چھوٹی مالکن، بڑی قیمت – دوسری اور آخری قسط
اسکرپٹ رائٹر
فرزانہ خان
وہ تو بڑا سخت مزاج آدمی تھا لیکن کون جانتا تھا کہ آگے مجھ پر مزید قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ خیر، اب وہ خود کمانے لگا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم بس گھر میں آرام کرو، کبھی جب تمہارا دل کرے، چھوٹی مالکن سے جا کر مل آیا کرو۔ ویسے بھی جب میں چھوٹی مالکن کے پاس گئی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ماں بننے والی ہیں۔
یوں ہم دونوں تقریباً ایک ہی عرصے میں ماں بننے والے تھے اور شاید یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ہمارے بچوں کی پیدائش کا وقت بھی ایک ہی ہو۔ ہماری شادیاں بھی ایک ہی عرصے میں ہوئی تھیں اور اب امید سے بھی ہم ایک ہی عرصے میں ہو گئے تھے۔ ہم دونوں بہت خوش تھے۔
چھوٹی مالکن نے جب میری خوشخبری سنی تو بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی:
"خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اولاد کی نعمت سے نواز دیا ہے۔ اولاد کی نعمت کی وجہ سے دیکھو کہ تمہارا شوہر اب کتنا تمہارے ساتھ اچھا ہو گیا ہے۔ تم دعا کرو کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا ہی رہے۔ اگر بیٹا ہوا تو وہ مزید تمہارے ساتھ اچھا ہو جائے گا، اور اگر بیٹی ہوئی تو بھی کوئی بات نہیں، کیونکہ وہ صرف اولاد چاہتا ہے۔"
چھوٹی مالکن کی باتیں سن کر میں بھی خوش ہو گئی اور خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی جینے لگی۔ آہستہ آہستہ دن گزرتے گئے اور میرے بچے کی پیدائش قریب آنے لگی۔ جوں جوں وقت قریب آ رہا تھا، میرا شوہر جو جو پیسے جوڑتا، ان سے ننھے بچے کے لیے نئے کپڑے اور جوتے وغیرہ لے آتا۔ وہ بہت خوش تھا اور میں بھی اپنی زندگی میں آنے والی اس بہار سے بے حد خوش تھی۔ زندگی حسین دوراہے پر آ چکی تھی۔
ہفتے میں دو دن حویلی جاتی، کچھ نہ کچھ کام کرتی، باقی وقت اپنی نئی نویلی دوست، چھوٹی مالکن کے ساتھ گزارتی۔ ساری حویلی میں ہماری باتوں کے چرچے گونجتے اور ہر کوئی اس رونق سے لطف اندوز ہوتا رہتا۔
نو ماہ کب گزر گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ پھر ایک دن، جب میں نویں مہینے میں تھی، میری حالت اچانک خراب ہو گئی۔ میرا شوہر اس وقت دوسرے گاؤں گیا ہوا تھا، لیکن بارش کی وجہ سے وہ واپس نہ آ سکا۔ جانے سے پہلے اس نے کہا تھا:
"اگر مجھے آنے میں دیر ہو جائے تو تم حویلی چلی جانا، وہاں تم محفوظ رہو گی اور تمہارا دل بھی چھوٹی مالکن کے ساتھ لگا رہے گا۔"
میں نے اس کی بات مانی اور شام ہوتے ہی حویلی چلی گئی۔ رات گئے اچانک درد شروع ہو گیا۔ پتا چلا کہ اسی وقت چھوٹی مالکن کو بھی تکلیف ہونے لگی تھی۔ بڑی مالکن نے فوراً ہمیں ہسپتال پہنچایا۔
اس کے بعد مجھے کچھ خبر نہ رہی، کیونکہ میں بے ہوش ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔
جب ہوش آیا تو میں ہسپتال کے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ میرے سرہانے ایک نرس کھڑی ڈرِپ لگا رہی تھی، لیکن حیرت اس بات کی تھی کہ کمرے میں بچے کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور گھبرا کر کہا:
"میرا بچہ کہاں ہے؟"
میں نے پاگلوں کی طرح کمرے میں نظر دوڑائی تو نرس میرے قریب آ کر میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی:
"تم آرام کرو، تمہیں ابھی آرام کی ضرورت ہے۔"
لیکن میرا دل بے چین تھا۔ میں نے کہا:
"مجھے میرا بچہ چاہیے، مجھے دکھاؤ، وہ کہاں ہے؟"
نرس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے کہا:
"دیکھو، جو بات میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں، اسے تحمل سے سننا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ تمہارے لیے بہت مشکل بات ہے، لیکن حقیقت کو قبول کرنا ضروری ہے۔ تم نے نو ماہ جس بچے کو اپنے پیٹ میں رکھا، وہ جب دنیا میں آیا تو زندہ نہیں رہا۔ ہم نے تمہیں بچانے کے لیے بہت کوشش کی، لیکن بچے کو نہیں بچا سکے۔ اگر ہم تمہارا بچہ بچاتے تو تمہیں کھو بیٹھتے۔ ڈاکٹر نے صحیح فیصلہ کیا، اور تمہاری جان بچ گئی۔ تمہیں صبر کرنا ہوگا۔ بچے اور بھی ہو سکتے ہیں..."
