![]() |
خبیث جن 💀 حقیقت پر مبنی ایک سچی كتهاء🖤 از قلم۔۔۔ ایس اے فرام سمندری سیکنڈ لاسٹ پارٹ #2🍂 یہاں حقیقت سے ایک پرده اٹھایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ حضرات منہ بنائیں مگر جو بھی ہو اسے جھٹلانا ناانصافی ہوتی ہے۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ذات نسواں آج کے اس پارٹ سے دور رہیں ‼ بیٹا۔۔۔ یہ میرے ابا ہیں۔۔وه عورت پاس بیٹھے ہوئے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اور پھر مزید تعارف کروانے لگی۔ اسی اثنا میں میری نظر اس عورت کے جملوں پر تھی۔ میں ان کے نہایت خوش اخلاق لفظوں کو سمجھتا جا رہا تھا۔۔ یہ میری بیٹی حنا اور یہ اسلم ہیں حنا کے شوہر ۔۔۔یہ شہر میں کسی مل میں کام کرتے ہیں۔آپ نے آنا تھا اس لئے انھیں صبح ہی بلا لیا تھا۔ حنا کے ابو کچھ سالوں سے حیات نہیں ہیں۔میری بیٹی کے علاوہ میری اور کوئی اولاد نہیں تھی۔ بس بیٹا یہی میرا خاندان ہے۔ وه عورت مختصر سا بتا کر خاموش ہو گئی اور جواباً میں نے انہیں خدا کی رضا پر راضی رہنے کی مزید تلقین کی۔ ٹھیک ہے ماں جی۔ ۔۔ اب آپ وه بات بتائیں جس کی بنا پر آج میں یہاں موجود ہوں۔ اور پھر میں نے خود ہی وہاں بیٹھے ہوئے تمام مردوں کو کمرے سے باہر بھیج دیا۔سوائے ان بزرگ بابا کے ۔۔۔۔!!! اب ہم وہاں صرف چار لوگ موجود تھے۔ میری نظر اس عورت کے چہرے پر مرکوز تھی۔وه کچھ پریشان سی دکھائی دینے لگی تھی۔ جی اب کھل کر بتائیں۔۔کیا ماجرا ہے ؟ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ بیٹا۔۔ آپ خود ہی پوچھ لیں۔۔اس نے ہمیں کبھی کھل کر نہیں بتایا۔کچھ بھی مسلہ ہو تو یہ زیادہ تر اپنی دوست اریبہ کو ہی بتایا کرتی ہے۔اریبہ جوزف کے کزن ٹونی کی بیوی ہے۔ مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ یہ بیمار ہے۔ اسکی شادی ہوئے بھی ابھی ایک سال ہوا ہے۔ اور بیٹا بس میں کیا بتاؤں۔۔۔!!! کئی عامل آئے اور گئے کئی حکیموں کے پاس بھی گئے ہیں پر افاقہ نہیں ہوا۔ وه عورت سر جھکا کر بات کر رہی تھی۔ ان کے انداز بیان سے مجھے واضح محسوس ہو چکا تھا کہ وہ کچھ چھپا رہی ہے۔۔میں ابھی تک خاموشی سے بیٹھا ہوا انکی معلومات لے رہا تھا۔ اچانک میری نظر حنا پر گھوم گئی۔وه کمرے سے باہر بغور دیکھ رہی تھی۔ ناچاہتے ہوئے بھی میری نگاہ اس کی نظروں کے تعاقب میں چلی گئیں۔۔باہر مین دروازے کے پاس کوئی کھڑا تھا۔ سفید لباس زیب تن کیے ہوۓ وه ایک خوبرو جوان لڑکا تھا۔ وه واقعی خوبصورت اور پر کشش تھا۔ میں سمجھا شاید وه ان کا کوئی واقف کار ہے اس لئے میں چپ رہا جبکہ حنا ٹکٹکی باندھے اس حسین و جمیل لڑکے کی طرف دیکھتی رہی۔ ایک لمحہ کے لئے مجھے حنا کی امی کی آواز سننا بند سی ہو گئی تھی۔ یہ لڑکا وہاں دروازے پر کیوں کھڑا ہے ؟ اسے چاہیے کہ وه اندر آ جائے۔۔ میرے دماغ میں یہ سوال لرز اٹھا تھا۔ میں نے ایک پل کے لئے حنا کی امی کی طرف دیکھ کر جب دوبارہ باہر اس طرف دیکھا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ شاید وه واپس لوٹ گیا تھا۔ ایک بار پھر میری نظر حنا کی جانب اٹھ گئی وه اس بار سر جھکائے ہوئے بلکل دم سادھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ بیٹا۔۔۔ میں کیا پوچھ رہی ہوں۔ کیا تم سمجھ گئے ہو۔۔!؟ اس عورت کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔۔اس بار وه قدرے زور سے بولی تھی۔ جی جی۔۔۔جی کیا پوچھا آپ نے !! میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔۔اپنی اس نادانی کی وجہ سے مجھے ایک پل کے لئے خود پر ندامت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ مجھے اچانک پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔میرا ذہن گویا نامعلوم خیالوں میں کہیں الجھ سا گیا تھا۔ آپ خود ہی حنا سے پوچھ لیں۔ اس عورت نے اپنی بیٹی حنا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ جی بتائیں آپ۔ ۔۔ اور دیکھیے آپ مجھسے صاف اور کھل کر بات کریں۔ مجھسے کچھ چھپایا تو اس میں آپ ہی کا نقصان ہوگا۔ میں نے حنا کی طرف دیکھتے ہوئے مختصراً کہا۔ جی اچھا۔ ۔۔۔ میں سب سچ بتاؤں گی۔ اس بار یہ آواز قدرے سریلی سی ابھری تھی۔ یہ حنا کی آواز تھی۔ وه ایک موٹی چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ اور چھپا کر میرے سامنے ہی بیٹھی تھی۔اس کے پہلو میں اسکی امی اور ایک طرف ذرا پیچھے وه بزرگ بابا بیٹھے ہوئے تھے۔ جی بتائیں آپ۔ ۔میں سن رہا ہوں۔ میں نے دريافت کیا۔ جی ابھی مہینہ بھر کی بات ہے۔ میرے ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ وه بلکل سانپ کی مانند تھا۔اسکا کوئی بازو کوئی ٹانگ نہ تھی اور چہرہ چھپکلی جیسا تھا۔ پھر میرے شوہر اسے نہر میں بہا آئے۔۔بس یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی۔۔اریبہ کو بھی نہیں۔۔ امی اور نانا ابو بھی یہ بات جانتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ کو جو کچھ بھی جوزف کے کزن نے بتایا ہے۔ سب کچھ ٹھیک بتایا ہے۔باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ کیا حادثات چل رہیں ہونگے۔ ۔۔حنا کی اس بات سے میرے ہوش گم سے ہونے لگے تھے۔ وه اس حادثہ کو کیسے برداشت کر گئی۔یہ واقعی حیرت انگیز بات تھی۔ وه اپنے ساتھ پیش آئے ہوئے ان حالات کی گواہی دے کر خاموش ہو گئی تھی۔ وه عورت ذات تھی اس لئے اور کیا بتا سکتی تھی۔ میں حنا کی طرف دیکھتے ہوئے کسی سوچ میں پڑ گیا تھا اور پھر کچھ دیر یونہی چپ چاپ سی خاموشی چھائی رہی۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ جو ہوا سو ہوا۔۔آپ بھول جائیں پچھلے حادثہ کو۔ خدا سب بہتر کریں گے۔۔میں نے حنا کو تسلی دیتے ہوئے خاموشی کو توڑ کر رکھ دیا۔۔۔ فکر نہ کریں آپ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔میری تسلی سے ماں بیٹی خوش ہو رہی تھیں۔ انہیں ایک امید سی نظر آنے لگی تھی۔ اور میں سچی نیت سے وہاں موجود تھا۔ موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے میں نے اس لڑکی کو دم کیا۔ اور ایک نقش کے ساتھ پانی بھی پینے کے لئے دے دیا۔ تا کہ اسکی حفاظت رہے۔ میں نے اس پورے گھر میں حصار کے حفاظتی پہرے داروں کو کھڑا کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ اب وه لڑکی محفوظ ہے۔ میرے اس کام سے وه کافی خوش اور محفوظ دکھائی دینے لگے تھے۔ دن گرتا جا رہا تھا۔شام ہونے میں کچھ دیر اور باقی تھی۔ وه عورت ہمیں کھانا کھلا کر رخصت کرنے کی ضد میں تھی۔ لیکن مجھے واپس اپنے گھر جانا تھا۔ اور پھر ہم وہاں سے واپس کزن کے گھر آن پہنچے۔ یہاں آتے آتے شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ ٹھنڈ کے سائے آزاد گھومنے لگے تھے۔ موسم کی اس بیداد سرگرمی کی وجہ سے ہمیں رات رک جانا بہتر لگا اور آخر ہم وہی مقام کر گئے۔۔۔ کھانا کھا کر میں اور جوزف بیٹھک میں آ کر اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ جوزف کب سے بیقرار تھا کہ میں اسے آج کی گفتگو سے وابستہ کروں۔ لیکن میں خاموشی کے ساتھ لیٹا رہا۔حنا کے ان حالات کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے غنودگی سی محسوس ہو رہی تھی۔ اور میں ہمیشہ کی طرح جان چکا تھا کہ آج پھر کوئی مخلوق میرے پاس آ رہی ہے۔ اور پھر اچانک میرے ہوش گم گئے۔میری آنکھ بند ہو گئی اور میں ناجانے کب گہری نیند میں ڈوب گیا۔ گہری تاریک رات کا وه ناجانے کونسا پہر تھا۔ میں حنا کے پاس کھڑا تھا۔ مجھے حنا کے سوا گھر میں کوئی اور فرد دکھائی نہ دیا تھا۔ حنا جامنی سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھی۔ وه قدرے ہلکی عمر اور میانے سے قد میں تھی۔ چنچل جوبن اس پر نکھر رہا تھا۔ سفید گورا رنگ اسے جاذب نظر بنائے ہوئے تھا۔ وه سمارٹ بدن کی تھی۔ لاجواب حسن و جمال میں قیامت خیز شباب سے لبریز تھی۔ اسکی موٹی لمبی کالی آنکھیں بڑی پرکشش تھیں۔کسی كمان کی طرح ترچھی پلکیں کسی بھی دل کو فدا کر سکتی تھیں۔ کسی کھلے ہوئے گلاب کے نازک پھول جیسے بھرے ہوئے گلابی سفید گال اور کومل تازگی بھرے پتلے سرخ ہونٹ اسے جنت کی حور ثابت کر رہے تھے۔ وه میرے سامنے ہی تو کھڑی تھی۔ اسکی خاموش آنکھوں میں محبت بھری مدہوشی واضح چھلک رہی تھی۔ برهنہ سر ہر آنچل سے عاری تھا۔ کمر سے نیچے تک لٹکتی ہوئی سیاہ ریشمی زلفیں کسی ناگن کی طرح بل کھائی ہوئی تھیں۔ پتلی سی پرشباب نازک کمر پہنے ہوئے جامنی سوٹ میں بھی صاف محسوس ہو رہی تھی۔ کسی تراشی ہوئی نایاب صراحی کا وه ایک خوبصورت مجسمہ سا لگ رہی تھی۔ راحت بخش سینے کا جوبن دلوں کو موم کر دینے والا تھا۔ ہم دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی تھی۔ اچانک حنا کو نجانے کس سوچ نے جهنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسکے نازک اندام ہاتھوں کی پتلی سی انگلیاں گویا بھینچ سی گئیں اور وه چلتے ہوئے ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔وہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے رہا تھا۔ وه کمرے کی گہری خاموشی میں کہیں اندھیرے کی چادر میں جا چھپی تھی۔ میں دبے پاؤں اس کے تعاقب میں تھا۔ کمرے سے کسی جوان عمر لڑکے کی دھیمی دھیمی سی سرگو شیاں میرے کانوں میں جنبش سی کرنے لگی تھیں۔ ایک پل کے لئے کسی خیال کے تحت میں وہی منجمند سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں سکوت کے اس عالم میں اس مردانہ سرسراہٹ کو جاننا چاہتا تھا۔وه جو کوئی بھی تھا مجھے مشکوک لگ رہا تھا۔ میں کچھ لمحات کمرے سے باہر دیوار کے ساتھ لگا رہا۔ اب اس مردانہ آواز کے ساتھ حنا کی درد و لطف بھری سسکاریاں بھی خاموشی کو چاک چاک کرنے لگی تھیں۔ وه حالات میرے شعور سے ناواقف نہ تھے۔ مجھے ان پر بیحد قہر اٹھنے لگا تھا اور پھر میں آہستگی کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گیا۔ شدید اندھیرے میں میرے ہاتھ دیوار پر لگا ہوا بجلی کا بورڈ محسوس ہوا اور یکلخت میں نے بٹنوں کو دبا دیا۔ جیسے بھی تھا آخر بلب جل اٹھا تھا۔ وه میرے سامنے بیڈ پر موجود تھے۔ لیکن مجھے حیرت کا ایک گہرا جھٹکا لگا۔بلب روشن ہونے کے باوجود ان دونوں کو کچھ فرق نہ پڑا تھا۔ وه پگھلے ہوۓ جذبات کی مدہوشی میں ہر چیز سے بے نیاز تھے۔میرا شک درست تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا۔ جو آج دن کے وقت مجھے باہر دروازے پر دکھائی دیا تھا۔ اس لڑکے کی کمر میری طرف تھی۔وه بلکل برہنہ تھا۔ بیڈ پر ایک طرف جامنی رنگ کے کپڑے بکھرے پڑے تھے۔ صاف واضح تھا کہ حنا بھی برہنہ تھی۔ مجھے اس لڑکے کی کمر کے دائیں بائیں اطراف میں حنا کے اٹھے ہوئے گھٹنے صاف نظر آ رہے تھے۔وه خوبرو جوان لڑکا تھا۔ اسکا وجود مظبوط اور طاقتور دکھائی دے رہا تھا۔ اس لڑکے کا وجود متحرک تھا۔اسکی ہر تیز حرکت پر نسوانی آہ کمرے کی در و دیوار سے ٹکرا رہی تھی۔ انہیں وہاں میری موجودگی کا علم نہ ہو پایا تھا اور یہ بات مجھے حیران کن لگی تھی۔ ایک پل کے لئے مجھے اس لڑکے کی حرکات پر بہت غصہ آیا.میں چیختا ہوا انکی طرف بڑھا اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔۔۔میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔میری سانس پھولی ہوئی تھی۔ جیسے میں نے میلوں تک دوڑ لگائی ہو۔ میرے ساتھ والے بستر پر بیٹھا ہوا جوزف اپنی آنکھیں پھاڑ کر مجھے گھور رہا تھا۔میری اس حالت پر وه کافی ڈر گیا تھا۔۔ کیا ہوا تمہیں۔ ۔۔۔ تم چلا کیوں رہے تھے۔ذرا میری حالت تو دیکھو۔۔۔ جوزف نے هانپتے ہوئے کہا۔ کچھ نہیں۔۔۔تم سو جاؤ۔یہ بس ایک سپنا تھا۔ میں نے خود پر کنٹرول ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ آنکھ کھلتے ہی مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ یہ ایک برا خواب تھا۔ مگر۔۔۔۔ کیوں !!؟ یہ خواب مجھے کیوں دکھایا گیا۔وه لڑکا آخر کون تھا۔۔۔میری سوچیں مجھے ذہنی مفلوج کرنے لگی تھیں۔ جوزف میرا مسیحی دوست تھا۔ آج وه میری اس حالت پر خوفزدہ ہو گیا تھا۔ وه دوبارہ لیٹ چکا تھا۔ اور میں اس خواب کے الجھن بھرے گوشوں میں جھولنے لگا تھا۔ بیٹھک میں جلتا ہوا زیرو نائٹ سبز بلب اپنی ہلکی سی روشنی میں جاگ رہا تھا۔میرے ارادے صبح واپس اپنے شہر جانے کے تھے لیکن نہیں۔ ۔۔یہ ممکن نہیں تھا۔ مجھے شاید اس پیچیده گتھی کو سلجھانا ابھی باقی تھا۔ لوگ اپنے کاموں کی غرض سے اکثر مسیحیوں کے پاس جایا کرتے ہیں لیکن جوزف کے کزن ٹونی نے مجھ مسلم کو یہ کیس سونپا تھا۔ اور اب مجھے اس کا حل کر کے واپس جانا تھا چاہے جتنے دن بھی لگ جائیں۔ میں لیٹا ہوا منفرد سوچوں میں کڑ رہا تھا۔ میرا سر بھاری ہو گیا تھا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی۔مجھے ایک بار پھر غنودگی سی ہونے لگی اور میں سو گیا۔ یہ دن کا وقت تھا۔سورج کی روشنی سے ہر چیز چمک رہی تھی۔ هلكی خفیف ہوا سے وجود سکون محسوس کر رہا تھا۔ دور کہیں شاید مختلف انواع کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ فضا معطر ہو کر بہہ رہی تھی۔ میرے نتھنوں سے خوشبو کی بھینی بھینی باس متواتر ٹکرا رہی تھی۔ بہت دلنشین موسم تھا۔ کھیتوں کے بیچوں بیچ وه ایک ویران سی جگہ تھا۔ وہاں دور دور تک پہاڑی کیکروں کی بہتات تھی۔ میں وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ کچھ ہی دور فاصلے پر مجھے حنا کھڑی ہوئی نظر آئی۔۔وه آج سفید سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے ایک سلیقے کے ساتھ اپنا دوپٹہ اپنے گلے میں ڈال رکھا تھا۔ اسکے لمبے سیاہ بال آج بڑی ترتیب سے بندھے ہوئے تھے۔ مدھم سی چلتی ہوئی ہوا سے اسکے دوپٹے کے دونوں پلو پیچھے کی جانب لٹکتے ہوئے گویا لہرا رہے تھے۔وه اپنے سامنے کی سمت دیکھ رہی تھی۔ اس کے سامنے کیکروں کا جھنڈ سا تھا۔ وه ادھر ادھر کا جائزہ لیتے ہوئے اس سمت بڑھ گئی۔۔میں تھوڑا حیران تھا۔اسے وہاں میں کھڑا ہوا کیوں دکھائی نہ دیا تھا۔ مجھے لگا شاید یہ کوئی خواب ہو۔ پر نہیں۔ ۔۔یہ حقیقی منظر تھا۔ میں حنا کے تعاقب میں چل پڑا۔میں دبے پاؤں بڑی خاموشی اور چالاکی سے اسکا پیچھا کر رہا تھا۔ مجھے تجسس تھا کہ وه کہاں جا رہی ہے۔ حنا چلتے ہوئے ان کانٹے دار جھاڑیوں سے بچ رہی تھی۔ وه دائیں بائیں چلتی ہوئی اس جھنڈ میں چلی گئی۔ ۔ اور پھر میں بھی کانٹوں سے بچتا ہوا اس جھنڈ میں داخل ہو گیا۔ دو چار قدم کے فاصلے پر وہاں مجھے حنا بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے پاس ایک طرف سفید کپڑا سا پڑا ہوا تھا۔ وه بلکل اکیلی تھی۔ وه سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھی۔ مگر میں صاف دیکھ سکتا تھا۔مختصر وقفہ کے ساتھ اس کے بازو محو حرکت تھے۔ میں سمجھ نہ سکا تھا کہ آخر وه گھر سے اتنی دور ویران جنگل میں لینے کیا آئی ہے۔ مجھے مزید تجسس نے آن گھیرا اور میرے قدم اسکی طرف بڑھ گئے۔ چلتے ہوئے اچانک میرے پیروں تلے کوئی سوکھی ہوئی شاخ آئی اور تڑک کر کے ٹوٹ گئی۔میں وہی ساکت ہو کر کھڑا ہو گیا۔ میری نگاہ حنا پر ہی رہی۔ ایک عجب سا شور جنم لے کر وصال کر گیا۔مجھے یقین تھا کہ اس نے یہ آواز سن لی ہوگی لیکن حنا تک شاید وه آواز نہ پہنچی تھی جبکہ میں کچھ ہی قدموں کے فاصلے پر اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ مجھے حوصلہ ہوا اور اب کی بار میں اور بھی محتاط ہو کر چلنے لگا۔ میں اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا تھا۔ قریب پہنچتے ہی میرے اوسان خطا سے ہونے لگے تھے۔ وه بلکل میرے سامنے شلوار اتار کر نیچے زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسکی گوری رانیں مجھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وه گھٹنوں میں سر لئے بیٹھی ہوئی تھی۔ وه بلکل مست ہو کر گویا مدہوش سی تھی۔ اس کے منہ سے عجب سی آہ ابھر رہی تھی۔ میں اوپر کھڑا اپنی نگاہیں جھکائے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ قمیض کے نیچے سے جاتا ہوا اپنی چھاتی پر سرسرا رہا تھا۔ وه جذبات کی آگ میں خود کو جلا کر لذت کے دریا میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسکا ایک ہاتھ اپنی چھاتی کے پیکر حسن سے بھرے ہوئے ابھار کو گویا بہت محبت کے ساتھ دبا رہا تھا۔ وه ہاتھ سرکتا ہوا کبھی کبھی اس کے نرم و ملائم پیٹ پر سہلانے لگتا تھا۔ اور وه دوسرا ہاتھ اپنی اندام نہانی پر بہت شدت اور نرمی سے پھیر رہی تھی۔ ہاتھوں کی جنبش کے ساتھ اس کے گلابی لبوں سے ایک ڈوبی ہوئی سسکاری ابھرتی جا رہی تھی۔ وہ خود میں ڈوبی ہوئی اپنے ہی جسم سے بیحد لطف اندوز ہو رہی تھی۔ وه کبھی كبهار سر کو اور بھی جھکا کر اپنی چھاتی کو اپنے ہونٹوں سے چھو لینے کی کوشش کرتی لیکن وه ایسا نہ کر پاتی تھی۔ میں آہستگی سے حرکت کرتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہو گیا لیکن ابھی تک میری موجودگی اسے نظر نہ آئی تھی۔ میں بلکل چپ چاپ کھڑا رہا۔ اسے اتنا قریب دیکھ کر بھی مجھ میں کوئی جذبہ کوئی تڑپ پیدا نہ ہوئی تھی۔ مجھے یاد تھا کہ اگر مجھسے کچھ ایسا ویسا سرزد ہو گیا تو میں روحانی دوستوں سے تعلق کھو بیٹھوں گا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھ میں انتشار نے سر نہ اٹھایا تھا ورنہ اس کا حسن و جمال اور پرکشش نازک بدن جذبات اور محبت کا بہت پیاسا تھا۔ وه بار بار اپنے ہاتھوں سے اپنے خوبصورت جسم کی تازگی کو چھو رہی تھی اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسی دوران اس نے سر اٹھا کر ایک طرف دیکھا اور وه شلوار اٹھا کر وہاں سے بھاگ اٹھی۔ ۔۔۔ میں ایک لمحہ کے لئے اس طرف پلٹا جس طرف حنا دیکھتے ہوئے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھی تھی۔ ۔۔ میں نے دیکھا وہاں ایک کالا ناگ اپنا چوڑا پھن پھیلائے ہوا کھڑا تھا۔ وه مستی میں دائیں بائیں جھول رہا تھا۔ اسکے کھلے ہوئے بھیانک پھن کا رخ اسی طرف تھا جس طرف حنا بھاگتی ہو جا رہی تھی۔ میری نظر حنا کے پیچھے دوڑی۔۔وه وہاں مجھے کہیں بھی دکھائی نہ دی تھی۔ میں نے جب دوبارہ پھر اس زہریلے کالے ناگ کی طرف دیکھا تو وه وہاں موجود نہ تھا۔ میں وہاں مزید رکنا نہیں چاہتا تھا۔ کہیں مجھے یہ ناگ ڈس نہ لے ۔۔۔۔ ❗ یہ خیال آتے ہی میرا وجود لرز کر رہ گیا۔ ۔میں فوراً وہاں سے لپكا اور اس جھنڈ سے باہر نکل آیا۔۔میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اچانک مجھے لگا جیسے پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا دیا ہو۔ میں پیچھے کی جانب پلٹا تو وه جوزف تھا۔ اسکا ہاتھ ابھی بھی میرے کندھے پر تھا۔ اسکے ہاتھ کی لرزش مجھے کندھے پر محسوس ہو رہی تھی۔ وه کچھ بول رہا تھا لیکن مجھے اسکی آواز بہت دور کہیں سے آتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔ میں اس کی آواز کو بغور سننا چاہتا تھا۔ میرے کانوں کی سماعت اسکی بات کو سمجھنا چاہتی تھی۔ میں اندر ہی اندر بہت زور لگا رہا تھا کہ میں اسکی بات سمجھ سکوں اور پھر اچانک اسکی آواز نے میرے کانوں کے پردے ہلا کر رکھ دیے۔ اٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔!!!! بلند آواز کا شور سن کر میری آنکھ کھل گئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یار تم کیا چیز ہو۔۔۔ !!! جب کوئی سوتا ہے تو تم رولا ڈال کر اسے اٹھا دیتے ہو۔ اور جب تمہیں کوئی نیند سے جگائے تو تمہاری آنکھ نہیں کھلتی۔ ۔۔۔ اٹھ جاؤ۔۔۔ سورج سر پر ہے۔ جناب کو سردیوں میں بھی پسینے آ رہے ہیں۔ ۔۔ جوزف مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے چیخ رہا تھا۔ اور میں اسے بغور دیکھتے جا رہا تھا۔ اٹھ تو گیا ہوں اب تم رولا مت ڈالو یار۔ ۔۔ میں نے بستر سے باہر نکلتے ہوۓ کہا۔۔ ادھر سے فون پر فون آ رہا ہے۔شاید اس لڑکی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں پھر سے جانا پڑے گا۔ جوزف نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ اور میں اور بھی تشویش میں پڑ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ دن کا اجالا آج بھی پوری آب و تاب میں چمک رہا تھا۔کزن ٹونی اپنے کام پر جا چکا تھا۔اور میں جوزف کے ساتھ حنا کے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ آج بھی ہم بائیک پر سوار تھے۔ بل کھاتی ہوئی کچی گرد آلود سڑک ہمیں ہماری منزل کے قریب کرتی جا رہی تھی۔ کافی دیر بعد آخر ہم حنا کے گھر جا پہنچے تھے۔ دعا سلام کے بعد اب حنا اپنی امی کے ساتھ میرے سامنے موجود تھی۔ وه بزرگ بابا اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ انکا ہمارے پاس موجود ہونا اہم نہ تھا۔ اور حنا کا شوہر اسلم آج صبح ہی اپنے کام پر چلا گیا تھا۔ ہم چاروں کل والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان وقفہ وقفہ سے سرگوشیاں پیدا ہو رہی تھیں۔اور پھر مجھے جو ضروری لگا میں نے وہی کیا۔ ۔۔ میں اس گھر میں موجود آفت کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے جوزف اور اس عورت کو اٹھ کر کمرے سے باہر جانے کو کہہ دیا تھا۔ کچھ باتیں اہم اور ضروری ہوتی ہیں اور حکیم کے سامنے جھوٹ بولنا خود کو ہی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ شرح میں شرم نہیں رکھی جا سکتی۔ ۔۔ ۔! کمرے میں اب صرف میں اور حنا رہ گئے تھے۔ حنا موٹی گرم چادر لئے سر جھکائے ہوۓ میرے سامنے صوفہ پر براجمان تھی۔ دیکھئے۔۔۔ آپ مجھسے کھل کر بات کریں۔۔جو ہوا سو ہوا۔وه ماضی تھا۔اور ہو سکتا ہے کہ مجھے پتہ بھی چل گیا ہوگا۔ اور اگر گھر میں دوسرے افراد کو بھی وه سب پتہ چلے تو اس میں عزت باقی نہیں رہ پائے گی۔ اس لئے مجھے صاف صاف بتائیں کہ آپ کے ذہن اور دل میں کیا چیز آپ کو مجبور کرتی ہے !!؟ میں نے حنا سے قدرے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کی۔وه میرے اس سوال پر گویا چونک سی گئی تھی۔ اس نے آج پہلی بار نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا تھا۔ گورا سفید پھول جیسا چہرہ آج اترا اترا سا تھا۔ موٹی لمبی حسین آنکھوں میں آج گہری تشویشناک خاموشی جھلک رہی تھی۔ اس کے گلابی نرم ہونٹ لرز سے رہے تھے۔ وه ابھی تک کچھ بول نہ پائی تھی۔ وه ٹکٹکی باندھے ہوئے مجھے بغور دیکھنے لگی تھی۔ آپ گھبرائیے مت۔ ۔۔ میں آپ کے ہر مسلے کا حل کر کے جاؤں گا۔مجھے بس یہ جاننا ہے کہ یہ شروعات کب اور کیسے ہوئی ! میرے لئے یہ جاننا ضروری ہے۔ گانٹھ جہاں پر دی جائے۔۔وہی سے کھولی جا سکتی ہے۔۔بھروسہ رکھیں آپ۔۔۔میں نے حنا کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔اس بار وه تھوڑا سرک کر میرے بلکل روبرو ہو گئی۔وه گہری نگاہ سے میری طرف دیکھنے لگی تھی۔ جاری ہے !!!! 3 آخری قسط پڑھیں |
خبیث جن قسط 2
0
February 20, 2025
Tags