حضرت محمد ﷺ کی پیدائش سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کس کے نکاح میں تھیں؟
اسکرپٹ رائٹر: فرزانہ خان
السلام علیکم ناظرین!
آج ہم آپ کو ایک ایسا ایمان افروز واقعہ سنانے جا رہے ہیں جو نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے کچھ ہی عرصہ پہلے پیش آیا۔ یہ واقعہ نہ صرف تاریخِ اسلام کا حصہ ہے بلکہ قرآنِ پاک میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، جو آج بھی ہمارے دلوں کو ایمان سے بھر دیتا ہے۔
یہ واقعہ ہے "واقعۂ فیل" کا — جب یمن کا بادشاہ ابرہہ خانۂ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ کی طرف بڑھا۔
ابرہہ نے یمن میں ایک شاندار گرجا تعمیر کیا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے قبائل خانہ کعبہ کو چھوڑ کر اُس گرجا کی زیارت کے لیے آئیں۔ لیکن جب عربوں کو اس کی یہ چال سمجھ میں آئی تو قبیلہ کنانہ کے ایک شخص نے اُس گرجا کی بے حرمتی کی، جس پر ابرہہ آگ بگولا ہوگیا۔
غصے میں آکر اس نے اپنے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ اُس کے لشکر میں ہاتھی بھی شامل تھے، اور اسی وجہ سے اس لشکر کو اصحاب الفیل کہا جاتا ہے۔
جب یہ لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو ابرہہ کے سپاہیوں نے مکہ کے اطراف موجود مویشیوں پر قبضہ کر لیا، جن میں حضرت عبدالمطلب — جو نبی کریم ﷺ کے دادا تھے — کے چار سو اونٹ بھی شامل تھے۔
حضرت عبدالمطلب کو جب یہ خبر ملی تو وہ ابرہہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ جب ابرہہ نے عبدالمطلب کو دیکھا تو ان کے رُعب و دبدبے اور جلال سے متاثر ہو کر اپنی مسند سے اُٹھ کھڑا ہوا اور عزت و احترام کے ساتھ ان سے مخاطب ہوا۔
ابرہہ نے پوچھا:
"آپ میرے پاس کس لیے آئے ہیں؟"
حضرت عبدالمطلب نے بڑے وقار سے جواب دیا:
"میرے اونٹ جو تمہارے سپاہی لے گئے ہیں، وہ مجھے واپس کر دو۔"
ابرہہ نے حیران ہو کر کہا:
"میں سمجھا تھا کہ تم خانہ کعبہ کی حفاظت کے لیے بات کرو گے، لیکن تم نے تو اپنی اونٹوں کی واپسی مانگ کر اپنی عزت گھٹا دی۔"
حضرت عبدالمطلب نے نہایت پُرسکون لہجے میں جواب دیا:
"یہ اونٹ میرے ہیں، اور خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ کا ہے، وہ خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔"
یہ جملہ سن کر ابرہہ خاموش ہو گیا، لیکن غرور میں آ کر اس نے کہا:
"میں کل خانہ کعبہ کو، نعوذ باللہ، مسمار کر کے جاؤں گا۔"
حضرت عبدالمطلب اپنے اونٹ واپس لے کر مکہ واپس آ گئے۔ پھر انہوں نے اہلِ مکہ کو جمع کیا اور کہا کہ:
"اپنا سامان اور مویشی لے کر شہر سے باہر نکل جاؤ تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔"
اس کے بعد حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ گئے، اس کے دروازے کو پکڑا اور رقت بھری آواز میں دعا کی:
> "اے اللہ! یہ تیرا گھر ہے، اور ہر گھر کا ایک مالک ہوتا ہے۔ تو اپنے گھر کی حفاظت خود فرما!"
