ایک رات کے مسافر
رائٹر: فرزانہ خان
یہ ایک سرد دسمبر کی رات تھی۔ کراچی کے مضافات میں ہلکی ہلکی دھند چھا چکی تھی، اور گھڑی کی سوئیاں رات 11 بجا رہی تھیں۔ شہر کی روشنیوں سے نکل کر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ عمیر، ایک 38 سالہ درمیانے قد کا شخص، جس کی آنکھوں میں تجربے کی جھلک تھی، اپنی پرانی جیپ کا اسٹیئرنگ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔ وہ ایک ایڈونچر پسند مگر ذمہ دار شوہر اور باپ تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھی رخسانہ، 34 سالہ باوقار اور حساس خاتون، بار بار مڑ کر پیچھے بیٹھی اپنی 8 سالہ بیٹی "آسما" کو دیکھ رہی تھی، جو گاڑی کی ہلکی ہلکی تھرتھراہٹ میں نیند کے مزے لے رہی تھی۔
ان کا سفر کراچی سے حیدرآباد کی طرف تھا، جہاں ایک عزیز کی شادی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ سالوں پرانی جیپ جو کبھی ان کی محبت کی نشانی سمجھی جاتی تھی، آج ایک بار پھر سڑکوں پر دوڑائی جائے۔ یہی جیپ تھی جس میں عمیر اور رخسانہ نے شادی سے پہلے ناران کاغان کے سفر کیے تھے۔
سفر معمول کے مطابق جاری تھا، مگر جب وہ کراچی ٹول پلازہ عبور کر کے تقریباً دس کلومیٹر دور نکلے، تب اچانک رخسانہ نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھ کر چونک کر کہا:
"عمیر، دیکھو... وہاں ایک لڑکی کھڑی ہے۔"
سڑک کے کنارے، ایک دھندلے دھند میں لپٹی ہوئی لڑکی کھڑی تھی۔ وہ سفید لباس میں ملبوس، سر پر روایتی دوپٹہ لیے، ہاتھ سے اشارہ کر رہی تھی، جیسے لفٹ مانگ رہی ہو۔
عمیر نے پہلے تو نظرانداز کیا، مگر رخسانہ کی التجا پر جیپ ایک جھٹکے سے روکی۔ لڑکی آہستہ آہستہ قریب آئی۔ اس کی عمر بظاہر 22-23 سال کے قریب تھی۔ گہری بڑی آنکھیں، چہرہ زرد، مگر پرکشش، جیسے کسی کلاسیکل اردو ناول کی ہیروئن ہو۔ اس کی مسکراہٹ میں عجیب سی پراسراریت تھی۔ جیسے جانتی ہو کہ ہم اسے لے جائیں گے۔
"بھائی، مجھے حیدرآباد جانا ہے۔ گاڑی خراب ہو گئی ہے، موبائل بند ہے۔"
اس کی آواز نرم، مگر اندر سے خالی لگ رہی تھی۔
رخسانہ نے جھجکتے ہوئے کہا، "بیٹھ جائیں۔"
"میرا نام فاطمہ ہے،" وہ آہستہ سے بولی۔
عمیر نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی، اور وہ پیچھے آسما کے برابر میں بیٹھ گئی۔
چند منٹ کے اندر فاطمہ نے ایسی باتیں شروع کیں جو عام مسافر نہیں کرتا۔
"آپ کو پتہ ہے، اس سڑک پر کئی حادثے ہوئے ہیں… خاص کر رات میں۔ کچھ لوگ یہاں سے گزرے تو صبح تک ان کا پتہ نہ چلا… کچھ کی لاشیں بھی نہیں ملیں۔"
رخسانہ نے بےچینی سے اپنی بیٹی کو تھام لیا۔
عمیر نے ہنستے ہوئے کہا، "تم تو جیسے فلمی ڈائیلاگ بول رہی ہو۔"
مگر فاطمہ کی مسکراہٹ ویسی ہی رہی۔ وہ کچھ اور بولی:
"کبھی کبھی ہم جو نظر انداز کرتے ہیں، وہ ہمیں دیکھتے رہتے ہیں… ہر قدم پر۔"
جیپ میں خاموشی چھا گئی۔ سڑک پر دور دور تک کوئی گاڑی نہ تھی۔ صرف ہیڈلائٹس کی روشنی میں دھند اور کچھ درختوں کے سائے دکھائی دے رہے تھے۔
تقریباً بیس منٹ بعد، اچانک جیپ کے انجن نے ہچکولے لینے شروع کر دیے۔
"کیا ہو رہا ہے؟" رخسانہ گھبرا گئی۔
"پتہ نہیں… انجن صحیح تھا۔" عمیر نے دوبارہ اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، مگر جیپ رک گئی۔
پھر فاطمہ بولی:
"یہ جگہ… یہی جگہ… یہ بہت خطرناک ہے۔ یہاں وہ اکثر آتی ہیں۔"
عمیر کا دل جیسے بیٹھ گیا۔ رخسانہ چیخ پڑی، "یہ کیا بکواس ہے؟ کون آتی ہے؟"
عمیر نے فوراً پیچھے دیکھا… اور ساکت رہ گیا۔
فاطمہ کی سیٹ خالی تھی۔
نہ دروازہ کھلا تھا، نہ کوئی آواز آئی تھی۔ وہ یکدم غائب ہو چکی تھی۔
اسی لمحے، آسما کی آنکھ کھلی۔ اس نے چیخنا شروع کر دیا:
"امی… وہ آنٹی کہاں گئی؟ وہ مجھے کچھ کہہ رہی تھی!"
