نگین بیگم م آگے بڑھی اور منت کی پیشانی چومی پھر کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھ کر دعائیں پڑھنے لگیں۔۔۔۔ خان مینشن کے مکینوں کے چہرے چمک اٹھے تھے وہ خوش ہو گئے تھے اب ان کی منوان کے پاس واپس آگئی تھی۔
لاریب خاموشی سے اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئی یارم نے اسے باہر جاتے دیکھا تو پیچھے لپکا " کیا ہوا ہے تمہیں ؟"
وہ جو اداس سی باہر بینچ پر سر جھکائے بیٹھ گئی تھی یارم کی آواز پہ سر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔۔ اس شخص نے آج پہلی بار اسے مخاطب کیا تھا لاریب کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑکا۔
وہ اس کے قریب بیٹھا اور بھنویں اچکائی جیسے اپنا سوال اپنی آنکھوں سے دہرا رہا ہو یارم کے سوال پہ وہ گڑ بڑا گئی پھر قدرے سنبھل کے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا
" تم پریشان نہ ہو بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر تم میرے پاس آجاؤ گی پھر میں تمہیں روزانہ خان مینشن لے جایا کروں گا مٹو سے ملانے ۔"
یارم نے کہا تو اریب ہولے سے مسکرادی وہ منت کے چلے جانے کی وجہ سے اداس تھی۔
" مقدم چلو واپس چلیں منت۔۔۔۔"
بالاج جو اسے لینے مسجد میں آیا تھا مقدم کو سجدے میں دیکھ ، کچھ کہتے کہتے رک گیا اور خاموشی سے اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا پھر آگے بڑھ کر اس کے ساتھ ہی جگہ سنبھالی۔۔۔۔
جب مقدم نے سجدے سے سر اٹھایا تو چہرہ بھیگا ہوا تھا پھر سلام پھیر کر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے دعا کے دوران اس کے آنسوؤں میں روانی آگئی تھی۔
بالاج یک ٹک اپنے سنجیدہ اور مغرور سے بھائی کو خدا کے آگے روتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ مقدم نے ہاتھ چہرے پر پھیرا اور اپنے آنسو صاف کر کے اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں بالاج بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ نگین آنٹی نے کہا ہے کہ منت کو خان مینشن لے جاؤ وہ یہاں خوش اور محفوظ نہیں ہے۔"
بالاج کا کہنا تھا کہ مقدم دوبارہ سے سجدے میں جھک گیا اور پھر اٹھ کر جلدی سے باہر کی جانب بڑھا اسے اب منت کو لے کر جانا تھا۔
وہ جیسے ہی کمرے کے قریب پھنچا باہر پہنچ پہ یارم اور لاریب کو بیٹھے پایا یارم اسے دیکھ کھڑ ا ہو گیا۔۔۔۔ اس کی آنکھیں دیکھ ، لاریب ٹھٹکی صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ مقدم رو کے آیا ہے اس کی گہری سیاہ" آنکھوں میں لگا تار رونے کی وجہ سے سرخ ڈورے نمایاں ہو رہے تھے۔۔۔۔ مقدم نے ایک نظر لاریب کو دیکھا جو جانچتی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی مقدم آگے بڑھا اور اس کے سر پر پیار سے
ہاتھ رکھا پھر خاموشی سے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔ لاریب کو اس کے رونے کی وجہ سمجھ آگئی تھی تو وہ خوشی سے مسکرادی۔
مقدم کمرے میں داخل ہو ا تو منت بیٹھی ہوئی تھی آکسیجن ماسک اتر گیا تھا اور سانسیں نارمل تھیں اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔
منت جو ارمغان کی شرارتوں پہ مسکرا رہی تھی دروازہ کھلنے پر مقدم کو دیکھا تو مسکرائی پر اس کی آنکھیں دیکھ ، اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی اور دل بہت زور سے دھڑ کا
" وہ رویا تھا، بہت رویا تھا، کیا وہ اس کے لئے رویا تھا؟ ۔۔۔۔ کیا کوئی منت خان کے لئے رو سکتا تھا؟۔۔۔۔"
