ایك تاریخی واقعہ — خاندان اور خون کی پہچان
سلطان محمود غزنوی کا شاندار دربار لگا ہوا تھا۔ ہر طرف شان و شوکت، سونے اور چاندی کی کرسیوں کی چمک، اور بادشاہ کے اردگرد کھڑے پہرے داروں کی ہیبت طاری تھی۔ دربار میں نہ صرف وزراء، امرا اور درباری موجود تھے بلکہ دور دور سے آئے ہوئے اولیاء، قطب اور ابدال بھی موجود تھے۔
محفل اپنے عروج پر تھی کہ اچانک سلطان محمود نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
"کیا اس محفل میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکے؟"
یہ جملہ سن کر دربار میں سناٹا چھا گیا۔ سب ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے، مگر کوئی جواب نہ دے سکا۔ لمحے خاموشی میں ڈھل گئے۔
اسی دوران، دربار کے ایک کونے میں بیٹھا ایک غریب دیہاتی آہستہ آہستہ اٹھا۔ اس کے کپڑے پرانے اور دھول میں اٹے ہوئے تھے، مگر چہرے پر ایک عجیب سی سادگی تھی۔ اس نے جھک کر سلام کیا اور بولا:
"جہان پناہ! اگر آپ حکم دیں تو میں آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہوں۔"
سلطان محمود نے حیرانی سے پوچھا:
"واقعی؟ اور اس کے لیے تمہیں کیا چاہیے؟"
دیہاتی نے ادب سے عرض کیا:
"حضور! اس کے لیے مجھے چھ ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہوگا۔ لیکن میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے گھر کے اخراجات اٹھانا میرے بس میں نہیں۔ اس لیے آپ کو میرے گھر کا خرچ برداشت کرنا ہوگا۔"
سلطان نے فوراً اس شرط کو منظور کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مقصد نیک ہو تو اخراجات کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یوں دیہاتی کو دریا کے کنارے چلہ کاٹنے بھیج دیا گیا، اور اس کے گھر کا خرچ شاہی خزانے سے ادا ہونے لگا۔
چھ ماہ گزر گئے۔ دیہاتی واپس دربار میں پیش ہوا۔ سلطان نے شوق سے پوچھا:
"تو، کیا ہوا؟ زیارت کا شرف حاصل ہوا؟"
دیہاتی نے نظریں جھکا لیں اور کہا:
"حضور، کچھ وظائف الٹ گئے ہیں۔ مجھے چھ ماہ مزید درکار ہیں۔"
سلطان نے یہ بات بھی مان لی۔
مزید چھ ماہ گزرنے کے بعد جب وہ پھر حاضر ہوا، تو سلطان محمود نے بڑے تجسس سے پوچھا:
"اب تو زیارت کرا دو۔"
اس بار دیہاتی کی آنکھوں میں شرمندگی کے آثار تھے۔ وہ بولا:
"جہان پناہ! میں گنہگار انسان اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام... حقیقت یہ ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ میرے گھر کے حالات بہتر ہو جائیں۔ میرے بچے بھوک سے مر رہے تھے، اس لیے مجبور ہو کر یہ بات کہی۔"
یہ سن کر دربار میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ سلطان نے اپنے ایک وزیر سے کہا:
"اس شخص کی سزا کیا ہونی چاہیے؟"
وزیر نے سخت لہجے میں کہا:
"سرکار! اس نے بادشاہ سے جھوٹ بولا، اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔"
دربار میں بیٹھے ایک نورانی چہرے والے بزرگ فوراً بول اٹھے:
"بادشاہ سلامت! یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔"
سلطان نے دوسرے وزیر کو بلایا:
"تم کیا کہتے ہو؟"
اس نے کہا:
"جہان پناہ! اس شخص نے آپ سے فراڈ کیا ہے۔ اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈال دیا جائے تاکہ یہ ذلت سے مرے۔"
وہی بزرگ پھر بولے:
"بادشاہ سلامت! یہ وزیر بھی درست کہہ رہا ہے۔"
آخرکار سلطان نے اپنے محبوب غلام ایاز کو بلا کر پوچھا:
"ایاز! تمہاری رائے کیا ہے؟"
ایاز نے ادب سے کہا:
"جہان پناہ! آپ کی بادشاہت کے سائے میں ایک سال تک ایک غریب کے بچے پلتے رہے۔ آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا۔ اگر آپ میری بات مانیں تو اسے معاف کر دیں۔ اگر آپ نے اسے قتل کیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔"
یہ سن کر وہی نورانی چہرے والے بزرگ مسکرا کر بولے:
"بادشاہ سلامت! ایاز نے بالکل درست کہا۔"
سلطان نے حیرت سے پوچھا:
"آپ نے ہر وزیر کی رائے کو درست کہا، اس کی کیا وجہ ہے؟"
بزرگ نے کہا:
"جہان پناہ! پہلا وزیر ایک قصائی کے گھرانے سے ہے، اس کا کام ہی گلا کاٹنا ہے، اس نے اپنی فطرت کے مطابق کہا۔ دوسرا وزیر ایسے گھرانے سے ہے جہاں کتوں کی پرورش اور شکار کا کام کیا جاتا تھا، اس نے بھی اپنی اصل پہچان دکھائی۔ اور ایاز، یہ ایک سیّد زادہ ہے۔ سیّد کی شان یہ ہے کہ وہ اپنا سارا خاندان قربان کر دے مگر بدلے کا سوچے بھی نہیں۔"
سلطان محمود یہ سن کر کھڑے ہو گئے اور ایاز سے کہا:
"ایاز! تم نے آج تک یہ کیوں نہ بتایا کہ تم سیّد ہو؟"
ایاز نے عاجزی سے کہا:
"جہان پناہ! آج تک کسی کو یہ علم نہ تھا۔ لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھول دیا۔ اب میں بھی ایک راز کھولتا ہوں: یہ بابا کوئی عام شخص نہیں، یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔"
یہ سنتے ہی دربار میں سکوت طاری ہو گیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل پر یہ بات نق
ش ہو گئی کہ انسان کا اصل تعارف اس کا خاندان اور خون کی پہچان سے ہوتا ہے۔