رخسانہ نے اسے گود میں لیا، خود رو رہی تھی۔
عمیر نے کپکپاتے ہاتھوں سے جیپ اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، اور خدا جانے کیسے جیپ چل پڑی۔
راستے بھر کوئی بات نہ ہوئی۔ رخسانہ کی ہچکیوں، آسما کے خوف زدہ چہرے اور عمیر کی خاموشی میں فقط جیپ کی گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔
حیدرآباد پہنچ کر وہ شادی کی تقریب میں شریک ہوئے، مگر ان کا رنگ فق، باتیں کم اور دل بھاری تھے۔ ایک بزرگ جن کا نام سید اشفاق صاحب تھا، جنہیں علاقے کے لوگ "پیر اشفاق" کہتے تھے، ان سے عمیر نے مکمل واقعہ بیان کیا۔
اشفاق صاحب نے گہری سانس لے کر کہا:
"بیٹا، وہ لڑکی کوئی اور نہیں… فاطمہ بی بی ہی تھی۔"
عمیر چونک گیا، "مگر وہ زندہ تھی…"
اشفاق صاحب بولے:
"یہ سڑک پہلے جنگل ہوا کرتی تھی۔ 15 سال پہلے ایک لڑکی، فاطمہ، جو کالج جا رہی تھی، ایکسیڈنٹ میں اسی مقام پر ہلاک ہوئی۔ تب سے اُس کی روح بھٹکتی ہے۔ کبھی کبھی وہ لفٹ مانگتی ہے۔ مگر کوئی اُسے منزل تک نہیں لے جا پاتا۔ کیونکہ وہ خود منزل کی تلاش میں ہے… جو کبھی ملی نہیں۔"
رخسانہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
عمیر نے سر پکڑ لیا۔
اور آسما نے آہستہ سے کہا:
"وہ آنٹی مجھے کہہ رہی تھی… ‘تمہاری ماں میری جیسی لگتی ہے۔’"
واپسی کا سفر انہوں نے دن میں کیا، مگر وہ مقام جب آیا، عمیر نے جیپ روکی… اور دیکھا کہ سڑک بالکل ویران ہے، مگر جھاڑیوں میں ایک سفید دوپٹہ پھنسا ہوا ہے… وہی جو فاطمہ نے اوڑھا تھا۔
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
یا وہ واقعی فاطمہ بی بی تھی…؟
آج تک یہ سوال عمیر کے دل میں گونجتا ہے:
"کیا وہ واقعی وہی روح تھی؟"
2025 کا آغاز سردی کے شدید جھونکوں کے ساتھ ہوا۔ کراچی میں غیر معمولی دھند تھی، جیسے فضا میں کوئی راز چھپا بیٹھا ہو۔
عمیر اب 42 سال کے ہو چکے تھے۔ رخسانہ کے چہرے پر وقت کی تھکن کے ساتھ ایک خاموش خوف اب بھی قائم تھا، جو 4 سال پہلے کے واقعے کے بعد اُن کے دل و دماغ میں جما بیٹھا تھا۔
آسما اب 12 سال کی ہو چکی تھی، ہوشیار اور تھوڑی سنجیدہ بچی، جو اکثر خواب میں فاطمہ کا نام لے کر چونک جاتی تھی۔
اُسی سال ایک دعوت نامہ آیا — حیدرآباد میں ایک کزن کی منگنی تھی، اور عمیر نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار رات کا سفر نہیں کریں گے۔
مگر قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں…
دعوت کے دن صبح اچانک آسما کی طبیعت بگڑ گئی — اُسے اُلٹیاں، سردی اور بے ہوشی کے دورے ہونے لگے۔ شہر کے اسپتال بھرے ہوئے تھے۔ رخسانہ نے حیدرآباد کے مشہور حکیم حکیم عزیز قادری کا ذکر کیا جو صرف رات کے وقت مریض دیکھتے تھے۔
حکیم صاحب کا کلینک اسی روٹ پر واقع تھا…
عمیر کے دل میں ہلکی سی کپکپی دوڑ گئی۔
"کیا پھر اسی سڑک سے جانا پڑے گا؟"
رخسانہ خاموش رہی، صرف ایک فقرہ کہا:
"بیٹی کی جان، عمیر…"
رات 10:35PM
عمیر، رخسانہ اور بےہوش آسما کو ساتھ لے کر نکلا۔ سڑک پر دوبارہ وہی دھند، وہی سناٹا، وہی سایہ دار درخت تھے۔
جیپ اب نئی ہو چکی تھی، مگر دل پر خوف وہی پرانا۔
جب وہ اسی مقام کے قریب پہنچے جہاں فاطمہ چار سال پہلے غائب ہوئی تھی، جیپ نے ایک جھٹکا کھایا…
انجن بند نہیں ہوا، مگر ہیڈلائٹس خود بخود مدھم ہو گئیں۔
اور تب… سڑک کے کنارے وہی سفید جوڑا…
وہی دوپٹہ… وہی چہرہ… وہی فاطمہ۔