منت کے پاس بہت سارے سوال تھے وہ اس کے آنسوؤں کی وجہ جاننا چاہتی تھی پر خاموشی سے اسے دیکھتی گئی
" اب کیسی ہیں آپ؟"
مقدم نے اس کے قریب آکے بہت نرمی سے پوچھا تو وہ خاموشی سے سر ہلا گئی زبان جیسے مفلوج ہو گئی تھی اس سے کچھ کہا نہیں جا رہا تھا۔
" میں پتہ کرتا ہوں ڈسچارج کا۔"
ضر غام نے کہا اور باہر کی جانب بڑھ گیا ارمغان پھر سے شروع ہو چکا تھا اور منت ہننے لگی تھی۔۔۔۔ مقدم اس کے پاس بیٹھا اسے ہنستا د یکھ ، خدا کا بار بار شکر ادا کر رہا تھا۔۔۔۔ نگین بیگم بھی خوش ہو گئی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں منت کی خوشی اب خان مینشن میں ہے سب کے ساتھ ۔
کچھ ہی دیر میں منت کو ڈسچارج کر دیا گیا لاریب منت سے ملتے ہوئے بہت روئی تھی لیکن اسے روکا نہیں کیونکہ اس کے جانے میں ہی اس کی بہتری کے ، تھی۔
لاریب بیٹا آپ رو نہیں کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر آپ نے منت کے پاس آ جانا ہے اب تو بس تھوڑا سا ہی وقت ہے۔ "
شازیہ بیگم نے آگے بڑھ کر لاریب کو پیار سے کہا تو وہ خاموش ہوئی ۔۔۔۔ منت سے ملنے سب ہسپتال میں ہی آگئے تھے منت سب سے ملی اور گاڑی میں سوار ہو گئی۔
بیک سیٹ پر اس کے ایک جانب شازیہ بیگم اور دوسری جانب نور اور انتقال تھیں۔۔۔۔ ضرغام پسنجر سیٹ پہ تھا اور مقدم ڈرائیونگ سیٹ پہ ۔۔۔۔ باقی سب الگ گاڑیوں میں تھے۔
سفر بہت خاموشی سے کٹ رہا تھا مقدم بار بار فرنٹ مرر سے منت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد
گاڑی خان مینشن کے پورچ میں رکی اور منت کو اندر لایا گیا۔
مام میں تھک گئی ہوں سونا چاہتی ہوں۔"
منت نے شازیہ بیگم سے کہا تو وہ اسے لے کر اس کے کمرے کی جانب چل دیں۔
مقدم اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا وہ دروازے پر رکی اور پلٹ کر دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا دونوں کی نظریں ملیں مقدم مسکرایا لیکن منت نہیں مسکرائی چہرہ پھیر کے آگے بڑھ گئی۔
مقدم چند لمحے خاموشی سے اس کے کمرے کے بند دروازے پر نظریں جمائے کھڑا رہا باقی سب صوفوں پہ جگہ سنبھال چکے تھے اور آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگے تھے مقدم بھی خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھ گیا پر نظروں کا مر کز ابھی بھی منت کے کمرے کا بند دروازہ تھا۔
سب نے سکون کا سانس لیا اب منت سکون میں تھی۔
اب آگے کیا کرنا ہے ؟ .... لاریب اور یارم کی شادی ہے اور نجمہ بیگم نے ظاہر ہے آنا ہی ہے شادی پر اور منت کی بہن ہے لاریب اس لئے شادی تو وہ نہیں چھوڑ سکتی تو اب منت کو اس قابل کرنا ہے کہ حجمه بیگم یا عثمان صاحب کو دیکھ کر اسکی دوبارہ یہ حالت نہ ہو۔"
ضر غام نے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا
شادی قریب ہے اب ہمیں جلد ہی منت کا ڈر ختم کرنا ہو گا۔ "
ارمغان نے کہا۔
" اداس ہو ؟"
ایزل نے لاریب سے پوچھا۔ وہ اپنے کمرے میں اداس سی بیٹھی تھی۔ جب سے منت گئی تھی وہ ایسی ہی ہو گئی تھی۔ ایزل نے نرمی سے پوچھا تو اس کی آنکھیں بھر نے لگیں ایزل پریشانی سے اس کے قریب آئی
کیا ہو گیا ہے یار اب تو بس کچھ ہی دن ہیں مل لیا کرنا پھر اس سے .... زیادہ یاد آرہی ہے تو فون کر لو۔" ایزل نے مسئلے کا حل پیش کیا تو لاریب نے اثبات میں سر ہلا کر فون پکڑا ایزل کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔
