صدیوں پرانی بات ہے۔
شہر سے دور، ایک پرسکون مگر غریب گاؤں میں ناصر نامی شخص رہتا تھا۔ وہ پیشے سے زمیندار تھا۔ روزانہ صبح سویرے کھیتوں کا رخ کرتا، سارا دن محنت مزدوری کرتا، اور شام ڈھلتے ہی تھکا ہارا واپس آتا۔
اس کی زندگی سادہ، مگر محنت سے بھرپور تھی۔ جو کماتا، خود کھاتا، اور جو بچتا، وہ دوسروں کے کام آتا۔
گاؤں میں بھی وہ نیک دل اور مددگار شخص کے طور پر جانا جاتا تھا۔
لیکن ناصر کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش اس کے اپنے ہی گھر میں موجود تھی۔
اس کی بیوی، جو بظاہر وفادار، محبت کرنے والی اور خوش اخلاق عورت دکھائی دیتی، دراصل اندر سے بالکل مختلف تھی۔
ناصر ایک نرم دل اور سادہ لوح انسان تھا، جو اس کی چالاکیوں سے بے خبر تھا۔
وہ عورت کبھی بھی شک کا موقع نہیں دیتی تھی۔
ہر روز وقت پر ناشتہ دیتی، کھانے میں طرح طرح کے لذیذ پکوان بناتی، اور ناصر کے کھیتوں کی جانب روانہ ہونے سے پہلے مسکرا کر الوداع کہتی۔
لیکن... اس محبت بھرے رویے کے پیچھے نفرت کی ایک چھپی ہوئی آگ سلگ رہی تھی۔
اس کے دل میں ناصر کے لیے نہ محبت تھی، نہ عزت۔
وہ اکثر یہ سوچتی رہتی کہ اگر وہ کسی امیر یا شہرت یافتہ شخص کی بیوی ہوتی، تو اس کی زندگی کتنی مختلف اور بہتر ہوتی۔
جب ناصر کھیت میں ہوتا، تو وہ اپنے ذہن میں شیطانی چالیں سوچتی، تاکہ کسی طرح اس سیدھے سادے کسان سے جان چھوٹ جائے۔
منافقت کی انتہا تو یہ تھی کہ ہر انداز، ہر ادا میں وہ ناصر کو یہ یقین دلاتی کہ وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے۔
اور ناصر بھی اُس پر اندھا اعتماد کرتا۔
وہ کبھی کسی کی زبانی بیوی کے خلاف کوئی بات نہ سنتا۔
لیکن اس عورت کی خواہشات اور بگڑی سوچ نے اسے آخرکار اندھیرے راستے پر ڈال دیا۔
جس عورت کو محبت، وفاداری اور گھر سنوارنے کی علامت ہونا چاہیے تھا، وہی اپنے محبت بھرے آشیانے کو تباہ کرنے پر تُل گئی۔
کسی نے سچ کہا ہے: "عورت اگر چاہے تو گھر کو جنت بنا سکتی ہے، اور اگر چاہے تو وہی گھر جہنم کا منظر بھی اختیار کر لیتا ہے۔"
ایک دن، جب ناصر معمول کے مطابق کھیتوں میں گیا ہوا تھا،
اس کی بیوی نے ایک عجیب و غریب چال سوچی۔
اس نے محلے کے چند آوارہ اور لفنگے لڑکوں کو بلایا، اور سرگوشی میں کہا:
"جب میرا شوہر کھیت میں کام کر رہا ہو، تو اس کا گدھا چرا کر قریبی درخت پر چڑھا دینا اور اچھی طرح باندھ دینا۔"
ان لڑکوں نے ویسا ہی کیا۔
دوپہر کے وقت وہ عورت ناشتہ اور کھانا لے کر کھیت کی طرف روانہ ہوئی، جیسا کہ وہ روز کرتی تھی۔
ناصر نے کھانے کے ساتھ اسے خوش آمدید کہا، مگر اس کے چہرے پر حیرت اور پریشانی چھپی ہوئی تھی۔
بیوی نے نرمی سے پوچھا:
"صاحب، آج بڑے پریشان لگ رہے ہو۔ سب خیریت ہے؟"
ناصر نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
"میری جان، تم خود ہی دیکھ لو، میرا گدھا درخت پر چڑھا ہوا ہے!
