 |
"رازِ دل" "قسط نمبر 05" از "کنزہ خان"
❤❤❤
" جی سب خیریت ہے۔"
ضرغام نے کہا تو نور خاموش ہو گئی۔
لاریب روز رات کو منت کو یاد کرتی تھی آج بھی وہ اسے یاد کر کے آنسو بہارہی تھی جب اس کے فون پر آنے والی کال کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
اسلام و علیکم!
لاریب کے فون پر انجان نمبر سے کال آئی تو اس نے فوراً ہی منت کے خیال سے فون اٹھا لیا لیکن دوسری جانب سے خاموشی تھی
"ہیلو۔۔۔۔"
لاریب نے کہا لیکن جواب ندارد
یارم آنکھیں بند کیے ، اس کی آواز محسوس کر رہا تھا جو بڑھتے دنوں کے ساتھ اس کی جان بنتی جارہی تھی۔
" کوئی سن رہا ہے ؟ ۔۔۔۔"
لاریب نے کہا تو یارم خاموش رہا اس نے اسے سننے کے لئے ہی تو فون کیا تھا۔ لاریب نے جواب نہ پاکر فون کاٹ دیا۔ وہ جو آنکھیں موندے، سیٹ سے پشت لگائے اس کی آواز محسوس کر رہا تھا اس کی اس حرکت پر شدید بدمزہ ہوا لیکن ابھی وہ اسے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔
مقدم داجی سے آفس کے کام کے سلسلے میں ملنے آیا تھا اسے ضر غام اور داجی سے ایک کلائنٹ کی فائل ڈسکس کرنی تھی۔ جیسے ہی وہ اندر لاونج میں داخل ہوا اس کی نظر لاونج میں موجود شیشے سے باہر نظر آتے لان میں بیٹھے ارمغان اور منت پہ پڑی۔۔۔۔ ارمغان کچھ کہہ رہا تھا اور منت کی ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ، گردن پیچھے کو پھینکے لگا تار قہقہے لگارہی تھی۔
مقدم اسے کھکھلا تا دیکھ ایک دم ساکت ہو گیا پھر ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتا ان دونوں تک آیا۔ اس کے اچانک آجانے پر منت جو ہنستے ہنستے آنکھوں میں آجانے والی نمی صاف کر رہی تھی رک کر اسے دیکھنے لگی
مقدم اسے ہی گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ گلابی ڈریس میں سر پر دوپٹہ اوڑھے وہ ہمیشہ کی طرحمقدم کا دل الگ لے پر دھڑ کا رہی تھی۔
" ارے مقدم بھائی آپ یہاں .... خیریت ؟۔۔۔۔"
ارمغان نے پوچھا تو وہ جو منت میں مگن تھا گڑ بڑا گیا اور ارمغان کو دیکھا۔۔۔۔ منت نے ارمغان کی آواز پر چہرہ جھکا لیا وہ ارمغان کی نظروں سے بچنا چاہتی تھی جو شرارتی نگاہوں سے ایک نظر منت کے جھکے سر کو دیکھتا اور ایک نظر مقدم کو۔
ہاں وہ راجی سے کچھ امپورٹنٹ فائلز ڈسکس کرنی تھی۔"
مقدم نے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔
داجی اپنے کمرے میں ہیں آپ وہاں چلے جائیں۔ "
ارمغان نے کہا تو وہ جو پھر سے اس کے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
اچھا کیا کہہ رہے تھے تم ؟۔۔۔۔"
منت نے اس کے جاتے ہی دوبارہ ارمغان کو مخاطب کیا تو وہ پھر سے شروع ہو گیا اور منت پھر سے کھلکھلانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد جب دونوں تھک گئے تو اٹھ کر اندر چلے گئے۔
منت کو اس گھر میں آئے دو مہینے ہو چکے تھے اور وہ سب کے ساتھ کافی گھل مل گئی تھی پہلے جو منت خاموش رہتی تھی اب وہ ارمغان کے تنگ کرنے پر ضرغام کو بتا کے اسے ڈانٹ پڑواتی تھی اسے یہ سب بہت اچھا لگتا تھا گھر میں سب ہی اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے اسے کبھی اتنا پیار نہیں ملا تھا جتنا ان لوگوں نے اس سے کیا تھا۔
ابھی وہ لاونج میں بیٹھی یہی سب سوچ رہی تھی جب داجی ، ضرغام ، اور مقدم ، داجی کے کمرے سے باہر آگئے اور لاونج میں انہی کے پاس بیٹھ گئے۔
ارمغان اور منت " شاہ رخ خان " کی مووی میں مگن تھے کیونکہ جب منت بیٹھی ہو اور " شاہ رخ خان " کی مووی آرہی ہو تو چینل تبدیل کرنے پر سخت پابندی تھی چاہے وہ مودی روز ہی کیوں نہ لگتی ہو منت کی وجہ سے سب کو خوش ہو کر دیکھنی پڑتی تھی۔
وہ تینوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ مقدم بار بار نظریں اٹھا کے اسے دیکھتا جو مووی میں بالکل مگن تھی اچانک سے سکندر صاحب ہانپتے ہوئے اندر آئے۔۔۔۔ ضرغام نے انھیں دیکھا تو فوراً پوچھا
