لوٹا گھوم گیا — قسط نمبر 6 آخری
Inspector Ahmad yar Khan
ڈسپنسر نے یہی بات جب مولوی سے کی تو مولوی نے اسے قرآن کا رعب دے کر اور چرب زبانی سے ڈسپنسر کو قائل کر لیا کہ چوری اسی عورت نے کی ہے۔ اس عورت پر شک کا اظہار ڈسپنسر نے نہیں، مولوی نے کیا تھا۔
مولوی نے ڈسپنسر کو اسلام کے حوالے دے دے کر اس عورت اور اس کے خاوند کے خلاف بھڑکا دیا تھا۔
میں جب ڈسپنسر سے فارغ ہوا تو مرغ اذانیں دے رہے تھے اور میرا سر چکرا رہا تھا۔ اب مولوی کی باری تھی، لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ مولوی کو اس وقت لپیٹ میں لے لیتا۔ میں سونے کے لیے چلا گیا اور ایسا سویا کہ صبح ساڑھے نو بجے آنکھ کھلی۔
کسی نے بھی مجھے جگایا نہیں تھا۔ میں جلدی جلدی تیار ہو کر اپنے دفتر میں گیا۔ ابھی دفتر میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔
میرے علاقے سے تیس چالیس میل دور ایک بڑا شہر تھا۔ یہ فون اس شہر کے تھانے سے آیا تھا۔ فون کرنے والا اس تھانے کا سب انسپکٹر تھا۔ وہ انسپکٹر ایک زندہ دل شخص تھا، میرے ساتھ اس کی کافی بے تکلفی تھی۔
اس نے مجھ سے کہا: "اوئے تھانیدارا، ہور سنا، کی حال چال آ؟"
وہ مجھ سے پنجابی میں بات کر رہا تھا۔ اس نے پنجابی میں جو کچھ بتایا، اس کا ترجمہ یوں تھا:
اس نے کہا: "یار، تم اپنے علاقے کے دانے سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے؟ تمہارا ایک پکا ہوا دانہ میرے پاس آ گیا ہے۔"
میں اس کی بات سمجھ نہ سکا۔ ہم ہنسی مذاق کرتے رہے۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ انسپکٹر مجھے کتنی قیمتی رپورٹ دے رہا ہے۔ وہ ننگی زبان بول رہا تھا۔ آخر اس نے سنجیدگی سے جو اطلاع دی وہ یہ تھی کہ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اس کے تھانے کا ایک کانسٹیبل، جس کی ڈیوٹی اس شہر کے ریلوے اسٹیشن پر تھی، اس کانسٹیبل کے کسی دوست نے—جو اتفاق سے اس تھانے کا مخبر بھی تھا—کانسٹیبل کو بتایا کہ ایک جوان لڑکا ایک لڑکی کو ساتھ لیے پھر رہا ہے۔ لڑکی برقعے میں ہے اور رو رہی ہے۔
مخبر کافی دیر سے ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ ان دونوں کو اس نے ایسی حالت میں ادھر اُدھر گھومتے دیکھا جیسے ان کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہوں کہ کہاں جائیں۔ لڑکے کی پریشانی اس کے چہرے سے صاف نظر آتی تھی۔ مخبر نے لڑکی کے برقعے کا نقاب گرا ہوا ہونے کے باوجود محسوس کر لیا کہ لڑکی رو رہی ہے۔
پھر لڑکا اور لڑکی اسٹیشن کے مسافر خانے میں چلے گئے۔ مخبر نے وہاں بھی ان پر نظر رکھی۔ مخبر کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ بگڑا ہوا ہے۔ اس نے فوراً اسٹیشن پر موجود اپنے کانسٹیبل دوست کو بتایا۔
مخبر کی بات سن کر کانسٹیبل صورتِ حال جاننے کے لیے ان دونوں کی طرف گیا۔ جب لڑکے نے کانسٹیبل کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اُس نے لڑکی کو اٹھایا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے دونوں مسافر خانے سے باہر کو چل پڑے۔
