 |
"رازِ دل" "قسط نمبر 04" از۔"کنزہ خان"
راستے میں ہسپتال سے اس کا چیک اپ ہوا۔۔۔۔ اس کی بینڈ بیج اتار دی گئی تھی اور ڈاکٹر نے ایک اینٹی بائیوٹک دے دی تھی جو وقفے وقفے سے اس نے زخموں پہ لگانی تھی۔ چیک اپ کے بعد مقدم اسے لے کر دوبارا گاڑی میں آگیا اور دونوں خان مینشن جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ منت کی زندگی کا نیا سفر شروع ہو گیا تھا نہ جانے قسمت نے اب کیسے دن دکھانے تھے اسے۔
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی وہ باہر دیکھنے میں مصروف تھی جبکہ مقدم اس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن دوسری طرف منت چہرے پر نولفٹ کا بورڈ لگائے بیٹھی تھی۔
" آپ خوش نہیں ہیں ؟۔۔۔۔"
مقدم نے سوال کیا لیکن دوسری جانب سے جواب ندارد۔۔۔۔ پھر وہ بھی خاموش ہو گیا اور باقی کا سفر بالکل خاموشی سے گزرا۔
خان مینشن پہنچتے ہی منت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس قدر بڑا اور خوبصورت محل اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ گاڑی پورچ میں رکی اور وہ گاڑی سے باہر آئی پورچ کے ساتھ ہی ایک بہت خوبصورت لان تھا۔
مقدم اسے لیے آگے بڑھا تو سب ہی دروازے پر کھڑے اس کے انتظار میں تھے۔۔۔۔ اس کا شاندار استقبال کیا گیا سب بہت خوش تھے بس ایک وہ ہی نہیں مسکرائی۔۔۔۔ سب اسے لے کے اندر چلے آئے۔
وہ اندر داخل ہوئی تو ایک بڑا سالاؤنج تھا جس میں سے باہر سارالان دکھتا تھا لیکن باہر لان سے اندر نہیں دکھتا تھا۔ تھوڑا آگے کچن تھا جس کے باہر ڈائننگ ٹیبل پڑا تھا اور ڈائننگ ٹیبل کے قدرے دائیں جانب سیڑھیاں تھیں اور بائیں جانب کچھ کمرے تھے ، سیڑھیوں سے اوپر راہداری میں کافی کمرے تھے۔
اس نے ایک نظر گھر کو دیکھا اور چہرہ دوبارہ سے جھکا گئی۔
منت بیٹا! آو میں آپ کو آپ کا کمرہ دکھاؤں۔
شازیہ بیگم نے بہت پیار سے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
منو! آپ ابھی آرام کرو میں ارمغان اور داجی ابھی آفس جارہے ہیں .... شام میں آپ سے ملاقات ہوتی ہے۔"
سکندر صاحب نے کہا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا اور شازیہ بیگم کے ساتھ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ مقدم نے خاموش نگاہوں سے اسے دیکھا اور داجی سے مل کے باہر کی جانب بڑھ گیا پھر نہ جانے کیوں دروازے پر رکا اور غیر ارادی طور پر پلٹا تو وہ جو اسے ہی جاتا دیکھ رہی تھی اچانک اس کے پلٹ کر دیکھنے پہ گڑ بڑا گئی ۔۔
بس ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ملیں اور مقدم وہیں تھم سا گیا جیسے پتھر کا ہو گیا ہو۔۔۔۔ وہ واپس شازیہ بیگم کی طرف متوجہ ہو گئی اور سیڑھیاں چڑھنے لگی سیڑھیوں سے اوپر دائیں جانب سب سے آخری کمرہ منت کا تھا۔
مقدم کی نظروں نے اس کا کمرے میں غائب ہونے تک پیچھا کیا اس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بہت زیادہ تیز تھی ۔۔۔۔ جب وہ کمرے میں داخل ہو گئی اور دروازہ بند ہو گیا تو وہ بھی خاموشی سے پلٹا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
منت جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی ایک لمحے کے لئے مبہوت ہو گئی۔
کمرے کے بالکل درمیان میں جہازی سائز بیڈ ، کمرے کا بلیک تھیم ، بیڈ کے سامنے ایل ای ڈی اور تھوڑا آگے شیشہ تھا۔ دروازہ کھولتے ہی دائیں جانب صوفے پڑے تھے صوفوں کے پیچھے ٹیرس تھا اور بیڈ کے بائیں جانب ڈریسنگ روم تھا اس کے ساتھ ہی واش روم ، وہ کمرہ بہت زیادہ خوبصورت تھا۔
