![]() |
آسیب_زدہ_مکانقسط نمبر 1 ایک ایسے شخص کی کہانی جسے آسیب زدہ مکانوں میں رہنے کا شوق تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوفناک رات تھی وہ ۔ دلوں پر دہشت طاری کر دینے والی۔ بے حد سرد اور تاریک۔ ہواؤں کے جھکڑ یوں چل رہے تھے گویا طوفان آ گیا ہو۔ ساتھ میں دھواں یوں میں رہے دار بارش نے قیامت برپا کر دی تھی۔ میں نے اُٹھ کر آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈالی اور سلاخ سے آگ کو کرید کر جب پلٹا تو سر احسان چائے کی پیالی کا آخری گھونٹ ختم کر کے سگریٹ سلگا ر ہے تھے۔ میری طرف دیکھ کر وہ بولے۔ اف کس قدر خوفناک رات ہے جیسی آج سے سات ہفتے پہلے میں نے ایک آسیب زدہ مکان میں گزاری تھی۔“ میں نے حیرت سے سر احسان کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ معمول کے مطابق سنجیدہ تھا اور وہ آتش دان میں رقص کرتے ہوئے آگ کے سرخ سرخ شعلوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ آسیب زدہ مکان میں نے استفہامیہ انداز میں کہا کیا آپ بھی بدرجوں اور آسیب پر یقین رکھتے ہیں۔ میرے یقین نہ کرنے کی وجہ انہوں نے بھنویں سیکٹر کر پوچھا۔ اس لیے کہ آپ سائنسدان اور فلسفی ہیں . میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ اور آپ جیسا شخص ان تو ہمات کا قائل نہیں ہو سکتا ۔“ نہیں میرے دوست ... میں بدرجوں کا قائل نہیں سر احسان کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ انھوں نے سگریٹ کا طویل کش کھینچا اور دھواں نتھنوں سے خارج کرتے ہوئے بولے۔ آج سے سات ہفتے قبل تک اگر کوئی شخص مجھے بدروحوں کی موجودگی کا یقین دلانے کی کوشش کرتا تو میں اس کی باتوں پر کان دھرتا مگر اب انھوں نے جملہ نا مکمل چھوڑ دیا۔ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ ی کتنی عجیب بات ہے کہ میں نے نہ کسی بھوت کو دیکھا نہ بدروح کو مگر پھر بھی مجھے ان کے وجود کا قائل ہونا پڑا چند لمحے رک کر وہ پھر بولے۔ ۱۰ ڈیڑھ ماہ قبل جب میں اٹلی سے واپس آیا تو مجھے ایک آرام دہ اور پر سکون مکان کی ضرورت تھی ۔ ہں ۔ اطمینان سے اپنے بعض تجربات کو عملی شکل دینا چاہتا تھا۔ ایک الگ تھلگ اور قدرے ویران علاقے سے گزرتے ہوئے میں نے ایک مکان پر بورڈ لگا دیکھا۔ اس کے ذریعے پتہ چلا کہ مکان کرانے کے لیے خالی ہے۔ میں نےمکان اندر سے دیکھا۔ بلا شبہ نہایت خوبصورت اور آرام دہ تھا اور میری تمام ضروریات کے لیے کافی ۔ کمرے کشادہ دالان وسیع اور برآمدے صاف ستھرے پھر ہر طرف ایک سکون آمیز خاموشی بہر حال میں نے متعلقہ آدمی سے بات کی۔ کرایہ اس کے حوالے کیا اور مکان پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تیسرے ہی دن مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ میں نے غلط ८८ کہا۔ میں نہیں بھاگا بلکہ میری بیوی نے مجھے وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر وہ عورت وہاں مزید ایک دن اور رہتی تو اس کا ہارٹ فیل ہو جاتا ۔ غالباً آپ کی بیوی کو کوئی بھوت نظر آگیا ہو گا میں نے طنزیہ لہجے میں کہا، لیکن سر احسان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا۔ نہیں اسے کوئی بھورت دوت نے نہیں آیا۔ البتہ بھوت کی موجودگی کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ اس لیے میں نے مقفل کمرے کے بارے میں اس سے پوچھا تھا۔ یعنی ایک کمرہ مقفل تھا اور اس کی چابی دینے سے مالک مکان نے انکار کر دیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔ چونکہ مکان کے دوسرے کمرے ہماری ضروریات کے لیے کافی تھے اس لیے مقفل کمرے کی چابی لینے پر میں نے اصرار نہیں کیا تھا۔ کیا اس کمرے میں کوئی خاص بات تھی ؟“ ہاں میرے دوست اس کمرے ہی میں کچھ تھا۔ سر احسان نے لفظ ” کچھ پر زور دیتے ہوئے جواب دیا نہ جانے کیا بات تھی کہ میں جب بھی ادھر سے گزرتا۔ میرے بدن کا رواں رواں کا پینے لگتا۔ چہرے پر پسینے کے قطرے ابھر آتے اور دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ۔ یہی کیفیت میری بیوی کی ہوتی ۔ ابتدا میں ہم کچھ نہ سمجھے کہ کیا معاملہ ہے شاید نئے مکان کی ہوا کا اثر تھا۔ مگر جب مسلسل تین دن اور تین راتیں ہم پر یہی کیفیت گزری تو چوتھے روز میری بیوی نے مکان چھوڑ دینے کا مصم ارادہ کر لیا اور مجھے اس کا ساتھ دینا پڑا تاہم جانے سے پہلے میں نے اس بڑھیا کو بلایا۔ یہ بڑھیا اسی مکان کے ایک گوشے میں نہ جانے کب سے رہتی تھی۔ اسے مالک کی طرف سےمکان کی دیکھ بھال اور کرائے داروں کا چھوٹا موٹا کام کرنے پر مقرر کیا گیا تھا۔ جب میں نے بڑھیا سے کہا کہ ہمارا ارادہ اس مکان میں رہنے کا نہیں تو اس نے گردن ہلائی اور کہنے لگی۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ کو یہاں سے بھاگنا پڑے گا۔ وہ آپ کو بھی چین سے نہ رہنے دیں گے۔ آپ سے پہلے کئی لوگ اس مکان میں رہنے آئے لیکن کوئی بھی ایک یا دو راتوں سے زیادہ اس میں رہنے کی جرات نہ کر سکا۔ آپ نے بلاشبہ بڑی ہمت کی ہے کہ تین راتیں کاٹ دیں۔“ بڑھیا کے یہ الفاظ سن کر میں نے پوچھا۔ وہ کون ہیں جو یہاں چین سے نہیں رہنے دیں گے ۔ اس کے جواب میں وہ میری طرف یوں تکنے لگی جیسے میں احمق ہوں ۔ پھر بولی۔ بد رو حیں اور کون ...... وہ برسوں سے اس مکان میں ہیں اور میں بھی برسوں سے اس مکان میں ہوں۔ انھیں میری موجود گی بھی پسند نہیں۔ مگر میں ہرگز مکان نہیں چھوڑوں گی۔ خواہ وہ مجھے مار ہی ڈالیں اور یقینا ایک نہ ایک روز مجھے انہی کے ہاتھوں مرتا ہے اور پھر میں بھی بدروحوں میں شامل ہو جاؤں گی ۔ آہاہا “ اس نے لرزہ خیز انداز میں اپنا منہ کھولا اور جمعہ لگانے کی کوشش کی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ بڑھیا کی گوشت پوست کی بنی ہوئی مخلوق نہیں بلکہ کوئی بد روح ہے۔ پھر آپ نے کیا کیا ؟ میں نے پوچھا۔ کیا کرتا ؟ اسی وقت اپنا سامان بندھوایا اور رخصت ہو گیا ۔ اگر میری بیوی وہاں سے فورا جانے پر بضد نہ ہوتی تو شاید میں اس مکان میں مزید قیام کرتا ۔“ سر احسان نے اُٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ه بارش کسی قدر ہلکی ہو گئی ہے۔ اب میں جاتا ہوں خدا حافظ۔“ انھوں نے دروازہ کھولا ... یخ بستہ ہوا فراٹے بھرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر سر احسان ایک نامیے کے لیے رکے اوربولے۔ کیا آپ اسی مکان کے متعلق سوچ رہے ہیں؟ جی ہاں میں نے جواب دیا۔ از راہ کرم اس کا پتہ بتاتے جائیے میں بھی اس مکان میں ایک دو روز قیام کرنا چاہتا ہوں ۔“ سر احسان نے قہقہہ لگایا ضرور ضرور میں پہلے ہی جانتا تھا کہ آپ اس مکان میں قیام کیے بغیر نہ رہیں گے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے پتہ بتا دیا اگلے روز میں اس عظیم الشان عمارت کے پاس کھڑا تھا۔ شہر کا یہ حصہ آدمیوں کی آمد و رفت سے خالی سب سے الگ تھلگ اور ایک قسم کا گوشہ تنہائی تھا ان لوگوں کے لیے جو شہر کے ہنگاموں سے کترا کر پر سکون زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں میرا خیال تھا کہ جس بڑھیا کا ذکر سر احسان نے کیا تھا وہ مکان کے اندر ہو گی۔ اس لیے میں نے صدر دروازے پر زور سے دستک دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ سب کھڑکیاں بند تھی اور ارد گرد کوئی آدمی بھی نظر نہ آتا تھا۔ جس سے مالک مکان کا اتا پتا پوچھتا ۔ مایوس ہو کر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ بارہ سال کا ایک لڑکا موڑ پر نمودار ہوا اور مجھے وہاں کھڑا دیکھ ادھر ہی آگیا۔ السلام علیکم انکل اس نے مودبانہ انداز میں کہا۔ کیا آپ مالک مکان طالب حسین سے ملنا چاہتے ہیں؟ ہاں مگر سنا ہے کہ اس مکان میں کوئی بڑھیا رہتی تھی ، تین ہفتے ہوئے بے چاری بچاری مرگئی۔ اس وقت سے یہ مکان بالکل خالی ہے اور کوئی شخص اسے کرائے پر لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا حالانکہ مالک مکان نے کرایہ بے حد کم کر دیا ہے۔ اس نے میری ماں سے کہا تھا کہ ہفتے میں ایک دو بار مکان کی صفائی کر دیا کریں۔ لیکن امی نے کانوں پر ہاتھرکھتے ہوئے انکار کر دیا ۔ "کیوں؟ آپ کو معلوم نہیں انکل کہ یہ مکان بھوتوں کے قبضے میں ہے۔ بڑھیا کو بھی انہوں نے ہی مارا ہے۔ وہ اپنے بستر پر مری ہوئی پائی گئی تھی اور اس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ لڑکے نے خوف سے جھر جھری لیتے ہوئے کہا۔ میں نے اس سے مالک مکان کا پتہ پوچھا اور اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ خوش قسمتی سے وہ گھر پر ہی مل گیا۔ ادھیڑ عمر کے ایک چالاک اور ذہین آدمی نے مصنوعی تبسم سے میرا استقبال کیا۔ کہیے جناب آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟ اس نے پوچھا۔ میں نے سنا ہے کہ بستی رسول پورہ والا مکان آپ کی ملکیت ہے اور آج کل کرائے کے لیے خالی ہے. میں اسے کرائے پر لینا چاہتا ہوں ۔ اوه ... وہ خوشی دکھاتے ہوئے بولا میری خوش نصیبی ہے کہ آپ تشریف لائے لیکن۔ میں جانتا ہوں میں جانتا ہوں میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ مکان آسیب زدہ ہے کیا یہی کہنا چاہتے ہیں اصل میں بات یہ ہے کہ آسیب واسیب کے قصے تو لوگوں نے مشہور کر رکھے ہیں آج تک کسی نے وہاں کچھ نہیں دیکھا۔ تاہم میرا فرض تھا کہ ان افواہوں سےآپ کو خبر دار کروں تا ا بعد میں کوئی شکایت نہ ہو۔ جب تک آپ کا جی چاہے ، مکان میں رہیے۔ کرائے کے نام سے ایک پیسہ نہ لوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس میں قیام کریں تا کہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی دہشت دور ہو اور وہ آئندہ اس کے آیاب زدہ ہونے کی خبریں وضع نہ کریں۔ ارے آپ ابھی تک باہر کھڑے ہیں۔ آئیے اندر تشریف لے آیے مکان کی چابیاں ابھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ اس نے بعجلت اپنے گھر کا بیرونی دروازہ کھولا اور ایک آرام دہ صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ بیٹھئے جناب میں خود یہاں اجنبی ہوں اور عرصہ دراز کے بعد دور ہی سے آیا ہوں ۔ دراصل یہ مکان جسے آپ لینے آئے ہیں۔ میرے چچا کی ملکیت تھا اور ان کے انتقال کے بعد میں چونکہ قانونی وارث ہوں اس لیے یہ مصیبت میرے سر آن پڑی میں خود بھی اس میں ایک رات رہا اور سوائے اس کے کہ کچھ ویرانی ویرانی سی ہے مجھے کوئی آسیب دکھائی نہیں دیا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کا رنگ ایک لمحے کے لیے متغیر ہوا لیکن پھر مصنوعی بشاشت پیدا کر کے کہنے لگا۔ جب سے وہ بڑھیا بد بخت مری ہے لوگ طرح طرح کی افواہیں بے مقصد اُڑانے لگے ہیں۔ خدا انھیں غرق کرے ۔ کل بھی ایک شخص کہہ رہا تھا کہ بڑھیا کو بدروحوں نے گلا گھونٹ کر مارا ہے۔ بھلا بتایئے جناب۔ کسی بدروح نے آج تک کسی انسان کا گلا گھونٹا ہے؟ وہ بڑھیا کتنے عرصے سے اس مکان میں رہ رہی تھی ؟“ چالیس سال سے جناب ... چالیس سال سے اور اس طویل عرصے میں اس پر کسی بد روح یا آسیب نے توجہ نہیں دی. خدا رحم کرے ہم لوگوں کی عقلوں پر۔ اب اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی تھی اور اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہی تھا ..... مکان کے بارے میں یہ افواہ پہلے پہل کب اڑی کہ وہ آسیب زدہ ہے ؟ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ تاہم اس بڑھیا نے مجھے بتایا تھا کہ جس زمانے میں وہ اس مکان میں آئی تھی اسی زمانے سے یہ مکان بدنام ہے۔ بہر حال اپنے چچا کی موت کے بعد گزشتہ سال جب میں یہاں آیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ مکان آسیب زدہ ہے۔ لیکن میں نے اس بکو اس پر دھیان نہ دیا ۔ مکان خاصا بڑا اور مضبوط ہے اور میں خوش تھا کہ اگر اس پر رنگ و روغن کر دیا جائے اور نیا فرنیچر لگ جائے تو اچھا کرایہ مل جائے گا چنانچہ میں نے لوگوں کی باتوں پر دھیان دیئے بغیر اس کی مرمت کرائی اور آپ خود دیکھ لیں گے کہ مکان بالکل نیا ہو گیا ہے لیکن افسوس کہ ان افواہوں کی وجہ سے کوئی بھی کرائے دار دو دن سے زیادہ اس میں نہیں رہا۔“ مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے ۔ میں نے کہا۔ بس کیا عرض کروں جناب اس نے اس طرح گردن ہلائی جیسے واقعی اسے اپنی بد نصیبی پر افسوس ہو۔ کیا عرض کروں ..... جب تک دوبئی میں رہا کوئی پریشانی لاحق نہ ہوئی اور اب یہاں آتے ہی میرے لیے مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ تھوڑی بہت رقم میرے پاس تھی وہ اس منحوس عمارت کی مرمت میں لگا چکا ہوں .. اب فاقوں تک نوبت آ پہنچی ہے۔ مکان بیچنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا، اخباروں میں اشتہار دیئے دلالوں سے بات کی زیادہ کمیشن کا لالچ دیا مگر بے سود مکان کے آسیب زدہ ہونے کی کہانیاں خریداروں تک پہنچتی ہیں تو وہ کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں اور مکان خریدنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں کوئی بھوت پریت نہیں صرف ہمارے اعصاب کی کمزوری ہے جو ہمیں بھوت بن کر ڈراتی ہے۔ آپ مضبوط اعصاب اور پختہ دل و دماغ کے آدمی دکھائی دیتے ہیں خدا کے لیے وہاں جا کر رہیے ... اور لوگوں کے دلوں سے بدروحوں کا خوف نکالیے ۔“ فرض کرو میں مضبوط اعصاب کا مالک نہ ہوتا کیا پھر بھی آپ مجھے اس مکان میں رہنے کا ایمانداری سےمشورہ دیتے ؟“ طالب حسین نے حیرت سے منہ کھول کہ میری طرف دیکھا اور چند لخطے تامل کے بعد بولا ۔ آپ کا مقصد میں سمجھ گیا اور بخدا جھوٹ نہ کہوں گا اگر میں یہ جانتا کہ آپ کمزور اعصاب کے مالک ہیں تو اس مکان میں ہرگز ہرگز ایک رات کاٹنے کی بھی اجازت آپ کو نہ دیتا ... "کیوں ....؟ اس کا جواب میں نہیں ۔۔ ...... در اصل خود میں وہاں ایک رات رہا اور اگر چہ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا۔ تاہم کسی نامعلوم خوف کے زیر اثر میرے جسم کے رونگتے بار بار کھڑے ہوتے تھے اور صبح ہونے سے پہلے میری حالت اس قدر ابتر ہوگئی کہ میں بمشکل باہر نکل سکا۔“ میں آپ کا شکر گزار ہوں طالب حسین صاحب کہ آپ نے از راہ نوازش اتنی باتیں بتا ئیں ..... اب اس مکان کی چابیاں عنایت فرمائیے ۔“ اس نے ایک الماری کھول کر چاہیوں کا کچھا نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور رخصت کرنے دروازے تک آیا۔ خدا حافظ جناب۔“ اس نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس مکان میں آرام سے رہیں گے اور بہت جلد کوئی اچھی خبر آن کر سنائیں جب میں اپنے گھر پہنچا تو آسیب زدہ مکان میں رہنے کا پورا نقش :ذ ہن میں مرتب ہو چکا تھا۔ میں نے ان تمام روایتوں پر سندے دل سے غور کیا جو مالک مکان نے سنائی تھیں یا اس نے مختلف لوگوں اور کرایہ داروں سے سنی - تھیں۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ معاملہ پر اسرار ضرور ہے۔ ۔ کیونکہ اتنے افراد بلا ضرورت جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ ۔ بہر حال میں اس کی تہہ تک پہنچنے کا تہیہ کر چکا تھا۔ شام ہونے سے کچھ دیر پہلے میں نے اپنے نوکرسدھیر کو بلوایا ۔ پستہ قامت، مضبوط جسم اور چمکتی سیاه آنکھوں والا سد ھیر انتہائی نڈر اور بے خوف آدمی تھا اور میری طرح اسے بھی آسیب زدہ مکانوں : میں رہنے اور جان لیوا قسم کی مہموں میں کو میں کود پڑنے کی عادت ہو گئی تھی۔ میرے چہرے پر سوچ و بچار کے اثرات دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا قریب آکر بولا ۔ ماسٹر آپ کچھ پریشان پریشان نظر آتے ہیں خیر تو ہے؟“ وہ جب سے میرے ہاں ملازم ہوا تھا مجھے ماسٹر ہی کہا کرتا تھا۔ ہاں خیریت ہی ہے۔ یہ لو چابیاں، بستی رسول پورہ میں ایک بڑا سا مکان میں نے کرائے پر لیا ہے۔ یہ اسی مکان کی چابیاں ہیں میں آج کی رات اس مکان میں گزارنا چاہتا ہوں اپنے ساتھ چند آدمی لے جاؤ۔ صفائی وغیرہ کر کے بڑے کمرے کے آتش دان میں آگ روشن کر دینا اور ہاں ریوالور ضرور ساتھ لے جانا ۔ اس نے چابیاں لیتے ہوئے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کیا وہاں ریوالور کی ضرورت بھی پڑے گی ؟ شاید پڑ جائے ۔ میں نے کہا۔ ” اس لیے کہ وہ مکان آسیب زدہ مشہور ہے۔ سد ہیر کا چہرہ فرط مسرت سے روشن ہو گیا ۔ ایک نئی مہم اس کے سامنے تھی . وہ چل دیا۔ آه ماسٹر ...... آسیب زدہ مکان ...... اب آئے گا مزہ ... مجھے بھی بھوتوں کی زیارت کیئے ہوئے عرصہ گزر چکا ہے آپ کو یاد ہے ماسٹر کوئٹہ کا وہ پرانا مکان جس میں ہم تین ماہ رہے تھے اور بھوتوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔“ سد ہیر نے کوئٹہ کے جس پرانے مکان کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہ آسیب زدہ نہیں تھا لیکن اس کے آسیب زدہ ہونے کی داستانیں مشہور تھیں۔ وہ مکان بہت بڑا حویلی نما مکان تھا۔ اور بقول مقامی لوگوں کے اس میں بھوتوں کا قبضہ تھا حالانکہ حقیقت صرف اتنی تھی کہ چند ذہین جرائم پیشہ افراد کی ایک ٹولی نے اسے اپنا اڈہ بنا رکھا تھا اورسائنس کی مدد . سے مکان کے مختلف حصوں میں یہ لوگ راتوں اور کبھی کبھی دن کے وقت بھی طرح طرح کے شعبدے دکھا کر مقامی لوگوں کو خوفزدہ کرتے تھے۔ لیکن جب میں نے مکان کے ایک حصے کو اپنی رہائش گاہ بنا لیا تو ان مجرموں نے بھوتوں کا روپ دھار کر مجھے ڈرانے کی کوشش کی چند ہی روز بعد چھت پر سے دفعتاً خون کی بارش ہوئی اور میرا بستر اور کپڑے خون میں رنگ گئے تو میں سمجھا کہ یہ واقعی آسیب زدہ ہے۔ لیکن جب میں نے اپنی تجربہ گاہ میں اس خون کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ مصنوعی خون ہے جو کسی ٹیوب یا پچکاری کے ذریعے پھینکا گیا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ ایک ماہ کے اندر اندر میں نے ان مجرموں کو گرفتار کر کے حکام کے حوالے کر دیا۔ دو نہیں بھئی یہاں حالات کچھ اور ہیں ۔ میں نے سرد ہیر کو بتایا۔ ممکن ہے اس مکان میں بدروحیں ہی رہتی ہوں ...... کتے کو بھی اپنے ساتھ لے جانا " اجی ان کی ایسی کی تیسی سدھیر نے جوش میں آکر کہا۔ میں ابھی وہاں جاتا ہوں اور بدروحوں سے کہہ دیتا ہوں کہ اپنا بوریا بستر باندھ لو اور رخصت ہو جاؤ ور نہ ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی۔ آپ کے آنے تک میں کمرہ صاف کر کے آگ روشن کر دوں گا۔ اطمینان سے آئے گا میں اتنی دیر میں بھوتوں سے اپنا اور آپ کا تعارف کراؤں گا ۔ اس نے قہقہہ لگا کر کہا اور چلا گیا۔ کھانا کھا کر جب میں چلنے کے لیے تیار ہوا تو آسمان پر بادل کی گرج اور بجلی کی چمک سے پتا چلا کہ بارش آج پھر ہونے والی ہے۔ سرد ہوا کے جھونکے آہستہ آہستہ جھکڑوں میں تبدیل ہو رہے تھے اور شائیں شائیں کے شور سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے میں نے گرم سویٹر پہنا اور احتیاطا ایک کمبل بھی لے لیا۔ تیل سے جلنے والی لالٹین ہاتھ میں پکڑی ۔ جیب میں ریوالور رکھا اور گلی میں نکل آیا۔ اکا دُکا بوندیں گرنے لگیں میرا محلہ سنسان اور تاریک پڑا تھا۔ میں تیزی سے بہتی رسول پورہ کی طرف چل دیا ۔ یہ سوچ کر کہ نئے اور پھر آسیب زدہ مکان میں پہلی رات جاگ کر ہی کاٹنی ہے۔ اس لیے ایک کتاب بھیساتھ لے آیا تھا۔ بہر حال ٹھیک ساڑھے نو بجے جبکہ ہوا تیز بارش کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ میں آسیب زدہ مکان کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ میں نے آہستہ سے دستک دی۔ فوراً ہی دروازہ کھلا اور سد ہیر کا پھولا ہوا چہرہ دکھائی دیا۔ کہا۔ ارئے تم ابھی زندہ ہو میں نے مذاقاً معلوم ہوتا ہے بدروحیں تم سے ڈر گئیں؟“ میرا خیال تھا کہ یہ فقرہ سن کر وہ حسب عادت ہنسے گا لیکن اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ اور جلی ہوئی لائٹیں اونچی کر کے مجھے راستہ دکھانے لگا۔ ادھر سے آیئے ماسٹر ۔ یہ دوسرا کمرہ میں نے آپ کے لیے ٹھیک کر دیا ہے۔ گرد سے اٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ایک وسیع اور نہایت آرام دہ کمرے میں پایا۔ فرش پر نہایت پرانا مگر بیش قیمت قالین بچھا تھا اور پرانے زمانے کا شاندار اور بھاری فرنیچر جس میں ایک لمبی میز دو کرسیاں اور ایک مسہری شامل تھی، اس کمرے میں سجا ہوا دکھائی دیا۔ فراخ آتش دان میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرے کی چھت انداز میں فٹ اونچی تھی اور اس پر عجیب عجیب نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ میں نے سوئیٹر اتار کر کرسی پر ڈال دیا اور سد ہیر کی طرف دیکھ کر کہا۔ تمہارے چہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی خاص بات ہے ۔ نہیں ماسٹر خاص بات تو کوئی نہیں ۔ لیکن جب سے میں آیا ہوں مکان کے مختلف حصوں میں کسی کے چلنے پھرنے اور سرگوشیاں کرنے کی آوازیں گونج رہی !ہیں ممکن ہے یہ آوازیں تیز ہوا اور بارش کے شور کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہوں .... میں نے کہا۔ اچھا یہ بتاؤ مکان تمہیں پسند آیا ؟“ کہو تو اسے خرید لوں .....؟ مکان تو شاندار ہے ماسٹر اگر چہ پرانا ہےلیکن ہے کسی وزیر امیر کی رہائش گاہ تھیں کمرے ہیں جناب اس میں گیلریوں اور برآمدوں اور غلام گردشوں کا تو شمار ہی نہیں ۔“ یکا یک میری کرسی ہلی اور یوں محسوس ہوا کہ کسی نے میرا ٹخنہ پکڑ لیا ہے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی اور دوسرے ہی لمحے میرا پالتو کتا کھڑا محبت سے دم ہلا رہا تھا۔ د کم بخت نے ڈرا ہی دیا . میں نے ہنس کر کہا۔ آؤ سیدھیر ذرا ایک نظر میں بھی اس مکان کے اندرونی حصوں پر ڈال لوں ۔“ جب ہم دونوں کمرے سے نکلے تو کتا دروازے تک ساتھ آیا، لیکن غلام گردش میں آنے کے بعد وہ دوبارہ کمرے کی طرف بھاگا. اس کی حالت میں یکدم ایسا تغیر رونما ہوا کہ بیان سے باہر تھا۔ وہ دم دبا کر سکڑ اسمٹا دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا اور اس کی آنکھیں باہر کو نکلی پڑی تھیں۔ پھر وہ حلق سے ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے اس کا گلا گھونٹا جا رہا ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر کتے کو " چمکارا۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تب اس کی حالت ٹھیک ہو گئی اور چپ چاپ ہمارے پیچھے چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کتا خلاف معمول میرے پیچھے ہی پیچھے چلتا آ رہا ہے۔ آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کی پھرتی اور شوخی جیسے ختم ہو چکی تھی۔ نہایت ڈرا ڈرا سہا سہا سا نظر آتا تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کتے بلیوں کو بعض ایسی چیزیں دکھائی دے جاتی ہیں جنھیں انسان نہ دیکھ سکتا ہے نہ ان کی موجودگی سے باخبر ہو سکتا ہے۔ اب پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ یہ مسئلہ اتنا سرسری نہیں جتنا میں سمجھ رہا ہوں اور یہاں میرا واسطہ شعبدے بازوں سے نہیں۔ واقعی بدروحوں سے ہے۔ سد ہیر کی حالت بھی کتے سے ملتی جلتی تھی۔ عادت کے خلاف خاموش تھا حالانکہ کوئی اور موقع ہوتا تو اس کی زبان قیچی کی طرح چلتی رہتی۔ میں سب سے پہلے مکان کے گہرے اور تاریک تہہ خانے کو دیکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ سد ہیر نے جلتی ہوئی لالٹین کی بتی اونچی کی اور تہہ خانے کو جانے والا آہنی دروازہ پوری قوت سے کھولا ۔ گڑ گڑاہٹ کی مہیب آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ میرے سامنے لکڑی کی نہایت بوسیدہ اور گھن لگی ہوئی سیڑھیاں تھیں ۔ جو نیچے تاریکی میں غائب ہو جاتی تھیں۔ میں نے سدہیر کے ہاتھ سے لالٹین لے لی اور خدا کا نام لے کر پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔ لکڑی چر چرائی ایک لمحے کے لیے احساس ہوا کہ سیڑھی ٹوٹنے والی ہے۔ اور میں تحت الثریٰ میں جاگروں گا۔ لیکن فورا ہی میں سنبھلا اور دوسری سیڑھی پر قدم رکھا کتا اب مدہم آواز میں غرار ہا تھا۔ مگر اس کی آواز سے غصے کی بجائے خوف کا اظہار ہوتا تھا۔ "خدا کی پناہ کس قدر سلین اور بدبو ہے۔“ سد ہیر بولا۔ اس کی آواز تہہ خانے میں گونج اٹھی۔ دس بارہ سیڑھیاں طے کر کے ہم تہہ خانے کے فرش پر اتر گئے ۔ میں نے لالٹین اونچی کی اور اس کی کانپتی ہوئی سوگوار زرد روشنی میں تہہ خانے کا معائنہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں صدیوں سے کوئی انسان نہیں آیا۔ ہر طرف مکڑیوں نے بڑے بڑے جالے تن رکھے تھے۔ فرش کہیں کہیں سے کھدا اور ادھڑا ہوا تھا۔ اور یقینا یہ چوہوں کی کارستانی تھی۔ چند سیکنڈ بعد ہی دو موٹے تازے چوہے ایک گوشے سے نکلے اور دوڑتے ہوئے دوسری طرف چلے گئے ۔ وہ اپنے پنجوں اور دانتوں سے لکڑی کا فرش کھرچ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہماری آمد سے دوسرے چوہوں کو بھی خبر دار کر رہے ہیں۔ تہہ خانے کی دیواریں گیلی اور بوسیدہ تھیں۔ پلسترجابجا کھڑا ہوا تھا اور پرانی خستہ اینٹیں جھانک رہی تھیں۔ فرش پر بھی گرد کی ایک دبیز تہہ جم چکی تھی اور جب ہم چلے تو پیچھے ہمارے قدموں کے نشان واضح بنتے چلے جاتے تھے۔ تہہ خانے میں لکڑی کی بنی ہوئی چند بڑی بڑی پیٹیوں اور صندوقوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ خالی بوتلوں کا ایک ڈھیر کونے میں لگا ہوا تھا۔ تہہ خانے کی شمالی دیوار میں ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا میں نے اسے کھولنے کے لیے جو نہی ہاتھ بڑھایا۔ کتا بے چین ہو کر میرے قدموں میں لوٹنے لگا۔ گویا مجھے دروازہ کھولنے سے روک رہا ہو۔..................
|
آسیب زدہ مکان
0
February 05, 2025
Tags