لوٹا گھوم گیا — قسط نمبر 5
Ahmad yar Khan
میں ڈسپنسر کے گھر چلا گیا۔ اس کی بیوی میرے سامنے نہیں آ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے سامنے آئی مگر اکیلی نہیں آئی، اس کی دونوں بیٹیاں بھی ساتھ تھیں۔ وہ شاید ماں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔
میں نے ان سے کہا، ڈسپنسر سارا دن گھر سے باہر رہتا ہے، بڑا بیٹا بھی اپنے دفتر چلا جاتا ہے، پیچھے گھر میں صرف عورتیں رہ جاتی ہیں۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ دن کے وقت کوئی باہر آ کر چوری کر جائے؟ میں نے دیکھا کہ میرے سوال کے جواب میں ان کے ذہن بالکل خالی تھے۔
رات کا ذکر کیا اور کہا، تم سب برآمدے میں سوتے ہو، اس حالت میں بھی چوری ممکن نہیں ہے۔ پھر اس عورت کے متعلق پوچھا جس کے نام پر مولوی نے لوٹا گھمایا تھا۔ میرے کئی ایک سوالوں کے بعد ڈسپنسر کی بیوی نے صاف کہہ دیا کہ انہیں اس عورت پر کوئی شک نہیں ہے۔
مجھے ان ماں بیٹیوں سے کوئی ایسی بات نہ ملی جو مجھے سراغ رسانی میں مدد دیتی۔ میں نے دونوں بیٹیوں کو غور سے دیکھا۔ بڑی بیٹی اپنی ماں اور بہن کی نسبت زیادہ باتیں کرتی تھی۔
میں نے یہ معلوم کرنے کے لیے اس کے ساتھ چند باتیں کیں کہ اس میں کتنی دلیری ہے۔ اس میں حجاب تھا، شرم بھی تھی، لیکن میں نے اس کی باتوں میں خاص پختگی دیکھی جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
میں نے انہیں کہا، آپ کا ہار اور رقم اس گھر سے نکل گئی ہے، لیکن میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ چور اس گھر سے ابھی تک نہیں نکلا۔
میں یہ بات کرتے ہوئے بڑی بیٹی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے بڑی بیٹی کے چہرے کا رنگ صاف طور پر بدلتے ہوئے دیکھا اور وہ بیٹھے بیٹھے اس طرح پیچھے ہٹی جیسے میں اسے پکڑ لوں گا۔
چہرے کے تاثر کی یہ تبدیلی شاید ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا، لیکن تجربہ دکھا دیتا ہے۔ مجھے مجرموں اور گواہوں کے چہروں اور ان کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھنے کا تجربہ تھا۔
اس لڑکی کے چہرے کی تبدیلی کو میں نے ذہن میں محفوظ کر لیا۔ اتنے میں اس کا بڑا بھائی آ گیا۔
میں نے اس کی ماں اور بہنوں کو وہاں سے اٹھا دیا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ ہے میرا ملزم۔
میں نے اس پر فوراً حملہ نہیں کیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کر کے کہا، سنا ہے آپ کے والد گھر میں تشدد کرتے تھے، کسی کو بھی بخشتے نہیں تھے۔
اس نے کہا، تشدد نہیں، ظلم کہیں، اور مجھے تفصیل سے بتایا کہ باپ نے گھر میں کیا فضا بنا رکھی تھی۔ اس نے کہا، گھر میں ٹہرنے کو جی نہیں چاہتا۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ اس وقت گھر میں آؤں جب باپ گہری نیند سویا ہوا ہو۔ میں نے کہا، تم دفتر کے علاوہ کہاں وقت گزارتے ہو؟ اس نے کہا، دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں وقت گزر ہی جاتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، بازی کہاں لگتی ہے، استادوں کے ساتھ یا دوستوں کے ساتھ؟
