![]() |
آسیب زدہ مکان
اخری قسط
۔ کتا بے چین ہو کر میرے قدموں میں لوٹنے لگا۔ گویا مجھے دروازہ کھولنے سے روک رہا ہو۔
ماسٹر یہاں سے چلیے صبح آکر دیکھئے گا۔ سید ہیر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
کیا ڈر گئے؟“ میں نے پوچھا۔
جناب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ اس نے رُک رُک کر کہا۔ ”ذرا دیکھئے تو یہ کیا چیز ہے ؟“ اس نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا اور جونہی میں نے لالٹین کا رخ اس طرف کیا دہشت سے میرے بدن میں تھر تھری چھوٹ گئی۔ نظروں کے عین سامنے فرش پر چھوٹے چھوٹے انسانی قدموں کے ایسے نشان بنتے جارہے تھے ۔ جیسے کوئی آٹھ نو سال کا بچہ ادھر سے اُدھر دوڑ رہا ہو۔ چند لمحوں میں یہ نشان سامنے والی دیوار کے قریب پہنچ گئے اور اب میں نے دیکھا کہ کتا ہمارے آگے آگے ہے۔ غالبا وہ سب سے پہلے نکل جانا چاہتا تھا ۔
میں نے دیکھا کہ لمحہ بہ لمحہ سد ہیر کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے۔ میں تو اسے نڈر اور بے خوف سمجھتا تھا مگر اب نہ جانے اسے کیا ہوتا جا رہا تھا۔ تہہ خانے سے باہر آ کر اس نے گردن گھما کر گرد و پیش کا جائزہ لیا کہ کوئی بھوت تو موجود نہیں۔ میں نے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے کہا۔
د تم نے تہہ خانے میں پڑی ہوئی پیپسی کی وہ خالی بوتلیں دیکھیں ؟ کیا خیال ہے بدروحیں بھی پیپی پینے سے دلچسپی رکھتی ہیں ؟“
دو جہنم میں جائیں بدروحیں وہ بڑبڑایا۔
ماسٹر میری رائے تو یہ ہے کہ یہاں سے نکل چلیں معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ آپ نے کتے کی حالت نہیںدیکھی۔ ڈر کے مارے بے چارے کا دم نکلا جا رہا تھا ۔ اب آئے ہیں تو کچھ دیکھ بھال کر ہی جائیں
گے ۔ میں نے پُر عزم لہجے میں کہا۔
تمہیں ڈر لگتا ہے تو تم شوق سے چلے جاؤ میں تو آج رات یہیں رہوں گا ۔“
مکان پر ہیبت ناک سکون طاری تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ سناٹا ہمیں نگل لے گا۔ میں سدہیر کے دل سے ڈر نکالنا چاہتا تھا۔ اس لیے پہلی منزل کے مختلف کمروں کو دیکھنے بھالنے کے ارادے سے محسن کی طرف چلا آیا۔ ڈائینگ روم اور اس سے ملے ہوئے دو کمرے دیکھے۔ ان میں بھی بیش قیمت اور نہایت عمدہ فرنیچر سجا ہوا تھا۔ ہر چیز صاف ستھری اور گردو غبار سے پاک تھی۔
تم نے صفائی تو بڑی محنت سے کی ہے۔ میں نے تعریفی نظروں سے سد ہیر کی طرف دیکھا۔ اس نے چند لمحے تک کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ پھٹی پھٹی نظروں سے کمرے کی دیواروں، چھتوں، فرش اور فرنیچر کو گھورتا رہا۔ پھر اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوتے کہنے لگا۔
ماسٹر قسم لے لیجئے جو میں اس کمرے میں آیا بھی ہوں ... اور صفائی میں نے ہرگز نہیں کی بلکہ جب میں نے مکان میں آکر یہ کمرے دیکھے تھے۔ تو یہاں گرد و غبار اور گندگی کے سوا کچھ نہ تھا اور اب یہ جھاڑ .
