لوٹا گھوم گیا — قسط نمبر 4
Ahmad yar Khan
اس سے آگے جو کچھ ہوا وہ میں آپ کو سنا چکا ہوں۔ خاوند کو اتنا صدمہ ہوا کہ اس کی صحت پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی، پھر اسے بخار آنے لگا۔ خاوند بیمار ہوا تو سول ہسپتال گیا۔
ڈاکٹر نے اسے جو نسخہ لکھ کر دیا، وہ اسی ڈسپنسر نے بنایا۔
ڈسپنسر اس پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہو گیا۔
ڈسپنسر نے اسے دوا ہمدردی سے دی اور دوستانہ لہجے میں کہا کہ وہ اپنی بیوی سے ہار اور نقدی لے کر دے۔ یہ آدمی ڈسپنسر کی منت سماجت کرتا رہا اور ڈسپنسر سے کہا کہ اس کی بیوی نے چوری نہیں کی۔
آخر یہ دن آیا کہ ڈسپنسر نے تھانے رپورٹ دی اور میں ڈسپنسر کے گھر گیا۔ کسی کے گھر پولیس کا جانا بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ خاوند کو بھی پتہ چل گیا کہ ڈسپنسر کے گھر پولیس آئی ہے۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ پولیس کے واپس جانے کے بعد ڈسپنسر اس کے گھر آیا تھا اور اس سے کہا کہ میں نے تمہاری بیوی کا نام لکھوا دیا ہے، اب بھی وقت ہے مال واپس کر دو ورنہ کل تمہاری بیوی حوالات میں بند ہو گی۔
پھر مولوی آیا، اس نے بھی ایسی ہی دھمکی دی۔
اس آدمی نے میرے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا:
"جناب عالی، خدا کے سوا میرا کوئی نہیں ہے۔ اگر آپ میری بیوی کو حوالات میں بند کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جگہ مجھے گرفتار کر لیں۔ میں جانتا ہوں آپ مولوی صاحب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، قانون تو ہم جیسے غریبوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر آپ کے دل میں رحم آ جائے تو میری بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ لیں۔"
مولوی کے خلاف مجھے شہادت مل چکی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد تھا کہ مولوی کے ساتھ جب میری ملاقات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ "تم پہلے اس عورت کو تھانے بلا کر گرفتاری کی دھمکی دو، پھر میں اس کے ساتھ بات کر لوں گا"۔ وہ اس عورت کو پھانسنے کے لیے مجھے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ مجھے چونکہ مولوی کے خلاف لڑکے سے شہادت مل چکی تھی اس لیے میں نے اس عورت کے خاوند کے بیان کو فوراً سچ مان لیا۔
اس نے جس طرح رو رو کر مجھے واقعہ سنایا تھا، اگر کوئی پتھر دل بھی ہوتا تو اس کے آنسو نکل آتے۔ میں بھی کچھ دیر کے لیے بھول گیا کہ میں تھانیدار ہوں۔
مجھے کچھ محتاط ہونا چاہیے تھا مگر میں جذباتی ہو گیا اور اسے بتا دیا کہ اس کی بیوی کے خلاف کوئی ثبوت یا شہادت نہیں ملی کہ چوری اس نے کی ہے۔
مولوی کے متعلق بھی میں نے بتا دیا کہ وہ کوئی مولوی ہرگز نہیں ہے، وہ تو ایک نوسر باز ہے جس نے مسجد پر قبضہ کر رکھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں مولوی کو گرفتار کر لوں گا۔ میرے منہ سے یہ بھی نکل گیا کہ ڈسپنسر کے گھر کوئی چوری نہیں ہوئی، یہ مولوی اور ڈسپنسر کی ملی بھگت ہے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ اس آدمی کے بیان کی تصدیق کے لیے اس کی بیوی سے ملنا بہت ضروری ہے۔