" آپ کے کپڑے اور سارا ضرورت کا سامان وارڈروب میں ہے آپ فریش ہو کے آرام کر لو او کے ۔ " شازیہ بیگم نے پیار سے اس کا گال تھپتھپایا اور باہر نکل گئیں۔
ان کے جانے کے بعد اس نے کمرے کو دیکھا اور وارڈروب کھولا ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ وہاں اس کا منتظر تھا لیکن وہ خوش ہوتی تو غور کرتی ۔۔۔۔ اس نے جو سوٹ ہاتھ لگا اسے لیا اور چینج کرنے واش روم کی جانب بڑھ گئی تھوڑی دیر بعد فریش کسی باہر آئی گیلے بال کمر پہ لٹک رہے تھے جن میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ سیاہ رنگ کے سادہ سے سوٹ میں ملبوس تھی۔۔۔۔ اس نے اپنے بال برش کیے اور بستر پر آگئی کچھ دیر چھت کو گھورتی رہی پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ گہری نیند میں جانے لگی۔۔۔۔ اسے آخری منظر مقدم کی وہ آنکھیں دکھیں پھر ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔
ضر غام جب آفس پہنچا تو بہت خوش تھا۔ اپنے کیبن میں پہنچ کر اس نے باقی انٹر ویوز کا پوچھا۔۔۔ " سر کل انٹرویوز کی آخری تاریخ تھی اور آپ نے کسی کو بھی نہیں چنا۔"
شمن نے کہا۔۔۔۔ اس کا پہلا پی اے ایماندار نہیں تھا اس نے اسے بہت وار ننگ دی تھیں پر وہ نہیں سدھر رہا تھا تو اس نے اسے فارغ کر دیا اب وہ پی اے کی تلاش میں تھا۔ اچانک اسے نور یاد آئی۔ " آپ نور میڈم کو کال کر کے بلالیں میں نے انھیں فائنل کیا ہے۔"
شمن نے اس کے کہنے پہ اثبات میں سر ہلایا اور نور کو فون کرنے چلی گئی جو ریسیپشن پہ ضرغام کے کہنے پہ اپنا نمبر لکھوا کر گئی تھی۔۔۔۔ نور نے کل سے جاب پر آنا تھا تو ضر غام اپنی آج کی میٹنگز نپٹانے لگا اسے آج گھر جانے کی بہت جلدی تھی۔
"کس کا فون تھانور بیٹا ؟"
قاسم صاحب جو چائے پی رہے تھے نور کو فون پر خوشی سے بات کرتے دیکھ پوچھا تو امتثال جو ابھی قاسم صاحب کو چائے دے کر بیٹھی تھی متوجہ ہوئی۔
" جاب مل گئی ہے بابا۔ "
نور نے خوشی سے کہا تو انتقال بھی مسکرائی
" مجھے خوشی ہے بیٹا کہ تم میرے نام کے بغیر بھی اپنی ایک الگ پہچان بنانا چاہتی ہو پر میں ابھی بھی یہی کہوں گا کہ میر ابزنس سنبھال لو۔"
قاسم صاحب نے کہا۔
بابا میں سنبھال لوں گی پر ابھی میں جاب کرنا چاہتی ہوں مجھے شوق ہے۔ "
نور نے کہا تو قاسم صاحب خاموش ہو گئے۔
یام کے موبا؟
سلام کے بعد داجی کی رعب دار آواز یارم کے کانوں میں پڑی تو وہ جو آفس کیبن میں میٹنگ سے فارغ ہو کر آیا تھا سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔
" میں ٹھیک ہوں داجی آپ بتائیں ۔ "
" ہم سب بھی ٹھیک ہیں بس تم آج بالاج اور مقدم کو لے کر یہا ا تم آج بالاج اور مقدم کو لے کر یہاں ڈنر پر آجانا آج ہم سب منت کے ساتھ کھانا کھائیں گے اس کا یہاں پہلا دن ہے تو میں چاہتا ہوں کہ وہ سب کو اچھے سے جان لے۔ "
یارم نے انکار کرنا چاہا کیونکہ آج آفس میں کام زیادہ تھا اور وہ بہت تھک گیا تھا لیکن اس نے لاریب کے بارے میں بھی بات کرنی تھی تو ہاں کر دی اور وہ لوگ رات کھانے کے لئے خان مینشن میں پہنچ گئے۔۔۔۔
کھانا خوش گوار ماحول میں کھایا گیا سب بہت خوش تھے۔۔۔۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ارمغان شرارت کرتا تو سب کے قہقہے گونجتے بس دو نقوش خاموش تھے بالکل خاموش منت اور مقدم
کھانے کے بعد سب چائے پینے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں لگے ہوئے تھے۔
" متو"
ضر غام نے پکارا تو وہ جو ویران نگاہوں سے سب کو باری باری دیکھ رہی تھی اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
