 |
رازِ دل "دوسری قسط" از "کنزہ خان"
وہاں سے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ زین صاحب نے بہت خاموشی سے یہ منظر دیکھا اور فیصلہ کر لیا جس پر انہوں نے گھر جا کے عمل درآمد کرنا تھا۔
زین صاحب گھر آئے اور سیدھا اپنی امی کے کمرے میں چلے گئے۔ نگین بیگم بچوں کو ان کے ماموں کی شادی کے لیے تیار کر رہی تھیں جب زین صاحب کمرے میں آئے۔
" سب ٹھیک ہے ؟۔۔۔۔"
انھوں نے زین صاحب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ پوچھا۔
"ہاں .... سب ٹھیک ہے ۔ "
انہوں نے سکون سے جواب دیا۔ نگین بیگم نے انھیں دیکھا جو بہت خاموش سے لگ رہے تھے پھر سر جھٹک کر ان کے کپڑے نکالنے لگی۔
شادی کی تقریب زور و شور سے جاری تھی اور نگین بیگم اپنی چچا زاد سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں
جب زین صاحب ان کے پاس آئے اور منت کو ان کے ہاتھوں سے لے لیا۔
منت انھیں پکڑا کے وہ پوری طرح اپنی چازاد کی طرف متوجہ ہو گئیں لیکن اچانک جب ان کی نظر اسٹیج پر پڑی تو انھیں اپنی دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔
زین صاحب نے منت کو اپنی ماں کو تھمایا اور ان کی ماں نے منت کو نجمہ بیگم اور عثمان صاحب کے ہاتھوں میں تھما دیا۔
نگین بیگم کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا اور وہ جلدی سے اسٹیج کی طرف بڑھیں جہاں سب ہی بہت رو رہے تھے ان کے بھائی بھابھی، ان کے ابو لیکن نگین بیگم کو بس منت کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ اسٹیج کی طرف لپکیں جب اچانک زین صاحب نے انھیں تھام لیا اور بال کے پیچھے والی جگہ پہ لے آئے جہاں قدرے اندھیرا تھا۔
یہ کیا تھا ؟ .... یہ کیا کیا ہے آپ نے ؟ میری بیٹی رورہی ہے چھوڑیں مجھے۔"
انہوں نے زین صاحب کو دیکھتے ہوئے غصے سے کہا، آنکھوں سے آنسو بہنے کے لیے بیتاب تھے۔
وہ اب ہماری بیٹی نہیں ہے عثمان اور نجمہ کی ہے۔"
ایک لمحے کے لیے نگین بیگم کو لگا کہ ان کے سر پہ کسی نے آسمان گرا دیا ہو۔
آپ ایسا نہیں کر سکتے ... آپ مجھ سے پوچھے، مجھے بتائے بغیر اتنا بڑا فیصلہ .... نہیں نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ میری بیٹی نہیں دے سکتے کسی کو بھی .... آپ ایسا نہیں کر سکتے۔"
ان کا سر چکرا رہا تھا اگر زین صاحب نے انھیں نہ تھاما ہو تا تو یقینا وہ گر جاتیں۔
دیکھو نگین! اللہ نے ہمیں پہلے تین اولادوں سے نوازا ہے۔ شاید منت اللہ نے ہمیں اس لیے دی ہو۔
انہوں نے نگین بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے زین صاحب کا ہاتھ جھٹکا اور روتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ ذین صاحب نے گہر اسانس فضا کے سپرد کیا اور ہال کی جانب بڑھ گئے۔ وہ جانتے تھے که نگین بیگم کو گھر جاکے سمجھا لیں گے۔
جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو ہر طرف خوشی سے گونجتے قہقہے اور نجمہ اور عثمان کو اپنی بیٹی کو پیار کرتا دیکھ وہ مطمئن ہو گئے انھیں لگا انھوں نے بلکل درست فیصلہ کیا ہے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فیصلہ ان کے لیے آگے جاکے آزمائش بنے والا ہے جس میں وہ سر خرو ہوں گے یا نہیں اللہ جانتا تھا۔
کچھ وقت گزرا اور نگین بیگم نے منت کے بغیر رہنا سیکھ لیا۔ ایزل اور یا سر بھی بچے تھے تو جلد ہی منت کو بھول گئے اور لاریب جو منت سے دو سال بڑی تھی اسے تو سرے سے کچھ یاد ہی نہیں تھا۔ خیر وقت کا کام ہے گزرنا تو گزر گیا اور اس واقعے کو چودہ سال گزر گئے۔
