14 اگست کی رات – جب روح جاگ اٹھی
میرا نام سرفراز علی ہے۔ میری عمر چوبیس سال ہے اور میں سندھ کے ایک چھوٹے مگر پرانے گاؤں میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں ٹھٹہ کی تحصیل “گھارو” کے قریب ہے۔ میرا بچپن کھیتوں، درختوں، دریا کے کنارے اور مٹی کی گلیوں میں گزرا۔ زندگی سادہ تھی، مگر گاؤں کے رسم و رواج، ذات پات، اور مذہب کے دائرے بڑے سخت تھے۔
آج جو بات میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، یہ میرے دل کا سب سے بڑا بوجھ ہے۔ برسوں تک میں نے یہ راز کسی کو نہیں بتایا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر سچ کھل گیا تو نہ صرف میری زندگی، بلکہ میری بیوی کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ قصہ محبت کا ہے… مگر اس محبت کے بیچ میں نفرت، ظلم، اور ایک ایسی بھٹکتی ہوئی روح ہے جس کی آہٹ ہر سال 14 اگست کی رات سنائی دیتی ہے۔
ہمارے گاؤں میں ہندو اور مسلمان الگ الگ بستیوں میں رہتے تھے۔ دونوں کے بیچ میں ایک دریا بہتا تھا جو صرف پانی کا نہیں، بلکہ رسم و رواج اور عقیدوں کا فاصلہ بھی بناتا تھا۔ مسلمان بستی میں زندگی نسبتاً غریب تھی، لوگ کھیتوں میں کام کرتے، مویشی پالتے، اور چھوٹے موٹے کاروبار سے گزارا کرتے۔
دریا کے اُس پار ہندو بستی تھی، جہاں بڑے زمیندار اور زمینوں کے مالک رہتے تھے۔ ان میں سب سے بڑا نام تھا راجندر سنگھ چوہان کا — گاؤں کا سب سے بااثر شخص، جو اپنی مرضی سے فیصلے کرتا اور جس کے حکم کے آگے کوئی زبان نہیں کھولتا تھا۔
میں ایک کسان کا بیٹا ہوں، کھیتوں میں کام میرا معمول تھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں پانی لینے کنویں کے پاس گیا۔ وہاں ایک لڑکی جھک کر مٹکے میں پانی بھر رہی تھی۔ دھوپ میں اس کے بالوں کی لٹیں سنہری لگ رہی تھیں۔
وہ تھی پوجا دیوی، راجندر سنگھ کی بیٹی۔ اس کا لباس ہندو عورتوں جیسا تھا — رنگ برنگا گھاگرا اور چولی، اور ماتھے پر بِن دی۔ مگر اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو باقی گاؤں کی لڑکیوں سے مختلف تھی۔
ہماری پہلی ملاقات میں زیادہ بات نہیں ہوئی۔ میں نے بس سلام کیا، جو شاید اُس کے لیے غیر معمولی تھا، کیونکہ ہمارے گاؤں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو اس طرح مخاطب نہیں کرتے تھے۔ وہ مسکرائی اور بس اتنا بولی:
"تم یہاں کے ہو؟"
میں نے سر ہلایا اور مٹکا بھر کر واپس چلا گیا۔
اگلے چند ہفتوں میں، میں نے اسے کئی بار دیکھا۔ کبھی کھیتوں کے قریب پھول توڑتے ہوئے، کبھی کنویں پر پانی بھرتے ہوئے۔ آہستہ آہستہ ہماری بات چیت بڑھنے لگی۔ شروع میں یہ گفتگو صرف موسم یا کھیتوں کی فصل تک محدود رہتی، مگر پھر اس میں ہنسی، سوال اور ذاتی باتیں شامل ہو گئیں۔
پوجا کی ہنسی میں کچھ ایسا تھا جو میرے دل کو بے چین کر دیتا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کسی ہندو لڑکی کو اس طرح چاہنے لگوں گا۔ لیکن دل پر کس کا زور چلتا ہے؟
ہم نے گاؤں کے پرانے برگد کے درخت کے پیچھے ملنا شروع کیا۔ یہ جگہ دریا کے کنارے تھی اور وہاں کم ہی لوگ آتے تھے۔ کبھی میں اس کے لیے آم لے آتا، کبھی وہ میرے لیے مٹھائی۔
پوجا اکثر کہا کرتی تھی:
"سرفراز، اگر بابا کو پتہ چل گیا تو…؟"
میں مسکرا کر جواب دیتا:
"تو ہم بھاگ جائیں گے۔"
اس پر وہ خاموش ہو جاتی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک خوف تیرنے لگتا تھا۔
