![]() |
خبیث جن |
خبیث جن 💀
حقیقت پر مبنی ایک سچی کتھاء🖤
از قلم۔۔۔ ایس اے فرام سمندری
پارٹ #1🍂
دسمبر 2024 کی یہ ایک ٹھٹھرتی ہوئی سرد رات تھی۔رات کا دوسرا پہر پورے جوبن میں تھا۔ برستی ہوئی کہر آلود ٹھنڈ ہر جاندار کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی۔ شہر کی حدود سے بہت دور کہیں ویرانے میں ایک سیاہ ہیولہ سا بھٹکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ گہرے سیاہ اندھیرے میں وه ہیولا صاف دکھائی نہ دیتا تھا۔ ۔وه جگہ بلکل سنسان و بيابان سی تھی۔ شہر کی حدود سے بہت دور۔۔۔۔ جہاں دور دور تک ویران دشت میلوں پھیلا ہوا تھا۔ وه بونگی جگہ قدرے خوفناک سی تھی دن کے وقت بھی شاید ہی کوئی بھولا بھٹکا مسافر وہاں گیا ہوگا ورنہ آج تک وہاں کوئی آوارہ کتا بھی دکھائی نہ دیا تھا۔ لیکن وه ہیولہ سا !!!! بلکل انسان کی مانند تھا۔ وه بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ایک طرف چلتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ وہاں کوئی راستہ تو نہ تھا مگر پھر بھی وه اندازے کے ساتھ اپنی درست سمت کی اور رواں تھا۔ وه بلکل اکیلا ہی تھا۔
اندھیرے کی کالی چادر میں چھپی ہوئی وه پراسرار سی متحرک پرچھائی دیکھ کر گویا رگوں میں لہو منجمد ہونے کو تھا۔ اس کے چلنے کی کوئی آہٹ تک نہ ابھری تھی۔ وه بس خاموشی اختیار کیے ہوئے چلتا جا رہا تھا۔ اس کا رخ شہر کی طرف تھا۔ اسکا بڑھتا ہوا ہر قدم اسے ویرانے سے باہر لے جا رہا تھا۔ہر طرف اک ہولناک سکوت اور گہری چپ کا سماں تھا ہاں البتہ کبھی كبهار جب دور کہیں کوئی گیدڑ ٹھنڈ سے چیختا تو ماحول میں ایک بھیانک سی سرسراہٹ گونج کر رہ جاتی اور دل اچھل کر حلق میں آن لٹکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی ایک وحشتناک جھرجھری سی پورے وجود میں جنبش کر جاتی۔
چاند کے بھی آخری ایام چل رہے تھے۔ ۔ یہی وجہ تھی کہ چاند دور کہیں گویا طلوع ہو رہا تھا۔ شدید ٹھنڈ اور برستی ہوئی نم آلود دهند کا یہ عالم ہر ذی روح کو چپ کا تالا لگائے ہوئے تھا۔ کالا سیاہ اندھیرا ہر چیز کو ہڑپ کر جانے کو تھا۔دھند اور اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ چاند اوپر آسمان پر بھی ہوتا تو ان حالات میں کچھ دکھائی نہ دے سکتا تھا۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے ٹھکانے میں کہیں دبكی ہوئی بیٹھی تھی۔ ہر بشر اپنے آشیانے میں میٹھی نیند میں کہیں مدہوش پڑا تھا اور وه سیاہ ہیولا۔۔۔۔ سرد رات کی منحوس تاریکی میں اکیلا ہی لڑکھڑا رہا تھا۔اسے کوئی ڈر نہ تھا کوئی خوف نہ تھا۔۔وه کافی دیر چلتا رہا اور پھر اندھیرے کی کالی آغوش میں کہیں روپوش سا ہو گیا۔۔ ویرانہ اور بھی ویران سا لگنے لگا تھا۔ ہر طرف اندھیروں کے دہشتناک عفریت اپنا بھیانک منہ کھولے ہوئے رینگنے لگے تھے۔ تاریک سیاہی کی اندھوناک پرچھائیاں دور دور تک محو رقص محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔
وقت کسی چور کی طرح دبے پاؤں گزرتا جا رہا تھا۔ چاند نکل کر اپنی مخصوص رفتار میں اب آسمان کی بلند چوٹی کی طرف گامزن تھا۔ کہر آلود سرد رات اب ہلکی سفید چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ ماحول بلکل برف کی مانند ساکت تھا۔ دور دور تک خاموشی بھنبھنا رہی تھی۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے صدیوں سے کوئی آہٹ کوئی سرسراہٹ نہ گونجی ہو۔
شہر کی ایک اندھیری گلی میں اچانک ایک آہٹ سی ابھری اور وہاں بیٹھا ہوا ایک آوارہ کتا چونک اٹھا۔ وہاں چھائے ہوئے کالے دھویں میں وه کتا ایک طرف بغور دیکھنے لگا اور کسی کی موجودگی بھانپ کر بھونک اٹھا۔اسکی پھٹی ہوئی بھاری غراہٹ پوری گلی میں گونجنے لگی تھی۔ گلی میں وہی سیاہ ہیولا چلتا ہوا ایک طرف بڑھ رہا تھا۔وه کتا اسی ہیولے کے سامنے کی جانب کھڑا تھا۔وه کتا ڈرا ہوا اسے اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر پورے عتاب میں غرا رہا تھا لیکن اس ہیولے کو کوئی پرواہ نہ تھی۔اس کے قدم ابھی بھی تیز رفتاری سے اٹھ رہے تھے۔
چل چپ کر۔ ۔۔۔۔ ۔ !!! اچانک ایک مدھم سی آواز نے سر اٹھایا اور پھر وه کتا فوراً اپنا دم سادھ گیا۔یہ آواز انسان ہی کی تھی۔مردانہ آواز سے وه ہیولا واقعی کوئی نوجوان لڑکا محسوس ہوتا تھا۔کتا اس ہیولے کو پہچان چکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وه کتا اب اپنی دم لہراتا ہوا اسکے آگے پیچھے گھومنے لگا تھا۔ کتے کے منہ سے اب اپنايت بھری ہوک نما ایک نرم سی غراہٹ نمودار ہونے لگی تھی۔ کچھ ہی لمحوں بعد وه ہیولا نما شخص گلی کے سنسان اندھیرے میں روپوش ہو کر ایک گھر میں داخل ہو گیا تھا۔ گھر کا دروازہ شاید پہلے ہی سے کھلا ہوا تھا۔اسی وجہ سے وہاں کوئی شور نہ سنائی دیا تھا۔ مگر دروازہ بند کرنے کی مدھم سی گھڑگھڑاہٹ نے گہری تشویشناک خاموشی کو چاک چاک کر دیا تھا۔ یہ لمحہ دل دہلا دینے والا تھا۔ اب ایک بار پھر سے گہری چپ کا راج چھا چکا تھا۔ ہر سو ویران رات برس رہی تھی۔ وقت اپنی مست چال سے محو رواں رہا اور آخر صبح کے ٹھنڈے اجالے نمودار ہونے لگے ۔۔۔۔ ‼
قدرت کا نظام آج رنگ لایا تھا۔ سورج طلوع ہو کر آسمان پر پوری آب و تاب سے جل رہا تھا۔ یہ قدرے راحت بخش نظارہ تھا۔ ورنہ جس قدر ٹھنڈ پڑ رہی تھی سورج سارا سارا دن بادلوں میں کہیں چھپا رہتا تھا۔ آج دھوپ نکلنے پر ایک عجب سی مسرت گویا کھل اٹھی تھی۔ لوگ اپنے اپنے مشغلے میں مصروف عمل دکھائی دے رہے تھے۔ شہر کے شور شرابے سے دور ایک کھیت کے کنارے کوئی بیٹھا ہوا دھوپ سیک رہا تھا۔ وه سر جھکائے ہوئے بلکل خاموش سا دکھائی دے رہا تھا۔ وه وہاں اکیلا ہی تھا۔ اس کے اس انداز خموشاں سے واضح محسوس ہو رہا تھا جیسے وه کسی گہری سوچ میں کہیں گم ہو۔اسے آس پاس کی کچھ خبر نہ تھی۔ اسے یہ بھی خبر نہ ہو پائی تھی کہ اس کے پاس کوئی شخص آن کھڑا ہوا ہے۔
سلام جناب !!! میں نے نرم لہجہ سے سلام کیا۔
وعلیکم السلام۔۔۔ارے تم یہاں کب آئے۔۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔جوزف نے چونکتے ہوئے جواباً کہا اور اٹھ کر مجھسے سے ہاتھ ملانے لگا۔