یہ سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ میری آنکھوں سے بےتحاشہ آنسو بہنے لگے۔ میں بے قابو ہو کر رو پڑی اور بار بار کہنے لگی:
"یہ جھوٹ ہے... یہ جھوٹ ہے، نا؟"
نرس نے آہستہ سے کہا:
"نہیں، یہ جھوٹ نہیں ہے، یہی سچ ہے، اور اس سچ کو تمہیں قبول کرنا ہوگا۔"
نرس کی بات سن کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کافی دیر تک نرس نے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن میرے دل کا بوجھ کم نہ ہوا۔ پھر وہ خاموشی سے کمرے سے باہر چلی گئی۔
کچھ لمحوں بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا...
اپنے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اپنا چہرہ اس میں چھپا رکھا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے میں مصروف تھی۔ کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے قریب آیا، مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کون تھا۔ کچھ دیر بعد خاموش رہنے کے بعد وہ انسان بول پڑا۔ جب اس نے بولا تو مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرے کانوں میں شیشہ ڈال دیا ہو۔ یہ آواز کس کی تھی، میں خوب جانتی تھی، کیونکہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ میرا اپنا شوہر تھا۔
اس نے مجھ سے کہا:
"میں ایک دن کے لیے باہر گیا تھا، تم نے تو اپنا خیال ہی نہ رکھا، ہمارے بچے کا! تم جانتی ہو میں تم سے پیار کیوں کرنے لگا تھا؟ کیونکہ تمہارے پیٹ میں میرا بچہ تھا۔ مجھے تم سے امید ہو چلی تھی کہ تم مجھے بچہ دینے والی ہو، اور تم نے تو میری امید پر ہی پانی پھیر دیا۔ دیکھو اب جب ہمارا بیٹا اس دنیا میں آئے بغیر واپس چلا گیا ہے تو پھر اب تمہیں بھی میری زندگی میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے ماں باپ بھی اس دنیا سے جا چکے ہیں اور تمہارے ماں باپ بھی نہیں رہے۔ اب تمہیں میری زندگی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اب میں شادی کروں گا جس سے میری مرضی ہوگی، تم تو میرے سر پر ویسے ہی مسلط کی گئی تھی۔ جاؤ، اب دفع ہو جاؤ یہاں سے، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں!"
اور پھر طلاق دے کر وہ وہاں سے ایسا گیا کہ کبھی واپس ہی نہ آیا، اور میں چاہ کر بھی اُسے نہ روک سکی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں جاؤں اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لوں اور اس سے کہوں کہ "خدا کے لیے کچھ عرصہ مجھے دے دو، خدا کے لیے! اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ تو سب خدا کی دین ہے!" لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور وہاں سے چلا گیا۔ میں وہیں پر دھاڑیں مار مار کر روتی رہ گئی۔
اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کہاں جاؤں؟ جہاں علاج پر پیسے لگے تھے، اُن کا کیا کرنا تھا؟ میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ میرے ماں باپ بھی اس دنیا سے جا چکے تھے، اب میں کیا کروں اور کہاں جاؤں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ شادی کو ایک سال ہوا تھا اور ایک سال کے بعد شوہر ایک دم سے چھوڑ کر چلا گیا، طلاق کا داغ بھی میرے دامن پر لگ چکا تھا۔ اب تو میں کہیں جانے کے قابل ہی نہ رہی تھی۔
اب یہی سوچ رہی تھی کہ ایک بار پھر سے دروازہ کھلا۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو کمرے میں کوئی اور نہیں بلکہ بڑی مالکن داخل ہو رہی تھیں۔ میری طرف دیکھا اور کہا:
"کیا ہوا پروین؟ تم ٹھیک تو ہو؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے سنا ہے کہ ابھی تمہارا شوہر آیا تھا..."