پوجا کا رویہ اچانک بدلنے لگا۔ وہ پہلے کی طرح خوش نہیں رہتی تھی۔ ایک دن جب میں نے پوچھا تو اس نے سر جھکا کر کہا:
"بابا نے میری شادی جیسلمیر کے ایک ہندو لڑکے سے طے کر دی ہے۔ اگلے مہینے رسومات شروع ہوں گی۔"
یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں نے فوراً کہا کہ ہم بھاگ جائیں گے، مگر اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ گاؤں میں ہر طرف بابا کے آدمی نظر رکھتے ہیں۔
ہم نے طے کیا کہ 14 اگست کی رات، جب گاؤں جشنِ آزادی میں مصروف ہو گا، ہم فرار ہو جائیں گے۔
14 اگست ہمارے گاؤں میں بڑا دن ہوتا ہے۔ مسلمان بستی میں سبز جھنڈے، چراغاں، اور ڈھول بجتے تھے، جبکہ ہندو بستی میں یہ دن زیادہ خاموشی سے گزرتا، مگر آتشبازی کا شوق سب کو تھا۔ ہم نے اسی ہنگامے کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔
اس دن پورے گاؤں میں گہما گہمی تھی۔ بچے ہاتھوں میں جھنڈیاں لیے دوڑ رہے تھے، گلیوں میں روشنی کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔ مگر میرے دل میں عجیب سا بوجھ تھا۔
رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں گاؤں کے کچے راستے سے دریا کی طرف بڑھا۔ آسمان پر چاند دھندلا تھا اور ہوا میں نمی گھلی ہوئی تھی۔ دور سے ڈھول کی آوازیں اور آتشبازی کی چمک دکھائی دے رہی تھی۔
پوجا سفید شلوار قمیض پہنے، دوپٹے میں کچھ سامان لپیٹے، دبے قدموں آئی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
"چلو سرفراز، بابا کو خبر لگ گئی تو ہم ختم ہو جائیں گے۔"
ہم نے جلدی سے دریا کے کنارے جانے والا راستہ پکڑا۔
یہ راستہ عام دنوں میں بھی سنسان رہتا تھا۔ گاؤں کے بزرگ کہا کرتے تھے کہ یہاں رات کو ایک سایہ پھرتا ہے۔ میں ان باتوں کو ہمیشہ مذاق سمجھتا تھا، مگر اس رات جب ہم اس راستے پر قدم رکھ رہے تھے تو ہر پتا، ہر جھاڑی اور ہر آواز ڈراؤنی لگ رہی تھی۔
دریا کے قریب پہنچتے ہی ہوا تھوڑی ٹھنڈی ہو گئی۔ فضا میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی، جیسے جنگل سانس روک کر ہمیں دیکھ رہا ہو۔
ہم ابھی آدھے راستے پر ہی تھے کہ پیچھے سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ وہ آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ مڑ کر دیکھا تو راجندر سنگھ کے دو خاص آدمی — رگھو اور موہن — نیزے اور لاٹھیاں لیے ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔
"تیز دوڑو!" میں نے کہا۔
پوجا کے پاؤں کانپ رہے تھے مگر ہم دوڑنے لگے۔ گھوڑوں کی ٹاپ اور ہمارے قدموں کی آواز ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے۔
دریا کے کنارے پہنچتے ہی اچانک دھند پھیل گئی۔ یہ دھند عام نہیں تھی، یہ گھنی، سرد اور نم دار تھی، جیسے کسی نے ہمارے گرد سفید دیوار کھڑی کر دی ہو۔
میں نے پوجا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" اس نے کانپتی آواز میں پوچھا۔
میں جواب دینے ہی والا تھا کہ ہوا میں ایک سرد جھونکا آیا، اور دھند کے اندر سے ایک دھندلا سا سایہ ابھرنے لگا…
وہ سایہ آہستہ آہستہ ہمارے قریب آ رہا تھا۔ پہلے مجھے لگا شاید کوئی عورت ہے، لیکن جیسے جیسے وہ دھند کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی، میرا دل خوف سے سکڑتا گیا۔