وہ کچھ گھبرایا اور بولا، میں کوئی پیشہ ور جواری تو نہیں ہوں، بس شغل کے لیے تاش کھیل لیتے ہیں اور دو چار روپے کی بازی بھی لگا لیتے ہیں۔
میں نے بہت کریدا، گھما پھرا کر سوال کیے، مگر جو بات میں تلاش کر رہا تھا وہ نہ ملی۔ میں نے اسے یہ بھی کہا، پیشہ ور جواری میرے جانے پہچانے ہیں، میں ان سے پوچھوں گا۔
اس لیے وہ سچ بتا دے۔ اس نے خود اعتمادی سے کہا، آپ جس سے مرضی پوچھ لیں۔
میں نے کہا، اگر میں تمہیں کہوں کہ ہار اور نقدی کے چور تم ہو تو کیا جواب دو گے؟ اس نے کہا، آپ چونکہ تھانیدار ہیں، آپ مجھے چور کہہ سکتے ہیں، لیکن میں اس بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔
میں نے کہا، میں نے یہ بھی سنا ہے کہ چند دن ہوئے تمہاری بڑی بہن کو تمہارے باپ نے بری طرح مارا پیٹا تھا، اس کی کیا وجہ تھی؟ کوئی برتن ٹوٹ گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟
اس نے میری بات سن کر سر جھکا لیا اور خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے کہا، اگر میں آپ کو اصل وجہ بتا دوں تو آپ میری کچھ مدد کریں گے؟ پھر اس نے کہا، ہم بہن بھائی اور ہماری ماں مظلوم ہیں، ہم گھر میں کچھ نہیں کر سکتے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں بزدل ہو گیا ہوں۔
ہمارے محلے میں مجھ سے سال دو سال چھوٹا ایک نوجوان ہے۔ وہ اپنی چھت سے میری بڑی بہن کو اشارے کرتا رہتا ہے۔ ایک رات بہن اوپر چھت پر گئی، ہم سب سوئے ہوئے تھے، میرے باپ کی آنکھ کھل گئی، وہ بھی اوپر چلا گیا۔
اور اس نے میری بہن کو بہت پیٹا، پیٹتے پیٹتے نیچے لے آیا۔
ہم میں سے کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ اسے باپ سے چھڑا لیتے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لڑکا ہماری چھت پر آ گیا تھا اور میرے باپ نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ وہ لڑکا تو بھاگ گیا اور میری بہن کی شامت آ گئی۔
وہ لڑکا لوفر اور لفنگا ہے اور امیر گھر کا ہے۔ ہم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ اگر اس کو ڈرا دھمکا دیں تو ہماری عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔
میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس نوجوان کو ضرور تھانے بلاؤں گا۔ ڈسپنسر کے اس بیٹے سے میں نے بہت پوچھ گچھ کی لیکن وہ نہ مانا۔ میں وہاں سے اٹھا اور تھانے آ گیا۔
تھانے میں آ کر مولوی کو دیکھا، اس کے سارے بل نکل گئے تھے۔ میں نے اس سے کہا، کیا واقعی وہ عورت چور ہے مولانا صاحب، یا۔۔۔ میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
مولوی نے ہنسنے کی کوشش کی لیکن ہنس نہ سکا۔ میں نے اور کچھ بھی نہ کہا اور کمرے سے باہر آ گیا، باہر سے دروازہ بند کر دیا۔
پھر میں ہسپتال چلا گیا۔ اس عورت کا خاوند بچ نکلا تھا مگر لاش کی صورت بن گیا تھا۔
اس سے اچھی طرح بولا نہیں جا رہا تھا، وہ ابھی بیان دینے کے قابل نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اللہ نے اس کو زندگی تو واپس کر دی ہے، اب ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔
اس زندہ لاش جیسے شخص کو دیکھ کر میں کچھ ایسا جذباتی ہوا کہ یہ عہد کر لیا کہ اس نوسر باز کو جو مولوی اور غیب دان بنا ہوا ہے، اس آدمی کی طرح لاش بنا دوں گا۔