کانسٹیبل اور مخبر بھی تیز چلتے ہوئے ان کے پیچھے گئے۔ کانسٹیبل نے ان کو آواز دی تو وہ اور تیز ہو گئے۔ لڑکا دوڑ پڑا مگر لڑکی سے دوڑا نہ گیا۔
لڑکے نے جب دیکھا کہ لڑکی پیچھے رہ گئی ہے تو وہ بھی واپس آ گیا۔ اسٹیشن پر موجود لوگ تماشہ دیکھنے کے لیے فوراً جمع ہو گئے۔ لڑکے نے کانسٹیبل کو رشوت کی پیش کش کی۔ کانسٹیبل کے ساتھ مخبر تھا۔ مخبر اور کانسٹیبل رشوت لینے سے انکار نہ کرتے بلکہ منہ مانگی رشوت وصول کرتے، مگر وہاں لوگ تماشہ دیکھنے اکٹھے ہو گئے تھے لہٰذا ضروری ہو گیا کہ اس لڑکے اور لڑکی کو تھانے لے جایا جائے۔ اس طرح اس کانسٹیبل اور مخبر کی رشوت ماری گئی۔
تھانے پہنچے تو تھانیدار نے اس لڑکے کے پاس سوٹ کیس کی تلاشی لی تو سوٹ کیس سے ایک ہار اور رقم برآمد ہوئی۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا؛ ان کی ذاتی ملکیت کی چیزیں تھیں۔
تھانیدار نے ان سے ان کے ٹھکانے کے متعلق پوچھا اور اپنے انداز سے پوچھ گچھ کی تو راز کھلا کہ وہ دونوں گھر سے بھاگے ہوئے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے نام اور علاقے کا نام بھی صحیح بتا دیا۔
ان پر وہاں زیادہ سے زیادہ آوارہ گردی کا الزام عائد ہو سکتا تھا۔ تھانیدار نے بذریعہ فون مجھے اطلاع دی۔
میں نے تھانیدار کو بتایا کہ یہ دونوں میرے ہی ملزم ہیں۔ ہار اور رقم کی چوری کی رپورٹ میرے پاس درج ہے، اور لڑکی کی گمشدگی کی رپورٹ بھی ہے۔ میں نے تھانیدار سے کہا کہ یہ دونوں تمہارے پاس میری امانت ہیں، میں اپنے آدمی بھیج رہا ہوں، ان کو میرے آدمیوں کے حوالے کر دو۔
میں نے اسی وقت اپنے اے ایس آئی اور دو کانسٹیبلوں کو لڑکی اور لڑکے کو لانے کے لیے اس شہر روانہ کر دیا۔
میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ یہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کی خاص کرم نوازی تھی کہ میرا کام گھر بیٹھے ہو گیا تھا۔
اب میں ذہنی طور پر پرسکون ہو گیا تھا اور مولوی سے ابھی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں تفتیش والے کمرے میں چلا گیا جہاں جناب مولانا صاحب بند تھے۔
یہ مولوی مسلمانوں کے گھروں کے پکے ہوئے کھانوں، حلوے اور کھیر کا عادی تھا۔ اس کی قابلِ رشک صحت کا راز بھی یہی تھا۔ میرے پاس جتنے وقت بھی اس نے روٹی کھائی، میں نے اسے ایک وقت بھی گوشت نہ دیا۔
تندور سے تڑکے کے بغیر دال منگوا کر اسے کھلاتا رہا۔ میں نے یہ اہتمام خاص طور پر کیا تھا تاکہ مولوی اپنی اصلی جگہ پر آ جائے، اور اب وہ اس جگہ پر آ گیا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی ہارے ہوئے لہجے میں بولا: "میرے ساتھ آپ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟"
میں نے اسے کہا: "تم اب میرے چکر سے نکل نہیں سکو گے۔ تم بیان دو یا نہ دو، میرے پاس شہادت آ گئی ہے کہ لڑکے کو تم نے لوٹا گھمانے کے پیسے دیے تھے اور اس سے کہا تھا کہ اس عورت کی پرچی پر لوٹا گھما دے۔ میرے پاس اس کی بھی شہادت موجود ہے کہ تم اس عورت کو پھانسنا چاہتے تھے۔