اس کے کپڑے گیلے تھے، پانی ٹپک رہا تھا، اور چہرہ اس قدر سفید کہ جیسے کسی نے خون ہی نچوڑ لیا ہو۔ آنکھیں سرخ، مگر ان میں عجیب سی اداسی اور غصہ اکٹھا تھا۔
پوجا نے میرا ہاتھ مزید زور سے پکڑا اور ہکلاتے ہوئے بولی:
"یہ… یہ کون ہے؟"
عورت نے دھیرے سے کہا:
"میں… پاروتی… تمہاری ماں۔"
پوجا نے ایک دم ہاتھ جھٹک دیا اور پیچھے ہٹ گئی۔
"میری… ماں؟ میری ماں تو برسوں پہلے مر گئی تھی!"
پاروتی کی سانس بھاری تھی، جیسے وہ ہر لفظ بولنے میں تکلیف محسوس کر رہی ہو۔
"ہاں… سب یہی سمجھتے ہیں۔ تمہیں جھوٹ بتایا گیا۔"
میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک گھوڑوں کی ٹاپ اور قریب آ گئی۔ رگھو اور موہن دھند میں داخل ہوئے۔
پاروتی نے ان دونوں کو دیکھا، اور جیسے ہی اس کی نظر ان پر جمی، ہوا ایک دم تیز چلنے لگی۔ درخت ہلنے لگے، پانی کی چھینٹیں ہمارے چہروں پر پڑنے لگیں۔
رگھو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اس کی آواز طوفان میں دب گئی۔ پھر اچانک ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے دیکھا کہ رگھو زمین پر گر چکا تھا اور اس کا جسم مڑ مڑ کر عجیب زاویے بنا رہا تھا، جیسے کوئی نظر نہ آنے والی طاقت اس کی ہڈیاں توڑ رہی ہو۔
موہن نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن دھند سے نکلنے سے پہلے ہی وہ رک گیا، جیسے کسی نے اس کا گلا دبا دیا ہو۔ اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے کو تھیں، اور چند لمحوں میں وہ بھی زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
پوجا چیخنے ہی والی تھی کہ پاروتی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"خاموش… سنو… تمہیں سب سچ جاننا ہوگا۔"
ہم تینوں دھند کے بیچ ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ پاروتی نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے وہ یادوں میں کھو گئی ہو۔
"میں راجندر سنگھ کی بیوی تھی۔ شادی مجبوری میں ہوئی تھی۔ دل کبھی اس کے ساتھ نہ لگا۔ پھر ایک دن میں نے ایک مسلمان لڑکے سے محبت کر لی… تمہارے سچے باپ سے۔"
پوجا کا چہرہ زرد ہو گیا۔
"ہاں پوجا… تم آدھی مسلمان ہو۔"
پاروتی کی آواز ٹوٹ گئی۔
> "جب راجندر کو پتہ چلا، وہ پاگل ہو گیا۔ اس نے مجھے گھر میں قید کر دیا، اور ایک رات… 14 اگست کی رات… اس نے مجھے کھلے صحن میں رسیوں سے باندھ کر آگ لگا دی۔"
پوجا نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
"میں چلائی، چیخی… مگر کسی نے مدد نہیں کی۔ آدھا جسم جل گیا، اور پھر اس نے میرا جلتا ہوا بدن دریا میں پھینک دیا۔ پانی نے میرا سانس چھین لیا… اور اس رات کے بعد میری روح اسی کنارے قید ہو گئی۔"
پاروتی نے اپنے ہاتھ مٹی پر مارے۔
"میں ہر سال 14 اگست کی رات دریا سے نکلتی ہوں۔ کچھ روحیں جشن منانے نہیں آتیں… وہ انصاف لینے آتی ہیں۔"
پوجا خاموش تھی۔ میں بھی کچھ بول نہ سکا۔
پاروتی نے میری طرف دیکھا۔
> "سرفراز… تم اسے لے جاؤ۔ آج تم دونوں کو بچانا میرا فرض ہے۔"
میں نے پوجا کا ہاتھ پکڑا اور دھند سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر بار جب ہم نکلنے لگتے، دھند جیسے ہمارے سامنے دیوار بن جاتی۔
پاروتی نے کچھ الفاظ بڑبڑائے، شاید کوئی پرانا منتر۔ اچانک دھند میں ایک راستہ بن گیا جو دریا کے کنارے سے دور جا رہا تھا۔
جب ہم جانے لگے تو پوجا نے ایک دم پلٹ کر کہا:
> "ماں… تم بھی چلو نا!"
