یہ کہانی ہمیں ایک بہن نے بھیجی ہے۔ آئیں، انہی کی زبانی اس خوفناک واقعے کو شروع کرتے ہیں۔
میرا نام ثمن ہے۔ میں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اپنی زندگی کی کہانی یوں بیٹھ کر لکھوں گی، لیکن شاید وقت نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ کچھ باتیں دل میں زیادہ دیر نہیں رک سکتیں۔
میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں۔ میری زندگی بھی وہی تھی جو ایک عام عورت کی ہوتی ہے۔ صبح اٹھنا، بچوں کو تیار کرنا، شوہر کے لیے ناشتہ بنانا، گھر کے چھوٹے بڑے کام، اور شام کو سب کو کھانے پر بٹھا دینا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ لیکن جو بات میں آج لکھنے جا رہی ہوں، وہ معمول سے بہت دور ہے۔ وہ میری زندگی کا ایسا حصہ ہے کہ آج بھی اسے یاد کر کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ جاتی ہے۔
میری شادی کو پندرہ سال ہو چکے تھے۔ میرا شوہر جاوید ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھا۔ سیدھے سادے، کم بولنے والے، اور اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان۔ صبح وقت پر دفتر جانا اور شام وقت پر واپس آنا ان کی عادت تھی۔ ان کی واحد خوشی یہی تھی کہ گھر میں سکون رہے، بچے ہنسی خوشی رہیں۔ اللہ نے ہمیں دو بیٹے اور ایک بیٹی دی تھی۔
بڑا بیٹا شکیل دسویں جماعت میں تھا۔ تھوڑا غصے والا مگر دل کا صاف۔ دوسرا بیٹا علی آٹھویں جماعت میں تھا، شرارتی، ضدی، اور ہر وقت کھیل کود میں لگا رہنے والا۔ سب سے چھوٹی مریم چھٹی جماعت میں تھی، معصوم اور گڑیوں کی دنیا میں گم رہنے والی۔ یہ تینوں بچے میرے دل کی ٹھنڈک تھے۔
ہمارے پاس ایک پرانی مہران گاڑی تھی، پرانی ضرور مگر چلتی اچھی تھی۔ جاوید اسی پر دفتر جاتے۔ صبح جب گاڑی کا ہارن بجتا تو بچے ہنستے کھیلتے دوڑتے ہوئے سکول جانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ وہ منظر میرے دل کو خوشی سے بھر دیتا۔
جس واقعے نے سب کچھ بدل دیا… وہ اس گھر سے جڑا ہے جس میں ہم حادثے سے دو سال پہلے آئے تھے۔
یہ گھر ایک سنگل اسٹوری مکان تھا۔ تین کمرے، ایک کشادہ کچن، اور سب سے بڑھ کر بڑا سا آنگن۔ آنگن میرے لیے سکون کی جگہ تھی۔ شام کے وقت جب ہلکی ہوا چلتی تھی تو لگتا جیسے دن بھر کی تھکن اتر گئی ہو۔ بچے آنگن میں کھیلتے، اور ان کی آوازیں پورے گھر میں زندگی بھرتیں۔
لیکن اس گھر کی ایک بات تھی جو شروع سے میرے دل کو چبھتی رہی۔
کچن کے ساتھ ایک پرانا سا لکڑی کا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ آنگن میں نہیں کھلتا تھا، بلکہ گھر کے اندر کی طرف تھا۔ لکڑی پر زنگ لگا ہوا تھا اور تالہ اتنا پرانا کہ کھلتا ہی نہیں تھا۔
شروع میں دو ایک بار ہم نے کوشش بھی کی، مگر جب تالہ نہ کھلا تو اسے ویسے ہی چھوڑ دیا۔ میں کئی بار سوچتی کہ اس کے پیچھے کیا ہوگا، مگر پھر کسی نہ کسی کام میں لگ جاتی۔
ہمارا روزانہ کا معمول سیدھا سادا تھا۔ میں صبح سویرے اٹھتی، کچن میں جا کر چائے چڑھاتی، جاوید اخبار پڑھتے بیٹھے ہوتے، بچے آہستہ آہستہ جاگ جاتے۔ پھر سب تیار ہونے لگتے۔ کوئی جوتے ڈھونڈ رہا ہوتا، کوئی بستہ۔ اور جیسے ہی جاوید مہران کا ہارن بجاتے، سب بھاگتے ہوئے باہر نکل جاتے۔
