#میں_تم_اور_وہ
#قسط_تین
#از_قلم_نوشابہ_منیر
"تم آگ سے بنے ہو اور وہ مٹی سے ۔۔ آگ اور مٹی کبھی ایک نہیں ہو سکتے ۔ تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے ہو تم ایک شریف ماں کے بیٹے ہو میں تمھارے پورے خاندان کو اور خصوصی تمھاری ماں کو جانتا ہوں ۔ میں نہیں چاہتا تمھیں کچھ ہو اس لیے میں تمھیں ہاتھ باندھ کر التجاء کرتا ہوں اس لڑکی کو چھوڑ دو اس سے بہت دور چلے جاوّ خدا کے لیے دور چلے جاو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل حسن اسے کافی دیر سمجھتا رہا ۔ لیکن اس کی ایک ہی رٹ تھی ۔ وہ میرے بغیر مر جائے گا مجھے اس سے جدا نہ کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں تم سے محبت نہیں کرتی "۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نا جانے اچانک ایک دم سے کیسے غصہ آ گیا تھا میں عاجز آ گئی تھی اسکی محبت سے شاید اس لیے میں اتنے غصے میں آ گئی تھی میں نے اسکی بات تیزی سے کاٹتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔ کچھ پل کی خاموشی کے بعد میں نے اسے سمجھانے کے لیے تمحید باندھی ۔۔۔۔۔
" تم میرے بابا اور میرے انکل کے قاتل ہو اگر میں تم سے کبھی محبت کرتی بھی ہوتی پر قتل کے بعد میں تم سے شدید نفرت کرتی اپنوں کا کھونہ کتنا اذیت دیتا ہے تم جیسے بے حس کو کیا پتہ ابھی بھی تم محبت کا دم بھر رہے ہو میرے اپنوں کو چھین کر بھی تجھے سکون نہیں ملا میری زندگی اجیرن کر دی ہے تو نے ۔ تم میرے پیارے بابا اور انکل کے قاتل ہو یہ کیسی محبت ہے تمھاری "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
" جو بھی تیرے اور میرے بیچ آئے گا اسکے ساتھ ایسا ہی ہوگا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے غصے بھرے لہجے میں دو ٹوک کہا تھا ۔۔۔
" یہ کیسی محبت ہے تمھاری نہیں چاہیے مجھے تیری جھوٹی محبت "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے اپنا سوال ایک بار پھر سے دوہرانا چاہا تو اس نے بھی فوراً میری بات کاٹ دی تھی ۔
" محبت نہیں تم میری دیوانگی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں تم سے بار بار کہہ رہا ہوں اس سے دور چلے جاوّ چھوڑ دو اسے "۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے دوبارہ گفتگو میں حصہ لیا تھا ۔۔
" نہیں چھوڑوں گا میں اسے دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے جدا نہیں کر سکتی تم بھی نہیں ۔۔۔۔۔ سنا تم نے ۔۔ تم بھی نہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھا کر تمبیہہ کیا تھا ۔۔۔
اس کا غصہ دیکھ کر میری ٹانگوں نے مزید کھڑے ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ میں نے خود کو سنبھالنے کی کافی کوشش کی تھی پر افسوس خود کو نہ سنبھال سکی اور میں وہیں زمین پر جا گری تھی اسکے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا ان دونوں کے بیچ کیا باتیں ہوئیں کیا گفتگو ہوئی میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❤❤❤
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک ہسپتال میں پایا میں نے سر کو تھوڑا اونچا کر کے دیکھا تو انکل میرے بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھے تھے مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر انکے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔۔
" بیٹی اب کیسی طبیعت ہے تمھاری "۔۔۔؟
انہوں نے میرا سر دوبارہ تکیے پر سیدھا رکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔ ؟
"انکل اب کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا ابھی بھی میرے سر کے پچھلے حصے میں کافی درد تھا ۔ میرا سر پھٹنے کے قریب تھا خوف ڈر نے الگ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ آپ یقین کریں اب تو دن کو بھی ڈرنے لگی تھی ۔۔۔
" کیا ہوا تھا بیٹی آپکو ؟ آپ یوں اچانک زمین پر گری تھی میں تو کافی پریشان ہو گیا تھا آپکی وجہ سے اور بیٹی میں آپکو ایک گڈ نیوز دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
"اب آپکی پریشانی بھی ختم ہوئی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے مجھے حوصلہ دینے والے انداز میں بتا رہے تھے
میں فوراً سمجھ گئی تھی کہ انکل نے اسے مار ڈالا ہے ۔۔
" انکل کیا وہ مر گیا ہے ۔ آپ نے اسے مار ڈالا ہے ناں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خوشی اور حیرت سے پوچھا ؟ انکی بات سن کر دکھ بھی ہوا تھا اور تھوڑی خوشی بھی ہوئی تھی ۔ مجھے اپنی کیفیت خود سمجھ نہیں آتی تھی ۔۔۔۔ مجھے کبھی اسکی محبت پر غصہ آتا تھا تو کبھی بے حد افسوس ہوتا تھا اس بے چارے کا قصور بس اتنا تھا وہ مجھ جیسی بے حس لڑکی سے محبت کر بیٹھا ۔۔۔
میں انکی بات سن کر ایک دم فریش ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
" بیٹا اسے مارا تو نہیں ہے لیکن ؟ "۔۔۔۔ وہ ایک پل کے لیے خاموش ہوئے تھے ۔ میں نے بے قرار نظروں سے انکی طرف دیکھا ۔۔۔
" لیکن کیا انکل "۔۔۔۔۔ ؟ میں بے قراری سے بیڈ پر اٹھ بیٹھی
" میرا بچہ اسے قید ضرور کر دیا ہے ۔ اب وہ تمھارے پاس نہیں آئے گا تم فکر نہ کرو ۔۔۔
