اندھیری رات، انجان راستے
رائٹر: فرزانہ خان
دیوار پر لگی گھڑی زور زور سے ٹک ٹک کر رہی تھی، جیسے انجلی شرما کو ہر گزرتا لمحہ یاد دلا رہی ہو۔ دہلی کے کرول باغ میں اس کا چھوٹا مگر صاف ستھرا فلیٹ ہلکی ہلکی اگربتی کی خوشبو اور فلٹر کافی کی مہک سے بھرا ہوا تھا۔ صبح کی دھوپ ہلکے پردوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی اور دیوار کے چھلتے ہوئے پینٹ پر نرم نرم سائے ڈال رہی تھی۔
انجلی، بتیس سالہ اسکول ٹیچر، ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی پانچویں کلاس کے بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی۔ اس کی زندگی ایک جیسے دنوں میں لپٹی ہوئی تھی — اسکول جانا، واپس آنا، کبھی کبھار ہمسائیوں کے ساتھ چائے پینا اور ہر ہفتے میرٹھ میں رہنے والی اپنی ماں سے فون پر بات کرنا۔ پانچ سال پہلے وکرَم سے شادی ہوئی تھی، جو ایک بینک میں پرسکون نوکری کرنے والا خاموش سا آدمی تھا۔ انجلی کی زندگی بالکل ایک گرم شال کی طرح سکون میں لپٹی ہوئی تھی، جیسے سرد دہلی کی شاموں میں تن کو ڈھانپ لینے والی گرمی۔
اس روز بھی وکرم بینک میں تھا، اور انجلی گھر میں اکیلی۔ اس کی نظر شیلف پر رکھے شادی کے البم پر جا کر رک گئی — ایک جوان، خوش چہرہ انجلی، سرخ لہنگے میں، اور ساتھ میں شرمیلی مسکراہٹ والا وکرم۔ انجلی نے دل میں سوچا، "شادی شدہ زندگی تو مطمئن ہونے کے لیے ہوتی ہے... پھر یہ خلا سا کیوں محسوس ہوتا ہے؟"
اسی لمحے اس کا فون بجا، ایک انجانا نمبر اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ انجلی نے لمحہ بھر کو ہچکچاتے ہوئے کال اٹھا لی۔
“ہیلو؟”
دوسری طرف خاموشی تھی۔ صرف ہلکی سی سانس لینے کی آواز۔
“کون ہے؟” انجلی نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔
کال اچانک کاٹ دی گئی۔
انجلی نے ماتھے پر بل ڈالے، مگر پھر کندھے اچکا کر واپس کاپیوں پر نظریں جما لیں۔ لیکن دل کے کسی کونے میں ہلکی سی سنسناہٹ اتر گئی تھی۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ نیچے سڑک ہمیشہ کی طرح بھاگ دوڑ میں مصروف تھی — رکشے، ریڑھیاں، آوازیں... مگر پھر بھی اسے لگا جیسے کچھ غلط ہے۔ سڑک کے اس پار ایک شخص کھڑا تھا، سر پر سرمئی رنگ کی ہیڈڈ جیکٹ، چہرہ دھندلا سا، نظریں سیدھی اس کی کھڑکی کی طرف۔
اس نے پلک جھپکی۔ آدمی غائب ہو چکا تھا۔
ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں — اینکر کسی تازہ قتل کے بارے میں چیخ چیخ کر بتا رہا تھا، "پٹیل نگر میں ایک اور قتل، عورت اپنے ہی فلیٹ میں مردہ پائی گئی، زبردستی داخلے کے کوئی نشان نہیں۔"
انجلی نے جھنجھلا کر ٹی وی بند کر دیا، دل کی دھڑکن بےترتیب سی ہو گئی۔ “دماغ کی الٹی سیدھی سوچیں ہیں، کچھ نہیں,” اس نے خود کو سمجھایا، مگر اندر کا اضطراب دبنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
اس شام وکرم گھر آیا تو عام دنوں کے برعکس کافی بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ چہرہ پیلا، ٹائی ڈھیلی، اور ہاتھ کانپ رہے تھے جیسے سردی لگ رہی ہو۔