میں سادہ لباس میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس کی بیوی کو تھانے بلانا میں نے مناسب نہ سمجھا۔
جب اس کے گھر میں جا کر اس کی بیوی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ روتی رہی ہے۔ اگر خاوند اسے یہ تسلی نہ دے دیتا کہ میں اسے گرفتار نہیں کروں گا، شاید وہ بے ہوش ہو جاتی۔
وہ واقعی خوبصورت عورت تھی اور جوان بھی تھی۔
میں نے عورت کو الگ کر کے اس کی بات سنی اور اپنے شکوک رفع کرنے کے لیے کچھ باتیں پوچھیں۔ اس کی باتوں سے اس کے خاوند کی باتوں کی تصدیق ہوتی تھی۔
اس دوران وہ عورت روتی رہی۔ وہ بہت اچھے کردار کی عورت تھی۔ ڈسپنسر اسے مسلسل دھمکیاں دے رہا تھا اور مولوی اپنا جال پھینک رہا تھا۔
پسماندہ اور بے علم انسان کی عقیدت بڑی سخت ہوتی ہے۔ یہ عورت مولوی سے اپنا دامن بچا تو رہی تھی لیکن ساتھ ہی ڈر بھی رہی تھی کہ مولوی مذہبی پیشوا ہے، جس کی بے ادبی گناہ ہے۔ اس خوف کے ساتھ ساتھ اس پر پولیس اور گرفتاری کا خوف بھی سوار تھا۔
میں نے اس کے دل سے سارے خوف نکالنے کی ہمدردانہ کوشش کی۔ یہ دونوں میاں بیوی تنکوں کا سہارا تلاش کر رہے تھے۔ میرے جذباتی سہارے نے انہیں کافی سنبھالا دیا۔ میں مولوی اور ڈسپنسر کو بخشنا نہیں چاہتا تھا لیکن میرے سامنے واردات کچھ اور تھی۔
یہ سونے کے ہار اور نقدی کی چوری کی رپورٹ تھی۔ مجھے اس چوری کی تفتیش کرنی تھی اور مجرموں کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرنا تھا۔
مولوی جس طرح اس خوبصورت عورت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس کی میرے پاس باقاعدہ کوئی رپورٹ نہیں تھی، تاہم اس مولوی کو میں قانون کے شکنجے میں لانا چاہتا تھا۔
میں نے اس عورت اور اس کے خاوند کو کچھ باتیں سمجھائیں اور کہا کہ وہ دونوں ابھی اپنی زبانیں بند رکھیں۔
پھر میں واپس تھانے آ گیا۔
میں نے میاں بیوی کی مظلومیت، غربت اور بے بسی سے متاثر ہو کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور انہیں اپنی حمایت کا یقین ضرورت سے زیادہ دلا دیا تھا۔
میں نے یہ نہ سوچا کہ یہ دونوں مظلوم ہیں اور بلیک میلنگ کا شکار تو پہلے سے ہی ہو رہے ہیں، لیکن یہ دونوں ذہنی طور پر ان باتوں کو دل میں دبا کر رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو میں انہیں بتا کر آیا تھا۔
اس کا نتیجہ دوسرے روز سامنے آ گیا۔ دن کے دس گیارہ بجے ہوں گے کہ یہ عورت دوڑتی ہوئی تھانے میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کے پڑوس کا ایک آدمی تھا۔ عورت نے بتایا کہ اس کا خاوند بیمار ہے اور کئی روز سے سرکاری ہسپتال سے دوا لے رہا ہے۔ دوا یہی ڈسپنسر بناتا ہے۔
اس نے کہا: آج صبح اس کا خاوند دوا لے کر آیا تو اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ آج ڈسپنسر کے ساتھ شدید جھڑپ ہو گئی ہے۔ خاوند نے مزید بتایا کہ "میں دوا لینے کے لیے اس کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوا تو ڈسپنسر نے کہا: تم لوگوں نے چوری کا مال سیدھے طریقے سے واپس کرنا ہے یا نہیں؟ تم جانتے ہو کہ میں تھانے میں رپورٹ درج کروا چکا ہوں۔ اگر آج مجھے میرا مال واپس نہ ملا تو تمہاری بیوی کو گرفتار کروا دوں گا۔"