وہ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے تسلی دینے والے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔
" یہ بات تو میں بھی جانتی ہوں انکل کہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔ پر انکل میں چاہتی ہوں وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلا جائے وہ ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ دے ۔ اس بات کا کوئی مستقل حل ہے تو مجھے بتائیں وہ قید سے پھر آزاد ہو سکتا ہے وہ میری زندگی پھر سے اجیرن کر دے گا مجھے اس سے
بے حد ڈر لگتا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں اور لہجے میں چھپا خوف انکل نے بھی شاید محسوس کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
" بیٹی میری بات ذرا دھیان سے سنو ۔ اس کا بھی ایک حل ہے اگر تم چاہو تو وہ عمل بھی ہم کرتے ہیں پر اسکے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے میں اسے مارنا نہیں چاہتا وہ ایک بے حد شریف ماں کا اکلوتا بیٹا ہے اور اولاد کی تڑپ تو ماں کو قبر میں بھی سکون نہیں لینے دیتی ۔ جو عمل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اس عمل کے کرنے کے بعد اکثر جنات تو زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں وہ انسانوں سے بغض کینہ رکھنے لگتے ہیں وہ انسانوں سے اپنی نفرت کا بدلہ لے کے ہی چھوڑتے ہیں اور بعض جنات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ بدلہ لیے بغیر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اسد بہت ہی شریف ماں کا بیٹا ہے وہ خود بھی بے حد شریف ہے میں جب سے عملیات کی دنیا میں آیا ہوں کئی بار میرا ان لوگوں سے واسطہ پڑ چکا ہے اس پوری فیملی نے میرا بھرپور ساتھ دیا ہے ۔ جہاں جہاں مجھے مدد کی ضرورت پڑی تو اسکی ماں نے میرا ساتھ دیا تھا ۔ میں انکے احسانوں تلے دبا ہوا ہوں ۔ وہ میرے محسن ہیں ۔ میں نہیں چاہتا میری وجہ سے میرے محسن پریشان ہوں یا انکو میری وجہ سے کبھی کوئی تکلیف پہنچے ۔۔۔
پتہ نہیں کیسے وہ تم سے اتنی شدید محبت کر بیٹھا ۔ میں نے اپنے اثر و رسوغ سے اسکا مکمل پتہ کروا لیا ہے یہ واقعی تم سے
بے حد محبت کرتا ہے اس نے تمھاری خاطر اپنی منگتر تک کو چھوڑ دیا ہے ۔ وہ تمھیں کسی صورت نہیں چھوڑے گا ۔ مجھے تو یہی عمل جو ابھی میں آپکو بتاوّں گا بالکل صحیح لگ رہا ہے آگے رب جانے ۔ اور بس رب کی رضا شامل ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" انکل اگر یہ بھی اور جنات کی طرح زیادہ خطرناک ہو گیا تو ؟ ہمارا کیا ہوگا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے دل میں چھپا خوف آخر میری زبان پر آ ہی گیا ۔۔۔۔
" بیٹی الله پاک بہتر کرے گا کچھ فیصلے وقت پر چھوڑ دینے چاہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے انکل میں وہ عمل کرنے کو تیار ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اٹل لہجے میں کہا اور میں نے اسی لمحے اپنے دماغ میں یہی فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اب میں نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹانے موت تو بر حق ہے زیادہ سے زیادہ موت ہی آئے گی ناں اور ویسے بھی اس زندگی سے تو موت ہی بہتر تھی ۔۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے بیٹا ہم کچھ دن تک وہ عمل اسٹارٹ کرتے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" پر انکل وہ عمل ہے کون سا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بے چینی سے پوچھا ؟؟
جب انکل نے وہ عمل بتایا تو مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ آ گرے تھے مجھے عیجب سا محسوس ہونے لگا تھا بھلا یہ کیسے ممکن ہے ؟ جو انکل بتا رہے تھے ۔
" پر انکل یہ کیسے ممکن ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے حیرت اور خوف کی کیفیت سے پوچھا ؟؟
" بس تم راضی ہو جاو آگے تمھارا یہ بابا سنبھال لے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے حوصلہ دیا تھا ۔
میں کافی پریشان تھی ایسا کیسے ہو سکتا ہے بس میرے دماغ میں یہی ایک سوال گردش کر رہا تھا ۔ یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔ یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔۔
پھر بہت سارے دن گزر گئے انکل نے جو عمل کرنے کا کہا تھا وہ تو جیسے کرنا ہی بھول گئے تھے انکل سارا دن گھر سے باہر رہتے مغرب کے دوران وہ ہمارے گھر آ جاتے تھے ایک دو بار میں نے انکل سے کہا بھی تھا کہ آپ انکل ہمارے گھر آتے ہیں تو آپکے بیوی بچے تو پریشان ہوتے ہوں گے اس بات پر انکل نے ہنس کر کہا ۔۔۔۔۔
" میں اپنی بیٹی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا میرے بچے اب ماشاءاللّٰه جوان ہو چکے ہیں اپنا خیال اب وہ خود رکھ سکتے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کے بعد میں نے انکل سے پھر یہ بات کبھی نہیں کی مجھے اچھا نہیں لگا کہ ایک انسان آپکی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر آپ کے پاس رہنے آئے اور آپ روز ایک ہی بات کہہ کر ان کا مان توڑیں ۔۔۔۔۔۔یہ تو انکل کی اچھائی تھی جو سب چھوڑ کر وہ رات کے وقت آ جاتے تھے ۔ اپنی دوستی کا پورا پورا حق ادا کیا تھا انکل نے
