تھے پھر ڈاکٹر نے مومن کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد اسے ڈسچارج کر دیا تھا ۔۔۔
اسد کافی دونوں سے پھر میرے پاس نہیں آیا تھا وہ کہاں تھا وہ کہاں گیا مجھے نہیں معلوم وہ زندہ تھا یا نہیں مجھے تو اسکے بارے میں اتنا بھی پتہ نہیں تھا میں اس بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی تھی اور نہ مجھے کبھی اسکے بارے میں تجسس ہوا کہ آخر وہ چلا کہاں گیا ہے
جب مومن مکمل ٹھیک ہو کر گھر آیا تو میری ساس نے کہا
" اب آپ دونوں کا یہاں تنہا رہنا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے آپ دونوں ہمارے ساتھ ہمارے گھر چل کر رہو "۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی انکی بات سے متفق ہو گئی تھی کیونکہ اب اس گھر میں میرا کوئی بھی تو نہیں تھا جس کی وجہ سے انکار کرتی مما کا ایشو بھی اب ختم ہو گیا تھا عورت کا اصلی گھر تو ویسے بھی اسکے شوہر کا ہی ہوتا ہے اور سچ پوچھیں تو اب مجھے بھی اپنے اس گھر سے کافی خوف آتا تھا ایسا لگتا تھا جیسے وہ میرے آس پاس اس گھر میں کہیں نہ کہیں موجود ہو اور مجھے گھور رہا ہو اس لیے میں اپنی ساس کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی اور سب سے بڑی بات میرا شوہر بھی یہی چاہتا تھا کہ میں انکی فیملی کے ساتھ رہوں اس لیے ہم دونوں نے ایک دو دن کے اندر ہی اندر وہ گھر خالی کر دیا تھا پھر اس گھر کو رینٹ پر دے دیا تھا میں یہاں آ کر سکون پا گئی تھی مجھے کبھی کبھی احساس ضرور ہوتا تھا کہ آخر وہ گیا تو گیا کہاں ۔۔ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا
اب میں اسکے بارے میں مزید سوچنا نہیں چاہتی تھی مجھے الله نے بیٹی جیسی رحمت دے کر میرے سارے دکھ درد ختم کر دیئے تھے جیسے پا کر ہم سب بے حد خوش تھے ہم نے اسکا نام عناب رکھا تھا ( عناب کا مطلب سرخ گلاب ) میں اپنی بیٹی میں اس قدر مگن ہو گئی تھی کہ اپنی بیتی سب باتیں فراموش کر بیٹھی تھی میں پیچھلی سب باتیں بھول گئی تھی کیونکہ ان سب باتوں کو کافی عرصہ بیت چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے بھی آنا چھوڑ دیا تھا میں سمجھی شاید میری شادی ہو گئی ہے اس لیے اس نے آنا چھوڑ دیا ہے میری زندگی بہت آسان ہو گئی تھی اس سے بڑی خوشی کی بات میرے لیے بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اب مجھے تنگ کرنے نہیں آتا لیکن یہ میری خام خیالی تھی ۔۔۔۔۔۔
میری بیٹی ماشاءاللّٰه اب پاوّں پاوّں چلنے لگی تھی پھر ایک دن ایسا ہوا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ایک رات میں نے اپنی بیٹی کو کاٹ میں سلایا میری بیٹی کا کاٹ بیڈ سے کچھ فاصلے رکھا تھا میں چائے بنانے کچن میں گئی تھی مومن کا ایک مسئلہ تھا وہ کام کے پیچھے کریزی تھا
وہ جو بھی کام کرتا تھا جب تک اسے مکمل نہ کر لیتا وہ گھر نہیں آتا تھا وہ کام کے سلسلے میں کئی کئی راتیں گھر سے باہر گزار دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
رات تھی سب سو رہے تھے عناب کو کاٹ میں سلا کر میں چائے بنانے کچن میں گئی تھی میری یہ پرانی عادت تھی میں جب تک رات کو چائے نہ پی لیتی مجھے نیند نہیں آتی تھی تو میں یہ غرض پوری کرنے کی خاطر اس وقت کچن میں کھڑی چائے بنانے میں مگن ہو گئی تھی پھر کمرے میں آ کر میں نے وہ چائے پینے کے بعد وہ خالی کپ کچن میں رکھ کر جب واپس کمرے میں لوٹی تو بیٹی کے کاٹ کے اوپر والا دوپٹہ ڈھلکا ہوا تھا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔ ایک پل تو میرا دل دھڑکنا بند ہو گیا تھا میری بیٹی کاٹ میں نہیں تھی ۔ آپ یقین کریں اس وقت مجھے ایسا لگا تھا جیسے مجھے کسی نے آسمان کی بلندیوں سے زمین پر پٹخا ہو ۔ پٹخا بھی اتنے زور کا ہو کہ بدن ایک دم منجمد ہو گیا ہو ۔ بدن کاٹو تو لہو نہیں بالکل یہی کنڈیشن تھی اس وقت میری ۔۔۔