وہ یہی بات کہہ رہی تھیں کہ پیچھے سے نرس نے کہا:
"جو کچھ بھی ان دونوں کے درمیان ہوا، وہ سن چکی ہوں۔ میں آپ کو بتاتی ہوں، یہ بتانے کے قابل نہیں ہے۔ اصل میں ان کے شوہر نے انہیں اس بات پر طلاق دے دی ہے کہ ان کا بچہ آخر کار زندہ پیدا کیوں نہ ہوا۔ وہ صرف بچے کی وجہ سے اس کے ساتھ تھے، اور جیسے ہی بچے کے نہ ہونے کی خبر ملی، اس نے فوراً انہیں چھوڑ دیا۔ بیچاری کیا کرے، اس کا تو آگے پیچھے ہے ہی کوئی نہیں!"
بڑی مالکن نے یہ بات سنی تو خاموشی سے کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہیں اور پھر آگے بڑھ کر انہوں نے مجھے خود سے لگا لیا اور کہنے لگیں:
"تم فکر نہ کرو، تمہاری ماں نے میرے پاس کام کیا ہے اور تمہاری ماں بالکل میری بہن جیسی تھی، تو تم بالکل میری بیٹی کی طرح ہو۔ تم فکر نہ کرو، تم میرے پاس رہو گی اور تمہارے اس ہسپتال کا سارا خرچہ میں ادا کروں گی۔"
بڑی مالکن کی یہ بات سن کر میری آنکھوں میں مزید آنسو آ گئے اور میں تشکر بھری نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔ اس کے بعد جیسے ہی میں کچھ سنبھلی تو میں نے چھوٹی مالکن کا پوچھا، تو وہ مسکرا کر بتانے لگیں:
"شکر الحمدللہ وہ بھی ٹھیک ہے اور اس کی بچی پیدا ہوئی ہے، بہت پیاری ہے، بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔"
میں اس بات پر بے حد خوش ہوئی۔ جیسے ہی میری حالت کچھ بہتر ہوئی، میں چھوٹی مالکن کے کمرے کی طرف گئی۔ اسی روز مجھے اور چھوٹی مالکن دونوں کو ہی ڈسچارج کر دیا گیا اور پھر میں دونوں کے ساتھ ہی ان کے گھر پر آ گئی۔ عدت کا تمام عرصہ میں نے حویلی میں ہی گزارا۔ مجھے یہاں پر علیحدہ کوارٹر دیا گیا اور اس دن سے میں نے اپنی ساری زندگی کو چودھریوں کے نام کر دیا۔
چودھریوں کی اتنی اچھائیاں میرے سر پر تھیں کہ میں جا کر بھی ان کے احسانات نہیں بھول سکتی تھی۔ میں ان کے احسان تلے دبی ہوئی تھی، تو میں نے اپنی ساری زندگی بس بڑی مالکن کو یہ کہا کہ:
"میں اب ساری زندگی آپ کی خدمت گزار رہنا چاہتی ہوں۔"
انہوں نے بھی خوشی خوشی مجھے تسلیم کر لیا۔ لیکن وہ چاہتی تھیں کہ میں ایک بار پھر شادی کروں، لیکن ایک بار کا تجربہ میرے لیے کافی تھا۔ میں نے انہیں کہا:
"میں بس اب آپ لوگوں کے پاس ہی ٹھیک ہوں۔"
میں ان کی خدمت کرنے لگی اور ان کی چھوٹی بچی کی بھی خدمت کرنے لگی۔ چھوٹی بیٹی ہادیہ مجھے بھی بہت عزیز تھی۔ اگر میرا بچہ بھی پیدا ہوتا اور زندہ سلامت ہوتا تو آج ہادیہ بی بی کی طرح ہی ہوتا، میں اکثر سوچتی اور پھر اپنے بچے کا سارا پیار اس پر نچھاور کر دیتی۔ زندگی گزرنے لگی اور یوں زندگی کے پورے 10 سال گزر گئے اور مجھے اس گھر میں کام کرتے کرتے تقریباً 20 سال گزر گئے۔
لیکن اب اچانک ہی کچھ عجیب سا ہونے لگا، اور اس عجیب شے میں کچھ اور نہیں بلکہ آدھی رات کے وقت کوئی میرے کمرے میں آتا، میرے پاؤں پر ہاتھ پھیرتا اور میرے پاؤں کو چوم کر رونے لگتا۔ لیکن جب میری آنکھ کھلتی تو کوئی موجود نہ ہوتا۔ تین دن مسلسل ایسا ہونے لگا اور آخرکار تیسرے روز میں نے سونے کا ناٹک کیا اور جیسے ہی کوئی میرے کمرے میں آیا اور میرے پاؤں پر ہاتھ رکھا، میں نے فوراً لائٹ آن کر دی اور جو دیکھا تو سامنے ہادیہ معصوم سی بچی جو کہ 10 سال کی تھی، بیٹھی رو رہی تھی۔