کافی سارے دن گزر گئے
کہ ایک دن اچانک انکل دوپہر میں آئے اور انکے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جس کی عمر کوئی بیس بائیس سال کے لگ بھگ تھی ۔ وہ بلیک شرٹ اور سی گرین جینز میں ملبوس ایک دراز قد کا لڑکا تھا سفید رنگت پر موٹی موٹی مخمور کالی سیاہ آنکھیں پتلے پتلے گلابی ہونٹ ستون جیسی مغرور کھڑی ناک کتابی چہرہ
وہ مجسم حسن تھا وہ انکل حسن سے بھی مماثلت رکھتا تھا اسکی لمبی ناک بالکل انکل جیسی تھیں ۔ آنکھوں کا رنگ بھی ایک جیسا تھا اور دراز قد بھی انکل حسن کے جیسا تھا
میں نے چند لمحوں میں ہی اسکے مکمل سراپے کا جائزہ لے ڈالا تھا ۔۔۔
شاید اس نے دو تین دنوں سے شیو بھی نہیں کی تھی ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی نے اسکے حسن میں کئی گنا اضافہ کیا ہوا تھا ۔۔
میں نے اچانک اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا تھا ۔۔
میں نے حیرانی میں گردن موڑ کر انکی جانب دیکھا تھا ۔
وہ ہونٹ بھینچے زیر لب کچھ کہہ رہا تھا اسکے ماتھے پر پڑی شکنوں نے مجھے اور بھی حیران کر دیا تھا ۔۔۔
" آپ نے کچھ کہا مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے ہلکی سی آواز میں پوچھا ۔
اس نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے انکل کی طرف دیکھا ۔
" یہاں کوئی ہے جو میرے نام کی پکار کر رہا ہے ۔ کون ہو تم میرے سامنے آو ؟ "۔۔۔۔۔ اسکی بڑبڑاہٹ میں نے واضع سنی تھی وہ بھی فورا کرسی سے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
انکل نے آنکھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے دوبارہ کرسی پر بیٹھا دیا تھا ۔۔ وہ کرسی پر بیٹھا حیران نظروں سے سر دائیں بائیں گھما کر دیکھ رہا تھا ۔
" ارے بیٹی اس سے ملو یہ میرا بیٹا مومن ہے یہ مجھ سے بھی زیادہ علم جانتا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے علم پر زور دیتے ہوئے بلند آواز میں کہا تاکہ اسد سن سکے ۔۔۔ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس لڑکے کا تعارف کروایا تھا ۔۔۔
" اور بیٹا یہ وہی لڑکی ہے جس کا میں نے گھر پر ذکر کیا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔
" السلام علیکم ! "۔۔۔۔۔۔۔
اس لڑکے نے میری طرف دیکھ کر بڑی شائستگی سے اپنے سر کو جنبش دیتے ہوئے پشت آواز میں کہا ۔۔
" وعلیکم السلام آپ لوگ بیٹھیں میں آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سلام کا جواب دے کر جیسے ہی اٹھنے لگی تو انکل نے فوراً سے پہلے ٹوک دیا ۔۔
" ارے بیٹی تم بیٹھو اور میری بات سنو ہم کھانا گھر سے کھا کر آئے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے سہولت سے انکار کرتے ہوئے مجھے ایک بار پھر سے بیٹھا دیا تھا ۔
میں خاموشی کے سے انکل کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ صوفے پر بیٹھی تھی ۔ کمرے میں کچھ پل کے لیے خاموشی چھا گئی تھی ۔
وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے
" بیٹی تم بھی سوچ رہی ہو گی کہ انکل عمل کرنے کے بارے میں کہہ کر بالکل خاموشی اختیار کر لی ہے تو بیٹی ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں اس عمل کے لیے سب تیاری کر رہا تھا تمھاری مما ٹھیک ہوتی تو میں یہ بات ان سے کہتا پر آپکی مما ٹھیک نہیں تو اس مجبوری کی بناء پر وہ بات میں آپ سے کہہ رہا ہوں میں آپ کو اپنی بہو بنانا چاہتا ہوں کیونکہ اس گھر میں کسی ایک مرد کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ اور میرا بیٹا مجھ سے بھی زیادہ علم جانتا ہے
اس لیے میں چاہتا ہوں اسکے آزاد ہونے سے پہلے ہی میں آپکا نکاح اپنے بیٹے سے کر دوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے انکل کی بات خاموشی کے ساتھ سنی تھی ۔
" انکل آپکی بات ٹھیک ہے لیکن میرے نکاح سے اس جن کا کیا تعلق ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ میں نے اپنی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دل میں چھپی بات انکل سے کہہ ڈالی ۔۔۔
اس لڑکے نے کافی حیرت سے میری طرف دیکھا تھا
میں نے اسکی آنکھوں میں ایک عیجب الجھن دیکھی تھی ۔
" میں آپکو بتاتا ہوں کچھ جنات کنواری لڑکی سے محبت کرتے ہیں یہ بھی ان میں سے ایک ہے وہ لڑکیاں جیسے ہی شادی کرتیں ہیں تو وہ جن یا تو ان لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں یا پھر انکو بہت نقصان دیتے ہیں
بابا نہیں چاہتے وہ آپکو کوئی نقصان پہنچائے میں عمل کرنا جانتا ہوں اس لیے بابا چاہتے ہیں میں آپ سے نکاح کر لوں پہلے تو مجھے اپنے رب پر یقین ہے وہ آپکو چھوڑ دے گا اگر خدانخستہ اس نے آپکو کوئی نقصان پہنچانے کی ذرا بھی کوشش کی تو میں اسے دیکھ لوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات تو وہ بالکل درست کہہ رہا تھا ۔ اس گھر کو ایک مرد کی اشد ضرورت تھی اور سب سے بڑی بات یہ انکل کا بیٹا تھا وہ انکل جس نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا اور اب بھی دے رہے ہیں