فانوس یہ فرنیچر خدا رحم کرے عقل کام نہیں کرتی ۔
وہ اور کمرے ہوں گے تم بھول رہے ہو ... آؤ اب ڈرائنگ روم میں چلیں . یہ کمرہ بھی خاصا فراخ اور خوشنما تھا۔ قیمتی صوفے اور آرام دہ کرسیاں قرینے سے رکھی تھیں۔ سد ہیر ہر شے کو گھور گھور کر دیکھتا اور منہ ہی منہ میں
بڑ بڑاتا تھا۔
شاید میں اندھا ہو گیا ہوں ..... پہلے بھی تو اس کمرے میں آیا تھا۔ اس وقت یہاں کچھ نہ تھا۔ ایک سوئی تک نہ تھی۔ کیا میں پاگل ہو گیا ہوں ۔ میرے کہنے پر اس نے لالٹین بجھادی۔ جیب سے موم بتی نکال کر روشن کی اور میز پر رکھ دی۔ پھر دروازہ بند کرنے مڑا۔ اس کے مڑتے ہی سامنے دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی ایک کرسی حرکت میں آئی اور مجھ سے تقریباً تین فٹ کے فاصلے پر اس طرح گری جیسے کسی نے زور سے پھینکی ہو۔ کتے کے حلق سے کاؤں کاؤں کی گھٹی گھٹی آواز نکل رہی تھی۔ سد ہیر دروازے کے ساتھ پتھر کے بت کی مانند کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ کرسی خود بخود سیدھی ہو گئی اور پھر میری آنکھوں کے سامنے انسانی ڈھانچے کے نہایت مدہم اور غیر واضح خطوط ابھر نے لگے اور دوسرے ہی لمحے یہ ڈھانچہ نظروں سے غائب ہو گیا۔
یہ کرسی اٹھا کر سامنے رکھ دو۔ میں نے سد ہیر کو حکم دیا۔ اس نے فورا تعمیل کی۔ کرسی اٹھاتے وقت اس کی پشت میری جانب تھی۔ یکا یک وہ درد سے دوھرا ہو گیا اور میری طرف نفرت بھری نظروں سے دیکھ کر بولا ۔
ماسٹر یہ آپ نے میری پیٹھ پر گھونسا کیوں مارا
ا بے پاگل ہوا ہے ؟ میں نے ڈانٹ کر کہا۔ مجھے کیا ضرورت ہے گھونسا مارنے کی میں تو تجھ سے اتنی دور بیٹھا ہوں ۔
جناب ضرور کسی نے میری پیٹھ پر گھونسا مارا ہے۔ میرا تو سانس ہی رک گیا۔ کرسی دیوار کے ساتھ رکھنے کے بعد اس نے کہا۔ اس کی شکل سے ظاہر ہوتا تھا کہ جھوٹ نہیں کہتا ہوگا لیکن گھونسا مارنے والا تھا کون؟
چلو اب نکلو یہاں سے موم بتی جلنے دو اور باہر دروازے میں تالا ڈال دو. میں نے کہا اب ہم پھر اس کمرے میں آئے جس میں سدہیر نے میرے سونے کا انتظام کیا تھا۔ آتش دان میں آگ بھڑک رہی تھی اور کمرہ خوب گرم تھا ۔ باہر بارش اور ہوا کا شور رک گیا تھا اور ہر طرف چاند کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ آتش دان کے دائیں بائیں دو الماریاں بھی رکھی
تھیں۔ میں نے ان میں سے ایک الماری کھولی۔ اس میں بوسیدہ کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا دوسری الماری میں پرانے برتن اور چینی کے سالم ظروف پڑے تھے۔ پھر میں نے دیواروں کو ٹھونک بجا کر معائنہ کیا کہ شاید ان میں کوئی خفیہ دروازہ ہو۔ مگر ایسی کوئی بات نہ تھی۔ اب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو کسی اور کمرے یا غسل خانےمیں کھلتا تھا اور اس سے پیشتر کہ میں اسے ہاتھ لگاتا۔ دروازہ ایک جھٹکے سے خود بخود کھل گیا ۔ سد ہیر نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دبی ہوئی آواز میں بولا ۔
ٹھہر جائیے ماسٹر ٹھہر جائیے آگے جانا ٹھیک نہیں خدا معلوم وہاں کیا ہے ؟“
اب جو کچھ بھی ہو دیکھے بغیر بغیر یہاں سے جانے والے پر لعنت ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا یہ خیال دل میں آ رہا تھا کہ یہ شعبدے میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں اور شعبدے بازوں سے نمٹنا اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ ایک چھوٹا سا تاریک کمرہ تھا۔ جس کا فرش لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ لیکن نہایت خستہ اور بوسیدہ حالت میں ۔ ایک گوشے میں بڑے بڑے گرد آلود صندوق پڑے تھے اور قریب ہی ایک کھڑ کی نظر آئی۔ جس کے پٹ نہ جانے کب سے بند تھے۔ کیونکہ ان پر مکڑیوں نے جالے تن رکھے تھے۔ یکا یک وہ دروازہ جس سے ہم گزر کر اس کمرے میں آئے تھے۔ دھماکے سے بند ہو گیا ۔ سدہیر کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور وہ دیوانوں کی طرح بند دروازے سے زور آزمائی کرنے لگا۔ مگر دروازہ اس سختی سے بند تھا کہ سد ہیر کی زور آزمائی کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ سد ہیر کے بارے میں، میں کہہ چکا ہوں کہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک اور لو ہے لاٹھ آدمی تھا۔ جس نے خوفزدہ ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ لیکن اب اس کی حالت پانی میں بھیگے ہوئے چوھے سے مشابہ تھی جسے پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو۔ کمرے کی فضا اور تاریک ہو گئی اور ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی نادیدہ شخص ہمارے ارد گرد گھوم رہا ہے۔
سد ہیر کہاں ہو تم ؟ میں نے اونچی آواز میں کہا . جواب میں اس کی آواز سنائی دی۔
دروازے کے پاس کھڑا ہوں ... دفعتا ایک دھکے سے دروازہ کھل گیا اور سد ہیر ۔
لڑھکتا ہوا میرے قدموں میں آن گرا۔ دوسرے ہی لمحے ہم واپس اپنے کمرے میں آگئے کیا دیکھتا ہوں کہ زرد روشنی کا ایک انسانی ہیولہ کمرے میں حرکت کر رہا ہے۔ پھر وہ سمٹ کر ایک چکر کی صورت اختیار کر گیا اور مسہری پر چند سیکنڈ منڈلانے کے بعد چھت کی طرف غائب ہو گیا۔
اب میں نے مسہری کا معائنہ کیا۔ اس پر بچھا ہوا بستر اُٹھا دیا۔ تکیوں اور گروں کو ٹول ٹٹول کر دیکھا ۔ آخر مسہری کی پرانی نواڑ میں ایک جگہ کوئی چیز چھپی ہوئی دکھائی دی۔
میں نے ہاتھ ڈال کر اسے نکالا۔ کپڑے میں لپٹے ہوئے دو بوسیدہ کاغذ تھے۔ ابھی میں انہیں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ کسی نادیدہ ہاتھ نے کاغذ چھینے کی کوشش کی۔ مگر میں نے مٹھی بھینچ لی۔ کتا آتش دان کے قریب چپ چاپ سر جھکائے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میرے اشارے پرسد ہیر اس کے پاس گیا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ لالٹین کی روشنی میں ان بوسیدہ کاغذوں کو ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہو گیا کہ یہ خط ہے جو 35 سال پہلے تحریر کیا گیا تھا۔ مضمون سے ظاہر ہوا کہ اس نے اپنی بیوی یا محبوبہ کو لکھے ہیں۔ لکھنے والا کوئی ملاح تھا جس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان اور شکستہ قلم سے بے ربط اور پُر اسرار جملے لکھے تھے۔
جو الفاظ پڑھے جا سکے وہ یہ تھے۔
ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے.
اپنے کمرے میں رات کے وقت کسی کو نہ سونے دینا کیونکہ تم نیند کے عالم میں باتیں کرتی ہو جو کچھ ہوا سو ہوا اب کیا کیا جا سکتا ہے ہمارے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکتا ہاں صرف اس وقت جب مرنے والے اپنی قبروں سے لوٹ آئیں “ اس جملے کے ساتھ ہی کسی عورت
نے اپنے قلم سے لکھا تھا۔
”بے شک مرنے والے زندہ ہو جاتے ہیں ...... جون کو سمندر میں ڈوب گیا۔ اسی دن
عجیب معمہ تھا۔ میں دیر تک اسے حل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر ذہن کام نہیں کرتا تھا۔ سد ہیر ایک آرام کرسی پر پڑا بڑے بڑے سانس لے رہا تھا میں نے اُٹھ کر آتش دان میں سلاخ سے آگ کریدی۔ میز سرہانے گھسیٹ کر لالٹین اس پر جمائی، پستول اور گھڑی نکال کر قریب رکھی اور کتاب پڑھنے لگا کیونکہ نیند آنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