بس ابھی آیا ہوں۔۔۔ گھر سے پتہ کیا تو تم لاپتہ تھے اس لئے تمہیں ڈھونڈتا ہوا بس ادھر نکل آیا۔ میں خفیف سا مسکراتے ہوئے بولا۔
اوہ شکریہ جناب۔۔۔ آؤ پھر واپس چلتے ہیں۔اچھا ہوا تم آ گئے ۔ایک ضروری بات کرنی ہے۔جوزف نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ہم دونوں واپس شہر کی سمت جانے والے راستہ کی طرف بڑھ گئے۔
کیا بات ہے !!! سب ٹھیک تو ہے نہ۔تم کچھ افسردہ سے دکھائی دے رہے ہو آج۔۔میں نے اسے گھورتے ہوئے استفسار کیا۔وه واقعی سنجیدہ سا دکھائی دے رہا تھا جبکہ وه ہمیشہ خوش مزاج شخص رہا تھا۔
ہاں یار۔۔بات ہی کچھ ایسی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی بات کیسے کروں۔جوزف نے اضطرابی لہجے میں کہا اور پھر گویا ہوا۔تم آؤ میرے ساتھ۔گھر چل کر بات کرتے ہیں۔
اور پھر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کی طرف بڑھنے لگے۔ ہم پیدل ہی چل رہے تھے۔
ہم دونوں ایک طویل عرصے سےگہرے دوست تھے۔اور شہر کی ایک ہی گلی میں ہمسایہ بھی تھے۔ جوزف دھوپ سیکنے کی غرض سے شہر سے باہر کھیت میں آن بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جوزف کہاں ملے گا۔یہی وجہ تھی کہ میں اسکی تلاش میں ان کھیتوں میں پہنچ گیا۔ ہم دونوں جوانی کی عمر کے دوسرے پڑاؤ میں قریبی همسفر تھے۔ خوبرو اور جوان۔۔۔! بے باک اور نڈر ❗
سورج سر پر تھا۔ نیم گرم دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم دونوں میانہ روی سے رواں تھے۔اور پھر ہم کافی دیر چلنے کے بعد شہر میں داخل ہو گئے۔یہ مین بازار تھا جہاں خرید و فروخت کی ہر انواع کی دکانیں موجود تھیں۔یہاں کافی رش تھا۔ لوگوں کی رنگ برنگی بھیڑ میں دائیں بائیں ہوتے ہوئے اب ہم اپنی گلی میں جا پہنچے تھے۔گلی میں بازار نہیں لگتا تھا اس وجہ سے یہاں کوئی رش نہ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد میں اب جوزف کے گھر موجود تھا ۔یہ جوزف کا کمرہ تھا جہاں میں اور جوزف چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ہاں اب بتاؤ ! کیا ماجرا ہے !؟ میں نے جوزف کو سوالیہ نگاہ سے ٹٹولتے ہوئے دريافت کیا۔میری آواز سن کر وه میرے اور بھی قریب ہو گیا اور کسی رازدارنہ انداز میں مجھسے سرگوشی کرنے لگا۔یار ایک کام نکل آیا ہے۔ میرے ماموں زاد کی بیوی کی کوئی سہیلی ہے۔ اس کو کچھ مسلہ ہے۔تم خود بات کر کے دیکھو۔ میں نہیں بتا سکتا۔جوزف نے مجھے تشویشناک لہجے میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
هممم۔۔۔۔ کرو کال اس کزن کو۔یہ وہی ماموں زاد کزن ہے نہ جو فیصل آباد علی پور بنگلا میں رہتا ہے۔میں نے استفسار کیا۔
ہاں بلکل یہ وہی کزن ہے۔وه مجھے کافی دنوں سے یہ مسلہ بتا رہا ہے۔ اور کزن کو آگے سے وه لوگ بار بار اس مسلے کی بابت مدد پوچھتے ہیں۔حالانکہ وه لوگ اپنی بیٹی کو ادھر ادھر لے کر بھی گئے ہیں لیکن کہیں سے افاقہ نہیں ہوا۔
کزن تم سے بات کرنے کی ضد کرتا ہے جبکہ میں اسے کئی بار بتا چکا ہوں کہ ایس اے علی اپنے کسی کام میں مصروف ہے۔جوزف نے سپاٹ لہجے میں کہا اور مجھے بغور دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا۔
