![]() |
انسانی لاش کا کمبل اخری قسط |
چندو انہی سوچوں خیالوں میں سلونی کے گھر کی طرف جارہا تھا کہ اچانک اسکے ذہن مسلم سکالر علی کا کردار آگیا کہ یہ بندہ کون ہے اور اسکے باپ امن داس نے مذہب تبدیل کر کے اپنا نام عمر کب رکھا؟
اسکے ذہن میں امن داس کا وہ آخری باب گھوم گیا جس میں اس مخلوق سے چھٹکارے کا روحانی علاج کا ذکر تھا۔ وہ فورا گھر آیا اور اپنے باپ کی وصیت والی فائل میں موجود وہ بند لفافہ کھولا جس کے بارے میں امن داس نے کہا تھا کہ اس لفافے میں اسکی زندگی کی کل کمائی بند ہے۔ چندو کو تب لگا تھا شاید وہ کوئی پراپرٹی کے کاغذات ہوں گے۔ اسے روپے پیسے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تو یہ سوچ کر سائیڈ پر رکھ دیا کہ کبھی ضرورت پڑی تو اسکو استعمال کر لوں گا۔
اب اس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ لفافہ کھولا تو اس میں بڑی ترتیب سے نفیس کاغذ کے کچھ ٹکڑے تھے جن پر اسکے باپ کی لکھائی نہیں تھی لیکن مخاطب اسکا باپ ہی تھا۔
اس اسلام و علیکم سے شروع کر کے اپنے مذہب کی تبدیلی اور نام کا حلف اٹھایا تھا، اور اپنے محسن سکالر علی کے لیے اظہار تشکر کے چند کلمات لکھوائے تھے، کسی اور کی لکھائی سے یہ بات تو عیاں تھی کہ یہ امن داس یعنی عمر نے بینائی چھن جانے کے بعد اپنے آخری ایام میں تحریر کروایا تھا۔
پھر وہ چندو سے مخاطب ہوا اور اپنا یہ راز اسے کھو دینے کے ڈر سے آشکار نہ کر سکنے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اور اپنی تحقیق کے پرانے ساتھی، دوست اور معاون امرناتھ کی اس کے مذہب بدلنے پر بے وفائی اور بغاوت کا بڑی تفصیل سے لکھا اور کیسے آنکھ میں ڈالنے والے دارو میں تیزاب ڈال کر امن داس کو رستے سے ہٹا کر امرناتھ نے اپنی بے اولادی والی محرومی پوری کرنے کے لیے یہ شیطانی عمل کیا۔ اس سارے عمل کی تفصیل وہاں درج تھی جو انکے مذہب کی قدیم روایت میں ایک جادوئی منتر جنتر کے ذریعے پروان چڑھایا گیا۔ چونکہ انکا مذہب قدیم ترین تھا تو اس زمانے میں جن زاد، آدم زاد اور دیگر مخلوقات کا روز مرہ زندگی میں آمنا سامنا ہونا اچھنبے کی بات نہیں تھی۔
اس وقت کے مذہبی پیشواؤں نے یہ سارے عملیات انکے باہمی رشتوں اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے جن زادوں کی معاونت سے تیار کیے تھے۔ لیکن اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخلوق کی خصوصیات کرو ارض پر موجود سب کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں۔ اور اس وقت میں اسکا کوئی توڑ بھی موجود نہیں تھا تو کسی بھی جن زاد یا آدم زاد کو یہ سب کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اور یوں یہ عملیات خاک در خاک دفن ہو گئے لیکن آج ہزاروں سال بعد امرناتھ اور امن داس نے یہ کھوج نکالے تھے۔ لیکن امن داس نے انکے ساتھ لکھے تنبیہ پیغامات پر امرناتھ کی مخالفت کی اور اس پیدا ہونے والی مخلوق کو شانت کیسے کرنا ہے وہ طریقہ ڈھونڈنے کا مشورہ دیا۔ امرناتھ یہاں تک تو راضی تھا لیکن جب آخر میں اسکی کاٹ کے دروان اسکی زندگی کو خطرے والی بات سامنے آنے پر امرناتھ بغاوت کر گیا اور دھوکے سے امن داس کو اندھا کر کے غائب ہوگیا۔ امن داس کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کہ نئی پیدا ہونے والے مخلوق جنس کے اعتبار سے عورت تھی یا مرد۔ پھر امن داس نے سکالر علی سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے مذہب پر تحقیق کرنے والا بہت ماہر اور قابل محقق تھا۔ اور وہ بھی ان عملیات کو پتہ لگا چکا تھا اور اسکی روحانی طاقتوں نے اس تک یہ خبر پہنچا دی تھی کہ یہ شیطانی عمل کیا جا چکا ہے اور بنی نوع انسان اور جن زاد خطرے میں ہیں۔ لیکن سکالر علی نے چھوٹی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس مسلے کا حل بتا کر یہ واضح کر دیا کہ جدید ترین اور خالص ترین مذہب میں قدیم ادوار میں ہونے والے تمام شیطانی عملیات کا توڑ موجود ہے۔ پھر اس نے کئی سال امن داس کو قرآن شریف میں موجود پوشیدہ روحانی علاج حدیث کی روشنی میں واضح کیے جو بہت آسان اور مکمل توڑ ہیں۔ ان میں صرف باوضو رہنا ہے، نماز کی پابندی کرنی ہے اور چند قرآنی آیات کو ورد پاکی کی حالت میں کرتے رہنے کا واضح عندیہ ہے جسے آسان الفاظ میں ذکر کہتے ہیں۔ ان ذکر اذکار سے پاک روحانی قوتیں مومن کی ہر طرف سے اپنے حصار میں لیکر حفاظت کرتی ہیں۔
اب امن داس کی عقل میں بات آگئی تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہب میں جدت آتی گئی اور نبی آخری الزمان نے دین مکمل کر کے اس پر مہر ثبت کر دی کہ انسان کی زندگی گزارنے کا سب سے جدید اور مکمل ضابطہ حیات اسلام میں ہی موجود ہے۔ اور تین چار مواقع پر نازل ہونے والی سوره معوذتین جادوئی عملیات، حسد، رشک، بدنظری ہر شے سے بچاؤ کا آسان اور سادہ حل پیش کی گئی۔ اور مختلف اوقات میں آیت الکرسی کا ورد میں حفاظتی حصار کی نشاندھی کرتا ہے۔
اب کرنا یہ تھا کہ امرناتھ سے سلونی کو جنم دینے والی مردہ بھیڑیا کا جسم درکار تھا اور ساتھ امرناتھ اسکی جن زاد بیوی اور سلونی کو قابو رکھنا تھا تاکہ اس شیطانی عمل کی کاٹ کی جاسکے۔ چندو نے سکالر علی کا پتہ ڈھونڈ کر ان سے مدد کی اپیل کی تو وہ فراخدلی سے ساتھ ہو لیے اور چندو کو دعوت اسلام بھی دے ڈالی جو اسنے فی الفور قبول کر لی، انہوں نے اسکو وضو بنانا سکھایا اور اسکا اسلامی نام حمزہ تجویز کیا۔
اب حمزہ سکالر علی کے ساتھ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر سکالر علی کے ساتھ ذکر اذکار کرتا ہوا سلونی کے گھر پہنچ چکا تھا۔