پاروتی مسکرائی، مگر اس مسکراہٹ میں غم کی ایک لہر تھی۔
"نہیں بیٹی… میں اس زمین سے بندھی ہوں۔ جب تک راجندر کا خون نہ بہے، میں آزاد نہیں ہو سکتی۔"
اس کے یہ الفاظ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ہم گھنٹوں چلتے رہے۔ پوجا کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، میرے پاؤں چھل گئے تھے، مگر ہم رکے نہیں۔ صبح ہونے سے پہلے ہم ٹھٹہ شہر کے قریب پہنچ گئے۔
وہاں ایک پرانے جاننے والے کے گھر پناہ لی۔ میں نے اس سے مدد مانگی اور دو دن بعد ہم نے نکاح کر لیا۔
برسوں بعد…
اب برسوں گزر گئے ہیں۔ میں اور پوجا شادی شدہ ہیں، ہمارے بچے ہیں، مگر ہر 14 اگست کی رات ایک عجیب سا خوف دل میں جاگ اٹھتا ہے۔
شادی کو کئی سال گزر چکے تھے۔ ہم شہر میں سکون سے رہتے تھے، لیکن 14 اگست کی رات کا ذکر دل میں ہمیشہ ایک سرد ہوا چھوڑ جاتا تھا۔
ایک صبح، میں چائے پیتے ہوئے اخبار پڑھ رہا تھا کہ ایک خبر نے میرا ہاتھ روک دیا۔ بڑی سرخی میں لکھا تھا:
"ٹھٹہ کے قریب زمیندار راجندر سنگھ کی پراسرار موت"
نیچے تفصیل تھی — "راجندر سنگھ اپنے نوکروں کے ساتھ رات کے وقت دریا کے کنارے گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اچانک شدید دھند چھا گئی، گھوڑوں نے بدک کر دوڑ لگا دی، اور زمیندار کی لاش صبح دریا سے ملی۔ جسم پر کسی جانور کے پنجے یا دانت کے نشان نہیں، مگر چہرے پر خوف جما ہوا تھا۔"
میرے ہاتھ سے اخبار پھسل گیا۔ پوجا میرے پاس آئی، اس نے خبر پڑھی، اور ایک لمبے سکوت کے بعد صرف ایک لفظ کہا:
"ماں…"
پوجا کی آنکھوں میں عجیب سا سکون اور دکھ دونوں تھے۔ اس نے کہا:
"سرفراز… میں گاؤں واپس جانا چاہتی ہوں۔ اب میرا باپ نہیں رہا… اور ماں کے بارے میں میں سب جان چکی ہوں۔"
میرے دل میں ہلچل مچی، مگر میں جانتا تھا کہ یہ سفر ضروری ہے۔ اگلے دن ہم گاڑی میں بیٹھے اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد دوبارہ گھارو کے قریب اپنے پرانے گاؤں پہنچ گئے۔
جیسے ہی ہم گاؤں میں داخل ہوئے، لوگ ہمیں پہچان گئے۔ کچھ نے حیرت سے دیکھا، کچھ نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔ ایک بزرگ نے ہمیں اپنے آنگن میں بٹھایا اور راجندر سنگھ کی آخری رات کا حال سنایا۔
"اس رات وہ چار آدمیوں کے ساتھ آیا تھا۔ دریا کے کنارے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ ہم نے دور سے دیکھا، دھند آئی… پھر ایک عورت کی چیخ سنائی دی۔ وہ سب بھاگنے لگے، مگر راجندر کو جیسے کسی نے پکڑ لیا ہو۔ وہ دھند میں کھینچا گیا، اور پھر… صرف اس کی چیخیں۔ صبح اس کی لاش پانی کے کنارے تھی۔"