یہ تمہارے لیے .... تمہیں ضرورت ہے اس کی ۔ "
منت نے اس کے ہاتھ میں پکڑافون دیکھا تو آہستہ سے کہا
" مجھے ضرورت نہیں ہے اس کی۔"
بچے موبائل کی ضرورت سب کو ہوتی ہے۔ اگر کبھی ہم سب گھر نہ ہوں آپ اکیلی ہو اور آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو آپ ہمیں کال کر کے بتا سکتی ہو یا پھر آپ کبھی باہر ہو اور کسی کی ضرورت
پڑے تب بھی فون چاہیے .... فون کی ضرورت سب کو ہوتی ہے۔"
ضر غام نے سمجھانا چاہا
" نہیں مجھے نہیں چاہیے۔"
منت نے فوراً اس کی بات کی نفی کی۔
منت بیٹا ضر غام ٹھیک کہہ رہا ہے فون کی ضرورت سب کو ہوتی ہے آپ رکھ لو۔"
سکندر صاحب نے کہا تو شازیہ بیگم نے بھی ان کی تائید میں سر ہلایا۔۔۔۔ منت نے ضرغام کو دیکھا جو بہت محبت سے فون اس کی طرف بڑھائے ہوئے تھا اس نے فون تھام لیا۔ سب کے چہروں پہ اطمینان پھیل گیا
" میں نے اس میں سم ڈال دی ہے اور گھر والوں کے نمبر سیو کر دیئے ہیں تو جب کبھی ضرورت پڑے کسی کو بھی فون کر لینا اور میں نے آپ سب کو بھی منت کا نمبر سینڈ کر دیا ہے تو آپ سب بھی سیو کر لیں۔"
ضرغام کے کہنے پر سب نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔ منت نے موبائل گود میں رکھا اور پھر سے سب کو دیکھنے لگی۔ کافی دیر بعد سب تھک گئے تو یارم، بالاج اور مقدم سب سے مل کر باہر کی جانب بڑھ گئے۔
جانے سے پہلے دروازے پر مقدم پھر سے پلٹا تو وہ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی نگاہوں کا ارتکاز بدل گئی۔۔۔۔ مقدم کے چہرے پر دھیمی سی خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا اور پھر وہ برق رفتاری سے اپنی مسکراہٹ چھپا تا سنجیدہ چہرہ لیے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
وہ تینوں بھائی بہت مغرور اور سنجیدہ سے تھے بہت کم مسکراتے تھے۔ یارم اور بالاج تو پھر بھی مسکرا لیتے لیکن مقدم کبھی نہیں ہنستا تھا۔۔۔۔ ان تینوں میں ایک چیز مشترک تھی وہ لڑکیوں سے بہت دور بھاگتے تھے وہ جتنا لڑکیوں سے دور بھاگتے لڑکیاں اتنا ہی ان تینوں کے آگے پیچھے گھومتی تھیں ان تینوں نے کبھی کسی لڑکی کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا کیوں کہ ان تینوں کو لڑکیاں پسند نہیں تھیں۔
وہ بہت غصے والے تھے کسی لڑکی نے اتنی ہمت کی ہی نہیں تھی کہ یارم ، بالاج اور مقدم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں کیونکہ وہ تینوں جب غصے میں آتے تھے تو سب کی شامت آجاتی تھی۔
سب لوگ اپنے کمروں میں چلے گئے۔ منت نے کمرے میں جاتے ہی ہاتھ میں تھاما مو بائل دیکھا تو اس کا دل شدت سے چاہا کہ لاریب سے رابطہ کرے یا مناہل کو فون پر اپنی خریت بتادے لیکن اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ کافی دیر فون کو ہاتھ میں لیے ہمت جمع کرتی رہی پھر سر جھٹک کر فون سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھا اور سونے لیٹ گئی۔ وقت کا کام ہے گزرنا بہت جلد ایک مہینہ گزر گیا۔
" آج ایک مہینہ گزر گیا ہے اور منت کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا .... اب تو سب اسے ڈھونڈنا بھی" چھوڑ چکے ہیں۔ نگین بیگم نے ایزل سے فون پر روتے ہوئے کہا۔
ماما وہ جہاں بھی ہو گی انشاء اللہ ٹھیک ہو گی آپ صبر سے کام لو۔"
ایزل نے سمجھایا۔ انھیں سب ہی سمجھاتے تھے لیکن انھیں صبر نہیں آتا تھا۔ سب ہی منت کو یاد کرتے تھے لیکن نہ جانے وہ کہاں تھی۔۔۔۔ لاریب اور منت کا ایک دوسرے سے بات کیے بغیر دن نہیں گزرتا تھا اور اب دونوں نے ایک مہینہ ایک دوسرے کے بغیر نکال لیا تھا۔
