موچی اور قاضی
اُس نے سوچا ، شہر کے قاضی سے زیادہ ایمان دار کون ہو سکتا ہے۔ بس اُس نے روپوں کی تھیلی اٹھائی اور قاضی کے دروازے پر جا دستک دی ۔ قاضی نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا :
قاضی صاحب ، چند برس پہلے میں استنبول میں روزی کمانے کی غرض سے آیا تھا۔ دن رات محنت کر کے میں نے کچھ رقم جمع کی ہے۔ ایک سال اور محنت کروں گا ۔ پھر اس قابل ہوں گا کہ گاؤں جاسکوں۔ جناب ، آپ سے میری اتنی سی درخواست ہے کہ
میری رقم اپنے پاس ! امانت رکھ لیں " قاضی نے کہا " مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم نے مجھے بھروسے کے لائق سمجھا ۔ اپنی پونجی میرے پاس چھوڑ جاؤ ۔ گاؤں جاتے وقت لے لینا " موچی کے ۔ سر سے منوں بوجھ اُتر گیا۔ اس نے تھیلی قاضی کو دی اور شکریہ ادا کر کے واپس آگیا۔ استنبول میں دو اور دیہاتی بھی رہتے تھے جو موچی ہی کے گاؤں سے یہاں محنت مزدوری کرنے
آئے تھے ۔ اُنھوں نے ایک دن موچی سے کہا کہ چلو ، اب گاؤں چلیں اور گھر والوں کی خیر خبر لیں۔ اب ہمارے پاس کافی پیسے جمع ہو گئے ہیں ۔ موچی کو بھی گھر کی یاد ستا رہی تھی ۔ اس نے سوچا، پانچ سو روپے اچھی خاصی رقم ہے ۔ اب گھر چلنا چاہیئے۔ دوستوں کے ساتھ راستہ اچھا کٹ جائے گا ۔
وہ قاضی کے پاس گیا اور درخواست کی کہ اُس کے پانچ سو روپے ، جو وہ وہ اُن کے پاس امانت رکھ گیا تھا ، واپس کر دیں ۔ کر دیں ۔ وہ اب اپنے گاؤں جا رہا ہے ۔
بے ایمان جھوٹا " موچی بے چارہ مجبور تھا ۔ بھلا قاضی کے خلاف اُس کی فریاد کون سنتا ۔ اُس نے یہ سوچ کر کہ برائی کا بدلہ خدا خود دے گا ، اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا اور پھر پہلے کی طرح پائی پائی جمع کرنے لگا۔
ایک دن وہ دُکان میں بیٹھا آہیں بھر رہا تھا کہ ایک سوداگر کی بیوی جوتا خرید نے آئی ۔ وہ رحم دل خاتون تھی ۔ اُس نے موچی کو اداس دیکھا تو نرمی سے پوچھا " کیا بات ہے؟ اتنی ٹھنڈی آہیں کیوں بھرتے ہو ؟"
موچی پہلے تو کچھ نہ بولا ، لیکن جب خاتون نے اصرار کیا تو ساری کہانی اُسے کہہ سُنائی۔ خاتون نےکچھ دیر سوچا۔ پھر بولی :
کل صبح ثم قاضی کے گھر جانا اور اپنے روپے مانگنا ۔ لیکن اس طرح مانگنا جیسے پہلی بار مانگنے آئے ہو ۔ یہ کہہ کر خاتون گھر آئی ، اپنے قیمتی زیورات جمع کیے اور پھر نوکرانی کو بُلا کر کہا :
کل میں قاضی صاحب کے ہاں جا رہی ہوں ۔ تم میرے ساتھ چلو گی اور ہاں ، دھیان سے سنو، جب میں قاضی کے گھر میں میں داخل ہو جاؤں تو تم باہر کھڑی رہنا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آئے گا اور گھر کے اندر چلا جائے گا ۔ جوں ہی وہ گھر سے باہر نکلے، تم بھاگتی ہوئی آنا اور کہنا کہ بیگم صاحبہ آپ کے شوہر مصر سے واپس آگئے ہیں اور آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔
اگلی صبح سوداگر کی بیوی زیورات کا تھیلا لے کر قاضی کے گھر پہنچی ۔ قاضی نے پوچھا : " بیگم صاحبہ ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟ میں آپ سے ایک معاملے میں مدد کی امید لے کر حاضر ہوئی ہوں " خاتون نے کہا ۔
" جو کچھ میرے بس میں ہوگا ، کرنے کی کوشش کروں گا۔ قاضی نے جواب دیا۔
بات یہ ہے قاضی صاحب کہ میرے شوہر تجارت کے لیے مصر گئے ہیں ۔ وہ وہاں کافی دن رہیں گے۔ اُنھوں نے مجھے مصر بلایا ہے ہے ۔ لیکن مجھے ایک چیز کی فکر ہے ۔ دیکھیے نا ، میں ان زیورات کا کیا کروں ؟
یہ کہہ کر سوداگر کی بیوی نے تھیلا کھولا اور سارے زیور قاضی کے سامنے میز پر اُلٹ دیئے۔
پھر بولی :
جس وقت قاضی آنکھیں پھاڑے زیورات کو دیکھ رہا تھا ، عین اُسی وقت موچی کمرے میں داخل ہوا اور ادب سے جھک کر قاضی کو سلام کیا۔ قاضی نے بڑے اخلاق سے کہا کیوں میرے دوست ، میں تمھاری کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟
" قاضی صاحب ، میں کل اپنے گاؤں جا رہا ہوں ، موچی نے کہا " اور اپنے پانچ سو روپے جناب سے واپس لینے آیا ہوں ، جو آپ نے اپنے پاس رکھ کر مجھ غریب پر احسان کیا تھا ۔
"کتنی عجیب بات ہے ! ایک عام آدمی بھی مجھ پر بھروسا کرتا ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ ایک معمولی موچی کسی رسید کے بغیر اپنی عمر بھر کی کمائی میرے پاس رکھ جاتا ہے ، کیوں کہ اسے یقین تھا کہ اس کا روپیہ مانگنے پر فورا مل جائے گا ...
ابھی قاضی کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ نوکرانی باہر سے دوڑتی ہوئی آئی اور بولی " مالکن ! مالکن ! مالک مصر سے واپس آ گئے ہیں اور آپ کا انتظار کر رہے ہیں "
خاتون نے کہا "ہائے کتنی خوشی کی بات ہے" یہ کہہ کر بےاُس نے میز پر سے زیور سمیٹے اور قاضی کو سلام کر کے چلی گئی ۔
ایک لمحے تک تو قاضی چکر ایا رہا کہ یہ ہوا کیا ؟ کچھ دیر بعد اُسے احساس ہوا کہ ٹھگ کو ٹھگ لیا گیا ہے ۔ اس خیال کے آتے ہی اُسے اتنا غصہ آیا کہ وہ اپنی داڑھی کے بال نوچنے لگا ۔