حقیقت پر مبنی ایک سچی كتهاء🖤 از قلم۔۔۔ ایس اے فرام سمندری
لاسٹ پارٹ #3🍂
وه مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے وه جب بھی مجھے تنہا پاتا ہے۔ مجھے بہت دردناک سزا دیتا ہے۔ میرے شوھر کو اس نے نامرد بنا رکھا ہے۔وه حق ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ کوئی میرے وجود کو چھو نہیں سکتا۔ وه مجھ پر زبردستی کرتا ہے۔ مجھ پر حاوی ہو جاتا ہے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔یہ سبھی گھر والے اس کے زیر اثر ہیں۔ وه کل دن کے وقت بھی آیا تھا۔ آپ کو دیکھنے۔۔اسے پتہ چل گیا تھا کہ آپ اسے مجھسے دور کرنے آئے ہیں۔ لیکن وه آپ سے شاید ڈر گیا تھا اسی لئے وه گھر میں داخل نہ ہو سکا۔ مجھے خوشی تھی کہ اس سے میری جان چھوٹ گئی مگر آپ کے چلے جانے کے بعد وه رات کو پھر میرے پاس آیا تھا۔ مجھے ٹھنڈے پانی سے نہا کر جامنی سوٹ پہننے کو کہا اور میں کسی بے جان کٹھ پتلی کی طرح اسکی بات پر سر تسلیم خم اٹھ پڑی تھی۔ میرا خود پر کوئی زور نہ تھا۔ میں سردی سے مر رہی تھی۔ میرا جسم جم سا گیا تھا۔ نہانے کے بعد میں پھر اس کے ساتھ کمرے میں موجود تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگایا اور اس کے جسم کی گرم تپتی گرمائش نے مجھے سکون دے دیا۔وه کہہ رہا تھا کہ وہ آپ کو مار ڈالے گا۔ وه بہت غصہ میں تھا۔ وه آپ کے پاس بھی گیا تھا۔ ایسا اس نے واپس آ کر مجھے بتایا تھا۔آپ کسی حصار میں تھے اس لئے وه آپ کے قریب بھی نہ جا سکا تھا۔ وه آپ کے تعاقب میں ہے۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں رات کو ملاپ کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ اسکی یہ بات مجھے زندہ درگور کر گئی تھی۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ لیکن وه بہت خوبصورت اور جوان ہے۔ اسکی کشش میں مجھے اس کے دیے سبھی درد بھول جاتے ہیں۔ہر روز اسکو کوستی ہوں اور ہر روز ہی اسے یاد بھی کرتی ہوں۔وه میرے پاس ہو تو مجھے تکلیف اور درد ملتا ہے۔ وه مجھسے دور ہو تو مجھے اسکی یاد تڑپاتی رہتی ہے۔ میں مر سکتی ہوں نہ ہی جی سکتی ہوں۔ میں خود کو زندہ لاش جیسا محسوس کرتی ہوں۔ حنا مجھے اپنی داستان سنا رہی تھی۔ وه واقعی سچ بیان کر رہی تھی۔ اسکے لفظوں میں گہرا دکھ مجھے واضح دکھائی دے رہا تھا اور مجھے اس کی اس حالت پر ترس آ رہا تھا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ماجرا کب سے شروع ہوا۔ ۔ میں آپ کو سچ بتا دیتی ہوں بس آپ مجھ پر رحم کیجئے گا۔ اور مجھے اس خبیث سے بچا لیجئے گا۔ آپ کا ہم پر بہت احسان ہوگا۔ حنا نے سر جھکا کر ندامت سے کہا اور پھر گویا ہوئی میں جانتی ہوں کہ آپ کو خواب میں میری پہلی غلطی نظر آ گئی ہے۔ جب میں ان جھاڑیوں میں گئی تھی۔ یہ منظر اس خبیث نے مجھے رات خواب میں پتہ نہیں کیسے دکھا دیا تھا۔ جب آپ خواب میرے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے میں نے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ اس وقت وه خبیث بھی سانپ کے روپ میں وہاں موجود تھا۔ ہاں وہی کالا سانپ وہ خبیث ہی تو ہے۔ وه زیادہ تر سانپ کے روپ میں پھن پھیلائے پھرتا ہے۔ میرے گھر والوں کو بھی وه سانپ یہاں کئ بار نظر آیا ہے۔ پر وه غائب ہو جاتا ہے۔ صرف میں جانتی ہوں کہ وه سانپ نہیں ہے۔ میں مانتی ہوں کہ میں ان جھاڑیوں میں وه حرکت کر رہی تھی لیکن میں وہاں اس ارادے سے نہیں گئی تھی۔یہ کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے۔میری شادی نہیں ہوئی تھی۔وه معتدل سے دن تھے۔ اس دن اچھی دھوپ تھی۔میں اپنی بکریوں کو ڈھونڈنے کی غرض سے ان جھاڑیوں میں جا پہنچی تھی۔ جب میں اس بونگے جنگل میں پہنچی تو مجھے اپنے وجود میں عجیب سے کیفیت محسوس ہونے لگی تھی۔ مجھ پر نجانے کیسا خمار سا چھانے لگا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرے دل و دماغ میں وه خیال مچلنے لگا تھا۔ وه میری پہلی غلطی تھی اور پھر اس کے بعد وه سانپ میرے کمرے میں آ جاتا تھا۔ وه انسان کے روپ میں ساری رات میرے بستر میں میرے ساتھ اپنی مرضی کرتا رہتا۔۔۔۔ اور یہ بات میں آج تک کسی کو بتا نہ پائی۔۔ اور اکثر یہ بات مجھے یاد نہ رہتی تھی۔ مجھے بس یہی انتظار رہتا کہ کب رات ہو۔ اور وه کب مجھسے ملاپ کرے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی۔ اور پھر میری شادی کر دی گئی۔شادی کے پہلے دن ہی سے میرا شوہر ملاپ کے قابل نہ رہا تھا۔ کوئی یہ نہیں جان سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ یہ صرف مجھے ہی پتہ تھا۔ میرے شوہر پر اسی خبیث کے برے اثرات ہیں۔ کئی پیر فقیر آئے اور اپنا زور لگا کر چلے گئے پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ۔۔ میں ان حالات سے بہت تنگ تھی۔ اس لئے اریبہ سے بات کی۔وه مسیح لڑکی ہے۔ میری اچھی دوست رہی ہے۔ اس لئے اسے بھی وه سچ نہ بتا سکی جو آج آپ کو بتایا ہے۔ اس نے مجھے دلاسہ دیا تھا۔ وه اکثر کہا کرتی تھی میرے شوہر کا کزن جوزف ایک مسلم عامل لڑکے کا دوست ہے۔ اور پھر میں نے اپنے شوہر کو ٹونی کا نمبر دیا تا کہ ٹونی سے آپ کے بارے میں پوچھ سکے۔ بہت کوشش کے ساتھ آج آپ یہاں موجود ہیں اور آج ساری حقیقت آپ کے گوش گزار دی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وه خبیث جن مجھسے اولاد چاہتا ہے۔ ایک بچہ پیدا کر چکی ہوں میں۔وه بلکل سانپ نما بچہ تھا۔اس بچے کو ہم نے نہر میں ضائع کردیا تھا۔اس کے بعد وه خبیث مجھ پر پہلے سے زیادہ ظلم کرتا ہے۔ وه رات کی خاموش تنہائی میں آ کر مجھ پر اپنی ہوس کا جبر پورا کرتا ہے۔ پھر اپنے بچے کے غم میں چیخ چیخ کر ماتم کرتا ہے۔ اور کبھی بہت زیادہ شور کرتا ہوا مسکراتا رہتا ہے۔ لیکن اسکا یہ شور و غل صرف مجھے سنائی دیا کرتا ہے۔ میری آپ سے التجا ہے۔آپ کچھ بھی کریں۔آپ مجھے اس خبیث سے چھٹکارا دلا دیں ورنہ میں زیادہ دن جی نہیں پاؤں گی۔ میں اندر سے مرتی جا رہی ہوں۔
