![]() |
انسانی_لاش_کا_کمبل دوسری_قسط اس رونگٹے کھڑے کر دینے والے دوسرے قتل نے شہر کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی ہلچل مچا دی لیکن چونکہ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ اتنے جدید نہیں تھے اور معاملہ ایک دفعہ پھر دب سا گیا۔ ایک طرف دردناک سفاکانہ قتل ہو رہے تھے تو دوسری طرف سلونی کے حسن اور شباب کے چرچے کالج سے نکل کر شہر کی گلیوں میں بھی ہونے لگے مرد و خواتین اسکی مستانی آنکھوں سے لیکر اس کے حسین اور قیامت خیز سراپے کو ترسی نگاہوں سے دیکھتے اور ٹھنڈی آہیں بھر کر رہ جاتے۔ انہی دنوں کالج میں چندو کی پوسٹنگ ہوئی جو فریش گریجویٹ تھا اور وہ فلسفہ اور نفسیات کے مضامین پر مضبوط گرفت رکھتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں موجود دیگر مخلوقات کی موجودگی پر خفیہ طریقے سے تحقیق کر رہا تھا۔ چندو اونچا لمبا کشادہ پیشانی اور چوڑے سینے والا وجہیہ مرد تھا، اسکی آنکھوں میں شائستگی لیکن ذہانت کی چمک تھی اور وہ آس پاس کے ماحول پر بڑی گہری نگاہ رکھتا تھا۔ اس کی نظر جب سلونی پر پڑی تو وہ اسکی خوبصورتی یا نسوانیت کی طرف مائل نہیں ہوا بلکہ سلونی کے گھورنے کے انداز اور کسی للچائی ہوئی بھوکی شیرنی جیسی ٹھہری ہوئی نظر سے ہوا، سلونی کے آنکھیں جھپکنے کا انداز اور پیٹھ پیچھے کے منظر سے مکمل آشنائی اور پھر اچانک نظریں پھیر کر منظر سے غائب ہونے پر ہوا۔ اسی لمحے چندو کے دماغ میں سلونی کو لیکر غیر انسانی ہونے کا خیال آیا اور اگلے ہی لمحے سلونی چونکی اور منظر سے غائب ہو گئی۔ یہ بلکل ایسا ہی تھا جیسے سلونی نے چندو کا دماغ پڑھ لیا ہو۔ لیکن سلونی کی آنکھوں میں چندو کے لیے ہوس اور دل میں بھری ہوئی شہوت چندو کو اسکی پہلے والی سوچ کی نفی کرنے پر بھی مجبور کر رہی تھی۔ چندو اب سلونی کی تلاش میں رہتا لیکن کافی دن گزر جانے کے باوجود سلونی اسے دوبارہ نظر نہ آئی جیسے کہیں روپوش ہو گئی ہو۔ یہ بات اب دوبارہ چندو کے شک کو تقویت دینے لگی کہ سلونی کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ چندو نے اس پر منصوبہ بندی کی اور سلونی کے بارے میں سوچنا بند کر دیا۔ اور اپنی سوچ کو چھپا کر رکھنے کی مشق شروع کر دی۔ دو چار دن میں ہی وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔ اور اب وہ آنکھوں میں کچھ اور سوچتے ہوئے لا شعور میں سلونی کو ہی ڈھونڈ رہا ہوتا تھا جس کا فایدہ یہ ہوا کہ سلونی اسے پھر نظر آگئی اور اس دفعہ ذرا فاصلے پر کھڑی ہوبہو وہی ہوس و شہوت سے لبالب نظروں سے چندو کو گھور رہی تھی۔ چندو کمال مہارت سے اسکی آنکھوں میں دیکھے بغیر اسکا مشاہدہ کرتے منہ دھیان گزر گیا لیکن لا شعور میں وہ سلونی کی حرکات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھا۔ اسی دوران اسکو رشمی کا پتہ چلا اور اس نے باتوں باتوں میں رشمی سے سلونی کے بارے میں پوچھ لیا۔ تو رشمی نے جو پہلی بات کی اس نے چندو کے شک کو یقین میں بدل دیا۔ کیونکہ جب رشمی نے سلونی میں بدلاؤ دیکھا تو سلونی نے دو تین بار رشمی کے دماغ میں آنے والے شکوک کی وضاحت دی حالانکہ رشمی منہ سے کچھ نہیں بولی تھی۔ پھر کالج کا بگڑا ہوا لڑکا راکی جس نے سلونی کے جسم کو بلا اجازت اور نامناسب انداز میں چھوا تو سلونی نے اسکے منہ پر جو تپھڑ مارا وہ کسی مہر کی طرح راکی کے منہ پر نشانی چھوڑ گیا، آج ایک سال بعد بھی ہلکا نیلا وہ ہاتھ کا نشان غور کرنے پر راکی کے منہ پر نظر آتا تھا، اور راکی اس تھپڑ کے بعد بدمعاشی بھول کر سلونی سے چھپتا پھرتا تھا۔ رشمی کی یہ باتیں سن کر چندو بیس سالہ سلونی پر نظر رکھنے کا سوچنے لگا اور آگے کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے گھر کہ طرف چل پڑا۔ اب شہر میں ایک اور طرح کے واقعات ہونے لگے، ہر ایک دو ہفتے بعد ایک ہی رات چار پانچ وجیہہ اور ہینڈ سم مرد ہوٹل کے کمروں، فارم ہاؤسز یا ویران جگہوں سے بے ہوش اور برہنہ حالت میں ملنے لگے۔ انکے جسم پر انسانی دانتوں اور ناخنوں کے بڑے واضح اور گہرے نشانات ہوتے تھے۔ ہوش میں آنے پر وہ اس قدر خوف زدہ ہوتے کہ کئی دنوں تک بات کرنے یا خود پر بیتی سنانے کے قابل نہیں رہتے تھے، اور اکثر کے نفس زخمی ہوتے یا انکے اندر سے خون رس رہا ہوتا تھا جیسے ان کیساتھ اس وقت تک جنسی فعل کیا گیا ہو جب تک انکی حالت غیر نہ ہو جائے۔ نارمل ہونے کے بعد سب ایک ہی بات بتاتے کہ نقاب پوش خوبرو حسینہ انکو ورغلا کر ساتھ لے گئی اور پھر وہ بار بار انکے بے ہوش ہونے تک انکو استعمال کرتی اور ٹشو پیپر کی طرح پھینک جاتی۔ ان واقعات کا سلسلہ جاری تھا کہ شہر کے سب بڑے سنار اور اسکے دو کاروباری شراکت داروں کی اسی وحشی طریقے سے کی گئی موت اور پھر کمبل نما لاشیں انکے فارم ہاؤس سے برآمد ہوئیں۔ پنڈت کرشنا، کالیا اور اب تین بڑی کاروباری شخصیات کا اندوہناک قتل اور وہ بھی نہایت خاموشی اور بغیر کسی ثبوت کے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنتا جارہا تھا۔ دوسری طرف تاریخ میں پہلی بار مردوں کے ساتھ جنسی تشدد کر کے انکو زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑ کر نہایت چالاکی سے منظر عام سے غائب ہو جانا عوام کو اور بھی خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ ماؤں نے اپنے نوجوان وجہیہ لڑکے گھروں میں قید کر لیے اور شہر بھر کے جرائم پیشہ افراد بھی سہمے سہمے نظر آنے لگے۔ لیکن نہ قاتل کا کوئی سراغ مل رہا تھا اور نہ اس جنسی عورت نما بلا کا جو ایک ہی رات میں پانچ پانچ مردوں پر بھاری پڑ رہی تھی۔ چندو مسلسل سلونی پر نظر رکھے ہوئے تھا اور بڑی چالاکی کے ساتھ اسکے ریڈار میں آئے بغیر اسکے بارے میں کافی کچھ جان گیا تھا۔ لیکن چندو کے سوالوں کے جوابات سلونی پر نظر رکھ کر نہیں مل رہے تھے۔ پھر اس کو اپنے باپ پروفیسر امن داس کی وصیت یاد آئی جب مرتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ تمہارے سوالوں کے جواب تمہیں میری لائبریری میں ملیں گے۔ اس وقت چندو کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ امن داس کیا کہہ رہا، لیکن آج چندو کو جن سوالات کا سامنا تھا وہ انکے حل کے لیے باپ کی لائبریری میں جا گھسا تھا۔ ادھر سلونی کی دماغی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی کیونکہ اسکی دماغی حسیں اسے مسلسل کسی کی نظروں کے تعاقب کا اشارہ تو دیتی تھیں لیکن وہ سمت اور اس پر نظریں گاڑھنے والے کا دماغ پڑھنے سے قاصر رہتی۔ اس نے کئی بار چندو کو شک کی نگاہ سے دیکھا لیکن ہر بار چندو کے دماغ میں کچھ اور ہی ملا۔ یہ چندو کی شب و روز مشق کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنی اصل سوچ لاشعور میں رکھ کر سلونی کا مسلسل تعاقب کر رہا تھا۔ دوسری طرف پولیس نے شہر بھر سے اور آس پاس کے علاقوں سے طوائفیں اور انکے دلال گرفتار کر کے ان سے ہر حربہ آزما کر تحقیق کر لی لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ کیونکہ ایک ہی رات میں پانچ مردوں کی حالت غیر کرنا ایک اکیلی عورت کا کام نہیں ہو سکتا تھا جبکہ نشانہ بننے والے سارے لوگ ایک ہی عورت کا ذکر کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور وہ ابتک اس قدر خوف ذدہ تھے کہ گھروں میں محصور ہو کر رہے گئے تھے۔ چندو نے تقریبا سارے کاغذات چانچ پڑتال کر کے دیکھ لیے لیکن سب وہی پرانی باتیں اور پہلے سے کھوجی گئی مخلوقات کا ذکر تھا لیکن اس نئی جنسی اور درندہ صفت مخلوق کے بارے میں کچھ ہاتھ نہ لگا۔ جو ڈھونڈ کر شہوت سے بھرے ہوئے لڑکوں اور مردوں کا انتخاب کرتی ساتھ انکی ظاہری خوبصورتی کو بھی مدنظر رکھتی اور جن کا قتل کرتی انکے ساتھ جنسی فعل سے اجتناب بھرت رہی تھی۔ پہلا شکار ایک مذہبی اور تدریسی اعتبار سے شریف آدمی، دوسرا کرمنل اور تیسری واردات میں مرنے والے خالص کاروباری لوگ تھے۔ لیکن ان سب کی عمریں تقریبا 45 سے 50 کے درمیان تھیں۔ اور جنکو ہوس کا نشانہ بنایا گیا وہ بیس سے پینتیس سال تک کے مرد تھے۔ چندو انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے کالی فائل یاد آئی جس پر امن داس آنکھوں کی بینائی جانے سے پہلے کام کر رہا تھا اور وہ اسکی ذاتی الماری میں رکھی تھی۔ چندو بجلی کی تیزی سے باپ کے کمرے میں آیا اور فائل اسکے ہاتھ میں تھی۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے ساری فائل پڑھ لی۔ جسمیں انسان، جن اور بھیڑئیے کے ملاپ سے وجود میں آنے والی کسی انوکھی پرجاتی کا ذکر تھا۔ جو انسان کی طرح شاطر اور مکار، جنات کی طرح ذہن پڑھنے اور بھیڑئیے کی طرح درندہ صفت ہو سکنے کی چناوتی دی گئی تھی۔ اس کیساتھ ساتھ اگر وہ کسی زندہ انسان یا جاندار کا خون پئیے گی تو اس خون کے ذریعے وہی خصلتیں اس مخلوق میں منتقل ہو جانے کا اندیشہ بھی موجود تھا۔ اور اس میں صاف صاف پروفیسر امرناتھ کو متنبہ کیا تھا کہ اس کام سے رک جاو۔ اس میں پرانا حوالہ دیکر امرناتھ کی جن ذاد بیوی کا ذکر تھا جو امرناتھ کی حاملہ ہو کر اسے اولاد دینے سے قاصر تھی۔ لیکن دونوں اولاد کے بے حد خواہش مند تھے۔ اور امرناتھ کے کہنے پر ہی یہ تحقیق شروع کی گئی۔ اولاد کے لیے انکو ایک مادہ بھیڑیا درکار تھی جس کے رحم میں امرناتھ اور اسکی جن زاد بیوی کا بچہ پروان چڑھ سکتا تھا۔ اور انکی پرانی نایاب مذہبی کتاب میں چند عملیات ایسے تھے جو مادہ بھیڑیا پر بچے کی پیدائش تک کرنے تھے۔ اور بچے کی پیدائش مادہ کا پیٹ چیر کر ہی ممکن تھی۔ آگے کا باب اس پرجاتی کو کنٹرول یا قابو کرنے کا عنوان تو تھا لیکن معلومات ادھوری تھیں یا یوں لگتا تھا کوئی صفات پھاڑ کر لے گیا ہے۔ اور یقینا وہ امرناتھ ہی تھا جو اپنی اولاد پیدا کر کے اسے محفوظ کرنے کے لیے آخری باب کے صفحے پھاڑ کر ساتھ لے گیا تھا۔ چندو کا پہلا شک سلونی پر گیا کہ یہ جن، انسان اور بھیڑئیے کا ملاپ ہو سکتی لیکن اگر یہ سلونی تھی تو اسکا باپ امرناتھ نہیں بلکہ مورتی فروش کشن لال تھا۔ اور جو پہلا خون ہوا وہ پنڈت تھا کوئی شہوت ذدہ یا جرائم پیشہ تو نہیں تھا کہ سلونی اس طرف پڑتی۔ چندو وہاں سے سیدھا رشمی کے پاس گیا اور اس سے کالج میں آخری جمعے کا احوال پوچھا جس کے بعد پنڈت کی لاش ملی تھی۔ تو رشمی نے بتایا کہ پنڈت نے سلونی کو چھٹی کے بعد رکنے کو کہا تھا، اور یہ کہ پنڈت کافی شوقین مزاج تھا، وہ بھرپور جوان لڑکیوں کو اکثر ہیلے بہانے سے روکتا اور باتوں میں لگا کر انکے جسم کے قابل اعتراض جگہوں پر ہاتھ لگانے سے بھی نہیں کتراتا تھا۔ اور وہ سلونی کو کسی بھوکے کتے کی طرح للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تھا۔ اور اس دن جب اس نے سلونی کو روکا تو سلونی پریشان تو نہیں کافی غصے میں تھی اور مجھے اپنے ساتھ رکنے بھی نہیں دیا زبردستی گھر بھیج دیا تھا۔ لیکن چھٹی کے بعد شام میں سلونی کے گھر فون کیا تو وہ گھر پر ہی ملی تھی اور اس نے بتایا پنڈت نے کچھ نہیں کہا صرف ایک دو مورتیاں مرمت کروانے کے لیے دی تھیں۔ یہ ساری کہانی سن کر چندو کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی۔ اب اسے یہ تو یقین ہو چکا تھا کہ یہ سلونی ہی ہے لیکن اس بات کی تصدیق کے لیے اسکے اصلی ماں باپ کا پتہ لگانا ضروری تھا کیونکہ ان کے پاس سلونی کی بھیڑئی ماں کی عملیات کے زیر اثر لاش تھی۔ اور اسکے جادو کی کاٹ سے ہی سلونی کو اصلی حالت میں واپس لایا جاسکتا تھا۔ اور وہ کاٹ کیا ہوسکتی تھی یہ پتہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری تھا۔۔۔ اب چندو نے سلونی کا چوبیس گھنٹے پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ سلونی رات گئے گھر سے نکلی اور بڑی سڑک پر آتے ہی چہرے پر کیٹ وومن جیسا نقاب چڑھا لیا، وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی، اسکا سڈول اور ریشمی بدن اسکی چست لال قمیض میں غیض و غضب ڈھا رہا تھا، اور آنکھیں نقاب کے باجود چراغوں کی طرح چمک رہیں تھیں، اس نے نہایت عمدگی سے زلفیں دائیں کندھے سے آگے سینے پر گرائی ہوئیں تھیں جو اسکی چھاتی کے ابھار سے پھسل کر نیچے کمر تک آرہی تھیں۔ اور کمر کیا تھی جیسے کوئی نہایت قیمتی کمان شائستگی سے تنی ہوئی ہو اور اسکے نیچے کا اتار چڑھاؤ اتنا ریشمی تھا کہ نظر تک پھسل رہی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا نیچے ٹھہرے گی یا چڑھائی پر رکے گی۔ اس پر وہ نہایت مہارت سے کولہوں کو دل پگھلا کر رکھ دینے والے انداز میں ہلاتی ہوئی بے باک چلی جا رہی تھی۔ سڑک پر زیادہ ٹریفک نہیں تھی۔ اکا دکا گاڑیاں، کچھ سکوٹر اور دو چار سائیکل رکشے آ جا رہے تھے۔ گھر سے کافی دور آنے کے بعد سلونی ایک سائیکل رکشہ پر سوار ہو گئی تو چندو نے بھی سکوٹر کی رفتار بڑھا لی۔ سلونی کا ریڈار اسے خبر دے رہا تھا کہ کوئی ہے جو پیچھا کر رہا لیکن وہی سوال کہ کون؟ خیر وہ ہمیشہ کی طرح اپنا وہم سمجھ کر شہر کے سب سے بڑے شراب خانے میں پہنچ گئی۔ کچھ دیر بعد سلونی شراب خانے سے باہر آئی تو اسکے پیچھے تقریبا چھ اونچے قد کاٹھ اور مردانا وجاہت والے نوجوان تھے جو بالوں کے سٹائل سے فوجی معلوم ہوتے تھے۔ وہ شراب کے نشے میں سلونی کی قاتل جوانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک فوجی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ سلونی انکے درمیان ایسے پھنسی ہوئی تھی جیسے بھیڑیوں کے غول میں ہرن پھنس جاتی تو کوئی اسکی گردن نوچ رہا, کوئی اسکی ٹانگ، کوئی بازو، کوئی کان غرض جہاں منہ گھسا وہیں نوچ رہا ہو، لیکن سلونی پر مست آنکھیں بند کیے انہیں بہکنے دے رہی تھی۔ چندو اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر صبح تک روکا نہ گیا تو یہ فوجی افسر فوج کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔ اس نے سکوٹر کی رفتار اور تیز کی لیکن فوجی گاڑی چھاؤنی کی حدود میں داخل ہو گئی اور ناکے پر چندو کو شناخت پریڈ کے لیے روک لیا گیا۔ تب تک وہ فوجی گاڑی منظر سے غائب ہوگئ۔ چندو کافی دیر تلاش کرتا رہا لیکن کچھ ہاتھ نہیں آیا۔وہ سیدھا چھاؤنی سے باہر جانے والی بڑی سڑک پر آکر رک گیا۔ اسے پتہ تھا سلونی یہیں سے گزرے گی۔ وہی ہوا نصف رات گزر جانے پر اسے کوئی دور سے آتا دکھائی دیا، چندو نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور اس فلرٹ کرتے ہوئے لفٹ پیش کی جو سلونی نے دلکش مسکراہٹ سے قبول کی۔ وہ پیچھے بیٹھتے ہی چندو کے ساتھ دانستہ لپٹ کر بیٹھی کہ اسکا ایمان بھی ڈھولے اور وہ کسی ویرانے کی طرف چل نکلے۔ اگرچہ سلونی کی گرم سانسیں، نرم اور دہکتا ہوا خوشبودار جسم چندو کی پشت پر اسکا موڈ بنانے کے لیے برسرپیکار تھا لیکن چندو مضبوط بنا رہا، سلونی اسی شراب خانے کی طرف چلنے کو کہہ رہی تھی۔ چندو نے وہاں سلونی کو اتارا تو سلونی ششدر تھی کہ یہ کیسا مرد ہے جو میری لذیز ترین دعوت پر بھی نہیں بہکا وہ حیرت سے اسے دور تک جاتا دیکھتی رہی۔ اگلی صبح شہر میں کہرام مچا ہوا تھا کہ اس بار چھ نوجوان فوجی افسران کو اکیلی نقاب پوش حسینہ مکمل نچوڑ کر چھاؤنی کے بیچوں بیچ سے فرار ہوگئی۔ چندو شام کو شہر کے مشہور مورتی فروش کے پاس پہنچ چکا تھا۔ یہ ایک باریش آدمی تھا جس کی لمبی لمبی زلفیں چہرے کے آگے تک پھیلی ہوئی تھیں اور موٹا چشمہ لگا کر آنکھیں اس کے پیچھے ڈھانپ رکھی تھیں۔ چندو اسکو گاہک بن کر ملا اور اسے انسان نما مادہ بھیڑئیے کی مورتی بنانے کا آرڈر دیا جسے سن کر بوڑھا کافی چونکا تھا اور چندو سے الٹے سیدھے سوال و جواب کرنے لگا۔ چندو کا تیر نشانے پر لگا تھا اور اسے کافی حد تک اسکا جواب مل چکا تھا۔ یہ پروفیسر امرناتھ ہی تھا جو روپ بدل کر مورتی فروش بن چکا تھا۔ وہ بیس سال پہلے والے 8 سالہ چندو کو کڑیل جوانی میں پہچان نہیں سکا تھا۔ اسکے چونکنے پر چندو نے کھل کر بات کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اسے ماضی کے جھروکوں میں لے جاکر پوچھا کہ تمہاری جن زاد بیوی اور مادہ بھیڑئیے سے پیدا ہونے والی اولاد سلونی ہی ہے نا؟ بوڑھا سٹپٹا کر رہ گیا اور اسے فورا وہاں سے چلے جانے کا کہا۔ اس پر چندو نے سلونی کی حرکات و سکنات کی ساری تفصیل بوڑھے کے گوش گزار کی اور اسے بتایا کہ ہمیں ملکر سلونی کو اس کیفیت سے نجات دلانی چاہئے ورنہ شہر میں تباہی پھیل جائے گی اور تم اپنی اولاد کی محبت میں اس تباہی کے ذمہدار ٹھہرو گے۔ اس پر بوڑھا غصے سے چیختا ہوا بولا کہ امن داس اپنے دھرم کا بھگوڑا ہو کر امن داس سے عمر بن گیا تھا اور کسی مسلم سکالر علی کی باتوں میں آکر میرے خاندان کی جان کا دشمن بن گیا تھا۔ اور میں نے اسکی آئی ڈراپس میں تیزاب ملا کر اسکی صرف بینائی چھینی تھی جان بخش دی تھی۔ وہ چندو کی کوئی بات نہیں سننا چاہتا تھا۔ جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو چندو نے سلونی سے براہ راست بات کرنے کا ارادہ کیا اور اسکے گھر کی طرف چل پڑا۔ آخری قسط پڑھیں |
انسانی لاش کا کمبل
0
February 05, 2025
Tags