ہم آزاد یا غلام
افسانہ علینہ خان
کیا آپ کو یاد ہے پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ یہ کس بنیاد پر قائم ہوا؟“
ماما! اس شہر میں اتنے کالج یونیورسٹیاں ہیں، لازمی ہے کہ میں اس یونی میں داخلہ لوں؟
آپ لوگ کسی اور کالج میں میرا داخلہ کروا دیں مجھے اس یونیورسٹی میں نہیں پڑھنا ۔ اس نے ضدی انداز میں کہا۔
دیکھو حرم، ہم ہر بار تمہاری بات نہیں مانیں گے۔ یہ ہمارے گھر سے قریب بھی ہے اور اس شہر کی مشہور یونیورسٹی ہے۔ انہوں نے صاف انداز میں کہا۔
” مجھے یہ یونی نہیں پسند ماما۔ آپ مجھے وومین کالج میں داخلہ دلوا دیں لیکن یہاں نہیں پلیز “ اس کے لہجے میں التجا تھی۔
تمہارے بابا داخلہ فارم اور تمہارے ڈوکومینٹ جمع کروا آئے ہیں اس لیے اب چپ چاپ لسٹ کا ویٹ کرو۔ آخر تم نے پورے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے اس لیے ہمیں امید ہے تمہارا
نام پہلی لسٹ میں آجائے گا۔ اب میں مزید کچھ نہیں سنوں گی ۔“ اس کی ماں دوٹوک انداز میں بول کر چلی گئی تھیں اور وہ دعا کرنے لگی کہ اسکا نام لسٹ میں نہ آئے۔ لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔
حرم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی ، جس کی وجہ سے اس کے والدین اس کی ہر بات مانتے تھے۔ اس کے والد کی سرکاری نوکری تھی ۔ حرم ہمیشہ اپنے سکول میں ٹاپ کرتی آئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس سے نے آئی سی ایس کے امتحان میں بھی ٹاپ کیا تھا۔
اس کے والدین اسے لاہور کی مشہور یونیورسٹی میں داخل کروارہے تھے یہ جانے بغیر کہ اس کی پڑھائی کیسی ہے۔
بابا! مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔ حرم نے اپنے والد کولاؤنج میں اکیلے بیٹھے دیکھا تو پاس آکر بولی۔
جی بیٹا کیا بات ہے؟“ احمد صاحب جو ٹی وی پر خبریں سن رہے تھے اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
وہ۔۔۔ بابا مجھے اس یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لینا ۔ اس نے ہمت کر کے کہا۔
پر کیوں بیٹا؟ اتنی بڑی اور اچھی یونیورسٹی ہے۔ میں یونیورسٹی کے بارے میں پتہ کر کے آیا ہوں بڑے بڑے گھروں کے بچے، بچیاں دوسرے شہروں سے یہاں پڑھنے آتے ہیں ۔“ وہ اپنی بات کہہ کر دوبارہ خبریں سننے لگے جہاں کوئی بریکینگ نیوز چل رہی تھی۔
اب میں بابا کو کیسے بتاؤں جو جتنا برا ہوتا ہے لوگ اسے اتنا اچھا کہتے ہیں اور جو اچھا ہوتا ہے اسے لوگ برا کہتے ہیں ۔“ وہ صرف سوچ ہی سکی کیونکہ اس کی امی چائے لے کر لاؤنج میں
آگئی تھیں اور ان کے سامنے وہ دوبارہ یہ بات نہیں بول سکتی تھی۔
ٹی وی اینکر ابھی بھی چیخ چیخ کر بلوچستان میں ہوئے بم دھماکے کے بارے میں بتارہا تھا۔
آج اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ کالے رنگ کا عبایہ پہنے اور سبز رنگ کے بڑے سے سٹالر سے حجاب کیے جو اس نے ضد کر کے لیا تھا، وہ یہاں کے طلبہ سے کافی مختلف لگ رہی تھی۔ چند ایک لڑکیاں اور تھیں جو مکمل اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے تھیں۔
اس کو کافی عجیب لگ رہا تھا حالانکہ وہ پہلے بھی لڑکوں کے ساتھ پڑھتی آئی تھی پر جو کچھ اس نے سن رکھا تھا یہاں کے بارے میں اسے ڈر تھا کہ چار سال تک وہ بھی ایسی نہ ہو جائے۔ السلام علیکم ! آپ بی ایس کی نیو سٹوڈنٹ ہیں؟ کون سا سبجیکٹ رکھا ہے آپ نے؟“ ایک لڑکی نے اس کے پاس آ کر کہا۔