میں نے مولوی کو تھانے میں دیکھا تھا، وہ اقبالی بیان دینے کے موڈ میں آ چکا تھا۔
لیکن میں اسے ابھی ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنا چاہتا تھا۔
اگلے روز دوائی کے ٹیسٹ کی رپورٹ آ گئی۔ رپورٹ کے مطابق دوائی میں ایک زہریلی آمیزش تھی۔ اب ڈسپنسر کے خلاف شہادت مکمل تھی۔
میں اس کوشش میں تھا کہ مولوی کے خلاف اعانتِ جرم ثابت ہو جائے۔
ایسا مواد تو مل گیا تھا جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مولوی نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے جن سے متاثر ہو کر ڈسپنسر نے ایک آدمی کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
میں نے رپورٹ ڈاکٹر کو دکھائی۔ ڈاکٹر بھی موقعے کا گواہ تھا، وہ گواہ بھی تھا اور ڈاکٹر بھی تھا۔
لہٰذا اس کی گواہی مستند گواہی تھی۔ ڈاکٹر نے میری کچھ اور رہنمائی کی اور ہم نے زبانی زبانی کیس تیار کر لیا۔
میں نے آدھی رات کے بعد ڈسپنسر سے اقبالی بیان لینے یا دینے کے لیے تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولوی کو بھی رات کو لپیٹ میں لینا تھا۔
ابھی دن کا پچھلا پہر تھا۔ میں نے ایک کانسٹیبل کو اس نوجوان کو بلا لانے کے لیے بھیجا جس کے ساتھ ڈسپنسر کی بیٹی کے درپردہ تعلقات تھے۔
کانسٹیبل بہت دیر بعد واپس آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لڑکا گھر پر نہیں ملا۔ اس کے گھر والوں سے کانسٹیبل کہہ آیا تھا کہ وہ جیسے ہی گھر آئے اسے تھانے بھیج دیا جائے۔
میں نے کانسٹیبل سے کہا کہ وہ ڈسپنسر کے بڑے بیٹے کو بلا لائے، اس سے کچھ معلومات لینی ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ڈسپنسر کا بیٹا آ گیا۔ جب میں اس کے گھر سے آیا تھا تو اس پر بڑا اچھا تاثر چھوڑ آیا تھا، اس کے دل میں پولیس کا جو ڈر تھا وہ میں نے اس کے دل سے نکال دیا تھا۔
لیکن اس وقت میں نے اس کے چہرے پر جو تاثرات دیکھے وہ خوف کے بھی تھے اور پریشانی کے بھی تھے۔
میں نے اسے کرسی پر بٹھایا اور خیر خیریت پوچھی، اس کی گھبراہٹ دور کرنے کی کوشش کی۔
اس کے آنسو نکل آئے تو میں سمجھا کہ ہار اور نقدی کی چوری کا جرم اس نے کیا ہے اور اب یہ جرم اسے ملامت کر رہا ہے، اور یہ میرے آگے اپنے ضمیر سے جرم کا یہ بوجھ اتار پھینکنا چاہتا ہے۔ مگر جرم کے بوجھ کے بجائے اس نے مجھ پر ایک بم پھی
نک دیا۔ کچھ دیر میں اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
ڈسپنسر کے بیٹے نے مجھ سے کہا:
"تھانیدار صاحب، غریب آدمی پر کبھی بھی تھوڑی مصیبت نہیں آتی، جب بھی آتی ہیں تو ساری مصیبتیں ایک ساتھ آتی ہیں۔ پہلے ہمارا اتنا قیمتی ہار اور نقدی چوری ہو گئے، پھر ابا جان اتنے سنگین جرم میں گرفتار ہو گئے، اور اب رات سے میری بہن گھر سے غائب ہو گئی ہے۔"
میں نے پوچھا: "کون سی، چھوٹی یا بڑی؟"
اس نے بتایا کہ بڑی بہن رات سے غائب ہے۔ صبح جب دیکھا تو وہ اپنے بستر پر نہیں تھی۔ اوپر چھت پر دیکھا تو وہاں بھی نہیں تھی۔ دو ہی تو جگہیں تھیں، اوپر یا نیچے۔ دونوں جگہ پر وہ نہیں تھی۔ ایک دو گھروں سے پوچھا لیکن سوچا کہ اتنی سویرے اسے کسی کے گھر کیوں جانا تھا؟