میں بذات خود اپنی کسی سوچ میں ڈوبا ہوا بلکل خاموش تھا۔کیا تم ابھی تک اپنے کام میں مصروف ہو ؟ جوزف کی سرگوشی اس بار میرے کانوں میں سرسرائی اور میں اسکی طرف متوجہ ہونے لگا۔
ہاں گزشتہ رات میرے عمل کی آخری رات تھی۔یہ کافی کٹھن حالات رہے ہیں۔خیر۔۔۔۔۔ اب تو فری ہوں۔میں نے مختصراً جواب دیا۔جوزف اپنے کزن کو کال کر رہا تھا تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی۔حال احوال جاننے کے بعد فون اب میرے ہاتھ میں تھا۔ اور پھر کزن نے اس لڑکی کی پریشانی میرے گوش گزار دی۔ میں خاموشی کے ساتھ ساری بات سنتا رہا۔ میں سارا معماملہ سمجھ گیا تھا۔ کزن نے جو کچھ بتایا وه بلکل ادھورا تھا۔اور اسے مزید پتہ بھی کیسے ہوتا۔اسے صرف اتنا ہی معلوم تھا جتنا اسکی بیوی نے سنا تھا۔ ۔ حقیقت کیا ہے!!! یہ تو وہی لڑکی بتا سکتی تھی جسے مسلہ درپیش تھا۔ کال بند کر دی گئی تھی۔ میں جوزف کے کزن کو بتا چکا تھا کہ یہ جناتی مسلہ ہے۔ مریض کوئی بھی ہو۔اسکا میرے پاس موجود ہونا ضروری شرط ہے۔ تا کہ حالات کی نذاکت تفصیلاً سامنے لائی جا سکے۔میں بے ساختہ اپنے ذہن انتشار میں کہیں کھو سا گیا تھا۔معاملہ میرے ذہن میں گویا اچھل کود کر رہا تھا۔
تو مسلہ کافی گھمبیر لگتا ہے۔جوزف نے سوالیہ انداز میں کہا اور میری طرف دیکھنے لگا۔اس کے ماتھے پر سلوٹیں بن کر تھم سی گئیں اور بھنویں سکڑ سی گئی تھیں۔اس کی خاموش آنکھوں میں سوالات کی کشتی ڈولتی ہوئی واضح دکھائی دے رہی تھی۔
ہاں کچھ زیادہ ہی گھمبیر اور پیچیده مسلہ ہے۔میں نے خفیف لہجہ میں جواب دیا۔لیکن وه لڑکی یا اسکے گھر کا کوئی فرد فاصلہ دور ہونے کی وجہ سے یہاں نہیں آ سکتا۔اس لئے وه مجھے وہاں بلانا چاہتے ہیں۔میں نے مزید بتاتے ہوئے کہا اور جوزف ہاں میں سر ہلاتے ہوئے میری بات سمجھتا گیا۔
تو پھر کب کی تیاری ہے وہاں جانے کی۔۔جوزف نے سوال کیا اور کھسک کر میرے اور بھی قریب ہو گیا۔
کزن کا تمہیں ابھی میسج آ جائے گا۔وه لڑکی ان حالات سے جلد از جلد سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔میں نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ ہم دونوں صوفے پر ایک ساتھ ہی تو براجمان تھے پھر بھی جوزف ایسے جناتی مسائل کی گفتگو میں کافی غور طلب ذہن رکھتا تھا۔وه اکثر ایسی باتوں میں مکمل طور پر میرے قریب ہو کر بیٹھ جایا کرتا جیسے وه میرے ایک اک لفظ کے تجسسی حصار میں خود کو گویا قید کر دیا کرتا تھا۔
اچھا۔۔۔!!! جوزف نے خوش آئند ہو کر کہا اور فوراً اپنے موبائل فون کو دیکھنے لگا۔ میسج آیا ہوا تھا۔اس لڑکی نے انھیں فیصل آباد اپنے گھر بلایا تھا۔ ۔ کزن نے میسج کر کے اطلای کر دی تھی اور پھر میرے کہنے پر کزن کو جوابی میسج کر دیا گیا تھا۔ میں اور جوزف آج شام ہی اس لڑکی کے کزن کے پاس جانے کو تیار تھے۔ اور پھر وہاں سے کچھ دور ہی اس لڑکی کا گھر تھا۔