وعلیکم السلام، جی میں نیو سٹوڈنٹ ہوں یہاں پر ۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟“‘حرم نے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو غور سے دیکھا جو نیلے رنگ کے عبائے پر نیلے رنگ کے دوپٹے کو سر پر لیے ہوئے تھی البتہ اس نے نقاب نہیں کیا تھا۔
اصل میں، میرا بھی آج پہلا دن ہے۔ میں نے کمپیوٹر میں ایڈمیشن لیا ہے۔ میں ذرا ڈر رہی تھی کیونکہ میں نے سنا ہے پہلے دن سینئر سٹوڈنٹس نئے آنے والوں کو بہت تنگ کرتے ہیں ۔ اس لڑکی نے اپنا ڈر ظاہر کیا۔
میں کیسے مان لو کہ آپ نئی اسٹوڈنٹ ہیں، کیا پتہ آپ جو نیئر بن کر مجھے ریگ کرنے آئی ہوں اور آپ کیسا تھ اور بھی لوگ ہوں ۔ حرم کو اس لڑکی کی باتوں پر بالکل یقین نہیں تھا۔ وہ ویسے بھی بہت کم لوگوں پر یقین کرتی تھی ، یہی وجہ تھی کہ سکول کالج میں اس کی کوئی دوست نہیں تھی۔ اس کی دوستی صرف اپنے کزنز سے تھی۔
یہ میرا اسٹوڈنٹ کارڈ ہے۔ میرا نام نوشین ہے۔ اس لڑکی نے اپنا کارڈ حرم کی طرف بڑھایا جس پر اس کی تصویر اور نام وغیرہ موجود تھا۔
سوری، دراصل میں لوگوں کا جلدی یقین نہیں کرتی۔ میرا نام حرم فاطمہ ہے اور میں بھی کمپیوٹر کی طالبہ ہوں ۔ حرم کو واقعی شرمندگی ہوئی تھی۔
اٹس اوکے۔ اچھی بات ہے کہ آپ ہر کسی پر یقین نہیں کرتیں۔ کیا ہم دوست بن سکتے ہیں ؟ نوشین نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
جی ضرور “ حرم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے بڑھے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا۔
اسے نوشین اچھی لڑکی لگی تھی اور یہ اس کی پہلی دوست تھی۔
چلو ہم اپنی کلاس ڈھونڈتے ہیں ۔ وہ دونوں یونیورسٹی کی بلڈنگ کی طرف بڑھ گئیں۔
”ہیلو اسٹوڈنٹس، ہاؤ آریو؟“ یو نیورسٹی کے پرنسپل سیمینار ہال میں بنے بڑے چبوترے پر کھڑے مائک میں بولے۔ اس وقت سب طالبات سیمینار ہال میں موجود تھے۔ ہال نئے اسٹوڈنٹس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
ویلکم ٹو آور یونیورسٹی ۔ آئی ہوپ یوگیو یور بیسٹ فار آور یونی اینڈ کا پریٹ ود اس ان عینی سچویشن اینڈ کنڈیشن ۔ پرنسپل صاحب اسٹیج پر کھڑے اپنے ادارے کی تعریف میں مصروف تھے۔ کچھ طالبات کے علاوہ باقی سب باتوں اور ویڈیوز بنانے میں مشغول تھے۔
مجھے امید ہے آپ لوگ یہاں علم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔ آپ کے والدین نے اتنی دور آپ کو پڑھنے بھیجا ہے تو آپ ہمیں اور اپنے والدین کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔ پرنسپل مسلسل بولے جارہے تھے۔ یہ جانے بغیر کے اسٹوڈنٹس کو اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔
یہ سر اردو میں بات کیوں نہیں کر رہے اور تو اور انہوں نے ہم پر سلامتی بھیجنے کے بجائے ہیلو کہا۔ یعنی ڈائریکٹ جہنم جانے کا بول کر کہہ رہے ہیں ہاؤ آریو ۔ نوشین نے حرم کے کان میں کہا جبکہ وہ اس کے انداز پر ہنس پڑی۔
ہاں حیرت تو مجھے بھی ہو رہی ہے۔ ہمارے دین میں سلام لازم ہے اور یہ ہیلو بول رہے اور ہماری قومی زبان پر انگریزوں کی زبان کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ حرم نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
کچھ دیر بعد پرنسپل نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد سب کو ان کی کلاس میں جانے کو کہا اور گڈ بائے ، بیسٹ آف لک فار یور فیوچر کہتے باہر چلے گئے ۔ اور نوشین بھی اپنی کلاس لینے چلی گئیں۔