میں صبح سے سوچ رہا ہوں یہ کیسے ممکن ہے؟ گدھے تو اُڑ نہیں سکتے!"
بیوی نے آنکھوں میں حیرت، اور دل میں چالاکی لیے کہا:
"ارے واہ! یہ تو واقعی بڑی عجیب بات ہے۔ چلو، ہم دونوں مل کر اسے نیچے اتارتے ہیں۔"
اور دونوں نے کافی مشقت کے بعد گدھے کو نیچے اتار لیا۔
جب بیوی واپس جانے لگی تو شوہر سے پیسوں کا مطالبہ کیا۔
ناصر، جو بیوی سے محبت کرتا تھا اور اس کی ہر بات پر یقین رکھتا تھا، فوراً جیب سے جو کچھ تھا نکال کر دے دیا۔
مگر عورت کی ہوس کہاں ختم ہونے والی تھی؟
اس نے فوراً کہا:
"یہ تو صرف پانچ دینار ہیں، مجھے اور چاہییں!"
ناصر نے پوچھا:
"کتنے چاہییں؟"
بیوی بولی:
"سو دینار!"
جو کہ بہت بڑی رقم تھی۔
ناصر نے کہا:
"ٹھیک ہے، میں نے جو گندم بیچی ہے، جب اس کے پیسے آئیں گے تو ان میں سے دے دوں گا۔"
ناصر نے جب گندم بیچی، تو وعدے کے مطابق بیوی کو سو دینار دے دیے — بغیر کچھ بچائے، بغیر کسی گِلہ شکوہ کے۔
لیکن اس کی بیوی نے وہ رقم لیتے ہی اس میں سے آدھی چپکے سے الگ کر لی۔
اس نے پیسے جمع کرنا شروع کر دیے۔
شاید کسی اور مقصد کے لیے...
ایسا مقصد جو ناصر کی محبت اور اعتماد سے بالکل مختلف تھا۔
وقت یونہی گزرتا رہا،
لیکن ناصر کی بیوی کے ارادے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک اور چالاک ہوتے جا رہے تھے۔
اس بار بھی اُس نے ایک نیا منصوبہ سوچا۔
اور اس منصوبے کی بنیاد پھر "پیسہ" ہی تھا —
لیکن یہ محض وقتی ضرورت نہیں لگ رہی تھی۔
بلکہ کوئی بڑا مقصد اس کے ذہن میں پل رہا تھا،
جو آگے جا کر کہانی کا ایک نیا اور خطرناک موڑ بننے والا تھا۔
ایک دن، جب ناصر حسب معمول صبح سویرے کھیت جانے لگا،
اُس کی بیوی نے اچانک اُس سے دو سو دینار مانگ لیے۔
یہ ایک بڑی رقم تھی۔
ناصر کے چہرے پر فطری حیرت نظر آئی۔
اس نے نرم لہجے میں کہا:
"صاحبہ، دو سو دینار کوئی معمولی رقم نہیں۔ بتاؤ تو سہی، اتنے پیسوں کا کیا کرو گی؟"
بیوی نے فوراً مصنوعی سنجیدگی اور ہمدردی کا لبادہ اوڑھ لیا، اور بولی:
"کیا بتاؤں صاحب، میری بہن بہت بیمار ہے۔ دوا دارو کے لیے رقم درکار ہے۔"
ناصر، جو دل کا نہایت نیک، نرم اور شریف انسان تھا،
بنا کسی شک کے بولا:
"ٹھیک ہے۔ تم دوپہر کا کھانا تیار کرو، میں کسی نہ کسی طرح انتظام کر لوں گا۔"
یہ سن کر بیوی کے چہرے پر ایک جھوٹی مسکراہٹ پھیل گئی —
جیسے اسے یقین ہو کہ اس کی چال پھر کامیاب ہو گئی ہے۔
وہ فوراً بولی:
"ٹھیک ہے صاحب، بتائیں کیا پکا دوں آج آپ کے لیے؟"
ایک اور دن یونہی گزر گیا۔
لیکن ناصر کو کیا خبر تھی کہ وہ جسے اپنی زندگی کی ساتھی سمجھتا ہے،
وہی اُسے دھیرے دھیرے ایک بڑے دھوکے کی طرف لے جا رہی ہے۔
اسی دن، بیوی نے دوپہر کا کھانا تیار کیا،
اور ساتھ ہی چپکے سے تین بڑی مچھلیاں بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔
راستے میں، وہ مچھلیاں کسی جھاڑی یا کنویں کے پاس چھپا کر رکھ دیں۔
جب وہ کھیت پہنچی،
تو شوہر کو کھانا پیش کیا —
اور خود خاموشی سے جا کر وہ مچھلیاں کھیت کے اندر چھپا دیں۔
ناصر نے کھانے کی تعریف کی، نماز ادا کی، اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
کچھ دیر بعد، جب وہ زمین کی کدال کر رہا تھا،
اچانک اُس کے ہاتھ ایک مچھلی آ گئی۔
پھر دوسری۔
پھر تیسری!