" بیٹی تم سوچ لو اور میرے بیٹے کے بارے میں کچھ بھی پوچھنا ہو تو مجھ سے یا میرے بیٹے سے بھی پوچھ سکتی ہیں تمھاری پوری زندگی کا سوال ہے تم کسی سے بھی مشورہ کر سکتی ہو "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے مجھے سوچتا ہوا دیکھ کر میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوِئے کہا انکل نے میرے چہرے پر شاید الجھن بھرے تاثرات بھی دیکھ لیے تھے ۔۔۔
" اس میں سوچنے والی کون سی بات ہے بیٹی تمھارے انکل بالکل درست فیصلہ کر رہے ہیں اس گھر میں مرد کا ہونا بے حد ضروری ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔
مما جو سارا دن سوئی رہتی تھیں اب نہ جانے کیسے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ایک دم سے بولیں ۔۔
آپ یقین کریں مما کی بات سن کر میں پل بھر کے لیے سکتے میں آ گئی تھی میں نے شدت حیرت سے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر مما کی طرف دیکھا ۔
مما کا سر تو سر انکی آنکھیں بھی اثبات میں ہاں کہہ رہی تھی تب میں نے بھی جھکے سر کے ساتھ کہہ کر اس کمرے سے باہر چلی گئی تھی
" جیسے آپ سب کی مرضی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں میرے جانے کے بعد کیا باتیں ہوئیں تھیں میں کچھ بھی نہیں جانتی ۔۔۔۔۔
شام کو انکل کی پوری فیملی ہمارے گھر موجود تھی ۔ مجھے بے حد عیجب لگ رہا تھا ۔ میرے کمرے کی ایک کھڑکی جو نیچے لان میں کھلتی تھی ۔ جس سے لان کی چہل پہل ہوتی نظر آ جاتی تھی میں وہیں کھڑی نیچے مہمانوں کی چہل پہل دیکھ رہی تھی ۔ کہ مجھے اپنے کمرے میں کسی کی موجوگی کا احساس ہوا تھا میں نے اپنی گردن گھما کر پیچھے دیکھا
مما کمرے کے وسط میں کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
" ارے مما آپ وہاں کیوں کھڑی ہیں ؟
اندر آئیں ناں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بیٹی میں جانتی ہوں تم کافی پریشان ہو مجھے خود بھی کافی عیجب سا لگ رہا ہے یہ سب ۔ تمھارا بابا زندہ ہوتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا وہ بڑی دھوم دھام سے تمھاری شادی کرتے پر میں عورت ہوں اور ہوں بھی کافی کمزور و ناتواں ۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی
ہو سکے تو اپنی اس مما کو معاف کر دینا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما کی آنکھوں میں آنسو تھے جس نے میری آنکھیں بھی نمکین پانی سے بھگو دیں تھیں میں مما کو دکھی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی میں تو کیا دنیا کی کوئی بھی بیٹی ماں باپ کو دکھی نہیں دیکھ سکتی ہوں گی میں نے مما کو گلے سے لگایا
اور مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا ۔۔
" مما جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہمارے بھلے کے لیے ہی تو ہو رہا ہے آپ چپ کر کے ہونے دیں
ہم تقدیر کو بدل تو نہیں سکتے ناں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
مما مجھے گلے سے لگا کر بلک بلک کر رو پڑیں تھیں ۔
میں مما کا دکھ سمجھ رہی تھی وہ بابا کو مس کر رہی تھی انکو یاد کر کے رو رہی تھیں
پر میں بھی کیا کر سکتی تھی میں بھی تو مجبور تھی تقدیر کے ہاتھوں ۔۔
" بیٹی تم تیار ہو جاو وہ لوگ مولوی کو بلانے گئے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما شاید یہ بتانے آئی تھیں اور بتا کر کمرے سے چلی گئیں تھیں اور میں بھی خاموشی کے ساتھ کپڑے پہننے واش روم چل پڑی تھی ۔
یہ میری کیسی شادی تھی نہ لہنگا پہنا نہ گجرے پہنے
نہ چوڑیاں نہ مہندی نہ بارات آئی ۔۔۔ یہ سب کرنا لڑکیوں کا خواب ہوتا ہے میرا خواب چکنا چور ہو گیا تھا ۔۔۔۔
میں نے گھر والے کپڑے ہی پہنے تھے کچھ لڑکیاں میرے پاس رجسٹر لے کر آئیں اور میں نے اس پر اپنے دستخط کر دیئے تھے ۔۔
" بیٹی اب مجھے تمھاری کوئی فکر نہیں ہے میرا بیٹا تمھارا محافظ بنے گا ۔ ان شاء اللہ ۔۔۔۔ میں نے اپنی دوستی کا حق ادا کر دیا ہے میں قیامت والے دن انکے سامنے سرخرو رہوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور ہزار ہزار کے بہت سارے نوٹ میری ہتھیلی پر رکھ کر غمگین لہجے میں کہا ۔۔
آنٹی نے بھی دو سونے کے کنگن میری کلائی میں ڈالتے ہوئے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا تھا ۔
" بیٹا اب سے تم نے یہی رہنا ہے اور ان دونوں عورتوں کا خاص خیال رکھنا ہے ۔ وہ جب بھی آزاد ہوا سیدھا یہیں پر ہی آئے گا ۔ اور انہیں نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کرے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بابا اب آپ فکر نہ کریں اب یہ دونوں میری ذمے داری ہیں میں انکا خیال رکھنے کی پوری کوشش کروں گا
❤❤
"بابا آپ بلکل فکر نہ کریں میں ان دونوں کا پورا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا ۔ اب یہ میرے نکاح میں آ چکی ہے اسکا اب کوئی بال بھی بنکا نہیں کر سکتا انکو اب چھونے والی ہوا کو بھی پہلے مجھ سے ہی ٹکرانا ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن نے اپنے باپ سے پر عزم لہجے میں کہتے ہوئے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کافی ڈر لگ رہا تھا ۔ میں آیت الکرسی کا بھی ورد کرتی رہی پھر بھی دل انجانے خوف سے ڈرا رہتا تھا ہماری شادی کو آج چوتھا دن تھا ۔۔۔۔۔۔