کچھ پتہ چلا ماما ... کیا کہا پھپھونے ملی ہے منت ؟"
مناہل ماہین بیگم سے روز یہ سوال کرتی تھی وہ جانتی تھی کہ جواب وہی ہو گا لیکن اسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی منت ضرور ملے گی۔ وہ روز اللہ سے اس کی خریت کی دعا مانگتی تھی۔
" نہیں .... ابھی نہیں ملی۔"
مابین بیگم کا روز والا جواب آیا تو وہ سر جھٹک گئی۔
منت اب سب کے ساتھ کافی حد تک گھل مل گئی تھی اب وہ بات کرنے لگی تھی سب کے ساتھ بہتر ہو گئی تھی پر مسکراتی ابھی بھی نہیں تھی۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ اس کے ماضی کی وجہ سے وہ اداس رہتی ہے مسکراتی نہیں ہے لیکن حقیقت بس وہ ہی جانتی تھی۔
رات کھانے کے ٹیبل پر سب خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے میں مصروف تھے جب داجی کی آواز گونجی۔
"ضر غام پتا کرو میرے تینوں بچے کہاں ہیں .... ایک مہینہ پہلے ساتھ میں کھانا کھایا تھا اس کے بعد تو پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے ہیں .... یارم اور بالاج تو پھر بھی آجاتے ہیں لیکن مقدم کو تو میں نے ایک مہینے سے نہیں دیکھا۔"
جی راجی ! میں پتا کرواتا ہوں بس آفس کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔
ضر غام نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔
اتنے بھی کیا مصروف ہیں بھئی جو چکر ہی نہیں لگا رہے .... تم فون کرو مقدم کو اور میری بات کرواؤ۔"
داجی کے کہنے پہ ضرغام نے اثبات میں سر ہلایا اور مقدم کو فون کیا جو دوسری بیل پہ اٹھا لیا گیا۔
اسلام و علیکم!
"ضر غام کیسے ہو ؟"
مقدم کی آواز گونجی تو منت کا کھانا کھاتے ہاتھ رکا۔۔۔۔ ایک مہینے بعد وہ یہ آواز سن رہی تھی۔ اس نے پورا مہینہ غیر ارادی طور پر اس کا انتظار کیا تھا لیکن وہ آتا ہی نہیں تھا۔ اس کی آواز سن ایک لمحے کے لئے منت کی دھڑکنیں بڑھیں پھر وہ خود کو سنبھال گئی اور بظاہر انجان بنی کھانا کھانے لگی لیکن کان اس کی آواز پہ ہی تھے۔
کہاں ہو بر خوردار ؟.... ایک مہینے سے چہرہ ہی نہیں دکھایا۔"
مقدم کے سلام کا جواب دینے کے بعد داجی بولے۔
بس داجی مصروفیت ہی بہت تھی اسی لیے نہیں آسکا۔"
مقدم نے کچھ شرمندگی سے کہا۔
خیر اب جو بھی ہے تم لوگ کل کا ڈنر ہمارے ساتھ کرنا۔"
واجی اکثر سب کو ڈنر پر اکٹھا کرتے تھے۔ جب ان کے سب بچے ساتھ میں بیٹھ کر کھانا کھاتے، ہنسی مذاق کرتے تو انھیں بہت اچھا لگتا تھا اسی لئے اکثر داجی ان کو کھانے پہ بلا لیتے۔
مقدم نے فورامان لیا اب وہ انھیں کیا بتاتا کہ وہ خود بھی ایک مہینے سے اس ستمگر کو دیکھنا چاہتا تھا جو اسے دیکھتی تک نہیں تھی بس جاتے ہوئے اسے دیکھتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ منت اس وقت ان کے پاس ہی ہے وہ اس کی آواز سننا چاہتا تھا اس سے بات کرنا چاہتا تھا پر اپنے دل کو ڈپٹ کے خاموش کروا گیا کہ کل جائے اس ستمگر کو دیکھے گا وہ بھی ایک مہینے بعد ۔۔۔۔ اس نے پورا مہینہ بہت کوشش کی تھی کہ جا کر ایک بار اس سے مل آئے لیکن کام کی اس قدر مصروفیت تھی کہ سانس لینے کی بھی فرصت نہیں تھ تھی اب کل اس کا انتظار ختم ہو گا اور وہ اس سے ملے گا۔
یارم بیڈ پہ لیٹا ہاتھ میں لاریب کی تصویر لیے ، اسے محویت سے دیکھنے میں مگن تھا جب بالاج اور مقدم کمرے میں داخل ہوئے۔
" کیا ہو رہا ہے یہ ؟۔۔۔۔"
بالاج نے کہا تو یارم نے انھیں دیکھ کے لاریب کی تصویر اپنے والٹ میں رکھی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"کیا؟۔۔۔۔"
