لوٹا گھوم گیا — قسط نمبر 2
Ahmad yar Khan
میں نے ابھی تک آپ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ آدمی کون تھا۔ اسی قصبے میں ایک سرکاری ہسپتال تھا اور یہ آدمی اس ہسپتال میں ڈسپینسر تھا۔ اس لیے اس نے گھر میں بھی اپنا دوا خانہ کھول رکھا تھا، جہاں وہ معمولی امراض اور زخموں پر پٹی وغیرہ کا علاج کیا کرتا تھا۔
اس کا بڑا بیٹا بھی کسی سرکاری دفتر میں کلرک تھا۔ اس آدمی کی دو جوان بیٹیاں تھیں جو اَن پڑھ تھیں۔ گھر میں پردہ بڑے سختی سے کروایا جاتا تھا۔
گھر میں داخل ہوئے تو پہلے ڈیوڑھی آئی، اس کے آگے صحن آ گیا۔ دائیں طرف برآمدہ تھا، برآمدے کے پیچھے ایک بڑا کمرہ تھا اور ایک چھوٹا کمرہ۔ وہ مجھے چھوٹے کمرے میں لے گیا۔ ٹرنک اسی چھوٹے کمرے میں رکھے ہوئے تھے۔
مکان میں اور بھی کمرے تھے لیکن ان کمروں کا میری تفتیش کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، اس لیے میں اور کسی کمرے میں نہ گیا۔
کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آئے۔ صحن میں سیڑھیاں تھیں۔ میں اوپر گیا۔ اس مکان کی چھت دائیں، بائیں اور عقب کے مکانوں سے ملی ہوئی تھی۔ اوپر سے چور آ سکتا تھا، لیکن کمروں میں نہیں جا سکتا تھا، کیونکہ اکتوبر نومبر کا مہینہ تھا، گھر والے صحن اور برآمدے میں سوتے تھے۔
اس کے علاوہ چور کے لیے یہ مشکل بھی تھی کہ سیڑھیاں بند اور نیچے دروازہ لگا ہوا تھا، جو اکثر بند رہتا تھا۔ اگر کسی کو اوپر جانا ہوتا تو کھولا جاتا تھا۔
میرے جائزے نے مجھے یقین دلا دیا کہ چور باہر سے نہیں آیا۔ باہر سے کوئی بہت ہی تجربہ کار چور آ سکتا تھا۔ آنے والا اگر تجربہ کار ہوتا تو سارے زیورات لے جاتا اور ٹرنک کے اوپر کے سوٹ کیس وغیرہ نیچے ہی پڑے رہنے دیتا۔
ایسی کوئی واردات جس میں چور اسی جگہ ہاتھ ڈالتا ہے جہاں مال ہوتا ہے، ایسی واردات میں ہمیشہ کسی گھر بھیدی کا وجود لازمی ہوتا ہے۔
گھر بھیدی عموماً گھر کے نوکر ہوتے ہیں، لیکن اس گھر میں نوکر یا نوکرانی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میں جب مکان کے جائزے سے فارغ ہو کر بیٹھا تو ڈسپینسر کے دونوں بیٹے بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے ان کے چہروں کو غور سے دیکھا۔ میں ان چہروں پر آوارگی اور نا خلف بیٹوں کے تاثرات تلاش کر رہا تھا جو مجھے نظر نہ آئے۔
میں نے بڑے بیٹے سے بات کی لیکن جواب باپ نے دیا۔ میں نے دانستہ بڑے بیٹے سے ایک اور سوال کیا، اس کا جواب بھی باپ نے دیا۔ میں نے باپ سے کہا آپ جواب اسی کو دینے دیں۔ باپ کی موجودگی میں بیٹوں کا بولنا مناسب نہیں تھا۔ اس نے حاکمانہ لہجے میں کہا: "چلو دونوں بھاگو یہاں سے"۔ وہ دونوں جانے لگے تو میں نے دونوں کے چہروں کو دیکھا۔ چھوٹا تو مایوس نظر آتا تھا، بڑے کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔
میں جان گیا کہ یہ آدمی فرعون قسم کا باپ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ جوان بیٹوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا کرے۔
وہ بولا: "اگر اولاد کو پاؤں کے نیچے نہ رکھو تو اولاد خراب ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کبھی اپنے سامنے بولنے نہیں دیا"۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ انہیں مارتے پیٹتے بھی ہیں؟"
اس نے کہا: "کیوں نہیں، میں تو اب بھی بڑے بیٹے کی ٹھوکائی کر دیا کرتا ہوں"۔ اس موضوع کو میں نے وہیں پر بند کر دیا، البتہ میرے دل میں ایک شک پیدا ہو گیا جسے میں نے اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔
پیشتر اس کے کہ میں اس عورت کو تفتیش میں شامل کرتا جس کے نام کی پرچی پر لوٹا گھوم گیا تھا، میں سوچنے لگا کہ وہ کس طرح اس گھر میں آئی ہوگی اور کس طرح ٹرنکوں والے کمرے میں گئی ہوگی؟ اسے اتنا وقت کس طرح ملا ہوگا کہ اس نے زیور والے ٹرنک کے اوپر سے سوٹ کیس اتارے، پھر ایک وزنی ٹرنک اتارا، اور اس کے نیچے والے ٹرنک کا تالہ کھولا اور اس ٹرنک سے صرف ہار اور نقدی نکالی، پھر اس ٹرنک کو بند کیا، اس کو تالہ لگایا، پھر دوبارہ وزنی ٹرنک اس کے اوپر رکھا اور پھر سوٹ کیس رکھے، اور کسی کی نظر میں آئے بغیر ہار اور نقدی لے کر نکل گئی اور کسی کو پتہ نہیں چلا۔
یہ سب باتیں جب میں نے ڈسپینسر سے پوچھیں تو اس نے کہا: "یہ سب معلوم کرنا تو آپ کا کام ہے کہ اس نے چوری کس طرح کی ہے۔ میں آپ کو سولہ آنے یقین کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ چوری اسی عورت نے کی ہے کیونکہ میں جھوٹ بول سکتا ہوں، آپ جھوٹ بول سکتے ہیں لیکن مولوی صاحب کا لوٹا جھوٹ نہیں بول سکتا"۔
مولوی صاحب نے قرآن کا کلام پڑھ کر لوٹا گھمایا تھا۔ "آپ بھی مسلمان ہیں، آپ بھی کلامِ پاک کو برحق مانتے ہوں گے؟"
میں نے کہا: "میں قرآن کو برحق مانتا ہوں، اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وہ عورت کسی انسان کی اولاد نہیں ہے، وہ کوئی چڑیل یا جن ہوگی یا پھر کوئی بدروح ہوگی۔ آپ اپنے مولوی صاحب سے پوچھ لیں، اگر وہ عامل ہیں تو انہیں اس عورت کی اصلیت کا بھی علم ضرور ہوگا کیونکہ کوئی انسان اس طرح چوری نہیں کر سکتا"۔
حیرت اور دہشت سے اس کا منہ کھل گیا اور وہ احمقوں کی طرح مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اس سے کہا: "جب تک مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں ملے گا میں اس عورت کو گرفتار تو دور کی بات ہے، اسے تفتیش میں بھی شامل نہیں کروں گا۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے یا آپ کے گھر والوں نے جن افراد پر شک ظاہر کیا تھا، کیا ان میں یہ عورت شامل تھی؟"
وہ بولا: "نہیں"۔
میں نے کہا: "کیوں نہیں؟" تو وہ خاموش رہا۔
میں نے کہا: "میں بتاتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ آپ کے پاس اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اور نہ اسے اس گھر میں اتنی بے تکلفی اور آزادی حاصل تھی کہ وہ کھلے عام اس گھر میں پھرتی رہتی اور نظر بچا کر آپ کے زیورات اٹھا لے جاتی"۔
اس نے کہا: "ہمیں تو مولوی صاحب نے کہا تھا کہ اس عورت کو بھی بلاو، کیونکہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ انہیں غیب سے کوئی اشارہ ملا تھا کہ یہ عورت چور ہو سکتی ہے، اور پھر لوٹا بھی اسی کے نام پر گھوم گیا، تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا"۔
میں غیب کے اشاروں کا قائل نہیں ہوں۔ اگر اس مولوی کو واقعی غیب سے اشارے ملتے تھے تو یہ مولوی میرے کام کا آدمی تھا۔ مجھے مجرموں کا سراغ لگاتے ہوئے جس اذیت سے گزرنا پڑتا تھا، یہ مولوی غیب کے اشاروں سے مجھے تفتیش کے جھنجھٹ سے بچا سکتا تھا۔
میں نے ڈسپینسر سے کہا وہ اپنے بیٹے کو بھیج کر اس مولوی کو یہاں بلائے۔ وہ ایک لڑکے کو بھیج کر میرے پاس آیا تو میں نے اس سے کہا اس گھر کی عورتوں سے بھی تھوڑی پوچھ تاچھ کرنا چاہتا ہوں۔
تو وہ بولا: "لیکن وہ تو پردے میں ہیں، آپ نے جو کچھ بھی پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لیں"۔
میں نے کہا: "آپ تو سارا دن گھر سے باہر رہتے ہیں، آپ کی بیوی اور بیٹیاں بہتر طریقے سے بتا سکتی ہیں کہ وہ عورت کس انداز سے گھر میں آئی تھی۔ مجھے اور بھی بہت کچھ پوچھنا ہے"۔
اس نے کہا: "آپ مسلمان ہیں، آپ کو پتہ ہوگا کہ جوان لڑکیوں کا کسی نامحرم کے سامنے آنا ٹھیک نہیں ہے"۔