وہ حیرت سے چلایا:
"صاحبہ! جلدی آؤ! کھیت میں مچھلیاں نکل آئی ہیں!"
بیوی دوڑتی ہوئی آئی،
اور آتے ہی حیرت اور خوشی کا ناٹک شروع کر دیا:
"ارے واہ صاحب! یہ تو آپ کی کرامت لگتی ہے!
سبحان اللہ! کھیت میں مچھلیاں! ایسا کبھی سنا نہیں!"
پھر جلدی سے بولی:
"میں یہ مچھلیاں لے جاتی ہوں، شام کے کھانے میں پکاؤں گی۔
ویسے... آپ کو وہ 200 دینار یاد ہیں جو میں نے صبح مانگے تھے؟"
سادہ دل ناصر نے اپنی جمع پونجی،
حتیٰ کہ اپنا ایک گدھا تک بیچ دیا،
اور بڑی مشکل سے دو سو دینار کا انتظام کر کے بیوی کو دے دیے۔
یہ کہانی صرف ایک سادہ کسان کی نہیں،
بلکہ ایک ایسے بھولے انسان کی ہے جسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی دھوکہ دہی کا علم تک نہیں۔
جس کی محبت اور بھروسہ، رفتہ رفتہ استعمال ہو رہا ہے —
کسی بڑے فتنے کے لیے۔
بیوی رقم لے کر ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ گھر لوٹ گئی،
اور ناصر، تھکا ہارا کسان، دوبارہ کھیت میں کام میں لگ گیا۔
شام کو جب وہ گھر پہنچا،
تو گھر کا ماحول بالکل بدلا ہوا تھا۔
بیوی ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھی،
چہرے پر اداسی اور بےرخی کی پرچھائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
ناصر نے محبت سے آواز دی:
"صاحبہ، کیا بات ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
بیوی نے سرد لہجے میں جواب دیا:
"کچھ نہیں، بس طبیعت بوجھل ہے۔ مچھلی رکھی ہے، کھا لو... مجھے سونا ہے۔"
ناصر نے سوچا شاید بہن کی بیماری کی فکر نے بیوی کو پریشان کر دیا ہے۔
وہ خاموشی سے کھانے بیٹھ گیا۔
پھر بغیر کوئی بات کیے، سو گیا۔
اگلی صبح بیوی نے ناشتہ بھی نہ دیا،
نہ پوچھا، نہ کوئی بات کی۔
ناصر نے خود ہی کچھ بنا کر کھایا
اور چپ چاپ کھیت نکل گیا۔
دوپہر کو بھی کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔
اس دن بھوکا پیاسا گزر گیا۔
اسی طرح دن گزرتے گئے۔
ایک ہفتہ، پھر دوسرا،
لیکن بیوی کا رویہ روز بروز اور زیادہ ٹھنڈا اور اجنبی ہوتا گیا۔
بالآخر، ایک دن ناصر نے دل تھام کر بیوی کو بیٹھایا۔
نرمی سے، محبت بھرے لہجے میں پوچھا:
"صاحبہ، آخر کیا بات ہے؟
کچھ دنوں سے تم بالکل بدلی بدلی لگ رہی ہو۔
کیا کوئی بات ہے جو مجھے بتانا چاہتی ہو؟"
بیوی نے ایک ٹھنڈی سانس لی...
پھر جو منافقت دل میں چھپی ہوئی تھی،
وہ زبان پر آ گئی۔
صاف صاف بولی:
"اگر تم واقعی میری خوشی چاہتے ہو...
تو مجھے طلاق دے دو!"