" آپ ٹھیک ہیں ڈیڈ ؟ ۔۔۔۔"
وہ جو بھاگتے ہوئے آ رہے تھے ضرغام کی بات پہ ہاں میں سر ہلایا ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک بتارہی تھی کہ وہ بہت زیادہ خوش ہیں۔
" کیا ہوا ہے سکندر ؟۔۔۔۔"
داجی کے سوال پر وہ فوراً ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور ہاتھ ان کی گود میں رکھ دیئے۔
" داجی پلیز غصہ نہ ہوئے گا۔ "
انھوں نے التجائیہ لہجے میں کہا تو داجی کو کچھ غلط لگا۔
" کیا ہوا ہے ؟۔۔۔۔"
انھوں نے رعب دار آواز میں پوچھا
" داجی وہ .... وہ قاسم آرہا ہے آپ سے ملنے۔ "
سکندر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ پہلے راجی کی آنکھیں حیرت سے پھیلی پھر حیرت کی جگہ شدید غصے نے لے لی۔
" خبر دار .... اس گستاخ کو منع کر دو .... مجھے اپنی شکل دکھانے کی غلطی بھی نہ کرے۔ "
داجی غصے سے دھاڑے داجی اتنا وقت گزر گیا ہے اب بس جانے دیں معاف کر دیں اسے ۔ "
سکندر صاحب نے منت بھرے انداز میں کہا
میں اپنی بیٹی کی موت جانے نہیں دے سکتا سکندر .... تم لوگوں نے ملنا ہے تو ملو پر میں کبھی بھی اس کی شکل نہیں دیکھوں گا۔ "
انھوں نے غصے سے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
" یہ قاسم کون ہے ؟۔۔۔۔"
منت نے ارمغان کی طرف جھکتے سرگوشی کی تو جواب میں ارمغان نے بھی کندھے اچکا دیے وہ بھی نہیں جانتا تھا انھیں۔
" ماضی"
عالم صاحب (واجی) کے تین بچے تھے سکندر, قاسم اور شازمہ۔
شازمہ ان دونوں بھائیوں کی سب سے لاڈلی بہن تھی لیکن قاسم صاحب کی بیوی فرزانہ شروع سے ہی شازمہ کو نا پسند کرتی تھیں ان سے ان کے بھائیوں نے کبھی اتنا پیار نہیں کیا تھا لیکن شازمہ کے بھائی ان پہ جان دیتے تھے یہی چیز انھیں حسد میں مبتلا کر دیتی تھی وہ شازمہ کو بہت زیادہ ناپسند کرنے لگی تھیں۔
سکندر صاحب کے دوست رضوان صاحب کا بچپن سے ہی خان مینشن میں آنا جانا تھا انھوں نے سکول، کالج، یونیورسٹی سب سکندر صاحب کے ساتھ ہی کیا تھا ان دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔
فرزانہ بیگم کی نظر رضوان صاحب پہ تھی وہ گہری سیاہ آنکھوں والے بہت خوبصورت مرد تھے۔ فرزانہ بیگم نے رضوان کو اپنی اداؤں سے بھٹکانے کی کوشش کی لیکن فرزانہ بیگم شادی شدہ تھیں ان کے گھر ایک مہینہ پہلے نور نے جنم لیا تھا جبکہ سکندر صاحب کا بیٹا ضر غام اور رضوان صاحب کا بیٹا یارم دونوں پانچ سال کے تھے بالاج تین سال کا تھا اور مقدم دو سال کا تھا۔
فرزانه بیگم رضوان صاحب کو چاہنے لگی تھیں انھوں نے رضوان صاحب سے اظہار کیا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گئے اُنھوں نے آسیہ بیگم سے پسند کی شادی کی تھی ان کے تین بچے تھے فرزانہ بیگم کی بات نے اُنھیں بہت غصہ دلایا تھا وہ انکار کر کے چلے گئے فرزانہ بیگم سے ریجکٹ ہونا برداشت نہیں ہوا اور انھوں نے بدلے کی ٹھانی۔۔۔۔
رضوان صاحب نے فرزانہ بیگم کی حرکت کا اگلے دن سکندر صاحب کے آفس میں جاکے انھیں بتایا تو ان دونوں نے گھر جا کر قاسم صاحب کو بتانے کا سوچا اور گھر کی جانب روانہ ہوئے لیکن انھیں دیر ہو گئی تھی وہ دونوں گھر پہنچے تو ان دونوں کے سروں پہ آسمان ٹوٹ پڑا ۔۔۔۔ صف ماتم بچھا ہوا تھا اور سکندر صاحب کی جان سے عزیز بہن اس دنیا میں نہیں رہی تھی قاسم صاحب ان دونوں کو دروازے پر پتھر بنا کھڑا دیکھ غصے سے ان کی جانب بڑھے اور رضوان صاحب کا گریبان پکڑا۔
تو نے ہمارے گھر کی عورت پہ نظر ڈالی .... تجھے اپنا سمجھا اور تو نے ہماری ہی پیٹھ پر چھراگھونپا۔"