منت کی، اپنی چچازاد بہن سے لڑائی ہو گئی اور اس نے منت کو سوتیلا کہا۔ منت چودہ سال کی تھی اس لفظ کا مطلب خوب جانتی تھی تو غصہ ہو گئی جب اس کی چچازاد اقراء نے اسے ساری کہانی سنادی جو اقراء نے اپنی ماما سے سنی تھی۔
" آپ کسی حق سے مجھ سے لڑ رہی ہیں منت آپی ؟... آپ تو اس گھر کی بیٹی بھی نہیں ہیں .... آپ کو پھپھو سے لیا تھا تا یا ابا نے۔"
یہ سننا تھا کہ منت روتے ہوئے نیچے آئی اور نجمہ بیگم کو سب بتا دیا ۔۔۔۔ گھر میں بہت زیادہ جھگڑا ہوا اس بات پہ ۔۔۔۔ نجمہ بیگم نے بہت کوشش کی کہ منت کے ذہن سے یہ بات نکال دیں لیکن ناکام رہیں۔ منت کا یقین ٹوٹا تھا۔ وہ جس عورت کو اتنے سال ماں کہتی رہی وہ اس کی ماں نہیں تھی پھر تنگ آ کر نجمہ بیگم اور عثمان صاحب نے منت کو سب بتادیا اور منت کا ماں باپ پر سے یقین ہی اٹھ گیا۔ بہت کوششوں کے باوجود بھی وہ دوبارہ کبھی اس لگن سے نجمہ بیگم اور عثمان صاحب کو ماما بابانہ کہہ سکی جس لگن سے پہلے کہتی تھی۔
دو سال مزید گزر گئے اور نجمہ بیگم جیسے جیسے منت بڑی ہونے لگی تھی اس سے بیزار رہنے لگیں۔ نجمہ بیگم کی عادت تھی وہ بہت غلط بیانی کرتی تھیں اور سچ بتانے کے بعد وہ منت سے ویسا پیار نہیں کر سکیں تھیں جیسا اس سے بچپن میں کیا تھا۔ اچانک ہی سب لوگ منت کو چھوڑنے لگے۔ بات بات پر اسے ڈانٹنا، مار نا پھر سب رشتہ داروں کے سامنے اس کی چھوٹی چھوٹی غلطی کو بڑھا چڑھا کر بتانا، عثمان صاحب کو غلط بیانی کر کے بھتر کانا اور عثمان صاحب کا منت کی بات سنے بغیر اسے مارنا، ڈانٹنا۔۔۔۔ سب بدل گیا تھا۔ جو منت سب کی لاڈلی تھی نجمہ بیگم نے اسے سب سے دور کر دیا تھا بہت دور ۔
منت نے سب سے ملنا اور باتیں کرنا چھوڑ دیا تھا وہ بس اپنے کمرے میں بند رہنے لگی تھی لیکن جب نگین بیگم کی فیملی آتی تو وہ کھل اٹھتی۔ ایسا بچپن سے تھا جب منت کو سچ نہیں پتا تھا تب بھی وہ نگین بیگم اور ان کے بچے دیکھ خوش ہو جاتی تھی اب بھی ویسا ہی تھا۔ ان کے ساتھ وہ دل سے ہنستی، بہت خوش رہتی۔ نگین بیگم کی فیملی میں مزید دو بچوں کا اضافہ ہو گیا تھا
"مر قسم اور عنایہ "
ان سب کو منت سے بہت لگاؤ تھا خاص طور پہ لاریب ۔۔۔۔ منت جب شدید ڈپریشن کا شکار ہوتی تو ایزل اور لاریب سے اپنی پریشانی کا حل پوچھتی وہ دونوں اس کی بہت مدد کر تیں تھیں۔
"حال"
مقدم نے ایک دم فائل پر سے چہرہ اٹھایا اور اسے ڈاکٹر کے ہسپتال میں کہے الفاظ یاد آئے ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ انھیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ "
مقدم کے چہرے پر غصہ در آیا
یعنی وہ لڑ کی ڈپریشن کا شکار ہے۔"
مقدم دھیرے سے بڑ بڑا یا ۔۔۔۔ اس نے نگاہوں کا رُخ دوبارہ قائل کی جانب مرکوز کیا وہاں ایک تصویر تھی جس میں دو لڑکیاں تھیں۔
لاریب اور ایزل"
نیچے ہی ان کے نام بھی لکھے تھے۔ لاریب نے منت کے جیسا ہی لباس زیب تن کیا ہوا تھا جو فائل کھولتے ہی منت کی تصویر میں اس نے پہنا تھا۔
میرون کر تا شلوار جس کے گلے پر کڑھائی ہوئی تھی، کھلے بال اور لائٹ میک اپ کے ساتھ وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہیں تھیں ۔ "
مقدم کو گمان گزرا کہ لاریب اور منت جڑواں ہیں لیکن جب وہ ایزل کو دیکھتا تب بھی اس کے دل میں وہی خیال آتا۔
منت ہیں سال کی ہیں اور لاریب بائیس کی ، تو جڑواں تو ہو نہیں سکتیں۔"