اسے ڈسپنسر نے نہیں، تم نے لوٹے کے عمل کے لیے بلایا تھا۔ تم کہو تو تمہارے جرم کی پوری کہانی بمعہ ثبوت تمہیں سنا دوں، لیکن اگر تم اپنی زبان سے یہ کہانی سناؤ گے تو میں تمہارا کچھ نہ کچھ خیال ضرور کروں گا۔
اگر تم نے چکر دینے کی کوشش کی تو اس عورت کے خاوند کو قتل کرنے کی کوشش میں تمہیں کم از کم دس سال کے لیے جیل بھجوا دوں گا۔"
مولوی نے پوچھا: "کہیں وہ مر تو نہیں گیا؟"
میں نے کہا: "تم اس کو چھوڑو، اپنی رام کہانی سناؤ۔"
مولوی نے مجھے رشوت کی پیش کش کی، میرے پاؤں پکڑے، رشوت کا بھاؤ بڑھا دیا۔ لیکن میں خاموشی سے اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
اس نے کہا: "آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں، وہاں جتنی رقم ہے آپ لے لیں۔"
اس نے کہا: "رقم کم نہیں ہے، آپ کی سوچوں سے بھی زیادہ ہو گی۔"
میں پھر بھی خاموش رہا۔ اس نے منہ میرے کان کے قریب کیا اور رازداری سے کہا: "آپ محلے کی کسی بھی عورت کا نام لیں، اسے آپ کے پاس لے آؤں گا۔"
میں بالکل خاموش رہا لیکن میرے اندر ایک الاؤ سا بھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا: "ڈسپنسر کی بڑی بیٹی لا دوں؟ خدا کی قسم، آپ نے ایسی لڑکی کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ہو گی!"
میرے ارادے اور کوشش کے بغیر میرا دایاں بازو لاٹھی کی طرح اٹھا اور میرا ہاتھ اس قدر زور سے اس کے منہ پر پڑا کہ وہ گھوما، چکرایا اور مجھ سے تین چار قدم دور جا گرا۔
وہ اٹھا تو میں نے اس کے پہلو میں گھونسا مارا۔ وہ اسی پہلو پر جھکا اور گر پڑا۔
یہ شخص پہلے روز میرے سامنے آیا تھا تو اس نے مجھ پر اپنی غیبی قوت کا رعب جمانے کی کوشش کی تھی، مگر گناہ گار کی ایکٹنگ زیادہ دیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اب اس کا دماغ اسی جگہ آ گیا تھا جہاں میں لانا چاہتا تھا۔
اس نے مجھ سے پانی مانگا۔ میں نے اسے پانی پلایا اور اس سے کہا کہ وہ اپنی اصلیت بتائے اور اپنے گناہوں کی پوری کہانی سنائے۔
مولوی کی کہانی ذرا لمبی تھی مگر م
یں آپ کو اس میں سے صرف دلچسپی کی باتیں بتاؤں گا۔
مولوی نے بتانا شروع کیا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ وہ سوتیلی ماں کے برے سلوک سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ نکلا۔ کسی دوسرے علاقے میں جا کر ایک مسجد میں پناہ لی۔ اس نے امام مسجد کو بتایا کہ وہ کیوں گھر سے بھاگا ہے اور اب واپس نہیں جانا چاہتا۔ امام مسجد نے اسے اپنے پاس رکھ لیا، اس سے خدمت کراتا رہا اور اسے وہی علم و ہنر سکھاتا رہا جس کا کمال اس نے ہار کی چوری کے سلسلے میں دکھایا تھا۔ امام نے اسے یہ بھی سکھایا کہ لوگوں پر جذباتیت اور تقدس کس طرح طاری کرنا ہے۔
قرآن کی چند آیات بھی اسے یاد کرا دیں اور ایسے وعظ بھی سکھا دیے جن کا کوئی موضوع نہیں ہوتا لیکن سامعین پر جادو طاری ہو جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ یہ شخص بغیر علم کے عالم، اور مذہب سے بیگانہ رہ کر مذہبی پیشوا بن گیا۔