یہ الفاظ ناصر کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔
جیسے زمین اُس کے قدموں تلے سے کھسک گئی ہو۔
وہ بے یقینی سے بولا:
"تم کیا کہہ رہی ہو؟ ہوش میں ہو؟"
بیوی نے چہرہ پھیر لیا۔
چپ رہی۔
ناصر یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ
کیا یہ صرف وقتی غصہ ہے یا کسی گہرے راز کی جھلک؟
لیکن جب اگلے دن،
پھر اگلے دن...
بیوی ہر بار یہی بات دہراتی رہی،
تو ناصر کو یقین ہو گیا:
یہ سب کچھ اچانک نہیں،
بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
ناصر نے برداشت کیا۔
بیوی کے روٹھے رویے پر خاموشی اختیار کی۔
دل پر پتھر رکھ کر ہر بات سہتا رہا۔
مگر کچھ دن بعد...
بیوی نے جھگڑے شروع کر دیے۔
کبھی کہتی:
"مجھے سونے کا ہار لا دو!"
کبھی طعنہ دیتی:
"میں اتنی خوبصورت ہوں...
میری جوڑی تو کسی اچھے بھلے شہر کے آدمی کے ساتھ بنتی۔
تم جیسے غریب کسان کے ساتھ تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی!"
یہ زہر بھرے الفاظ ناصر کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو گئے۔
اس نے سوچا،
شاید یہ کسی وقتی غصے یا ضد کی بات ہے۔
مگر حقیقت تو یہ تھی کہ بیوی بہت پہلے ہی دل سے دور ہو چکی تھی۔
پہلے پیسے لیے،
پھر بہانے تراشے،
اور اب صرف ایک موقع تلاش تھا —
کہ کسی طرح شوہر کو بدنام کر کے نکل جائے۔
بالآخر، ایک دن، غصے میں آ کر ناصر نے سوچا:
"شاید دو تین تھپڑ ماروں تو ہوش آ جائے!"
مگر جیسے ہی اُس نے ہاتھ اٹھایا —
بیوی چیخنے لگی:
"میرا شوہر مجھے مار رہا ہے! یہ پاگل ہو چکا ہے!"
پڑوسی دوڑتے ہوئے آ گئے۔
ناصر صفائی دیتا رہا:
"میں نے کچھ نہیں کیا، یہ سب جھوٹ ہے!"
مگر عورت کی درد بھری چیخوں نے سب کے دل جیت لیے۔
لوگ ناصر کو برا بھلا کہنے لگے:
"کیا کوئی مرد ایسا کرتا ہے؟
شرم کرو!
بیچاری عورت کے ساتھ ایسا سلوک!"
ناصر — ایک عزت دار، سادہ دل کسان —
خاموش کھڑا رہا۔
شاید رات کو کسی کونے میں بیٹھ کر رویا ہوگا۔
اور خود سے سوال کیا ہوگا:
"میں نے تو اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا،
پھر یہ کیوں ہوا؟
کیا میں اتنا ہی نادان تھا...؟
یا وہ اتنی ہی چالباز نکلی؟"
یہ بات ایک عزت دار آدمی کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے
کہ اُس کی بیوی غیر مردوں کے سامنے
اپنے ہی شوہر کے خلاف زبان کھولے۔
معاملہ جب بڑھتے بڑھتے عزت پر آن لگا،
تو بالآخر قاضی کے دربار تک جا پہنچا۔
قاضی صاحب نے دونوں کو بلایا،
اور سب کے سامنے پوچھا:
"بتاؤ، کیا معاملہ ہے؟"
ناصر — سادہ دل کسان —
دھیمے لہجے میں ساری داستان سناتا چلا گیا:
محبت، اعتماد، دینار، دھوکہ، چالبازی... سب کچھ۔
اب بیوی کی باری آئی۔
وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی:
"قاضی صاحب!
اللہ کے واسطے، یہ شخص مجھے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
دو تین بار تو چھری لے کر میری جان لینے آیا۔
میری زندگی کو خطرہ ہے...
مجھے اس سے آزاد کر دیجیے!"
یہ سن کر قاضی چونک گیا۔
سوچا: شاید کسان واقعی ظالم ہے۔
لیکن پھر ناصر نے قاضی کی طرف دیکھا،
اور گہری سانس لیتے ہوئے کہا:
"قاضی صاحب...