ابھی وہ منت کا نمبر ملاتی جب کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی لاریب کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا اب تک وہ کتنے ایسے نمبر بلاک کر چکی تھی اس نے غصے سے فون کاٹا اور نمبر بلاک کرنے لگی جب دوبارہ کال آنے لگی لا ریب نے غصے سے فون اٹھایا
کون ہے ؟.... کیا مسئلہ ہے جب کچھ بولنا نہیں ہے تو کیوں بار بار فون کر رہے ہو ؟"
لاریب آگ بگولہ ہوتی بولی
" کیا ہو گیا ہے جان یارم اتنا غصہ ؟۔۔۔۔"
یارم کی آواز گونجی تو لاریب ایک دم شل رہ گئی۔۔۔۔ یوں اچانک اس کی آواز سننا، لاریب کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑکا
"آپ؟۔۔۔۔۔"
لاریب نے اٹکتے ہوئے بمشکل کہا۔
" جی میں ہی ہوں جس معصوم پہ جناب ابھی اتنا غصہ ہو رہیں تھی .... ایسا بھی کیا کر دیا میں نے جو میری ہونے والی بیوی اس قدر غصے میں ہے ؟"
یارم نے شرارت سے پوچھا
ک .... کچھ نہیں .... میں بس۔"
لاریب سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔
" زندگی اتنا خوفزدہ کیوں ہو یار ؟"
یارم نے محبت سے پوچھا جبکہ لاریب کا دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے کے لیے بیتاب ہونے لگا تھا۔۔۔۔
یارم کا اتنی محبت اور حق سے اسے پکارنا، لاریب کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
اس نے جلدی سے بغیر کچھ کہے کال کاٹ دی اور فون سائیڈ پر رکھ کر گہرے گہرے سانس بھر نے لگی۔
دوسری جانب یارم یوں اچانک فون بند ہونے پر بد مزہ ہو گیا تھا وہ آج لاریب سے باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ فون کاٹ چکی تھی۔
میری ہونے والی بیوی بہت ظالم ہے۔ "
یارم بڑبڑایا پھر خود ہی مسکرا دیا۔
منت کو واپس آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اس دوران سب گھر والوں نے اسے غیر محسوس انداز میں ہی سمجھانا شروع کر دیا تھا اور انھیں یقین تھا کہ منت کو اب دوبارہ نجمہ بیگم یا عثمان صاحب کو دیکھ کر پینک اٹیک نہیں ہو گا کیونکہ پوری زندگی تو اب وہ ان سے ڈر ڈر کے نہیں رہ سکتی تھی۔
دو نومبر کی صبح سب ناشتے کے لیے اکٹھے تھے جب منت مسکراتی ہوئی ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی سب نے اس کا مسکرانا اور آنکھوں کی چمک دیکھی تو خوشی کی وجہ پوچھی " داجی آپ کو پتہ ہے آج " شاہ رخ خان کا برتھ ڈے ہے۔"
اس نے خوشی خوشی سب کو بتایا تو سب نے ایک ساتھ اپنا ماتھا چھوا۔۔۔۔ اس ایک سال میں سب ہی جان گئے تھے کہ وہ " شاہ رخ خان " کے لیے کس قدر مچی ہے لیکن اس کی سالگرہ پہ اس قدر خوش ہونا یہ ان کے گھر میں بس منت ہی کر سکتی تھی۔۔۔۔ اسے اپنا نام بہت پسند تھا کیونکہ "شاہ رخ خان" کے
گھر کا نام بھی " منت " تھا۔ اس کی خوشی دیکھ ، داجی بولے۔۔
" پھر آج تو پارٹی بنتی ہے بھئی آخر "شاہ رُخ خان " کی سالگرہ ہے۔"
اور منت کے چہرے پر اتنا سنتے ہی زندگی سے بھر پور مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
مقدم نے بہت غور سے اسے دیکھا جو بہت جوش سے پلاننگ کرنے لگی تھی۔
مقدم، یارم اور بالاج کام کے سلسلے میں سکندر صاحب سے ملنے آئے تھے تو راجی نے انھیں ناشتے پر روک لیا لیکن اب منت نے انھیں رات تک شاہ رخ خان " کی برتھ ڈے کے لئے روک لیا تھا
اس کے روکنے پر یارم نے انکار کیا کیونکہ ان کی آج بہت ضروری میٹنگ تھی جسے اٹینڈ کرنا تینوں کے لئے ضروری تھا تو یارم نے معذرت کر لی۔ منت ایک دم خاموش سی ہو گئی۔
کوئی بات نہیں میٹنگ ملتوی کر دیتے ہیں۔ "
مقدم نے منت کے چہرے پر چھاتی اداسی دیکھ ، جلدی سے کہا وہ اس لڑکی کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔ منت کا چہرہ چمکا وہ خوش ہو گئی تھی۔