میں نے کہا: "میں مسلمان ہوں، کوئی بردہ فروش نہیں ہوں۔ آپ تو مجھے اپنے بیٹوں کے ساتھ بھی بات نہیں کرنے دیتے اور اب بیٹیوں کو بھی سامنے نہیں لا رہے تو میں تفتیش کیسے کروں گا؟ پھر آپ ایسا کریں، اپنی رپورٹ واپس لے لیں اور میں تفتیش کو یہیں روک دیتا ہوں"۔
اس نے کہا: "میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کو چھپا تو نہیں رہا بلکہ پردے کی پابندی کروا رہا ہوں"۔
وہ ان مسلمانوں میں سے تھا جن میں مذہب کی اندھی عقیدت ہوتی ہے، اپنی عقل سے ذرا بھر کام نہیں لیتے، اور مذہب کے پردے میں مذہب کے منافی حرکات بھی کر گزرتے ہیں۔ ان کی نیت میں کوئی خرابی نہیں ہوتی لیکن اندھی عقیدت ان سے سب کچھ کروا لیتی ہے۔
میں نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنا ہار اور نقدی واپس لینا چاہتا ہے تو اسے میرے کہنے پر عمل کرنا ہوگا، مگر وہ پتھر طبیعت کا آدمی
معلوم ہوتا تھا۔ اسی اثنا میں مولوی صاحب بھی آ گئے۔
مولوی صاحب آئے تو میں نے ڈسپنسر کو کمرے سے نکال دیا اور مولوی کو سامنے بٹھا کر غور سے دیکھا۔ میں نے اس مولوی سے زیادہ تندرست آدمی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی عمر پینتیس سال کے لگ بھگ تھی، چہرہ جوانی کے جوش سے دمک رہا تھا، جسم بھرا بھرا اور داڑھی چھوٹی چھوٹی تھی۔ میں نے بڑے احترام سے کہا:
"مولانا صاحب! میں مسلمان ہوں اور دل و جان سے آپ کی قدر کرتا ہوں، لیکن میری ڈیوٹی ایسی ہے کہ کبھی مجھے ناخوشگوار باتیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ میں آپ سے پیشگی معافی مانگ لیتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی پوچھوں، وہ سوچ سمجھ کر اور بالکل سچ بتائیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ آپ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آپ کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں، اس لیے جو بھی بتائیں، سچ بتائیں۔"
اس نے آنکھیں بند کر کے مخمور لہجے میں کہا:
"پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ تم دنیا کے قانون کی بات کرتے ہو، ہم تو خدا کے قانون کے غلام ہیں۔"
میں نے کہا:
"سنا ہے کہ آپ کے لوٹے نے چور پکڑا ہے۔"
اس نے اسی خمار کے لہجے میں کہا:
"ایک چور کیا، ہمارے لوٹے نے تو کئی چور پکڑے ہیں۔ خدا کے کلام میں بڑی طاقت ہے۔ اب جو چور پکڑا گیا ہے، وہ ایک عورت ہے۔ ہمارا لوٹا کبھی غلط نشاندہی نہیں کرتا۔"
میں نے کہا:
"آپ مجھے یہ بتائیں، کیا وہ عورت انسان ہی ہے؟"
مولوی نے طنزیہ لہجے میں کہا:
"تم اسے گدھی سمجھتے ہو؟"
میں نے غلاموں کے لہجے میں کہا:
"نہیں حضور، گدھی تو نہیں سمجھتا، مجھے تو یہ عورت کوئی جن یا بدروح معلوم ہوتی ہے یا پھر اس عورت پر کسی جن یا بدروح کا قبضہ ہے۔ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں، غیب سے آپ کو اشارے مل جاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورت عورت ہی ہے یا کوئی اور مخلوق ہے۔"
مولوی نے مجھ سے پوچھا:
"تمہیں یہ شک کیوں ہوا؟"
میں نے کہا:
"حضور! مجھے شک اس لیے ہے کہ یہ عورت ذات ہے، کوئی پیشہ ور اور استاد چور بھی اس طرح چوری نہیں کر سکتا جس طریقے سے اس عورت نے چوری کی ہے۔ وہ گھر میں اس طرح آئی کہ کسی کو نظر نہیں آئی اور اس نے زیورات والے ٹرنک کا تالہ کھولا، ہار اور نقدی لے گئی۔ اسے شاید صرف ہار پسند تھا، باقی زیور کی طرف اس نے دیکھا بھی نہیں۔ مجھے تو یہ عورت کسی کی بدروح معلوم ہوتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ کبھی کبھار کوئی چڑیل یا بدروح یا جن کسی آدمی پر عاشق ہو جاتا ہے اور عورت کے روپ میں آ کر اس آدمی سے شادی کر لیتا ہے۔ مجھے تو یہ عورت ایسی ہی کوئی مخلوق معلوم ہوتی ہے۔"