یہ عورت میری بیوی ہے۔
میں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں
کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔
لیکن جب یہ خود ساتھ نہیں رہنا چاہتی
اور مجھے رسوا کرنے پر تُلی ہے،
تو میں طلاق دینے کے لیے تیار ہوں —
بس ایک شرط پر۔"
قاضی نے متجسس لہجے میں پوچھا:
"کیا شرط ہے؟"
ناصر بولا:
"میں نے اسے بارہا دینار دیے۔
ایک بار سو دینار، اور دو دن پہلے دو سو دینار۔
میں ایک غریب کسان ہوں،
اب دوسری شادی کے لیے انہی پیسوں کی ضرورت ہے۔
یہ رقم مجھے واپس دے دے،
پھر میں طلاق دے دوں گا۔"
بیوی فوراً چیخ پڑی:
"دیکھا قاضی صاحب!
میں پہلے ہی کہتی تھی نا،
یہ آدمی پاگل ہو چکا ہے۔
اتنے دینار تو اس جیسے کسان کے پاس ہو ہی نہیں سکتے!
اگر واقعی اس نے مجھے دو سو دینار دیے ہوتے،
تو کیا میں طلاق مانگتی؟"
قاضی نے ناصر کی طرف دیکھا،
نرمی سے پوچھا:
"بتاؤ، تم نے یہ دو سو دینار کب دیے تھے؟"
ناصر نے معصومیت سے بیوی کی طرف دیکھا،
اور بولا:
"وہ دن یاد ہے،
جب گدھا درخت پر چڑھ گیا تھا؟
اسی دن!"
عدالت میں ایک لمحے کے لیے سکوت چھا گیا...
پھر بیوی زور سے ہنسنے لگی:
"قاضی صاحب!
کبھی سنا ہے گدھا درخت پر چڑھ جائے؟
اب آپ ہی انصاف کریں،
یہ پاگل ہے یا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟"
قاضی نے اپنی داڑھی کو سہلاتے ہوئے
سر جھکا لیا، گہری سوچ میں پڑ گیا۔
بیوی نے موقع غنیمت جانا،
اور دوسرا وار کیا:
"چلیے، درخت کو چھوڑیں،
یہ تو بتائیں، کھیت میں مچھلیاں کیسے نکل آئیں؟
یہ بھی کہتا ہے کہ کھیت سے مچھلی نکلی!"
ناصر آہستہ سے بولا:
"جی ہاں،
اسی دن جب میں نے دو سو دینار دیے تھے،
اس دن بیوی نے کھانے کے ساتھ تین بڑی مچھلیاں لائی تھیں،
پھر وہی مچھلیاں خود ہی کھیت میں چھپا دی تھیں۔
اور جب میں زمین کھود رہا تھا تو نکلی تھیں۔"
بیوی طنزیہ انداز میں قاضی کی طرف دیکھ کر بولی:
**"قاضی صاحب!
کیا کبھی کھیت میں مچھلیاں نکلی ہیں؟
اب آپ ہی فیصلہ کریں:
یہ شخص پاگل ہے یا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟"
بظاہر بیوی کے دلائل مضبوط تھے،
منطق اس کے ساتھ تھی،
اور ہمدردی بھی۔
قاضی نے معاملے پر دو دن کی مہلت دی،
اور کہا:
"دو دن بعد میں فیصلہ سناؤں گا۔"
دو دن گزرے۔
قاضی نے دونوں کو دوبارہ طلب کیا۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد فیصلہ سنایا:
"تم دونوں میں طلاق ہو چکی۔
اب تم الگ ہو۔
اور جو سچ پر ہے، اللہ اسی کا ساتھی ہے!"