مقدم نے کہا تو یارم اور بالاج نے حیرت سے اسے دیکھا سب حیران ہو گئے تھے کیونکہ مقدم کام کے معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ تھا لیکن آج اس کا یوں ایک لمحے میں میٹنگ ملتوی کرنے کا کہنا سب کے لئے بہت زیادہ بڑی بات تھی یہ ۔
مجھے تو ہمارا بزنس ڈوبتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ مقدم جناب میری سالی کے عشق میں۔۔۔۔"
" ہونے والی سالی"
صحیحبالاج نے فورا تھی کی تو یارم نے اسے گھور کر دیکھا یارم
" سن تو لے میری"
یارم نے گھورتے ہوئے کہا تو بالاج مسکرایا
" جی جی بولیں جناب "
بالاج نے کہا
" میں کہہ رہا تھا کہ مقدم جناب میری ہونے والی سالی کے عشق میں گرفتار ہیں .... جناب نے وہ میٹنگ ملتوی کروائی ہے جو کینسل ہو گئی تو ہمارا کروڑوں کا نقصان ہو جانا ہے لیکن خیر کوئی بات نہیں ہم نے تو عشق لڑانا ہے چاہے ہم سڑک پر آجائیں۔ "
یارم بہت دھیمی آواز میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا، مقدم پر طنز کے تیر چلاتا، سر گوشیاں کر رہا تھا جب مقدم نے اس کے پیٹ میں کہنی ماری یارم بلبلا اٹھا۔۔۔۔ اسے دیکھ مقدم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی جبکہ بالاج کا زندگی سے بھر پور قہقہہ گونجا سب نے حیرت سے انھیں دیکھا۔
" کیا ہو گیا ہے ؟"
داجی نے پوچھا تو بالاج نے بمشکل اپنی ہنسی کو بریک لگائی
" کچھ نہیں ہو اداجی"
بالاج نے کہا۔۔۔۔ یارم لگا تار انھیں گھور رہا تھا ساتھ اپنا پیٹ سہلا رہا تھا جب منت کی خوشی سے بھر پور آواز گونجی۔۔۔۔
" آج میں خود کیک بناؤ گی آج کوئی اداس نہیں ہو گا کیونکہ میں ہر سال اس دن بہت خوش رہنے کی کوشش کرتی ہوں .... ہم "منت" کے باہر کالائیو منظر دیکھیں گے جب "شاہ رخ خان " اپنے ٹیرس پر آئیں گے او کے ؟"
سب نے اس کی بات سن اثبات میں سر ہلا دیا اور آفس جانے کا ارادہ ترک کرتے منت کے ساتھ "شاہ رخ خان " کی سالگرہ منانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
منت نے بہت دل سے کیک بنایا تھا وہ کیک لے کر لاونج میں آئی جہاں "منت" کے باہر کالائیو منظر چل رہا تھا بس " شاہ رخ خان " کے ٹیرس پر آتے ہی منت نے کیک کاٹنا تھا۔ کیک دیکھنے میں قدرے اچھا تھا لیکن اب کھانے میں کیسا تھا یہ تو سب کو کھا کر ہی پتا چلنا تھا۔
اس دوران میسج ٹیون بجی تو منت مزید مسکرانے لگی۔ لاریب ہر سال " شاہ رخ خان" کی برتھ ڈے پر منت کو میسج کر کے "شاہ رخ خان " کووش کرتی تھی اس سال بھی یہ ہی میسج آیا تھا۔
جیسے ہی " شاہ رخ خان " ٹیرس پر آیا تو لائیو منظر میں ہر طرف شور بلند ہونے لگا منت نے بہت خوشی سے کیک کاٹا۔
مقدم نے آج سے پہلے اسے اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا تھا آج اسے وہ پہلی بار اس قدر خوش نو نظر آرہی تھی۔
منت نے سب کو خوش دلی سے کیک سرو کیا اور خود ٹی وی کے آگے جگہ سنبھال لی۔۔۔۔ اب جب تک لائیو منظر چلنے تھے اور شاہ رخ خان " نے نیچے نہیں جانا تھا تب تک اس نے اپنی جگہ سے ہلنا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر گزری کہ بالاج بولا
" داجی اب ہم چلتے ہیں کل سے شاپنگ بھی شروع کرنی ہے شادی کی۔"
داجی سے اجازت لے کے وہ لوگ اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھ گئے۔