یہ دعا کر کے وہ بھی اہلِ مکہ کے ساتھ وادی کی طرف چلے گئے۔
اگلے دن جب ابرہہ اپنے لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا تو قدرتِ خداوندی حرکت میں آئی۔ آسمان سے ابابیل کے غول اُترے، جن کی چونچوں اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔ ان ابابیلوں نے وہ کنکریاں ابرہہ اور اس کے لشکر پر برسائیں۔
قرآن مجید میں سورۂ فیل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ ۔
یعنی:
"کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ اُس نے ان کی چال کو ناکام کر دیا، اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ بھیج دیے جو کنکریاں لئے اُن پر پھینکتے تھے، پھر اُنہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔"
ابرہہ اور اس کا پورا لشکر تباہ ہو گیا، اور خانہ کعبہ اپنی جگہ سلامت رہا۔
واقعۂ فیل کے تقریباً پندرہ سال بعد، مکہ مکرمہ میں ایک ایسی ہستی پیدا ہو چکی تھی، جنہیں دنیا آج ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام سے جانتی ہے۔
آپ کا اصل نام خدیجہ بنت خویلد اور کنیت اُمّ ہند تھی، جبکہ آپ کے پاکیزہ کردار اور نیک خصلت کی وجہ سے لوگ آپ کو احتراماً طاہرہ کہا کرتے تھے۔ آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت اعلیٰ خاندان کی خاتون تھیں اور مکہ کے معزز قبائل میں آپ کو غیر معمولی عزت حاصل تھی۔ آپ کے اخلاق، حیا اور کاروباری سمجھ بوجھ کی مثال پورے مکہ میں دی جاتی تھی۔
جب آپ سنِ بلوغت کو پہنچیں تو آپ کا پہلا نکاح ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوا، جن سے آپ کے دو بیٹے پیدا ہوئے؛ بڑے بیٹے کا نام ہالہ اور چھوٹے کا نام ہند تھا۔ بدقسمتی سے بڑے بیٹے ہالہ کا انتقال کم عمری میں ایک لڑائی کے دوران ہو گیا، جبکہ بیٹے ہند کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔
شوہر کے انتقال کے بعد آپ نے ساری توجہ اپنے کاروبار کی طرف مبذول کر لی اور مکہ کے قافلوں کے ذریعے مالِ تجارت مختلف شہروں اور ملکوں میں بھیجنے لگیں۔ اپنی دیانت اور سمجھ بوجھ کی وجہ سے آپ کا کاروبار دن دُگنا رات چوگنا ترقی کرنے لگا۔
اسی زمانے میں مکہ کی گلیوں میں ایک نام "الصادق الأمین" — یعنی سچے اور امانت دار — کے طور پر ہر زبان پر تھا۔ یہ نام ہمارے نبی کریم ﷺ کا تھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب نبی کریم ﷺ کے صدق اور امانت کا چرچا سنا تو انہوں نے اپنا سامانِ تجارت آپ ﷺ کے حوالے کیا تاکہ آپ ﷺ شام کے تجارتی سفر پر جائیں۔ آپ ﷺ نے یہ ذمہ داری نہایت دیانت داری سے نبھائی اور واپسی پر تمام حساب کتاب پورا پورا واپس کر دیا۔ اس وقت آپ کے غلام میسرہ نے بھی آپ ﷺ کے اعلیٰ کردار اور خوش اخلاقی کے بارے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سب کچھ بتایا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں آپ ﷺ کے لیے احترام اور عقیدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنی ایک عزیزہ کے ذریعے نکاح کا پیغام بھیجا، جو نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد قبول فرما لیا۔
نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس سال اور نبی کریم ﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ حق مہر کے طور پر بیس اونٹ مقرر کیے گئے۔
نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا تمام مال نبی کریم ﷺ کے حوالے کر دیا اور زندگی بھر نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفاداری، محبت اور قربانی کی مثال قائم کی۔
پھر وہ لمحہ آیا جب نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آپ ﷺ غارِ حرا سے لرزتے ہوئے واپس تشریف لائے اور فرمایا:
"زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي" یعنی "مجھے اوڑھا دو، مجھے اوڑھا دو!"
اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف آپ ﷺ کو تسلی دی بلکہ وہ الفاظ کہے جو رہتی دنیا تک ان کے ایمان اور محبت کی گواہی دیتے رہیں گے:
> "خدا کی قسم! اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ آپ صادق اور امین ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھنے والے ہیں، یتیموں اور محتاجوں کا سہارا ہیں اور سچائی کے راستے پر چلنے والے ہیں۔"
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے والی سب سے پہلی شخصیت ہیں۔ ہر مشکل وقت میں، چاہے شعب ابی طالب کی سختیاں ہوں یا کفار کی سازشیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی رہیں۔
ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، خدیجہ مجھ پر ایمان لاتی تھیں؛ جب لوگ مجھے محروم کرتے تھے، خدیجہ مجھ پر خرچ کرتی تھیں؛ اور جب لوگ مجھ سے دور رہتے تھے، خدیجہ مجھے سہارا دیتی تھیں۔"
(مسند احمد)
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال نبوت کے دسویں سال میں ہوا، جسے تاریخ میں عام الحزن یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خود انہیں جنت المعلیٰ کے قبرستان میں اتارا اور ان کی مغفرت کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آج بھی امتِ م
سلمہ کے دلوں میں ایک مثالی بیوی، ایک باوفا ساتھی، اور ایمان کی مضبوط علامت کے طور پر زندہ ہیں۔