ان لمحوں میں گھر ایک میلے کی طرح لگتا۔
مگر جیسے ہی سب چلے جاتے، اچانک گھر میں ایسی خاموشی چھا جاتی کہ کبھی دل کو سکون دیتی… اور کبھی عجیب سی بے چینی۔
خاص طور پر اُس پرانے دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے۔
وہ دروازہ اپنی خاموشی کے ساتھ جیسے مجھے گھورتا رہتا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا جیسے اندر سے کوئی ہلکی سی آواز آئی ہو۔ میں فوراً نظر ہٹا لیتی۔ خود کو سمجھاتی کہ یہ وہم ہے۔
جاوید نے کبھی اس دروازے کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔
میں جب بھی رات کو دیر تک کچن میں کھڑی رہتی، خاص طور پر برتن دھوتے ہوئے، عجیب سا احساس مجھے گھیر لیتا۔ لگتا جیسے کوئی اس بند دروازے کے دوسری طرف کھڑا ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں کئی بار پلٹ کر دیکھتی، حالانکہ عقل کہتی کہ وہاں کچھ نہیں ہوگا۔ مگر دل… دل ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میں خود کو سمجھاتی رہتی کہ یہ میرا وہم ہے، مگر شاید یہی معمول وہ جڑ تھا جو آہستہ آہستہ ہمارے گھر کا سکون بدل رہا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔
بچے اپنی پڑھائی میں گم رہے، جاوید اپنی نوکری میں مصروف، اور میں گھر کے کام سنبھالتی رہی۔ باہر سے دیکھنے والے کے لیے ہمارا گھر ایک عام سا گھر تھا، مگر ہمیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس بند دروازے کے پیچھے کیا چھپا بیٹھا ہے۔
یہ سب ایک شام بدل گیا۔
اس دن جاوید نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا،
“ثمن، یہ دروازہ اب کھولنا پڑے گا۔”
اس کی بات سن کر میرے اندر جیسے کوئی چیز سمٹ گئی۔ دل چاہتا تھا اسے منع کر دوں، لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا،
“ابھی کیا ضرورت ہے؟ رہنے دو نا اسے…”
جاوید ہنس پڑا۔
“ثمن، یہ تم عورتوں کا ڈر ہے۔ پورا حصہ خالی پڑا ہے، دھوپ بھی پڑتی ہے، کپڑے بھی سکھا سکتے ہیں، پرانا سامان بھی رکھ سکتے ہیں۔ یوں جگہ ضائع ہو رہی ہے।”
اسی وقت شکیل بھی پاس آگیا۔ اس کی آنکھوں میں تجسس تھا۔
“ابو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ابھی کھولتے ہیں!”
جاوید نے الماری سے ایک پرانا سا وزنی لوہے کا ہتھوڑا نکالا اور دونوں دروازے کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ میں کچن میں کھڑی تھی، اور میرا دل دھڑک رہا تھا۔
شکیل نے زور لگا کر تالے کو حرکت دینے کی کوشش کی۔ زنگ آلود لوہے کی وہ چرچراہٹ کمرے میں گونجی۔ آواز اتنی کھردری اور عجیب تھی کہ مجھے لگا یہ دروازہ کھولنے کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ ہمیشہ کے لیے بند رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
جاوید نے بھی زور لگایا۔
ہتھوڑا کئی بار تالے پر پڑا، مگر تالہ تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پسینے کے قطرے جاوید کی پیشانی پر چمکنے لگے۔
شکیل ہانپتے ہوئے بولا،
“ابو… یہ تو کھل ہی نہیں رہا…”
جاوید نے آخری بار زور لگایا، پھر گہری سانس لی اور ہتھوڑا زمین پر پھینک دیا۔
“چھوڑو، آج نہیں کھلے گا۔ کل دفتر سے آتے ہوئے کسی مستری کو ساتھ لاؤں گا۔ وہی کھول لے گا اس زنگ آلود تالے کو۔”