حنا اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہو گئی تھی۔ کمرے میں جنبش کرتی اس کی کپکپاتی ہوئی سرگوشیاں اب چپ سادھ گئ تھیں۔ اسکی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے۔ وه سر جھکائے ہوئے کسی معصوم بچے کی مانند رونے لگی تھی۔ اور اسکی اس حالت پر میرا دل افسردہ سا ہونے لگا تھا۔ وه جو بھی تھی جیسے بھی تھی۔ ایک انسان ہی تو تھی۔ وه ایک طویل عرصے سے تکلیف میں تھی۔ وه بے بس اور لاچار تھی۔ مجھے اسکا ساتھ دینا تھا۔ یہی تو میرا پیشہ تھا۔
آپ ہمت رکھیں۔ میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔آج اس خبیث جن کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے غلط انسان پر وار کیا ہے۔ ایسے شیطانوں کو جلا کر راکھ کر دینا چاہئے۔آپ فکر نہ کریں۔۔آپ بس میٹھے چاول پکائیں۔میں نے اپنائیت کے ساتھ حنا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور ان جھاڑیوں والے جنگل نما جگہ کی معلومات لینے لگا۔ حنا نے مجھے اس جگہ کی شناخت کروا دی تھی۔ وه جگہ زیادہ دور نہ تھی۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں اور جوزف اس ویران جگہ کی اور چل نکلے تھے۔ رات کو خواب میں دیکھی ہوئی وه جگہ ڈھونڈنا میرے لئے مشکل نہ تھا۔
سورج ابھی بھی پوری تمازت میں تھا۔ دن کا اجالا ابھی دهندلا نہ ہوا تھا۔ یہ غنیمت تھی کہ سردیوں میں بھی سورج نکل آتا تھا ورنہ ٹھنڈ میں تو بستر سے باہر پیر رکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ جوزف اور میں کھیتوں کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے جا رہے تھے۔ کھیتوں سے پرے کچھ دور ہمیں وہی ویران جنگل نما جگہ دکھائی دے رہی تھی۔ ہمارے بڑھتے ہوئے تیز قدم مستحکم تھے۔ اندھیرا پھیلنے تک مجھے اس بونگی جگہ پر رکنا تھا۔مجھے اس خبیث جن کو بلانا تھا۔ یہ میرے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ وہاں جوزف کی مجھے ضرورت نہ تھی مگر ہاں مجھے اس کام میں جوزف کی تھوڑی مدد درکار تھی کیوں کہ حنا کے گھر کوئی اس قابل مرد موجود نہ تھا۔ ہم اس شیطان جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے محو رواں تھے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم اس مطلوبہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔وه میلوں پھیلا ہوا ویران و بيابان جنگل نما علاقہ تھا۔ وه قدرے وسیع و عریض ویران اور آسیبی جگہ تھی۔ وہاں پہنچتے ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہونے لگے تھے وه بہت بھاری جگہ تھی۔ میں نے جوزف کو حفاظتی حصار کر کے اسے وہی سے واپس بھیج دیا تھا۔ اسے اندھیرا ہوتے ہی دوبارہ یہی میرے پاس آنا تھا۔ میں اسے سب کچھ سمجھا چکا تھا۔ جوزف واپس حنا کے گھر روانہ ہو چکا تھا۔ جاتے وقت وه بڑی تیز رفتاری سے چل رہا تھا جسے دیکھ کر مجھے اس پر ہنسی آنے لگی تھی۔ وه صرف خالی باتیں سن کر لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ وه میرا بہترین دوست تھا۔مگر اسکا دل عملیات میں تھوڑا کمزور تھا۔ میں نے خود کو حفاظتی کڑے میں محفوظ کر لیا تھا۔ اب کوئی آسیب جن بھوت چڑیل مجھے چھو نہیں سکتی تھی۔ یہ کڑا کوئی دهات نہیں تھا۔ یہ ایک روحانی کلام تھی جسے صرف روح بدروح دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ میں اب ایسی مخلوق سے محفوظ تھا۔ میں بے دھڑک ہو کر اب ان جھاڑیوں میں داخل ہو گیا تھا۔ میں دائیں بائیں بل کھاتے ہوئے چلتا رہا اور آخر اسی جگہ جا کھڑا ہوا جہاں خواب میں مجھے حنا دکھائی دی تھی۔ میں یہاں کیوں اور کیا کرنے آیا تھا۔ یہ بات صرف میں جانتا تھا۔ مجھے حنا کے کیے ہوئے پہلے گناہ والی جگہ پر جا کر ہی اس شیطان جن کو حاضر کرنا تھا۔ اور یہ بات میں نے جوزف کو بھی نہ بتائی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ حنا کا داغدار ماضی کسی اور کو پتہ چلے۔ دن کا اجالا مجھے وہاں کا ہر منظر صاف دکھا رہا تھا۔ ان جھاڑیوں میں اب ہر طرف ھلچل سی مچ گئی تھی۔ وہاں کی مکین غیبی مخلوق کو میرا وہاں آنا پسند نہیں آیا تھا۔ مجھے اپنے چاروں اطراف بھاگ دوڑ ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ہر طرف سرسراہٹ سی ہونے لگی تھی۔ عجب سی سرگوشیاں ہوتی ہوئی سنائی دے رہی تھیں۔دن کی روشنی میں یہ حال تھا۔ اندھیرا ہو تو نجانے کیا حال ہو۔ ۔۔ ۔ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں انکی پکھیوں میں آن کھڑا ہوا ہوں۔میری موجودگی سے وه غیر مرئی مخلوق متنفر ہونے لگی تھی۔ لیکن میں ثابت قدم کھڑا رہا۔ مجھے ان سے بات کرنی تھی۔ مجھے ایک معصوم ذات کی جان بچانی تھی۔ اور میں حق پر کھڑا تھا۔ میں تجسس آمیز نگاہوں سے گھومتا ہوا ادھر ادھر کا جائزہ لیتا رہا۔ مگر افسوس کانٹے دار جھاڑیوں کی وجہ سے میں وہاں چل پھر نہ سکا تھا۔ ورنہ ایسی خاموش جگہیں مجھے ہمیشہ پسند رہی ہیں۔ کاش ایسی ویران جگہ میرے شہر کے پاس بھی ہوتی تو مجھے چلہ کشی کے لئے دور دراز نہ جانا پڑتا۔۔رات کے اندھیروں میں بلکل تنہا ہی دور کہیں کھنڈر زدہ ویرانوں میں جانے کا بھی ایک اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ مجھے وه سنسان علاقہ بہت بھا رہا تھا۔ وہاں ہر طرف خاموشی کی بھنبھناہٹ کے پہلو میں ابھی بھی عجیب و غریب كهسر پهسر ہوتی ہوئی صاف سنائی دے رہی تھی۔ ہر طرف جنبش سی ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہر آہٹ ہر لرزش کو محسوس کرتا ہوا سمجھتا جا رہا تھا۔ دماغ ہر ابهرتی ہوئی سرگوشی کے اسرار و رموز کو بھانپتا جا رہا تھا۔ وہاں رکے رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔لیکن میرا رکنا کسی کی آزادی کے لئے بہت ضروری تھا۔ سورج ڈھلنے تک مجھے اس جگہ رک کر کچھ عمل کرنا تھا۔ عمل زیادہ دیر کا نہیں تھا۔ سو میں قدرے آرام کے ساتھ اب وہاں بیٹھ گیا ۔میں ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اپنے ورد میں مصروف ہو گیا تھا۔ سورج دھیرے دھیرے اپنی منزل کی سمت ڈھلتا جا رہا تھا۔ جھاڑیوں میں بیٹھے ہوئے مجھے محسوس ہوتی ہوئی ٹھنڈ سے وقت کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ میں منہ ہی منہ میں کافی دیر سے ورد میں مصروف تھا اور ابھی تک کوئی ایسی ہلچل نہ ہوئی تھی جس سے مجھے خطرے کا خدشہ ہوتا۔ شام ہوتے ہی جوزف کو یہاں پہنچ جانا چاہئے ۔میں اسے تاکید کر چکا تھا۔ مجھے اسی کا انتظار تھا۔ میرا عمل مکمل ہونے والا تھا اس کے بعد مجھے اس خبیث جن کو حاضر کرنا تھا۔ اسی خیال کے تحت میں اور تیز رفتاری کے ساتھ ورد کرنے لگا تھا۔ ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ مجھے اپنے قریب سانپ کی ایک تیز پهنكار بلند آواز گونجتی ہوئی سنائی دی۔میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔وه وہی کالا سیاہ ناگ تھا جو مجھے خواب میں دکھائی دیا تھا۔ اور جس کے بارے میں حنا مجھے بتا رہی تھی۔ یہ وہی خبیث جن تھا جو سانپ کے روپ میں حاضر ہو چکا تھا۔ میں اس سے فی الوقت بات نہ کر سکتا تھا۔ میرا عمل مکمل ہونے میں ابھی کچھ تعداد باقی تھی۔ اور پھر وه سانپ دوبارہ نہ پهنكارا تھا شاید وه جان چکا تھا کہ اسے میں نے زبردستی کر کے حاضر کیا ہے۔میں بغیر کسی ڈر خوف کے ورد کرتا رہا اور پھر کچھ ہی لمحوں بعد میرا عمل مکمل ہو گیا۔ میں خاموش ہو چکا تھا۔وه اپنا پھن اٹھائے ہوۓ رینگ کر میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ۔۔۔ وه آنکھ جھپكتے ہی انسانی روپ میں آ گیا۔یہ وہی جوان لڑکا تھا۔ جس کے انگ انگ میں پرکشش خوبصورتی مچل رہی تھی۔ اسکی گہری بھوری آنکھوں میں بلا کی کشش تھی لیکن وه مجھ پر اپنی اس کشش کا اثر نہ کر سکتا تھا۔ اس کی یہ چال صرف وقت ضائع کر رہی تھی۔
کیوں بلایا ہے مجھے۔ ۔۔۔!!؟ ایک پھٹی ہوئی آواز گونجتی ہوئی ان جھاڑیوں میں کہیں روپوش ہو گئی۔وه خبیث جن غصیلے لہجے میں بولا۔ اسکی آنکھوں میں قہر گویا جل رہا تھا۔ اس کے تیور شدید ہو چکے تھے۔
تا کہ تم سے بات کی جا سکے۔ تم اس لڑکی سے دور ہو جاؤ۔میں تم سے زیادہ بحث نہیں کروں گا۔میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ ہاہاہا۔۔۔ میں اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ وه سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے گرجا اور قہقہے لگانے لگا۔ مجھے اس سے یہی امید تھی۔میں جانتا تھا کہ وہ طاقتور قبیلے کا ہے۔اس لئے وه پیار سے نہیں مانے گا۔ اچھا۔۔۔‼چلو دیکھتے ہیں پھر۔۔