کیسا رہا آج کا دن، یونیورسٹی پسند آئی ؟ نادیہ بیگم نے حرم کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا جو ہاتھ میں کوئی تاریخی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔
جی ماما بس صحیح رہا۔ وہ کتاب سائیڈ پر رکھتے ہوئے بولی۔
کوئی دوست بنائی یا ہمیشہ کی طرح کوئی لڑکی دوستی کے لیے اچھی نہیں لگی ۔ انہوں نے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
جی ایک بنی ہے۔ نوشین نام ہے اس کا ۔ وہ سرسری سے انداز میں بولی۔ چلو شکر ہے کوئی تو دوست بنی تمہاری ۔ انہیں خوشی ہوئی تھی۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے ماما ، بس دوست ہمیشہ سوچ سمجھ کر بنانے چاہئیں ورنہ وہ آپ کے لیے برے بھی ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اس نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا بتاؤ کیا پڑھ رہی تھیں؟“ انہوں نے کتاب اٹھاتے ہوئے کہا جو وہ پڑھ رہی تھی۔
اردو کی کتابوں میں کیا رکھا ہے۔ انگلش کتابیں پڑھا کرو۔ آگے تم دوسرے ملک تعلیم کے لیے جاؤ گی تو تمہیں آسانی ہوگی ۔ نادیہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح اسے انگریزی زبان کا فائدہ بتایا۔
پر ماما اردو ہماری قومی زبان ہے، ہماری مادری زبان جو ہماری پہچان ہے۔“ اسے افسوس ہوا تھا اور برا بھی لگا تھا۔
ہاں مگر اب اس کی اتنی ویلیو نہیں ہے۔ مجھے تو لگتا ہے بہت جلد ہمارے ملک میں بھی بس انگریزی زبان ہی ہوگی ۔ ان کے اس طرح کہنے پر اسے جھٹکالگا تھا۔
اللہ نہ کرے کہ ہم ان انگریزوں کے نقش قدم پر چلیں ۔ اس کے دل سے دعا نکلی تھی۔ اچھا چھوڑ وان باتوں کو۔ میں کھانا لگا رہی ہوں، آجاؤ۔“ انہوں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جبکہ وہ جی اچھا کہہ کر کتاب شیلف میں رکھنے لگی جہاں اردو ادب اور تاریخی کتا بیں تھیں۔
ہم آپکو بتاتے چلیں کہ پاکستان میں ایک اور حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا ہے۔ جی ہاں ناظرین ! ہم آپ کو تازہ خبر سے آگاہ کرتے چلیں۔
آج اتوار کا دن تھا وہ ٹی وی پر چینل بدل رہی تھی جب ایک نیوز چینل پر خبر سن کر اس نے گہری سانس لی۔
ایک اور حکومت اپنے پانچ سال مکمل نہ کرسکی۔ پاکستان بننے سے اب تک جو بھی حکومت آئی اپنی مدت سے پہلے ہی چلی گئی ۔ ہر چینل ایک ہی خبر کو چیخ کر بتا رہا تھا۔
یہ تو ان کا روز کا معمول ہے، ہوتا ان سے کچھ نہیں ہے ایک پارٹی آتی ہے تو باقی اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور جب ان کی حکومت آتی ہے تو دوسرے انہیں گرانے لگ جاتے ہیں ۔ احمد صاحب نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
اس کا کوئی تو حل ہو گا ہی “ حرم نے احمد صاحب سے پوچھا۔
یہ سب انگریزوں کے قرض دار بنا کر چلے جاتے ہیں بس اور جو ملک کو ترقی کی طرف لاتا ہے اسے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ قرض لے کر کھا رہا ہے۔ ایک دو حکمرانوں کے علاوہ کوئی اس ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔ ریلوے اور دوسری کچھ اہم چیزیں تو یہ انگریز ہی بنا گئے تھے برصغیر میں جو ہمارے حصے میں آگیا یہ لوگ تو ہمیں قرضے میں ڈبو رہے ہیں۔ احمد صاحب نے افسوس سے کہا۔