میں آج صبح سے ہی انجانے خوف سے گھیری ہوئی تھی
پتہ نہیں کیوں دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا جبکہ میں جانتی بھی تھی کہ وہ مجھے چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ سکتا مومن بھی مجھے بار بار تسلی دیتا رہا کہ اب وہ تمھاری ہوا کو بھی نہیں چھو سکتا اسکے باوجود میرا خوف کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا تھا کیوں کہ میں یہ جانتی تھی کہ وہ بے حد طاقت ور ہونے کے ساتھ مجھ سے شدید محبت بھی کرتا ہے ۔ وہ کبھی مجھے کسی اور کا ہوتا برداشت نہیں کرے گا ۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک اور طاقتور ہو کر آِئے گا ۔ اس نے کتنی سفاکی سے انکل عرفان اور میرے بابا کو مار ڈلا تھا وہ بہت طاقت ور تھا میں اتنا جان چکی تھی اب کہیں وہ میرے مومن کو ہی کچھ نہ کہہ دے اب مجھ میں اپنوں کو کھونے کی سکت بالکل بھی نہیں تھی ۔ آج صبح سے ہی میرا دل پھر کافی خوفزدہ تھا ۔۔۔۔۔
رات کو مومن کی مما یعنی میری ساس کی کال آئی تھی انہوں نے ہم سب کو کھانے کی دعوت دی تھی مما سمیت ۔۔۔۔۔۔۔
مومن نے مجھ سے کہا ۔۔۔۔
" ہم سب کل مما کے گھر چلیں گے آپ تیار رہنا آنٹی سے میں خود بات کر لوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❤❤❤
میں صبح ہی صبح تیار ہونے لگی تھی جب مما سے کہا تو مما نے کہا ۔۔۔
" بیٹا آپ چلی جائیں میں گھر میں ہی ایزی فیل کرتی ہوں مجھے بس گھر میں ہی سکون ملتا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب میں نے بھی جانے سے انکار کر دیا کہ کیسے میں مما کو یوں اکیلا چھوڑ کر خود چلی جاوّں ۔۔۔۔
" مما میں آپکو تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتی اگر آپ نہیں جائیں گی تو میرا جانا بھی کینسل "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل ویسے بھی آج صبح ہی سے انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا جیسے آج کچھ ہونے والا ہو میری چھٹی حس نے مجھے پہلے سے ہی الرٹ کر دیا تھا
" بیٹی آپکی ساس نے آپ سے پہلی بار کچھ فرمائش کی ہے آپ کا جانا بنتا ہے ایسے ہی شروع شروع میں اس کے دل میں اپنے خلاف کدرتیں مت ڈالیں یہی تو عمر ہوتی ہے کھانے پینے کی آپ چلی جائیں میری ویسے بھی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں کچھ دیر سووّں گی ۔ بس آپ ایسا کریں میرے لیے دال چاول بناتی جائیں ۔ میں اٹھ کر کھا لوں گی آپ بس یوں کرنا رات کو ذرا جلدی آ جانا ۔ ویسے بھی تو میں سارا دن سوتی رہتی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما کی یہی بات میرے دل پر لگی تھی کہ مما صحیح تو کہہ رہی ہے وہ سارا دن تو سوئی ریتیں ہیں مجھے چلے جانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو مومن ناراض ہو جائے ۔ میں نے یہی سوچتے ہوِئے جانے کی تیاری شروع کر دی ۔۔۔۔
"اوکے مما میں آنٹی زینب سے کہہ دیتی ہوں وہ آ کر آپ کے ساتھ سارا دن رہے گی باقی آپ فکر نہ کریں میں شام پانچ 5 تک واپس آ جاوّں گی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنٹی زینب ہماری ہمسائی تھی اور مما سے انکی خوب بنتی تھی ۔ انکی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ اس لیے وہ مجھے بیٹی کہتی تھی ۔ انکا شوہر جاب کے سلسلے میں سارا دن گھر سے باہر رہتا تھا اور آنٹی گھر میں سارا دن تنہا ہوتی تھی میں نے سوچا چلو آنٹی اور مما مل کر بیٹھیں گے ان دونوں کا دن اچھا گزر جائے گا
میں جلدی سے دال چاول بنا کر آنٹی کے گھر انکو بلانے چلی گئی تھی ۔ آنٹی کو مما کے پاس بیٹھا کر ۔۔۔۔
میں مومن کے ساتھ انکے گھر چلی گئی تھی ۔۔۔
❤❤❤
میں انکے گھر آ کر بھی ہر ایک گھنٹے بعد مما کو کال کر کے انکی خیریت معلوم کرتی رہی تھی ۔ سارا دن تو میری مما سے بات ہوتی رہی لیکن تقریباً تین 3 بجے جب میں نے انکو کال کی تو انکا نمبرز آف تھا ۔ میں کچھ حیران ہوئی تھی ۔ پھر سوچا ہو سکتا ہے مما کے سیل کی بیٹری آف ہو گئی ہو کچھ دیر بعد جب دوبارہ کال کی تو بیل جا رہی تھی تب میں نے الله کا شکر ادا کیا ۔ لیکن مما نے کال اٹینڈ نہیں کی تھی ۔ جب میں نے دوبارہ کال ملائی تب بھی یہی صورت الحال رہی ۔۔۔ انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی تھی تو مجھے کچھ گھبراہٹ ہونے لگی تھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ جب میں نے اتنی کالیں کی ہوں تو مما نے اٹینڈ نہ کی ہوں
" بیٹی کیا بات ہے تم مجھے کچھ پریشان لگ رہی ہو
سب خیر تو ہے ناں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل نے میرے چہرے کے تاثرات سے ہی اندازا لگاتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا ۔۔ ؟
" جی انکل سب خیر ہے لیکن انکل مما میری کال رسیو نہیں کر رہی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کچھ پریشانی سے جواب دیا ۔
مومن نے بھی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا ۔۔۔