قاسم صاحب نے ان کا گریبان پکڑے، جھٹکا دیا اور غصے سے دھاڑے۔۔۔۔ رضوان صاحب جو سکتے کی کیفیت میں سب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے قاسم صاحب کی اس حرکت پر بھونچکا رہ گئے۔ سکندر صاحب نے غصے اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں رضوان صاحب کا گریبان چھڑوایا اور اُنھیں لیے ، آگے بڑھے جہاں شازمہ اس دنیا کو چھوڑ کے جاچکی تھی۔
شازمہ رضوان صاحب کی بھی بہنوں کی طرح تھی وہ سکندر صاحب کا دکھ سمجھ رہے تھے انھوں نے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے بلک بلک کر روتے سکندر کو حوصلہ دینا چاہا جب ان کی نظر شازمہ کے گلے اور خون سے بھیگتی چادر پر پڑی۔۔۔۔ انھیں قاسم کے انداز سے کچھ بہت غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
داجی بھی سکتے کی کیفیت میں شازمہ کے قریب بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ رضوان صاحب نے سکندر صاحب کا کندھا ہلایا انھوں نے چہرہ اٹھا کر رضوان کو دیکھا اور پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا انھیں لگا جیسے کسی نے دھڑا دھڑ ساتوں آسمان ان کے سر پہ دے مارے ہوں ان کی بہن کی موت گردن کٹنے سے ہوئی تھی۔
"یہ .... یہ کیسے۔۔۔۔"
انھوں نے اٹکتے ہوئے پوچھا " میں نے قتل کیا ہے اس کا۔"
قاسم صاحب نے بڑے فخر سے بتایا۔۔۔۔ داجی جو بے جان نگاہوں سے اپنی لاڈلی کو دیکھ رہے تھے قاسم کی اس بات پہ چہرہ اٹھایا۔
" دا جی اس نے ہماری عزت کو داغ لگانے کی کوشش کی تھی .... یہ رضوان کے ساتھ غلط تعلقات بنائے ہوئے تھی فرزانہ کو پتہ چلا تو اس نے مجھے بتایا .... اس نے بہت بار اسے اکیلے میں رضوان سے ناز یبا باتیں کرتے دیکھا تھا۔ "
سکندر صاحب تو یوں ہو گئے جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔۔ رضوان صاحب پھٹی پھٹی نگاہوں سے سارا منظر دیکھ رہے تھے کیونکہ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا یہ سب۔۔۔۔ وہ تو شازمہ کو اپنی سگی بہن سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے ان پہ ایسا الزام ۔۔۔۔
" بکواس بند کرو اپنی قاسم ۔۔۔۔"
داجی غصے سے دھاڑے۔
میں کیوں چپ رہوں .... آپ اس سے پوچھیں نہ .... اس کی وجہ سے ہوا ہے سب۔"
وہ جو اب دھاڑے تو راجی اٹھ کھڑے ہوئے اور زناٹے دار تھپڑ قاسم صاحب کے چہرے پر دے مارا۔
" تم نے میری بیٹی کو قتل کیا۔"
ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
اپنی اس بد کردار بیوی کے بھڑکانے پر تم نے میری پاک بیٹی پر اس قدر گھٹیا الزام لگا کر اسے تو قتل کر
دیا۔"
" داجی۔۔۔۔"
اپنی بیوی کے بارے میں ایسے الفاظ سن قاسم صاحب دھاڑے تو سکندر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔
" بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں راجی .... شازمہ اور رضوان بے قصور ہیں .... فرزانہ کی نظر تھی رضوان پر
لیکن جب رضوان نے اسے بے عزت کیا تو اس نے بدلہ لے لیا .... شازمہ تو شروع سے ہی اسے پسند نہیں تھی اور اب رضوان سے ریجکٹ ہونا اس کی انا کو گوارا نہ کیا تو ایسا گھٹیا کھیل کھیلا... اور تم نے بس اپنی بیوی کے بتانے پہ بہن کو قتل کر دیا؟.... کوئی ثبوت کوئی گواہ کچھ بھی نہیں مانگا ؟.... قاسم میں نے
تم جیسا ہے و قوف اور بز دل مرد کبھی نہیں دیکھا۔"
سکندر صاحب جو غصے سے دھاڑ رہے تھے آخری بات بہت افسوس سے کہی۔
قاسم صاحب تو بھونچکا رہ گئے۔ انھوں نے فرزانہ بیگم کو دیکھا جو تمسخرانہ مسکراتے ہوئے رضوان صاحب کو دیکھ رہی تھی قاسم صاحب کے اچانک دیکھنے پہ گڑ بڑا گئی قاسم صاحب کو شدت سے کچھ غلط لگا۔
" فرزانہ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟.... یہ سب جھوٹ ہے نا ؟۔۔۔۔"
قاسم صاحب نے بہت برداشت سے یہ سوال کیا تھا انھیں لگا فرزانہ بیگم اثبات میں سر ہلا کر کہیں گی "ہاں یہ سب جھوٹ ہے "
لیکن انھوں نے بہت ہٹ دھرمی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ قاسم صاحب کی تو حالت خراب ہو گئی وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے چلے گئے۔