ناصر نے سر جھکا لیا۔
دل تو ٹوٹ چکا تھا،
مگر عزت سلامت رہی۔
اور عورت؟
وہ شاید آگے چل کر سمجھے
کہ سچ اور وفا کا بدلہ کبھی کسی عدالت سے نہیں،
بلکہ وقت سے ملتا ہے۔
جھوٹا انسان اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کبھی نہیں بچ سکتا۔
کسان خاموشی سے رو پڑا، قاضی کے سامنے سجدے میں گر گیا۔
اُس کی آنکھوں سے بےساختہ آنسو بہنے لگے۔
پھر چپ چاپ اٹھا، طلاق دی، اور خاموشی سے گھر واپس چلا گیا۔
بیوی نے چہرے پر فتح کا رنگ چڑھایا،
جیسے کوئی میدان مار لیا ہو۔
مگر کچھ مہینے بعد،
اسی عورت نے اُس لفنگے نوجوان سے شادی کر لی
جس سے اس کے تعلقات پہلے ہی سے تھے۔
کسان سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا،
اور دل میں سوچتا رہا:
> “جسے میں کبھی گھر کے قریب بیٹھنے نہ دیتا،
اسی آوارہ لڑکے سے اس کم عقل عورت نے شادی کر لی!”
سبز باغ دکھا کر شادی تو کر لی گئی،
لیکن شادی کے کچھ ہی دن بعد
لفنگے کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔
نہ وہ کمانے کے قابل تھا،
نہ عزت کے لائق۔
عورت جو دینار لے کر گئی تھی،
وہی چند دن چلے۔
پھر وہی لفنگا،
اسی سے پیسے مانگنے لگا۔
جب عورت نے کہا:
"اب کچھ نہیں بچا..."
تو اس نے بھی اُسے طلاق دے دی!
ادھر کسان نے صبر کا پھل پایا۔
اللہ نے اسے ایک شریف، نیک سیرت عورت سے ملا دیا،
جس سے اُسے اولاد ملی، عزت ملی، اور دل کا سکون ملا۔
اور وہ عورت؟
جو کبھی خود کو خوبصورت اور لائق سمجھتی تھی؟
اب اسی کسان کے دروازے پر چوکیداری کو ترسنے لگی۔
مگر وقت گزر چکا تھا۔
سچ سب کے سامنے آ چکا تھا۔
لوگ سب کچھ جان گئے تھے۔
اب اُس کی باتوں پر کوئی یقین نہ کرتا،
کوئی اُس سے شادی کے لیے تیار نہ ہوتا۔
وہ اب دوسروں کے دیے ہوئے خیرات، زکوٰۃ،
اور ہمدردی پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی تھی۔
جو “بادشاہی” اس نے خود برباد کی تھی،
اب اُسی کی خاک اُڑا رہی تھی۔
جب بھی کسان کی وفاداری اور سچائی یاد آتی،
تو رو پڑتی —
لیکن وقت کبھی پلٹ کر نہیں آتا۔
🌟 سبق:
دوستو! اس کہانی میں ہم سب کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔
چاہے بیوی ہو یا شوہر،
اگر اپنی قسمت، اپنے رشتے، اور اپنے ساتھی پر
صبر اور شکر کرے،
تو یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اللہ جو رشتہ دیتا ہے،
وہ بےوجہ نہیں دیتا۔
اگر آپ کا شریکِ حیات خوبصورت نہیں،
تو ہو سکتا ہے وہ وفادار ہو۔
اگر وہ امیر نہیں،
تو ہو سکتا ہے اُس کا
دل سچا ہو۔
دولت، شہرت اور خوبصورتی — یہ سب وقتی چیزیں ہیں۔
مگر جو انسان نبھانے والا ہو، سچ بولنے والا ہو، اور عزت دینے والا ہو —
بس اُسی پر شکر کرو،
اور زندگی خوشی سے گزارو۔
📢 اگر آپ کو یہ کہانی اچھی لگی ہو...
تو ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں،
اور نیچے دی گئی گھنٹی 🔔 کا بٹن ضرور دبائیں
تاکہ آپ آئندہ بھی ایسی سچی، دل کو چھو لینے والی سبق آموز کہانیاں سنتے رہیں۔
اور ہاں!
اس ویڈیو کو اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کرنا نہ بھولیں —
شاید کسی کی آنکھ کھل جائے،
شاید کوئی غلط فیصلہ رک جائے!
سبق آموز کہانیاں, عبرتناک کہانیاں, اردو کہانیاں, اردو سبق آموز کہانیاں, نا شکر عورت, خواتین کے مسائل, طلاق کی وجوہات, اسلامی معاشرہ, ازدواجی تعلقات, عبرت کی کہانیاں, اردو ادب, Urdu Moral Stories, Urdu Life Lessons, Urdu Kahaniyan, Na Shukri Aurat, Nafsiati Kahani, Islami Kahani, Urdu Blog Kahaniyan