مقدم نے کہتے ہوئے سر جھٹکا اور آگے پڑھنا شروع کیا لیکن چہرے پہ کہیں بھی وہ نرمی ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتی تھی جو منت کی تصویر ہاتھ میں لیے اس کے چہرے پر تھی۔
" ماضی"
منت لاریب سے بہت پیار کرتی تھی اور لاریب منت ہے ، وہ دونوں اپنی ہر بات ایک دوسرے سے کرتیں تھیں۔
منت نے لاریب کو سب بتایا تو پہلے تو لا ریب بے یقینی کی کیفیت میں آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی رہی پھر جب کچھ سمجھ نہ آیا تو ایزل کو آواز دی اور پوچھا۔
ایزل منت سے چھ سال جبکہ یا سر منت سے پانچ سال بڑا تھا۔ ایزل اور یا سر کو سب بتادیا گیا تھا وہ سچائی جانتے تھے تو پہلے تو ایزل نے ٹال دیا لیکن پھر منت اور لاریب کی ضد پر ان کی بات کی تصدیق ہاں میں کر دی۔ لاریب بہت حیران تھی اور منت پہلے سے جانتی تھی۔
ایزل، یاسر اور لاریب، منت سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ مرتسم اور عنا یہ ابھی بہت چھوٹے تھے تو انھیں اس بارے میں علم نہیں تھا پھر بھی وہ دونوں بھی منت کے بہت قریب تھے۔
وقت مزید گزرتا گیا اور حالات مزید خراب ہونے لگے۔ منت کو بات بات پر طعنے دیئے جاتے ، سب کے سامنے بے عزت کیا جاتا، یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاتا کہ
" واپس جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔"
اس کا بالکل بھی لحاظ نہیں کیا جاتا تھا اور سب کے سامنے چاہے کوئی مہمان ہو یاں چاہے اس کے ننھیالی، سب کے اندر اسے بے عزت کر کے طعنے مارے جاتے۔ وہ اپنی نہ قدری پہ بلک بلک کے روتی۔ نھیال میں اس کے آنسو صاف کرنے کے لیے مناہل تھی اس کے بڑے ماموں کی بیٹی۔ وہ بھی منت کے بہت قریب تھی۔
آہستہ آہستہ منت کا دل سب سے اچاٹ ہوتا گیا اور وہ بد تمیزی پر اتر آئی۔ اب کوئی اسے کچھ کہتا نجمہ بیگم یا عثمان صاحب ، تو وہ آگے سے جواب دینے لگی تھی بد تمیزی کرنے لگی کیونکہ اس کی کسی بھی بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا تھا اس نے غلطی کی ہے یا نہیں کوئی نہیں سنتا تھا اور اس کی بے عزتی کر دی جاتی تھی۔ وہ سب سے اس قدر تنگ آگئی تھی کہ اس کا دل پتھر ہو گیا۔ اس نے رونا چھوڑ دیا تھا وہ جب بھی خود پر ہوئے ظلم لاریب کو بتائی تب بھی ویران آنکھوں سے ہی بتاتی اب اسے رونا نہیں تھا کسی کے بھی سامنے۔
منت شاید ہی کسی کے اتنے قریب تھی جتنی لاریب کے۔ ایزل کی شادی کے بعد لاریب اور منت مزید ایک دوسرے کے قریب ہو گئی تھیں۔
وقت کا کام ہے گزر نا تو گزرتا چلا گیا اور منت ہیں سال کی ہو گئی۔
پھر ایک دن عثمان صاحب اور نجمہ بیگم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ زیادہ سیریس نہیں تھا کوئی نقصان نہیں
ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو کپڑوں پر لگی گندگی دیکھ منت نے سوال کیا
" کیا ہوا ہے ؟۔۔۔۔"
کچھ نہیں بس ذرا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ "
عثمان صاحب نے جواب دیا
" اچھا۔ "
منت نے بس یہ کہا اور خاموش ہو گئی۔ نجمہ بیگم کو ایک اور موقع مل گیا بے عزت کرنے کا۔
عثمان صاحب، نجمہ بیگم اور منت، نگین بیگم کے گھر گئے کیونکہ منت نے لاریب کو لینا تھا اس کا نائٹ سے تھا منت کے ساتھ۔ منت اور لاریب دونوں بہت خوش تھیں لیکن منت کی وہ خوشی بس چند لمحوں کی تھی۔