چلے جاؤ قاسم یہاں سے .... میں تم سے ابھی اس وقت اپنا ہر رشتہ توڑتا ہوں۔"
عالم صاحب نے کہا تو قاسم صاحب نے حیرانگی کی کیفیت میں انھیں دیکھا
"بابا۔۔۔۔"
" خبر دار اگر تم نے اپنی اس غلیظ زبان سے مجھے پکارا ابھی اور اسی وقت اپنی بیوی کو لو اور چلے جاؤ یہاں سے میں تمھیں اپنی جائیداد سے عاق کرتا ہوں تم سے اپنا ہر رشتہ توڑتا ہوں۔"
انھوں نے قاسم صاحب اور فرزانہ بیگم کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔
پہلے تو کچھ دن قاسم صاحب فرزانہ بیگم کو لے کر کرائے کے گھر میں رہے اور اپنا بزنس سٹارٹ کیا انھیں بزنس کرنا آتا تھا تو ایک سال کے اندر اندر وہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔
انھیں گھر سے نکلے ایک سال ہو گیا تھا جب انھیں خبر ملی کہ سکندر صاحب کے ہاں بیٹے نے جنم لیا ہے وہ سکندر صاحب سے ملنے جانا چاھتے تھے لیکن ہمت نہ کر سکے انھوں نے بس نور کی وجہ سے فرزانہ بیگم کو طلاق نہیں دی تھی لیکن وہ انھیں مخاطب نہیں کرتے تھے وہ گھر میں کسی فالتو چیز کی طرح تھیں۔
انھیں اپنے کیے کا احساس ہو گیا تھا اتنا پیار کرنے والا شوہر ان سے چھین گیا تھا انھوں نے بہت بار سب ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن قاسم صاحب کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اپنے شوہر کی توجہ نہ پاکر وہ دن با دن بیمار پڑنے لگی پھر آخر انھیں اپنی بیوی پر ترس آگیا اور وہ ان کے ساتھ ٹھیک ہونے لگے۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد انھیں انتقال کی خوشخبری ملی قاسم صاحب بہت خوش تھے لیکن جیسے ہی انتقال نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں فرزانہ بیگم ابدی نیند سو گئیں یہ دکھ بہت بڑا تھا۔۔۔۔
پہلے تو دو سال انھوں نے انتقال کو پالا نور بھی بس سات سال کی تھی پھر انھوں نے اپنا بزنس لندن ٹرانسفر کر لیا اور وہاں چلے گئے وہاں انھوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ۔۔۔۔ لندن میں ہی انھیں رضوان صاحب اور ان کی بیوی کی موت کی خبر ملی تو وہ حیران رہ گئے انھیں بہت افسوس ہوا تھا مقدم پندرہ سال کا تھا جب رضوان صاحب کی موت ہوئی جبکہ بالاج سترہ اور یارم اٹھارہ سال کا تھا۔
سکندر صاحب نے ان تینوں کے ساتھ ہی ضر غام اور ارمغان کو اپنی پڑھائی پوری کرنے امریکہ بھیج دیا۔
ضر غام، یارم اور بالاج کا ڈبل ایم اے ختم ہوا تو انھوں نے واپس آکر بزنس سنبھال لیا مقدم کا ڈبل ایم اے مکمل ہوا تو جو بزنس ان کے باپ کے بعد سکندر صاحب نے سنبھالا تھا وہ اب ان تینوں کے پاس تھا ان تینوں نے دن رات محنت کر کے اس کمپنی کو جو ان تینوں کے نام تھی آسمان پر پہنچا دیا تھا وہ تینوں بہت کا میاب بزنس مین بن گئے تھے۔
ضر غام اور ارمغان بھی واپس آکر سکندر صاحب کا بزنس سنبھالنے لگے تھے۔ ارمغان نے ایم فل کیا تھا اور وہ واپس آگیا تھا ابھی اس کا بزنس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جب نور بائیس سال کی ہو گئی تو پندرہ سال بعد قاسم صاحب نے واپس پاکستان کا رخ کیا انھیں اپنی موت سے پہلے اپنے بابا کو منانا تھا۔۔۔۔ یہاں آکر انھیں ہمت جمع کرتے مزید چار سال لگ گئے۔ انھوں نے سکندر صاحب سے رابطہ کیا نور اب چھپیں جبکہ امتثال اب اکیس سال کی تھی۔
"حال"
سکندر صاحب نے سب کچھ بھلا کر انھیں گھر آنے کا کہا انھیں لگا تھا کہ راجی اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کا سن کے خوش ہو جائیں گے لیکن راجی کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا تو وہ سر ہاتھوں میں گرائے صوفے پر بیٹھ گئے۔ ابھی وہ آگے کا سوچ ہی رہے تھے جب فون کی آواز نے سب کو ان کی طرف متوجہ کیا۔
اسلام و علیکم!
