لوٹا گھوم گیا — قسط نمبر 3
ڈسپنسر لڑکے کو لینے گیا تو میں نے مولوی سے پوچھا:
"جب لوٹا اس عورت کے نام پر گھوما تھا تو آپ نے اس عورت سے کچھ کہا تھا؟ مجھے تفصیل سے بتائیں کہ اس کے ساتھ آپ نے یا ڈسپنسر نے کیا سلوک کیا تھا۔"
مولوی نے کہا:
"میرا خیال ہے کہ آپ لوٹے کے عمل کو نہیں مانتے۔ میں نے اپنی طرف سے تو عورت پر چوری کا الزام نہیں لگایا تھا۔ میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دشمنی۔"
میں نے کہا:
"میں نے جو بات پوچھی ہے، مجھے صرف اس کا جواب دیں۔"
مولوی نے کہا:
"میں نے تو سب کے سامنے جو لوٹے نے بتایا وہی کہا تھا کہ چوری اسی عورت نے کی ہے۔ پھر ڈسپنسر نے اسے سب کے سامنے کہا کہ وہ مال واپس کر دے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔"
لیکن چوری کا سنتے ہی وہ عورت غصے میں آ گئی اور قسمیں کھانے لگی۔
میں نے کہا:
"مولوی صاحب! میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ زبان سے بات نکالنے سے پہلے کئی بار سوچ لیں۔ آپ کے الفاظ آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ آپ نے اس عورت کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اس کے گواہ بھی موجود ہیں۔"
یہ بات میں نے ویسے ہی اندھیرے میں تیر چھوڑا تھا، جو شاید نشانے پر جا لگا، کیونکہ مولوی کے چہرے پر ایک خاص ردعمل صاف نظر آیا۔ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ مولوی اور ڈسپنسر نے اس عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے یا اس کا کوئی گواہ بھی ہے یا نہیں، لیکن چہرے کی تبدیلی نے میرا شک پختہ کر دیا۔
میں نے کہا:
"مولوی صاحب! آپ ان گاؤں کے لوگوں کے امام ہیں، میں بھی آپ کا احترام کرتا ہوں۔ آپ اچھی طرح سوچ لیں، میں کسی وقت آپ کو تھانے بلاؤں گا اور آپ کا بیان لوں گا، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔"
مولوی بولا:
"اس کا مطلب ہے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عورت نے چوری نہیں کی اور آپ اسے تھانے نہیں بلائیں گے؟"
میں نے کہا:
"آپ مجھے کوئی سرا پکڑا دیں یا لوٹے کے علاوہ کوئی ٹھوس وجہ بتا دیں تو میں ابھی اسے تھانے بلا لوں گا۔"
مولوی نے کہا:
"لوٹے سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا؟"
اتنے میں ڈسپنسر وہ لڑکا لے آیا جسے لوٹے کے عمل کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ میں نے مولوی سے پوچھا:
"یہی وہ لڑکا ہے؟"
مولوی نے سر ہلا کر کہا:
"جی ہاں، یہی وہ لڑکا ہے۔"
میں مولوی کے سامنے اس لڑکے سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے تھانے جانے کے لیے اٹھا اور لڑکے سے کہا کہ وہ میرے ساتھ تھانے چلے۔ لڑکے کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ وہ بار بار مولوی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میں باہر نکلا تو لڑکے کا باپ باہر کھڑا تھا۔ اس نے مجھے جھک کر سلام کیا اور بولا:
