![]() |
انسانی_لاش_کا_کمبل قسط_1 لکشمی ڈگری کالج کے سٹاف روم سے اچانک چیخوں کا شور ہوا ۔ اور پورا کالج سہم گیا۔ ویک اینڈ کے بعد معمول کے مطابق کالج پیر کو کھلا سٹوڈنٹس اور سٹاف صبح سویرے آنے لگے ہر چیز معمول کے مطابق تھی کہ جب مس شیلا نے اپنا سامان رکھنے کے لیے الماری کھولی تو وہ چیخیں مارتی ہوئی پیچھے ہٹیں اور گر کر بے ہوش ہو گئیں، آنا فانا سٹاف روم میں موجود دیگر اساتذہ مس شیلا کی طرف لپکے اور انکو سنبھالنے کی کوشش کی۔ لیکن جیسے جیسے انکی نظر الماری کے اندر جاتی سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور دو چار اور حالت غیر ہونے پر وہیں ڈھیر ہو چکے تھے۔ پورے کالج میں بھونچال سا آگیا تھا کچھ ٹیچر الٹیاں کرتے سٹاف روم سے باہر بھاگ کھڑے ہوئے اور کمزور دل چکرا کر وہیں دروازے میں گر گئے۔ پرنسپل خبر ملتے ہی تقریبا بھاگتا ہوا سٹاف روم میں آیا اور وہاں کا منظر دیکھ کر بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور پولیس کو کال کی۔ ایک انسپیکٹر اور چند اہلکار موقع پر پہنچ چکے تھے انہوں نے آتے ہی سٹاف روم خالی کروا لیا اور سٹاف روم کو چاروں طرف سے سیل کر دیا۔ انسپیکٹر تک یہ منظر دیکھ کر سہما ہوا تھا اور اسکے ماتھے پر پسینے اور چہرے پر پریشانی آثار نمایاں تھے۔ منظر کیا تھا ایک انسانی لاش تھی جسے کسی وزنی چیز کے نیچے دیکر ہڈیاں کھوپڑی سب کچھ گوشت اور حتی کے اسکے پہنے ہوئے کپڑوں سمیت برابر کر دیا گیا تھا اور وہ ایک انسانی کھال اور کپڑوں میں پیک کمبل کی شکل اختیار کر گئی تھی اور اسے کمبل ہی کی طرح رول کر کے گٹھڑی سی بنا کر الماری میں رکھ دیا گیا تھا۔ لاش ایک دو روز پرانی لگ رہی تھی کیونکہ وہاں کیڑوں کا ڈھیر اس پر جمع تھا اور چونٹیاں اور مکوڑے لائن در لائن اسکو کھانے اور لے جانے میں مصروف تھے۔ لیکن پریشان کن وجہ یہ تھی کہ فرش پر تو دور گیٹ سے سٹاف روم تک آنے جانے والے رستے میں دور دور تک بھی خون کا ایک بھی قطرہ اور نہ ہی کوئی قتل کا نشان تھا اور صبح جب کالج کھولا گیا تو سٹاف روم سمیت سارے دروازے تالا بند تھے۔ اس کیساتھ ساتھ لاش کی حالت دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے خون کا ایک ایک قطرہ اس میں سے نچوڑ لیا ہو۔ اسکے بعد کسے روڈ رولر کے نیچے دیکر اسکو پریس کر کے انسانی جسم کا کمبل بنا کر یہ کمبل نما لاش گول کر کے یہاں رکھ دی گئی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ پھر بند دروازوں میں سے کسی ایک کا بھی تالا توڑے بغیر اور الماری کا تالا بھی توڑے بغیر لاش الماری میں کیسے پہنچی اور اگر پہنچی تو دروازے کے باہر موجود چوکیدار اور کالج میں موجود دیگر ملازمین کو کیوں نہ پتہ چل سکا، یہ نوے کی دہائی تھی تو سیکورٹی کیمروں کا تو اس وقت تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی سراغ مل سکتا اور سٹاف روم کے اندر یہ سب کچھ ہو گیا تو لاش کا خون کیوں نہیں بہا اور اسکا قتل کرتے وقت کوئی توڑ پھوڑ کے آثار بھی نظر نہیں آئے، صفائی والے عملے اور بہت سویرے آنے والے اساتذہ نے یہ بھی بتایا جمعہ کے دن سٹاف روم میں چھوٹی سی پارٹی ہوئی کھانے کے ٹکڑے اور اس دن زمین پر چائے کا کپ گرنے سے جو نشان پڑا تھا وہ ابھی تک موجود ہے اور اس سے پہلے کہ صفائی والا عملہ صفائی شروع کرتا مس شیلا نے یہ خوفناک منظر دیکھ لیا۔ پولیس نے اب کوئی سراغ نہ ملنے پر کالج بند کروا دیا اور پورے کاج کی بڑی تفصیل کے ساتھ تلاشی لی گئی اور اس وقت کے جدید تقاضوں سے جانچ پڑتال کی گئی لیکن قتل یہاں ہوا، یا باہر ہوا اور قاتل کہاں سے آیا کہاں گیا کوئی سراغ نہ لگا سکی، ماسوائے لاش کی شناخت کے جو اسکی قمیض میں موجود بٹوے سے ہوئی، یہ بد قسمت پنڈت کرشنا کی لاش تھی جو اسی کالج میں ہندی پڑھاتے تھے اور جمعہ کے روز کالج آئے تھے اور اس چھوٹی سی پارٹی میں بھی شریک ہوئے، لیکن اس کے بعد وہ کہاں گئے یہ سب کب ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس ایک بات سامنے آئی کہ پنڈت جی نے اپنا سکوٹر دیکر چوکیدار کو اپنے گھر بھیجا کہ سکوٹر وہاں چھوڑ کر انکو پیغام دے آئے کہ پنڈت جی کسی پوجا میں شرکت کرنے کشمیر جارہے ہیں اور پیر کے روز وہیں سے سیدھا کالج آجائیں گے۔ چوکیدار کے مطابق پنڈت کے گھر سے ہو کر آنے میں اسے کوئی ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا۔ اس نے رستے میں چائے پی اور کھانا بھی کھایا۔ اس کے بعد وہ کالج آیا۔ ایک ایک کر کے کمرے چیک کیے اور تالا لگا کر باہر اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کے بعد کالج کی عمارت پر دو دن تالا پڑا رہا نہ کوئی آیا نہ گیا۔ پولیس نے اپنا ہر حربہ آزمایا لیکن کوئی بھی شخص اپنے بیان سے اوپر نیچے نہیں ہوا سب کا بیان جوں کا توں آرہا تھا انہی چکروں میں ہفتہ بھر گزر گیا کالج کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں بھی اس لرزہ خیز اور ہولناک قتل کی دہشت طاری تھی۔ تنگ آکر کالج کی سیل کی گئی عمارت کھول دی گئی اور کالج پھر سے چالو ہوگیا۔ کچھ دن حاضری اوپر نیچے ہوئی پھر سب کچھ معمول پر آگیا۔ لیکن اس واقعہ کے بعد کالج کی ایک لڑکی سلونی کے اندر اسکی دوست رشمی نے کافی بدلاؤ دیکھا اور یہ بدلاؤ سلونی کو کافی پراسرار اور مشکوک بنا رہا تھا۔ سلونی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور فرسٹ ائیر میں اسی سال کالج آئی تھی۔ یہیں آکر اسکی دوستی رشمی سے ہوئی تھی اور ان دونوں کا اور کوئی دوست نہیں تھا۔ لیکن اس لرزہ خیز واردات کے بعد سے سلونی نے مسکرانا یکسر چھوڑ دیا اور اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی سیاہی اتر آئی جو پہلے گلاب جیسے گلابی ہوتے تھے اور اسکی سلیٹی مائل سرمئی آنکھوں میں ہلکی سی زردلکیر نمودار ہونے لگی تھی۔ گو کہ سلونی کی شخصیت پہلے بھی بہت دلکش اور دل کو مو لینے والی تھی۔ اسکے نیم گھنگھریالے بال، کسی بل کھاتے پہاڑی رستہ کے اتار چڑھاؤ والی پتلی کمر پر کسی ملکہ کی قبا کی طرح پھیلے ہوتے اور نیچے گنبد نما لیکن ریشم بھرے گداز کہولوں کو چھوتے تھے۔ سلونی رنگت سے بہت سرخ و سفید تو نہیں تھی لیکن پلاٹینم جیسی چمکتی دمکتی روشن چہرے کیساتھ اونٹ کی کوہان جیسا سینہ لیے پورے کالج میں منفرد نظر آتی تھی۔ لڑکیاں اس پر رشک کرتے نہیں تھکتی تھیں اور لڑکے رالیں ٹپکاتے آنکھیں سینکتے نظر آتے تھے۔ اب اسی روشن چہرے والی سلونی کی آنکھوں کے گرد بھی ہلکی سی سیاہی اتر آئی تھی۔ لیکن جو سب سے قابل ذکر بات تھی وہ جہاں ہینڈ سم لڑکا دیکھتی کسی بھوکی شیرنی کی طرح اسکو ہوس ذدہ نظروں سے گھورنے لگتی کہ اچھے خاصے لڑکے بھی گھبرانے لگ جاتے تھے۔ رشمی کے لیے سلونی کا یہ انداز بلکل نیا تھا اور وہ اس سب سے کافی پریشان تھی۔ اس بدلاؤ کی وجہ سے رشمی اور سلونی آہستہ آہستہ دور ہونے لگیں اور سلونی نے بھی اس سب پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ پنڈت کرشنا کی ہولناک موت کے بعد پورا شہر اس وقت لرز کر رہ گیا جب شہر کے مشہور بدمعاش کالیا کی لاش اسی حالت میں اسکی گاڑی کی پچھلی سیٹ سے برآمد ہوئی۔ وہاں بھی نہ کوئی سراغ ملا اور نہ کوئی خون کا قطرہ نہ توڑ پھوڑ صرف اور صرف ہڈیاں کھوپڑی پسی ہوئی تہہ دار کمبل کی طرح گول کی گئی لاش تھی۔ اب تو پولیس اور دیگر قانون کے کارندے بھی دہشت زدہ تھے اور حیران و پریشان بھی تھے۔۔۔
|
انسانی لاش کا کمبل
0
February 05, 2025
Tags