میں جوزف کے پاس کافی دیر تک بیٹھا رہا۔دوپہر کا کھانا بھی وہی ایک ساتھ ہی کھایا اور پھر میں اپنے گھر چل دیا۔میں آج شام علی پور بنگلا فیصل آباد جا رہا ہوں۔ میں اپنے گھر میں ساری بات بتا چکا تھا۔گھر میں کوئی زیادہ افراد تو تھے نہیں اور نہ ہی میری شادی ہوئی تھی جو اپنی بیوی کے سوالات کی پہیلیاں بھجانا پڑتیں۔سبھی کو معلوم تھا کہ میرا شعبہ ہی ایسا ہے۔اور بس یہی میرا شوق تھا۔
آسمان پر چمکتا ہوا سنہری گول تھال بھی اب گلابی ہو کر گویا تھک سا گیا تھا۔ اسکی شدید تمازت میں قدرے کمی آ چکی تھی۔مغرب کی آغوش میں ڈھلتا ہوا سورج دیکھتے ہی دیکھتے آخر مکمل کہیں چھپ سا گیا تھا۔ شام کے مدھم سائے اپنے پر پھیلا کر کالے دھویں چھوڑنے لگے تھے۔ تاریکی چہار سو پھیل رہی تھی۔ اندھیرا اور بھی گہرا سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ٹھنڈ کے بے داد عفریت سردی بن کر رینگنے لگے تھے۔ماحول ویران ہوتا جا رہا تھا۔
پکی سڑک پر تیز رفتار بس اندھیروں کو چیرتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ بس فیصل آباد شہر کی رنگین رونقوں سے نکل کر علی پور بنگلہ کی طرف رواں تھی۔ سڑک کے ارد گرد دور دور تک گہرا اندھیرا شدید ٹھنڈ سے گویا جکڑ سا گیا تھا۔ بس کے سیٹ والے سائیڈ شیشوں سے باہر کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔میری نظر باہر اندھیروں میں گھوم رہی تھی جبکہ جوزف میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اس نے آگے والی سیٹ کی بیک سائیڈ پر اپنا سر ٹکا رکھا تھا۔ ہم شام ہوتے ہی اپنے شہر سے بس میں سوار ہو گئے تھے ۔بس کی تیز رفتاری ہمیں جلد ہی ہماری منزل پر پہنچا دینے والی تھی۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کنڈیکٹر کی آواز نے ہمیں چوکنا کردیا تھا۔وه علی پور بنگلہ کی سواریوں کو مخاطب کرتے ہوئے آوازیں دے رہا تھا۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور کھسکتے ہوۓ بس کے خارجی دروازے کے پاس جا رکے۔
ایک دو منٹ بعد ہمارا اسٹاپ آ گیا اور ہم دونوں بس سے نیچے اتر گئے۔
بس ہمیں وہاں اکیلا چھوڑ کر آگے کی اور بڑھ چکی تھی۔ اسے اور بھی آگے کا سفر مقصود تھا۔ اسٹاپ پر صرف ہم دو ہی رہ گئے تھے۔یہ ایک چھوٹا سا بس اسٹاپ تھا۔ وہاں کوئی اور موجود نہ تھا۔ ہر طرف گھنا اندھیرا اور گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ شدید سردی مدھم سی گرتی ہوئی دھند کے ساتھ مل کر ہمیں ٹھار رہی تھی۔ ہمیں وہاں لینے والا کوئی موجود نہ تھا۔ ابھی تو وقت بھی کچھ زیادہ نہ ہوا تھا۔جوزف نے موبائل پر وقت دیکھا تھا۔ رات کے 9 بج چکے تھے۔ ہم نے ارد گرد کا سرسری طور پر جائزہ لیا۔اور پھر ہم نے خود کو وہاں بلکل لاچار اور تنہا پایا۔ہم خالی ہاتھ ہی تھے۔ جوزف موبائل ٹارچ کا سہارا لئے ہوۓ ایک طرف چل پڑا۔اور میں بھی اس کے تعاقب میں رہا۔ وه پہلے بھی یہاں کئی بار آ چکا تھا۔جبکہ یہ میرا پہلا موقع تھا۔