میں نے اندر ہی اندر سکون کی سانس لی۔
دل تو یہی چاہتا تھا کہ یہ دروازہ کبھی نہ کھلے، لیکن زبان سے صرف اتنا نکلا،
“جو بہتر لگے وہی کر لو…”
شکیل تھوڑا مایوس سا تھا۔ وہ دروازے کو دیکھتا رہا جیسے اس کے پیچھے کوئی راز چھپا ہو۔ جاوید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا،
“چلو بیٹا، کھانا کھاتے ہیں۔”
ہم سب کچن سے باہر آگئے۔
دروازہ اپنی جگہ بند کھڑا تھا… جیسے خاموشی سے ہماری باتیں سن رہا ہو۔
اس رات مجھے نیند آنے میں بہت دیر لگی۔ بار بار یہی خیال آتا رہا کہ اگر یہ دروازہ کھل گیا تو جانے کیا سامنے آئے گا۔ دل کہتا تھا یہ محض ایک پرانی جگہ ہے، مگر نہ جانے کیوں ایک انجانا سا ڈر میرے دل میں بیٹھ گیا تھا۔
اگلی صبح سب کچھ بالکل عام لگا۔
بچے سکول کے لیے تیار ہو رہے تھے، جاوید جلدی جلدی چائے پی رہا تھا، اور میں ناشتہ سمیٹ رہی تھی۔
جاوید کے ذہن میں البتہ کچھ اور تھا۔
جاتے ہوئے بولا،
“آج واپسی پر مستری لے آؤں گا۔ یہ دروازہ آج ضرور کھلے گا۔”
یہ سن کر وہی گھبراہٹ پھر دل میں اُبھری، مگر میں نے کچھ نہیں کہا۔
شام کے قریب، مغرب کے وقت، جاوید ایک آدمی کو ساتھ لے آیا۔ درمیانی عمر کا مستری تھا۔ ہاتھ میں ٹولز کی چھوٹی تھیلی۔
جیسے ہی وہ اندر آیا، سیدھا دروازے کے پاس گیا۔
میں کچن کے دروازے سے دیکھ رہی تھی۔
مستری نے تالے کو گھور کر دیکھا، پھر مسکرا کر بولا،
“بی بی، یہ تو پرانا ہے۔ دس منٹ میں کھل جائے گا۔”
اس نے ہتھیار نکالے۔
ہتھوڑا، پیچ کس، چمٹا۔
آہستہ آہستہ زنگ آلود تالے کو چھیڑنے لگا۔
لوہے کے رگڑنے اور ٹوٹنے کی آوازیں پورے گھر میں گونجنے لگیں۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے دیواریں بھی سن رہی ہوں۔
شکیل پاس کھڑا دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
میں اور بچے پیچھے کھڑے تھے۔
آخرکار ایک زور دار جھٹکے کے بعد تالہ ٹوٹ گیا۔
دروازے کے قبضے چرچرانے لگے۔
مستری نے گرد جھاڑی اور کہا،
“بس جی، کھل گیا۔ نیا تالہ لگا دینا۔”
جاوید نے پیسے دیے اور وہ چلا گیا۔
اب سب کی نظریں دروازے پر تھیں۔
جاوید نے لکڑی کو آہستہ سے دھکیلا۔
دروازہ ایک لمبی، بھاری چرچراہٹ کے ساتھ اندر کھل گیا۔
اندر سے باسی ہوا کا جھونکا آیا۔
بو اتنی تیز تھی کہ ہم سب نے فوراً ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔
اندھیرا تھا۔
جاوید نے شکیل سے کہا،
“بیٹا، ایک ٹارچ لے آؤ۔”
وہ بھاگ کر ٹارچ لے آیا۔
جیسے ہی روشنی اندر گئی، جگہ صاف دکھائی دینے لگی۔
ایک بڑی خالی جگہ۔
چاروں طرف مٹی، گرد، پرانی لکڑیاں، بوسیدہ کپڑے، ٹوٹی کرسیاں۔
بدبو بہت شدید تھی۔
جاوید بولا،
“سب پیچھے ہو جاؤ، میں اور شکیل اندر جا کر دیکھتے ہیں۔”
میں بھی ہمت کر کے اندر گئی۔
ہم نے صفائی شروع کی۔
مٹی کے بادل اڑتے رہے۔
بچے کھانسنے لگے تو میں نے انہیں اندر بھیج دیا۔
ایک گھنٹے میں ہم نے جگہ قابل استعمال بنا دی۔
اگلے دن میں نے فرش دھویا، پانی ڈال کر صفائی کی۔
بدبو کچھ کم ہوئی، ہوا صاف ہونے لگی۔
پہلی بار لگا کہ شاید واقعی یہ جگہ کام آسکتی ہے۔
ہم نے پرانا سامان وہاں رکھ دیا، ایک چارپائی لگائی، کپڑے سکھانے کے لیے رسی باندھ دی۔