حکمرانوں کو لاتے بھی تو ہم ہی ہیں پھر برا بھی ہم ہی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کسی ایک کو مدت پوری کرنے دیں تو ہی ہمارے ملک میں ترقی ہو سکتی ہے ورنہ ہم ان انگریزوں کے غلام بنتے چلے جائیں گے۔ وہ اپنی بات کرکے ٹی وی چینل بدلنے لگے -
آج کا لیکچر کتنا مشکل تھا اور سر نے اس کا ٹیسٹ بھی دے دیا۔ نوشین نے نوٹس بناتے ہوئے کہا۔
مشکل تو ہے پر ہم کوشش کر کے تیار کر لیں گے۔ حرم کتاب پر ہائی لائٹ کرتے ہوئے بولی۔
سر نے جو لیکچر دیا ہے وہ یو ٹیوب پر سرچ کرو۔ اتنے اچھے سے سمجھاتے ہیں وہ لوگ “ ان کی کلاس فیلو جو ان کے گروپ میں شامل تھی ، اس نے یوٹیوب پر لیکچر سرچ کر کے انہیں دکھایا۔
یہ تو کسی انگریز کے لیکچر ہیں۔ نوشین نے یوزرنیم پڑھتے ہوئے کہا۔
کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم نے لیکچر ہی تو سمجھنا ہے۔ اب وہ ہمارے ملک کا ہو یا کسی اور ملک کا وہ لڑکی لیکچر کو ڈاؤنلوڈ کرتے ہوئے بولی۔
فرق پڑتا ہے ماہم، بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر ہمارے استاد اپنے لیکچر جو ہمیں سمجھاتے ہیں، انہیں یوٹیوب پر ڈال دیں تو ہم پاکستانیوں کو مشکل پیش نہ آئے ۔ ان باہر کے لوگوں کے لیکچر میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہمارے سبجیکٹ سے ریلیٹ ہی نہیں کرتا اور پھر جب وہی کچھ ہم امتحانات میں لکھتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدھے لوگ فیل ہو جاتے ہیں جبکہ لکھا انہوں نے وہی کچھ ہوتا ہے جو لیکچر یہاں سے لیتے ہیں مگر چیک کرنے والے نے وہی دیکھنا ہوتا ہے جو جوابات کی کی اسے دی جاتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کونسیپٹ صحیح ہونا چاہیے پھر جو مرضی لکھ دو۔ اصل میں ایسا نہیں ہوتا وہ سوال سے وہی ملتے جواب صحیح کرتے ہیں جو انہیں درست لگتے ہیں ۔ حرم نے سمجھاتے ہوئے کہا اور کتا بیں اور نوٹس بیگ میں رکھنے لگی جبکہ وہ دونوں اس کی بات پر صرف سر ہی ہلا سکیں۔
ان کا ایک سمیسٹر مکمل ہو چکا تھا۔ چند دن کی چھٹیوں کے بعد ان کے نئے سمیسٹر کا آغاز ہو چکا تھا اور ساتھ ہی گرمی بھی زوروں کی پڑ رہی تھی۔
آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہماری یونیورسٹی 14 اگست کے لیے تقریب رکھ رہی ہے جہاں مختلف ٹیبلوز ، شوز اور سپیچز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ آپ میں سے جو سٹوڈنٹس کسی چیز میں حصہ لینا چاہتا ہے اپنے نام سی آر کو لکھوا دیں۔“
یار حرم تم اپنا نام سپیچ کے لکھوا دو۔ ماہم نے حرم سے کہا۔
رہنے دویار، میں اتنے لوگوں کے سامنے کنفیوژن کا شکار ہو جاؤں گی ۔“‘ حرم نے صاف انکار کیا تھا۔
تم اتنا اچھا بولتی ہو، بس ذہن میں یہ رکھنا کہ تمہارے سامنے اندھے اور گونگے بیٹھے ہیں ۔ نوشین نے اس کا مسئلہ حل کرتے ہوئے کہا۔
استغفر اللہ، میں دیکھنے اور بولنے والوں کو کیسے اندھا اور گونگا سمجھ لوں ۔ حرم کو سوچ کر ہی جھر جھری آئی تھی۔
ابھی کون سا تقریب ہو رہی ہے۔ ابھی آدھا مہینہ پڑا ہے ایک دو دن میں سوچ لو اور نام لکھوا دو اپنا۔ ہمیں یقین ہے تم ہی جیتو گی ۔ ماہم نے اسے تسلی دی۔
ہمم ۔ خیر چلو کینٹین چلتے ہیں ابھی تو بہت بھوک لگی ہے ۔“‘ حرم نے اس بات سے جان چھڑانے کے لیے انہیں کینٹین کی طرف متوجہ کیا۔ اور وہ اپنا سامان سمیٹنے لگیں ۔
اہ کیا زمانہ آگیاہے، اللہ کشمیر پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین۔ احمد صاحب اخبار پڑھتے ہوئے بولے۔