انھوں نے قاسم کا نمبر دیکھ ، سلام کیا لیکن آگے سے جو انھیں خبر سننے کو ملی وہ ان کی جان نکالنے کے لئے کافی تھی۔
" کیا ہوا ہے ڈیڈ ؟"
ضرغام نے ان کے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت دیکھی تو سوال کیا۔
"میرے بھائی، میرے قاسم کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے .... وہ یہاں آرہا تھا راستے میں ہی اس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا .... ہسپتال لے گئے ہیں۔ "
سب ہی ایک دم پریشان ہو گئے تھے۔ سکندر صاحب نے راجی کو بتایا اور سب بڑے ہسپتال کے لئے نکل گئے منت اب اکیلی تھی تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
ہسپتال کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے سب ہی پریشان تھے مقدم بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔
ریسیپشن سے کمرہ پوچھ کر سب جلدی جلدی مطلوبہ کمرے تک پہنچے اور دروازہ کھولا اندر قاسم صاحب
مشینوں میں جکڑے بستر پہ لیٹے تھے جسم پٹیوں سے بھر اہوا تھا ان کے پاس دو لڑکیاں کھڑی بہت بری طرح رورہی تھیں۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر نور اور انتقال نے دروازے پر دیکھا تو نور ضر غام کو دیکھ کر حیران رہ گئی اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرنے کے بعد سوال کیا
" سر آپ یہاں؟۔۔۔۔"
اس کے "سر " کہنے پر سکندر صاحب نے ضرغام کو دیکھا " یہ میری پی اے ہے۔ "
ضرغام کے جواب پر انھوں نے نور کو دیکھا اور آگے قاسم کی طرف بڑھ گئے۔ انتقال اور ارمغان انجان نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے تو کبھی گھر والوں کو۔ "بابا۔۔۔۔"
قاسم صاحب نے نقاہت بھری آواز میں کہا تو داجی تڑپ اُٹھے ۔۔۔۔ جتنا بھی غصہ ہوتے آخر قاسم صاحب ان کی اولاد تھے جبکہ نور اور انتقال کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
" کیا ان کے دادا بھی تھے ؟۔۔۔۔"
بابا مجھے معاف کر کر دیں بابا مجھ مجھ سے غلطی .... ہوگئی تھی۔"
قاسم صاحب کی حالت بہت خراب تھی ان سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ نور اور امتثال اپنے باپ کی حالت دیکھ روئے جارہی تھیں شازیہ بیگم اگے بڑھی اور انھیں گلے لگا کر تسلی دینے لگیں۔
آپ سب لوگ باہر چلیں پیشینٹ کی طبیعت بہت خراب ہے زیادہ لوگ ان کے پاس نہیں رک سکتے۔"
ڈاکٹر نے کہا۔
بابا .... میں چاہتا... ہوں کہ آپ .... میری نور کو اور .... انتقال کو.... ضرغام اور ارمغان .....
کے .... لیے اپنالیں۔"
قاسم صاحب کا سانس اکھڑ رہا تھا انھوں نے مضبوطی سے داجی کے ہاتھ پکڑ کر کہا تو ضر غام نے نور اور ارمغان نے انتقال کو دیکھا۔۔۔۔
ضر غام چہرہ جھکا گیا جبکہ ارمغان تو انتقال کو جانتا بھی نہیں تھا اسے سکندر صاحب نے ہسپتال کے راستے میں ساری کہانی سنائی تھی تو اسے پتہ چلا کہ بستر پہ لیٹا وجود اس کے چچا ہیں۔۔۔۔ دوسری طرف انتقال کا بھی یہی حال تھا اسے تو پتہ ہی آج چل رہا تھا کہ اس کے تایا اور دادا بھی ہیں۔ نور اور امتثال کو ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ ان کے باپ کے علاوہ ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے پر اب اچانک سے تایا اور دادا کا آنا اور ان
کے باپ کا نکاح کا کہنا۔۔۔۔ وہ انھیں جانتیں بھی نہیں تھیں آج ہی ملی تھیں اور آج ہی شادی۔۔۔۔
لیکن اچانک شادی ؟ ۔۔۔۔"
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو سکندر صاحب نے ہاں کر دی۔۔۔۔ ارمغان کو اعتراض تھا لیکن ضرغام نے اسے بولنے سے روک دیا اسے انتقال اچھی لگی تھی لیکن اتنی جلدی نکاح ۔۔۔۔ پر وہ خاموش ہو گیا جب انتقال کی آواز گونجی۔۔۔۔
بابا.... میں شادی نہیں کروں گی .... میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی کبھی نہیں۔ "
انتقال نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو نور نے اسے تھاما