" ارے بیٹی ہو سکتا ہے آپکی مما سو رہی ہوں ۔ آپ پریشان نہ ہوں اللہ خیر کرے گا ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنٹی نے میرے آگے کوفتوں کی پلیٹ رکھتے ہوئے باتوں میں حصہ لیا تھا ۔
" آنٹی مجھے مما کی بہت پریشانی ہو رہی ہے ۔ آپ لوگ مجھے اب اجازت دیں میں گھر جانا چاہتی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خوفزدہ ہو کر سب پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
مومن نے میرے لہجے میں چھپی
بے قراری کو محسوس کرتے ہوئے ٹشو سے اپنے ہاتھ صاف کر کے اپنی بلیک چینز والی واسکٹ پہنی تھی ۔ پھر کھڑے ہوتے ہوئے کہا
" آئیں چلیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب نے مجھے بے چین دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی تھی ۔
میں سب سے سوری کرتے ہوئے پھر کبھی آوّں گی یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی
آپ یقین کریں سارا دن مطلع صاف رہا جب ہم گھر سے نکلنے لگے تو ایک دم سے گھنے گھنے بادلوں نے امڈ امڈ کر آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا
" کچھ تو گڑبڑ ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل اتنا کہہ کر کمرے کی طرف بھاگے تھے ۔
" مومن میرے بچے وہ یہاں سے آزاد ہو چکا ہے اپنا اور سب کا خیال رکھنا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❤❤❤
انکل نے کافی بلند آواز سے کہا تھا ہم دونوں نے انکی آواز با آسانی سنی تھی ۔۔
" کچھ نہیں ہوگا آپ فکر نہ کریں میں ہوں ناں آپکے ساتھ ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے مجھے تسلی دی تھی تب ہی ایک درخت کا موٹا تنا ہمارے گاڑی کے اوپر آ گرا تھا جس سے مومن کے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی خون کی ایک لہر اٹھی تھی گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی دور سڑک پر جا گری تھی مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا پر میرے مومن کو کافی چوٹیں آئیں تھیں گھٹنوں پر بھی کافی چوٹ آئی تھی
میں نے بڑی مشکل سے مومن کو گاڑی سے باہر نکلا تھا میرا دماغ بالکل ماوّف ہو چکا تھا سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے میں نے جب مومن کے سر سے اتنا خون بہتے ہوئے دیکھا تو میرا سر چکرانے لگا تھا ۔ میں نے جلدی میں اپنا دوپٹہ مومن کے سر پر جہاں سے خون بہہ رہا تھا سختی سے باندھ دیا تھا خون آنا بند تو نہیں ہوا تھا ہاں البتہ اسکے بہنے کی رفتار کچھ کم ضرور ہو گئی تھی ۔ مومن کے سارے کپڑے خون سے بھر چکے تھے وہ نیم بے ہوش سڑک پر پڑا تھا ۔ لوگوں کا ایک مجگھٹا سا لگا تھا ۔ کوئی کچھ کہہ رہا تو کوئی کچھ ۔ مجھے کسی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میرے چاروں طرف کسی کے قہقوں کی آوازیں گونج رہی تھی ۔ آسمان پر کالے بادل ایسے تھے جیسے ابھی برسنے والے ہوں ۔ میں نے مدد کے لیے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دور ہی میری آنکھوں کے سامنے سے کوئی سایہ سا گزرا تھا ۔ جب میں نے کچھ غور کیا تو وہ سایہ میری طرف آ رہا تھا ۔ میں نے آیت الکرسی پڑھنی چاہی پر ڈر اور خوف کی وجہ سے مجھے یاد نہیں آ رہی تھی بیچ میں ہی بھول جاتی تھی ۔ اتنے میں وہ سایہ میرے کچھ اور قریب آ گیا تھا ۔ میرے اوپر ڈر اتنا مسلط ہو گیا کہ میں نے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیں تھیں جیسے کوئی کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں میچ لیتا ہے
" میں نے کہا تھا ناں ابھی تم نے میری محبت دیکھی ہے ۔ جس دن میری نفرت دیکھی سہہ نہیں پاوّ گی "۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اتنا اچانک سے کہا کہ میں نے فوراً اپنی بند آنکھیں کھولیں تھیں
یہاں کھڑے سارے لوگوں نے آواز تو سنی تھی لیکن کسی کو نا پا کر بھوت بھوت کی آوازیں لگاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے تھے
اب سنسان سڑک پر میں اور وہ کھڑے تھے یا پھر مومن خون سے لت پت بے جان پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
" کیوں کر رہے ہو یہ سب کچھ اگر میرے مومن کو کچھ بھی ہوا تو یاد رکھنا میں خود کو ختم کر دوں گی ویسے بھی تم نے میرے سارے قیمتی رشتے تو چھین ہی لیے ہیں میرا بابا میرا انکل اور اب یہ مومن "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے کھوئے ہوئے رشتوں کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی ۔۔۔
" میں جتنی بھی کوشش کرتی بابا کو بھول جانے کی لیکن میرا بابا مجھے بھولتا نہیں تھا میں جب بھی انکو یاد کرتی ایک نئے سرے سے بکھر جاتی تھی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے رونے سے پتہ نہیں اسے کیا ہوا تھا وہ بنا کچھ کہے واپس پلٹ گیا تھا میں روتے ہوئے اسے جاتا دیکھ رہی تھی وہ مجھ سے کچھ دور جا کر ہوا میں ایک دم سے تحلیل ہوا تھا ۔ اسکے غائب ہوتے ہی میرا دماغ بھی کام کرنے لگ پڑا تھا ۔۔۔۔۔
میں نے جلدی میں انکل کو کال ملائی تھی کیونکہ اس وقت سڑک پر بس میں اور میرا مومن تھا دور دور تک انسان تو انسان پرندہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا انکل پانچ سے سات منٹ کے دوران یہاں آ چکے تھے ۔۔