میں بھاگتے ہوئے اپنی ساس کے کمرے کی طرف بڑھی تھی اور جا کر انکو بتایا ۔۔۔۔ وہ بے چاری اس وقت سو رہی تھی پھر وہ بھی پرشیانی سے اٹھ بیٹھی تھی پریشانی تھی بھی تو
بے حد کچھ ہی لمحوں میں یہ بات پورے گھر میں گردش کرنے لگی تھی سب بے حد پریشان تھے میں نے جب اپنے شوہر کو کال کی تو اس کا نمبرز آف جا رہا تھا میں نے وہ پوری رات روتے ہوئے گزار دی تھی ۔ میرے سسر نے بھی مجھے حوصلہ دیا تھا ۔ لیکن میری جان جیسے سولی پر لٹکی ہوئی تھی
مجھے رہ رہ کر اپنی بیٹی کی یاد ستانے لگتی تھی اسکے ہنسنے کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ میں اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی
میں چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکی زندگی میں ہر انسان کے ساتھ ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا وہ انتہائی مجبور بے بس لاچار ہو جاتا ہے میرے لیے آج وہی لمحہ تھا میں ایک ماں تھی میرے اس وقت جو احساسات تھے میں چاہ کر بھی ان کو لفظوں میں نہیں بتا سکتی یہ کیفیت وہی جان سکتا ہے جن کے ساتھ کبھی ایسا لمحہ گزرا ہو ۔ جو بے بسی کی انتہا پر ہو یا وہ خود ایک ماں ہو ۔۔۔
الله الله کر کے صبح ہوئی میں نے مومن کو کال کی تب اس کا نمبرز بھی آن تھا اس نے جیسے ہی کال اٹینڈ کی تو میں نے روتے ہوئے رات جو کچھ ہوا سب اسے بتا دیا تھا
" تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو
یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو ؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھ پر بگڑنے لگے تھے غصہ کرنے لگے تھے ۔
" تم اندھی تھی تم اس وقت تھی کہاں "۔۔۔؟
" مم ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔ کچن میں چائے بنانے گئی تھی "۔۔۔۔۔۔ میری رات کو چائے پینے والی عادت کا اسے بھی بخوبی اندازہ تھا ۔۔۔
" ایک رات اگر تم چائے نہ پیتی مر نہ جاتی اسے آخر لے کون گیا ؟ زمین کھا گئی یا آسمان میں ابھی آ رہا ہوں "۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ ہی دیر میں دنداناتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا ۔۔۔۔
" کہاں ہے میری بیٹی ؟ خدا کا خوف کھاو تم کیسی ماں ہو ؟ ایک بچی تم سے سنبھالی نہیں جاتی ایک بیٹی کا بھی خیال نہ رکھ سکی تم "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ میرے سر کھڑا چلا رہا تھا میں سر جھکائے اس کی باتیں سنتی رہی تھی ۔۔
" یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو ؟ وہ تمھاری بیوی بعد میں ہے پہلے وہ ایک ماں ہے جس پر تم چیخ چلا رہے ہو وہ بھی اس بچی کی ماں ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ساس نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے چپ کرانے کی کوشش کی تھی
" اور یہ ہمارے گھر کا رواج نہیں ہے کوئی اپنی بیوی یا ماں بہن سے اس لہجے میں اتنی اونچی آواز میں بات کرے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سسر نے بھی اسے گھرکا تھا ۔۔
" بابا آخر میری بچی گئی تو گئی کہاں مجھے اس بات کی بہت ٹیشن ہو رہی ہے جب یہ چائے بنانے کچن میں گئی تھی تب بھی وہ کاٹ میں سو رہی تھی رات کے دس 10 بجے گھر میں گھسنے کی آخر ہمت کس نے کی ہوگی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس نے اپنا ماتھا سہلا کر شدید پریشانی میں مبتلا ہوتے ہوئے کہا تھا ۔
" کہیں اسے اسد تو نہیں لے گیا اگر کوئی انسان گھر میں گھستا تو وہ سب کو نظر آ جاتا کوئی نہ کوئی تو اس انسان کو دیکھ ہی لیتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سسر نے اپنا شک ظاہر کیا تھا ۔۔۔