شام کو جب جاوید آیا اور اس نے سب دیکھا تو خوش ہو کر بولا،
“ثمن، جگہ تو بہت کام کی ہے۔ اتنے دن بلا وجہ بند رہی۔ اب دیکھو کتنا آرام ہو گیا۔”
اس دن کے بعد وہ جگہ ہمارے معمول کا حصہ بن گئی۔
کبھی میں کپڑے سکھاتی، کبھی بچے کھیلنے جاتے، کبھی جاوید نہا کر بیٹھ جاتا۔
شروع میں سب ٹھیک لگا…
لیکن چند دن بعد مجھے وہاں ایک ایسی ٹھنڈک محسوس ہونے لگی جو گھر کے کسی اور حصے میں نہیں تھی۔
گرمیوں میں بھی لگتا جیسے کسی اور سمت سے برفیلی ہوا آرہی ہو۔
کبھی کبھی یوں لگتا جیسے کوئی چپ چاپ مجھے دیکھ رہا ہو۔
آہستہ آہستہ ایک عجیب سی تبدیلی شروع ہوئی۔
پہلے میں نے اسے وہم سمجھا۔
پر…
ہر بار جب میں اس خالی جگہ سے باہر آتی، سر بھاری ہونے لگتا۔
کبھی چکر آتے، کبھی دل مچلانے لگتا۔ میں نے سوچا شاید صفائی کے باوجود پرانی بدبو یا گرد باقی رہ گئی ہو۔
ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس کمرے میں کپڑے لٹکا رہی تھی۔ اچانک دل میں گھبراہٹ دوڑ گئی۔ ہاتھ لرزنے لگے، اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ میں نے گھبرا کر دروازے کا فریم پکڑا اور باہر نکل آئی۔ کپڑے پسینے سے بھیگ گئے تھے۔
شکیل نے پانی پکڑایا۔
جب جاوید کو پتہ چلا تو فوراً بولا،
“ثمن، یہ سب کمزوری ہے۔ بہت زیادہ کام کر رہی ہو۔ کل تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔”
اگلے دن وہ مجھے شہر کے ایک مشہور کلینک لے گیا۔
ڈاکٹر نے تفصیل سے معائنہ کیا، بلڈ پریشر لیا، دو تین سوال پوچھے اور ہلکی مسکان کے ساتھ بولا،
“کچھ نہیں، صرف تھکن ہے۔ آرام کیجیے، دوا دے دیتا ہوں۔”
میں نے بھی یہی سمجھا کہ شاید واقعی جسمانی کمزوری ہے۔
لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔
جب بھی میں اس کمرے میں زیادہ دیر رکتی—
چکر آ جاتے، ہاتھ ٹھنڈے پڑ جاتے، دل میں ایک عجیب سا خوف سرایت کر جاتا۔
اور جیسے ہی باہر آتی، طبیعت کچھ بہتر ہو جاتی۔
ایک دن جاوید نے ہنستے ہوئے کہا،
“ثمن، تمہیں وہ خالی جگہ پسند نہیں آئی نا؟ اسی لیے بہانے بنا رہی ہو۔”
لیکن میں جانتی تھی… یہ بہانہ نہیں تھا۔
میرے ساتھ واقعی کچھ ہورہا تھا۔
رفتہ رفتہ کیفیت بڑھتی گئی۔
کبھی کھانا پکاتے پکاتے متلی ہونے لگتی،
کبھی رات کو اچانک آنکھ کھلتی اور دل بہت زور سے دھڑکتا۔
پھر ایک رات… وہ رات سب بدل گئی۔
بچے سو چکے تھے۔
جاوید اخبار دیکھ رہا تھا۔
اور میں کچن میں برتن سمیٹ رہی تھی۔
گرمیوں کی راتیں تھیں، کام اکثر دیر تک چلتا ہے۔
برتن دھوتے ہوئے یاد آیا کہ سبزی رکھنے والی ایک چھوٹی ٹوکری پیچھے والے خالی حصے میں رکھی ہے۔ سوچا ابھی ہی نکال لوں، صبح کی دوڑ دھوپ بچ جائے گی۔
رات کا وقت تھا، عجیب سا سنّاٹا پھیلا ہوا تھا، مگر میں نے خود کو سمجھایا…
“یہ میرا اپنا گھر ہے، ڈرنے کی کیا بات۔”
میں نے چھوٹی ٹارچ پکڑی اور آہستہ آہستہ پچھلے حصے کی طرف بڑھنے لگی۔
وہاں ہمیشہ ایک غیر معمولی خاموشی ہوتی تھی، جیسے ہوا بھی رک رک کے چلتی ہو۔
جیسے ہی قدم اندر رکھا، ایسا لگا جیسے ہوا اچانک تھم گئی ہو۔
میں نے ٹارچ گھمائی—
ٹوکری کونے میں ہی پڑی تھی۔
مگر میری نظریں وہاں رکی ہی نہیں…
میری نظر اس جگہ قید ہو گئی جہاں ہلکی روشنی میں ایک عورت کھڑی تھی۔
سفید کپڑوں میں لپٹی...