خاوند نے ڈسپنسر سے کہا: "جاؤ جاؤ اپنا کام کرو۔ دیکھتے ہیں تھانیدار ہمیں گرفتار کرتا ہے یا تمہیں اور تمہارے مولوی کو گرفتار کرتا ہے۔"
خاوند نے ڈسپنسر کو بتایا کہ تھانیدار رات ہمارے گھر آیا تھا تو میں نے اور میری بیوی نے تھانیدار کو بتا دیا کہ تم اور مولوی کیوں میری بیوی کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ مختصر یہ کہ اس آدمی نے ڈسپنسر کو وہ ساری باتیں بتا دیں جو میں نے اس سے کہی تھیں۔
بیوی نے بتایا کہ پھر خاوند نے دوا کی پہلی خوراک پی لی۔ تھوڑی دیر بعد اسے ابکائیاں آنے لگیں۔ اس کے بعد اسے قے آئی، پھر قے میں خون آنے لگا۔ بیوی کو شک ہوا کہ ڈسپنسر نے اسے دانستہ زہریلی دوا دے دی ہے۔
وہ بھاگی بھاگی میرے پاس تھانے آئی۔
ساری بات سننے کے بعد مجھے بھی شک ہوا کہ ڈسپنسر نے انتقامی کارروائی کی ہے۔ ہسپتال تھانے سے دور نہیں تھا۔ میں نے ایک کانسٹیبل کو فوراً ہسپتال دوڑایا کہ ڈاکٹر کو لے کر اس عورت کے گھر آ جائے اور اس سے کہنا: ہو سکتا ہے ایک آدمی کا نزعی بیان لینا پڑ جائے۔
می
ں خود اس عورت کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔
محلے کا ایک آدمی اس عورت کے ساتھ آیا تھا۔ محلے سے دو اور آدمی گواہ کے طور پر ساتھ لیے اور جا کر اس عورت کے خاوند کو دیکھا۔ وہ ایک بالٹی میں قے کر رہا تھا جس میں خون کی آمیزش تھی۔ دوائی کی شیشی پاس پڑی تھی، جو فوراً میں نے قبضے میں لے لی۔ اس آدمی پر نیم بے ہوشی طاری تھی۔ میں نے اس سے چند باتیں پوچھیں، وہ اچھی طرح بول نہیں پا رہا تھا۔
ایک بات اس نے یہ کہی کہ ڈسپنسر نے کہا تھا کہ "تم چلتے پھرتے نظر نہیں آؤ گے"۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ شخص زندہ رہے گا۔ ڈاکٹر آیا، اس نے مریض کا معائنہ کیا اور کہا کہ اسے فوراً ہسپتال لے کر جانا ہوگا۔ میں نے ڈاکٹر کو دوائی والی شیشی دی۔ ڈاکٹر نے شیشی کو اچھی طرح ہلایا اور غور سے دیکھا، پھر مجھ سے کہا کہ اس دوائی کا ٹیسٹ ضروری ہے۔ ڈسپنسر کو آپ فوراً گرفتار کر لیں۔
مریض کو چارپائی پر ڈال کر چار آدمی ہسپتال لے گئے۔ میں نے ڈسپنسر کو اپنے ساتھ لے لیا اور اسے کہا کہ وہ اپنے آپ کو میری حراست میں سمجھے۔ ہم وہاں سے ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر مریض کے ساتھ مصروف تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر نکلا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اگر مریض دو گھنٹے مزید زندہ رہا تو موت کا خطرہ ٹل جائے گا۔ ڈاکٹر نے معدہ وغیرہ صاف کر دیا تھا۔
ڈاکٹر نے ڈسپنسر سے پوچھا کہ یہ دوائی اسی نے مریض کو دی تھی؟ ڈسپنسر نے کہا: "جی، میں نے ہی دی ہے۔"
ڈاکٹر نے ڈسپنسر سے پوچھا: "تم نے اس دوائی میں کیا ملایا تھا؟"
ڈسپنسر خاموش رہا۔
ڈاکٹر نے ڈسپنسر سے کہا: "تم جانتے ہو یہ دوائی کہاں بھیجی جائے گی، اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہاں تمہارا جرم ثابت ہو جائے گا۔"
ڈسپنسر نے کہا: "میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔"