استاد نے اسے کتاب سے فال نکالنے، غیب کا حال بتانے، لوٹا گھمانے اور عورتوں کو جذباتیت کے جال میں پھانس کر عیش و عشرت کرنے کے طریقے بھی بتا دیے۔
مولوی نے مزید بتایا کہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مسلمان مذہب کے نام پر مر مٹتا ہے۔ اگر ہماری قوم مذہب سے واقف ہو جائے تو ہمارے ہاتھ کی صفائی اور زبان کا جادو ختم ہو جائے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے مریدوں کے دلوں میں مذہب نہیں بلکہ مذہب کا احترام اور تقدس قائم رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم مولوی لوگ تعلیم یافتہ لوگوں کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو تعلیم نے گمراہ کر دیا ہے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مریض کسی ڈاکٹر کے پاس نہ جائے بلکہ ہمارے پاس آئے، پیسے دے، ہم سے دعا کرائے اور تعویز لے۔ اس نے امامت کے ایسے ایسے راز فاش کیے کہ جو میں یہاں بیان کر دوں تو مجھ پر کفر کا فتویٰ لگ جائے۔
مولوی جب جوان ہو گیا اور آزادی سے اپنا کاروبار چلانے کے قابل ہو گیا تو استاد کے ٹرنک سے استاد کی ساری نقدی اور قیمتی سامان چوری کر کے غائب ہو گیا۔
تین چار جگہوں پر رہا، آخر میرے علاقے کی اس مسجد میں آ گیا۔ اسے کہیں سے پتہ چل گیا تھا کہ اس مسجد کا امام مر گیا ہے۔ اسے یہ مسجد دے دی گئی اور اس نے مذہب کو پوری کامیابی سے کاروبار بنا لیا۔
وہ عامل بھی کہلانے لگا اور عالم بھی۔ اس کے اپنے اعتراف کے مطابق نہ تو وہ عامل تھا اور نہ ہی عالم۔
اس کی کامیابی کی وجہ وہی تھی جو استاد نے اسے بتائی تھی، یعنی لوگوں کی جذباتیت اور اندھی عقیدت مندی۔ اس نے بتایا کہ عورت میں یہ کمزوری زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے عورتیں اس کے جال میں الجھی رہتی تھیں۔
اس کے اقبال جرم کے مطابق ڈسپنسر کی بڑی بیٹی بھی اس کے ظلم سے محفوظ نہیں رہی تھی۔
ڈسپنسر اس کا اندھا مرید تھا۔ صرف یہ ایک عورت تھی جس پر اس نے چوری کا الزام لگایا تھا۔ وہ عورت اس کی اصلیت بھانپ گئی تھی۔
ایک روز ڈسپنسر نے مولوی کو بتایا کہ اس کی بیوی نے ٹرنک کھولا تو اسے پتہ چلا کہ سونے کا ہار اور رقم غائب ہے۔
مولوی نے ڈسپنسر سے کہا: تم فکر مت کرو، میرا لوٹا چور کو پکڑ لے گا۔
مولوی نے ڈسپنسر کو لوٹا گھمانے کا دن اور وقت بتایا۔
مولوی نے اس عورت کو پھانسنے کی ترکیب یہ سوچی کہ لوٹے کو اس کے نام پر گھما دے گا۔
مولوی نے اس عورت کو مشتبہ قرار دے کر لوٹا گھمانے میں اس کا نام شامل کر لیا۔ پھر لوٹا تھامنے والے لڑکے کو کچھ پیسے دے کر اس کے ساتھ لوٹا گھمانے کی مشق کی اور اسے سمجھایا کہ وہ لوٹا کس طرح گھمائے گا۔
لڑکے نے اس کا یہ فریب کامیاب کر دیا۔
عورت کا ردعمل وہی تھا جو میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ مولوی نے اس عورت سے کئی بار کہا کہ وہ اس کے پاس آ جائے تو اس پر سے یہ الزام صاف کر دیا جائے گا، مگر وہ عورت کردار کی بہت پکی ثابت ہوئی۔