بہت سوچا کہ اب کیا کریں۔ پھر میں اس لڑکے کے گھر گیا جس کے ساتھ اس کی بہن کو اس کے باپ نے چھت پر پکڑا تھا۔ وہ لڑکا بھی اپنے گھر میں نہ ملا۔ اب تک تین چار بار اس کے گھر جا چکا ہوں مگر وہ گھر پر نہیں ملا۔
میں نے پوچھا: "کیا تمہاری بہن کوئی زیور یا پیسے بھی لے کر گئی ہے؟"
اس نے کہا: "نہیں، کوئی بھی زیور یا پیسے نہیں لے کر گئی۔"
میں نے کہا: "تم میرے پاس کیوں نہیں آئے، رپورٹ کیوں نہ کروائی؟"
اس نے کہا: "مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آئی، بے عزتی کے سوا کیا حاصل ہوتا؟ وہ لڑکا بھی گھر سے غائب ہے، میری بہن یقیناً اسی کے ساتھ گئی ہوگی۔"
ڈسپنسر کی ظالمانہ ڈکٹیٹرشپ نے اپنے پچیس سالہ جوان بیٹے میں اتنی سی مردانگی بھی پیدا نہیں ہونے دی تھی کہ وہ اس صورتِ حال کے متعلق کچھ سوچ بھی سکتا۔
وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: "تھانیدار صاحب، کیا میں یہ بات اپنے باپ کو بتا دوں؟"
میں نے کہا: "وہ اس وقت حوالات میں بند ہے، اپنا خون جلانے کے سوا کیا کر سکتا ہے؟ اس لیے بہتر ہے کہ ابھی اسے کچھ نہ بتایا جائے۔"
میں اس بیٹے کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس کے نام سے اس کی بہن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کر لی اور اسے تسلی دی کہ وہ مجھے اپنا باپ سمجھے اور گھبرائے نہیں۔
اس کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے میں نے اس سے کہا کہ اپنے اوپر اتنا زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ "اگر گھر سے ہار اور نقدی تم نے نکالی ہے تو مجھے بتا دو، میں یہ ہار والا کیس ختم کر دوں گا، اور تم اپنی ساری توجہ بہن کی برآمدگی اور باپ کا مقدمہ لڑنے پر مرکوز کر لو۔"
اس نے جس انداز سے قسمیں کھائیں، مجھے یقین ہو گیا کہ چوری اس نے نہیں کی۔ اس سے اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر بیٹھا، جیسے میری پناہ میں چھپ جانا چاہتا ہو۔ میری ہمدردی سے وہ چھوٹا سا بچہ بن گیا۔ اس نے مجھ سے اپنے باپ کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا بنے گا۔
میں نے صاف طور پر کہا کہ اس کے باپ کے نصیب میں چار پانچ سال کی سزاے قید لکھی جا چکی ہے۔ پھر میں نے اسے واپس گھر بھیج دیا اور کہا کہ اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھے۔
اب مجھے لڑکی ڈھونڈنی تھی۔ وہ گزشتہ رات کسی وقت اپنے گھر سے نکلی تھی، اور اب اگلی رات شروع ہو چکی تھی۔
میں نے یہ رپورٹ خود ہی اپنے سر لے لی تھی، اس میں میرا جنون بھی شامل تھا اور ہمدردی بھی۔
یقین کرنے کے لیے کہ لڑکی اس نوجوان کے ساتھ گئی ہے، میں نے ایک کانسٹیبل کو اس نوجوان کے گھر یہ کہہ کر بھیجا کہ اگر وہ گھر پر نہ ملے تو اس کے باپ کو بلا لائے۔
تھوڑی دیر بعد اس نوجوان کا باپ آ گیا۔ میں نے اس سے اس کے بیٹے کے متعلق پوچھا۔ پہلے اس نے لاعلمی ظاہر کی، پھر جھوٹ بولنے لگا۔
جب میں نے پولیس والوں کا خاص لہجہ استعمال کیا تو اس نے بتایا کہ وہ رات کو کہیں نکل گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ پہلے کبھی وہ اس طرح بغیر بتائے کہیں نہیں گیا۔
