![]() |
رازِ دل ناول قسط 3 "رازِ دل" "تیسری قسط" از۔"کنزہ خان" ان سب میں بس مقدم کی آنکھیں مختلف تھیں۔ گہری سیاه" منت نے سب کو دیکھا اور پھر سب کی پہچان ہو جانے پر سہمی ہوئی نگاہوں سے مقدم کو دیکھا۔۔۔۔ وہاں موجود کبھی افراد نے دونوں کو بغور دیکھا تھا۔ ضرغام اٹھا اور منت کی طرف بڑھا۔۔۔۔ منت نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ ، فوراً مقدم کو دیکھا۔۔۔۔ اس نے آنکھوں سے ہی منت کو تسلی دی تو منت ضرغام کو دیکھنے لگی۔ ان دونوں کے کیبن میں آنے تک یارم اور بالاج سب کو فائل دکھا چکے تھے۔ یارم کو فائل میں موجود لاریب کی تصویر دکھانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ پتہ نہیں کیوں ایسا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کو خود میں چھپا کے رکھ لے کسی کی نظر بھی اس پر نہ پڑنے دے لیکن منت کی ساری انفار میشن دینے کے لیے ایک بار سب کو تصویر دیکھا نا ضروری تھا۔ ضر غام منت کی طرف بڑھا اور بہت پیار اور اپنائیت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیچھے ہو گیا۔ منت نے ایک نظر ضرغام کو دیکھا اور پھر مقدم کو جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ کمرے میں موجود سب لوگوں نے منت کے سر پر پیار دیا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ منت داجی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ساتھ والی کرسی مقدم نے سنبھال لی باقی سب کیبن کے درمیان رکھے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ منت بیٹا آپ نے کہا آپ کا کوئی گھر نہیں ہے تو کوئی رشتہ دار جس کے پاس آپ جانا چاہتی ہوں ؟۔ " سب کے بیٹھنے پر داجی نے منت سے تفتیشی انداز میں پوچھا۔ منت نے جھکا سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں کے سامنے نگین بیگم کا چہرہ لہرایا۔۔۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ اسے ان سب کے پاس جانا ہے لیکن خاموشی سے نفی میں سر ہلا گئی ۔۔۔۔ کمرے میں موجود سب سمجھ گئے کہ وہ کسی کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی۔ "ٹھیک ہے پھر آپ یہیں رہو سب سے گھلو ملو یہاں کوئی آپ کو کچھ بھی نہیں کہے گا۔ " ضر غام اٹھا اور بہت پیار سے بولا پھر داجی سے کہنے لگا " داجی مجھے آفس جانا ہے کچھ انٹر ویوز رکھے ہیں پر سنل اسٹنٹ کی جاب کے لیے تو میں چلتا ہوں۔" ضر غام نے راجی کو دیکھتے کہا تو انھوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس نے سب کو سلام کیا اور منت کے سر پر اپنائیت بھر ا ہاتھ رکھ کر باہر چلا گیا۔ منت چہرہ جھکائے بیٹھی تھی۔ "منت۔۔۔۔" ارمغان نے اسے پکارا تو وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ آپ کو شہر اسے ڈر لگا ، ہم سب سے ڈر لگا لیکن مقدم بھائی جیسے دیو سے ڈر نہیں لگا؟۔ " ارمغان نے شرارت سے کہا تو سب نے قہقہہ لگایا۔ منت جو غور سے اس کی بات سن رہی تھی ایک نظر مقدم پر ڈالی جو کھا جانے والی نگاہوں سے ارمغان کو گھور رہا تھا پھر نگاہوں کا رخ پھیر کے ارمغان کو دیکھا اور آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیا۔ مطلب آپ بہت بہادر ہیں .... آپ کو مقدم بھائی سے ڈر نہیں لگا تو کسی سے بھی نہیں لگ سکتا۔ " ارمغان نے پھر سے لقمہ دیا تو سب نے مقدم کے چہرے کے تاثرات دیکھ چہرہ جھکا کے اپنی ہنسی دبانی چاہی۔ مقدم نے ایک تاسف بھری نظر سب پہ ڈالی اور منت کو دیکھا۔۔۔۔ سب میں وہی تھی جو نہیں مسکرائی تھی۔ مقدم کا دل اس وقت شدت سے اس کی مسکراہٹ دیکھنے کو چاہ رہا تھا لیکن اپنے دل کو ڈپٹ کے خاموش کروا گیا۔ منت بیٹا آپ جاؤ اپنے کمرے میں آرام کر لو۔" داجی نے کہا تو مقدم ساتھ ہی اٹھا اور اسے لیے باہر نکل گیا۔ انھیں جاتا دیکھ راجی کی آواز کیبن میں گونج۔ " میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور میں اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہوں .... رات کو کھانے پر آپ سب مجھ سے ملیں۔" انھوں نے سب کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔ سب نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے اپنے کاموں کے لیے آفس روانہ ہو گئے۔ منت اجنبی نگاہوں سے سارا منظر دیکھ رہی تھی وہاں بس چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو آپس میں کھیل رہے تھے۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ یہاں اس جیسی کوئی بھی نہیں ہے جو بڑی لڑکیاں ہیں وہ ٹیچر ہیں اور باقی سب چھوٹے چھوٹے بچے ، وہ اکیلی تھی ان سب میں ، وہ چہرہ جھکا کے چلنے لگی۔ مقدم اس کے کمرے پہ پہنچ کر باہر ہی رک گیا۔۔۔۔ منت خاموشی سے اندر داخل ہو گئی۔ مقدم واپس مڑا تو پیچھے یارم اور بالاج کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ مقدم نے سوالیہ بھنویں اچکائی "کیا؟۔۔۔۔" جناب آپ کی خدمتیں ختم ہو گئی ہوں تو آفس چلیں ؟.... ہم نے آج ڈیل سائن کرنی ہے۔" یارم نے کہا ہاں بالکل چلتے ہیں پہلے ذرا اپنے والٹ سے لاریب کی تصویر نکالو اور واپس فائل میں رکھو۔" مقدم نے اچانک کہا۔۔۔۔ یارم اس حملے کے لیے تیار نہ تھا تو گڑ بڑا گیا۔ مجال ہے جو اس انسان کی نظروں سے کچھ بیچ سکے۔ یارم نے دانت پیسے البتہ بلاج کی پوری کی پوری آنکھیں کھل گئیں۔ کونسی تصویر ؟۔۔۔۔" یارم نے انجان بنتے کہا۔۔۔۔ مقدم نے آنکھوں کی پتلیاں سکوڑ کے اسے دیکھا اور اس کا جواب دہرایا کونسی تصویر ؟۔۔۔۔" مقدم کا انداز جتانے والا تھا۔ مجھے لگا تھا بس مقدم ہی ہل گیا ہے ، یہاں تو ہمارا بڑا بھائی بھی ایک لڑکی کو اپنے دل کی ملکہ بنا چکا ہے واہ بھئی واہ۔ " بالاج نے دہائی دیتے کہا تو یارم اور مقدم نے بیک وقت اسے گھورا " اب چلو آفس کے لیے۔" مقدم نے کہا جی جی بالکل چلو ، مقدم صاحب نے جلدی فارغ ہو کر پھر یہاں حاضری لگوانی ہو گی۔" بالاج نے کہا تو مقدم اسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے آگے چلا گیا۔ یارم، بالاج اور مقدم، سکندر صاحب کے بچپن کے دوست رضوان صاحب کے بیٹے تھے۔ سب سے بڑا یارم پھر بالاج اور پھر مقدم ۔۔۔۔ یہ تینوں بھائی ایک دوسرے کی جان تھے۔ مقدم ان دونوں کا بہت لاڈلا تھا اور بہت شرارتی بچہ تھا پھر زندگی نے مقدم سے اس کی خوشیاں چھین لیں۔ یارم اور بالاج اپنا غم بھلائے مسکرا لیتے تھے لیکن مقدم بہت سنجیدہ ہو گیا تھا وہ مسکرانا اور جینا بھول چکا تھا لیکن جب یارم نے صبح مقدم کے چہرے پہ منت کی تصویر دیکھتے مسکراہٹ دیکھی تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی اور اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن دکھی ۔۔۔۔ وہ لڑکی اس کے بھائی کو جینا سیکھا سکتی تھی۔ وہ کیسے سیکھاتی ؟۔۔۔۔ وہ تو خود زندگی سے تنگ تھی لیکن یارم کو بار بار منت سے مقدم کا نرمی سے پیش آنا یاد آتا تو اسے روشنی کی کرن دوبارہ نظر آجاتی۔ یارم نے سب اللہ کے بھروسے چھوڑا اور سر جھٹک کے آفس کے لیے نکل گیا اسے اب اپنے اور لاریب کے لیے جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ ضر غام جب ب آفس میں داخل ہوا تو راہداری سے گزرتے سب نے اسے سلام کیا۔ اس نے ایک نظر وٹینگ ایریا پر ڈالی بہت لوگ اس کے انتظار میں تھے اس نے ریسپشن پر موجود لڑکی کو اشارہ کیا۔۔۔۔ اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا اور وٹینگ ایریا کی طرف آگئی۔ آپ سب لوگ تیاری کر لیں سر آگئے ہیں انٹر ویو شروع ہونے والا ہے آپ سب کا ۔ " ریسپشن پر فون بجا اس نے اُٹھایا " او کے سر " اس نے اتنا کہتے سر ہلایا اور پہلے اُمید وار کو اندر جانے کا کہا جو پانچ منٹ بعد ہی اترے چہرے کے ساتھ باہر آگیا پھر آہستہ آہستہ سب اندر جانے لگے لیکن ضرغام کو اپنے پی۔ اے کی پوسٹ کے لیے کوئی بھی قابل نہیں لگ رہا تھا۔ " سے آئی کم ان ؟ ۔۔۔۔" دروازے پر دستک دینے کے بعد ایک لڑکی نے چہرہ اندر گھسا کے پوچھا۔ "لیس کم ان" کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔ ضر غام نے سنجیدگی سے جواب دیا " ٹیک یورسیٹ " اس کے بیٹھتے ہی ضرغام نے سی وی لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا جو فوراً اسے تھمادی گئی۔ نور بہت سکون سے بیٹھی تھی کیونکہ اسے جاب شوقیہ کرنی تھی اسے ضرورت نہیں تھی۔ وہ ریجیکٹ ہو بھی جاتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ " آپ یہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں ؟" ضر غام نے سی وی بند کر کے سائیڈ پر رکھی اور نور کو دیکھا۔۔۔۔ اس کی آنکھیں کسی سے مشابہت رکھتی تھیں لیکن کسی سے ضر غام کو یاد نہ آیا۔ "شوق کے لیے۔" نور نے جواب دیا تو ضر غام نے ایک آئی برو اٹھائی نور بی بی۔۔۔۔ باہر بہت ضرورت مند بیٹھے ہیں جن کے لیے یہ جاب ان کی روزی کا ذریعہ ہے میں کس بنیاد پر آپ کو جاب دے دوں ؟" سی وی کی بنیاد پر ۔ " نور کا جواب بے ساختہ تھا۔ ضرغام نے غور سے اسے دیکھا سُنہری بلکل اس کے جیسی آنکھیں۔۔۔۔ وہ قدرے حیران ہوا اس کی آنکھیں اس سے مشابہت رکھتی تھیں لیکن پھر بھی اسے اس کی آنکھیں انجان لگیں جیسے وہ آنکھیں بس ضرغام کی نہیں ہیں اس کے علاوہ کوئی اور بھی تھا جس کی بالکل نور اور ضر غام جیسی آنکھیں تھیں لیکن پھر اس نے سر جھٹکا اور سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔ " آپ نے لندن سے پڑھائی کی ہے تو مار کس تو اچھے ہیں ... جہاں تک رہی بات ایکس پیر فیس کی تو وہ کام کرنے سے ہی آئے گا آپ فلحال چلی جائیں اگر مجھے کوئی آپ سے زیادہ اس جاب کے قابل لگا تو ٹھیک ور نہ آپ کو کال کر دی جائے گی۔" اس نے مصروف سے انداز میں کہتے اس کی سی وی اس کی جانب کھسکا دی۔ نور نے ضرغام کو دیکھا جس کی آنکھیں بالکل اس کے باپ جیسی تھیں لیکن وہ کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے باہر چلی گئی۔ ضر غام نے اس کے جاتے ہی پر سوچ نگاہوں سے دروازے کو دیکھا۔۔۔۔ دھندلا سا منظر تھا لیکن اس منظر میں کیا تھا اسے بالکل بھی سمجھ نہ آیا۔ اگلا اُمیدوار آگے آیا تو ضر غام سر جھٹک کے اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔ " آپی مل گئی جاب ؟۔" نور کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ ، انتقال نے پوچھا مل جائے گی۔" نور نے سکون سے جواب دیا بیٹا کیا ضرورت ہے تمھیں جاب کی میر ابزنس ہے وہ سنبھال لو۔ " قاسم صاحب نے صوفے پر بیٹھتے کہا تو نور اور انتقال دونوں نے اپنے باپ کو دیکھا جو لندن سے آنے کے بعد کمزور ہوتے جارہے تھے وہ بہت بدل گئے تھے ہر وقت پریشان رہتے۔ " کوئی پریشانی ہے بابا ؟" انتقال نے پوچھا تو انھوں نے دھیما سا مسکرا کے نفی میں سر ہلایا اور بازو کھولے۔۔۔۔ نور اور امتثال محبت سے ان کے سینے سے لگ گئیں۔ قاسم صاحب نے ان دونوں کی پیشانی پر بوسہ دیا اور آسمان کو دیکھنے لگے ۔ وہ اپنی بچیوں کے مستقبل کے لیے بہت پریشان رہتے تھے۔ لاریب آپی آپ یہاں منت آپی کے کمرے میں اکیلی کیوں بیٹھی ہو ؟..... باہر سب آگئے ہیں آپ بھی باہر آجاؤ۔ " لاریب جو منت کے کمرے میں بیٹھی رورہی تھی عنایہ کو آتا دیکھ آنسو پونچھے اور اس کی بات سننے لگی۔ " چلو چلیں۔" کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔ لاریب نے عنایہ کو پیار سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ " منت آپی مل جائے گی نہ ؟" عنایہ نے معصومیت سے سوال کیا تو لاریب کی آنکھیں ایک بار پھر بھر آئیں۔ "انشاء اللہ ۔۔۔۔" وہ بس اتنا ہی کہہ سکی اور دونوں باہر آگئیں۔ باہر سب موجود تھے کچھ غصے میں تھے کچھ پریشان۔۔۔۔ جبکہ عثمان صاحب لگا تار سر جھکائے بیٹھے تھے کچھ بھی نہیں بول رہے تھے شاید اپنے کیے پر شرمندہ تھے۔ " ہم سب نے ہر ایک جگہ دیکھ لیا ہے ہسپتال، ریلوے سٹیشن، بس سٹاپ ہر جگہ مگر منت کہیں بھی نہیں ملی۔ ہم نے مردہ خانہ بھی دیکھا وہ وہاں بھی نہیں ہے۔" یاسر نے غصے اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔ نگین بیگم اس کی بات پہ تڑپ اٹھیں البتہ نجمہ بیگم سکون سے سب دیکھ اور سن رہی تھیں۔ " پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے بچی۔" زین صاحب نے پریشانی سے کہا۔ لاریب جو صبر کرنے کی کوشش میں تھی پھر سے رونے لگی۔ " آپی آپ رو نہیں انشاء اللہ مل جائے گی منت آپی ۔ " مرتسم نے لاریب کو کہا تو وہ چہرہ جھکا گئی۔ ایزل کے لگا تار فون آ رہے ہیں ماما .... پہلے ہمیں خود تو کچھ پتا چلنے دیتیں پھر آپ اسے بتادیتیں۔" یاسر نے نگین بیگم سے کہا اور فون ان کی طرف بڑھا دیا۔ " کچھ ؟۔ مجھ پتا چلا کہاں ہے منت ؟ ۔۔۔۔" ایزل کی پریشانی بھری آواز گونجی تو نگین بیگم مزید رونے لگیں۔۔۔۔ لاریب، مرتسم اور عنایہ نگین بیگم کے پاس آئے اور انھیں تسلی دینے لگے اُنھوں نے روتے ہوئے فون لاریب کو تھما دیا۔ ایزل آپی ہر جگہ دیکھ آئے ہیں ابھی تک کہیں بھی نہیں ملی۔ " لاریب نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔۔ دوسری طرف خاموشی چھا گئی پھر طویل خاموشی کے بعد ایزل۔کی آواز گوٹھی ہوا کیا تھا ... کہاں اور کیوں گئی ہے وہ ؟ ایزل نے پریشانی سے پوچھا۔ پتہ نہیں یار .... یہاں کسی کو کچھ بھی نہیں پتا .... اس کا فون بھی اس کے کمرے میں ٹوٹا ہوا پڑا ہے .... کل رات سے غائب ہے دوبارہ رات ہونے والی ہے پتہ نہیں کہاں ہو گی۔" لاریب سے مزید برداشت نہیں ہوا اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ " تم فکر نہیں کرو.... جہاں بھی ہو گی ٹھیک ہو گی اور جلد ہی مل جائے گی انشاء اللہ ۔ " ایزل نے لاریب کو تسلی دی " ہمیں پولیس سٹیشن چلنا چاہیے۔" زین صاحب نے کہا تو سب نے ہاں میں سر ہلایا اور پولیس سٹیشن جانے کے لیے روانہ ہو گئے۔ منت مغرب پڑھ کے فارغ ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک دینے کے بعد شہر اکھانے کی ٹرے لے کے کمرے میں داخل ہوئی اور کھانا بیڈ پر رکھ دیا۔ " آپ کھا لیں .... دو پہر کو بھی آپ نے انکار کر دیا تھا اور ناشتہ بھی نہیں کیا اب آپ کھانا کھالیں۔ " شہر انے مسکراتے ہوئے کہا اور باہر چلی گئی۔ منت نے جائے نماز تہہ کر کے کھانا کھایا۔۔۔۔ ابھی وہ بستر پہ لیٹی ہی تھی جب دوبارہ دروازہ کھٹکا۔۔۔۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو باہر واجی کھڑے اس کے منتظر تھے " باہر آجاؤ بیٹا۔" انھوں نے منت کو پیار سے کہا۔۔۔۔ وہ جو انکار کرنا چاہتی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔۔ داجی اسے لیے ، چلتے گئے اور پھر ایک درخت کے نیچے موجود بینچ پہ بیٹھ گئے وہ قدرے پر سکون جگہ تھی۔ آپ باہر کیوں نہیں نکلی کمرے سے ؟.... ایسے قید رہ کے تو انسان جی نہیں سکتا بچہ ، آپ کل سے کمرے سے باہر نکلا کرو بچوں سے ملو یہ سب بہت پیارے ہیں آپ کا دل لگ جائے گا۔ " داجی نے بہت پیار سے اسے مخاطب کیا تو وہ بس سر ہلا کر رہ گئی پھر داجی اس سے باتیں کرنے لگے اور وہ چپ چاپ خاموشی سے کبھی انھیں دیکھتی اور کبھی وہاں کھیلتے بچوں کو۔۔۔۔ عشاء کی اذان شروع ہوئی تو داجی اٹھ کھڑے ہوئے۔ " اب آپ جا کے آرام کر لو کل آپ مجھے باہر دکھنی چاہیے ٹھیک ہے ؟۔۔۔۔" اُنھوں نے بہت نرمی سے اس سے کہا۔۔۔۔ منت نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی جانب چلی گئی۔۔۔۔ داجی نے اسے جاتے دیکھا اور گھر کی جانب روانہ ہوئے۔ جیسے ہی وہ خان مینشن پہنچے سب لوگ ان ہی کے منتظر تھے۔ انھوں نے آکر آہستہ سے اپنی جگہ سنبھالی اور بات کا آغاز کیا۔۔۔۔ میں منت کو اڈو پٹ کرنا چاہتا ہوں۔" انھوں نے اچانک سب کی سماعتوں پہ بم پھوڑا - داجی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟۔۔۔۔" سب نے بیک وقت حیرت سے پوچھا۔ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے راجی .... وہ نہیں مانیں گی وہ اپنے ماضی سے نفرت کرتی ہیں کبھی بھی دوبارہ اڈوپٹ نہیں ہونا چاہیں گی۔" مقدم نے پریشانی سے کہا وہ ہمارا مسئلہ ہے ہم بچی کو راضی کر لیں گے۔" شازیہ بیگم جو قدرے خاموش تھیں سکندر صاحب کی طرف جھک کر بولیں۔ وہی منت جس کا آپ نے دو پہر میں بتایا تھا ؟ ۔۔۔۔" سکندر صاحب نے جواب دیا " مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ " شازیہ بیگم جلدی سے بولیں ۔۔۔۔ وہ تو ہمیشہ سے چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی ہو لیکن انھیں ضر غام اور ارمغان جیسی نعمتوں سے نوازا گیا اللہ نے انھیں رحمت سے نہیں نوازا تھا پر وہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پہ بھی صبر اور شکر کیے ہوئے تھیں۔ سکندر صاحب نے حیرت سے انھیں دیکھا۔۔۔۔ داجی ان کی جلد بازی دیکھ مسکرا دیے جبکہ سکندر صاحب نے بغور اپنی بیوی کے چہرے پر پھوٹتی خوشی کو دیکھا۔ ایسے نہ دیکھیں سکندر .... آپ کو بھی تو ہمیشہ سے بیٹی چاہیے تھی نہ اب اللہ نواز رہا ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔" شازیہ بیگم نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ ضر غام اور ارمغان کو بھی سرے سے کوئی مسئلہ نہیں لگا تھا داجی کی بات میں تو انھوں نے بھی خاموشی سے داجی کی تائید میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ شازیہ بیگم کے چہرے سے چھلکتی خوشی دیکھ سکندر صاحب نے بھی ہاں کر دی کیونکہ یہ سچ تھا کہ انھیں بھی بیٹی چاہیے تھی اور انھیں وہ بچی بہت پیاری بھی لگی تھی تو جلد ہی سب مان گئے لیکن مقدم بالکل خاموش تھا۔ " کیا ہو اہے تمہیں؟۔۔۔۔" یارم نے پوچھا تو اس نے چونک کر اسے دیکھا پھر آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیا اور دوبارہ چہرہ جھکا گیا۔ دا جی اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ کیا بات ہے مقدم .... تم خوش کیوں نہیں ہو ؟" داجی کے پوچھنے پہ اس نے سر اٹھایا اور کہنا شروع کیا۔۔۔۔ آپ لوگ ان سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ کر کے خوش ہو رہے ہیں لیکن میں ان کے ردِ عمل کا سوچ رہا ہوں .... داجی اگر وہ نہ مانیں تو زیادہ زور نہ دیجئے گا اگر وہ وہاں سے چلی گئیں تو میں کیا کروں گا۔" مقدم نے غیر ارادی طور پہ یہ کہا۔۔۔۔ چلے جانے والی بات پر مقدم کے چہرے پر سایہ سالہرایا تھا جو کسی کی آنکھوں سے چھپانہ رہ سکا۔ وہ کہیں نہیں جائے گی میں منالوں گا اسے۔" داجی نے کہا۔ اور اگر نہ بھی مانی تب بھی کہیں جانے نہیں دیں گے اسے .... تم بے فکر رہو۔" یارم نے کہا تو وہ خاموش ہو گیا۔۔۔۔ پھر شازیہ بیگم کے کھانا لگانے پر سب نے کھانا کھایا اور خان ولا کے مکین اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ داجی نے صبح منت سے بات کرنے کا سوچا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ صبح جب راجی یتیم خانے جانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر آئے تو شازیہ بیگم، سکندر صاحب، ارمغان اور ضر غام سب کو تیار دیکھ پوچھا۔۔۔۔ تم سب لوگ کہاں جارہے ہو ؟ " " اپنی بہن کو لینے۔" ضر غام نے پر سکون انداز میں جواب دیا تو دراجی مسکرادیے اور سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں آغوش یتیم خانہ جانے کے لیے روانہ ہوئے - وہاں پہنچ کر انھوں نے شہر اکو منت کو بلانے کا کہا اور کیبن کی طرف چل پڑے۔ شبرا ان سب کو اچانک وہاں دیکھ بالکل حیران نہیں تھی کیونکہ پوری فیملی مہینے میں ایک بار ضرور آغوش یتیم خانہ کا چکر لگاتی تھی لیکن راجی کا کوئی ٹائم نہیں تھا وہ جب چاہتے نہ دن دیکھتے نہ رات اور چلے آتے۔ آغوش یتیم خانہ میں ٹیچر کے علاوہ سب بچے تھے جن میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی بس چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے۔ منت وہاں واحد لڑکی تھی جو یتیم بچی کی حیثیت سے آئی تھی اس لیے داجی نے اسے اڈوپٹ کرنے کا سوچا تھا۔ شہر امنت کو بلانے اس کے کمرے میں آئی تو وہ جو سر ہاتھوں میں گرائے بستر پر بیٹھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز سن چونک کے سر اٹھایا اور شہر اکو سوالیہ نظروں سے دیکھا " آپ کو داجی کیبن میں بلا رہے ہیں۔" شہر انے کہا تو اس نے گہر اسانس خارج کیا اور اس کے ساتھ ہی کیبن کی جانب چل پڑی۔ سب لوگ وہاں موجود تھے سوائے بالاج اور یارم کے۔۔۔۔ داجی اس بار مقدم کو کیبن میں دیکھ حیران نہیں ہوئے جو ان کے آنے سے پہلے ہی کیبن میں ان کا منتظر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ انھیں آتا دیکھ سلام کے بعد نا جانے کیوں وضاحت کرنے لگا۔ آج تیسرا دن ہے۔ منت کو ہسپتال لے کر جانا ہے بینڈ بج تبدیل کروانی ہے اور ان کا چیک اپ بھی .... اس لیے آیا تھا میں۔" وہ آرہی ہے .... شہر الینے گئی ہے اسے ۔" مقدم کی وضاحت پر داجی نے اثبات میں سر ہلا کے اطمینان بھر اجواب دیا۔۔۔۔ مقدم نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے جب منت شبرا کے ساتھ ہی کیبن میں داخل ہوئی وہ اسے دیکھ فوراً اس کی طرف بڑھا۔ اب کیسی طبیعت ہے ؟.... سر میں درد و غیرہ تو نہیں ہے ؟.... اور ہاتھ کا درد کیسا ہے ؟" مقدم نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔ اسے پوری رات ڈاکٹر کے " انھیں پریشانی سے دور رکھیے گا۔" والے الفاظ یاد آرہے تھے وہ ڈر رہا تھا اوپر سے داجی کی ضد ۔۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ پریشان نہ ہو جائے اور اس کے ذہن پر زیادہ اثر نہ ہو جائے اس سب کا۔ منت نے اس کی اتنی فکر مندی پہ اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں اسے واضح خوف نظر آرہا تھا اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا تو مقدم قدرے پر سکون ہوا اور داجی کو دیکھا انھوں نے مقدم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اس نے داجی کے میز کے سامنے والی کرسی سنبھالی۔ وہ سامنے سے ہٹا تو منت کی نظر کیبن میں موجود لوگوں پر پڑی۔۔۔۔ بس ایک عورت کا چہرہ انجان تھا باقی سب کو وہ جانتی تھی۔۔۔۔ ضر غام اور سکندر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا جبکہ وہ عورت اسے گلے لگا گئی۔۔۔۔ منت حیران سی ہو کے انھیں دیکھنے لگی " منت بیٹا یہاں بیٹھو۔" داجی نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا کہا تو وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے قریب آئی اور مقدم کے ساتھ والی کرسی سنبھالی۔ مقدم نے چہرہ جھکا کے آنکھیں مینچ لیں اسے منت کے رد عمل اور طبیعت کی بہت فکر ہو رہی تھی اور کہیں نہ کہیں وہ اس کا رد عمل سمجھ رہا تھا۔ منت بیٹا ہمیں آپ سے کچھ ضروری باتیں کرتی ہیں۔ " داجی نے کہا تو منت سوالیہ نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگی۔ آج منت کو غائب ہوئے تیسر ا دن تھا نگین بیگم بالکل نڈھال ہو گئی تھیں نہ کچھ کھارہی تھیں نہ پی رہی تھیں بس اللہ کے آگے جھکے ، لگا تار آنسو بہارہی تھیں۔ سب ان کی حالت کو دیکھ کر بہت پریشان تھے۔ یلیز کر کھائیں۔ لاریب نے التجائیہ لہجے میں کہا تو انھوں نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ لوگ اپنے گھر واپس آگئے تھے کیونکہ نجمہ بیگم اور عثمان صاحب کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ ان کا منت کو ڈھونڈنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے سب پوچھ پوچھ کر تھک گئے تھے لیکن انھوں نے کسی کو نہیں بتایا کہ منت کہاں اور کیوں گئی ہے بس خاموش تھے۔ لاریب نے التجائیں کر کے نگین بیگم کو کھانا کھلایا پھر میڈیسن دے کر سلا دیا اور آرام سے ان کے کمرے کا دروازہ بند کرتی باہر نکل آئی مرتسم اور عنایہ باہر کھڑے پریشانی سے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔ لاریب نے اپنے بہن بھائی کے اترے چہرے دیکھے تو انھیں بھی تسلی دے کر کھانا کھلایا، سب کو سلا کر اب وہ خود چھت کو دیکھ رہی تھی پھر آہستہ آہستہ اس کی بھی انکھ لگ گئی۔ منت کو جھٹکا لگا اسے لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہے اس نے حیران ہو کے سب کو دیکھا سب اسے ہی دیکھ رہے تھے سوائے مقدم کے ۔۔۔۔ وہ بس چہرہ جھکائے بیٹھا تھا۔ "ابھی .... کیا کہا آپ نے ؟ ..... منت سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا تو اٹکتے ہوئے بولی آپ نے صبح نا ہے یا ہم آپ کو ڈوپٹ کرنا چاہتے ہیں۔ شازیہ بیگم کے الفاظ اس کی سماعتوں میں زہر گھول رہے تھے۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا میں کسی کے ساتھ نہیں جاؤں گی .... اگر آپ لوگوں کو میرے یہاں رہنے سے مسئلہ ہے تو ٹھیک ہے میں ابھی یہاں سے چلی جاتی ہوں لیکن میں کسی کے ساتھ کسی کے گھر نہیں جاؤں گی۔" منت نے غصے سے کہا تو اس کے الفاظوں پر مقدم نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا اور سرد نظروں سے منت کو گھورا مگر وہ اس کی جانب متوجہ نہیں تھی۔ مقدم کا دل ڈوبنے لگا۔ منت بیٹا آپ جزباتی ہو کر نہ سوچو ہم سب کو آپ کے ماضی کے بارے میں علم ہو گیا ہے کہ آپ کہاں سے آئی ہو ہم لوگ سب جان چکے ہیں۔ آپ ہم پر یقین کرو ہم سب آپ کو بہت خوش رکھیں گے۔ شازیہ بیگم نے اسے پچکارنے کی کوشش کی تو اس کی ویران آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں ایک بار پھر وہ سب نہیں سہہ سکتی .... مجھے کہیں نہیں جانا .... پلیز آپ لوگ مجھے مجبور نہ کریں۔" اس نے بھرائی آواز میں کہا اس کے آنسو بہنے لگے تھے۔ مقدم نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں اور گہری سانس بھری اسے اس لڑکی کا رونا تکلیف دے رہا تھا پر وہ خاموش رہا " متو" ضر غام نے اسے پکارا تو اس نے حیرت سے سر اٹھایا اسے کبھی کسی نے ایسے نہیں پکارا تھا۔ " مجھے بہن چاہیے تھی ہمیشہ سے ہی جس کے میں نخرے اُٹھاؤں وہ مجھ سے ضد کر کے اپنی باتیں منوائے، مجھے تنگ کرے لیکن یہ میری ہمیشہ بس ایک خواہش ہی رہی .... آپ بھی ہمیشہ اپنے بہن بھائیوں سے الگ رہی ہو۔ ہمیں ایک موقعہ تو دو بچہ ہم آپ کو بہت خوش رکھیں گے .... ہمارے گھر کو ، ہم سب کو آپ کی ضرورت ہے .... پلیز انکار نہ کرو۔ " شازیہ بیگم ضرغام کے اس قدر درد سے کہنے پر رونے لگیں تو منت نے ایک نظر سب کو دیکھا جو امید بھری نظروں سے آنکھوں میں آنسو لیے، اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ منت سے ان کا دل نہیں توڑا گیا تو خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔۔۔ سب کے چہروں پہ اطمینان پھیل گیا۔ ضرغام نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا وہ بہت خوش تھا۔ اب ہم دونوں مل کر ان سب کی ناک میں دم کریں گے .... منت آج سے تم میری ٹیم میں۔" ارمغان نے پر جوش ہو کر کہا تو سب مسکرا دیے۔۔۔۔ مقدم نے منت کو دیکھا جو آج بھی نہیں مسکرائی تھی تو اس نے نظروں کا رخ پھیر لیا۔ چلو پھر آپ تیاری پکڑو ہمارے ساتھ جانے کی۔" ضر غام نے کہا " آپ لوگ چلیں میں انھیں لے کر آتا ہوں چیک اپ کے بعد ۔ " مقدم کے کہنے پہ سب نے سر ہلایا اور منت کو پیار کرتے باہر نکل گئے۔۔۔۔ منت اور مقدم اکیلے کیبن میں رہ گئے۔ یہ لوگ واقعی بہت اچھے ہیں داجی نے ہم تینوں بھائیوں کا تب خیال رکھا تھا جب ہمارے پاس " کوئی نہیں تھا ... آپ خوش رہیں گی وہاں۔ مقدم نے اسے کہا لیکن اس نے کوئی بھی جواب نہ دیا تو مقدم اسے لے کر گاڑی کی طرف چل دیا۔ ماما کچھ پتا چلا ملی ہے منت ؟.... آپ پھپھو کو فون کرو اور پوچھو۔ مناہل نے مابین بیگم سے پوچھا جو پریشان بیٹھی ہوئی تھیں۔ نہیں ملی ابھی تک نجمہ آپی بس یہی کہی جارہی ہیں کہ وہ بھاگ گئی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی بچی ایسی تھی ہی نہیں تو کیسے بھاگ گئی اور کس کے ساتھ ؟ ... میں یقین ہی نہیں کر سکتی کہ منت بھاگ سکتی ہے۔" مابین بیگم نے یقین سے کہا تو مناہل اتنی پریشانی کے باوجود مسکرا دی۔۔۔۔ کوئی تو تھا جسے مناہل کے علاوہ بھی یقین تھا کہ منت بھاگ نہیں سکتی۔ قسط نمبر 4 پڑھیں |