“کیا ہوا وکرم؟ سب ٹھیک ہے نا؟” انجلی نے کھانے کی پلیٹ سامنے رکھتے ہوئے پوچھا۔
وکرم نے نظریں نہیں ملائیں۔ “ہاں... بس تھوڑا سا مسئلہ ہے آفس میں، کچھ نہیں، تم فکر مت کرو۔”
انجلی نے فوراً محسوس کر لیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وکرم کی خاموشیاں ہمیشہ شور مچاتی تھیں۔
“سچ بتاؤ وکرم، بات کیا ہے؟” اس نے نرم مگر اصرار والے لہجے میں کہا۔
وکرم نے گہری سانس لی، کنپٹی دبائی اور ہلکی آواز میں بولا، “انجلی، کہا نا کچھ نہیں... بس ایک کسٹمر کا مسئلہ ہے، بینک کا معاملہ ہے، کچھ خاص نہیں۔”
انجلی نے مزید کچھ نہ کہا، مگر کمرے کی فضا میں ایک عجیب سی گھٹن پھیل گئی تھی۔
اس رات جب وہ دونوں سو رہے تھے، اچانک انجلی چونک کر جاگ اٹھی۔ ہلکی سی چرچراہٹ — جیسے دروازہ آہستہ سے کھلا ہو۔ بیڈ روم کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔
“وکرم؟” اس نے آہستہ سے سرگوشی کی اور وکرم کو ہلایا۔ وکرم ہلکا سا کروٹ بدل کر پھر گہری نیند میں چلا گیا۔
انجلی نے ننگے پاؤں آہستہ آہستہ کمرے سے باہر قدم رکھا۔ ہال میں پہنچ کر اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ بالکونی کا دروازہ کھلا ہوا تھا، پردہ ہوا میں ہل رہا تھا جیسے کسی نے ابھی ابھی ہاتھ لگایا ہو۔
ٹیبل پر ایک چیز چمک رہی تھی — ایک چھوٹی سی چاندی کی چابی، جسے انجلی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اگلی صبح وکرم گھر سے نکل چکا تھا جب انجلی جاگی۔ کوئی نوٹ، کوئی میسج، کچھ نہیں۔ اس نے فون کیا، مگر فون سیدھا وائس میل پر جا رہا تھا۔ دوپہر تک انجلی کے اندر گھبراہٹ اترنے لگی۔
اس نے وکرم کے بینک میں کال کی۔ وہاں سے جواب آیا، “وکرم سر؟ نہیں، آج تو وہ آفس آئے ہی نہیں۔ لیو لے لیا ہے۔”
انجلی کا دماغ سن ہو گیا۔ وکرم کہاں گیا؟ اور یہ چابی... یہ کس کی ہے؟
انجلی نے پولیس کو فون کرنے کا سوچا، مگر پھر رک گئی۔ دل کہہ رہا تھا کہ یہ چابی کسی راز کی کنجی ہے۔ اس نے چابی پرس میں رکھی اور سیدھی کنّاٹ پلیس میں وکرم کے بینک پہنچی۔
دہلی کی بھیڑ بھاڑ آج عجیب لگ رہی تھی — ہر ہارن، ہر اجنبی نظر جیسے اس کے تعاقب میں تھی۔
بینک میں مینیجر، مسٹر گپتا، نے عجیب طرح سے بات کی۔
“وکرم؟ ہاں، وہ پچھلے کچھ دنوں سے کافی پریشان تھا۔ ایک لون کیس میں مسئلہ تھا... بس۔”
“کون سا لون کیس؟” انجلی نے فوراً پوچھا۔
گپتا نے نظریں بچائیں، پھر دھیمی آواز میں کہا،
“ایک بڑا کلائنٹ تھا... نام نہیں بتا سکتا، حساس معاملہ تھا۔ وکرم ہینڈل کر رہا تھا، لیکن کچھ غلط لگ رہا تھا۔”
انجلی کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا وکرم کسی بڑی مشکل میں پھنس چکا تھا؟
وہ بینک سے نکلی اور سیدھی گھر پہنچی۔ شام ہوتے ہی اس نے گھر کا کونا کونا کھنگال ڈالا، ہر دراز، ہر فائل۔ آخرکار وکرم کی میز کے اندر پرانے بلوں کے نیچے ایک کاغذ ملا — ایک مڑا ہوا نوٹ، وکرم کی ہینڈ رائٹنگ میں:
“Meet R at 10 PM, Red Fort. Don’t tell anyone.”