مولوی نے اس کے خاوند کو بھی پھانسنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ اسی دوران وہ ڈسپنسر کو بھڑکاتا رہا۔ دو تین بار ڈسپنسر نے مولوی سے کہا: بے شک لوٹا اس عورت کے نام پر گھوما ہے لیکن غور کیا جائے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ چوری اس عورت نے کی ہوگی۔
ڈسپنسر نے مولوی کو تفصیل سے بتایا کہ ٹرنک کہاں اور کس طرح پڑے ہوئے ہیں، مگر مولوی نے ڈسپنسر سے کہا: لوٹا میں نے نہیں گھمایا، وہ تو قرآنی آیات کا کرشمہ تھا۔ اس کا مطلب ہے تم قرآن کو نہیں مانتے۔ قرآن کے احکام پر شک کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
مولوی نے ڈسپنسر کو قرآن اور اسلام کے نام پر ایسا بھڑکایا کہ اسے اپنے اوپر قابو نہ رہا۔
مولوی نے ڈسپنسر سے یہ بھی کہا کہ اس عورت اور اس کے خاوند کو اگر چوری کی سزا نہ بھی مل سکی تو انہیں قرآنی آیات کی نافرمانی کی سزا ضرور ملے گی۔
جو کوئی قرآنی آیات کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا، وہ سراسر قرآنی آیات کا نافرمان ہے، اور ایسے نافرمان کو سزا دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
ڈسپنسر چونکہ جنونی مذہب پرست تھا، اس لیے اس نے اپنا فرض ادا کر کے ثواب دارین حاصل کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس عورت کے خاوند کو دوائی دی تو اس میں زہریلی دوا کی آمیزش کر دی۔
مولوی نے میری مرضی کا بیان دے دیا تھا۔ میں نے اسے دودھ پلایا، پھر چارپائی اور بستر منگوا کر اسے اسی کمرے میں بند کر دیا۔ اس سے پہلے وہ فرش پر سوتا تھا۔ اب مجھے اے ایس آئی اور کانسٹیبلوں کا انتظار تھا جو لڑکی اور لڑکے کو لینے گئے تھے۔
سارا دن گزر چکا تھا۔ مغرب سے کچھ دیر بعد اے ایس آئی ڈسپنسر کی بیٹی اور اس نوجوان کو لے آیا۔
میں نے آپ کو پہلے یہ نہیں بتایا کہ ان کی شناخت کے لیے نوجوان کے باپ اور لڑکی کے بڑے بھائی کو اے ایس آئی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ وہ دونوں بھی تھانے میں بیٹھے تھے۔
لڑکی رو رہی تھی۔ میں نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ لڑکی اس وقت میرے دفتر میں بنچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے بھگانے والا نوجوان بھی ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ شاید اپنے آپ کو زیادہ ہوشیار اور چالاک سمجھتا تھا۔
میرا ہاتھ لڑکی کے سر پر تھا، وہ اٹھا اور بڑی پختہ آواز میں بولا: "دیکھو صاحب! میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں، میں نے اس لڑکی کو اغوا نہیں کیا، یہ خود میرے ساتھ گئی تھی۔"
میں نے پوری طاقت سے ویسا ہی تھپڑ اس کے منہ پر مارا جیسا مولوی کو مارا تھا۔
مولوی تو جند جان میں تھا، وہ مجھ سے تین چار قدم دور جا گرا تھا، لیکن یہ نوجوان چھ سات قدم دور دیوار سے جا لگا۔
میں نے کانسٹیبل کو بلایا اور کہا کہ اس لڑکے کو پچھلے کمرے میں لے جا کر بند کر دو۔