دس پندرہ منٹ کی پیدل مسافت سے ہم ایک گاؤں میں داخل ہو چکے تھے۔ گاؤں کے بازاروں میں کہیں کہیں جلتا ہوا بلب روشن ہو کر اس بات کی دلیل دے رہا تھا کہ ہاں۔۔۔۔ یہاں ابن آدم مکین ہیں۔ مگر رات کے اس پہر ہمیں کسی قسم کی کوئی آواز تک نہ سنائی دی تھی۔ ہم مختلف بازاروں میں مٹر گشت کرتے ہوئے اب ایک مکان کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے۔ جوزف نے نمبر ملا کر موبائل کی آواز اوپن کر دی تھی بیل جا رہی تھی لیکن آگے سے کوئی اٹھا نہ رہا تھا۔ وہ راستے میں آتے وقت فون کرتا رہا تھا۔ مگر شاید آگے والا بندہ سویا ہوا تھا ۔کسی نے بھی فون نہ اٹھایا تھا۔
جوزف آگے بڑھا اور لوہے کا گیٹ پیٹ ڈالا۔آہنی شور دور دور تک فضاؤں میں گونج کر رہ گیا۔ گاؤں کی کسی نکر میں چھپا بیٹھا ہوا آوارہ کتا بھی اس شور کو سن کر آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ کتا متواتر بھونک رہا تھا۔ کتے کی پھٹی ہوئی چیخ و پکار سن کر ادھر ادھر چھپے بیٹھے ہوئے کتے بھی اب تڑپ اٹھے تھے۔ گاؤں میں شور سا مچ گیا تھا۔۔ہم اسی مکان کے پاس کھڑے تھے۔۔۔جہاں جوزف نے اپنے بھاری ہاتھ سے دستك دی تھی۔ تھوڑے ہی توقف کے بعد دروازہ کھل گیا تھا۔ اور پھر ہم بھی اندر داخل ہو چکے تھے۔وه جوزف کے کزن کا گھر تھا۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد جوزف اب میرے پاس بیٹھک میں موجود تھا۔ وہاں ہم دونوں ہی تھے۔تھوڑی دیر جاگنے کے بعد ہم اپنے بستروں میں لیٹ گئے اور عالم مدہوشی میں سو گئے۔
باہر گہری سفید دھند میں شدید ٹھنڈ تن تنہا آوارگی کرتی رہی۔ عالم سکوت کا آنچل تھامنے والا کوئی بھی ذی روح موجود نہ تھا۔ویران دشت کی طرح رات کا ہر پہر بڑا بيابان سا تھا۔ رات اپنا کالا سیاہ پلو اوڑھے ہوئے دبے پاؤں محو رقص رہی اور آخر صبح فجر کا تڑکا اپنی آنکھ کھولنے لگا۔
چلو یار اب اٹھ بھی جاؤ۔۔۔ کب سے آوازیں دے رہا ہوں میں ۔۔۔!!! جوزف نے اپنا ہاتھ میرے سر پر گویا جنبش کرتے ہوئے کہا اور میری آنکھ کھل گئی۔وه میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے جاگتے ہوئے دیکھ کر وه بول اٹھا۔۔ دن کے گیارہ بج چکے ہیں جناب ! باہر سورج سر پر آ گیا ہے اور زبردست دھوپ نکلی ہوئی ہے۔۔اب چلو اٹھو۔۔۔ ❗
اٹھ گیا ہوں یار۔۔۔ ساری نیند کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا تم نے۔ میں اٹھ جانے پر اسے ملامت کرنے لگا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ ہم اس کے ماموں کے گھر کسی کام کے سلسلے میں آئے ہیں۔مگر جوزف بے خبر تھا کہ میں کتنی راتوں کے بعد آج کی رات آزادی سے سویا تھا۔وه نہیں جانتا تھا کہ میں نے گزشتہ کئی راتیں گھر سے باہر سرد اور اجڑے ویران میں جاگتے ہوئے گزاری ہیں۔ میں بدمزہ سا منہ بناتے ہوئے آخر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور ہاتھ منہ دھونے چل پڑا۔