"حضور! یہ میرا بچہ ہے، اسے حضور نے کیوں بلایا ہے؟"
لڑکے کو دیکھا تو خوف نے اس کا چہرہ سفید کر دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے باپ سے کہا کہ وہ بھی اپنے بچے کے ساتھ تھانے آ جائے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔
میں نے وقتی طور پر مولوی کو فارغ کر دیا اور ڈسپنسر کو بھی ساتھ نہ لیا۔ لڑکے اور اس کے باپ کو لے کر تھانے آ گیا۔ باپ کی حالت بہت بری ہو گئی تھی۔ میری تسلی اور حوصلہ افزائی کا بھی کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا۔
تھانے پہنچ کر لڑکے اور اس کے باپ کو اپنے دفتر میں بلا کر سامنے بٹھا لیا۔ میں نے بڑے پیار سے لڑکے کو مخاطب کیا:
"بیٹا! میں جو کچھ بھی پوچھوں گا، تم نے بالکل سچ سچ بتانا ہے، ورنہ اس تھانے سے باہر نہیں جا سکو گے۔"
باپ فوراً بولا:
"اوئے! تھانیدار صاحب کو ہر بات صحیح بتانا، کوئی بھی جھوٹ مت بولنا۔"
لڑکے نے ہاں میں سر ہلایا تو میں نے پوچھا:
"کیا لوٹا اپنے آپ ہی گھوم گیا تھا؟"
لڑکے نے ادھر ادھر دیکھا، اس کے ہونٹ خشک ہو گئے۔ باپ کی حوصلہ افزائی سے اس نے دھیمی آواز میں کہا:
"نہیں جی، لوٹا اپنے آپ نہیں گھوما تھا بلکہ میں نے خود گھمایا تھا۔"
میں نے کہا:
"لیکن تم نے اس عورت کی پرچی پر ہی کیوں لوٹا گھمایا؟"
لڑکے نے کہا:
"مجھے مولوی صاحب نے کہا تھا۔"
اور ساتھ ہی وہ لڑکا رونے لگا۔ میں نے اسے تسلی دی، پانی منگوا کر پلایا اور کہا:
"ڈر مت، تم نے کوئی گناہ نہیں کیا، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔"
بڑی مشکل سے اس سے پوری بات سنی۔ کچھ جرح کی، کچھ سمجھایا، کچھ ڈرایا تو یہ ڈرامہ سامنے آیا:
یہ لڑکا اس مولوی سے مسجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ایک روز مولوی نے اسے کہا کہ وہ ایک گھر میں لوٹے کا عمل کرنے کے لیے جا رہا ہے اور اس عمل میں وہ اس لڑکے کو استعمال کرے گا۔
لڑکے کو یہ ڈیوٹی بتائی گئی کہ وہ لوٹے کو دائیں بائیں سے دونوں ہاتھوں سے تھام کر رکھے گا۔ مولوی اسے ایک ایک پرچی دیتا رہے گا اور وہ پرچی لوٹے میں ڈالے گا، پھر لوٹا الٹا کر کے پرچی باہر پھینک دے گا۔ مولوی اسے اگلی پرچی دے گا اور لڑکا پھر وہی عمل دہرائے گا۔
مولوی نے بتایا کہ پرچی لوٹے میں ڈالنے کے لیے جب وہ مولوی کے ہاتھ سے پرچی لے، تو مولوی کی طرف دیکھے۔ کسی ایک پرچی دیتے وقت مولوی اپنی آنکھیں بند کر کے کھولے گا۔ جیسے ہی یہ خاص پرچی لوٹے میں ڈالے گا، لڑکا لوٹے کو اتنا گھما دے گا کہ حاضرین کو یہ حرکت نظر آ جائے۔
مولوی نے اس کام کے لیے لڑکے کو کچھ پیسے بھی دیے تھے اور پھر لوٹا گھمانے کی ریہرسل بھی کروائی تھی۔
ایک روز وہ لڑکے کو ڈسپنسر کے گھر لے گیا، جہاں پانچ سات عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ مولوی نے جاتے ہی کچھ پڑھنا شروع کر دیا اور کچھ اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کیں، پھر کہا:
"ایک انسان کم ہے۔"
اس کے بعد اس نے عجیب طریقے سے ایک گھر کی سمت نشانیاں بتا کر کہا کہ وہاں جو کوئی بھی رہتا ہے، اسے فوراً بلایا جائے۔ پھر اس عورت کو بلایا گیا۔
وہ عورت آئی تو مولوی نے لوٹا فرش پر رکھ کر لڑکے کو بتایا کہ اسے کس طرح پکڑنا ہے۔ لڑکے نے لوٹے کے دونوں پہلوؤں پر ہاتھ رکھ لیے۔
مولوی نے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر ہر ایک عورت سے نام پوچھ کر لکھا اور ایک ایک پرچی لڑکے کو دینے لگا۔ لڑکا ہر پرچی لیتے وقت مولوی کی طرف دیکھتا تھا۔ آخر ایک پرچی دے کر مولوی نے آنکھیں بند کر کے کھولیں، لڑکے نے وہ پرچی لوٹے میں ڈالی اور دونوں ہاتھ لوٹے کے پہلوؤں پر رکھ کر لوٹے کو گھما دیا۔
سب نے لوٹے کی یہ حرکت دیکھ لی۔ مولوی نے لوٹے سے پرچی نکالی اور نام پڑھ کر سنایا۔ یہ اسی عورت کے نام کی پرچی تھی جسے مولوی نے بلایا تھا۔
عورت اپنا نام سن کر شور مچانے لگی:
"میں نے کوئی چوری نہیں کی، یہ مجھ پر جھوٹا الزام ہے!"
مولوی نے کہا:
"یہ اللہ کا کلام ہے جس نے تمہارا جرم ثابت کیا ہے۔"
پھر اس نے کہا:
"وہ ہار اور نقدی واپس کر دو۔"
عورت رونے لگی۔ مولوی نے کہا:
"تم نہا دھو کر مسجد میں آ جاؤ اور مسجد میں آ کر حلف دو کہ تم نے چوری نہیں کی۔"
عورت نے کہا:
"میں مسجد میں نہیں آؤں گی!"
وہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی باہر چلی گئی:
"میں دیکھتی ہوں کون مجھے چور کہتا ہے!"
لڑکے کو اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے لڑکے اور اس کے باپ سے کہا کہ وہ گھر چلے جائیں اور کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں کہ انہوں نے مجھے کیا بتایا ہے۔
میں نے لڑکے سے کہا:
"مولوی تم سے ضرور پوچھے گا کہ تھانیدار نے کیا کہا اور کیا پوچھا، لیکن تم نے اسے کچھ بھی نہیں بتانا۔"
باپ بیٹے کو اچھی طرح سمجھا بجھا کر گھر بھیج دیا۔ مجھے ایسا ہی کچھ شک تھا جس کی تصدیق اس لڑکے نے کر دی تھی۔
مولوی بیچارے کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کسی تھانیدار کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔ میں نے ایسے کئی مولوی، عامل، پیر، جوگی، پنڈت، سنیاسی اور سادھو دیکھ رکھے تھے، لیکن اس مولوی نے پہلا تھانیدار دیکھا تھا۔
یہاں میں اتنی سی بات ضرور کہوں گا کہ عوام الناس کو اس مقصد کے لیے جاہل اور ان پڑھ رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں الو بنا کر اپنا الو سیدھا کیا جا سکے۔ مذہبی رہنما بھی یہی کرتے ہیں اور سیاسی رہنما بھی۔
میرے لیے یہ مولوی کوئی عجیب و غریب چیز نہیں تھا۔ اب مجھے یہ دیکھنا تھا کہ مولوی کی نیت کیا تھی، وہ اس عورت سے اپنی کون سی بات منوانا چاہتا تھا۔
اور یہ بھی کہ ہار اور نقدی چوری بھی ہوئی تھی یا نہیں، یا یہ مولوی اور ڈسپنسر کی کوئی ملی بھگت تھی۔