یہ تم کس کی تصویر دیکھ رہے تھے ؟۔۔۔۔"
مقدم کو ایک لمحے کے لئے گمان ہوا کہ وہ منت کی تصویر دیکھ رہا ہے تو مقدم کا سانس رک گیا جیسے کسی نے اس کے دل پر پاؤں رکھ کر اس کی سانسیں کھینچ لی ہوں اسے اچانک سے ہوا میں آکسیجن کی کمی محسوس ہونے لگی تھی۔
یارم نے اس کی آنکھوں میں اترتی سرخی دیکھی۔۔۔۔ اس کا چہرہ لال ہوتا جا رہا تھا۔ یارم کو فوراً معاملہ سمجھ آگیا اور اس نے اپنے بھائی کی بدلتی رنگت دیکھ جلدی سے تصویر نکال کے مقدم کے سامنے کی۔
"لاریب۔۔۔۔"
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
مقدم بڑبڑایا اور اگلے ہی لمحے اس کی سانسیں چلیں جو اسے رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
لاریب اور منت بہت حد تک ایک جیسی دکھتی تھیں اور تصویر میں دونوں نے ایک ہی جیسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس وجہ سے دروازے سے مقدم کو وہ تصویر منت کی ہی لگی تھی لیکن لاریب کو دیکھ وہ پر سکون ہو گیا۔
" مجھے لگا تم ۔۔۔۔"
میں لاریب کو پسند کرتا ہوں مقدم .... تم بے فکر رہو منت میری بہنوں کی طرح ہے وہ صرف تمہاری ہے اور تمہاری ہی رہے گی۔"
یارم کے کہنے پر مقدم نے حیرت سے اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"تمھیں کیا لگتا ہے تم چھپاؤ گے تو مجھے پتہ نہیں چلے گا؟ ... میں تمہارا بڑا بھائی ہوں مجھے وہ باتیں بھی پتہ چل جاتی ہیں جو تم خود کو بھی نہیں بتاتے ۔
یارم کا کہنا تھا کہ متقدم جھینپ گیا۔ اسے جھینپتہ دیکھ بالاج اور یارم کا قہقہہ بے ساختہ تھا اس نے خفگی سے انھیں گھورا۔
داجی کی کال آئی تھی .... ہم ایک مہینے سے نہیں گئے تو داجی بلا رہے ہیں ہم سب کو کل ڈنر پہ ۔"
مقدم نے یارم کو بتایا۔
"ٹھیک ہے پھر کل چلے جائیں گے آفس کے بعد سیدھا وہاں ۔ "
یارم نے کہا
چلو پھر تم آرام کرو میں بھی سونے جا رہا ہوں۔"
مقدم کہہ کے اٹھنے ہی والا تھا کہ بالاج نے ہاتھ تھام کے اسے واپس بٹھا لیا۔
" ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ میرے لڑکیوں سے دور رہنے والے بھائی اپنے لئے لڑکیاں ڈھونڈ چکے ہیں
تو میر ابھی تھوڑا خیال کر لو میں کیا کنوارا ہی مروں گا ؟۔ "
بالاج نے معصومیت سے آنکھیں پیپٹاتے کہا۔
"ہم نے اپنی محبت خود ڈھونڈی ہے تمہیں بھی جب کوئی ایسی مل جائے جسے دیکھ کر تمہاری دھڑکنیں بڑھنے اور تھمنیں لگیں تو تمہاری شادی کا بھی سوچ لیں گے ۔ "
کوئی ثبوت نشاں نہیں ہو تا محبت کا غالب اسکا نام سنتے ہی دھڑکن بڑھ جائے تو سمجھو محبت ہے "
مقدم کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔ یارم اور بالاج نے حیرت سے اسے دیکھا پھر سر جھٹک کر مسکرا دیے۔
ضر غام آفس کے لئے جلدی نکل گیا کیونکہ رات ڈنر کی وجہ سے اسے جلدی واپس آنا تھا۔ جب وہ آفس پہنچا تو نور اس کے کیبن میں موجود، اس کا سامان سیٹ کر رہی تھی۔
نور کو ضرغام کے ساتھ کام کرتے ایک مہینہ گزر گیا تھا۔ شروع میں اس نے ضرغام کو بہت تنگ کیا لیکن اب اسے اپنے کام کی سمجھ آگئی تھی اور وہ بہت دل لگا کر کام کرتی تھی۔
ضر غام کو کیبن میں آتے دیکھ اس نے سلام کیا اور کافی بنانے چلی گئی۔ ضر غام کو آج بھی اسے دیکھ کسی کا دھندلا چہرہ یاد آتا تھا پر وہ سمجھنے سے قاصر تھا لیکن اس کی آنکھوں میں نور کے لیے پسندیدگی دکھنے لگی تھی اسے بھی نہیں پتہ چلا تھا کہ کب وہ اس کا اسیر ہو گیا تھا۔ وہ جب اس کے کام کرتی تو وہ بظاہر اپنے کام میں مصروف ہو تا لیکن دھیان اس کا نور پر ہی ہو تا تھا وہ لڑکی اس کا دل دھڑ کانے لگی تھی۔