کیا ہوا با با اب کشمیر میں؟“‘ حرم نے تجسس سے پوچھا۔
وہی جو ہر بار ہوتا ہے۔ یوم آزادی کے لیے پاکستانی پرچم لگانے پر پڑوسی ملک انتہا پسندی کر رہا ہے۔ بس اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے ۔ انہوں نے افسوس سے کہا۔
آمین۔ کیا ہمارے حکمران کچھ نہیں کر سکتے ان لوگوں کے لیے، کب تک یہ لوگ ظلم سہتے رہیں گے ۔ 75 سال سے یہ آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں پر ظلم ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا ۔“ اس کے اس سوال کا جواب احمد صاحب کے پاس بھی نہیں تھا سو وہ چپ رہے لیکن اس
نے سوچ لیا تھا اسے کیا کرنا ہے۔
تم نے بہت اچھا کیا جو اپنا نام سپیچ کے لیے لکھوا دیا۔ نوشین داد دینے والے لہجے میں بولی
ویسے تم کس ٹاپک پر سپیچ دوگی، کیا اس بارے میں سوچا ہے تم نے؟ ماہم جو ابھی وہاں آئی تھی سوالیہ انداز میں بولی ۔ ماہم سے بھی حرم اور نوشی کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
۔ہاں لیکن وہ ٹاپک تم لوگوں کو اسی دن بتاؤں گی۔
یار ہمیں تو بتا دو ہم کون سا کسی کو بتا رہے ہیں۔
وہ دونوں جاننا چاہتی تھیں کہ آخر ایک رات میں وہ کیسے سپیچ کے لیے تیار ہوگئی۔
ایسی بات نہیں ہے بس میں خود کو اس ٹاپک کو بیان کرنےکے لیئے تیار کر رہی ہوں
حرم آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جیسے اسمان میں کچھ تلاش کر رہی ہو"
وہ لاؤنج میں بیٹھی لیپ ٹوپ پر سپیچ لکھ رہی تھی۔ نادیہ بیگم ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھیں۔ وہ کچھ سرچ کرنے لگی جب اس کی نظر سرچ ٹرینڈ پر پڑی۔
اس نے کلک کر کے وہ سائٹ اوپن کی۔ وہ جیسے جیسے پڑھتی جا رہی تھی اس کا چہرہ غصے سے لال ہونے لگا تھا۔ اس نے ایک دم سے سکرین بند کی تھی۔ اب لاؤنج میں کوئی نہیں تھا۔
کھڑکی کے باہر آسمان ہلکا جامنی رنگ اختیار کر چکا تھا۔
مغرب کی اذان پر وہ نماز پڑھنے کمرے میں چلی گئی۔
یا اللہ ! بے شک تو اپنی کتاب کی خود حفاظت کرنے والا ہے۔ کافرا سے مٹانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں وہ کلام پاک کو کچھ نہیں کر سکتے ۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ان کے ملکوں میں دہشت گردی پھیلاتے ہیں اور خود یہ کیا کر رہے ہیں؟“ وہ اللہ سے سوال کر رہی تھی۔ اور بے شک اللہ بہتر سننے والا اور جاننے والا ہے۔
آج یونیورسٹی نہیں گئیں۔ سب خیریت ہے، طبیعت ٹھیک ہے؟“ نادیہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے رائٹنگ ٹیبل پر نوٹس رکھتے دیکھا تو بولیں۔
جی ماما طبیعت ٹھیک ہے۔ آج کل یونی میں یوم آزادی کی تقریب کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس لیے کچھ خاص پڑھائی نہیں ہو رہی۔ پہلے بھی کونسا اتنا پڑھاتے ہیں۔ جسے دیکھو کلاس بنک کر کے موبائل پکڑے ویڈیوز بنا رہا ہے ۔“ اس نے پہلی بات اپنی ماما کو بولی اور دوسری سوچ کر رہ گئی۔
تمہارے بابا پوچھ رہے تھے انہیں لگا شاید تم بیمار ہو اس لیے چھٹی کی ہے، کیونکہ تم بغیر وجہ کے چھٹیاں جو نہیں کرتیں۔ اب یہ کام بعد میں کرنا پہلے ناشتہ کر لو۔ وہ جو ٹیبل پر کاغذ پھیلائے کام کرنے لگی تھی نادیہ بیگم نے اسے ٹو کا تو وہ ہاتھ دھو نے باتھ روم میں چلی گئی جبکہ نادیہ بیگم ناشتہ تیار کرنے کچن کی جانب چلی گئیں۔