یہ واضح ہو کر میرے سامنے آنے لگا کہ چوری نہیں ہوئی۔ اگر چوری ہوتی تو تمام زیورات غائب ہوتے۔ قرائن بتا رہے تھے کہ مولوی اور ڈسپنسر نے اس عورت کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔
اس جرم کو بے نقاب کرنے کے لیے یہ طریقہ ٹھیک نہیں تھا کہ میں مولوی اور ڈسپنسر دونوں سے کوئی پوچھ گچھ کرتا، بلکہ انہیں یہ تاثر دینا تھا کہ مجھے ان دونوں پر کوئی شک شبہ نہیں ہے اور میری پوری توجہ چوری پر ہی ہے۔
اب مجھے ہوشیار، چالاک قسم کے مخبروں کی ضرورت تھی۔
میں نے مخبروں کو بلا کر انہیں سمجھا کر کام پر لگا دیا۔
شام کو سول ہسپتال کا ڈاکٹر آ گیا۔ ڈسپنسر اسی ہسپتال میں ملازم تھا، اور ڈاکٹر اسی ڈسپنسر کی سفارش لے کر آیا تھا۔
ڈاکٹر نے کہا ڈسپنسر نے اسے بتایا ہے کہ آپ چوری کا مال برآمد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور آپ تفتیش میں کوتاہی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر کے میرے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ آج کی تفتیش میں میرے سامنے کیا آیا ہے، مولوی اور اس کے لوٹے کے متعلق بھی ساری بات بتائی۔
ڈاکٹر نے کہا اگر ایسی بات ہے تو آپ اپنے طریقے سے تفتیش کریں اور جھوٹ سچ کا پتہ لگائیں۔
میں نے ڈاکٹر سے پوچھا یہ ڈسپنسر کیسا آدمی ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کٹر مذہبی ہے، بد مزاج اور خطیب بھی ہے۔ اگر مجھے اس کی دو جوان بیٹیوں کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے نوکری سے نکلوا دیتا۔
کچھ دیر گپ شپ لگا کر ڈاکٹر چلا گیا۔ رات کے غالباً دس بج رہے تھے کہ ایک کانسٹیبل نے آ کر بتایا کہ ایک آدمی آیا ہے، وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ کچھ بتا نہیں رہا کہ کیا کام ہے، بس کہتا ہے "تھانیدار صاحب سے کام ہے"۔
میں اس وقت اپنے کوارٹر میں تھا۔ میں نے اسے اپنے کوارٹر میں ہی بلا لیا۔ وہ غریب سا آدمی تھا اور بیمار بھی لگ رہا تھا۔ میرے سامنے آ کر اس نے فرضی سلام کیا۔
میں نے اسے بٹھایا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس عورت کا خاوند ہے جس کے نام پر لوٹا گھوما تھا۔ بات شروع کرتے ہی وہ رو پڑا۔ میں نے اس کو حوصلہ دیا اور ہمدردی سے اس کی بات سنی، جو مختصر یوں تھی:
چند دن قبل ڈسپنسر اس کے گھر آیا اور اسے بتایا کہ اس کے گھر سے نقدی اور ہار چوری ہو گیا ہے اور مولوی صاحب نے لوٹا گھمایا ہے، اور لوٹا اس آدمی کی بیوی کے نام پر گھوما ہے۔
ڈسپنسر نے اسے کہا کہ وہ مال واپس کر دے۔ ڈسپنسر کی بات سن کر یہ آدمی بہت گھبرایا، کیونکہ اسے اپنی بیوی سے اس قسم کی توقع نہیں تھی۔