تاریخ کل کی تھی۔
انجلی کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ لال قلعہ... رات کے دس بجے؟
اس نے دوپٹہ اوڑھا، جلدی سے آٹو روکا اور سیدھی لال قلعہ کی طرف روانہ ہو گئی۔ راستے میں ڈرائیور کے ریڈیو پر ایک اور خبر چل رہی تھی — "چاندنی چوک کے قریب ایک اور قتل، ایک شخص مردہ پایا گیا..."
انجلی کا حلق خشک ہو گیا۔ وکرم، تم کہاں ہو؟
لال قلعہ پہنچ کر منظر سنسان تھا۔ سیاح جا چکے تھے، صرف آوارہ کتے اور کبھی کبھار کوئی چوکیدار۔ انجلی اندھیرے میں آگے بڑھی، نظریں چاروں طرف دوڑتی رہیں۔ دیوانِ عام کے قریب ایک سایہ سا ہلا — سرمئی ہیڈڈ جیکٹ والا وہی شخص، جو اس کے فلیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔
“رکو!” انجلی چیخی اور تیز قدموں سے اس کا پیچھا کرنے لگی۔
اس کے قدم پتھروں پر گونجنے لگے، مگر وہ آدمی اچانک اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ سانس پھولتے ہوئے انجلی ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر رک گئی، دماغ سوالوں سے بھرا ہوا: یہ "R" کون ہے؟ وکرم کس الجھن میں پھنسا ہوا ہے؟
گھر واپس آ کر اس کا فون پھر بجا۔ اس نے کان سے لگایا، اس بار ایک بھاری، سرد آواز آئی:
“انجلی جی، اپنے شوہر کو ڈھونڈنا بند کر دو... ورنہ—”
کال کٹ گئی۔
انجلی کے دل میں خوف نے پنجے گاڑ لیے، مگر غصے کی ایک لہر بھی اُبھر آئی۔ “میں چپ نہیں رہوں گی,” اس نے دانت پیستے ہوئے سوچا، اور مٹھی میں چابی کو اور زور سے دبا لیا۔
اگلی صبح انجلی نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہ راز کھولنا ہی ہوگا۔ چابی کو غور سے دیکھا تو اس پر ایک نمبر کھدّا ہوا تھا: #304۔ اسے فوراً خیال آیا کہ یہ بینک لاکر کی چابی جیسی ہے۔
وہ دوبارہ کنّاٹ پلیس کے بینک پہنچی۔ دل کی دھڑکن تیز تھی، ماتھے پر پسینہ۔ مسٹر گپتا اس بار بھی اجتناب برت رہے تھے، لیکن انجلی کے اصرار پر اس نے وکرم کے آفس کا دراز کھولنے کی اجازت دے دی۔
اندر ایک بند فولڈر رکھا تھا، جس پر موٹے حروف میں لکھا تھا: "Confidential"۔
انجلی نے کپکپاتے ہاتھوں سے فولڈر کھولا۔ اندر ایک اجنبی شخص کی تصویر تھی — تیز خدوخال والا چہرہ، سرد نظریں — اور نیچے نام درج تھا: راوی ملہوترا (Ravi Malhotra)۔ اس کے ساتھ کئی بینک اسٹیٹمنٹس تھیں، جن میں لاکھوں کے ٹرانزیکشنز وکرم کے اکاؤنٹ سے جڑے دکھائے گئے تھے۔
انجلی کے ہاتھ لرزنے لگے۔ یہ سب کیا ہے؟
وہ فوراً گپتا کی طرف پلٹی۔ "یہ راوی ملہوترا کون ہے؟ اور یہ ٹرانزیکشنز؟ یہ سب کس لیے ہیں؟"
گپتا کا چہرہ ایک دم سفید پڑ گیا۔ "انجلی جی، براہِ مہربانی... یہ بات یہیں رہنے دیں۔ راوی... خطرناک آدمی ہے۔ بلیک منی، فراڈ، لین دین کا کالا دھندا۔ میں نے وکرم کو روکا تھا، سمجھایا تھا، لیکن اس نے نہیں سنی..."