وہ جب اس کی کافی لے کے کمرے میں واپس آئی تو اسے کچھ سوچتے دیکھ کافی ٹیبل پر اس کے سامنے رکھی۔ ضرغام نے کافی اٹھا کر لبوں سے لگائی اسے اس کے ہاتھ کی کافی کی عادت ہو گئی تھی پھر وہ اس کے سامنے والی کرسی سنبھال کر ضرغام کو آج کے دن کی ساری روٹین بتانے لگی جسے وہ متوجہ ہو کے سننے لگا۔
رات کو جب وہ گھر پہنچا تو سب لاونج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ منت کے علاوہ سب بیٹھے یارم، بالاج اور مقدم کے انتظار میں تھے۔
" منو کہاں ہے ؟۔۔۔۔"
ضر غام آتے ہی سب سے پہلے اس کا پوچھتا تھا۔
" اس کی تھوڑی طبیعت خراب ہے .... سر میں درد تھا تو اپنے کمرے میں ہے آرام کر رہی ہے۔ "
شازیہ بیگم نے جواب دیا تو اس کے ماتھے پر بل پڑے۔
" اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو پہلے بتانا چاہیے تھا نا ماما.... میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔"
" میں نے میڈیسن دے دی ہے اب وہ پہلے سے کافی بہتر ہے۔ "
شازیہ بیگم نے بتایا۔۔۔۔ ابھی ضرغام کچھ کہتا پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی۔
وہ تینوں اپنی بھر پور و جاہت لیے چلے آرہے تھے۔ تینوں نے سیاہ کرتے پہنے تھے آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیسے سرمئی اجرک میں وہ اندر داخل ہوئے۔ تینوں نے ایک جیسا لباس زیب تن کیا ہو ا تھا۔
مقدم نے منت کی تلاش میں نظر دوڑائی لیکن وہ وہاں ہوتی تو نظر آتی ۔۔۔۔ مقدم جو بہت خوش سا اندر داخل ہو اتھا ایک دم اس کا چہرہ مرجھا گیا۔ وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ سب سے ملا اور خاموشی سے ضرغام کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
سکندر صاحب ان سے آفس کے بارے میں بات کرنے لگے۔ کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اسی دوران اسے سیڑھیوں پر قدموں کی آواز سنائی دی اس نے چہرہ اٹھا کے ایک نظر دیکھا پھر وہ نظر پلٹنا بھول گئی وہ سب کی موجودگی کو فراموش کیسے لگا تار بس اسے دیکھ کے اپنی بے قرار آنکھوں کو قرار پہنچارہا تھا۔
وہ سیاہ کر تا شلوار جس پہ ہلکا ہلکا موتیوں سے کام ہوا تھا پہنے ، دو پٹہ سر پہ اوڑھے اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل کر چکی تھی۔ مقدم کی دھڑکنیں کبھی بڑھتی تو کبھی تھمنے لگتیں۔
یارم نے اسے منت کو اتنا مبہوت ہو کے دیکھتا پا یا تو اسے کہنی ماری۔۔۔۔ مقدم جو اسے دیکھنے میں مگن تھا یارم کے کہنی مارنے پر گڑ بڑا گیا اور نظروں کا رخ پھیر گیا۔
منت نے نیچے آکے سب کو سلام کیا اور داجی کے ساتھ بیٹھ گئی چہرے پر وہی سنجید گی تھی اور آنکھیں
ویسی ہی ویران
مقدم کی نظریں بار بار اس کی طرف ہی اٹھ رہیں تھی ۔۔۔۔ منت نے کسی کی نظروں کا ارتکاز خود پر محسوس کیا تو جھکا ہو اسر اٹھا کے دیکھا۔۔۔۔ نظر مقدم پر پڑی جو بہت فرصت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
سیاہ شلوار قمیض میں سرمئی اجرک پہنے وہ بہت زیادہ پیارا لگ رہا تھا۔ منت اس کو خود کو دیکھتا پا کے کنفیوز ہو رہی تھی تو چہرہ جھکا گئی۔
تھوڑی دیر سب خوش گپیوں میں مصروف رہے بالاج اور یارم منت سے بات کرنے لگے جو کچھ سہی سی تھی وہ لوگ اسے اپنے ساتھ ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب کھانا لگ گیا اور سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔ مقدم کی نظریں وہ کھانے کے دوران بھی لگا تار خود پر محسوس کر رہی تھی اس کا چہرہ اٹھانا بھی محال تھا لیکن آج شاید مقدم کا نظریں ہٹانے کا کوئی ارادہ ہی نہیںتھاا۔