نجمہ بیگم نے یا سر جو کے منت سے بہت پیار کرتا تھا اسے منت سے بہت زیادہ بد گمان کر دیا تھا وہ ان کے بتائے جھوٹ پر بہت آسانی سے یقین کر لیتا تھا ایک وقت تھا جب منت یا سر سے بہت فرینک تھی لیکن اب اسے بس سلام کے لیے مخاطب کرتی تھی۔
نجمہ بیگم نے یا سر کو بات بڑھا چڑھا کر ، غلط بیانی کر کے بتائی کہ ہم مرنے والے تھے لیکن اس نے ہم سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
منت اندر ہونے والی باتوں سے بالکل انجان، مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی۔۔۔۔ دعا مانگ کر اٹھی جب اسے نگین بیگم نے اپنے پاس بلایا اور نجمہ بیگم کا بتایا ہو ا سب اس کے سامنے بتایا۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ اس قدر جھوٹ پر شل رہ گئی لیکن بہت جلد اس نے خود کو سنبھال لیا کیونکہ اب تک تو اسے عادت ہو جانی چاہیے تھی ہر بار یہی ہوتا تھا کہ سب کی سن کر اسے پنچایت میں کھڑا کر دیا جاتا تھا لیکن پہلی بار نگین بیگم نے اس سے سب پوچھا۔
یہ عورت میرے دل سے اتر گئی ہے۔"
منت کے دل میں سالوں سے بھر اغصہ آج باہر آگیا۔
" مجھے نفرت ہے اس سے ..... یہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے میرے دل سے اتر گئی ہے۔"
منت نے پھولے تنفس سے یہ الفاظ کہے تو نگین بیگم نے نرمی سے پوچھا کیوں ؟۔۔۔"
یہ میری عزت نہیں کرواتے .... مجھے جگہ دیکھے بغیر ، سب کے سامنے بے عزت کر دیتے ہیں .... ماما اپنی بہنوں سے میری شکایت کرتی ہیں .... مجھے بات بات پہ واپس چلی جاؤ کے طعنے دیئے جاتے ہیں ..... لے پالک فالتو ہوتے ہیں ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں .... غلط بیانی کرتی ہیں، اور ان کی بہن نے کہا کہ میرا تمہاری بیٹی کی شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا .... کوئی بھی ایک جانب کی بات سن کر ہمیشہ فیصلہ کر لیتا۔
نگین بیگم نے نجمہ بیگم کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ عثمان صاحب مغرب پڑھنے گئے تھے لاریب اور عنایہ کچن میں تھیں اور یاسر اپنے دوستوں کے ساتھ باہر چلا گیا تھا۔ کمرے میں اب بس منت اور نگین بیگم تھے۔
اب بتاؤ مجھے کیا بات ہے ؟.... کیوں دل سے اتر گئی ہے وہ تمہارے ؟۔ "
نگین بیگم نے منت سے نرمی سے سوال کیا۔ منت نے آنکھیں اٹھا کر انھیں دیکھا۔۔۔۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور تب منت کا صبر ٹوٹا وہ جو رونا چھوڑ چکی تھی اسے کسی کے سامنے رونا بالکل پسند نہیں تھا آج کسی چھوٹے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رورہی تھی۔ "
آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا پھوپھو .... آپ نے ظلم کیا میرے ساتھ۔"
منت نے کبھی بھی نگین بیگم سے شکوہ نہیں کیا تھا لیکن آج وہ بلک بلک کر رو رہی تھی اور نگین بیگم اسے روتا دیکھ خود بھی آنسو بہار ہیں تھیں پھر منت انھیں خود پہ گزری سب بتانے لگی کافی حد تک نگین بیگم جانتی تھیں لیکن اس دن منت نے انھیں روتے ہوئے سب بتا دیا۔ نگین بیگم نے منت کو گلے لگا لیا۔ وہ جو کچھ سنبھل چکی تھی ماں کی گود ملتے ہی شدت سے رونے لگی آج اس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
" تم واپس آنا چاہتی ہو ؟ ۔۔۔۔"
نگین بیگم نے روتے ہوئے منت سے پوچھا تو منت نے ان سے الگ ہو کے آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیا۔ انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن منت کو اب اکیلے رہنے کی عادت ہو گئی تھی وہ اب شور میں ایڈ جسٹ نہیں ہو سکتی تھی تو نگین بیگم خاموش ہو گئیں۔