انجلی کو لگا جیسے زمین اس کے قدموں تلے سے نکل گئی ہو۔ ایک ایسا شخص جو ہمیشہ خاموش، سیدھا سادہ لگا، وہ ایسے جال میں پھنسا ہوا تھا؟
شک اور خوف نے اسے گھیر لیا، لیکن وہ بیٹھ نہیں سکتی تھی۔ فولڈر میں لکھے ایک ایڈریس نے اس کی توجہ کھینچ لی — اوکھلا کے ایک پرانے گودام کا پتہ۔
وہ بغیر وقت ضائع کیے آٹو رکشا لے کر اوکھلا روانہ ہو گئی۔ شام ڈھل رہی تھی، آسمان پر بادل گہرے ہو چکے تھے اور ہوا میں نمی اور زنگ کی بو گھل گئی تھی۔
گودام کی حالت اجڑی ہوئی تھی، سنسان راستے، ٹوٹی پھوٹی کھڑکیاں، اور اندھیرے میں ٹمٹماتی بلب کی مدھم روشنی۔ انجلی نے ہمت کر کے اندر قدم رکھا۔
چھوٹے سے آفس روم میں کاغذات بکھرے ہوئے تھے۔ ایک ٹیبل پر فریم میں جمی ایک تصویر نے اس کے قدم روک لیے — وکرم اور وہی اجنبی شخص راوی ملہوترا، دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ، جیسے کوئی پرانی دوستی ہو۔
انجلی کا دل ڈوب گیا۔ ایک لمحے کو سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ لیکن وہ ابھی اس جھٹکے سے سنبھل ہی رہی تھی کہ اچانک کمرے میں کسی کے قدموں کی آہٹ گونجی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔ دروازے پر وہی سرمئی رنگ کی ہیڈڈ جیکٹ والا شخص کھڑا تھا، اس بار قریب سے دیکھنے پر اس کا چہرہ صاف دکھ رہا تھا — ایک زخم کا نشان گال پر، اور آنکھوں میں ویرانی۔
"تم نے بہت کھوج کر لی، انجلی جی..." اس نے دھیمی مگر خوفناک آواز میں کہا۔
انجلی کے لب کپکپا گئے۔ "وکرم کہاں ہے؟" اس کی آواز کانپ رہی تھی لیکن لہجہ مضبوط تھا۔
وہ شخص ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا، "وکرم؟ وہ تو خود بھاگ گیا ہے۔ لیکن جو اُس نے کیا ہے... اُس کا حساب دینا پڑے گا۔"
یہ جملہ سن کر انجلی کو سب سمجھ میں آ گیا۔ وکرم لاپتہ نہیں، بھاگا ہوا ہے — اور یہ لوگ اس کے پیچھے ہیں۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھتی، آدمی نے قدم آگے بڑھایا، جیب سے چمکتی ہوئی چھری نکالی، روشنی میں اس کا کنارہ خوفناک انداز میں چمک رہا تھا۔
انجلی کے گلے میں چیخ اٹک گئی، اور وہ تیزی سے دروازے کی طرف دوڑ پڑی۔
انجلی اندھیرے گودام میں سانس روکے دوڑ رہی تھی۔ اس کے کانوں میں صرف اپنے قدموں کی آواز گونج رہی تھی، جیسے پوری دنیا ساکت ہو گئی ہو اور صرف وہ ایک لڑکی اندھیروں میں زندگی کے لیے بھاگ رہی ہو۔ پیچھے سے بوٹوں کی ٹھک ٹھک اور ٹوٹی ہوئی زنجیروں کی آواز اس کے خوف کو اور گہرا کر رہی تھی۔