یہ دوپہر کا دوسرا پہر چل رہا تھا۔جوزف اور وه کزن مجھے ایک انجان سے راستے پر لئے جا رہے تھے۔ ہم تینوں بائیک پر سوار تھے۔ کزن بائیک سنبھالے ہوئے تھا۔ وه ایک کچا اور بل کھاتا ہوا راستہ تھا۔ ارد گرد لمبی لمبی جنگلی گھاس بوٹی اور اكوا کی بہتات تھی۔ دور دور تک پہاڑی کیکروں کے چھوٹے بڑے درخت ہر طرف پھیلے ہوۓ تھے۔ گویا وه کوئی جنگلی قسم کا علاقہ تھا۔ ایک عجیب سی دہشت بڑی خاموشی سے ہمارے تعاقب میں تھی۔ وه جگہ واقعی بہت خوفناک سی تھی۔ ہم کافی دیر سے اس گردآلود راستے پر دوڑ رہے تھے۔ ابھی تک ہمیں کوئی اور راہ گیر شخص دکھائی نہ دیا تھا۔ میں ایسے علاقوں کا ہی تو شائق تھا۔میں اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ لیکن میں جوزف کے چہرے پر افسردگی کی لہر دوڑتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ شاید وه تھوڑا گھبرایا ہوا تھا۔
بائیک پر کوئی آدھے پونے گھنٹے کا یہ سفر کافی تھکا دینے والا رہا تھا۔ ہمارا وه سفر کھیتوں کے بیچ ایک ایسے مکان پر جا کر ختم ہوا جہاں دور دور تک کوئی اور مکان وغیرہ دکھائی نہ دے رہا تھا۔وه ایک بڑا اور کچا سا مگر قدرے خوبصورت مکان تھا۔ ہر دیوار مٹی سے لیپ کی گئی تھی۔ بائیک سے اتر کر وه کزن اس گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا اور ہم دونوں ارد گرد کے اطراف میں دیکھنے لگے۔ ہر طرف کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے۔ فصلیں کم تھی اور ویرانیت بہت زیادہ۔۔گویا وه کوئی وسیع و عریض دشتی زمین تھی۔ چاروں اطراف اونچے درمیانے پیڑ اپنے پتوں سے عاری تھے ۔شاید یہ پت جھڑ کا موسم تھا۔ یا پھر سخت سردی کی وجہ سے ہر شاخ اپنے پتوں کو کھو چکی تھی۔ بہت عجیب مگر دلنشین مناظر تھے۔ دن کو دھوپ اور شام ڈھلتے ہی ٹھنڈ پڑنے لگتی تھی۔ نیم گرم دھوپ کے اس عالم میں وہاں کا ہر منظر قابل دید تھا لاجواب بے مثال تھا۔ جوزف کے خیالات مجھے نہیں پتہ تھے لیکن میری روح کو وه علاقہ بڑا جاذب نظر لگا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ عمر بھر کے لئے یہی ٹھہر جاؤں ۔۔۔ !
اندر آ جاؤ۔۔۔۔ ! کزن کی آواز سے ہم اپنے خیالوں سے باہر نکل آئے اور پھر مہذب انداز میں چلتے ہوئے داخلی دروازے سے گزرتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے۔اندر کا ماحول بہت دلکش تھا۔لیکن ایک موٹے رسے سے بندھے ہوئے خونخوار کتے کی ڈراؤنی آواز سے ہم بوکھلا گئے تھے۔وه کافی بڑا اور پلا ہوا لڑاکو کتا تھا۔ صد شکر وه بندها ہوا تھا ورنہ۔۔۔۔۔صحن کافی کھلا اور بلکل شفاف تھا۔ ایک طرف اگا ہوا دیسی کیکر کا لمبا چوڑا درخت پوری شان سے کھڑا تھا۔ دیوار پر ٹہلتی پھرتی ہوئی مرغیاں ہمیں اچانک وہاں دیکھ کر گویا چونک اٹھی تھیں۔ وه اپنی بولی میں کڑ کڑ کرتی ہوئی باہر کی اطراف میں اڑ گئی تھیں۔ ایک کونے میں رکھا ہوا کبوتروں کا بڑا سا جال یہاں کسی شوقین فرد کی نشاندہی کر رہا تھا۔
صحن کے سامنے بڑا اور لمبا سا برآمده تھا۔برآمدے سے باہر کی جانب وہی ایک کونے میں کچن سا بنایا گیا تھا۔ جہاں پر چولہے سے ابھی بھی ہلکا ہلکا سفید فام دھواں اٹھ رہا تھا۔وہاں پر بیٹھی ہوئی ایک عورت ہمیں دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور خوشی کی ایک هلكی سی تبسم کے ساتھ ہماری طرف بڑھنے لگی۔وه کوئی 55 60 برس کی لگ رہی تھی۔ ہم سر جھکا کر وہی رک گئے۔