مقدم ہمیشہ کی طرح دروازے پر رکا اور پلٹ کر دیکھا لیکن منت اسے نہیں دیکھ رہی تھی وہ اسے تب سے اگنور کر رہی تھی جب سے مقدم نے فون کی وجہ سے اسے ڈانٹا تھا جب وہ چلی گئی تھی تب بھی اس نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا اور اب واپس آکر بھی ناراضگی دیکھا رہی تھی مقدم کو اس کا نہ دیکھنا تکلیف دے رہا تھا تو جلد ہی ایکسکیوز کرنے کا سوچتا وہ بجھے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر نکل گیا۔
منت نے اس کے باہر نکلتے ہی دروازے پر نظر ڈالی وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا پھر سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اگلے دن سب اکٹھے شاپنگ کی پلاننگ کر رہے تھے۔
متو ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی ؟"
ضر غام نے منت کو رات والے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں آتے دیکھا تو سوال کیا
" تیار کیوں ہونا تھا ؟
منت نے سوالیہ بھنویں اچکا کے پوچھا
" جانا ہے نہ شاپنگ پہ "
ارمغان نے یاد کروایا تو وہ صوفے پر بیٹھ گئی
" مجھے شاپنگ نہیں پسند "
اس نے ایک ناراض سی نظر مقدم پہ ڈالتے ہوئے کہا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ سب ایک دم چونک گئے
کیا .... تمھیں لڑکی ہو کر شاپنگ نہیں پسند ؟ ۔۔۔۔"
سب نے حیرت سے کہا
" یار ہمیں تو بہت پسند ہے۔ "
امتثال اور نور نے جوش سے کہا "سب کی پسند الگ ہوتی ہے۔"
منت نے بے نیازی سے جواب دیا تو تم نے اپنی بہن کی شادی پر کیا پہننا ہے ؟"
یارم نے سوال کیا تو اس نے ایک نظر یارم پہ ڈالی پھر نظروں کا ارتکاز واپس ٹی وی پر کرتے بولی۔۔۔۔
میرے پاس وارڈروب میں ایسے بہت سے کپڑے ہیں جو استعمال شدہ نہیں ہیں انہیں استعمال کروں گی پر مجھ سے ایک ایک ڈریس کے پیچھے شاپنگ مالز میں نہیں گھوما جاتا.... مجھے جلدی کچھ پسند بھی نہیں آتا تو آپ لوگ چلے جائیں میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ "
اتنا کہہ کر وہ واپس ٹی وی کی جانب متوجہ ہو گئی۔
اسے ہلتے نہ دیکھ مقدم خاموشی سے اٹھا اور ٹی وی بند کر دیا۔
منت کے ساتھ باقی سب نے بھی چونک کر اس کی حرکت دیکھی
منت کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں اسے یہ حرکت سخت نا پسند آئی تھی لیکن مقدم خان از لی بے نیاز ۔۔۔۔ اسے کسی کے پسند آنے یا نہ آنے سے کیا فرق پڑتا تھا کرتی تو اس نے اپنی ہی تھی۔
وہ منت کے بالکل سامنے ہاتھ سینے پر لیٹے کھڑا ہو گیا
" چلیں اب جلدی سے اٹھیں اور چینج کر کے آئیں ورنہ پھر مجھ سے شکایت مت کیجئے گا کہ آپ کو انہی
کپڑوں میں مالز میں گھمایا اور شاپنگ کروائی ہے۔"
مقدم نے بہت آرام سے کہا
زبردستی ہے کیا ؟"
منت نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو اس نے دھیرے سے سر ہلا دیا۔۔۔۔ منت غصے سے اٹھی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی کیونکہ اسے پتہ تھا اس شخص نے اسے اسی حلیے میں لے بھی جانا ہے۔
وہ چینج کرنے چلی گئی تو سب نے سکون بھر اسانس خارج کیا۔
مجھے لگا نہیں تھا کہ اتنی جلدی مان جائے گی۔"
سکندر صاحب نے کہا تو سب نے ہی اثبات میں سر ہلا دیا اور ان کی بات کی تائید کی پر شکر ہے جلدی ہی مان گئی ہے لیکن اب اس کا موڈ پورا ٹائم خراب رہنا ہے۔"
ضر غام نے کہا۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
منت سے جب بھی اس کی مرضی کے بغیر کوئی بات منوائی جاتی تو وہ خاموش ہو جاتی تھی اس کا موڈ بہت بری طرح خراب ہو جاتا اور پھر پورا ٹائم جب تک موڈ ٹھیک نہیں ہوتا تھا وہ اپنے چہرے پر نو لفٹ کا بورڈ لگائے گھومتی رہتی تھی کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی آج بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا۔ وہ نیچے آئی تو سب باہر گاڑی کی جانب بڑھے ۔۔۔۔ منت کے چہرے پہ نولفٹ کا بورڈ لگ چکا تھا۔