عثمان صاحب آئے تو نگین بیگم نے ان سے بات کی لیکن نجمہ بیگم نے اچانک سے خود کو مظلوم دکھانے کے لیے رونا شروع کر دیا۔ نگین بیگم کے اشارہ کرنے پر منت نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے قریب گئی اور انہیں چپ کروانے لگی البتہ عثمان صاحب خاموش ہو گئے تھے نگین بیگم کی باتیں سننے کے بعد۔
پھر سب ایک دم بدل گیا۔ منت مزید اکیلی ہو گئی اسے نجمہ بیگم نے مخاطب کرنا چھوڑ دیا۔ تقریبا پندرہ دن نجمہ بیگم نے اسے مخاطب نہیں کیا اور وہ پندرہ دن منت کی زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہونے لگا نجمہ بیگم اسے مخاطب کرنے لگیں لیکن انہوں نے منت کے ننھیال فون کر کے روتے ہوئے سب بتا دیا تھا اور عثمان صاحب کو اس بات کا علم نہ تھا۔
منت نے جب انہیں نجمہ بیگم کی بہن کے الفاظ بتائے۔۔۔۔
میر امنت کی شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا.... مجھے اس کے چہرے، اس کی آواز سے نفرت ہو گئی ہے۔"
یہ الفاظ بتاتے ہوئے منت کا دل دکھا تھا لیکن ٹو ٹاتب جب اس نے عثمان صاحب کے الفاظ سنے۔
" تم نے کس قدر ستا دیا ہے ہمیں .... نجمہ کی بہن کو کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی جو اس نے یہ الفاظ استعمال کیے۔ "
منت ایک دم پتھر ہو گئی۔ اس کے باپ کو اس کے دل کی یا سہنے والی کی پر واہ نہیں تھی اس کے باپ کو کہنے والے کی پر واہ تھی۔ اس سلوک کے بعد بھی اس سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارا دل پتھر کیوں ہو گیا ہے لیکن وہ خاموش ہو جاتی۔ پھر نجمہ بیگم نے اسے مخاطب کرنا شروع کر دیا اور سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔ "حال"
مقدم نے صفحہ پلٹا تو آگے ایک تصویر تھی۔ ایزل کی شادی کی تصویر ۔۔۔۔ جس میں منت ، لاریب، یاسر ، نگین بیگم ، زین صاحب، مرتسم ، عنایہ ، عمار ایزل کا شوہر سب تھے۔ تصویر کے نیچے نام لکھ کر سب کی پہچان بتائی گئی تھی۔
مقدم غور سے اس تصویر کو دیکھنے لگا۔
منت ، لاریب اور عنایہ تینوں اس تصویر میں ایک جیسے لباس میں تھیں۔۔۔۔ تینوں نے نیوی بلو کلر کی
پیروں کو چھوتی میکسی پہن رکھی تھی اور سب کے چہرے خوش اور مطمئن تھے۔
ایزل کی شادی زین صاحب کی بہن کے گھر ہوئی تھی اور وہ اپنے شوہر اور بیٹی جس کا نام علیانہ تھا کے ساتھ اسلام آباد میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی۔
مقدم نے تصویر سائیڈ پر رکھی اور فائل دیکھی لیکن وہ آخری صفحہ پڑھ چکا تھا۔
اور سب ٹھیک ہو گیا .... اور سب ٹھیک ہو گیا ؟"
اس نے آگے دیکھنا چاہا، جاننا چاہا کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا اگر سب ٹھیک ہو گیا تو منت کا بھاگنا، اس کی گاڑی سے ٹکرانا، میرا کوئی گھر نہیں ہے ایسا کہنا، وہ پریشان سا اس کی تصویر ہاتھ میں لیے سوچنے لگا جب
کچھ سمجھ نہ آیا تو دبیر کو کال کی جو دوسری ہی رنگ پہ موصول کر لی گئی۔
دبیر کا سلام گونجا۔
" دبیر آگے کیا ہوا تھا؟ .... اس میں کچھ نہیں لکھا۔ "
سلام کا جواب دیتے مقدم نے بے قراری سے پوچھا۔
میں صرف یہاں تک پتا کروا سکا ہوں اس کے بارے میں .... اب آگے کیا ہوا تھا وہ خود بتا سکتی
ہے ۔"
دبیر نے کہا تو مقدم تلملا کر رہ گیا وہ جانتا تھا کہ ابھی وہ کچھ بھی بتانے کی حالت میں نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ مقدم نے فون کاٹ دیا اور منت کی تصویر کو دیکھنے لگا۔ دوسری جانب دبیر اس کے اچانک فون کاٹنے پر کندھے اچکا کر رہ گیا