14 اگست کا دن آپہنچا تھا۔ یونی ورسٹی کو جھنڈیوں اور سفید اور سبز غباروں سے سجایا گیا۔تھا ایک بڑے گراؤنڈ میں ٹینٹ لگا کر اس میں سٹیج بنا کر اس کے بیک گراؤنڈ میں سکرین پر مختلف نغموں چل رہے تھے۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول ﷺ سے ہوا۔
السلام علیکم ! کیسے ہیں آپ لوگ ؟ یوم آزادی مبارک سب کو ۔ سب سے پہلے تو میں اپنی یونیورسٹی کی طرف سے خوش آمدید کہتا ہوں ۔ آج ہم اپنے ملک کی 76 ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ میں یونیورسٹی کے پرنسپل اور لاہور کے چیف منسٹر کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہاں آکر پرچم کشائی کریں۔“ ایک سٹوڈنٹ سٹیج کے بائیں جانب رکھے پور ڈیم پر رکھے مائک میں بولا تو سب نے بھر پور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔
پرچم کشائی کے بعد پرنسپل اور منسٹر نے قوم کو آزادی کی مبارک دی اور ملک کی خوشحالی کے لیے دعا کی۔ پھر نغموں پر رقص اور مختلف ٹیبلوز پیش کیے گئے۔ آخر میں تقاریر رکھی گئی تھیں۔ چند طلبہ کے بعد حرم کا نام پکارا گیا ۔
" چل حرم، اللہ کا نام لے اور جسے ماہم اور نوشی نے کہا تھا سب کو اندھا اور گونگا سمجھ لینا وہ دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ کہیں اس کی زبان میں بولتے وقت لڑکھڑاہٹ نہ آجائے۔
السلام علیکم ! جناب پرنسپل، چیف منسٹر، میرے عزیز طلبہ اور ہم وطنو! میری طرف سے آپ سب کو یوم آزادی مبارک ہو۔ اس کی نظر میں سامنے نوشین اور ماہم کی طرف تھیں۔
میری تقریر کا موضوع ہے ” ہم آزاد یا غلام؟ تقریر شروع کرنے سے پہلے میرا آپ سب سے ایک سوال ہے اور اس کا جواب میری تقریر کے بعد آپ خود کو دیں گے۔“ اس نے ایک نظر سب کو دیکھا۔
کیا ہم لوگ آزاد وطن میں رہ کر آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں؟“ اس کے سوال پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔
آپ سب کو یہ سوال عجیب لگ رہا ہوگا لیکن مجھے امید ہے کہ میری بات مکمل ہونے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے یہ سوال کیوں کیا ۔ وہ سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر بولی۔
پاکستان جس بنیاد پر قائم ہوا جو اس کو بنانے کا مقصد تھا وہ صرف الگ وطن لینا ہی نہیں تھا، بلکہ ہم آزادی اس لیے چاہتے تھے کیونکہ انگریزوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانا چاہتے تھے۔“ حرم سانس لینے کو رکی تو ہر طرف تالیوں کی آواز گونجی۔
جس ملک پاکستان کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا، جس کو بنانے کے لیے قائد اعظم ، سرسید احمد خان، لیاقت علی خان جیسی عظیم شخصیات نے کانگرس کے رہنماؤں اور گاندہی جیسے لوگوں کے خلاف تحریک چلا کر مسلمانوں کو آزاد وطن لے کر دیا۔ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟“ بولتے ہوئے اس کی آواز بھاری ہونے لگی تھی مگر اس نے اپنے اوپر کنٹرول کیا اور دوبارہ بولنے لگی۔
لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا، اپنے قائد کو زہر دے دیا۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ محمد علی جناح پاکستان کے لیے جدو جہد کرتے بیمار ہو گئے جو ان کی موت کا سبب بنی مگر ایسا نہیں تھا۔ ان کی موت کی وجہ وہ زہر بنا تھا جو انہیں زیارت ریزیڈینسی میں دیا گیا اور بروقت علاج نہ ملنے پر وہ وفات پاگئے۔ آپ کبھی تاریخ کی وہ کتابیں پڑھیں جو اس وقت کے مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں۔