سارے راستے سب ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے ہنستے رہے لیکن وہ بس غصے والا منہ بنائے باہر دیکھتی رہی۔
مقدم لگا تار فرنٹ مرر سے اسے دیکھ رہا تھا لیکن مجال ہے جو وہ اس پر نظر ثانی کرے یا کسی کی بھی بات کا جواب دے۔
گاڑی مال کے باہر ر کی تو ضر غام نور کے لیے اور ارمغان امتثال کے لیے شاپنگ کرنے لگے
" یہ کیسا ہے نور ؟"
ضر غام نے ایک ڈریس اس کی جانب بڑھائی تو اس نے منہ بنایا
" یار اتنا اچھا تو ہے۔"
ضر غام نے کہا تو وہ خاموش ہو گئی۔
اگر نہیں اچھا لگا تو نہیں لیتے کچھ اور دیکھ لو میری جان"
ضر غام نے محبت سے کہا تو اس نے آگے بڑھ کر ایک نیلے رنگ کا جوڑا پسند کیا جو بہت خوبصورت اور
نفیس سا تھا
" مجھے یہ پسند ہے ضرغام "
اس نے محبت سے کہا تو ضر غام نے سر ہلا کر ڈریس تھام لیا۔۔۔۔ وہ باقی تقریبات کے لئے کپڑے دیکھنے لگی جبکہ ضر غام محبت سے اسے دیکھ رہا تھا وہ لڑکی اس کی جان تھی۔
نور نے اپنے چہرے پر نظریں محسوس کی تو چہرہ موڑ کے ضرغام کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا نور نے
بھنویں اچکائی
" کیا ہوا ہے ؟"
نور نے مسکراتے ہوئے سوال کیا
کچھ نہیں .... میں اپنی پیاری سی بیوی کو دیکھ نہیں سکتا کیا ؟ " ضر غام نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ شرما کے چہرہ جھکا گئی۔
اس شخص نے اسے خود پر غرور کرنا سکھا دیا تھا وہ اس کی پناہوں میں بہت خوشی سے رہتی تھی اسے ایک لمحے کے لیے بھی اس شخص کی دوری گوارا نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے مسکراتے ہوئے اپنے اور ضرغام کے لیے کپڑے پسند کرنے لگی۔
" ارمغان یہ کیسا ہے ؟"
انتشال نے ایک جوڑا اسے تھمایا تو وہ مسکرادیا
میری جان ... تمہیں جو بھی اچھا لگے لے لیتے ہیں۔ "
ارمغان نے محبت سے کہا تو وہ کپڑے پسند کرنے لگی
ارمغان مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا آپ مدد کریں نہ "
انتشال نے جھنجھلائے لہجے میں کہا تو وہ جو اسے محبت سے دیکھنے میں مصروف تھا آگے بڑھا اور خود اس کے لیے کپڑے دیکھنے لگا۔
یارم نے لاریب کے لیے اپنی مرضی کے بارات اور ولیمہ دونوں تقریبات کے لئے جوڑے لیے تھے وہ چاہتا تھا کہ اپنی زندگی کو اپنی پسند کے رنگوں میں سجا سنورا دیکھے۔
بالاج اپنے لئے شاپنگ کرنے لگا اور مقدم اپنے لئے۔
منت چپ چاپ وہاں موجود بینچ پر بیٹھ کر موبائل میں مصروف ہو گئی تھی جب اچانک مقدم کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔
لگتا ہے کوئی بہت زیادہ والا ناراض ہے مجھ سے۔"
مقدم نے اس کے قریب ہی جگہ سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔۔ وہاں بس وہ دونوں ہی موجو د تھے باقی سب ہی اپنی شاپنگ میں مصروف تھے۔
منت نے سر نہیں اٹھایا اور بغیر جواب دیے توجہ موبائل پر مرکوز رکھی۔
کوئی اتنا غصہ ہے کہ جواب بھی نہیں دے گا۔"
مقدم نے افسوس سے سر ہلایا تو میسج کرتے اس کی انگلیاں تھمیں اور اس نے ماتھے پہ شکنیں ڈالے، آنکھوں میں خفگی لیے ، تاسف سے اسے گھورا جیسے کہنا چاہتی ہو بہت جلدی خیال آگیا میری ناراضگی گا۔
مقدم نے اس کی گھوری پہ اپنے دونوں ہاتھ سرینڈر کرنے والے انداز میں اٹھائے چلیں آئیں میرے ساتھ .... میں نے آپ کے لئے ڈریس دیکھی ہے بہت اچھی لگی ہے مجھے چلیں لیتے ہیں۔ "
مقدم نے کہا لیکن منت اس کی باتوں پر کان دھرے بغیر بیٹھی رہی "من۔۔۔"