"چھپنے سے کچھ نہیں ہوگا، انجلی جی!" وہی بھاری، کھردری آواز سنائی دی — اس آدمی کی، جس کے چہرے پر زخموں کے نشان اور آنکھوں میں وحشت بسی ہوئی تھی۔
"رک جاؤ… سب ختم ہونے والا ہے۔"
انجلی کے ہاتھ پسینے سے بھیگ گئے، لیکن اس کے دل میں ایک عزم بھی جاگ اٹھا تھا۔ اس نے فرش پر پڑی زنگ آلود لوہے کی پائپ اٹھا لی۔ جیسے ہی وہ آدمی قریب آیا، اس نے پوری طاقت سے پائپ اس کی ٹانگ پر دے ماری۔ ایک لمحے کے لیے اس کی چیخ گودام میں گونج گئی، اور انجلی دروازے کی طرف دوڑ پڑی۔
باہر نکلتے ہی دہلی کی سڑکوں کی آوازیں سنائی دیں — دور کہیں ہارن، کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اور ہلکی سی ہوا۔ لیکن آس پاس پھر بھی سنّاٹا تھا۔
اسی وقت اس کا فون بجا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے کال ریسیو کی۔
"انجلی، سنو، بھاگنا مت!" دوسری طرف وکرم کی گھبراہٹ بھری آواز تھی۔
"وکرم؟ تم کہاں ہو؟ یہ سب کیا ہے؟" انجلی نے روہانسی آواز میں کہا، "تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟"
"انجلی، مجھے معاف کر دو۔ میں پھنسا ہوا تھا… راوی نے دھمکی دی تھی، اس نے کہا اگر میں ساتھ نہ دوں تو وہ تمہیں نقصان پہنچائے گا… میں نے صرف وقت خریدا، بس…"
انجلی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ "اور یہ سب ہونے دیا؟ ہماری زندگی، ہمارا رشتہ… سب داؤ پر لگا دیا؟"
"میں سب سمجھا دوں گا، بس پولیس کے پاس جاؤ… وہ لوگ تمہارے پیچھے ہیں!" وکرم کی آواز میں خوف اور شرمندگی دونوں تھے۔
اس سے پہلے کہ انجلی کچھ کہتی، دور سے ایک گاڑی کے ٹائر چرچرانے کی آواز آئی۔ اس نے مڑ کر دیکھا — ایک کالا SUV رک گیا تھا۔ دروازہ کھلا، اور راوی ملہوترا اترا۔ اس کی آنکھوں میں سرد ہنسی اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
"انجلی جی…" راوی نے دھیرے سے کہا، "کہا تھا نہ کہ زیادہ نہ کھودو… اب تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں۔"
انجلی کا دل جیسے سینے سے باہر نکلنے کو تھا، لیکن اس کے قدم رکنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ تیزی سے قریبی گلی کی طرف دوڑی، اندھیرے میں چھپتی، موڑ کاٹتی، جیسے پورا شہر اس کا دشمن ہو گیا ہو۔
گھبراہٹ کے عالم میں اسے ایک آٹو نظر آیا۔ وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی، "جلدی! کنّاٹ پلیس… بینک!"