" بیٹا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے .... اپنے باپ کی آخری خواہش سمجھ کر ہی یہ نکاح کر لو.... میں سکون سے مر سکوں گا .... سب آپ دونوں بہنوں کو بہت خوش رکھیں گے ۔ "
قاسم صاحب نے نقاہت بھری آواز میں کہا تو ان کے مرنے والی بات پہ سب تڑپ اٹھے۔
انتقال نے ارمغان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اس نے گردن موڑ کر اپنے باپ کو دیکھا اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا قاسم صاحب کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔
بابا.... میں ابھی .... اسی وقت ..... سادگی سے .... نکاح چاہتا ہوں آپ .... مجھ پہ یہ احسان کر دیں۔"
ان کی آواز سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہیں۔
" نکاح خواں کا انتظام کرو مقدم "
داجی کے کہنے پر مقدم نے نکاح خواں کا انتظام کیا اور یارم اور بالاج کو فون کر کے سب بتادیا تو وہ بھی نکاح سے پہلے پہنچ گئے۔
مقدم نے منت کو فون کیا لیکن اس کا فون بند تھا اس نے دوبارہ کیا لیکن فون بند ۔۔۔۔ وہ قدرے پریشان ہو گیا وہ گھر اکیلی تھی وہ فوراً گھر کے لیے نکلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے نکاح خواں آتے دکھائی دیئے وہ انھیں لیے ہسپتال کے کمرے میں آگیا۔
نکاح خواں کے آتے ہی سب کی موجودگی میں نکاح ہو گیا۔ نکاح کے بعد اچانک سے قاسم صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی سب باہر آگئے ڈاکٹر ان کا چیک اپ کر رہے تھے سب بہت پریشانی سے ٹیہل رہے تھے۔ شازیہ بیگم لگا تار نور اور انتقال کو تسلیاں دے رہی تھیں جب ڈاکٹر باہر آئے
دیکھیں سر ان کا بچنانا ممکن تھا لیکن پھر بھی ہم نے اپنی پوری کوشش کی .... ہمیں کہتے ہوئے دکھ ہے لیکن ہم آپ کے مریض کو بچا نہیں سکے ۔ "
سب کے سروں پر آسمان ٹوٹا تھانور اور انتقال پھوٹ پھوٹ کے رورہی تھیں ان کا باپ ان سے چھین لیا گیا تھا۔ شازیہ بیگم نے روتے ہوئے انھیں گلے لگا لیا۔
قاسم صاحب کی حالت زیادہ خراب تھی تو انھیں گھر نہیں لے کر جایا جا سکتا تھا انھیں آخری غسل ہسپتال میں ہی دے کر ان کی تدفین کر دی گئی۔
سب لوگ تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئے تو منت صوفے پر ٹانگیں اوپر کیسے مودی دیکھنے میں مصروف تھی۔ اسے صحیح سلامت دیکھ مقدم نے سکون بھر اسانس ہوا کے سپر د کیا وہ اس کے فون بند ہونے پہ پریشان ہو گیا تھا لیکن اسے ٹھیک دیکھ اب پر سکون ہو گیا تھا۔ انھیں آتا دیکھ منت نے ٹی وی بند کر دیا اور ان کی جانب متوجہ ہوئی
سب ٹھیک ہے وہاں ؟۔۔۔۔"
اس نے ایک نظر سب پر ڈالی جو تھکے قدموں سے آکر صوفوں پر براجمان ہو گئے تھے۔
" چاچو کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔"
ضر غام نے منت کو بتایا تو اسے بہت افسوس ہوا اس نے ایک نظر ان دو انجان لڑکیوں کو دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے ضرغام کو ۔۔۔۔ وہ اس کا سوال سمجھ گیا تھا تو دھیرے سے بولا۔۔۔۔
" یہ چاچو کی بیٹیاں ہیں نور اور امتثال .... اب سے ہمارے ساتھ ہی رہیں گیں۔ "
منت نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"نور ، انتقال .... آو بیٹا میں تم دونوں کو ضرغام اور ارمغان کے کمرے میں لے چلوں آپ دونوں
تھک گئی ہو گی آرام کر لو۔"
شازیہ بیگم نے کہا تو منت نے پھر سے ضرغام کو دیکھا
" آپ کے کمرے میں کیوں ؟ ۔۔۔۔"
" اب یہ ہماری بیویاں ہیں .... نور آپی ضرغام بھائی کی اور انتقال میری ۔ "
ارمغان کے جواب پر منت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جبکہ ارمغان کے "میری " کہنے پر امتثال اور ارمغان کا دل بیک وقت دھڑکا تھا دونوں کی نظریں ملیں انتقال نے فوراً سے نظروں کا رخ بدل لیا ارمغان دھیما سا مسکرایا ۔۔۔۔ منت نے ضرغام اور ارمغان کو دیکھا پھر داجی کو جیسے تصدیق
چاہتی ہو انھوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