اس عورت کے قریب آتے ہی ہم نے سلام کیا اور انہوں نے جواب دیتے ہوئے ہمارے سروں پر ہاتھ رکھا گویا سلامتی بھرا پیار دیا۔ جائیں بیٹا اندر بیٹھیں۔۔میں آتی ہوں۔ جی اچھا کہتے ہوئے ہم سامنے کی طرف بڑھ گئے۔۔۔برآمدے سے آگے کمرے بنے ہوئے تھے۔ادھر ادھر ایک ترتیب کے ساتھ رکھے ہوئے رنگین لکڑی کے مختلف فرنیچرز بہت شاندار لگ رہے تھے۔ وہاں کی ہر شے لاجواب منظر پیش کر رہی تھی۔
کچھ قدموں کی دوری کے بعد ہم کمرے میں جا بیٹھے تھے۔ وہاں کزن ایک آدمی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وه آدمی جوان اور رعب دار شخصیت کا حامل تھا۔ دعا سلام کے بعد ہم بھی وہاں صوفہ پر براجمان ہو گئے۔۔اس بار مکمل خاموشی سی چھا گئی تھی۔
دن کا اجالا باہر ابھی تک مظبوطی سے کھڑا تھا۔یہاں تک کا سفر تھوڑا طویل تھا۔ اگر ابھی سے انکے مریض کا کام کرنا شروع کر دیا تو شاید ہم شام ہونے تک کزن کے گھر پہنچ جائیں گے اور اگر کام لمبا پڑ گیا تو شام ہوتے ہی ٹھنڈ کا زور بڑھنا شروع ہو جائے گا اور بائیک پر تو ہماری برف بن جائے گی۔۔میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک میرے کانوں سے اک آواز ٹکرائی۔۔۔ بیٹا یہ لو۔چائے پیو۔یہ وہی عورت تھی جو باہر چولہے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وه قدرے خوش اسلوبی سے مخاطب ہوئی تھی۔ میں نے ٹرے سے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے شکریہ ادا کیا ۔آپ لوگ آرام سے چائے پیئں تب تک میں اپنی بیٹی حنا کو لے کر آئی۔وه ساتھ والے کمرے میں ہے۔یہ ان کے شوہر ہیں۔ وه عورت سامنے بیٹھے ہوئے اس آدمی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
جی اچھا ماں جی۔۔۔ اس بار کزن کی آواز نے ادب جھاڑا۔جبکہ میری نظر اس آدمی کو ٹٹول رہی تھی۔ وه بڑے لطف کے ساتھ چائے نوش فرما رہا تھا۔ مجھے وه شخص کچھ مردہ ضمیر سا معلوم ہو رہا تھا۔ اس کا مزاج بڑا عجیب سا تھا۔ یا پھر وه کبھی مردوں کی محفل کا عادی ہی نہ رہا تھا۔
وقت کسی گول پہیے کی طرح گھومتا رہا اور میں دل پر ہاتھ رکھے ہوئے انتظار کرنے لگا۔ہم چائے ختم کر چکے تھے۔وه سامنے بیٹھا ہوا شخص نظر چرا چرا کر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید کزن نے اسے میرے بارے میں کچھ ایسا بتا دیا تھا جو وه مجھ میں ڈھونڈنے لگا تھا۔ مجھے وه شخص پسند نہیں تھا۔ جس لڑکی کی خاطر ہم وہاں گئے تھے وه مریضہ اسکی بیوی تھی۔ اور ابھی تک اس نے مجھے کوئی بات نہیں بتائی تھی۔ حالانکہ وه کچھ تو جانتا ہی ہوگا۔۔۔ یا پھر اسکی اپنی کوئی منفرد سوچ ہوگی۔ ہم چاروں میں کوئی بات نہ ہوئی تھی۔ سبھی اپنی اپنی سوچ میں بکھرے پڑے تھے۔
اچانک کمرے میں ایک بوڑھا شخص داخل ہوا۔ وه ہاتھ میں چھوٹی سی چھڑی پکڑے ہوئے تھے۔ وه بزرگ کافی عمر رسیدہ تھے۔ ان کے پیچھے ہی وه عورت اور اسکی بیٹی بھی آ گئے۔ہم مہذب انداز میں گویا سنبھل کر بیٹھ گئے۔
وه تینوں بھی جا کر اس شخص کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئے تھے۔