بال بکھرے ہوئے...
چہرہ جھکا ہوا…
اور ہر طرح کی آواز سے خالی۔
بس کھڑی تھی۔
میرے ہاتھ کانپنے لگے۔
ٹارچ پکڑنے کی سکت نہ رہی۔
دل زور سے دھڑکنے لگا۔
سانس رُکنے لگی۔
جسم جیسے بے جان ہو گیا۔
میری انگلیوں سے ٹارچ چھوٹ کر زمین پر گری۔
شیشے کی ہلکی سی کھنک پورے اندھیرے میں گونج گئی۔
اسی لمحے پیچھے سے جاوید کی آواز آئی،
“ثمن…!”
وہ نہ جانے کیسے فوراً پہنچ گیا۔
شاید میرے قدموں کی چاپ سن لی تھی یا دل میں کوئی خدشہ تھا۔
اس نے مجھے بازوؤں سے تھام کر اٹھایا۔
“کیا ہوا؟ تم یہاں کیوں گری ہوئی تھیں؟”
میں کانپتی ہوئی آواز میں بس اتنا کہہ سکی،
“جاوید… وہاں… وہ عورت… سامنے کھڑی ہے…”
جاوید نے فوراً نظریں گھمائیں اس طرف جہاں میں اشارہ کر رہی تھی۔
لیکن اس کا چہرہ بالکل خالی تھا۔
“کون عورت؟ ثمن… یہاں کوئی نہیں…”
لیکن مجھے تو صاف دکھائی دے رہی تھی۔
وہی سفید کپڑوں والی عورت…
ٹھیک سامنے…
بالکل وہیں…
میں نے کمزور آواز میں کہا،
“تمہیں نظر نہیں آرہی…؟”
جاوید نے میرے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے،
“ثمن، کچھ نہیں ہے… تمہارا وہم ہے…”
میں کچھ کہنا چاہتی تھی، مگر زبان جیسے پتھر ہو گئی تھی۔
دل کی دھڑکن بے قابو۔
سانس بے ترتیب۔
آخرکار جاوید مجھے تقریباً گھسیٹتے ہوئے اندر لے آیا۔
اس رات میں بخار میں جلتی رہی۔
بار بار ہڑبڑا کر اٹھ جاتی کہ شاید وہ عورت دوبارہ سامنے آ جائے۔
جاوید پانی پلاتا رہا، تسلی دیتا رہا…
مگر اس کی آنکھوں میں بھی اب ایک عجیب سا خوف تھا جسے وہ چھپا نہیں پا رہا تھا۔
اگلی صبح فیصلہ ہو گیا۔
جاوید نے مزدور بلائے،
اور اس خالی جگہ کو ہمیشہ کے لیے بند کروا دیا۔
اینٹیں لگیں،
سیمنٹ بھرا گیا،
راستہ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
گھر میں اب کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔
مگر میرے دل میں…
وہ منظر آج بھی زندہ ہے۔
میں جتنا بھی بھولنے کی کوشش کرتی ہوں،
وہ سفید کپڑوں والی عورت…
میری آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔
میں ہوں کریم خان، اور آپ د
یکھ رہے ہیں ہمارا یوٹیوب چینل Kareem Voice.
اگر آپ بھی اپنی سچی کہانی ہمیں بھیجنا چاہتے ہیں تو ڈسکرپشن میں ہمارا واٹس ایپ نمبر موجود ہے، وہاں ہمیں میسج کر سکتے ہیں۔
اور کمنٹ میں ضرور بتائیے گا کہ آپ کو ہماری کہانیاں کیسی لگتی ہیں۔
ہم خوفناک کہانیاں اور نوولز بھی اپنے چینل پر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔
➤ مزید پڑھیں: چھوٹی مالکن بڑی قیمت