کھانے کے بعد سب چائے پینے میں مصروف ہو گئے ارمغان نے ٹی وی لگا لیا ساتھ میں سب کی باتیں
سننے لگا آفس ڈیل کے متعلق باتیں ارمغان کو بور کرتیں تھیں۔
" تم سب کا شادی کا کیا ارادہ ہے بچو ؟ ۔ "
داجی کے اچانک سوال پر سب ہی گڑ بڑا گئے۔
یارم اور ضرغام ! اکتیس کے ہو گئے ہو تم دونوں .... چالیس کے بعد تم دونوں سے گھوڑی نہیں چڑھا جانا۔"
داجی کے کہنے پہ بالاج اور ارمغان کا زور دار قہقہہ بے ساختہ تھا۔
برخوردار آپ قہقہے نہ لگائیں تیس کے ہیں آپ بھی اور آپ سے بھی چالیس کی عمر میں گھوڑی نہیں چڑھا جانا۔"
داجی نے بالاج کو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا دیکھ اسے بھی ساتھ ہی گھسیٹا تو اب کی بار سب کے قہقہے گونجے البتہ بالاج کا منہ بن گیا تھا۔
کر لیں گے راجی۔"
بالاج نے کہا
"کب؟۔۔۔۔"
داجی نے پوچھا تو شادی کے ذکر پر ضرغام کی آنکھوں کے سامنے بے ساختہ نور کا چہرہ لہرایا وہ ایک دم گڑ بڑا گیا وہ بہت دنوں سے اس کے لئے اپنے دل کی دنیا بدلتی محسوس کر رہا تھا۔
یارم کی آنکھوں کے سامنے لاریب کا چہرہ آیا تو اس کے چہرے پہ بے ساختہ گہری مسکراہٹ آگئی۔
مقدم نے ایک خاموش نظر منت پہ ڈالی جو ٹی وی میں مگن تھی اور نظریں جھکا گیا۔
" جب صحیح وقت آئے گا تب کر لیں گے شادی ۔ "
مقدم نے کہا
"لڑکیاں خود پسند کرتی ہیں یا میں ڈھونڈوں ؟"
داجی نے سب سے سوال کیا
" جیسی آپ کی مرضی داجی .... میں تو آپ ہی کے بھروسے ہوں۔"
بالاج نے کہا تو داجی کے ساتھ سب کا قہقہہ چھوٹا۔
یارم، مقدم اور ضرغام ! تم لوگوں کے کیا ارادے ہیں ؟ .... کوئی پسند ہے یا میں دیکھوں ؟"
داجی نے پوچھا تو وہ تینوں خاموش ہو گئے تو راجی سمجھ گئے ۔۔۔۔ وہ اپنے پوتوں کی رگ رگ سے واقف
تھے۔
یار یہ ابھی بھی کتنا ینگ دکھتا ہے نہ۔ "
ارمغان کے کہنے پہ منت جو مقدم کی نظروں سے گھبرا کر چہرہ جھکا گئی تھی چہرہ اٹھا کے ٹی وی پر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھیل گئی۔
مقدم نے بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور پھر ایک نظر ٹی وی پر ڈالی تو ٹی وی پر کوئی "شاہ رخ خان " کا لیٹیسٹ شو آرہا تھا۔ منت آنکھیں حیرت سے پھیلائے بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔ مقدم نے آہستہ سے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھے پہلے جو سانس روکے حیرت سے بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھ رہی تھی اب مبہوت کی اسے دیکھنے لگی۔
کتنی عمر ہو گی بھلا اس کی ؟ ارمغان نے اچانک سے کسی کو مخاطب کیے بغیر سوال کیا۔
" اٹھاون سال منت کے جواب پر سب نے چونک کے اسے دیکھا جو بہت مبہوت ہی سکرین پر موجود اس شخص کو دیکھ رہی تھی
" کتنا ہینڈ سم اور فٹ ہے یہ۔
ارمغان کا کہنا تھا کہ منت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ مسکراہٹ جسے دیکھنے کے لئے مقدم ہمیشہ انتظار کرتا تھا۔
سب نے چونک کے منت کی مسکراہٹ دیکھی سب بہت حیران ہو گئے اور مقدم سانس روکے ، بنا پلکیں جھپکے حیرت سے اس کی ویران آنکھوں میں در آنے والی چمک اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا۔ جب جب ارمغان اس کی تعریف کرتا مقدم منت کا چہرہ دیکھتا جو لگا تار مسکراتے ہوئے اپنے لبوں کو حرکت دیتی اور کچھ بڑ بڑاتی۔
مقدم منت کو مسکراتے دیکھ ، بے ساختہ مسکرا دیا آج وہ خوش تھا اس کی خواہش پوری ہوئی تھی آج مقدم خان بہت خوش تھا اسے خود بھی نہیں پتا چلا کہ کب اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