بینک پہنچ کر انجلی نے ہانپتے ہوئے اپنے بیگ سے وہ چمکتا ہوا چھوٹا سا چابی نکالا — #304 لکھا ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی سکیورٹی گارڈ نے چونک کر دیکھا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر تیزی سے لاکر روم کی طرف بڑھ گئی۔
لاکر کھولنے کی آواز کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا یو ایس بی اور موٹی فائل اس کے سامنے آئی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جب اس نے فائل پلٹی — ہر صفحہ کالے دھن کے کھیل کا آئینہ تھا: راوی ملہوترا کے کھاتے، خفیہ ٹرانزیکشنز، غیر قانونی رقم کے ریکارڈ، سب کچھ۔
"یہی ہے… یہ ثبوت ہے…" انجلی نے سرگوشی کی۔
اچانک باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
"انجلی جی… باہر آئیے۔" راوی کی آواز اندر گونجی۔
وہ لمحہ ایک دہائی کی طرح طویل لگا۔ انجلی نے یو ایس بی جیب میں ڈالا اور پچھلی کھڑکی سے نکل گئی، ہاتھ زخمی ہو گئے لیکن وہ رکی نہیں۔
رات کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی انجلی نے ایک رکشہ روکا اور سیدھی پولیس اسٹیشن جا پہنچی۔
پولیس اسٹیشن میں انجلی کانپتے ہاتھوں سے یو ایس بی اور فائل انسپکٹر راوت کے سامنے رکھتی ہے۔ راوت، جو دہلی پولیس کا پرانا اور سخت گیر افسر تھا، خاموشی سے سب دیکھتا رہا۔
"یہ سب… سچ ہے؟" اس نے بھنویں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔
"جی سر…" انجلی کی آواز ٹوٹ گئی۔ "میرا شوہر… وکرم… اس نے غلطی کی، لیکن اصل سرغنہ یہ راوی ہے۔ وہ لوگ مجھے مارنا چاہتے تھے۔"
راوت نے گہری سانس لی اور اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا: "آپریشن شروع کرو۔ راوی اور اس کے تمام آدمیوں کو پکڑو۔"
چند گھنٹوں میں دہلی کے مختلف حصوں میں چھاپے پڑے، اور آخر کار راوی اور اس کے غنڈے گرفتار ہو گئے۔ میڈیا میں شور مچ گیا — "بینک فراڈ کا پردہ فاش"، "ملہوترا گروپ کا کالا دھن"، "بینک مینیجر گرفتار" — سبھی خبروں میں انجلی کا نام چرچا بن گیا، لیکن وہ سب کچھ نظرانداز کر رہی تھی۔
وکرم نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ جب انجلی نے اسے جیل میں دیکھا، وہ پھوٹ پڑا۔
"انجلی… میں نے سب کچھ برباد کر دیا… مجھے معاف کر دو۔"
انجلی نے خاموشی سے اس کی طرف دیکھا۔ "معافی؟ وکرم، تم نے میرا یقین توڑا ہے… یہ زخم آسانی سے نہیں بھرے گا۔"
اس نے بغیر کچھ اور کہے جیل کے دروازے سے باہر قدم رکھ دیا۔
کچھ ہفتوں بعد انجلی نے کرول باغ کا فلیٹ خالی کر دیا۔ وہ ملویہ نگر میں ایک چھوٹے مگر پرسکون اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئی۔ اسکول کی نوکری اس کے لیے لائف لائن بن گئی۔ بچوں کی مسکراہٹیں، ان کی معصوم باتیں، اس کے دل کے بوجھ کو تھوڑا ہلکا کر دیتی تھیں۔
لیکن جب رات آتی، جب شہر کی آوازیں دھندلی ہو جاتیں اور تنہائی کمرے میں پھیل جاتی، تو اسے اب بھی وہ اندھیری رات یاد آتی — وہ خوف، وہ دھوکہ، اور وہ لمحہ جب اسے اپنی بقا کے لیے لڑنا پڑا تھا۔
ایک شام وہ بالکنی میں کھڑی دہلی کے افق کو دیکھ رہی تھی۔ دور کہیں آسمان پر ابر چھایا تھا، بجلی چمک رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے دراز کھولا اور وہ چھوٹی سی چابی نکالی — اب بیکار ہو چکی تھی، لیکن اس کے دل کے زخم کا نشان بنی ہوئی تھی۔
اس نے ہلکی سی دعا مانگی — طاقت کے لیے نہیں، بلکہ سکون کے لیے۔
"وہ رات تو ختم ہو گئی…" اس نے آہستہ کہا، "لیکن دل کا خوف آ
ج بھی میرے ساتھ سوتا ہے۔"
یہ اختتام انجلی کی کہانی کا نیا موڑ تھا — ایک عورت جو ٹوٹ کر بھی جینے کا حوصلہ رکھتی ہے، جو جان گئی تھی کہ زندگی میں کبھی کبھار بچنے کے لیے بھاگنا نہیں بلکہ لڑنا پڑتا ہے۔