کانسٹیبل اس کو لے گیا تو میں نے لڑکی کے بھائی کو اندر بلایا اور اس سے کہا کہ وہ اپنی بہن سے کہے کہ وہ مجھے تھانیدار نہ سمجھے۔ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہارا باپ بن کر دکھاؤں گا۔
بھائی نے بہن کو سمجھایا۔ میں نے سوٹ کیس کھول کر ہار نکالا، بھائی نے ہار پہچان لیا۔
میں نے بھائی کو باہر بھیج دیا اور لڑکی کے پاس بیٹھ کر اس کے دل سے پولیس اور اس کے جرم کی دہشت نکالنے کی کوشش کی۔
اس کیفیت میں مجرم تنکوں کا سہارا ڈھونڈا کرتے ہیں۔ یہ تو پردہ نشین لڑکی تھی، اس نے میری شفقت قبول کر لی۔
اس نے میرے کہنے پر برقعے کا نقاب اٹھا دیا۔ میں نے لڑکی سے کہا: میں جو پوچھوں، مجھے بالکل صحیح بتاؤ تاکہ میں تمہیں بچا سکوں۔
میں نے اس سے کہا: میں تمہیں گرفتار نہیں کرنا چاہتا بلکہ گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔ مجھے صرف
یہ بتا دو کہ ہار اور رقم تم نے ٹرنک سے نکالی تھی؟
جی! اس نے کچھ سر ہلایا، کچھ سرگوشی کی۔ یہ چوری اسی لڑکی نے کی تھی۔ مجھے پہلے روز ہی شک ہو گیا تھا کہ چور اسی گھر میں موجود ہے۔ میرا شک اس لڑکی کے بڑے بھائی پر تھا۔
آگے چل کر لڑکی پر بھی شک ہوا، لیکن میری توجہ بڑے بھائی پر ہی رہی۔ اسی شک کی بنا پر میں نے ڈسپنسر سے کہا تھا کہ میں چور پکڑ دوں گا لیکن رپورٹ درج نہیں کروں گا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ یہ گھرانہ بدنام نہ ہو اور معاملہ اندر ہی اندر دب جائے۔
لیکن اس بدبخت نوسر باز مولوی نے ایسے حالات پیدا کر رکھے تھے کہ ڈسپنسر میری بات سمجھ ہی نہ سکا۔
اب ڈسپنسر کی یہ لڑکی چوری کا اعتراف کر رہی تھی اور میں اسے بچانا چاہتا تھا۔
میری حوصلہ افزائی اور مشفقانہ سلوک کے زیر اثر اس نے اپنا سینہ میرے آگے کھول دیا۔ میں ہمدردی کا اظہار کرتا گیا، وہ بولتی گئی۔ وہ باپ کے سخت سلوک اور کڑی پابندیوں سے تنگ آ گئی تھی۔
ان کے گھر کوئی ہنستا مسکراتا نہیں تھا۔ ان کا باپ انہیں نماز اس انداز سے پڑھنے کو کہتا تھا کہ بہن بھائیوں کے دل سے نماز کی پسندیدگی ختم ہو گئی تھی۔ وہ نماز خدا کے حکم سے نہیں بلکہ باپ کے حکم سے پڑھتے تھے۔
گھر کا ماحول جہنم بنا ہوا تھا۔ لڑکے تو باہر گھوم پھر لیتے تھے، مصیبت لڑکیوں کے لیے تھی، جو دروازے میں ذرا سا پردہ اٹھا کر ایک آدھ منٹ کے لیے بھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں۔
اس لڑکی نے کہا کہ اس کی چھوٹی بہن تو پتھر ہو گئی تھی، جیسے وہ جوان ہوئی ہی نہ ہو۔ وہ اندر ہی اندر مر گئی تھی، مگر بڑی بہن اپنے من کو نہ مار سکی۔
ایک طرف تو باپ انہیں باہر کی ہوا بھی نہ لگنے دیتا تھا، اور دوسری طرف یہ عالم کہ اس مولوی جیسا مجرم انسان کھلے عام ان کے گھر آتا جاتا تھا۔
دو بار لڑکی مولوی کے پاس گئی۔ مولوی نے اسے اپنے جال میں پھانس لیا۔
مولوی نے اس لڑکی سے محبت کا اظہار کیا تو اسے پہلی بار پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور یہ کتنی پرلطف ہوتی ہے۔ محبت کے اس پہلے ذائقے نے لڑکی کے اندر یہ احساس بیدار کر دیا کہ وہ پنجرے میں قید ہے۔