تم اسے خود چھوڑتے ہو یا اسے چھوڑ دینے کے لئے التجا کرتے ہو۔۔میں نے مختصر بات کی اور زمین پر سے تھوڑی مٹی اٹھا کر اس پر دم کر کے اس خبیث کی طرف پھینک دی۔ اگلے ہی لمحے وه چیخ اٹھا تھا۔ وه شدید درد میں تڑپنے لگا تھا۔ مٹی اڑنے کی وجہ سے اس کا چہرہ زخمی ہو چکا تھا۔ اس کے خوبصورت چہرے پر اب لہو کے نشان پڑ چکے تھے۔ کون ہو تم ؟؟؟ یہ کیا کر رہے ہو میرے ساتھ۔ اب ایسا مت کرنا۔ ۔۔وه خبیث درد سے تڑپتا ہوا التجائی انداز میں پکار اٹھا۔ تو کیا ارادہ ہے تمہارا ؟ پیار سے اس لڑکی کو چھوڑنے کا عہد دیتے ہو یا پھر تمہیں یہی مٹی میں ملا دوں۔۔میں زیادہ بحث نہیں کیا کرتا۔ ۔۔ میں نے فیصلہ کن بات کی۔۔شاید وه جان چکا تھا کہ میں اس پر بھاری پڑوں گا۔اب کی بار وه خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔ وه بے بس تھا ۔وه کہیں بھاگ نہیں سکتا تھا۔ میرے حصار میں وه تب تک قید تھا جب تک میں وہاں سے اٹھ نہیں جاتا تھا۔ اور میں بات کا حل نکلنے سے پہلے اٹھنے والا نہیں تھا۔ جلدی بتاؤ مجھے۔ ۔ ۔ میں دوبارہ نہیں پوچھوں گا۔ تمہیں راکھ کر دوں گا۔۔میں نے قہری انداز میں دريافت کیا۔ وه اس بار بھی خاموش بیٹھا ہوا مجھے گھورتا رہا۔ وه درد سے كراه رہا تھا۔ مجھے اس پر طیش آنے لگا تھا۔میں سمجھ گیا تھا کہ وہ اپنی اکڑ نہیں چھوڑے گا۔ میں نے بغیر کوئی سوال کیے عمل پڑھنا شروع کردیا تھا۔ اب کی بار اسکی چیخیں دور دور تک جانے لگی تھیں۔ وه اپنے اصل روپ میں آ چکا تھا۔ وه کسی دیو نسل کا شیطان جن تھا۔ وه میرے سامنے تھا۔ اسکا قد بڑھتا ہوا کئی فٹ اونچا ہو چکا تھا۔ اسکی بڑی بڑی سرخ انگارہ آنکھیں قہر برسانے لگی تھیں۔وه پھٹی ہوئی اپنی بھیانک آواز میں چیخ و پکار کرنے لگا تھا۔ اس کی گرجدار آواز کا رعب و دبدبا ہر شے کو ہڑپ کر دینے والا تھا۔ اس کے بھدے سے وجود پر لمبے کالے سیاہ بال گچھوں کی مانند لٹک رہے تھے۔ وه کسی بپھرے ہوئے زخمی پہلوان کی طرح لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ وه اپنے چوڑے بڑے بڑے ہاتھوں کے نوکیلے ناخنوں سے اپنا چہرہ پھاڑتے ہوئے دھاڑ رہا تھا۔ اس کے دیگ جیسے بڑے سے چہرے سے کالا سیاہ گاڑھا سا سيال ماده بہتا ہوا نیچے ٹپکنے لگا تھا۔ وه بے بس ہو کر درد ناک آواز میں گویا رونے لگا تھا۔ اس کا چوڑا کھردرا وجود کسی پہاڑ کی طرح دکھائی دے رہا تھا اور مجھے اس کی چیخ و پکار کی کوئی فکر نہ تھی۔ مجھے اس کے دہشتناک وجود کا کوئی ڈر خوف نہ تھا۔ وه اپنی درگت کا خود ذمہ دار تھا۔ اسکا جل جانا ہی بہتر تھا۔ میں اس خبیث شیطان جن کو نظر انداز کیے ہوئے اپنے عمل پر ڈٹا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وه سوا جیسی راکھ کا ڈھیر بن کر ختم ہو گیا۔ اب وہاں کوئی آواز کوئی آہٹ نہ ابهر رہی تھی۔ہر طرف گہری تشویشناک خاموشی چھا چکی تھی۔ اندھیرے کے عفریت میرے چار سو پھیل چکے تھے۔ میں اس ویران جنگل میں بیٹھا ہوا بلکل تنہا تھا۔ مدھم مدھم سی ٹھنڈ محسوس ہونے لگی تھی۔ مجھے جوزف کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اسے یہاں میٹھے چاول لے کر آنا تھا۔اسے اب تک آ جانا چاہئے تھا۔وه میٹھے چاول یہاں بطور بھینٹ رکھنے تھے۔ میرے عمل کے زور کے بعد یہ بھینٹ لازمی جزو تھا۔ شاید وه جھاڑیوں سے کہیں باہر نہ کھڑا ہو۔۔۔۔❗یہ خیال آتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے قدم چلتے ہوئے ان جھاڑیوں سے باہر نکل آئے اور واقعی جوزف وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کوئی بات نہ کی تھی۔ میرا چپ رہنا ضروری تھا۔جوزف نے بھی مجھ سے کوئی بات نہ کی تھی۔ ۔ میں نے خاموشی سے چاول اٹھائے اور اس ویرانہ کی غیبی مخلوق کو بھینٹ کر دیے۔اس کام سے فارغ ہو کر میں آزاد تھا۔ میں بات کر سکتا تھا۔ آؤ اب گھر چلیں۔۔۔میں نے بڑا سا خالی برتن جوزف کو پکڑاتے ہوئے کہا اور پھر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے چل پڑے۔کچھ ہی دیر بعد ہم حنا کے گھر موجود تھے۔ میری موجودگی سے وه خوش ہونے لگے تھے۔ اندھیرا زیادہ ہو چکا تھا۔ ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیں ان کے اصرار پر رات وہی رکنا پڑا۔۔ وه اچھے لوگ تھے۔ ہمیں اپنا سمجھ کر عزت بخشی۔۔۔ہماری قدر کی۔ حنا رات بھر خوب مدہوشی میں سوتی رہی۔ اسکی امی کو آج رات سوتے میں کوئی الجھن محسوس نہ ہوئی تھی۔حنا کے نانا ابو بھی پرسکون نیند سوتے رہے۔ رات کسی پھول کی طرح راحت بخش اور ہوا جیسی ہلکی میٹھی نیند میں گزر گئی۔۔صبح ہمیشہ کی طرح میں پھر دیر تک سوتا رہا۔ مجھے کوئی خواب نہ آیا تھا۔ میں پرسکون نیند میں سوتا رہا۔ جوزف انہیں میرے بارے میں بتا چکا تھا کہ دیر تک سونا اسکی پرانی عادت ہے۔ آج سورج نہیں نکلا تھا۔آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہلکی دھند ہواؤں میں رچی ہوئی تھی۔ آج سردی جوبن میں تھی۔دن کافی ہو چکا تھا جب میری آنکھ کھلی۔۔۔۔۔ ناشتہ کے بعد میں نے حنا اور اس کے سبھی گھر والوں نقش وغیرہ دیے تا کہ وه برے اثرات سے محفوظ ہو جائیں۔۔۔ ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ میں اور جوزف واپسی کی راہ پر گامزن تھے۔ کزن ٹونی کے گھر الوداعی سلام کہہ کر ہم دونوں واپس اپنے گھر روانہ ہو چکے تھے۔ میرے آ جانے کے بعد بھی حنا اب تک بلکل شفا یاب ہے۔ اس کے گھر والے خوش ہیں۔ وه تکلیف جو ایک مدت سے حنا کو اندر سے کھوکھلا کرتی جا رہی تھی۔ آج وه بلکل صحتیاب اور تندرست ہے۔ ختم شد 🖤
کہانی بااجازت لکھی گئی ہے۔ نام و جگہ فرضی رقم کی گئی ہے۔ اس کہانی میں کچھ ایسے موڑ موجود ہیں جو میں نے واضح طور پر لکھنا ضروری سمجھا۔۔تا کہ کوئی دوسری حنا کسی بڑی مشکل میں نہ پھنس سکے۔
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!