فاطمہ اس بار کچھ بدلی ہوئی تھی۔ چہرہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ، آواز پہلے سے زیادہ مدھم اور آنکھیں جیسے... شکوہ کرتی ہوں۔
"آپ کو یاد ہے نا…؟"
عمیر کا سانس اٹک گیا۔ رخسانہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔
"مجھے آج مکمل سفر کرنا ہے… حیدرآباد تک…"
فاطمہ نے کہا۔
"اس بار روکنا مت…"
عمیر نے رخسانہ کی طرف دیکھا، پھر آسما کی طرف… جو بے ہوش تھی۔
وہ فاطمہ کو چپ چاپ بیٹھا دیتا ہے۔
سفر کے دوران فاطمہ بولتی رہی:
"کبھی کبھی روحیں بھی بے قصور ہوتی ہیں۔ مجھے صرف سکون چاہیے… بس ایک آخری بار… مجھے وہاں پہنچا دو جہاں میری موت ہوئی تھی…"
عمیر نے چونک کر پوچھا:
"تم تو کہہ رہی تھیں تمہیں حیدرآباد جانا ہے؟"
فاطمہ نے سر ہلایا:
"میرا اصل گھر وہ نہیں… میری قبر سڑک کے کنارے ہے… تم بس مجھے وہیں اتار دینا…"
رخسانہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آسما اچانک آنکھ کھول کر بولی:
"امی… وہ آنٹی کہہ رہی ہیں کہ اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گی…"
عمیر اور رخسانہ چونک گئے۔
سڑک کے کنارے ایک پرانی مسجد کے سامنے، کچھ فاصلے پر ایک کچی قبر تھی۔
فاطمہ نے کہا:
"یہی میری جگہ ہے… اب آگے تم لوگ جا سکتے ہو۔"
وہ دروازہ کھولتی ہے… مگر باہر نکلتے ہی دھند میں تحلیل ہو جاتی ہے…
کوئی آواز، کوئی قدم، کوئی سانس نہیں… بس خالی دھند اور وہی پرانا دوپٹہ ۔۔۔۔
جب وہ حیدرآباد پہنچے، حکیم عزیز قادری نے جیسے اُنہیں پہچان لیا۔
"کیا وہ لڑکی آج ملی؟"
عمیر ششدر: "آپ کو کیسے پتہ؟"
حکیم صاحب نے مسکرا کر کہا:
"فاطمہ کبھی کبھی کچھ خاص لوگوں کو نظر آتی ہے… جن میں درد، خوف اور ہمدردی ہو… اب وہ آزاد ہو گئی ہے۔"
آسما کی طبیعت بہتر ہو گئی۔
رخسانہ نے عمیر کا ہاتھ تھاما،
"کیا اب ہم کبھی اس سڑک سے نہیں گزریں گے؟"
عمیر نے آہستہ سے کہا:
"اب گزر سکتے ہیں… کیونکہ فاطمہ اب وہاں نہیں…"
مگر رات کو آسما نے خواب میں کہا:
"امی… وہ آنٹی کہہ رہی تھیں، اگر کوئی اور میری جیسی بھٹکی ہوئی روح ملی… تو کیا تم اُس کے لیے بھی گاڑی روکو گے؟"
یہ کہانی صرف ڈراؤنی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہے۔ ایک ماں کی بے چینی، ایک باپ کی بے بسی، اور ایک ننھی بچی کا معصوم خوف… سب کچھ اس واقعے کو حقیقت کا سا رنگ دیتے ہیں۔ یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کچھ روحیں بس ایک ادھوری خواہش لے کر بھٹکتی ہیں… اور ہم انہیں سمجھ نہیں پاتے۔
⚠️ کاپی رائٹ نوٹس:
یہ کہانی مکمل طور پر ہمارے رائٹر کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کی کسی بھی قسم کی کاپی، ری اپلوڈ یا دوبارہ استعمال بغیر اجازت کے سختی سے منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگر آپ اس کہانی کو اپنے یوٹیوب چینل یا کسی اور پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی ہم سے فیس بک پر رابطہ کریں اور مناسب قیمت ادا کر کے باقاعدہ اجازت حاصل کریں
اردو کہانیاں, خوفناک کہانیاں, Horror Stories in Urdu, Ek Raat Ke Musafir, Hamzad Stories, Jinn Stories, Scary Road Stories, Urdu True Stories, Haunted Places in Pakistan, Urban Legends in Urdu, Ghost Stories, Karim Voice, Nest of Novels, خوف, پراسرار کہانیاں, جنات کی کہانی, روح کی کہانی