مقدم نے بہت نرمی سے پکارا تو منت کی دھڑکنیں ایک دم تیز ہو گئیں۔۔۔۔ اس نے چہرہ اٹھا کر مقدم کو دیکھا پر اس کی لو دیتی نگاہوں کی تاب نہ لا سکی اور جلد ہی چہرہ پھیر گئی۔
اتنی ناراض ہیں مجھ سے کہ مجھے دیکھ بھی نہیں رہیں .... آئی ایم سوری من دوبارہ کبھی آپ پر نہیں چلاؤں گا .... میں نے آپ کو بہت فون ٹرائے کیسے تھے پہلے بھی، لیکن آپ کا فون ہمیشہ بند ہی ملتا تھا اس دن مجھے لگا آپ شاید ٹھیک نہیں ہیں اور پھر آپ کا فون نہ اٹھانا، میں ڈر گیا تھا یار .... جب میں آپ کے کمرے میں آیا تو فون سرے سے آپ کے ہاتھ میں ہی نہیں تھا تو مجھے غصہ آگیا .... آئی ایم سوری میں نے اس دن آپ کو رلا دیا پلیز مجھے معاف کر دیں۔"
وہ بہت نرمی سے اس پر سے نظریں ہٹائے بغیر بول رہا تھا۔
منت سے اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھا جانا تھا تو چہرہ جھکائے بولی۔۔۔۔
" آپ نے بد تمیزی کی تھی مجھ سے میر اناراض ہو نا بنتا بھی ہے۔ "
مقدم ہلکا سا مسکرایا
بالکل بنتا ہے .... مجھے اپنی من سے اس طرح بات بالکل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ "
اپنی من " لفظ پر منت نے حیرت سے چہرہ اٹھایا تو مقدم اپنی جلد بازی پر گڑ بڑا گیا پھر قدرے سنبھل کر بولا۔۔۔۔
آئیں اب میں آپ کو ڈریس دکھاؤں۔"
وہ کہہ کر کھڑا ہو گیا اور منتظر نگاہوں سے منت کو دیکھا۔۔۔۔ آگے کافی سارے لوگ تھے منت نے سہم کر مقدم کو دیکھا اسے آج بھی زیادہ لوگ دیکھ کے خوف آتا تھا گھٹن سی محسوس ہوتی تھی۔
اسے گھبراتا دیکھ کر مقدم نے مسکراتے ہوئے اسے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پر وہ اپنے ڈر کا کیا کرتی۔۔۔۔ مقدم اس کے قریب کھڑا ہو گیا اور اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا آخر منت نے تھوڑی ہمت دکھائی اور نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
منت نے کھڑی ہو کر مقدم کی اجرک تھام لی۔۔۔۔ منت اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی اور اس کی اس حرکت پر مقدم لگا تار مسکرائے جارہا تھا۔
یہ احساس کہ اس کی محبت بس ایک اسے ہی اپنا محافظ سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ بے خوف ہو کر چلتی ہے، مقدم کی دھڑکنیں بڑھا دیتا تھا۔ منت جب جب خوفزدہ ہو کر مقدم کی اجرک تھامتی تھی اور خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی تب تب مقدم کو منت سے محبت ہو جاتی تھی۔ اس کی محبت ساری دنیا سے خوفزدہ ہو کر اس کے پاس آتی تھی اور خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی یہ احساس اور اس احساس کی خوبصورتی بس مقدم ہی سمجھ سکتا تھا۔
اس نے منت کو اپنی مرضی کے کپڑے لے کر دیئے اور پھر سب اپنی شاپنگ ختم کر کے واپس گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
گھر پہنچتے ہی شادی کے کپڑے لاریب کے گھر پہنچا دیئے گئے تھے۔۔۔۔ جیسے ہی کپڑے پہنچے سب نے بارات کا ڈریس دیکھا تو حیران ہو گئے۔
یارم کی خواہش تھی کہ اس کی دلہن اس کے بھیجے ہوئے کپڑوں میں ہو۔ جب سب کو یہ علم ہوا تو سب لاریب کی قسمت پہ مسکرا دیئے اور ماشاء اللہ کہا۔
آخر کار نکاح کا دن آپہنچا۔ سب نے ہی نکاح کے لیے وائٹ تھیم کیا تھا تو سب تیار ہو کر ہال کے لیے تھے۔
ہال میں پہنچ کر مقدم نے متلاشی نگاہوں سے منت کو دیکھنے کے لیے نظر دوڑائی لیکن وہ اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی۔۔۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعد آخر مقدم کا انتظار ختم ہوا اور منت انتقال کے ساتھ باتیں کرتی مسکراتے ہوئے ہال میں داخل ہوئی اس نے سفید رنگ کا نفیس سے کام والا کر تا شلوار پہن رکھا تھا جو نکاح اور منگنی دونوں لحاظ سے پر فیکٹ تھا۔