چاچو کی حالت بہت خراب تھی ان کی آخری خواہش تھی۔"
پھر ضر غام اور ارمغان اسے سب بتاتے چلے گئے اور وہ چپ چاپ سنتی گئی اسے بہت دکھ ہوا تھا۔
کچھ دیر سب وہی بیٹھے رہے پھر مقدم، یارم اور بالاج واپس چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب ضرغام کمرے میں گیا تو نور کو چیزیں پٹختے اور روتے پایا " نور ! اللہ کی مرضی تھی یار .... تم صبر کرو اور ان کے لئے دعا کرو۔"
ضرغام نے نور کو سمجھانا چاہا اور آہستہ سے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔ کندھا ملتے ہی وہ مزید شدت سےرونے لگی۔
ارمغان کمرے میں داخل ہوا تو انتقال کو بستر پہ بیٹھے ، سرہاتھوں میں گرائے ہچکیاں لیتے دیکھا۔۔۔۔ وہ قاسم صاحب کے بہت زیادہ قریب تھی اور سب کی لاڈلی بھی تھی پر اب اچانک اس سے اس کا باپ چھین گیا تھا۔ ارمغان کو سمجھ نا آیا کہ وہ اسے کیسے تسلی دے بس اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھ تھام لیے وہ روتی گئی اور ارمغان اس کے آنسو تھمنے کا انتظار کرنے لگا وہ جانتا تھا اس وقت کوئی بھی تسلی امیز الفاظ اس کا دکھ کم نہیں کر سکتے اس کا دل ہلکا ہو نا ضروری تھا تو اسے کھل کے رونے دیا۔۔۔۔
جب اس کے آنسو تھے تو ارمغان نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس بھر کے اسے پکڑایا جسے وہ جلدی سے پی گئی۔
" میرا اس وقت کچھ بھی کہنا تمہارا درد کم نہیں کر سکتا لیکن امتثال .... اللہ کو صبر کرنے والے لوگ بہت پسند ہیں تم صبر کرو چاچو کے لیے دعا کرو انھیں تمہاری دعاؤں کی ضرورت ہے آنسوؤں کی نہیں۔"
ارمغان نے کہتے ہوئے انتقال کو ساتھ لگایا تو وہ جو بے سکون تھی اسے اپنے محرم کی باہوں میں سکون مل گیا اس نے آہستہ سے ارمغان کے سینے پہ سر رکھا اور آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ارمغان نے اس کی بھاری ہوتی سانسیں محسوس کیں تو سمجھ گیا کہ وہ سو چکی ہے اسے بستر پر لٹا کر ارمغان باہر آگیا۔
وقت پر لگا کر اڑا اور ایک سال گزر گیا نور اور انتقال گھر میں گھل مل گئی تھیں منت سے بھی ان کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ جب انھیں منت کے بارے میں معلوم ہو ا تو وہ دونوں کافی دکھی ہوئیں تھی پھر ان دونوں کی اس سے دوستی ہو گئی۔
ضرغام نور کے ساتھ اور ارمغان انتقال کے ساتھ خوش تھا انھوں نے اپنی زندگی کی نئی شروعات کرلی تھی اور اب بہت خوشی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔
منت کو لا پتہ ہوئے ایک سال ہو گیا تھا اب تک سب سنبھل گئے تھے اسے ڈھونڈ نا چھوڑ دیا گیا تھا سب اس کی خیریت کی دعا کرتے تھے لیکن آج لاریب بہت زیادہ اداس تھی اس کی سالگرہ تھی جو اس نے کبھی بھی منت کے بغیر نہیں منائی تھی آج وہ بہت زیادہ اداس تھی بہت روئی تھی کیونکہ آج ہی کے دن منت لاپتہ ہوئی تھی لیکن وہ کیا کرتی اسے بس صبر سے کام لینا تھا۔
منت آج ناشتے کے لیے بھی نہیں آئی .... ابھی بھی کمرے میں بند ہے .... سب ٹھیک ہے نا؟" شازیہ بیگم نے سب کو باری باری دیکھتے پوچھا۔
منت ارمغان نور اور انتقال کے ساتھ ہی ہوتی تھی وہ اب سب سے کافی ایچ ہو گئی تھی جب سے وہ نارمل ہوئی تھی سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہت شرارتی ہے ہر وقت گھر میں شور مچار ہتا۔۔۔۔ داجی کو جو رونق اپنے گھر میں چاہیے تھی ان کے بچے مل کر وہ رونق لگائی رکھتے تھے۔ ارمغان منت کو تنگ کرتا وہ چڑھتی اور راجی اور ضرغام کو اس کی شکایت کر دیتی وہ دونوں ارمغان کو ڈانٹتے تو اسے مزہ آتا تھا لیکن آج وہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھی تو ہر طرف اداسی تھی ارمغان کو تنگ کرنے کے لئے کوئی نہیں مل رہا تھا وہ بھی چپ چاپ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
" کیا بات ہے؟ .... آج گھر میں اس قدر خاموشی کیوں ؟ ۔۔۔۔"
یارم جو آج لاریب کے بارے میں منت اور داجی سے بات کرنے آیا تھا خاموشی دیکھ کر ٹھٹکا ۔۔۔۔
