![]() |
رازِ دل"پہلی قسط"از۔"کنزہ خان" رات کا تیسرا پہر تھا اور وہ اندھا دھند بھاگتی جارہی تھی۔ بکھرے بال اور بکھرے سراپے کے ساتھ بہت ڈری سبھی قدم اٹھا رہی تھی۔ چار لڑکے اس کے تعاقب میں اس کے پیچھے آرہے تھے۔ وہ اپنی عزت کی حفاظت کے لیے لگا تار بھاگ رہی تھی اور اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا اس سناٹے میں وہ اکیلی ان سے بھاگ رہی تھی اور لگا تار اللہ سے اپنی آبرو کی حفاظت کی دعا کر رہی تھی۔ وہ بھاگنے میں اس قدر مگن تھی کہ اپنے سامنے سے آتی ہوئی گاڑی نہ دیکھ سکی اور اس سے ٹکرا کر بہت بری طرح زمین پر گری اس کا سر پھٹ گیا اور ہلکا ہلکا خون رہنے لگا۔ وہ اپنا سر ہاتھوں میں گر گئی اور اس جگہ ہاتھ رکھ لیا جہاں سے سرخ مادہ بہہ رہا تھا۔ گاڑی میں سے ایک شخص باہر آیا اور پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ پریشانی سے پوچھا۔ " آپ ٹھیک ہیں ؟۔۔۔۔" وہ جو سر میں شدید درد کی وجہ سے سر کو تھام کر بیٹھی تھی آہستہ سے چہرا اٹھایا اور اس شخص کا دھندلاسا عکس دیکھا پھر دو سے تین بار پلکیں جھپکی تو اس شخص کا چہرہ نظر آیا۔ سیاہ شلوار قمیض میں کندھوں پہ سیاہ اجرک اوڑھے، گہری سیاہ رات کی آنکھیں جن میں کچھ بھی نہ دیکھتا تھا، کھٹڑی مغرور ناک، مونچھوں تلے سرخ عنابی ہونٹ اور ملکی بیر ڈ، وہ شخص بھر پور و جاہت کا شاہکار تھا۔ اس نے ڈری سہمی لڑکی کو دوبارا مخاطب کیا اور آپنا سوال دہرایا " آپ ٹھیک ہیں ؟.... برات کے اس پہرا کیلی یہاں۔۔۔۔" ابھی اس کا سوال مکمل نہیں ہوا تھا جب اس کی نظر لڑکی کے کپڑوں پر پڑی۔ پھٹا ہوا عبایا، لا پرواہی سے شانے پر جھولتا ہوا دو پٹہ ۔۔۔۔ اس شخص کو کچھ کچھ سمجھ آگیا تھا اس نے جلدی سے اپنی اجرک اتاری اور برق رفتاری سے اس لڑکی کے اوپر اوڑھادی۔ لڑکی حیران پریشان کی لڑکے کی اس حرکت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی جب اسے پیچھے سے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دی۔ ان دونوں نے پلٹ کے دیکھا تو پیچھے وہی لڑکے تھے۔ "اے .... یہ ہمارا شکار ہے اسے ہمیں دے دے۔ اگر تو چاہے تو ساتھ آجا ہمارے بعد تو رکھ لینا" ان لڑکوں نے خباثت سے کہا۔۔۔ ڈری ہوئی لڑکی اس لڑکے کو کھڑا ہوتا دیکھ جلدی سے کھڑی ہوئی اور اس کے پیچھے چھپ گئی۔ اس لڑکے نے اس لڑکی کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن وہ بلک کے پیچھے ہوئی۔ اس نے گاڑی کے پاس جاکے دروازہ کھولا اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ پہلے تو متنذ بذب سی کھڑی رہی کیوں کے وہ ایسے ہی کسی بھی انجان شخص پر یقین نہیں کر سکتی تھی۔ وہ ایک قدم مزید پیچھے ہوئی اتنے میں وہ لڑکے اس کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔۔ وہ شخص جلدی سے آگے آیا اور اس لڑکی کی ڈھال بن کے اس کے آگے کھڑا ہو گیا۔ وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے کبھی اس شخص کی پشت کو دیکھتی اور کبھی ان لڑکوں کو جو ہوس بھری نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اس شخص نے جب لگا تار ان لڑکوں کو اس کی طرف دیکھتا پایا تو گردن موڑ کے اس ڈر سے کانپتی لڑکی کو دیکھا اور کہا۔۔۔۔ " آپ جا کے گاڑی میں بیٹھیں ۔ " لیکن وہ اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی ملنے کی۔ اسے ہلتا نہ دیکھ اس نے غصے سے اپنی بات دہرائی۔ وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی کہ وہ کیسے اس پر یقین کرے لیکن جب اس لڑکے کا اجرک اوڑھنے والا عمل یاد آیا تو جا کے اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ لڑکے ہو نک بنے کبھی اسے دیکھتے جو ان کے شکار کو گاڑی میں بیٹھا چکا تھا اور کبھی ایک دوسرے کو پھر ان میں سے ایک لڑکا آگے بڑھا اس سے پہلے کے وہ گاڑی تک پہنچتا اس لڑکے نے راستے میں ہی اسے پکڑ لیا، چیخ کی آواز آئی اور وہ لڑکا پینے لگا۔۔۔۔ پیچھے کھڑے تین لڑکوں نے گھبرا کے ایک ایک قدم پیچھے لیا کیونکہ وہ شخص ان کے ساتھی کا بازو توڑ چکا تھا اور ان کا ساتھی زمین پہ بیٹھا کر اور ہا تھا۔ وہ شخص ان کی طرف بڑھا لیکن ان تینوں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی اور اپنے ساتھی کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس شخص کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ آگئی اور وہ واپس اپنی گاڑی کی طرف آیا جہاں وہ ڈر سے تھر تھر کانپتی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور سوال کیا " نام کیا ہے آپ کا؟" "من.... منت" اس نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ اس لڑکے نے غور سے اسے دیکھا اور سر گوشی نما آواز میں دوہرایا "منت۔۔۔۔" پھر اس نے گردن موڑ کے اس لڑکی کو دوبارہ دیکھا۔۔۔۔ بھوری نم ویران آنکھیں، گندمی رنگت، گلابی ہونٹ، چھوٹی سی ناک، بلاشبہ وہ خوبصورت تھی۔ اس شخص نے رخ موڑا اور گاڑی چلانے لگا۔ منت نے پوچھا۔۔۔۔ نے "ہم .... ا .... کہاں جا رہے ہیں ؟" " ہسپتال ...." یک لفظی جواب آیا۔ وہ مزید پوچھنا چاہتی تھی لیکن اس شخص کے چہرے کے تاثرات دیکھ خاموش ہو گئی جو اپنے معاشرے کے ان غلیظ مردوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جن کی وجہ سے لڑکیاں کہیں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد گاڑی ہسپتال کے باہر رکی۔ وہ لڑکا باہر آیا اور منت کی سائیڈ کا دروازہ کھول کے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔ منت نے ایک نظر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور دوسری نظر اس پہ ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اس کا ہاتھ تھامے بنا ہی باہر آگئی۔ اس لڑکے کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آگئی اس نے اپنا ہاتھ پہلو میں گر الیا۔ وہ باہر آئی سر میں درد شدید تھا اور بہتا خون اب زخم پہ جم چکا تھا۔ وہ شخص اسے ہسپتال کے اندر لایا اور ریسیپشن سے ڈاکٹر کا پوچھ منت کو لیے ہسپتال کی راہداریوں سے گزرنے لگا جو رات ہونے کی وجہ سے قدرے سنسان پڑی تھیں۔ " مقدم .... تم یہاں کیوں ؟... سب ٹھیک ہے نہ ؟.... تم ٹھیک ہو ؟ ۔" ابھی وہ کچھ ہی آگے چلے تھے کہ پیچھے سے آواز سنائی دی اور ایک شخص بھاگتا ہوا ان تک آیا۔ اس شخص کی ہیزل گرین آنکھیں تھی۔ وہ شکل سے مقدم کا بھائی لگ رہا تھا کیوں کہ ان دونوں کے چہرے کے نقوش بہت حد تک ملتے تھے بس آنکھوں کے رنگ کا فرق تھا۔ مقدم نے مڑ کے دیکھا اور وہیں کھڑا ہو گیا منت بھی اس کے ساتھ ہی رک گئی۔ وہ شخص جلدی سے آیا اور مقدم سے پریشانی سے پوچھنے لگا۔ مقدم نے ایک نظر منت پر ڈالی اور کہنے لگا۔۔۔۔ یارم میں ٹھیک ہوں .... تم یہاں کیوں ہو ؟" میں وہ دبیر کی امی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی اور وہ گھر نہیں تھا۔ اس کے ملازم نے تمہیں کال کی لیکن تمہارا فون بند تھا تو اس نے مجھے کال کر کے اطلاع کی .... میں آنٹی کو لے کر ہسپتال آگیا اور دبیر کو فون پر اطلاع کر دی۔ وہ کسی میٹنگ میں تھا فون نہیں اٹھایا لیکن پھر فارغ ہو کے اس نے مجھے کال بیک کی۔ میں نے اسے سارا معاملہ بتا کے ہسپتال آنے کا کہا اب وہ اندر روم میں ہے آنٹی کے پاس۔ یارم اس انجان لڑکی جس پر مقدم گاہے بگاہے نظر ڈال رہا تھا اور وہ سر جھکائے ہی ہوئی کھڑی تھی دیکھتے ہوئے سارا معاملہ بتانے لگا۔ ھینکس یارم بھائی ! آپ امی کو ہسپتال لے آئے ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا میں سن کے بہت ڈر گیا تھا۔" دبیر یارم کا شکریہ ادا کر نے لگا جب نظر مقدم اور اس کے پاس کھڑی لڑکی پر پڑی۔ مقدم تم یہاں ہسپتال کیوں ؟" دبیر نے مقدم سے پوچھا اور انجان نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکھا پھر سوالیہ نگاہوں سے یارم کو دیکھا یارم نے ہلکے سے کندھے اچکائے اور دونوں نے سوالیہ نگاہوں سے مقدم کو دیکھا۔۔۔۔ مقدم ان دونوں کی آنکھوں میں سوال پڑھ چکا تھا اس لیے اس نے ان دونوں کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور منت کو لئے آگے بڑھا وہ چپ چاپ اس کے پیچھے قدم اٹھانے لگی۔ دبیر اور یارم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ان دونوں کے پیچھے چلنے لگے۔ دبیر مقدم کا بچپن کا دوست تھا۔ سکول کالج انہوں نے ساتھ میں پڑھا اور پھر دونوں ڈبل ایم اے کرنے کے لیے امریکا چلے گئے۔ دونوں کی عمر اٹھائیس سال تھی اور اس قدر گہری دوستی تھی کہ ایک دوسرے کے لیے جان دینے کا موقع ملتا تو اس سے بھی باز نا ر ہتے۔ ڈاکٹر کے کیبن پر پہنچ کے مقدم نے یارم اور دبیر کو باہر رکنے کا اشارہ کیا اور خود منت کولے کے اندر چلا گیا۔ کیبن میں ڈاکٹر اپنی کرسی پر پیشہ ورانہ انداز میں بیٹھی تھی، لڑکی کی حالت دیکھ بہت غور سے ان دونوں کو دیکھا اور معاملہ سمجھ آنے پر اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ " سر آپ باہر جا کر انتظار کریں میں چیک اپ کے بعد آپ کو بتاتی ہوں۔" اس کے کہنے پر مقدم اثبات میں سر ہلاتا کیبن سے باہر چلا گیا۔ ڈاکٹر نے منت کا چیک اپ کر نا شروع کر دیا۔ مقدم جیسے ہی کیبن سے باہر آیا سامنے ہی بینچ پہ یارم اور دبیر بیٹھے اس کے باہر آنے کے انتظار میں تھے اسے آتاد دیکھ کھڑے ہو گئے۔ " یہ لڑکی کون ہے ؟۔۔۔۔" یارم نے پوچھاد بیر نے بھی تائید میں سر ہلایا اس کا بھی یہی سوال تھا۔ "منت" یک لفظی جواب آیا کون منت ؟ ۔۔۔" یارم نے انکھوں کی پتلیاں سکوڑ کے پوچھا تو مقدم اور دبیر اس کے تفتیشی انداز پر زیر لب مسکرا دیئے۔ میں جب آفس سے واپس آرہا تھا تو راستے میں اچانک وہ میری گاڑی سے ٹکرا گئیں تھیں۔" اور پھر مقدم نے ان دونوں کو ساری روداد سنا دی ان دونوں کو بہت افسوس ہوا۔ یارم بینچ پر بیٹھ گیا البتہ مقدم نے دبیر کو اشارہ کیا اور وہ سمجھتا ہو ا فوراً ہسپتال سے مقدم کا کام کرنے کے لیے نکلا۔ اس کی امی کی طبیعت اب بہتر تھی اور انہیں ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ انہیں گھر چھوڑ کے دبیر کا ارادہ سب سے پہلے مقدم کا کام کرنے کا تھا۔ وہ اپنی امی کو لے کے ہسپتال سے نکل گیا۔ اب مقدم کو معلوم تھا کہ اس کا جگری دوست صبح ہونے سے پہلے اس کا کام کر دے گا یہ سوچ کر مقدم کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا جب دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آئی سر یہ پولیس کیس ہے .... ہمیں پولیس کو انفارم کرنا ہو گا۔ " ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا تو مقدم کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔ کیسی ہیں اب وہ ؟" اس نے آنکھوں میں سختی لیے ، ڈاکٹر سے سوال کیا۔ " بہت ڈری ہوئی ہے اور کافی چوٹیں بھی آئی ہیں۔ میں نے بینڈیج کر دی ہے اب پہلے سے بہتر ہے لیکن ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ مزید صدمے برداشت نہیں کر سکتی تو کوشش کریں کہ انہیں خوش رکھیں۔ " مقدم جو بہت غور سے ان کی بات سن رہا تھا آخری الفاظ پہ چہرہ جھکا گیا پھر چہرہ اٹھا کے کہا میری آصف انکل سے بات ہو گئی ہے انہوں نے کہا ہے پولیس کی ضرورت نہیں ہے۔ " او کے سر۔" ڈاکٹر اتنا کہتی واپس اپنے کیبن میں چلی گئی۔ آصف مقدم کو تب سے جانتے تھے جب مقدم کی عمر پندرہ سال تھی۔ یہ ہسپتال آصف کا ہی تھا اسی لیے ڈاکٹر خاموش ہو کہ چلی گئی۔ " مقدم اب اس لڑکی کا کیا کرنا ہے ؟" یارم نے سوال کیا۔ اسے حقیقتاً اس لڑکی کے بارے میں سن کے افسوس ہوا تھا اور اپنے معاشرے کے ان درندوں پہ غصہ آیا تھا جو لڑکیوں کو کہیں بھی آزاد نہیں رہنے دیتے تھے۔ کیا کرنا ہے ؟ .... اسے اس کے گھر چھوڑیں گے اور کیا۔ " مقدم کے انداز میں بے نیازی تھی۔ یارم نے بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے پھر سر جھٹک کے ریسیپشن کی طرف چل دیا اور فار میلٹنیں وغیرہ پوری کرنے لگا۔ منت جیسے ہی کیبن سے باہر آئی اس کے سر پہ اور بازو پہ بینڈ بیج ہوا تھا۔ اس نے پلکیں اٹھا کے مقدم کو دیکھا۔۔۔۔ اس کی آنسوؤں بھری ویران آنکھوں میں مقدم کو آپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا اس نے جلدی سے اس سے نظریں پھر الیں۔ " آپ چلیں میرے ساتھ ۔ " مقدم نے نظریں ملائے بنا کہا اور اسے ساتھ لیے گاڑی کی طرف چل دیا۔ منت اب پریشان کی سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ مقدم منت کو لیے گاڑی میں بیٹھنے والا تھا جب یارم بھی آگیا اور پینجر سیٹ سنبھالی۔۔۔۔ مقدم نے بیک ڈور کھولا۔ بیٹھیں۔۔۔۔ لیکن دوسری جانب سے مکمل خاموشی۔۔۔۔ مقدم نے اپنی بات دہرائی لیکن وہ نہ ہلی اور سر جھکائے کھڑی اپنے لب کاٹتی رہی۔ یارم اس کا روائی کو بغور دیکھ رہا تھا۔ ابھی مقدم کچھ کہتا منت بولی، " آپ نے میری مدد کی اس کے لیے تھینکس آگے میں خود بیچ کر لوں گی۔" نہیں آپ میرے ساتھ چلیں۔ رات کے اس پہرا کیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ لڑکے دوبارہ سے آپ کا پیچھا کریں آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو بحفاظت گھر چھوڑ دوں گا۔ " مقدم کا اتنا کہنا تھا کے منت کے آنسو بہنے لگے۔ مقدم جو بغور اسے دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پہ بہتے آنسو دیکھ پریشان ہو گیا۔ " آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ ایڈریس بتائیں اپنا۔" مقدم نے اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی لیکن منت کے آنسوؤں میں مزید روانی آگئی اور وہ شدت سے رونے لگی۔ یارم جو آرام سے بیٹھا اپنے بھائی کے اتنے نرم انداز کو دیکھ اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا گڑ بڑا گیا۔ " میر اگھر نہیں ہے۔" منت نے روتے ہوئے بتایا تو یارم اور مقدم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور افسوس سے سر جھٹکا آپ فکر نہ کریں میرے پاس ایک محفوظ مقام ہے میں آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں وہاں آپ حفاظت میں رہیں گی۔" مقدم نے نرمی سے کہا۔ منت نے بھیگی آنکھیں اٹھا کے مقدم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے پوچھنا چاہتی ہو "کہاں ؟" آپ مجھ پر یقین کر سکتی ہیں۔ آئیں میرے ساتھ۔" مقدم نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا اس بار وہ آرام سے بیٹھ گئی کیونکہ وہ اس شخص پر یقین کر سکتی تھی۔ گھر کیوں نہیں ہے آپ کا؟" گاڑی ابھی تھوڑا سا ہی آگے گئی تھی کہ یارم نے اپنے دل میں مچلتا سوال آخر پوچھ ہی لیا۔ وہ .... میں .... وہ۔۔۔۔ منت کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے۔ مقدم لگا تار فرنٹ مرر سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے جواب کا منتظر ہو لیکن اسے لگا تار انکتاد یکھ وہ سمجھ گیا کہ وہ ابھی بتانے کی حالت میں نہیں ہے۔ اس نے یارم کو تنبیہ نگاہوں سے گھورا تو یارم شانے اچکا کے رہ گیا۔ ہم کا کہاں جا رہے ہیں ؟" منت نے ڈرتے ڈرتے پوچھا جب اچانک ایک جھٹکے سے گاڑی رکی لیکن منت نے جو دیکھا اسے لگا جیسے ساتوں آسمان اس کے سر پہ آگرے ہوں۔ مقدم نے بیک ڈور کھولا اور اسے باہر آنے کا کہا یارم بھی گاڑی سے باہر نکل آیا۔ یا الله .... اب میری جگہ یتیم خانے میں ہے۔ " منت نے دل میں اللہ سے مخاطب ہوتے سوچا۔ مقدم نے اسے اپنے پیچھے آنے کی تاکید کی اور آگے بڑھ گیا۔ یارم، مقدم اور منت۔۔۔۔ تینوں آفس میں انتظار کر رہے تھے۔ منت کرسی پر گم سم بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم خانے میں رہنا پڑے کیا قسمت ایسے بھی کرتی ہے ؟۔۔۔۔ جبکہ یارم اور مقدم اپنی کسی بزنس ڈیل کے متعلق زیر بحث تھے۔ اسلام و علیکم! آواز پر سب نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں ایک ادھیڑ عمر شخص ایک پچیس سالہ سنہری آنکھوں والے نوجوان کے ساتھ آفس میں داخل ہوئے۔ منت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ یارم اور مقدم ان کی طرف بڑھے۔ " داجی .... کیسے ہیں آپ؟" وہ دونوں ان سے بغل گیر ہوئے " ارے بھائیوں .... میں بھی تو ہوں یہاں۔" سنہری آنکھوں والے لڑکے نے خفگی سے کہا۔ ارمغان .... تم کب ہمارے داجی کے ساتھ نہیں پائے جاتے ؟... ہمیشہ تو چپکے رہتے ہو ان سے۔" یارم نے اسے مصنوعی گھورتے ہوئے شرارت سے کہا۔ ارمغان نے ڈھٹائی سے دانت دکھائے اور ان سے ملنے لگا اس دوران وہ چاروں اپنے پیچھے کھڑے وجود کو شاید فراموش کر چکے تھے۔ آج میرے بچے یہاں کیسے ؟... خیریت تو ہے نہ اور بالاج نہیں آیا تم دونوں کے ساتھ ؟" داجی کے سوال پر مقدم نے مڑ کے سر جھکائے کھڑی منت کو دیکھا داجی نے مقدم کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔ " آپ بیٹھیں راجی ہم آپ کو سب بتاتے ہیں۔ " پھر داجی کے بیٹھنے پر مقدم نے ساری کہانی انھیں بتا دی۔ واجی نے افسوس سے منت کو دیکھا اور ارمغان سے اس کا یہاں ایڈمیشن کا کہا جو کے کچھ ہی دیر میں ہو گیا۔ " منت بیٹا۔۔۔۔" واجی کے پکارنے پر اس نے سر اٹھا کہ خاموش نگاہوں سے انھیں دیکھا تو اس کی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر سب کا دل ہول گیا۔ آپ فکر نہ کرو میں آپ کے دادا کی طرح ہوں۔ آپ کو یہاں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔" اس نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا اتنے میں ایک لڑکی آفس میں داخل ہوئی اسے ارمغان نے بھیجا تھا۔ شبرا ان سے ملوان کا نام منت ہے آج سے یہ یہیں رہے گی تو انہیں اپنے ساتھ والا کمرہ دکھا دو۔" داجی نے اسے منت کو ایک کمرہ دکھانے کا کہا۔۔۔۔ وہ آگے بڑھی اور منت کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن منت ڈر کے مارے پیچھے ہوئی تو مقدم کھڑ ا ہوا۔ آپ رہنے دیں میں انہیں چھوڑ آتا ہوں کمرے تک آپ مجھے بتادیں روم کہاں ہے۔" مقدم نے اس لڑکی سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ منت چپ چاپ مقدم کے پیچھے پیچھے چلنے لگی اور دونوں آفس سے باہر نکل گئے داجی نے بغور یہ سب دیکھا البتہ ارمغان جو کہ ابھی واپس آیا تھا یہ سب دیکھ کے بیہوش ہونے کے قریب تھا۔ یارم بھائی .... مجھے لگتا ہے میں نے کچھ غلط دیکھ لیا ہے۔ مقدم بھائی اور وہ بھی اتنی مدد کرنے والے۔" حیران تو یارم اور داجی بھی تھے کیونکہ مقدم کچھ بے نیاز سا تھا بہت کم گو تھا لڑکیوں سے بہت دور رہتا ہر وقت چہرے پر سنجیدہ اور سپاٹ تاثرات سجائے رکھنے والا مغرور مقدم خان آج بنا کسی غصے اور سنجیدگی کے ، بہت نرمی سے اس لڑکی کی مدد کر رہا تھا۔ اس وقت سب نے ہمدردی سمجھا اور سر جھٹک دیا لیکن یارم مطمئن نہیں ہو پارہا تھا تو اس نے مقدم سے گھر پہنچ کر بات کرنے کا سوچا۔ " آپ آج سے یہاں رہے گا اور اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھ سے کانٹیکٹ کر لیجیئے گا۔" اس نے اپنی پاکٹ سے کارڈ نکالا اور منت کی جانب بڑھایا جسے اس نے تھام لیا لیکن سر نہ اٹھایا۔ مقدم نہ جانے کیوں جانے سے پہلے ایک بار اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن پھر سر جھٹکتے باہر نکل گیا۔ منت نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کمرے پر ایک نظر دوڑائی۔۔۔۔ سنگل بیڈ جس کے دائیں جانب کھڑ کی تھی اور بائیں جانب واش روم ، بیڈ کے سامنے ہی شیشہ تھا اور اس کے ساتھ الماری ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ابھی وہ کمرہ ہی دیکھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اس نے دروازہ کھولا تو باہر وہی لڑکی تھی۔ منت یہ آپ کے کپڑے ہیں آپ چینج کر لیں صبح تک آپ کے لیے مزید کپڑوں کا انتظام ہو جائے گا۔ شہر انے کپڑے تھمائے اور مسکراتے ہوئے چلی گئی۔ منت نے دروازہ بند کیا اور ایک نظر خود پہ ڈالی بیڈ کے سامنے دیوار پہ شیشہ تھا۔ وہ ابھی تک خود کو مقدم کی اجرک میں چھپائے کھڑی تھی اور اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہی تھی پھر اجرک اتار کر بیڈ پہ رکھی اور فریش ہونے چلی گئی۔ مقدم کمرے سے باہر آیا اور آفس کی طرف چل دیا جہاں یارم اور داجی تھے۔ مقدم اب گھر چلیں بالاج کب سے انتظار کر رہا ہے ۔ " یارم نے اسے آفس میں داخل ہوتے دیکھ کہا۔ ہوں۔۔۔۔" مقدم نے بس اتنا جواب دیا۔ واجی سے مل کے وہ دونوں وہاں سے نکلے لیکن اچانک آفس سے باہر جاتے ہوئے مقدم رکا اور مڑا۔ " واجی پلیز خیال رکھئے گا ان کا ۔ " غیر ارادی طور پہ ہی اس نے یہ الفاظ کہے تھے لیکن جب سب کی ہو نک زدہ نظریں خود پہ محسوس کیں تو جھینپ گیا اور باہر چلا گیا۔ وہ خود بھی اپنے لفظوں پر حیران ہو گیا تھا لیکن پھر سر جھٹک گیا۔ منت واشروم سے باہر آئی تو میلا چہرہ اب صاف ہو گیا تھا کپڑے تبدیل کرنے کی وجہ سے حالت قدرے بہتر لگ رہی تھی کھلے بال کمر پہ بکھرے تھے البتہ بینڈ یج ویسے ہی سر پہ موجود تھی اور چہرے پر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ وضوء کر کے آئی تھی۔ اس نے بیڈ پر پڑی اس شخص کی اجرک کو دیکھا پھر اسے تہہ کر کے الماری کھولی وہ خالی تھی تو اس نے اجرک الماری میں رکھی اور جائے نماز تلاش کرنے لگی۔ الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں اسے جائے نماز رکھ گیا اس نے پکڑنا چاہا لیکن ہاتھ پہ موجود پٹی اور چوٹوں سے اٹھتی تھی میں برداشت کے قابل نہ تھی اس نے اپنی ٹھیسوں کو اگنور کیا اور جائے نماز تھام لیا پھر وہ فجر کی نماز ادا کرنے لگی۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ یارم گا ہے لگا ہے گردن موڑ کے مقدم پہ نظر ڈالتا پر وہ صدا کا بے نیاز گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔ کچھ کہنا چاہتے ہو ؟" مقدم اس کی بار بار خود پر اٹھتی نظروں کی وجہ سے بیزاری سے بولا۔ تم جانتے ہو نہ کہ ہم کسی کو بھی اجرک نہیں دے سکتے وہ مرد کے بعد بس اس کی بیوی کا حق ہوتی ہے۔" یارم نے تنبیہہ نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ کم اون یارم .... مجھے ایسا کچھ نہیں لگتا اور وہ جس حالت میں تھی اسے محفوظ کرنے کا اس سے زیادہ بہتر طریقہ اس وقت مجھے کوئی اور نہیں لگا تھا۔ " یارم اس کی اس قدر بے نیازی پر اسے دیکھ کر رہ گیا البتہ مقدم کہ دماغ میں منظر لہرایا۔۔۔۔ وہ اس کی اجرک خود پہ لیٹے اس میں چھپی ڈری سہمی سی لڑکی اور اس کی ویران آنکھیں۔۔۔۔ مقدم نے جلدی سے اپنا سر جھٹکا اب اسے اس لڑکی کے بارے میں جانتا تھا اس لیے اسے اب گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی خان ولا کہ پورچ میں رکی۔ مقدم نے گاڑی لاک کی اور اندر چل دیا۔ " کہا تھے تم دونوں ؟.... میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔" بالاج جو کب سے انہیں کال ٹرائے کر رہا تھا دونوں کے فون نہ اٹھانے اور اس قدر دیر سے واپس آنے سیدھا چلتا ابھی وہ دونوں کوئی جواب دیتے کہ دبیر کا سلام سنائی دیا سب نے بیک وقت جواب دیا۔ دبیر سے لاؤنج میں مقدم کہ سامنے آیا اور اسے ایک فائل تھمادی پر جھنجھلا کر بولا۔ اسلام و علیکم! "اگر تم نے اس بارے میں کسی کو بھی بتایا تو تمہاری خیر نہیں ہے دبیر " مقدم نے فائل تھامی اور کھڑا ہو کر دبیر کو گلے لگاتے سر گوشی نما آواز میں اس کی سماعتوں میں صور پھونکا۔ دبیر پیچھے ہوا اور اسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا یارم اور بالاج کھو جتی نگاہوں سے اُنھیں دیکھ رہے تھے۔ خیر جو بھی ہے آواب آپ سب ناشتہ کرو اور بتاؤ رات بھر کہاں تھے ؟" بالاج نے کہا!! مجھے بھوک نہیں ہے آپ لوگ کر لو۔" مقدم نے کہا اور خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ یارم اور بالاج نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر دبیر کو لیئے ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئے۔ مقدم جیسے ہی کمرے میں آیا فائل کو بستر پہ رکھتے وارڈ روب سے کپڑے نکالنے لگا۔ آرام دہ لباس لے کر واش روم کی سمت چل دیا۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ باہر آیا تو بھورے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے اور ان پر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یقینا وہ شاور لے کر آیا تھا۔ اس نے اپنے بال پیچھے کو سیٹ کیے اور بستر پہ آیا۔۔۔۔ فائل ہاتھوں میں تھام کے کھولی، فائل میں اس لڑکی کی ایک تصویر تھی جس کے ساتھ ہی نام لکھا تھا۔ " منت خان" "ماضی" اسلم صاحب کے چھ بچے تھے۔۔۔۔ مدیحہ ، عثمان، اریب، نگین، یشم اور داؤد۔ ان سب میں سے اریب، یشم اور داؤد کی شادی نہیں ہوئی تھی جبکہ مدیحہ ، عثمان اور نگین شادی شدہ تھے۔ مدیحہ اور نگین صاحب اولاد تھیں لیکن ان کے بیٹے عثمان کہ ہاں اولاد جیسی نعمت نہیں تھی۔ عثمان صاحب اور نجمہ بیگم اپنی اس محرومی پہ بہت روتے تھے۔۔۔۔ پھر ایک دن، شام کے تقریباً ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا جب خبر ملی کہ نگین بیگم کے گھر چوتھے بچے نے جنم لیا ہے ۔۔۔۔ عثمان صاحب کی چھوٹی بہن کے گھر چو تھی اولاد ہوئی تھی، ایک بیٹی، جس کا نام انہوں نے "منت " رکھا تھا۔۔۔۔ منت سے پہلے ان کے تین بچے تھے۔ ایزل یا سر لاریب اور اب منت۔ منت کو پیدا ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا جب نگین بیگم کے بھائی اریب کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ابو ، نگین کو بولیں اپنی بیٹی مجھے دے دے۔" نجمہ بیگم نے ایک دن اچانک روتے ہوئے کہا تو اسلم صاحب دکھ سے رونے لگے۔ بیٹا... اللہ تمھیں بھی صاحب اولاد کرے گا تم اللہ سے مانگو۔" انہوں نے نجمہ بیگم کو تسلی دی انھیں صبر کرنے کی تلقین کی اور شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اریب صاحب کی برات سے پہلے چند رسمیں تھیں جن کے لیے زین صاحب ( نگین بیگم کے شوہر ) وہاں موجود تھے انہوں نے نجمہ بیگم اور اپنے سر کو روتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ عثمان صاحب شادی کی تیاریوں کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو اپنی بیوی کے آنسو دیکھ وجہ پوچھی ، وجہ جاننے کے بعد خاموش ہو گئے ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے انھوں نے چہرہ جھکایا اور وہاں۔۔۔۔۔ دوسری قسط پڑھیں 2 |