آدھا گھنٹہ بخیر و عافیت گزر گیا اب میں کتاب میںاس قدر محو ہو چکا تھا کہ یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ سد ہیر کسی وقت اٹھا اور کمرے سے باہر نکل کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔ میں سمجھا شاید پانی وانی پینے گیا ہو گا ۔ کانوں کو جما دینے والی سرد ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ میں نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا۔ دروازہ بند تھا اور روشن دان خاصی بلندی پر تھا ہوا کا جھونکا کدھر سے آیا ؟ آتش دان میں آگ کے شعلے کپکپا رہے تھے۔ اور پھر میری آنکھوں کی پتلیاں جیسے ٹھہر گئیں ۔ ایک فٹ کے فاصلے پر اُٹھی ہوئی میری گھڑی پہلے تو حرکت میں آئی پھر آہستہ آہستہ چھت کی طرف معلق ہوتی ہوئی نظروں سے غائب ہو گئی ۔ کتے کی طرف نگاہ گئی تو اس کے کان آگے پیچھے ہل رہے تھے۔ آنکھیں نکلی ہوئی اور زبان باہر تک اتنی لٹک آئی تھی جیسے حلق سے جدا ہو کر فرش پر گر پڑے گی۔ ابھی میں کتے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دھما کے سے دروازہ کھلا اور سد ہیر کا نپتا ہوا اندر آیا اس کا چہرہ دہشت
زدہ تھا۔
وہ آرہا ہے وہ آ رہا ہے “ اس نے چیخ کر کہا۔ پھر دھڑام سے فرش پر گرا اور اس کے ہاتھ پیر اکھڑ گئے ۔ آنکھوں کی پتلیاں پھر گئیں اور بھنچے ہوئے دانتوں میں سے سفید سفید جھاگ اڑنے لگا۔ چند لمے بعد وہ مر چکا تھا اور اس کی لاش ! ایسے اکڑ گئی تھی جیسے : برسات میں بھیگی ہوئی چار پائی ۔ سیدہیر کی اچانک اور عبرت انگیز موت نے میرا دل دھلا کر رکھ دیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس جیسا کڑیل جوان کیونکر موت کی آغوش میں سو سکتا ہے۔ لیکن یہ بہر حال حقیقت تھی کہ وہ میرے سامنے مرا پڑا تھا۔ میں نے مسہری پر سے کمبل اٹھایا اور اس کے اوپر ڈال دیا۔ اب میں اور میرا کتا اس منحوس عمارت میں بدروحوں کے رحم و کرم پر تھے۔ تنہا رہ جانے کا یہ احساس اتنا بد حواس کن اور اذیت
زدہ تھا کہ بیان سے باہر ہے۔
تاہم میں نے پستول ہاتھ میں لے لیا اور آنے آتش والے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر کوئی نہ آیا میں دیر تک آتش دان کے پاس کھڑا رہا۔ کتا مسلسل ہانپ رہا تھا۔ اب اس کے منہ سے بھی رال بہہ نکلی تھی۔ میں نے اسے پچکار کر اپنے پاس بلانا چاہا۔ لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور نہ مجھے پہچانا۔
میں پھر مسہری پر لیٹ گیا اور کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا۔ صبح کا اُجالا ہونے میں کئی گھنٹے باقی تھے اور وقت کی نبض جیسے تھم گئی تھی مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس مکان میں بہت عرصے سے مقید ہوں اور جب تک میری روح بدن کا ساتھ نہ چھوڑ دے اس وقت تک یہاں سے رہا نہیں ہو سکتا۔
دفعتا کتاب کے حرف دھندلا گئے اور پھر ان حرفوں نے ایک سائے کی شکل اختیار کرلی۔ خدا کی پناہ میرا کلیجہ اچھل کر حلق میں آگیا ایک انسانی ڈھانچہ جس کا قد فرش سے چھت تک بلند تھا۔ میرے قریب ہی کھڑا تھا اور اس کی کھوپڑی میں لگی ہوئی آگ کی مانند دھکتی ہوئی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔ میں نے چیخنے کی کوشش کی مگر آواز نہ نکلی ۔ البتہ حواس ابھی تک برقرار تھے کمرہ تاریک ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا میز پر رکھی ہوئی لالٹین کی بتی آہستہ آہستہ نیچی ہوتی جارہی تھی جیسے اس میں تیل ختم ہوتا جارہا ہو۔ آتش دان کی طرف نگاہ گئی تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ کو مکے سرد پڑ چکے تھے۔ اس ہولناک گھپ اندھیرے میں انسانی ڈھانچے کی سرخ سرخ آنکھیں خوب چمک رہی تھیں یک لخت میں چلا اٹھا۔