" کیا ہوا بچے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے قراری سے میری طرف بڑھے تھے میں نے روتے ہوئے انکو سب کچھ بتا دیا تھا ۔۔
" او نو ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے بچہ وہ آزاد ہو چکا ہے میں نے تم لوگوں سے کہا بھی تھا اپنا خیال رکھنا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا کہہ کر اپنے بیٹے کی طرف بڑھ گئے تھے ۔۔۔۔
میں نے اور انکل نے بڑی مشکل سے مومن کو گاڑی میں ڈالا تھا ۔
" بچہ آپ نے اپنی مما کا پتہ کیا کہ آخر وہ کال کیوں رسیو نہیں کر رہی ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ انکل نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا ؟
" اففف انکل میں یہ بات بھول گئی تھی یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ میں مما والی بات بالکل ہی بھول گئی "۔۔۔۔۔
انکل نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر
میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
" لیں بچہ اپنی مما کو کال کر کے انکی خیریت معلوم کر لیں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے انکل کے ہاتھوں سے موبائل اٹھا کر مما کے نمبر پر کال ملائی تھی میری بیل مسلسل جا رہی تھی لیکن کوئی رسیو کرنے والا نہیں تھا میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا میں نے کوئی تین سے چار بار کال کی مما کو لیکن کسی نے بھی میری کال رسیو نہیں کی تھی مسلسل رنگ ٹون بجتی رہی بجتی رہی ۔۔۔۔۔
انکل نے میری طرف فکر مندی سے دیکھا میرے چہرے کے تاثرات نے انہیں میرے اندر کا حال بتا دیا تھا
" بچہ تم فکر نہ کرو الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا
ہم مومن کو ہوسپیٹل ایڈمٹ کروا کے تمھارے گھر تمھاری مما کا پتہ کرنے چلیں گے "۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ ہھیرتے ہوئے اپنی گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔
ہم جلدی ہوسپیٹل کے عقبی گیٹ پر موجود تھے ۔
ڈاکٹر نے جلدی سے مومن کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا تھا ۔
" بیٹا آپ ایسا کریں آپ گھر چلی جائیں مما کا پتہ کریں میری گاڑی پر ہی چلی جائیں آپکو تسلی ہو جائے گی ۔ ان شاء اللہ آپکی مما بالکل ٹھیک ہوں گی ۔ آپ مجھے کال کر کے بتا دینا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکل نے میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھیں تو میرے قریب آ کر پیار سے کہا تھا ۔۔
میں نے سامنے گھڑی پر نظر ڈالی تو حیران رہ گئی تھی رات کے نو 9 ہونے والے تھے میں دوپہر تین 3 سے نکلی تھی ۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ میں اتنی دیر گھر سے باہر رہوں تو مما نے اس دوران تین سے پانچ بار کال کر کے میری خیریت نہ معلوم کی ہو اور آج پہلی بار ایسا ہوا تھا
مما نے ایک بار بھی کال کر کے مجھ سے خیریت معلوم نہیں کی تھی اور نہ ہی میری کال اٹینڈ کی تھی مجھے واقعی میں پریشانی نے آ گھیرا تھا میں نے انکل سے گاڑی کی چابی لی اور ہوسپیٹل سے باہر آ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی مجھے شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا گھر کی ساری لائٹس آف تھیں
میں نے ساری لائٹس آن کیں
تو گھر ایک دم روش روشن ہو گیا تھا ہر چیز واضع نظر آنے لگی تھی میں خوف کی کیفیت میں مما مما پکارتے ہوئے مما کے کمرے میں جانے لگی تھی کہ مجھے کچن سے کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی تو میری جان میں جان آئی تھی مجھے اندازا ہوا کہ اس وقت مما کچن میں ہوں گی ۔۔۔۔۔
" مما آج تو آپ نے میری جان نکل لی تھی آپکو پتہ بھی ہے جب تک آپ کو کال کر کے آپکی خیریت معلوم نہیں کر لیتی مجھے کہیں سکون نہیں ملتا پھر بھی آپ نے میری کال اٹینڈ نہیں کی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بے قراری سے بولتے ہوئے کچن کا دروازہ کھول کر جیسے ہی کچن میں داخل ہوئی تو خوف اور شدید حیرت کا جھٹکا محسوس کیا تھا کچن میں ایک بہت ہی موٹی اور کالی بلی گوشت کا ایک بڑا سا ٹکڑا کھاتے ہوئے آواز پیدا کر رہی تھی جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ کوئی عام گھریلو بلی نہ ہو میں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ جنات ہر جانور کا روپ دھار لیتے ہیں خاص طور پر سانپ کتا اور بلی کا یہ خیال آتے ہی مجھ پر عیجب طرح کا خوف طاری ہونے لگا تھا ۔ اس خوف اور ڈر کے جھٹکے نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا ۔ میں خوف کی وجہ سے زمین پر جا گری تھی کیونکہ میری ٹانگوں نے مزید کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا ایک تو اسد کا خوف دوسرا مما کی پریشانی تھی خوف سے میرا برا حال تھا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر ابھی باہر آ جائے گا وہ موٹی کالی بلی مجھے گھورتے ہوئے آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہی تھی میں آہستہ آہستہ کولہوں کے بل خود کو اوپر گھسیٹ رہی تھی اور دل ہی دل میں اپنے رب کو یاد کرنے لگی تھی مجھے ایسا لگا جیسے آج میری موت اس موٹی کالی بلی کے ہاتھوں ہونے والی ہو تب ہی میرے موبائل پر کسی کی کال آنے لگی تھی میری ایک عادت تھی میں اپنی رنگ نونز پر اللہ کے نام لگاتی تھی اور آج بھی میری رنگ ٹون پر الله پاک کے نام لگے تھے جسے آج تک میں نے چینج نہیں کی تھی جیسے ہی ابھی کسی نے کال کی تو الله پاک کے نام کچن میں گونجنے لگے تھے