میں نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی:
"آپ کوئی اور نہیں بلکہ میری ماں ہیں، میری حقیقی ماں صرف آپ ہیں۔ آپ کو پتہ ہے جب میں پیدا ہوئی تھی تب میری دادی نے مجھے اور آپ کے مردہ بچے کو بدل دیا تھا، اور اس کے بدلے میں یہ سزا آپ کو مل گئی۔ آپ کو بابا چھوڑ کر چلے گئے، لیکن آپ جانتی ہیں کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا؟ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میری امی احساسِ کمتری کا شکار ہوں۔ اس لیے انہوں نے آپ کے بچے سے میرا بچہ بدل دیا اور پھر میں یہاں پر رہنے لگی۔ لیکن اب مجھے اس بات کا پتہ چلا ہے اور اس بات کا پتہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری امی کو بھی ہو چکا ہے۔ ہم دونوں بہت شرمندہ ہیں۔ دادی نے نہ جانے کیوں اتنی سفاکی دکھائی تھی اور آپ کی ساری زندگی خراب ہو گئی۔ مجھے نہیں علم تھا کہ میری پیدائش آپ کے لیے اتنا بڑا طوفان لے کر آئے گی۔ مجھے معاف کر دیجیے گا، امی جان، مجھے معاف کر دیجیے گا۔ امی اور میں ہم دونوں ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں، آپ ہمیں معاف کر دیں۔"
یہ کہتے ہوئے وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اتنے سال پہلے جو بچی میری پیدا ہوئی تھی، جسے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے پالا، وہ میری اپنی ہی تھی، میرا اپنا خون! مجھے اس بات کا دکھ ہمیشہ رہے گا کہ بڑی مالکن نے آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا، لیکن وقت گزر چکا تھا، اب جو کچھ ہونا تھا، ہو چکا تھا۔
میں نے اسے روتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا اور پھر وہ وہیں میرے پاس ہی سو گئی۔ اسے اپنے پاس سُلانے میں اتنا سکون مل رہا تھا کہ بیان نہیں کر سکتی۔ صبح جب میں نے حویلی کا رُخ کیا تو چھوٹی مالکن ہادیہ کو ڈھونڈتی ہوئی ادھر سے اُدھر پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھیں۔ میں نے انہیں کہا:
"آپ فکر نہ کریں، وہ میرے پاس ہے، وہ میرے کمرے میں سو رہی ہے۔"
میں نے انہیں ساری حقیقت بتا دی کہ تین دن سے وہ روزانہ رات کو میرے کمرے میں آ رہی تھی، میرے پیر چومتی اور روتی رہتی تھی، لیکن اب مجھے سب کچھ پتہ چل گیا ہے۔ چھوٹی مالکن کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا:
"تم فکر نہ کرو، میں نے چودھری صاحب کو سمجھا دیا ہے اور انہیں بھی اس بات کی سمجھ آ گئی ہے۔ کیونکہ ہادیہ کے باپ اور میری کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ میں دوبارہ ماں نہیں بن پاؤں گی۔ اللہ نے ہمیں یہ بچی عطا کر دی ہے، تو پھر ایسا کرو کہ تم اسی حویلی میں رہو، اب سے تم اس گھر کی نوکرانی نہیں بلکہ ہادیہ کی ماں کی حیثیت سے یہاں رہو گی۔"
میں نے رشک بھری نظر سے ان کی طرف دیکھا۔ میرا صبر مکمل ہو چکا تھا اور میں نے جو قربانی دی تھی وہ رائیگاں نہیں گئی تھی۔ بے شک خدا وہاں سے آزماتا ہے جہاں سے ہمیں امید بھی نہیں ہوتی، اور پھر آزمانے کے بعد ہمیں ایسا صلہ دیتا ہے کہ ہم سمجھ ہی نہیں پاتے۔ ایسے ہی
کچھ میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے بندے کے ساتھ رہنے والا ہے۔