ڈاکٹر نے مجھے اشارہ کیا اور کہا کہ ڈسپنسر کو اپنے ساتھ تھانے لے جاؤ اور اسے حوالات میں بند کر دو۔ میں ڈسپنسر کو لے کر تھانے آ گیا اور اس سے کہا کہ وہ اقبالی بیان دے گا یا مقدمہ لڑے گا؟ میں نے اس سے کہا کہ "میری نصیحت پر عمل کرو گے تو شاید کچھ چھوٹ مل جائے، کیونکہ تم جرم کو چھپا نہیں سکتے۔ اب دعا کرو کہ وہ آدمی بچ جائے۔"
ڈسپنسر نے مجھ پر جوابی حملہ کیا اور کہنے لگا: "وہ تو پہلے ہی بیمار تھا۔ اس کی تکلیف بڑھ گئی تو مجھ پر الزام عائد کر دیا کہ میں نے اسے دوائی میں کچھ دے دیا ہے۔"
میں نے ڈسپنسر سے کہا: "تم ابھی دو چار دن حوالات میں رہو گے تو مجھے امید ہے کہ اچھی طرح سوچنے کے قابل ہو جاؤ گے۔"
میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ مولوی کو بھی اس واردات میں پھنسا دوں۔ سوچ سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی کو اعانتِ جرم میں پکڑا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے خلاف شہادت موجود تھی۔ اس نے لوٹا گھمانے میں دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا تھا۔
مولوی کے خلاف میں غصے سے اس قدر بھرا ہوا تھا کہ میں نے اسے تھانے بلا لیا اور اس کمرے میں بند کر دیا جس میں ملزموں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ وہ مذہب اور مسجد کی توہین کا مرتکب ہو رہا تھا۔ وہ قرآن کی آیات پڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہا تھا۔ وہ بعد میں بری ہو بھی جاتا لیکن میں اسے ایک بار رگڑا دینا چاہتا تھا۔
وہ مخبر جن کو اس کیس کی مخبری پر لگایا تھا، وہ رپورٹیں لے کر آنے لگے۔ گاؤں میں اور شہر کے کسی بھی محلے میں کسی کی کوئی بات چھپی نہیں رہتی کیونکہ ہم لوگوں کی عادت ہے کہ اپنی کرتوت سے دوسروں کی توجہ ہٹانے کے لیے دوسروں کے گھروں کے متعلق ذرا سی بات کا بتنگڑ بناتے اور مشہور کرتے ہیں۔ ہم سب میں دوسروں کے گھروں کی باتیں جاننے کا تجسس ہوتا ہے۔ کسی کا پردہ نہیں رہتا۔ دلوں میں چھپے ہوئے بھید بھی باہر آ جاتے ہیں۔
ان حالات میں مخبروں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ مخبروں کی اپنی نظر بھی بہت دور تک اور تہہ کے نیچے تک دیکھ سکتی ہے۔ ڈسپنسر کے متعلق مخبروں نے بتایا کہ وہ بد مزاج اور غصیلا ہے، غصے میں اس کی حالت پاگلوں جیسی ہو جاتی ہے۔ مخبروں کی رپورٹ کے مطابق اپنے گھر میں ڈسپنسر ظالم اور ڈکٹیٹر بنا رہتا ہے، جوان اولاد کی پٹائی کر دیتا ہے، بیوی کو بھی مارتا پیٹتا ہے۔
مذہب اور پردے کا اتنا پابند ہے کہ اس کا بس چلے تو باہر کی ہوا بھی اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دے۔ اس کے گھر سے اس کے سوا کسی اور فرد کی آواز کبھی نہیں سنائی دی۔ اس کے بڑے بیٹے کے متعلق بتایا گیا کہ اس کا میل جول بدقماش لوگوں سے ہے، گھر والوں سے چوری چھپے سگریٹ بھی پیتا ہے، اسے جوا کھیلتے بھی دیکھا گیا ہے۔