یہ بات سن کر میں ایک پل کے لیے سکتے میں آ گئی تھی میرا دل لرز اٹھا تھا دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی تھی جیسے وہ ابھی دل کی دیوار توڑ کر باہر آ جائے گی ماتھے پر ہلکا سا پسینہ نمودار ہونے لگا تھا میری فیلنگز کچھ عیجب سی ہونے لگی تھی مجھے خود پر غصہ آنے لگا تھا یہ سب میری وجہ سے ہی تو ہو رہا تھا پہلے بابا انکل مما مومن کو بھی تو اس نے پوری کوشش کی تھی مارنے کی یہ تو میرے الله نے کرم کیا تھا جو اسکی جان بچ گئی تھی اور اب میری بیٹی میری معصوم جان میری زندگی
اسکو بھی نہیں چھوڑا اسے بھی لے گیا اور نہ جانے کتنوں کو میں نے کھونا ہوگا اولاد کے ساتھ کچھ برا ہو تو یہ دکھ تکلیف اور اذیت ماں کو کچھ سکون نہیں لینے دیتی ایک ماں کے لیے اولاد سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا ۔
" بابا اگر ایسا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں میری بچی واقعی اسکے پاس ہے تو اس بار میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا بہت برداشت کر لیا میں اب مجھے کچھ کرنا پڑے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بیٹا اس بار میں بھی تمھارے ساتھ ہوں اس نے ہماری نرمی کا نا جائز فائدہ اٹھا لیا ہے میں اگر اب تک چپ تھا تو اسکی ماں کی وجہ سے وہ عورت بڑی اچھی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ میرے سسر نے مومن کے کندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
پھر مومن نے اسی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا تھا وہ رات کو دیر سے گھر آنے لگا تھا اس بات کو آج تیسری رات تھی اسد اسکے ہتھے چڑھ گیا تھا
آج مومن نے جو عمل کیا تھا
وہ اپنے گھر کیا تھا
" تم میرے سامنے آوّ میرے سامنے کیوں نہیں آتے ؟ ڈرتے ہو مجھ سے بہت تماشا کر لیا تم نے اور بہت تماشا سہہ لیا ہم نے "۔۔۔۔۔۔
میں مومن کے پاس ہی بیٹھی تھی میں نے ہلکا سا دھواں ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔
پھر وہ دھواں آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تھا وہ سامنے ہی صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا مسکرا رہا تھا اسکی آنکھوں میں دیپ چل رہے تھے میں نے آج تک اتنی روشن اور خوبصورت آنکھیں کسی کی بھی نہیں دیکھیں جتنی اسکی تھی اسکی آنکھوں میں ایک عیجب سی چمک تھی وہ حسن مجسم تھا ۔۔۔۔
" لو آ گیا تیرے سامنے بھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آواز میں شیر کی دھاڑ تھی بادلوں گڑگڑاہٹ تھی اژدھ کی پھنکار تھی ۔
" کہاں ہے میری بیٹی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ مومن نے غصیلی آواز میں پوچھا تھا ۔۔۔
" نہیں جانتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مختصر جواب دے کر میری طرف دیکھا تھا
میں نے نفرت سے اپنا سر جھٹکا تھا
" میں آخری بار پوچھ رہا ہوں میری بیٹی کہاں ہے سچ بتا دے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
" نہیں جانتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس بار بھی مختصر جواب دیا تھا ۔۔۔
تب مومن نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری تھی ۔۔
اسد نے شدید غصے میں کہا ۔۔
" ایسا نہ کر نیست و نابود ہو جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن برابر عمل دوہراتا رہا پھونک مارتا رہا ۔۔
وہ زمین پر گرا گرتے ہی تڑپنے لگا ۔۔
" مجھے چھوڑ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غرایا ۔۔
" نہیں چھوڑوں گا جب تک میری بیٹی کا نہیں بتاوّ گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن باتوں کے ساتھ ساتھ عمل بھی کرتا رہا ۔