جب منت کی نظر مقدم پر پڑی تو وہ ٹھہر گئی۔ اس نے بھی آج پہلی بار اس شخص کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے سرخ عنابی ہونٹ گہرا مسکرا رہے تھے۔ اس کے دونوں گالوں میں جو ڈمپلز بات کرتے ہوئے نمایاں ہوتے تھے اب اور بھی زیادہ گہرے اور خوبصورت لگ رہے تھے۔ منت کا دل بہت زور سے دھڑکنے لگا اس نے نظروں کا رخ پھیر لیا لیکن مقدم ابھی بھی مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا
جب یارم کی نظر مقدم کے مسکراتے چہرے پر پڑی۔۔۔۔ آج تیرہ سال بعد اس نے اپنے جان سے پیارے بھائی کو مسکراتے دیکھا تھا۔
اچانک ہی سب کی نظر مقدم پر پڑی جو اب چہرہ جھکائے لگا تار مسکرا رہا تھا۔ سب نے حیرانگی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مقدم کو۔۔۔۔ سب کو خوشگوار حیرت ہوئی لیکن سب چہرہ موڑ گئے جیسے کچھ دیکھا ہی نہ ہو وہ مقدم سے پوچھ نہیں سکتے تھے ہو سکتا تھا وہ پھر سے سنجیدہ ہو جائے۔ کچھ دیر بعد یارم کی آواز گونجی۔۔۔۔
کافی رات ہو گئی ہے اب .... داجی ہم چلتے ہیں۔ "
|
یارم نے آج راجی کو زیادہ مخاطب نہیں کیا تھا اور راجی اس کا انداز سمجھ رہے تھے۔ اس نے ایک مہینہ پہلے لاریب کے اور اپنے بارے میں ان سے بات کی تھی لیکن راجی نے اسے صبر کا کہا اور آج خود شادی کا پوچھ کے بھی انھوں نے یارم کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا جس سے یارم کا منہ بن گیا۔
یارم ابھی منت صدمے میں ہے ہم سب کوشش کر رہے ہیں کہ وہ نارمل ہو جائے .... تھوڑا بہتر ہوتی ہے تو میں خود اس سے تمہارے اور لاریب کے بارے میں بات کروں گا اگر وہ راضی ہو گئی تو میں بالکل بھی دیر نہیں لگاؤں گا تم دونوں کو ایک کرنے میں تم صبر رکھو۔ "
اسے راجی کی ایک مہینہ پہلے کہی جانے والی بات یاد آئی۔ یارم صبر کے علاوہ اب کچھ نہیں کر سکتا تھا تو خاموش ہو گیا۔ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک اکتیس سالہ مرد ایک بائیس سالہ لڑکی کے لئے اس قدر بے شرمی دکھائے گا کہ خود اپنی شادی کی بات کرے لیکن وہ اب لاریب کے بغیر نہیں رہ پارہا تھا اسے وہ لڑ کی جلد سے جلد اپنی دسترس میں چاہیے تھی پر فی الحال وہ صبر کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا تو خاموش ہو گیا۔
خان ولا کے مکین واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی کی جانب بڑھے۔۔۔۔ مقدم ہمیشہ کی طرح داخلی دروازے پر رکا اور پلٹا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی اس بار منت نے نظریں نہیں ہٹائی ایک لمحے کے لئے دونوں کی نظریں ملی اور منت مسکرادی ۔۔۔۔ مقدم تو نہال ہی ہو گیا اسے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہیے تھا۔
وہ ابھی اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ یارم اور بالاج باتیں کرتے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے باہر لے آئے وہ بلبلا کر رہ گیا پر انھیں کچھ کہا نہیں خاموش رہا۔
نور آپ کی فیملی میں کون کون ہے ؟۔۔۔۔"
ضر غام نے آج اچانک نور کو کام کرتے دیکھ مخاطب کیا تو وہ پلٹی اور کہنا شروع کیا۔۔۔۔
سر میں بابا اور میری بہن .... امی کا انتقال ہو گیا تھا جب میں پانچ سال کی تھی پھر بابا مجھے اور میری بہن کو لے کے لندن چلے گئے ہم لوگ پندرہ سال لندن رہے پھر بابا کو اپنے ملک کی یاد ستانے لگی تو ہم واپس آگئے اب ہم یہیں رہتے ہیں۔
"ٹھیک ہے۔"
ضر غام نے اس کی ساری بات سنی تو بس اتنا ہی کہا۔
کیوں سب خیریت ہے سر ؟۔۔۔۔"
قسط 5 پڑھیں