بالاج اور مقدم بھی اندر داخل ہوئے تو وہ بھی ٹھٹک گئے۔
خیریت ہے نا؟۔۔۔۔"
مقدم نے پوچھا
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
ہاں بھائی .... آج میڈم کا صبح سے موڈ خراب ہے .... اتوار ہے آج ہمارا آوٹنگ اور مووی کا پلان تھا لیکن پتہ نہیں کیا ہوا ہے کمرے سے نکل ہی نہیں رہی۔
ارمغان نے بتایا تو مقدم پریشان ہوا مقدم نے منت کو فون کیا لیکن فون ہمیشہ کی طرح بند۔۔۔۔
مقدم کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا اس کا فون ہمیشہ ہی بند ہوتا تھا اسے لگا کچھ غلط ہے تو وہ فوراً اوپر کی جانب بھاگا اور دھاڑ سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ وہ جو صوفے کے ساتھ پشت لگائے آنکھیں موندے اداس سی بیٹھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر اچانک چونکی فون کہاں ہے آپ کا؟۔۔۔۔
مقدم اس کے سر پہ پہنچا اور غصے سے بولا وہ ہی میرے پاس ہی ہے۔
" اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ سب لوگ اوپر آچکے تھے۔
کیا ہوا ہے مقدم ؟۔۔۔۔"
ضر غام نے پوچھا لیکن وہ اس کی جانب متوجہ نہیں تھا منت پر پھٹ پڑا۔
آپ کو فون کس لیے دیا تھا کہ ہر وقت بند ہی رکھیں ؟.... جب بھی کال کرو فون بند ہوتا ہے یہ کیا طریقہ ہے۔"
وہ بہت غصے میں دھاڑ رہا تھا اور وہ سبھی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی پھر چہرہ جھکا گئی۔ مقدم نے پہلی بار اس انداز میں منت سے بات کی تھی وہ چپ چاپ سر جھکائے آنسو بہاتی رہی اور اس کا غصہ برداشت کرتی رہی۔
اس کے بہتے آنسو دیکھ مقدم رکا پھر گہر اسانس بھر کے رہ گیا وہ اسے رلا چکا تھا اسے خود پر شدید غصہ آیا۔ اس کے آنسو دیکھ ، وہ جو غصے سے دھاڑ رہا تھا ایک دم ٹھنڈا ہو گیا۔ سارا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا اب بس وہ منت کو دیکھے جا |
رہا تھا اسے خود پہ افسوس ہو رہا تھا جس لڑکی کے آنسو اور اداسی اسے شدید اذیت دیتے تھے آج وہ خود ان آنسوؤں کی وجہ بن گیا تھا۔ مقدم نے آنکھیں بند کر کے کھولیں ان میں شدید کرب تھا۔
کوئی بات نہیں ابھی فون آن کر لیتی ہے وہ۔
ضر غام نے مقدم کو آنکھیں دیکھاتے ہوئے منت سے فون کا پوچھا
دراز میں ہے فون
منت نے سکتے ہوئے کہا
ضر غام نے آگے بڑھ کر فون نکالا اور آن کیا ابھی تک لاگ ان ہی نہیں کیا تم نے منوا سے ۔ "
ضر غام نے کہتے ہوئے فون چارج پہ لگایا۔۔۔۔۔ سب لوگ غصیلی نظروں سے بس مقدم کو گھور نے میں مصروف تھے اور مقدم بغیر پر واہ کیے ، بس اسے دیکھ رہا تھا جو شاید نہیں یقینا اس سے ناراض ہو چکی تھی۔
منت نے ضرغام کے سامنے اپنی پرانی آئی ڈی لاگ ان کی۔۔۔۔ اس نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس پرانی آئی ڈی پر ہی لاگ ان کیسے تھے لاگ ان ہوتے ہی میسجز ملنے لگے ۔
سیکرٹ ڈائری" کے نام سے بہت سارے میسجز ہیں منو۔
ضرغام نے حیرانگی سے کہا تو وہ سب کو نظر انداز کرتی جلدی سے فون تھام گئی۔ لاریب کے ہر میسج میں اسے یاد کرنے کا ذکر
سے فون تھام گئی۔ لاریب کے ہر میسج میں اسے یاد کرنے کا ذکر تھا۔ آج اس کی سالگرہ تھی جس وجہ سے وہ صبح سے اداس تھی وہ لاگ ان ہوئی اور لاریب آن لائن ہو گئی اس سے پہلے کہ منت آف لائن ہوتی لاریب کا فون آنے لگا۔
لاریب جو صبح سے اداس تھی روئے جارہی تھی اپنے کمرے میں آگئی جب اچانک دروازے پر گھنٹی بجی.... لاریب کا دروازہ کھولنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اچانک اسے گمان گزرا کہ ہو سکتا ہے دروازے پر منت ہو تو وہ جلدی سے باہر کی جانب بڑھی لیکن باہر کوئی بھی نہیں تھا بس ایک پارسل پڑا تھا اس نے ارد گرد دیکھا لیکن کوئی نہیں تھا اس نے پارسل اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے آئی اور کھولا اندر اس کی کچھ پسندیدہ کتابیں تھیں اور ساتھ میں ایک کارڈ موجود تھا اس نے وہ کارڈ کھولا تو اندر بهت .....
قسط نمبر 6 پڑھیں