جہاں سلونی نے حمزہ کو دیکھتے ہی اسکے بدن کی مہک سے پہچان لیا کہ اس دن سکوٹر پر کون تھا۔ لیکن چونکہ وہ ہوس زدہ اور شہوت سے بھرے ہوئے شیطان مردوں کا خون انکے زندہ ہوتے ہوئے پی چکی تھی تو انکی باطل روحوں کی خصلتیں سلونی میں سرایت کر گئی تھیں اور اسکی روح میں موجود نیک خصلتیں ایمان کی غیر موجودگی میں دبتی چلیں گئیں اور وہ آج پھر حمزہ کو دیکھ کر شہوت سے بھر گئی اور اسکی آنکھوں میں ہوس چھلکنے لگی۔ وہ اپنی نسوانی اداؤں سے حمزہ کو مائل کرنے لگی۔ پہلے اس نے شرٹ کا اوپر بٹن کھول کر مرد کی سب بڑی کمزوری کی جھلک پیش کی۔ پھر وہ اپنی ریشمی ٹانگ سے دھائیوں تک کپڑا ہٹا کر حمزہ کو اور امتحانوں میں ڈالنے لگی۔ ساتھ وہ خمار زدہ، رس گھولتی مست اور سریلی آواز سے اسکا پرانا نام پکار کر آو نا، مجھ پیار کرو نا، میں تمہارے لیے تڑپ رہی ہوں جیسے پتھر پگھلانے والے جملے ادا کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ مزید کوئی وار کرتی حمزہ نے امرناتھ کا پوچھا اور سلونی کو ایک ایک کر کے ساری تفصیل ایک ہی سانس میں بتا دی۔ اس پر سلونی رونے لگی کہ میں اپنی موجودہ حالت سے خوش نہیں ہوں اور نہ میں ایسی ہوں، وہ اپنی اسی حالت لا شعور میں اور ضمیر پر بہت ملامت اور لعن طعن کا اظہار کر رہی تھی۔ پھر اس نے خود پر بتانے والی داستان سنائی کے کیسے پنڈت کرشنا اسپر بری نظر رکھے ہوئے تھا اور اس دن سٹاف روم میں اس نے سلونی کو بے لباس کر اسکی عزت پر ہاتھ ڈالا تو سلونی غصے اور پریشانی میں غرا اٹھی اور اسکے اندر کا بھیڑیا جاگ گیا جس نے پنڈت کی گردن سے پکڑ کر سارا خون پینے کے بعد اپنے بھاری پنجوں سے پنڈت کی ساری ہڈیاں چور چور کر کے انسانی جسم کا کمبل بنا ڈالا۔ جب پنڈت انجام سے دوچار ہوچکا تو پھر سلونی انسانی روپ میں واپس آئی اور اسنے کسی سگھڑ عورت کی طرح اس انسانی لاش کے کمبل کو گول کرکے الماری میں سنبھال دیا۔ لیکن اسکا شہوت ذدہ زندہ خون اسکی روح کی گندگی سمیت سلونی کی روح میں جذب ہوگیا اور یوں سلونی کا دوسرا جنسی کردار سامنے آیا جو اسکا انسانی پہلو تھا، یوں وہ انسانی شہوت کی آگ بجھانے کے لیے جناتی اعتبار سے دماغ پڑنے والے طاقت استعمال کرتی اور اس گندگی کے رستے پر چل نکلی۔ لیکن جو با اثر لوگ اسکی ظاہری خوبصورتی دیکھ اسے کھلونا بنا کر زبردستی نوچنے کی کوشش کرتے سلونی کے اندر کا درندہ انکا کمبل بنا کر رکھ دیتا۔
اب اسکا ایک حل تو یہ تھا کہ نیک روح والوں کا خون چوستی اور اپنے شہوت پر قابو پا لیتی لیکن شہوت پر قابو والے لوگ گنتی میں تھے جو چند ایک تھے انکی جان بھی لے کر سلونی ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
اب سکالر علی نے سلونی کو تسلی دی اور اسے کہا تمہاری ماں سے کہو وہ سامنے آجائے مجھے پتہ ہے وہ یہیں ہے ورنہ میں اسے اپنی روحانی طاقتوں کے بل پر جکڑ لوں گا۔ سلونی نے ماں کو اشارے سے بلایا تو سکالر علی نے دونوں ماں بیٹی کو سادہ سا حل بتایا کہ اس کالے علم کے زیر اثر سلونی کو جنم دینے والی بھیڑیا ماں کے جسم کے باقیات کو تازے تازہ پانی سے دھو کر سوره معوذتین کا ورد کرتے ہوئے آگ برد کرنے سے یہ عمل ٹوٹ جائے گا اور اگر سلونی کو کچھ نہ ہوا تو اسکی یہ بھیڑئی کیفیت بھی ختم ہو جائے گی، اور خون کی پیاس نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی گندی خصلتیں بھی سلونی میں سرایت نہیں کر سکیں گی۔ اتنے میں امر ناتھ نمودار ہوا اور سکالر علی کے گلے لگ کر رونے لگا کہ مجھے معاف کر دو میں تمہیں غلط سمجھا میں نے تمہاری تعلیمات کی کھوج اور تحقیق کیے بنا قدیم علوم کا پرچار جاری رکھا اور میری وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ سلونی اور حمزہ سے بھی معافی طلب کرتا رہا۔ تب ایک روشنی کا ہیولا سا نمودار ہوا اور اسمیں سے سرگوشیوں سی آواز نمودار ہوئی کہ میں امرناتھ کے پریم میں پاگل تھی اس لیے اسکے ساتھ دیا ورنہ اسکے ساتھی جن زادوں نے بھی تنبیہ کی تھی۔ سلونی کی ماں اسی وقت اللہ کی وحدت اور آخری نبوت کی گواہی دیتے ہوئے مسلم ہوگئی اور اس نے عظیم الفاظ ادا کیے کہ کوئی بھی دنیاوی محبت عقیدے یا ایمان سے اونچی نہیں ہو سکتی اور اگر اسکے اونچے ہو جانے کا خطرہ محسوس ہو تو ایسی محبت ترک کر دو، وہ گھاٹے کا سودا ٹھہرے گی۔
امرناتھ اور سلونی بھی ایمان کی شمع سے روحیں منور کر کے باوضو ہوکر آگئے۔ امرناتھ اپنا نام عبداللہ اور سلونی کا نام ماریہ رکھ دیا۔ لیکن ماریہ کی شہوت بدستور برقرار تھی اور وہ حمزہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ جلدی جلدی گھر کی زیریں خانے میں گئے وہاں زیر زمین خانے میں موجود ایک صندوق کھولا تو اس میں بوسیدہ کھال میں سکڑی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ مردہ بھیڑئیے کی لاش تھی جس کے پیٹ میں ماریہ یا سلونی کا بیچ پروان چڑھایا گیا۔
اب اس لاش کو تازے پانی سے ورد کرتے کرتے دھویا گیا، ناگوار بدبو سے سب کا برا حال تھا پھر خشک لکڑیوں کا ڈھیر آتشدان میں لگا کر سوره معوذتین کے ورد میں اس بھیڑئیے کی لاش کو جلا دیا گیا، لاش کے جل کر ختم ہوتے ہی ماریہ بھی گر کر بے ہوش ہوگئی، جس پر عبداللہ اور اسکی جن زاد بیوی رونے لگے، لیکن سکالر علی نے اللہ کے حضور دعا فرمائی اور ماریہ کی زندگی اور صحت کی التجا رکھی۔ ساتھ وہ اپنا مخصوص ذکر کرتے رہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ماریہ کے چہرے پر ابھر آنے والے نیلگوں نسیں مدہم ہوتی گئیں، اس نے ایک لمبی سانس جھٹکے سے اندر کھینچی اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ لیکن اب وہ حواسوں پر قائم اور اپنے رکھ رکھاؤ میں تھی ۔ شہوت اور ہوس کا وہ شیطانی بخار اتر چکا تھا اور وہ حمزہ کو دیکھ کر شرمانے لگی، حمزہ نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ سب نے ملکر اللہ کا شکر ادا کیا۔
علی اور حمزہ مسکراتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے۔ کچھ دن بعد عبداللہ حمزہ سے ملنے اسکے گھر آیا اسکے مرحوم باپ عمر کو یاد کر کے دیر تک روتا رہا اور معافی طلب کرتا رہا۔ اور جاتے ہوئے ماریہ کو قبول کرنے کی تجویز رکھ گیا۔ حمزہ نے ماریہ کی منکری کے زمانے کی سب باتیں بلائے طاق رکھ کر نکاح کی حامی بھر لی اور بہت عظمت والے جملے کہے۔ کہ جب ایمان لانے پر یا توبہ کرنے پر بلا شک و شبہ اللہ سب کچھ معاف دیتا ہے تو میری کیا اوقات ہے کہ میں خالق کی رضا کے خلاف جاوں ۔
ختم شد