![]() |
"رازِ دل" "قسط نمبر 07" از "کنزہ خان" Don't copypaste without my permission 🚫🚫 °°°°°° 💖💖💖 ارادہ کچن میں موجود شازیہ بیگم کے پاس جانے کا تھا لیکن نگین بیگم کے بلانے پر ان کے پاس آ کے بیٹھ گئی انھوں نے اس سے باتیں کی تو اس نے پہلے کی نسبت قدرے مسکرا کے جواب دیئے۔۔۔۔ سب تو وہ جان ہی چکی تھیں لیکن ان کے دل میں ابھی بھی ایک سوال تھا۔ منت تم گھر سے آئی کیوں تھی ؟۔۔۔۔" انھوں نے دل میں کب سے مچلتا سوال پوچھا تو منت کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی اور ایک سایہ سالہرایا۔۔۔۔ اس بات کا جواب تو سب جانا چاہتے تھے لیکن منت کے خاموش رہنے پر کسی نے اسے مزید بولنے کے لیے اسرار نہیں کیا سب سمجھ چکے تھے کہ وہ ابھی نہیں بتانا چاہتی۔۔۔۔ سب ایک دم خاموش ہو گئے تھے جب شازیہ بیگم نے اطلاع دی کہ " کھانا لگ چکا ہے۔" سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا پھر چائے پینے میں مصروف ہو گئ داجی نے چائے کا ایک گھونٹ بھر اپھر کہنا شروع کیا۔۔۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ منگنی کی بجائے نکاح کر دیتے ہیں .... نکاح کے بعد اگر بچے چاہیں تو ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا دیں۔" سب کو تجویز پسند آئی تو سب نے مطمئن سے ہو کے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن نکاح کے بعد ہم نے انتظار نہیں کر نا ہم جلدی ہی شادی چاہتے ہیں آپ تاریخ فائنل بتا دیں ہم نے نکاح کے اگلے روز سے ہی ڈھولک اور مہندی وغیرہ کی رسمیں شروع کر دیتی ہیں۔ " " داجی اتنی جلدی ... ہم نے کچھ تیاریاں بھی کرنی ہیں۔" زین صاحب نے کہا تو داجی بولے کیسی تیاریاں ؟.... جو تیاریاں آپ نے کرنی ہیں وہ ہی ہم نے بھی کرنی ہیں تو اتناہی وقت لگتا ہے لیکن اگر تیاریوں سے آپ کی مراد جہیز ہے تو آپ ایسی تیاریاں بھول ہی جائیں کیونکہ جہیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت ناپسند فرمایا ہے اور ہمارے بچوں کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔" " پھر بھی داجی " زین صاحب نے کہنا چاہا تو دراجی نے سختی سے انھیں ٹوک دیا تو وہ بھی خاموش ہو گئے۔ اگلے مہینے کی تاریخ فائنل ہوئی تھی مہینے کے درمیان میں شادی رکھی گئی تھی۔۔۔۔ نومبر شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا اور اس مہینے کے درمیان میں شادی تھی۔ اب ہم چلتے ہیں راجی بہت رات ہو گئی ہے۔" زین صاحب نے کہا تو داجی نے اثبات میں سر ہلا یا سب اٹھ کھڑے ہوئے تو منت نگین بیگم کے گلے ملی " خداحافظ پھپھو " منت نے مسکراتے ہوئے کہا تو نگین بیگم کی مسکراہٹ سمٹی کیا مطلب ہے خداحافظ ؟.... اب تمہاری فیملی مل گئی ہے اب گھر چلو ہمارے ساتھ ۔ " یا سر کی آواز گونجی تو سب کے چہروں پہ سایہ سالہرایا گھر چلو مطلب ؟ .... وہ ابھی اپنے گھر میں ہی ہے۔ " ضر غام نے کہا وہ آپ کے گھر میں ہے .... یہ اس کا گھر نہیں ہے۔" زین صاحب نے کہا ایسے کیسے نہیں ہے ہم نے اڈوپٹ کیا ہے منو کو۔" سکندر صاحب پریشانی سے بولے جبکہ مقدم کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا کیا منت واپس چلی جائیں گی ؟.... کیا میں انھیں کبھی دیکھ نہیں سکوں گا؟۔۔۔۔" اس خیال کے آتے ہی مقدم کے جسم سے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا تھا۔ " آپ نے اڈوپٹ کیا ہے لیکن ہم اب منت کو دینا نہیں چاہتے ہم نے ایک بار دے کر دیکھ لیا ہے .... ہم مانتے ہیں کہ بچی یہاں خوش ہے لیکن ہم منت کو واپس چاہتے ہیں۔" زین صاحب نے کہا تو داجی کی آنکھوں میں سرخی اتری۔۔۔۔ انھوں نے غصے سے زین صاحب کو دیکھا زین صاحب ! بچی سے پوچھ لیں وہ جانا چاہتی ہے ؟.... اگر وہ چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" داجی کے الفاظوں نے سب کی سماعتوں میں بم پھوڑا تھا۔ " داجی میری بیٹی کہیں نہیں جائے گی وہ یہیں رہے گی۔" شازیہ بیگم ایک دم رونے لگی تھیں سکندر صاحب نے انھیں تھاما مام بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں منو کہیں نہیں جائے گی۔" ارمغان نے کہا "منت" نگین بیگم کی بھرائی آواز آئی تو منت جو ہو نک بنی سب کو دیکھ رہی تھی ان کی طرف متوجہ ہوئی "ہم نے تمھیں دے کر غلط کیا تھا تم واپس چلو .... ہمارے پاس واپس آجاؤ۔ " نگین بیگم نے کہا اور با آواز رونے لگیں۔۔۔۔ سب لوگ منت کے جواب کے منتظر تھے جو خاموش کھڑی تھی وہ خاموشی سے سب کے چہرے دیکھنے لگی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ گھبرارہی تھی اس نے ایک نظر سب پہ ڈالی سب بے چینی سے اس کے جواب کے منتظر تھے جب اس کی نظر مقدم پر پڑی۔۔۔۔ اس کا چہرہ بالکل سفید تھا وہ منت کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھا اس کی آنکھوں میں اس وقت التجاء تھی ۔۔۔۔ منت کو لگا جیسے اس کی آنکھیں اس وقت اس سے منت کر رہی ہیں کہ منت مت جائیے گا۔۔۔۔ وہ دم سادھے سانسیں روکے، ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ چند لمحے یوں ہی اسے دیکھتی رہی پھر نگاہوں کا رخ نگین بیگم کی جانب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ پھپھو آپ کو پتہ تو ہے میں نے واپس نہیں آنا۔" منت نے کہا تو مقدم کے چہرے پر قدرے سکون بکھر الیکن اگلے ہی لمحے اس کا سانس رکا۔۔۔۔ شازیہ بیگم آگے بڑھیں اور منت کو تھاما "ہماری متو کہیں نہیں جائے گی۔" شازیہ بیگم غصے سے بولیں تو سب لوگ پریشان ہو گئے۔ شازیہ ! میں آپ سے اپنی بیٹی واپس مانگتی ہوں .... میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں چاہتی بس آپ مجھے میری بیٹی واپس کر دیں۔ " نگین بیگم نے روتے ہوئے کہا تو سب کی آنکھیں نم ہو گئیں "شازیہ منت کو جانے دو " داجی کی سپاٹ آواز گونجی تو سب نے بیک وقت داجی کو دیکھا۔۔۔۔ منت نے کرب سے آنکھیں بند کیں آنسو اس کے رُخسار بھیگو گئے۔ "دا جی آپ؟" ضر غام کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی جب داجی نے ہاتھ اٹھا کے اسے مزید بولنے سے روک دیا منت انہی کی ہے اسے جانے دو۔" واجی نے کہا تو سب مجبوراً خاموش ہو گئے یارم اور بالاج نے بیک وقت مقدم کو دیکھا تو پریشان ہو گئے وہ سفید پڑا ہوا تھا۔ نگین بیگم نے منت کا ہاتھ تھاما تو مقدم تڑپ اٹھا وہ اسے دور نہیں جانے دے سکتا تھا جبکہ منت خود بھی نہیں جانا چاہتی تھی وہ سبک رہی تھی۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا کسی میں اسے جاتے ہوئے ملنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔ نگین بیگم بغیر کچھ کہے اسے باہر لے آئی گاڑی میں بٹھایا اور ساتھ ہی جگہ سنبھالی۔۔۔۔ منت لگا تار خان مینشن کو دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر دروازے پر پڑی۔۔۔۔ نور اور انتقال ضر غام اور ارمغان کے گلے لگیں رورہی تھیں ضر غام اور ارمغان بھی گاڑی کو دیکھ آنسو بہار ہے تھے ۔۔۔۔ منت نے مقدم کو ڈھونڈنا چاہا پر وہ وہاں نہیں تھا منت کا دل زور سے دھڑ کا وہ اسے ابھی دیکھنا چاہتی تھی پر پتہ نہیں وہ کہاں تھا۔ گاڑی روانہ ہوئی اور خان مینشن پیچھے رہ گیا منت کی سسکیاں گاڑی میں گونج رہی تھیں پر کسی کے پاس کوئی تسلی نہیں تھی۔ جیسے ہی سب گھر پہنچے لاریب لاونج میں ہی بیٹھی سب کے انتظار میں تھی منت کو دیکھ ساکت ہو گئی پھر بھاگ کر اس کے گلے لگی۔ منت پہلے ہی رورہی تھی لاریب کو دیکھ مزید شدت سے رونے لگی لاریب بھی بہت رورہی تھی سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس منظر پہ۔ کچھ دیر رونے کے بعد لاریب منت کو لیے، اپنے کمرے کی جانب بڑھی پھر منت نے لاریب کو گاڑی سے ٹکرانے کے بعد کا سارا واقعہ سنا دیا ۔۔۔۔ آج وہ دونوں بہت عرصے بعد ملی تھیں تو آج ان کی باتیں نہیں ختم ہونی تھیں۔ ایزل بھی علیانہ کو سلا کر وہیں آگئی تھی اب ان کا پوری رات باتوں کا ارادہ تھا۔ خان مینشن بالکل خاموش ہو گیا تھا سب لوگ روتے ہوئے اپنے کمروں میں چلے گئے کسی نے داجی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ مقدم اپنی جگہ ساکت کھڑ ا تھا یا رم اور بالاج اس کے قریب گئے اور کندھے پر ہاتھ رکھا مقدم جلدی سے مڑا اور یارم کے سینے کا حصہ بن گیا بالاج کی آنکھیں بھر آئیں وہ اپنے بھائی کو اس قدر تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ صبر کریار .... اگر وہ ہماری ہوئی تو آجائے گی واپس۔ " یارم نے تسلی دینی چاہی لیکن اتنی کوششوں کے بعد بھی مقدم کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں اور وہ لگا تار اپنے آنسو چھپانے کی کوشش میں تھا جب برداشت ختم ہوئی تو لمبے لمبے ڈگ بھر تا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ یارم اور بالاج نے دکھ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ منت کو گھر آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا خان مینشن کے مکین اسے بہت یاد کرتے تھے وہ خود بھی بہت خاموش سی ہو گئی تھی پہلے دن لاریب کے ساتھ خوش تھی لیکن اب جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اسے خان مینشن کے مکین یاد آنے لگے تھے۔ ایک ہفتے سے مقدم کو بھی نہیں دیکھا تھا نہ جانے کیوں اس کا دل مقدم کو دیکھنا چاہتا تھا اس کی التجائیہ ، منت کرتی آنکھیں منت ایک لمحے کے لیے بھی بھول نہیں سکی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کسی طرحاس کے سامنے آجائے۔ اج اسے شدت سے سب یاد آرہے تھے۔ مقدم نے خان مینشن جانا چھوڑ دیا تھا وہ ایک ہفتے سے نہ تو وہاں گیا تھا نہ کسی سے بات کی تھی وہ آفس جاتا وہاں سے واپس آتا تو لان میں سگریٹ سلگا کر ٹہلتا رہتا نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہو گئی تھی ایک ہفتہ ہو گیا تھا اس دشمن جان کو دیکھے اس کی آواز سنے ۔۔۔۔ وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا تھا۔ ابھی بھی وہ آستینیں کہنیوں تک موڑے، لان میں سگریٹ سلگائے، ٹہل رہا تھا جب اس کا فون بجا۔۔۔۔ اس نے دیکھا داجی کا فون تھا۔۔۔۔ اس نے فون واپس جیب میں ڈال لیا اور سگریٹ کا گہرا کش لیا جب سب لوگ خان ولا میں داخل ہوئے۔ گاڑیاں پورچ میں رکیں اور سب باہر آئے۔۔۔۔ داجی نے غصے سے مقدم کو دیکھا اور اس کی طرف آئے۔۔۔۔ مقدم نے سگریٹ نیچے پھینک کے اپنے جوتے سے اسے مسلا اور خاموش نظروں سے سب کو دیکھا " فون کہاں ہے تمہارا؟۔۔۔۔" داجی نے سوال کیا تو یارم اور بالاج بھی باہر آگئے۔ آپ سب یہاں؟ .... داجی خیریت ہے ؟" یارم نے پریشانی سے پوچھا تو داجی نے اثبات میں سر ہلایا اور مقدم کو دیکھا جو خفا نگاہوں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ ہم نے سوچامنت کو گئے ایک ہفتہ ہو گیا ہے نہ تو بات ہوئی ہے نہ کوئی ملاقات .... ہمیں یاد آرہی تھی تو سو چامل آئیں۔ " داجی نے مقدم کو دیکھتے ہوئے کہا جو سب سن کے ایک دم بے قرار ہو اتھا۔ "ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ " مقدم جلدی سے بولا تو سب نے حیرت سے اسے دیکھا اس نے ایک ہفتے بعد آج کسی کو مخاطب کیا تھا اس کی بے قراری دیکھ سب کے چہروں پر دھیمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ہم اسی لئے یہاں آئے تھے کہ پوچھ لیں اگر آپ لوگ ساتھ آنا چاہو۔۔۔۔" "ہم بھی چلتے ہیں۔ " ابھی راجی کا سوال ختم نہیں ہوا تھا جب مقدم جلدی سے بولا "چلو پھر " داجی نے کہا تو اس نے یارم اور بالاج کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ سب منت کے پاس بیٹھے اس کا دل بہلانے کی کوشش کر رہے تھے مرتسم اسے تنگ کر رہا تھا۔ "ضر غام بھائی دیکھیں کیسے یہ مجھے ۔۔۔۔" ابھی وہ یہی بولی تھی جب اسے خیال آیا کہ وہ خان مینشن میں نہیں ہے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔۔ اسے عادت تھی جب بھی کوئی اسے تنگ کرتا تھا وہ ضرغام کو ایسے ہی پکارتی تھی۔ سب ایک دم سے خاموش ہو گئے تھے منت کبھی بھی ان کے پاس نہیں رہی تھی تو اسے عادت نہیں تھی یہاں رہنے کی۔ منت اٹھی اور لاؤنج میں چلی گئی وہ بار بار خود کو رونے سے روک رہی تھی۔ منت ان سب کو بہت یاد کرتی ہے۔" نگین بیگم نے کہا تو سب نے ان کی تائید میں سر ہلایا مجھے لگتا ہے ہم غلط کر رہے ہیں ہمیں منت کو واپس بھیج دینا چاہیے اس کا دل نہیں لگ رہا۔" زین صاحب نے کہا ہم اپنی بیٹی اب کہیں نہیں جانے دیں گے۔" نگین بیگم نے کہا تو سب خاموش ہو گئے پر اندر سے وہ بھی اداس تھیں۔۔۔۔ لاریب نے ایک نظر سب پر ڈالی اور منت کے پاس چلی گئی۔ " کیا ہوا ہے تجھے ؟" لاریب نے پوچھا "کچھ بھی نہیں" منت نے آنکھیں صاف کرتے کہا۔۔۔۔ وہ دونوں لاونج میں ٹہلنے لگی تھیں لاریب اس سے باتیں کر رہی تھی اسے ہنسانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ خاموش تھی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ دونوں پلٹیں اور داخلی دروازے کو دیکھ ساکت ہو گئیں۔ مقدم اور یارم سفید کرتا شلوار میں سیاہ اجرک اوڑھے، آستینیں کہنیوں تک موڑے اپنی بھر پور و جاہت کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ منت نے محسوس کیا مقدم کی آنکھیں ویران سی تھیں لیکن اسے دیکھ ، ان میں چمک آگئی تھی۔۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرائی تو مقدم اسے دیکھ گہرا مسکرایا۔ یارم نے اندر داخل ہوتے ہی لاریب کو دیکھا اور وہیں رک گیا دونوں کے دل بہت شدت سے دھڑ کے تھے ۔۔۔۔ یارم کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آگئی جبکہ لاریب یارم کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی تو چہرہ جھکا گئی اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔ ابھی وہ دونوں اپنی آنکھوں کو قرار بخش رہے تھے جب آہستہ آہستہ سب لوگ اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ منت آگے بڑھی اور ضرغام سے ملی وہ اسے بہت یاد کر رہی تھی سب کی آنکھیں بھر آئیں پھر شازیہ بیگم سے ملی جو باقاعدہ رونے لگی تھیں سکندر صاحب، داجی، یارم، بالاج سب سے پیار لیا لاریب بھی سب سے ملی اور منت نے اونچی سی آواز میں اپکارا پھو.... پھپھو دا جی آئے ہیں۔ " سب لوگ حیران ہوئے " ابھی بھی پھپھو ؟ ارمغان نے پوچھا جو نور اور انتقال کو لے کر ابھی اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ منت آگے بڑھی اور وہ تینوں گلے ملیں سب مسکرا دیئے۔ نگین بیگم باہر آئی تو سب کو دیکھ ، خوش دلی سے سب کا استقبال کیا۔ سب نے لاونج میں موجود صوفوں پہ جگہ سنبھالی۔۔۔۔ منت کے بائیں جانب لاریب جبکہ دائیں جانب قدرے فاصلے پر مقدم بیٹھ گیا تھا۔ اس کے بیٹھنے پر منت کا دل جو پہلے ہی بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا مزید شدت سے دھڑکنے لگا۔ " کیسی ہیں آپ؟" مقدم نے سر گوشی نما آواز میں سوال کیا نظریں منت کے چہرے پر مرکوز تھیں " میں ٹھیک ہوں۔" منت نے اس سے بھی آہستہ آواز میں جواب دیا جسے مقدم بمشکل سن سکا تھا۔ ویسے حال پوچھنے والے کا بھی جو ابا حال پوچھتے ہیں۔ " مقدم نے کہا تو وہ شرمندہ سی ہو گئی۔ "کیسے ہیں آپ؟" اس نے اس کی طرف دیکھ کے پوچھا ایک لمحے کے لئے نظریں ملیں لیکن وہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھ سکی تو فوراً چہرہ جھکا گئی۔ مقدم نے مسکرا کے کہا۔۔۔۔ " اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔" منت نے زیادہ غور نہ کیا اور باقی سب کی جانب متوجہ ہو گئی۔ یارم لاریب کو آنکھوں میں بسائے بیٹھا تھا وہ کسی کی بھی پر واہ کیے بغیر بہت غور سے لاریب کے چہرے کے ہر نقش میں کھویا ہوا تھا۔ کیسا گزرا ٹائم میرے بغیر ؟" کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔ ارمغان نے کہا تو منت کی آنکھیں بھر نے لگیں اس نے خود پہ قابو پایا اور کہا بہت اچھا .... مجھے تمہاری بالکل بھی یاد نہیں آئی۔" منت نے کہا تو سب نے خفگی سے اسے دیکھا " ہم تمھیں بہت یاد کرتے ہیں گھر بالکل سنسان ہے میرا کچن بھی اب کوئی خراب نہیں کرتا ارمغان بھی تنگ نہیں کرتا بور ہو جاتا ہے تنگ کرنے کے لئے کوئی ہے ہی نہیں۔ " شازیہ بیگم کی بھرائی آواز گونجی تو منت نے انھیں دیکھا ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں سکندر صاحب نے انھیں ساتھ لگا لیا۔۔۔۔ وہ خود بھی ان سب کو بہت زیادہ یاد کر رہی تھی۔ ابھی سب انہی باتوں میں مصروف تھے جب اچانک سے نجمہ بیگم اور عثمان صاحب داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ منت ایک دم ساکت ہو گئی ایک سال بعد ان لوگوں کو دیکھنا۔۔۔۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑیں۔ وہ دونوں جو لاریب کی شادی کی خبر سن کر آئے تھے وہاں منت کو دیکھ ایک دم ساکت ہو گئے۔ پہلے جن چہروں پہ حیرانگی تھی اب وہاں شدید غصہ تھا۔ " یہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟" عثمان صاحب دھاڑے تو منت اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی باقی سب بھی اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوئے کیونکہ وہ سب بھی انھیں دیکھ چکے تھے۔ منت نے غیر ارادی طور پر مقدم کی اجرک تھا منی چاہی جب اس کی انگلیاں مقدم کے ہاتھ کی پشت سے مس ہوئیں۔ مقدم نے اپنے ہاتھ کی پشت پر نازک سالمس محسوس کیا تو چہرہ جھکا کر دیکھا۔۔۔۔ وہ اس کی اجرک کو زور سے تھامے کھڑی تھی۔۔۔۔ لاریب نے منت کا بایاں ہاتھ تھام لیا اس کا خیال تھا کہ شاید منت ایسے ریلیکس رہے گی لیکن وہ منت کے ہاتھوں میں واضح لرزش محسوس کر رہی تھی۔ "ہم پچھلے ایک سال سے اسے ڈھونڈ رہے ہیں اور یہ آپ لوگوں کے پاس ہے..... نگین تم نے بتایا کیوں نہیں ہمیں ؟۔۔۔۔" عثمان صاحب دھاڑے کیا بتاتی ؟... تم لوگ کب ڈھونڈ رہے تھے ؟ کسی نے نہیں ڈھونڈا اسے ہم نے ڈھونڈا تھا ہمیں مل گئی۔ " نگین بیگم نے بھی غصے سے کہا تو عثمان صاحب منت کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے۔۔۔۔ منت کا سانس رکا اس نے انھیں اپنے قریب آتا دیکھ ، پیچھے ہونا چاہا پر صوفہ تھا۔ وہ سانس نہیں لے پارہی تھی وہ کوشش کر رہی تھی کہ سانس لے لیکن سانسیں رکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ وہ قریب آتے جا رہے تھے اور منت کا سر گھومنے لگا تھا۔ مقدم کی نظر اس پر پڑی تو ایک دم پریشان ہو گیا وہ بالکل سفید پڑ چکی تھی ایک لمحے کے لئے مقدم کو گمان گزرا کہ وہ سانس نہیں لے رہی ابھی وہ کچھ کہتا جب منت آگے بڑھی اور بھاگنا چاہا لیکن اس کا پاؤں صوفوں کے درمیان رکھی میز سے بہت بری طرح ٹکر ایادہ بہت بری طرح زمین بوس ہوئی سب جلدی سے اس کی طرف بڑھے "منت۔۔۔۔۔" لاریب چینی لیکن منت کو سانس نہیں آرہا تھا " منت سانس لیں " مقدم اس کے قریب بیٹھ کر پریشانی سے چیخا۔۔۔۔ ضرغام آگے بڑھا اور اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا " متو سانس لو ۔۔۔۔" سب چلا رہے تھے لیکن منت کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔ سب اس کے قریب بیٹھے تھے کوئی اس کا گال تھپتھپا رہا تھا سب اس پہ جھکے کچھ بول رہے تھے لیکن اسے بس سب کے ہونٹ حرکت کرتے محسوس ہو رہے تھے آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں آہستہ سے اس نے آنکھیں موند لیں اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ "منت۔۔۔" سب چیخ اٹھے لاریب رورہی تھی " اسے ہسپتال لے کر چلو " داجی بولے تو سب منت کو لے کر ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔ لاریب لگا تار سک رہی تھی اس نے منت کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔ یارم پریشان تھا اس سے لاریب کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا پر وہ روئے جارہی تھی۔ مقدم بہت رش ڈرائیونگ کر رہا تھا باقی سب الگ گاڑیوں میں تھے۔ جیسے ہی ہسپتال آیا سب فوراً منت کو لیے ، اندر داخل ہوئے اور راہداریوں میں بھاگنے لگے۔ منت کے ہونٹ سانس نہ آنے کے باعث نیلے پڑ چکے تھے۔ "ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔" مقدم چلا یا تو آصف صاحب باہر آئے مقدم بھاگ کر ان کے پاس گیا آصف انکل وہ .... وہ منت ..... انہیں دیکھیں " مقدم اٹک اٹک کر بول رہا تھا ۔۔۔۔ آصف صاحب اس کی حالت دیکھ حیران ہو گئے تھے انہوں نے جلدی سے وارڈ بوائے کو اشارہ کیا اور منت کو کیبن میں لے جایا گیا۔ لاریب بینچ پر ڈھے سی گئی تھی ۔۔۔۔ شازیہ بیگم سکندر صاحب کے ساتھ لگیں رورہی تھیں۔۔۔۔ نگین بیگم زین صاحب کے پاس خاموش بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں آنسو آنکھوں سے جاری تھے۔۔۔۔ یارم سامنے موجود بینچ پر لاریب کے بالکل سامنے بیٹھ گیا تھا وہ ہر تھوڑی دیر بعد آنسو صاف کر کے سکی بھرتی ۔۔۔۔ نور کی طبیعت کچھ خراب سی تھی تو ضر غام اسے سنبھال رہا تھا۔۔۔۔ انتقال بینچ پر ڈری ہوئی بیٹھی تھی اور ارمغان اسے پر سکون کرنے کی کوشش میں تھا۔ ہم بابا کو بھی ایسے ہی لائے تھے ارمغان ..... پر بابا مر گئے کیا منت بھی ؟۔۔۔۔" انتقال نے سوالیہ نظروں سے ارمغان کی جانب دیکھتے کہا تو سب تڑپ اٹھے ۔۔۔۔ لاریب کی ہیا اٹھے۔۔۔۔ ہچکیاں گونجنے لگیں یارم کا دل چاہا کہ وہ اسے تھانے چپ کروائے پر وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا ابھی ، اس لئے خاموشی سے برداشت کر رہا تھا۔ ایزل، مرتسم ، عنایہ سب گھر میں تھے یا سر کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا تو اسے اس معاملے کی خبر نہیں تھی سب لوگ بہت پریشان ہو گئے تھے۔ مقدم نے کھا جانے والی نظروں سے عثمان صاحب کو گھورا جو پریشان سے کھڑے تھے لیکن نجمہ بیگم پر سکون تھیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔۔ ابھی وہ گھور ہی رہا تھا جب دروازہ کھلا اور سب ڈاکٹر کی جانب بڑھے۔ آصف انکل کیسی ہیں اب منت ؟۔۔۔۔" مقدم نے بے حد پریشانی سے پوچھا تو انھوں نے چہرہ جھکا لیا۔۔۔۔ سب کو کچھ بہت غلط ہونے کا احساس ہوا۔ " آصف بولو کیسی ہے منت ؟۔۔۔۔" داجی بولے وہ ڈپریشن میں ہے اسے بہت شدید پینک اٹیک ہوا ہے ابھی تو ہم نے سنبھال لیا ہے وہ پہلے سے بہتر ہے لیکن بالکل ٹھیک نہیں ہے .... آپ لوگ اسے کسی پر سکون جگہ پر ہر طرح کی پریشانی سے دور رکھیں اسے خوش رکھیں تو جلد ہی بہتر ہو جائے گی ابھی بہت ڈری ہوئی ہے کیونکہ جب ایک بار پینک اٹیک ہو جائے تو مریض کو ڈر رہتا ہے کہ کہیں دوبارہ نہ ہو جائے کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے .... میں بس یہی کہوں گا کہ اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ ہو تو انھیں خوش اور پر سکون رکھیں۔" آصف صاحب یہ کہہ کر آگے بڑھے عثمان صاحب نے نجمہ بیگم کا ہاتھ تھاما اور خاموشی سے ہسپتال سے باہر نکل گئے جب مقدم بولا "کیا میں منت سے مل سکتا ہوں ؟" آصف صاحب رکے اور پلٹ کر غور سے مقدم کی آنکھیں دیکھیں جو آنسو روکنے کے چکر میں بالکل سرخ پڑی ہوئی تھیں۔ سب مل سکتے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ابھی وہ کچھ بھی بول نہیں سکے گی ابھی نہ ملو تو بہتر ہے۔ اگر تم چاہو تو اکیلے مل لو باقی سب جب وہ بہتر ہو گی تب مل لیں گے۔" آصف صاحب نے مقدم کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ ، اسے ملنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔ وہ مقدم کو تب سے جانتے تھے جب وہ چھوٹا سا تھا رضوان صاحب کی موت کے بعد وہ بیمار رہنے لگا تھا اسی ہسپتال میں اس کا علاج ہوتا تھا۔۔۔۔ آصف صاحب حیران تھے مقدم بہت کم گو اور مغرور تھا اسے اس حادثے کے بعد کسی کے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا پر ایک لڑکی کے لئے اس کا ایسا رد عمل دیکھ آصف صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ لڑکی اس کے لئے کیا ہے اس لئے اس کی حالت کے پیش نظر اسے ملنے کی اجازت دے دی۔ مقدم جیسے ہی کمرے میں داخل ہو امنت کو آکسیجن ماسک لگائے، آنکھیں موندے گہرے گہرے سانس لیتے دیکھ ، اس کا دل تڑپ گیا تھا۔۔۔۔ وہ آہستہ سے اس کے قریب بیٹھا اور اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو کہ زرد ہو گیا تھا مقدم کا دل شدت سے چاہا کہ وہ اسے خود میں بھینچ کے اس کے سارے دکھ ساری تکلیفیں خود پہ لے لے لیکن وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ کب وہ اس لڑکی کا اسیر ہو گیا تھا وہ اس کی پوری کائنات بن گئی تھی خوبصورت سے خوبصورت لڑکی اس کی توجہ چاہتی تھی مگر مقدم نے کبھی کسی کو دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا لیکن یہ لڑکی ایک لمحے میں اپنے بکھرے سے حلیے میں اس کا دل لے گئی تھی۔ منت نے اپنے پاس کسی کو محسوس کیا تو آہستہ سے آنکھیں کھولیں اس کی نظر مقدم پر پڑی منت کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کے تکیے میں جذب ہوا۔ مقدم کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں منت بہت مشکل سے سانس لے رہی تھی وہ بہت تکلیف میں تھی مقدم سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کب سے جو آنسو روک رکھے تھے اب مقدم کی بیرڈ میں جذب ہونے لگے تھے اس کا چہرہ بھیگ رہا تھا۔ منت اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی حالت میں نہیں تھی تو دوبارہ سے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ مقدم اسے دیکھنے میں مگن تھا جب اپنے کندھے پر ہاتھ محسوس کر، سر اُٹھایا اور بالاج کو دیکھ ایک دم سے کھڑا ہوا اور اس کے گلے لگ گیا " بہت تکلیف میں ہیں یار " مقدم کی آواز گونجی تو بالاج تڑپ اٹھا وہ ٹھیک ہو جائے گی پریشان نہ ہو ۔ " بالاج نے کہا تو مقدم دھیرے سے اس سے الگ ہوا ہاتھ کی پشت سے اپنا چہرہ صاف کیا اور باہر نکلا۔۔۔۔ سب اس کی آنکھیں دیکھ اس کے دل کا حال سمجھ چکے تھے اس کی آنکھیں اس کے رونے کی چغلی کر رہی تھیں۔۔۔۔ سب لوگ اندر کی جانب بڑھے اور مقدم مسجد کی طرف چلا گیا۔ کیسا ہے اب میرا بچہ ؟" داجی نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے محبت سے پوچھا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور آہستہ سے سر اثبات میں ہلایا۔ اس کی سانسیں اب قدرے بہتر ہو گئی تھیں لیکن بالکل ٹھیک نہیں ہوئی تھی اسے ابھی بھی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس نے ایک نظر سب پہ ڈالی اور پھر سے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ لاریب اس کے قریب بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام گئی تھی۔۔۔۔ شازیہ بیگم بس اسے دیکھ رہی تھیں ان کا دل کٹ رہا تھا۔ ارمغان ہم منت کو واپس لے جائیں ؟" انتقال نے کہا تو ارمغان نے کرب سے آنکھیں بند کیں "کاش ہم ایسا کر سکتے " ارمغان نے دکھ سے کہا " منت تم خان مینشن واپس چلی جاؤ۔" نگین بیگم کی آواز گونجی تو منت نے آنکھیں کھولی سب نے حیران ہو کر انھیں دیکھا لاریب نے زور سے منت کا ہاتھ تھام لیا "ہم لے جائیں ؟" داجی نے جیسے تصدیق چاہی تو نگین بیگم نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا وہ یہاں خوش نہیں ہے اور اب تو نجمہ اور عثمان کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ وہ یہاں ہے اب روز کی ٹینشن ملے گی اسے .... بہتر ہے آپ لوگ لے جائیں مجھے پتہ تو ہو گا کہ دور ہی صحیح پر میری بیٹی خوش تو ہے۔" نگین بیگم نے دل پر پتھر رکھ کے یہ الفاظ کہے تھے وہ منت کو نہیں بھیجنا چاہتی تھیں لیکن اس کی خوشی اور سکون کے لئے انھیں یہ کرنا تھا۔ گھر فون کر کے ایزل مرتسم اور عنایہ کو بتادیا گیا تھا کہ اب منت بہتر ہے لیکن وہ خان مینشن واپس جا رہی ہے سب کو اعتراض تھا لیکن منت کے سکون اور نجمہ بیگم کو اس سے دور رکھنے کے لئے یہ سب ضروری تھا۔ قسط نمبر 8 پڑھیں |