بھاگ جاؤ بھاگ جاؤ مجھے ڈرانے کی کوشش نہ کرو میری روح تمہارے ان ہتھکنڈوں سے آزاد ہے۔
اپنی ہی آواز نے مجھے بڑا حوصلہ دیا۔ منتشر اعصاب پر سکون ہو گئے اور رگوں میں جما ہوا خون پھر گرم ہونے لگا۔ اب میں نے محسوس کیا کہ میں حرکت کر سکتا ہوں۔ میں جھپٹ کر مسہری سے اترا اور دروازہ کھول دیا۔ پاند کی تیز روشنی کا سیلاب کمرے میں گھس آیا۔ میں نے دیکھا باہر گلی میں سرکاری بتیاں بھی جل رہی تھیں اور آسمان پر نصف شب کا چاند پوری آب و تاب سے روشن ہے۔ فضا خاموش تھی اور مزید بارش کے کوئی آثار نہ تھے۔ البتہ سرد ہوا کے جھونکے مسلسل آ رہے تھے۔
یکا یک میز کے نیچے سے جھریوں زدہ ایک انسانیہاتھ نمودار ہوا اور میز کی طرف بڑھا جس پر دونوں بوسیدہ خط پڑے ہوئے تھے۔ میں نے پستول اٹھا کر اس کا دستہ پوری قوت سے اس کے ہاتھ پر رسید کیا۔ مجھے ایک ہلکی سی چیخ سنائی دی اور پھر کمرہ جیسے پر سکون ہو گیا۔ وہ پر اسرار ڈھانچہ غائب ہو چکا تھا۔ لیکن یہ سکون چند لمحے کے بعد ہی شور قیامت میں تبدیل ہو گیا ۔ دروازے پر کسی نے تین بار دستک دی کمرہ اس طرح جنبش میں آیا جیسے بھونچال آ گیا ہو اور پھر سرخ زرد نیلی اور سبز روشنیوں کے بگولے دائرے اور گھومتے ہوئے بھنور اُٹھتے دکھائی دیئے۔ جو برف کے گالوں کی طرح کمرے میں ادھر اُدھر رقص کر رہے تھے۔ دیوار کے ساتھ لگی ہوئی وہی آرام دہ کرسی دوبارہ حرکت کرنے لگی۔ اور میرے نزدیک آ کر رک گئی جیسے کسی نے اٹھا کر رکھ دی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرسی پر ایک جوان اور خوبصورت عورت کا ہیولہ دکھائی دیا۔ اس کا خوبصورت صراحی دار گلا اور نازک شانے عریاں تھے البتہ بقیہ جسم ایک ڈھیلے ڈھالے مگر بیش قیمت لباس میں چھپا ہوا تھا۔ عورت کا چہرہ حزن و ملال کی تصویر تھا اور مجھ سے بے نیاز کھلے دروازے کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوئی آنے والا ہے۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور سمٹ کر ایک گوشے میں جا کھڑا ہوا۔ یکا یک دروازے میں ایک نوجوان سایہ نظر آیا ۔ اس کا لباس یقینا سو سال پرانا تھا۔ یہ سایہ عورت کے نزدیک پہنچا تو اس کے عقب میں وہی انسانی ڈھانچہ موجود تھا ۔ چند ثانیوں تک وہ تینوں کمرے کی ان پر اسرار رنگ برنگی روشنیوں میں تحلیل ہو گئے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ عورت اور مرد دونوں اس انسانی ڈھانچے کی گرفت میں ہیں۔ عورت کے سینے میں خون کا فوارہ چھوٹ رہا تھا اور مرد اپنی خون آلود تلوار پر جھکا اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر ڈھانچے نے ان دونوں کو نگل لیا۔ کمرے میں اب چکر کھاتے ہوئے روشنی کے ان دلفریب ہالوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
اچانک دروازہ بند ہوا اور کسی غیر مرئی ہاتھ نے تین بار پر اسرار انداز میں دستک دی۔ میز پر رکھی ہوئی موم بتیاں آپ ہی آپ روشن ہو گئیں اور آتش دان میں آگ کےبل کھاتے ہوئے شعلے دوبارہ بھڑ کنے لگے۔ میری نگاہ کتے کی طرف گئی۔