مولوی نے کہا:
"تم اسے بلا کر گرفتاری کی دھمکی دو، پھر میں اسے اپنے گھر بلا کر دیکھوں گا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔"
میں نے جاہل مریدوں کی طرح پوچھا:
"مولانا عالی مقام! اس گھر کے افراد کو اس عورت پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ آپ اپنا لوٹا لے کر آئے اور گھر والوں سے کہا کہ اس عورت کو بھی بلایا جائے۔ اگر حضور انور کے مزاجِ مقدس پر گراں نہ گزرے تو اس ناچیز بندے کو بتا سکتے ہیں کہ جناب کو اس عورت پر شک کیوں ہوا تھا؟"
وہ خواب ناک لہجے میں بولا:
"اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ ہمیں اس گناہ گار عورت پر کس طرح اور کیوں شک ہوا تھا، تو ہم میں اور تم جیسے عام بندوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔ غیب کے اشارے ہر کسی کو نہیں ملا کرتے، یہ اللہ کی طرف سے خاص عطا ہوتی ہے۔"
میں نے کہا:
"حضور والا! معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کے پاس بھی کوئی عطا ضرور ہے۔ اسے بھی شاید غیب سے کوئی اشارہ ملا ہو گا کہ چوری فلاں طریقے سے کرو تو کسی کو نظر نہیں آؤ گی۔"
مولوی فوراً بھڑک کر بولا:
"یہ تو گناہ گار عورت ہے، گناہ گاروں کو اشارے نہیں ملا کرتے۔"
میں نے کہا:
"عالی جاہ! اگر اس عورت کو کوئی اشارہ نہیں ملا، تو پھر چوری بھی اس عورت نے نہیں کی۔"
مولوی نے اپنی آواز میں رعب پیدا کرتے ہوئے کہا:
"تو کیا تمہارا مطلب ہے کہ ہمارا لوٹا جھوٹ بول رہا ہے؟ تم خدا کے کاموں میں دخل نہ ہی دو تو اچھا ہے۔"
میں نے کہا:
"قابلِ صد احترام مولانا صاحب! آپ کا لوٹا جھوٹ نہیں بول رہا، آپ خود جھوٹ بول رہے ہیں۔"
اس نے ایسے آنکھیں کھول دیں جیسے کسی نے اسے نیچے سے سوئی چبھو دی ہو۔ اس کے گندمی گالوں پر سرخی آ گئی۔ میں نے آگے جھک کر دھیمی آواز میں کہا:
"ہوش میں آؤ مولوی صاحب! میں مسلمان ہوں، آپ کا احترام کر رہا ہوں، مجھے گستاخی کا موقع نہ دو۔ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ عورت مشتبہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ لوٹے کے عمل کے لیے صرف انہیں بلایا جاتا ہے جن پر شک ہو۔ شک کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ آپ سارے محلے کو تو لوٹے کے گرد جمع نہیں کر سکتے۔ اس عورت پر گھر والوں نے نہیں بلکہ آپ نے شک ظاہر کیا تھا۔ آپ کے شک کرنے کی وجہ کیا تھی؟"
اس نے کہا:
"مجھ پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے، اس کیفیت میں مجھے کچھ راز کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔"
میں نے کہا:
"اس وقت میرے پاس چوری چکاری کے چار پانچ کیس ہیں، ملزموں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ آپ جیسی بھی خدمت کہیں گے میں کروں گا، آپ صرف ملزموں کی نشاندہی کر دیں۔ آپ کو غیب سے اشارے ملتے ہیں اور آپ پر کیفیت بھی طاری ہوتی ہے۔"
اب وہ خمار والی کیفیت سے بیدار ہو چکا تھا، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ ایک لڑکا لوٹے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر رکھتا ہے، بعض عامل لوٹے کو خود بھی تھام لیتے ہیں۔ اس مولوی نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس نے بارہ تیرہ سال کی عمر کے ایک لڑکے کو لوٹے پر ہاتھ رکھنے اور پرچی ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ میں نے باہر سے ڈسپنسر کو آواز دے کر بلایا اور کہا وہ اس لڑکے کو بلا لائے جس نے
لوٹا تھام رکھا تھا۔ ڈسپنسر لڑکے کو بلانے کے لیے چلا گیا۔