اس احساس نے اسے چھت پر تانک جھانک کا عادی بنا دیا۔ چند دنوں بعد اس کی نظریں اس نوجوان پر ٹھہر گئیں۔ دونوں کے درمیان پہلے اشارے ہوتے رہے، پھر اس نوجوان نے یہ دلیری کی کہ ایک رات وہ لڑکی کی چھت پر آ گیا۔
لڑکی کی اس نوجوان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے بھی اسے محبت دی اور جذباتی سہارا بھی فراہم کیا۔
چھت پر ان کی تین چار ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک بار باپ نے پکڑ لیا اور اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا۔
لڑکی کو باہر کا سہارا مل گیا تھا۔ ایک روز ڈسپنسر اپنی بیوی کے ساتھ کسی رشتہ دار کی شادی پر گیا۔ لڑکی کے دونوں بھائی بھی گھر سے چلے گئے۔ چھوٹی بہن کو بڑی بہن نے پڑوسیوں کے گھر بھیج دیا۔
اس نے باہر کا دروازہ اندر سے بند کیا، ٹرنکوں والے کمرے میں جا کر زیورات والے ٹرنک کے اوپر سے دونوں سوٹ کیس اتارے، نیچے والے ٹرنک کا تالہ کھولا، ہار اور رقم نکال کر چھپا دی۔
اس نے صرف ہار اس لیے نکالا کہ یہ زیادہ قیمتی تھا۔ پھر اس نے ٹرنک اسی طرح واپس رکھ دیے۔
رات کو وہ نوجوان چھت پر آ گیا۔ لڑکی نے اسے ہار اور رقم دے کر کہا کہ وہ اس کے ساتھ بھاگنے کے لیے تیار ہے، یہ ہار اور رقم اسی مقصد کے لیے ہے۔ نوجوان ہار اور رقم لے گیا۔
اب لڑکی کو لڑکے کے پیغام کا آٹھ دس روز انتظار کرنا پڑا۔ ایک روز چوری کا انکشاف ہو گیا۔
جب ڈسپنسر گرفتار ہوا تو لڑکے کا پیغام لڑکی کو ملا۔ لڑکی اسی رات لڑکے کے ساتھ نکل گئی۔
لڑکا اسے شہر میں اپنے دوست کے گھر لے گیا۔ دوسرے دن لڑکے کے گاؤں سے اس دوست کا کوئی عزیز دوست کے گھر آیا تو اس نے بتایا کہ ان دونوں کو پولیس ڈھونڈ رہی ہے۔
دوست کی بیوی پہلے ہی انہیں گھر میں رکھنے پر آمادہ نہیں تھی۔ اس آدمی کی اطلاع پر دونوں کو دوست کے گھر سے نکلنا پڑا۔
اب ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کچھ رقم لڑکا بھی اپنے گھر سے لایا تھا۔ وہ دونوں بیکار گھومتے پھرتے رہے اور پکڑے گئے۔
نوجوان کا بیان تفتیش کے کمرے میں لیا گیا۔ اس نے لڑکی کے بیان کی تصدیق کی۔
میں لڑکی کو مزید ذلت سے بچانا چاہتا تھا۔ اس کی خاطر مجھے لڑکے کو بھی چھوڑنا پڑتا۔
میں نے لڑکے کے باپ سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اس لڑکی سے کر دے۔
اگر اس نے کوئی ہیرا پھیری کی تو میں اس کے بیٹے کو چوری اور اغوا میں دو چار سال کے لیے اندر کرا دوں گا۔
باپ مان گیا۔ لڑکا پہلے ہی راضی تھا۔ میں نے ہار اور نقدی کا کیس دبا لیا۔ لڑکی اور لڑکے کو گھر بھیج دیا۔
ڈسپنسر اور اس کے مرشد نوسر باز مولوی کے کیس کا فیصلہ چار ماہ بعد ہوا۔ میں نے کیس بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔
ڈسپنسر کو پانچ سال اور نوسر باز مولوی کو تین سال کی سزا قید ہوئی۔ ان کی سب اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔
اس کے فوراً بعد میں نے ڈسپنسر کی
بیٹی کی شادی اس نوجوان سے کروا دی۔
(ختم شد)