وہ حسب معمول ایسی جگہ خاموشی سے دبکا بیٹھا تھا۔ اس میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ قریب جا کر دیکھا تو مر چکا تھا۔ اس کی زبان فرش کو چھو رہی تھی اور منہ جھاگ سے تر تھا۔ سد ہیر کی لاش بھی اسی جگہ تھی اور کمبل اس پر اسی طرح پڑا ہوا تھا۔ میں نے کتے کو اٹھایا اور سد ہیر کے پاس لا کر لٹا دیا۔ میرا خیال تھا کہ اس کی موت دہشت سے واقع ہوئی تھی مگر فورا ہی اس کی گردن کو دیکھ کر یہ خیال بدلنا پڑا۔ اس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی جیسے کسی قوی ہاتھ سے مروڑا ہو۔ واپس مسہری کی طرف آیا تو گھڑی میز پر رکھی تھی۔ اس کی سوئیاں ساکت تھیں ۔ گھڑی ابھی میرے ہاتھ میں تھی کہ دو قوی نا دیدہ ہاتھوں نے میرا گلہ دبا دیا۔ میں ہلکی سی مزاحمت بھی نہ کر سکا اور پھر بے ہوش ہو گیا۔
آنکھ کھلی تو میں نے خود کو اپنے ہی گھر اور اپنے ہی بیڈ پر پڑے پایا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی اور ٹریفک کا شور میرے کانوں میں پہنچ رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ آسیبی مکان سے مجھے اٹھا کر یہاں کون لایا ہے۔ گزشتہ رات کی لرزہ خیز تصویریں میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھیں۔ میں بیڈ پر ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک شخص ہاتھوں میں ناشتے کی ٹرے سنبھالے اندر آیا۔ سد ہیر “ میں چلایا۔ ”اوہ خدایا کیا یہ تمہی
جی ہاں یقین کیجئے ناشتے کی ٹرے لانے والا میرا نو کر سد ہیر ہی تھا جس نے گزشتہ رات آسیبی مکان میں میرے سامنے دم توڑا تھا اس کے پیچھے پیچھے میرا پالتو کتا دم ہلاتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ سد ہیر نے حیرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا ۔
آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ماسٹر کی ڈاکٹر کو 1 بلاوؤں؟
پہلے یہ بتاؤ کہ تم اس منحوس مکان میں مرے کیوں تھے اور یہ کتا یہ بھی تو مر گیا تھا۔ پھر تم دونوں زندہ کیسے
ہوئے اور مجھے یہاں کون لایا .....؟آہ شاید آپ نے رات کو کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔“ سد ہیر نے کہا۔
ڈراؤنا خواب نہیں نہیں وہ خواب ہر گز نہ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔“ میرا جی چاہتا تھا کہ دیوار سے سر ٹکرادوں ۔
"اچھا تم فوراً جاؤ اور سر احسان کو ان کے گھر سے بلا کر لاؤ۔
میر احسان . سد ہیر کی حیرت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔
مگر جناب آپ کے وہی دوست جو گزشتہ تین سالوں سے اٹلی میں تھے۔ کیا وہ واپس "آگئے ......؟
کیا سکتے میں ہو؟ میں پھر چیخا۔ .
بھی پرسوں سر احسان مجھ سے مل کر گئے ہیں اور انہوں نے مجھے اس آسیبی مکان کا پتہ بتایا تھا ۔“
آپ نے ضرور کوئی خواب دیکھا تھا ۔
سد ہیر ہنسا اور ناشتے کی ٹرے میز پر رکھ کر چلا گیا ۔ میرا پالتو کتا بیڈ کے نیچے بیٹھا محبت سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
میں نے ناشتہ بھی نہ کیا غسل خانے میں جا کر منہ ہاتھ دھویا اور کپڑے بدلنے لگا۔ سوئیٹر اتار کر جب میض پر رکھنے لگا تو اس کی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا میں
نے ہاتھ جیب میں ڈال دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ یہ وہی بوسیدہ خطوط ہیں جو آسیبی مکان سے ہاتھ لگے تھے۔ اب تو کوئی شک نہ رہا کہ رات کا واقعہ خواب نہیں واقعی ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ میں نے بستی رسول پورہ میں جا کر وہ مکان بے حد ڈھونڈ انمگر کسی ایسے مکان کا پتہ نہ ملا جو کہ آسیبی ہو اور
30 کمروں پر مشتمل ہو۔ سر احسان ابھی تک اٹلی میں ہی ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوئی تھی مگر انہوں نے بھی اسے ایک خواب ٹھہرایا۔ میری بات کا آج تک کسی نے یقین نہیں کیا۔ مگر کاغذ کے دو بوسیدہ ٹکڑے وہ ثبوت ہیں جسے شاید کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔...
ختم شد