بیوی نے اسے بتایا ہی نہیں تھا کہ اس پر شک کیا گیا ہے اور اس کے نام پر لوٹا گھوما ہے۔ ڈسپنسر چلا گیا تو اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تو بیوی نے کہا کہ اس نے چوری نہیں کی، اس پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کبھی کبھار ڈسپنسر کے گھر جاتی تھی، لیکن تعلقات گہرے نہیں تھے، محض دنیا داری کا میل جول تھا۔
اسی شام مولوی نے اس آدمی کو اپنے ہاں بلا کر وہی بات کی جو ڈسپنسر نے کی تھی۔ مولوی نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے پاس بھیجے، میں سب ٹھیک کر لوں گا۔
چونکہ مولوی کا تقدس اور عقیدت اس آدمی پر بھی طاری تھی، اس لیے وہ مولوی کی بات مان گیا کہ اس کی بیوی نے چوری کی ہے۔
اس آدمی کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہار اور نقدی کہاں رکھے تھے اور کیا یہ چوری ممکن بھی تھی یا نہیں۔ اس کی عقل اور اعصاب پر ڈسپنسر کی دھمکیاں، مولوی کا تقدس اور لوٹا سوار ہو گیا تھا۔
اس نے گھر جا کر بیوی کو مارا پیٹا اور اسے کہا کہ وہ مولوی کے پاس جائے، لیکن بیوی نے مولوی کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔
اس سے خاوند کے دل میں شک پختہ ہو گیا کہ اس کی بیوی چور ہے جو مولوی کے پاس جانے سے انکار کر رہی ہے۔
اس نے بیوی پر زور دینا شروع کر دیا کہ وہ مولوی کے پاس جائے۔ تب بیوی نے اسے بتایا کہ وہ کس نیت سے اسے بلا رہا ہے۔
بیوی نے خاوند کو بتایا کہ کوئی ایک ماہ پہلے کا ذکر ہے کہ بیوی ایک جمعرات کو مولوی کو روٹی دینے گئی۔ اس سے پہلے بھی یہ عورت مسجد میں روٹی بھیجا کرتی تھی، کبھی کسی بچے کے ہاتھ بھیج دیتی تھی، کبھی کبھی اس کا خاوند بھی دے آتا تھا۔
خاوند اس روز گھر نہیں تھا اور کوئی دوسرا بھی نہ ملا، تو وہ خود ہی روٹی لے کر چلی گئی۔ مولوی نے اسے اپنے حجرے میں بٹھا کر ازراہِ کرم دم درود کیا۔ عورت متاثر ہوئی۔
مولوی نے پھر بلایا، وہ دو تین بار گئی۔ ایک روز مولوی نے ایسی حرکتیں کیں جن سے عورت کے دل میں موجود تقدس اور احترام مجروح ہو گیا۔
یہ ان عورتوں میں سے تھی جو اپنے خاوندوں کو خدا سمجھتی اور عصمت پر جان قربان کر دیتی ہیں۔ اس نے مولوی کے پاس جانا چھوڑ دیا، مگر مولوی نے اس کے گھر آنا شروع کر دیا۔
مولوی کو گھر میں آنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ یہ مولوی کوئی عام ملا نہیں تھا بلکہ عامل اور غیب کے اشارے پانے والا برگزیدہ مولانا تھا۔ عورت اس کے جال میں نہ آئی۔ اس نے اپنے خاوند کو صرف اس لیے نہ بتایا کہ وہ پریشان ہو گا۔
ایک روز اس عورت نے تقدس اور احترام کو الگ پھینک دیا اور مولوی کی بے عزتی کر دی۔ اس کے دو تین روز بعد مولوی خاوند کی غیر حاضری میں عورت کے پاس آیا۔
اس سے کہا کہ "آج آخری روز ہے، کل جو ہوگا اس کا گلہ مجھ سے مت کرنا"۔ عورت نے ایک بار پھر مولوی کو دھتکار دیا۔
پھر دوسرے ہی دن اسے ڈسپنسر کے گھر بلایا گیا۔ وہ چلی گئی۔ جا کر دیکھا تو مولوی اور سات آٹھ عورتیں پہلے سے بیٹھی ہ
وئی تھیں اور درمیان میں لوٹا رکھا ہوا تھا۔
قسط نمبر 4 پڑھیں