میں نے پوچھا: "کیا ڈسپنسر نے کبھی تم سے شکایت کی تھی کہ تمہارا بیٹا اس کی بیٹی کو اپنی چھت سے اشارے کرتا ہے؟"
اس نے کہا: "تین بار ڈسپنسر نے شکایت کی تھی۔"
میں نے کہا: "تو کیا تم نے اپنے بیٹے کو ان بیہودہ حرکتوں سے منع کیا تھا؟"
اس نے بیٹے کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرکش اور نڈر ہو چکا ہے، اسے کچھ کہو تو مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔
میں نے اندازہ لگا لیا کہ ڈسپنسر کی بیٹی اسی نوجوان کے ساتھ نکل گئی ہے اور یہ بھی کہ ہار اور نقدی بھی یہی دونوں لے گئے ہیں۔
لیکن ہار اور نقدی تو ایک ہفتہ پہلے چوری ہوئے تھے۔ تو کیا چور کوئی اور تھا؟ یہ سوال مجھے تنگ کرنے لگا۔
اب دیکھنا یہ تھا کہ کیا یہ دونوں وارداتیں الگ الگ ہیں یا ان کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔
رات گزر رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد مجھے ڈسپنسر سے دو دو ہاتھ کرنے تھے۔ میں نے ڈسپنسر کو حوالات سے نکلوایا اور اپنے دفتر میں بٹھا لیا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس کی ذہنی حالت کیا ہو چکی ہوگی۔
میں نے کہا: "مجھے تمہارے اقبالی بیان کی کوئی ضرورت نہیں، تمہارا جرم ثابت ہو چکا ہے۔"
اس نے پوچھا: "کیا وہ آدمی مر گیا ہے؟"
میں نے کہا: "تم نے کسر تو کوئی نہیں چھوڑی تھی، لیکن اللہ نے اسے بچا لیا۔ مگر تم اسے مرا ہوا ہی سمجھو، وہ غریب آدمی سال دو سال تک کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔"
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا: "جس مذہب کے تم جنونی ہو، کیا وہ مذہب تمہیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی انسان کی جان لے لو؟ میں اگر تمہیں رہا کر بھی دوں تو پھر بھی تم خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔"
پھر میں نے دھیمی آواز میں کہا: "خدا کی بے آواز لاٹھی چل چکی ہے۔ تم جس بیٹی کو پردوں میں چھپا کر رکھتے تھے، وہ ایک نوجوان کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے۔"
میری بات سن کر اسے بہت بری طرح دھچکا لگا۔ اس کا گندمی رنگ سفید ہو گیا، زبان جیسے اکڑ گئی، آنکھیں ٹھہر گئیں۔
میں نے کہا: "اب جھوٹ بول کر خدا کے قہر میں اضافہ نہ کرو۔ اپنے گناہ کا اعتراف کر لو، شاید خدا تم سے راضی ہو کر تمہیں بخش دے۔"
اس کے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اسے تسلی دی اور بتایا کہ میں نے اس کے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھ لیا ہے اور اس کی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھ کر کارروائی شروع کر دی ہے۔
اس کے اقبالی بیان کی ضرورت تو نہیں تھی کیونکہ شہادت اور ثبوت مکمل تھے، مگر میں دراصل اس مولوی کے خلاف اس سے بہت کچھ کہلوانا چاہتا تھا۔
مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی، ڈسپنسر نے بیان دے دیا۔
میں نے جرح کے ذریعے اور لقمے دے دے کر مولوی کے خلاف ضرورت کی باتیں کہلوائیں۔
ڈسپنسر نے بتایا کہ جس عورت کے نام پر لوٹا گھوما تھا، اس کے متعلق اسے کئی بار خیال آیا کہ وہ عورت چور کس طرح ہو سکتی ہے۔