اپنے چہرے پر نظریں محسوس کر منت نے سامنے دیکھا تو مقدم شار جانے والی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ مقدم کو دیکھ کر مسکرائی پھر دیکھتے ہی دیکھتے برائیڈل روم میں داخل ہو گئی۔
مقدم کی نگاہوں نے آخر تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
برائیڈل روم میں لاریب دنیا جہان کی خوبصورتی سمیٹے ، شرمائی گھبرائی سی نکاح کے لیے تیار بیٹھی، بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
ایزل سے باتوں میں مصروف لاریب نے جب چہرہ اٹھایا تو منت کو اپنے سامنے دیکھ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ منت کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے لاریب اپنی جگہ سے اٹھی منت بھی آگے بڑھی اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگیں۔۔۔۔ کچھ دیر رونے کے بعد جب لاریب کے آنسو نہ تھے تو منت نے جھنجھلا کے کہا
بس کر دے یار .... میک اپ اتر گیا تو یارم بھائی نے بارات واپس لے جاتی ہے۔"
وہ جو کب سے رورہی تھی منت کی بات پہ اسے گھورا لیکن پھر خود بھی مسکرادی۔ منت کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر برائیڈل روم سے باہر آگئی۔
مقدم وہاں ہی کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا اسے آتا دیکھ کر بولا۔۔۔۔
" آپ کو داجی بلا رہے ہیں۔ "
پھر اس کی سرخ ہوئی آنکھوں کو دیکھا جو اس کی رونے کی چغلی کر رہی تھیں۔
منت نے داجی کا سن کر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا لیکن اچانک اس کی مسکراہٹ سمٹی اور
چہرے پر ایک تاریک سا سایہ لہرایا۔۔۔۔ مقدم نے بغور اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھے اور اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔
نجمه بیگم حیران پریشان سی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
" اتنی بیمار تھی کیسے بچ گئی ؟"
انہوں نے خود سے سوال کیا اور اس کی طرف بڑھنے لگیں۔
منت نے جلدی سے مقدم کی اجرک تھا منی چاہی لیکن آج وہ اجرک میں نہیں تھا۔۔۔ اس نے سفید رنگ کا پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا تو اس نے جلدی سے مقدم کے کوٹ کی آستین تھام لی۔
بالاج جو داجی کے کہنے پر منت کو بلانے آیا تھا اس کی یہ حرکت دیکھ ، اس نے سوالیہ نظروں سے مقدم کو دیکھا تو مقدم نے بالاج کو آنکھوں سے ہی خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
ابھی نجمہ بیگم اس کی طرف آہی رہی تھیں جب منت کا نام پکارا گیا ۔۔۔۔ اپنے نام کی پکار پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔
مقدم نے غیر شناسی نظروں سے اس انجان لڑکی کو دیکھا پھر منت کو جو اس لڑکی کے قریب چلی گئی تھی۔
کیسی ہو مناہل ؟ ۔۔۔۔"
منت کہتے ہوئے اس کے گلے ملی تو مقدم فوراً پہچان گیا غالباً یہ وہی مناہل تھی جس کا ذکر فائل میں بھی تھا پر اس کی تصویر نہیں تھی جس وجہ سے مقدم اس لڑکی کو پہچان نہیں پایا تھا۔
میں ٹھیک .... تم بتاؤ کیسی ہو ؟ ۔۔۔۔"
مناہل نے ایک نظر پیچھے کھڑے شخص کو غصے سے گھورتے ہوئے منت کو دیکھا اور پھر کہا ۔۔۔۔ منت نے اس کا گھور نانوٹ کیا تو پیچھے دیکھا۔۔۔۔ بالاج آنکھوں میں نرمی لیے یک تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!