ماما کیا ہو اتھا ؟ .... کیوں بلایا تھا ماموں نے ؟"
لاریب نے نگین بیگم کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ ، فورا سے پوچھا۔ نگین بیگم بستر پر ڈھے کسی گئیں ان کے آنسو جاری ہو گئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے ؟۔۔۔۔"
لاریب نے پریشانی سے پوچھا۔ عنایہ اور مرتسم بھی ماں کو روتا دیکھ ان کے پاس آگئے۔
منت ..... وہ کہیں چلی گئی ہے۔ کسی کو نہیں پتا کہاں پر وہ چلی گئی ہے سب کو چھوڑ کر .... کوئی سامان بھی نہیں لے کر گئی اس کا فون بھی گھر ٹوٹا پڑا ہے۔ اس کے کمرے سے کچھ بھی غائب نہیں ہے پر رات سے صبح ہو گئی ہے ابھی تک واپس نہیں آئی۔ سب اسے ڈھونڈنے میں لگے ہیں۔ "
لاریب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی اس نے جلدی سے منت کو فون کیا لیکن فون بند تھالا ریب نے
نجمہ بیگم کو فون کیا۔
کچھ پتا چلا ممانی کہاں گئی ہے وہ ؟۔ "
لاریب نے پریشانی سے پوچھا۔
"ہمیں کیا پتا ؟ .... رات کی نکلی ہے کب سے سب ڈھونڈ رہے ہیں پتہ نہیں کہاں اور کس کے ساتھ گئی
ہے یہ لڑکی .... ہمارے منہ پر کالک مل دی اس نے۔"
" آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ممانی ؟ .... وہ ایسی بالکل بھی نہیں ہے۔ "
لاریب نے غصے سے کہتے فون بند کر دیا۔ مرتسم کو یا سر کی کال آئی تو وہ بھی منت کو ڈھونڈ نے نکل گیا۔ نگین بیگم نے گھر کو لاک کیا اور لاریب اور عنایہ کو لیے عثمان صاحب کے گھر چلی گئی۔
جب وہ لوگ وہاں داخل ہوئے تو عثمان صاحب صوفے پر سر جھکائے بیٹھے تھے نجمہ بیگم روتے ہوئے منت کو برابھلا کہہ رہیں تھیں باقی سب عورتیں خاموش تھیں کچھ نجمہ بیگم کی باتیں سن رہی تھیں اور کچھ خاموش بیٹھی تھیں۔ گھر کے سارے مرد منت کی تلاش میں ہسپتال اور سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے تھے۔
نجمہ بیگم نے اپنے گھر والوں کو فون کیا اور منت کے ننھیال والوں کو " منت گھر سے بھاگ گئی ہے۔ " یہ بتا یا سب پریشان ہو گئے۔۔۔۔ مناہل نے پریشانی سے رونا شروع کر دیا تھا باقی سب بھی پریشان تھے لیکن بہت لوگوں کو کوئی فرق بھی نہیں پڑا تھا۔ نجمہ بیگم کی بہن نے تو شکر کا سانس خارج کیا تھا کیونکہ وہ منت کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی بس ایک مناہل تھی جسے فکر تھی اور وہ منت کی سلامتی کے لیے
دعائیں کر رہی تھی باقی سب کو منت کو مزید بر ابھلا کہنے کا موقع مل گیا تھا۔
جیسے ہی وہ نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تو جائے نماز اٹھا کر الماری میں رکھا اور بستر پر لیٹ گئی۔ اس کے سر میں اور بازو میں بہت درد تھا وہ درد برداشت کرتی چھت کو گھورنے لگی۔ رات بھر جاگنے اور پھر نماز پڑھ کر سکون ملنے کی بدولت جلد ہی اسے نیند نے آگھیرا اور وہ گہری نیند سوگئی۔
"مقدم یہ تمہارا ناشتہ ۔۔۔۔ " یارم جو مقدم کو کمرے میں ناشتہ دینے آیا تھا دروازے پر ٹھٹھک کر رکا۔
مقدم جو منت کی تصویر میں مگن ، ہلکا سا مسکرا رہا تھا یارم کو آتا دیکھ تصویر دوبارہ فائل میں رکھی اور فائل نا محسوس انداز میں سائیڈ پر کھر کا دی۔
یارم نے ناشتہ بیڈ پر رکھا اور مقدم کو غور سے دیکھا لیکن اس کے چہرے پر ازلی بے نیازی دیکھتا خاموش ہو گیا۔ مقدم بھی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔
مقدم جیسے ہی ناشتہ کر کے آفس کے لیے نکلا یارم اس کے کمرے میں آیا۔۔۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ مقدم کیا سوچ رہا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ یارم نے اس کا کمرہ چیک کیا تو وار ڈروب میں ہی اسے وہ فائل دکھ گئی۔ یارم اس فائل کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا اور صوفے پر بیٹھ کے دونوں ٹانگیں اوپر کیسے پڑھنی شروع کر دی جیسے جیسے وہ فائل پڑھتا جا رہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے پھر ایک تصویر پر یارم رکا اور تھم گیا۔
بڑی بڑی غزالی آنکھیں، تیکھی ناک، گلابی ہونٹ ، گندمی رنگت، کھلے بال جو کمر سے نیچے لٹک رہے تھے ، میرون رنگ کے سوٹ میں وہ یارم کے دل کی دنیا ہلا گئی تھی۔
"لاریب"
یارم نے نیچے لکھا ہوا اس کا نام پڑھا اور پھر وہ کچھ نا پڑھ سکا۔۔۔۔ نا جانے کتنی ہی دیر وہ لاریب کی تصویر کو دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی جو اس کے ڈمپلز کو نمایاں کر رہی تھی۔
بالاج کمرے میں داخل ہوا تو یارم کو مسکراتے دیکھ ، فوراً اس کے قریب آیا اور ہاتھ سے تصویر کھینچ کے ایک نظر تصویر پہ اور دوسری یارم پہ ڈالی۔
یہ کون ہے ؟۔۔۔۔"
بالاج نے آنکھوں کی پتلیاں سکوڑ کے یارم کو دیکھ پوچھا۔
یہ وہی ہے جسے مقدم نے بچایا تھا ؟"
بالاج نے سوال پر سوال کیا
" نہیں یہ اس کی بہن ہے۔ "
اتنا کہتے یارم نے ایک تصویر نکال کر اس کے سامنے کی" یہ ہے منت یارم نے بتایا تو بالاج نے لاریب کی تصویر اور منت کی تصویر کو ساتھ میں رکھ کر دیکھا یہ جڑواں ہیں ؟"
بالاج نے سوال کیا
" پتہ نہیں"
یارم نے کہا اور فائل کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔ بالاج نے صوفے پہ یارم کے قریب ہی جگہ سنبھالی اور دونوں بیٹھ کر فائل پڑھنے لگے۔
محم .... میں نے کچھ نہیں کیا۔ پاپا میں نے میری بات سنی .... میں ....
نے .... کچھ نہیں۔۔۔۔"
اچانک اس کی آنکھ کھلی وہ پینے سے شرابور تھی۔ کچھ لمحے لگے اسے ہوش میں آنے میں وہ خواب کے زیر اثر تھی۔ کچھ لمحے وہ سمجھ نہ سکی کہ وہ کہاں ہے اور انجان نگاہوں سے کمرے کو دیکھنے لگی پھر رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو اسے سب یاد آگیا۔
ظہر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی وہ اٹھی اور وضو کرنے چلی گئی۔
اسلام و علیکم!
مقدم نے آفس میں داخل ہوتے سلام کیا تو داجی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
خیر ہے برخوردار .... پہلے کبھی آپ آئے نہیں یہاں اور اب چو میں گھنٹوں میں دوسرا چکر ۔ "
مقدم سنجیدہ سا ان کے سامنے بیٹھا دا جی نے اسے بغور دیکھا
کچھ پتہ چلا کہاں سے آئی ہے منت ؟"
واجی نے سوال کیا تو کمرے میں سکندر صاحب ، ضرغام اور ارمغان ایک ساتھ داخل ہوئے۔
وہ سب مقدم کو وہاں دیکھ بہت حیران اور خوش ہوئے کیونکہ وہ کبھی بھی آغوش یتیم خانہ میں نہیں آیا تھا۔ ان سب کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
کیسے ہو مقدم ۔۔۔۔"
سب اس سے بہت خوش دلی سے ملے " الحمد لله آپ سب کیسے ہیں ؟"
مقدم نے بھی خوش دلی سے پوچھا۔ ان تینوں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔
" تم یہاں آج خیریت ؟ ۔۔۔۔"
سکندر صاحب نے پوچھا تو مقدم نے ایک نظر داجی کو دیکھا اور پھر کرسی سنبھال لی اس کے ساتھ ہی سکندر صاحب بیٹھ گئے پیچھے موجود صوفوں پر ضر غام اور ارمغان بیٹھ گئے۔
مقدم نے انھیں رات سے لے کر فائل کی ساری کہانی سنا دی سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا
" تو کہاں ہے منت ؟ ۔۔۔۔"
ضر غام نے منت کے بارے میں پوچھا
شہر اذر امنت کو لے کر میرے کیبن میں آنا۔ "
واجی نے انٹر کام سے شہر کو منت کو لانے کا کہا تو مقدم فورا بولا
" آپ رہنے دیں واجی .... شبرا کو منع کر دیں میں جاتا ہوں لینے ۔ "
ابھی وہ بول ہی رہا تھا جب اچانک کیبین کا دروازہ کھلا۔۔۔۔ یارم اور بالاج کیبن میں جہاں سب موجود تھے داخل ہوئے۔
ان کے ہاتھ میں فائل دیکھ مقدم کو سمجھ آگیا کہ وہ بھی منت کے بارے میں جان چکے ہیں۔
مقدم کے آخری الفاظ سب لوگوں نے سنے تھے۔ سب نے آنکھیں پھاڑے مقدم کو دیکھا
اتنی جلدی اتنی تبدیلی کہ آپ لڑکیوں کی مدد کرنے لگے ہیں۔ "
ارمغان کی زبان میں کھجلی ہوئی تو وہ بولا باقی سب حیران سے مقدم کو دیکھ رہے تھے۔
اگر تم سب نے بچے کا ایکس رے نکال لیا ہو تو وہ جائے ؟"
واجی نے سب کو مقدم کو گھورتے دیکھا تو بولے۔
تم جاؤ مقدم لے آؤ منت کو .... رات بھی جب شہر انے اسے تھامنا چاہا تھا تو وہ ڈر گئی تھی بہتر ہے تم ہی لے آؤ۔"
تو کیا مقدم بھائی جیسے دیو سے وہ نہیں ڈرے گی ؟"
ارمغان نے لقمہ دیا تو سب کا قہقہ بے ساختہ تھا۔ مقدم نے ارمغان کو ایک زبر دست گھوری سے نوازا اور باہر نکل گیا۔
منت نے جیسے ہی سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے دروازہ کھٹکا اور پھر کھول کے کوئی اندر داخل ہوا۔۔۔۔ منت نے چونک کے دروازے کو دیکھا وہاں مقدم کھڑا تھا۔
مقدم اسے دیکھ کے بالکل ٹھہر گیا وہ کل والی منت سے بالکل مختلف تھی۔ مٹی اور اندھیرے کی وجہ سے جو رنگت گند می لگ رہی تھی اب قدرے صاف تھی۔
مقدم کو وہ تصویر والی منت لگی جسے دیکھ اس کی دھڑکنیں تھمی تھیں۔ ابھی وہ نماز سٹائل دو پٹہ لیٹے دعا مانگ رہی تھی۔ اسے دیکھ ہاتھ چہرے پر پھیرے اور اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اس کی گہری نگاہیں خود پر محسوس کر گھبراگئی۔
|
وہ جو اسے دیکھنے میں مگن تھا اس کے گھبرا جانے پر سنجھلا
اب کیسی ہیں آپ؟ ۔۔۔۔"
اس نے نری سے پوچھا
"ٹھیک"
ایک لفظی جواب آیا اور وہ سر جھکا گئی۔
میرے ساتھ چلیں.... داجی بلارہے ہیں آپ کو کیبن میں ۔"
مقدم نے کہا تو اس نے جھکا سر اٹھا کے مقدم کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا لیکن اس کی ویران آنکھیں دیکھ مقدم کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
آپ چلیں میرے ساتھ۔ "
مقدم نے اسے باہر آنے کا اشارہ کیا اور اس کو ساتھ لے کے کیبن کی طرف چل دیا۔
وہ دونوں جب کیبن میں داخل ہوئے تو وہاں اتنے سارے لوگ دیکھ ، منت جو مقدم کے ساتھ قدم اٹھارہی تھی اس کے قدم تھے اور وہ رک گئی۔
مقدم نے چہرہ موڑ کے اسے دیکھا تو اس کا گھبرایا چہرہ دیکھ سمجھ گیا کہ وہ ڈر رہی ہے۔ وہ اس کے قریب آگیا۔
یہ سب آپ کو کچھ بھی نہیں کہیں گے .... آپ ڈریں
میں ہوں نا یہاں اپ کے پاس"
مقدم نے اس سے نرمی سے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔
" یہ یارم ہے میر ابھائی .... اس سے آپ رات میرے ساتھ ہی ملی تھی۔ "
اس نے اشارے سے صوفے پر بیٹھے سب لوگوں کا تعارف کروانا شروع کیا۔
یہ ارمغان ہے اس سے بھی آپ رات مل چکی ہیں۔ یہ بالاج ہے میر ابھائی.... یہ ضر غام اور یہ سکندر انکل ہیں۔
منت نے ایک نظر سب پہ ڈالی بلا شبہ وہ سب لوگ وجاہت کے شاہکار تھے۔
بیزل گرین آنکھوں والے یارم اور بالاج، سنہری آنکھوں والے ضر غام اور ارمغان
اگے پڑھیں تیسری قسط 3