" میں کہتا ہوں چھوڑ مجھے "۔۔۔۔۔۔ اس نے چیختے ہوئے کہا ۔۔۔
مومن نے کوئی جواب نہ دیا بس عمل کرتا رہا کچھ پڑھتا اس پر پھونک مارتا وہ تڑپنے لگتا ۔
" میں بتاتا ہوں مجھے چھوڑ دے "۔۔۔۔ اس نے کراہ کر ہار مانتے ہوئے کہا جیسے تھک کے بے بس ہو گیا ہو
تب مومن نے بھی منہ میں کچھ پڑھنا بند کر دیا تھا ۔۔
" بولو میری بچی کہاں چھپا رکھی ہے تو نے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مومن نے نرمی دکھاتے ہوئے آرام سے پوچھا ؟
" وہ میرے پاس ہے لیکن میرا ارادہ اسے اٹھانے کا یا غلط نہیں تھا وہ بس سوتے ہوئے مجھے پیاری لگی تھی تو میں اسے اٹھا لیا اور اسے اپنے گھر لے گیا تھا کہ کچھ دیر اسے اپنے پاس رکھوں گا کھیلوں گا پھر آ کر واپس دے جاوّں گا ۔ میں اسے واپس دینے آ بھی رہا تھا جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو بہت شور مچا ہوا تھا
تم سب اسے ڈھونڈ رہے تھے پھر میں نے بچی کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ لوگ زیادہ نہ ڈر جائیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی آرام سے جواب دے رہا تھا ۔
" میری بچی واپس کر دو اور تم یہاں سے ہمیشہ کے لیے ہم سب سے بہت دور چلے جاو اس میں تیری ہی بھلائی ہے ۔ اسے محض دھمکی مت سمجھنا کرنے کو تو میں بہت کچھ کر سکتا ہوں لیکن الله سے ڈرتا ہوں اس لیے چپ ہوں اور تم میری چپ کا ناجائز فاہدہ مت اٹھاوّ میں تمھیں آخری بار کہہ رہا ہوں
اگر تم نہیں مانے تو میرا یہ عمل تجھے یہ گھر نہیں اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور کر دے گا یہ عمل تجھے جلا کر بھسم کر دے گا اس سے پہلے میں عمل کرنا شروع کروں ایک بار پھر سے تجھے پیار سے سمجھا رہا ہوں تم چلے جاو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے "۔۔۔۔۔ مومن نے اس بار کچھ سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔۔
" بچی تو میں تجھے دے دوں گا پر یہاں سے جاوّں گا کہیں بھی نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی دو ٹوک لہجے میں غراتے ہوئے کہا ۔
" جاو گے کیوں نہیں ؟ میری زندگی اجیرن کر دی ہے تم نے سانسیں گھٹتی ہیں میری دم نکلتا ہے میرا تمھارے اس پاگل پن سے ۔ دل چاہتا ہے تجھے مار ڈالو ؟ یا پھر خود کو مار دوں پاگل کر کے رکھ دیا ہے تم نے مجھے تیری اس دیوانگی کی وجہ سے جانے کتنے میرے اپنے مجھ سے چھین گئے ہیں ۔ اور جانے کتنوں کو کھونا پڑے گا مجھے ۔ نہیں ہے سکت مجھ میں مزید کسی اپنے کو کھونے کی ڈر لگتا ہے مجھے تیری اس اندھی محبت سے ۔ نفرت کرتی ہوں میں تجھ سے اور تیری اس پاگل اور اندھی محبت سے
چلے کیوں نہیں جاتے تم میری زندگی سے نہیں کرتی میں تجھ سے محبت میں محبت بس اپنے شوہر مومن سے ہی کرتی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کافی سخت لہجے میں کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی میرا دل پھٹنے لگا تھا تیز اور اونچی آواز بولنے کی وجہ سے میرے دل کی دھڑکن بے ترتیت ہونے لگی تھی پتہ نہیں مجھے کیوں اچانک یوں غصہ آ گیا تھا ۔ غصہ تھا یا نفرت یہ بھی نہ جان سکی تھی یا شاید ڈر اور خوف تھا مزید کسی کے کھونے کا ۔ اس جیسی پاگل اندھی شدت والی محبت سے مجھے شروع سے ہی ڈر لگتا تھا چاہے ایسی محبت انسان ہی کیوں نہ کرتا ہو شدت والی محبت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے وہ محبت ہی کیا جہاں کسی اپنے کو کھونا پڑ جائے مجھے ایسی محبتیں نہیں چاہیں تھیں
میں تم اور وہ، نوشابہ منیر ناول، Urdu Horror Stories, Urdu Jinnat Kahaniyan, Main Tum Aur Woh, Nooshaba Munir, Urdu Horror Novel, Horror in Urdu, Urdu Suspense, Urdu Anokhe Khaniyan, Urdu Thriller Stories