اس پچیس سالہ جوان اور غیر شادی شدہ بیٹے کے متعلق یہ رپورٹ سن کر میں بالکل حیران نہیں ہوا کیونکہ جس باپ نے گھر میں ڈکٹیٹرشپ جیسا ماحول بنا رکھا تھا، وہاں حقیقت یہ ہے کہ جن بچوں میں مجرمانہ رجحانات پیدا ہو جاتے ہیں، وہ ایسے ہی ڈکٹیٹر باپوں کے بچے ہوتے ہیں۔ اتنا تشدد اور اتنی کڑی پابندیاں جیسی اس باپ نے گھر میں روا رکھی ہوئی تھیں، انسانی فطرت قبول نہیں کیا کرتی۔ حکم کے ساتھ پیار بھی ہو تو تربیت میں وہ اعتدال پیدا ہو جاتا ہے جو بچے کو متوازن شخصیت عطا کرتا ہے۔ اذیت اور اذیت ناک ماحول سے انسانی فطرت فرار حاصل کرتی ہے۔
ڈسپنسر کا یہ بڑا بیٹا اس فرار کا عادی ہو گیا تھا۔ اس سے چھوٹے بھائی کا ردعمل مختلف تھا۔ اس کے متعلق بتایا گیا کہ اس کا تو جیسے من ہی مارا گیا ہے۔ بڑا بیٹا چوری چھپے آزاد ہو گیا تھا، اس نے فرار کا مجرمانہ راستہ اختیار کر لیا تھا، چھوٹے بیٹے نے اپنی ذات کے اندر پناہ ڈھونڈ لی تھی۔
میری جو مخبر عورت تھی، اس نے ڈسپنسر کی بڑی بیٹی کے متعلق ایسی رپورٹ دی کہ میں چونک اٹھا۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ اتنی سخت پابندیوں اور پردے کی وجہ سے اسے باہر کی ہوا بھی نہیں لگتی ہوگی، مگر وہ چھتوں کی عشق بازی کرتی تھی۔ آپ انسان کو تو قید کر سکتے ہیں لیکن اس کے تصورات کو زنجیریں نہیں ڈال سکتے۔ پردہ دار لڑکیاں جنہیں ماں باپ برقعے میں بھی باہر نہیں نکلنے دیتے، اپنے گھروں کی چھتوں پر چلی جاتی ہیں اور آزاد دنیا کو دیکھ لیتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ ان سب کی نیت خراب ہو، البتہ جن لڑکیوں کے باپ ڈسپنسر جیسے ہوتے ہیں، وہ لڑکیاں لڑکوں کی طرح اس گھٹن سے ذرا نجات حاصل کرنے کے لیے قید میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہو جاتی ہیں۔ چھتوں کی نظر بازی اور دور دور کی محبت اسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ شہروں کے گنجان محلوں کے لوگ محبت کی اس نوعیت سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔
مخبر عورت نے بتایا کہ ڈسپنسر کی بڑی بیٹی دن میں تین چار بار اوپر چھت پر جاتی ہے۔ چار پانچ گھر دور ایک چھت پر ایک نوجوان اس کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے۔ دونوں اشاروں اشاروں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مخبر نے یقین کے ساتھ بتایا کہ چھت کے اوپر اوپر سے ان دونوں کی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔
مجھے اس مخبر عورت پر مکمل اعتماد تھا — آسمان سے تارے توڑ لانے والی عورت تھی۔ اس نے ڈسپنسر کی چھوٹی بیٹی کے متعلق صاف رپورٹ دی کہ وہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کی طرح دلی طور پر مردہ ہو گئی تھی۔ معاملہ صاف تھا: بڑا بیٹا جوئے کا عادی تھا، نقدی اور ہار کی چوری اس کے کھاتے میں جاتی تھی۔ میں اس شک میں حق بجانب تھا کہ ہار اور نقدی کا چور یہ لڑکا ہو سکتا تھا۔ بڑی لڑکی پر بھی شک کیا جا سکتا تھا اگر واقعی کوئی نوجوان اس سے ملتا تھا۔ امکان تھا کہ لڑکی نے ہار اور نقدی نکال کر اس نوجوان کو دے دی ہو، لیکن میرا ذہن بڑے بیٹے کی طرف مائل تھا۔
ڈسپنسر حوالات میں بند تھا، میں اس کے گھر جا کر ہر کسی سے آسانی سے مل سکتا تھا۔ مجھے روک تو کوئی بھی نہیں سکتا تھا، اگر ڈسپنسر آزا
د ہوتا تو ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