سب کے چہروں پر حیرت کے آثار تھے۔
ہمارے الگ وطن کا مقصد یہ تھا کہ ہم آزادی کے ساتھ اپنی عبادات کر سکیں، اپنے اسلامی تہوار مناسکیں، اپنی قومی اور مادری زبان اردو کی تعلیم بغیر کسی رکاوٹ کے دے سکیں۔ مگر افسوس ہم اپنا مقصد بھول بیٹھے ہیں ۔“
ہم آج کیا کر رہے ہیں۔ اپنے دین کو بھلا کر غیر مسلموں کی طرح تہوار مناتے ہیں، اپنے لباس کو چھوڑ کر مغرب کے لباس کو ترجیح دے رہے ہیں، اپنی قومی زبان کو اپنے تعلیمی نظام میں عام کرنے کے بجائے انگریزی زبان کو اوپر لا رہے ہیں، اپنی کتابوں سے پاکستان کی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کو نکال کر انگریزوں کا نصاب شامل کر رہے ہیں۔ کیا اس لیے ہم نے آزادی لی تھی۔
ایک بار پھر تالیاں گونجیں تھیں۔
”ہم نے اپنی تقریبات میں گانے اور رقص عام کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائی سے زیادہ موبائلوں پر ویڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ سب کام تو بر صغیر میں رہ کر بھی کر سکتے تھے تو پھر آزادی کیوں لی؟ ہم نے آزادی اپنے دین کی حفاظت کے لیے لی تھی جو شاید اب ہم بھول چکے ہیں ۔“
ہم آج سوشل میڈیا پر بیٹھ کر کشمیر اور فلسطین کو آزاد کرانے کا بولتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم خود آزاد ہو کر بھی قید میں ہیں ۔ اور یہ قید اس قید سے بہت بڑی ہے جو مسلمانوں کو برصغیر میں دی جاتی تھی۔ ہم آزاد وطن میں رہ کر بھی آج انگریزوں کے غلام بنتے جارہے " ہیں ۔
ہم لوگ دن بدن انگریزوں کے قرض دار بنتے جارہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک دن ہم اپنا ملک کھو نہ دیں۔ دوسروں کو آزادی دلاتے دلاتے ہم خود غلام بن رہے ہیں۔ آزادی دلوائیں، ساتھ اپنے وطن کی بھی حفاظت کریں ۔ وہ ایک دم چپ ہوئی اور سامنے لوگوں کو ۔ دیکھا جو ہکا بکا اسے دیکھ رہے تھے۔
آج کل کے بچوں کو یہ تک نہیں پتا کہ ہم نے آزادی کیوں حاصل کی ۔ ہماری قومی زبان اردو کی کیا اہمیت ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کیونکہ ہم نے کتابوں میں اتنی انگریزی زبان اور ان کی کہانیوں کو شامل کر دیا ہے کہ ان سب میں ہمارا دین اور ملکی تاریخ کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ خدارا! اپنے نصاب میں دین اور اپنی تاریخ کو شامل کریں اور اسے نا پید ہونے سے بچالیں۔ شکریہ۔ وہ اپنی بات کہہ چکی تھی مگر سامنے بیٹھے لوگوں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔
تقریب میں موجود لوگوں نے بھر پور تالیوں سے اسے داد دی تھی۔
ایک دو اور تقاریر کے بعد چیف منسٹر کو انعامات دینے کے لیے بلایا گیا تو وہ سب اسٹوڈنٹس اور خاص کر حرم کو داد دیے بنانہ رہ سکے۔
جیسا کہ آپ سب نے پاکستان کی تاریخ کو آج اجا گر کیا اور خاص طور پر جو ہماری طالبہ نے بولا مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آج بھی ہمارے پاس وہ سرمایہ موجود ہے جو اس ملک کی تاریخ کو بچائے ہوئے ہے۔ اللہ ہمارے ملک کا حامی وناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد تقریب ختم ہوگئی تھی مگر بہت سی باتیں لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوگئی تھیں۔
ختم شد