پوجا کا چہرہ سن ہو گیا۔ میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا، مگر وہ جیسے کہیں اور ہی دیکھ رہی تھی۔
شام کو، پوجا اکیلی دریا کے کنارے گئی۔ آسمان پر بادل تھے، ہوا میں نمی اور پرانی یادوں کی مہک تھی۔ وہ پانی کے قریب جا کر زور سے چیخی:
"ماں! ایک بار آ جاؤ! بس ایک بار مجھے دیکھ لو! میں تمہاری بیٹی ہوں… میں تمہیں یاد کرتی ہوں!"
اس کی آواز پانی پر گونجتی رہی، مگر دھند نہیں آئی، کوئی سایہ نہیں آیا۔ صرف لہریں تھیں اور خاموشی۔
پوجا زمین پر بیٹھ کر رونے لگی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا۔
"چلو پوجا… شاید ماں اب آزاد ہو گئی ہے۔ شاید وہ سکون میں ہے۔"
ہم خاموشی سے گاؤں سے نکل گئے۔ پوجا نے ایک بار پیچھے مڑ کر دریا کو دیکھا، مگر اس کی آنکھوں میں اب خوف نہیں تھا۔
راستے میں میں نے دھیرے سے کہا:
"پوجا… محبت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی، مگر وہ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔"
پھر میں نے سندھی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک مصرع پڑھا، جو میرے باپ اکثر سنایا کرتے تھے:
"سائين سدائين ڪرين سنڌ مٿي سڪار
دوست مٺا دلدار عالم سڀ آباد ڪرين "
(سفر کے دوران، گاؤں سے نکلتے ہوئے، شام کے وقت، آسمان پر ہلکی سنہری روشنی، ہوا میں خنکی تھی۔ پوجا خاموش بیٹھی تھی۔ میں گاڑی چلا رہا تھا اور ایک لمحے بعد دھیرے سے مینے کہا )
"پوجا… ہم سندھی ہیں۔
اور سندھی لوگ محبت کے بارے میں بس بات نہیں کرتے، اس پر مر مٹتے ہیں۔
میرے والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے،
’سرفراز، دنیا کے ہر زخم کا علاج وقت ہے… مگر محبت کا علاج صرف محبت ہے۔‘
میرے والد کہا کرتے تھے:
’سرفراز… جس کے دل میں محبت نہیں، وہ چلتا پھرتا مردہ ہے۔
اور جو محبت کے لیے جان دے، وہ موت کے بعد بھی امر رہتا ہے۔‘"
پوجا نے آہستہ سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ہم آگے بڑھتے گئے، اور پیچھے رہ گئی صرف ایک کہانی… جو ہر 14 اگست کی رات ہوا میں سرگوشیاں کرتی ہے۔
"کچھ روحیں بدلہ لے کر چلی جاتی ہیں… اور کچھ محبت کا پیغام چھوڑ کر۔"
اختتام
کیا آپ مزید خوف سننے کی ہمت رکھتے ہیں؟
اسی کہانی کو بہترین آواز اور خوفناک انداز میں سننے کے لیے یہ ہماری ویڈیو ضرور دیکھیں... لیکن یاد رکھیں، ہر کہانی کے پیچھے ایک سایہ چھپا ہوتا ہے!