الله کے نام سنتے ہی اس بلی نے کچن کی کھڑکی سے باہر کی طرف چھلانگ لگا دی تھی
تب میں موقعہ پاتے ہی خود میں ہمت پیدا کرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تھی ۔
میں نے موبائل کی ٹون پر دھیان نہیں دیا تھا کہ اس وقت کس نے کال کی تھی مجھے چاہیے تھا جس نے بھی کال کی ہے اس سے مدد مانگ لیتی
لیکن ڈر اور خوف کی وجہ سے میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا وہ بالکل ماوّف ہو چکا تھا خوف کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو جیسے بالکل ختم ہو چکی تھی
میں مما مما پکارتے ہوئے مما کے کمرے کی طرف بھاگی تھی وہاں جا کر ایک جھٹکا اور لگا تھا میری ذات کو ۔ شاید جھٹکے لگنا میرا مقدر بن گیا تھا ۔
میری مما میری پیاری مما پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی ملی تھی مجھے میں روتے ہوئے مما کی طرف بھاگی مما کے پاوّں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن مما کے پاوّں کافی اونچے تھے ۔۔۔۔
میں رو رہی تھی گڑگڑا رہی تھی ۔ مما مما پکار رہی تھی ۔
پر میری پیاری مما نے کوئی جواب نہ دیا تھا میری مما مجھے چھوڑ کر اپنے حقیقی سفر پر گامزن تھی مما نے بھی بابا کی طرح فانی دنیا سے منہ موڑ لیا تھا ۔ وہ بابا کے پاس چلی گئیں تھیں بابا کی اچانک موت نے میری مما کو نڈھال کر دیا تھا اور آخر کار بابا کی محبت نے بھی مما کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رو رہی تھی چیخ رہی تھی گڑگڑا رہی تھی ۔۔۔۔
مما کو نیچے اتارنے کے لیے پر میں اکیلی لڑکی کیا کر سکتی تھی میں نے انکل کو کال ملانے کے لیے جیسے ہی اپنے پرس سے موبائل نکلانا چاہا تھا لیکن میرا موبائل پرس میں کہیں نہیں تھا پریشانی میں الله پاک سے دعائیں مانگتے ہوئے سوچنے لگی کہ آخری بار میں نے موبائل کہاں استعمال کیا تھا ۔ تب مجھے جھٹ سے یاد آیا کہ میں آخری بار کچن میں تھی جب کسی کی کال آئی تھی ضرور میرا موبائل وہی گرا ہوگا میں فوراً کمرے سے بھاگتے ہوئے کچن کی طرف آئی تو میری شدت و حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں وہی موٹی کالی بلی نے میرے موبائل کو تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا سم الگ پڑی تھی میں الٹے قدموں دوبارہ مما کے کمرے کی طرف بھاگنے لگی کہ اچانک میرے دماغ میں آیا مما کے کمرے میں کیوں جا رہی ہوں کون سی میری مما زندہ ہیں جو مجھے بچا لیں گی پھر میں مما کے کمرے میں جانے کی بجائے اپنے کمرے کی طرف دوڑ پڑی تھی ۔ اپنے کمرے میں آ کر سب سے پہلے میں نے کمرے کے دروازے کی کنڈی لگائی تھی پھر اپنے بیڈ پر جا کر بیٹھی تھی کچھ سکون کا سانس لیا ڈر اور خوف کی وجہ سے میرے پورے وجود پر لرزہ طاری تھا ٹانگیں جیسے بے جان ہو گئیں ہوں ماتھا پسینے سے شرابور تھا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ اسکے دھڑکنے کی آواز مجھ تک با آسانی پہنچ رہی تھی ۔ اگر میرے پاس اس وقت کوئی اور ہوتا تو شاید وہ بھی میری دھڑکن کی آواز سن سکتا تھا رات تھی کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی اپنے سامنے لگی وال کلاک پر میں نے جب نظر ڈالی تو ابھی بارہ 12 بجنے میں دس منٹ رہتے تھے میری نظر جیسے ہی گھڑی سے ہوتے ہوئے کھڑکی پر پڑِی تو میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا وہاں پہلے سے ہی وہی موٹی کالی بلی بیٹھی مجھے گھور رہی تھی میں نے الله پاک کا نام لیا ۔ میری ایک یہی بری عادت تھی کہ میں پریشانی میں آیت الکرسی پڑھنا بھول جاتی تھی اس بلی نے میرے کمرے میں چھلانگ لگائی اب وہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہی تھی ساتھ ساتھ زور سے میاں میاں بھی کیے جا رہی تھی میرا خوف کے مارے برا حال تھا میں جلدی میں بیڈ سے اٹھی اور بنا چپل پہنے دروازے کی طرف بڑھی کنڈی کھولی کمرے سے نکل کر مین گیٹ کی طرف بھاگی آپ یقین کریں میری آنکھوں کے سامنے ادھ کھلا مین گیٹ کا دروازہ آپ ہی آپ بند ہوا تھا تب میں نے وقت ضائع کیے بنا مما کے کمرے کی طرف بھاگی تھی مما کے کمرے میں پہنچ کر میں نے دروازہ بند کیا میری مما ابھی بھی پنکھے کے ساتھ اوپر لٹکی ہوئی تھی میں روتے ہوئے سامنے صوفے پر ٹانگیں اوپر کر کے آلتی پالتی مار کر بیٹھی رو رہی تھی روتے ہوئے الله سے دعائیں بھی مانگ رہی تھی کہ اچانک سے میری مما پنکھے سے دھڑم کر کے بیڈ پر آ گری تھی میری چیخ بلند ہوئی تھی
میں تم اور وہ، نوشابہ منیر ناول، Horror Stories Urdu, Urdu Jinnat Kahaniyan, Main Tum Aur Woh, Nooshaba Munir Novels, Urdu Horror Novel, Urdu Thriller, Urdu Suspense