![]() |
"رازِ دل" "قسط نمبر 06" از۔"کنزہ خان" Don't copypaste without my permission 🚫🚫 °°°°°° ❤️❤️❤️ خوبصورتی سے " ہیپی برتھ ڈے لاریب " لکھا ہوا تھا۔ وہ حیران ہوئی اسے کتابیں پڑھنا پسند تھا یہ بس منت جانتی تھی۔ وہ آبدیدہ ہو گئی اور روز کی طرح منت کا نمبر دیکھا وہ جانتی تھی کہ اس کا فون ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی غیر ارادی طور پر وہ روز منت کا نمبر دیکھتی تھی کہیں نہ کہیں اسے یقین تھا کہ منت ایک دن ضرور اس سے رابطہ کرے گی وہ بھی جانتی تھی کہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی انتظار کرتی تھی۔ آج اسے آن لائن دیکھا تو صدمے سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں اس نے جلدی سے فون ملایا۔ منو اٹھاؤ نا کون ہے یہ "سیکرٹ ڈائری ؟۔۔۔۔" ضر غام نے کب سے فون آتا دیکھ ، منت سے کہا لیکن منت نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کال اٹھانے سے انکار کر دیا ضر غام نے اس کے ہاتھ سے فون لے کر کال اٹھائی اور فون سپیکر پر ڈال دیا۔ "ہیلو۔۔۔۔۔" لاریب کی آواز گونجی تو یارم کا دل بہت بری طرح دھڑ کا اس نے آج کافی عرصہ بعد اپنی رگ جان کی آواز سنی تھی وہ لڑکی اس کا عشق بنتی جارہی تھی۔ "ہیلو منت؟" آواز دوبارہ گونجی تو منت کی ہچکیاں بندھ گئیں ایک سال بعد آج وہ اس کی آواز سن رہی تھی۔۔۔۔ لاریب نے روتے ہوئے اسے پکارا تو اس سے جواب ہی نہ دیا گیا۔ " منت کچھ بول یار پلیز " اس نے انکتے ہوئے پکارا اور وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگیں۔۔۔۔ منت کی حالت دیکھ ، سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ کس سے بات کر رہی ہو ؟ ۔۔۔۔" ایزل جو اسے کمرے میں اداس جاتا دیکھ ، اسے سمجھانے اس کے پیچھے آئی تھی اسے کسی سے بات کرتے دیکھ ، پوچھا ایزل کی آواز گونجی تو اس نے ہچکیاں لیتے فون اسے تھما دیا "منت۔۔۔۔" ایزل کی غصے سے بھر پور آواز گونجی۔ کہاں ہو تم ٹھیک ہو تم ؟.... جہاں بھی ہو فوراً واپس آؤ .... تمھیں اندازہ بھی ہے سب یہاں کس قدر پریشان ہیں تمھارے لیے ؟۔۔۔۔" منت جو لاریب کی واضح ہچکیاں سنتے رورہی تھی ایزل کے بغیر سانس لیے ، کیے جانے والے سوالات پر مسکرادی لیکن پریشان والی بات سن فوراً اس کا چہرہ سپاٹ ہوا اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔ " واقعی سب پریشان ہیں ؟۔۔۔۔" منت کی جذبات سے عاری آواز سنائی دی۔ ماما کی طبیعت نہیں ٹھیک منت ! وہ تمھیں یاد کر کے روتی رہتی ہیں .... تم واپس آجاؤ۔" ایزل نے منت بھرے لہجے میں کہا "میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے میں کبھی بھی اس گھر واپس نہیں جانے والی۔" منت کے کہنے پر ایزل نے گہر اسانس لیا پھر کہنا شروع کیا " یار تم اس گھر نہ جانا یہاں آجاؤ۔" ایزل کے کہنے پہ سب کے چہروں پر سایہ سالہرایا کہ کہیں منت لاریب کی وجہ سے واپس جانے کا سوچ ہی نہ لے ایزل آپی کون کتنا پریشان ہے میں اچھے سے جانتی ہوں .... میری فی الحال لاریب سے بات کرواؤ۔ " " تم دونوں بات کرو میں ماما کو بتاتی ہوں کہ تمہارا فون آیا ہے " ایزل نے فون لاریب کو تھماتے ہوئے کہا اور قدم لاونج کی جانب بڑھائے لیکن منت کی سپاٹ آواز سن کر ٹھٹک کر رکی "نہیں بالکل نہیں۔" منت جلدی سے بولی "کیوں یار ؟۔۔۔۔" لاریب کی آواز گونجی " میں نے بس تجھ سے بات کرنی ہے اور کسی سے بھی نہیں .... تو کسی کو نہیں بتائے گی کہ میرا فون آیا تھا اور نہ میں قسم سے دوبارہ تجھے بھی فون نہیں کرنا۔ " اس کا کہنا تھا کہ لاریب نے فوراً ایزل کو روک دیا۔ " منت کہاں ہے تو یار ؟ ۔۔۔۔" لاریب نے روتے ہوئے کہا " میں جہاں بھی ہوں بالکل ٹھیک ہوں سب کیسے ہیں ؟" منت نے پوچھا کیسے ہو سکتے ہیں ؟.... ماما پاپا پریشان ہیں کہ پتہ نہیں تو کہاں ہے .... مانی نے کہا ہے کہ تو بھاگ گئی ہے اب تو یاسر بھائی کو بھی یقین آنے لگا ہے ممانی کی بات پر ۔" بھائی کو چھوڑ توت تھے کیاگیا ہے ۔ منت نے لاریب سے پوچھا " مجھے پتہ ہے ممانی ماموں نے کچھ کیا ہے .... تو بھاگی نہیں ہے بات کچھ اور ہے۔" منت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ " تو صبر رکھ میں تجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤں گی ابھی میں فون رکھ رہی ہوں جب فارغ ہوئی تب بات کریں گے اور کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ تیر امجھ سے رابطہ ہے۔ " منت نے لاریب کو کہا، ایزل سے علیانہ کا پوچھا، لاریب کو برتھ ڈے وش کیا اور فون کاٹ دیا۔ سب لوگ بیٹھے اس کی لاریب سے ہونے والی گفتگو سن رہے تھے آج ان کی منو بہت خوش تھی فون کال کاٹتے ہوئے بھی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اور یارم بھی دوسری طرف لاریب کی آواز سے اس کا مسکرانا محسوس کر سکتا تھا۔ میڈم اب آپ خوش ہو گئی ہیں تو آجائیں نیچے مہربانی ہو گی .... میں بہت بور ہو رہا ہوں۔" ارمغان نے کہا تو وہ جو اثبات میں سر ہلا کر اٹھ گئی تھی یارم کے کہنے پہ دوبارہ بیٹھ گئی۔ " منت مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ " سب ہی منت کے کمرے میں موجود تھے سب نے ایک نظر یارم اور منت کو دیکھا اور متوجہ ہو گئے۔ منت نے یارم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔ یارم چند لمحے اسے خاموشی سے دیکھتا رہا جیسے الفاظ ڈھونڈ رہا ہو پھر دھیرے سے کہنا شروع کیا۔۔ منت جب مقدم نے آپ کے ماضی کے بارے میں پتہ کروایا تھا تو ہمیں کچھ تصویر یں ملیں تھی ان تصویروں میں میں نے لاریب کو دیکھا .... مجھے وہ پسند ہے میں آپ کی بہن سے شادی کا خواہشمند ہوں۔" منت کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ کونسی تصویر ؟۔۔۔۔" کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔ منت نے طویل خاموشی کے بعد بس یہ پوچھا تو یارم نے اپنے والٹ میں سے تصویر نکال کے منت کی جانب بڑھادی جسے اس نے جلدی سے تھام لیا۔۔۔۔ کچھ لمحے تصویر کو دیکھنے کے بعد منت نے یارم کو دیکھا اور جانچتی نگاہوں سے اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا یارم ایک دم کنفیوز ہو گیا اتنا نروس تو وہ اپنی بزنس ڈیلز کے ٹائم بھی نہیں ہوتا تھا جتنا اس وقت منت کی آنکھوں سے ہو رہا تھا۔۔۔۔ سب ان دونوں کو بغور دیکھ رہے تھے۔ " یارم بھائی چل کر دیکھائیں۔" منت کی آواز اور مطالبے پر سب نے چونک کر اسے دیکھا پھر چہرہ جھکا کر مسکراہٹ دبائی "کیا؟ ۔۔۔۔" یارم نے حیرت سے پوچھا " ارے آپ نے میری بہن سے شادی کرنی ہے نا میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ آپ اس کے لحاظ سے ٹھیک ہیں یا نہیں اس کے ساتھ چلتے ہوئے کیسے لگیں گے اس لیے چلیں جلدی سے چل کے دیکھائیں۔" اس کے لہجے کی شرارت سب لوگ سمجھ رہے تھے۔ یار ایک سال سے تمہارے سامنے چل ہی رہا ہوں۔" یارم نے بے بسی سے کہا " آپ نے لاریب سے شادی کرنی ہے یا نہیں ؟.... اگر کرنی ہے تو چلیں چپ چاپ اٹھیں اور مجھے چل کر دیکھائیں۔ " یارم بغیر کچھ کہے اس کے سامنے چلنے لگا تو سب کے قہقہے گونجے۔ " آپ کو کھانا بنانا آتا ہے ؟۔۔۔۔" دوسراسوال آیا " ہاں جی آتا ہے " "کیا واقعی؟۔۔۔۔" منت نے حیرت سے پوچھا " ہاں جی آتا ہے۔" " آپ خوش رکھو گے اسے ؟۔۔۔۔" اس نے آنکھوں کی پتلیاں سکوڑ کے یارم سے پوچھا۔ " آپ کو کوئی شک ہے ؟۔۔۔۔" یارم نے سکون سے جواب دیا تو منت مسکرادی۔ " چلو پھر میری طرف سے تو رشتہ پکا ہے باقی آپ پھپھو سے بات کر لو۔" وہ جو خوش ہو گیا تھا ایک دم چونکا کیا مطلب ہے پھو پھو سے بات کر لو ؟.... رشتہ تو تم کرواؤ گی نہ۔" میں کیا آپ کو رشتہ کروانے والی خالہ لگتی ہوں ؟" اس نے بھنویں اچکا کے پوچھا کمرے میں سب کی دبی دبی ہنسی گونجی یارم نے کھا جانے والی نگاہوں سے سب کو دیکھا۔ دیکھیں یارم بھائی .... اس کی فیملی سے بات آپ کو داجی کے ذریعے کرنی چاہیے کیوں کہ میں اب اچانک گئی نا تو مجھے تو پھپھو سے بہت ڈانٹ پڑنی ہے کہ ایک سال بعد واپس آرہی ہے وغیرہ وغیرہ اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے شیر کے منہ میں گردن رکھنے کا تو داجی کو بھیجو آپ کارشتہ لے جائیں۔" یارم نے مظلومیت کی انتہا کرتے ہوئے راجی کو دیکھا تو داجی کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ اچھا اچھا بھئی اب ایسا چہرہ نہ بناؤ .... لے کر جاتے ہیں لاریب کے لئے تمہارا رشتہ ۔ " سب نے مسکرا کر داجی اور یارم کو دیکھا یارم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھ کر ناچنے لگ جائے اسے ایک سال بعد امید نظر آئی تھی کہ وہ اپنی لاریب کو پالے گا۔ اتوار کا دن تھا اور تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں آخر خان ولا کے پہلے مکین کی شادی تھی۔ سب اپنے کام نپٹا کر اب جانے کے لئے تیار تھے۔۔۔۔ داجی، یارم، بالاج، مقدم، سکندر صاحب اور شازیہ بیگم ، یارم کے رشتے کے لیے جارہے تھے۔ " اگر میرے آنے تک تم پانچوں نے گھر کی حالت خراب کی تو میں نے آتے ہی تم سب کو گھر بدر کر دینا ہے۔" شازیہ بیگم نے تنبیہی نگاہوں سے سب کو گھورتے ہوئے دھمکی دی۔۔۔۔ ارمغان اور منت نے تو فوراً ہی ان کی دھمکی ہوا میں اڑادی البتہ ضر غام نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "ضر غام ان کے ساتھ بچے نہ بنا ... دھیان رکھنا ... میں اپنا گھر جیسا چھوڑ کے جارہی ہوں مجھے ویسا ہی چاہیے۔" سب جانے کے لئے تیار تھے لیکن ان پانچوں کو دھمکی دی جا رہی تھی کہ وہ گھر کی حالت خراب نہ کریں۔۔۔۔ شازیہ بیگم کو پتہ تھا کہ اس دھمکی کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہو نا لیکن ہر بار وہ دھمکی دے کے ہی جاتیں تھی اور گھر آکے سر پکڑ کے بیٹھ جاتیں تھی۔ " ماما آپ بے فکر ہو کر جائیں آپ کا گھر آپ کو ایسے ہی ملے گا۔" ارمغان اور منت کو ہفتے دیکھ ضرغام نے انھیں آنکھیں دکھائیں اور شازیہ بیگم کو تسلی دی پھر سب لوگ گھر سے روانہ ہو گئے۔ لیٹس پارٹی گایز ۔۔۔۔۔" ارمغان نے صوفے پر چڑھ کے ہاتھ ہوا میں بلند کر کے کہا تو سب نے اس کی تائید میں ہاتھ ہوا میں لہرایا۔ " اب کچھ یوں ہے کہ آپ لوگ یہاں بیٹھ کے مووی سوچیں ہم لوگ نوڈلز اور برگر ز بنا کے لاتے ہیں۔" منت کے کہنے پہ ضر غام اور انتقال مووی سوچنے لگے منت ، ارمغان اور نور کچن کی طرف چل دیئے۔ اسلام و علیکم ! داجی نے نرمی سے سلام کیا تو سامنے کھڑے شخص نے جواب میں سر ہلایا میں عالم خان ہوں .... آپ سے ضروری بات کرنی تھی آپ کی اجازت ہو تو ہم اندر آجائیں زین صاحب؟" زین صاحب انھیں انجان نظروں سے دیکھ رہے تھے اپنا نام سن ٹھٹکے پھر انھیں لیے ڈرائنگ روم میں آگئے۔ " جی کہیے " زین صاحب نے اپنی نشست سنبھالتے کہا زین صاحب میں آپ کی بیٹی لاریب کے رشتے کے سلسلے میں آیا ہوں .... میں نے بچی کو دیکھا تھا مجھے وہ پیاری لگی میں نے پتا کر وایا سب تو مجھے پتہ چلا کہ آپ اس کے والد ہیں .... میں آپ سے اپنے پوتے یارم کے لیے " ساتھ ہی یارم کی طرف اشارہ کیا " آپ کی بیٹی لا ریب کو مانگتا ہوں .... بچہ آپ کے سامنے ہے آپ تسلی کر لیں .... کچھ پتا کروانا ہے تو وہ بھی کروالیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ " زین صاحب نے ایک نظر یارم کو دیکھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ کہیں یہ ہمیں مار کر تو نہیں بھیجیں گے نہ ؟" بالاج نے کہا تو مقدم اور یارم نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا جبکہ سکندر صاحب اور شازیہ بیگم کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی داجی بھی قدرے پریشان ہو گئے تھے۔ زین صاحب باہر آئے تو نگین بیگم، لاریب، ایزل، یاسر، مرتسم ، عنایہ سب ساتھ بیٹھے باتوں میں مصروف تھے انھیں آتا دیکھ کے خاموش ہو گئے۔ لاریب کا رشتہ آیا ہے " زین صاحب نے کہا تو نگین بیگم کے ساتھ باقی سب بھی چونک گئے " یوں اچانک ؟ .... کون ہے ؟۔" نگین بیگم نے کہا تو زین صاحب نے انھیں سب بتا دیا۔ یاسر، مر سم، عنایہ، نگین بیگم سب ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑے۔ میر ارشتہ آیا ہے یار۔ " لاریب نے سب سے پہلا میسج منت کو کیا۔ منت جو " شاہ رخ خان " کی " ڈنکی " مووی بہت بار دیکھنے کے باوجود اب پھر سے دیکھنے میں مگن تھی موبائل کی آواز پر چونک گئی۔ لاریب کا میسج دیکھ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور فون رکھ کر دوبارہ مووی کی جانب متوجہ ہو گئی وہ لاریب کو کچھ بھی نہیں بتانا چاہتی تھی۔ باقی سب اپنے کھانے کے ساتھ بھر پور انصاف کر رہے تھے۔ یہ میرا بر گر ہے ضرغام ..... آپ اپنا کھا چکے ہیں۔ " نور نے کہا تو سب مسکرائے " کوئی بات نہیں میری جان آپ بھی میری ہی ہیں تو آپ کا سب کچھ میرا ہے۔" ضرغام نے کہا تو نور دانت پیس کر رہو۔ نور آپی کو شروع سے ہی عادت ہے وہ اپنا کھانا شیئر نہیں کرتیں۔" انتقال نے کافی کا گھونٹ لیتے کہا تو ارمغان نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا وہ مسکرادی اس ایک سال میں وہ لڑکی ارمغان سکندر خان کی جان بن گئی تھی۔ سب جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو اتنے وجیہہ مردوں کو دیکھ ، شازیہ بیگم نے زین صاحب کی جانب دیکھا انھوں نے سب کو متعارف کروایا اور یارم کا بتایا نگین بیگم کو یارم پہلی ہی نظر میں پسند آگیا تھا انھوں نے سوال کیا " کیا کرتے ہو آپ بیٹا ؟" ان کے سوال پر یارم کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی " بزنس" یارم کے جواب پہ یا سر نے اب کی بار دلچسپی ظاہر کی " کیسا بزنس ؟" ملٹی پل بزنس ہیں ہم تینوں بھائیوں کے۔" یارم نے اطمینان سے یاسر کے سوال کا جواب دیا ساتھ بالاج اور مقدم کی طرف اشارہ کیا۔ " یہ آپ کے ماما بابا ہیں نہ ؟" زین صاحب نے سکندر صاحب اور شازیہ بیگم کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ یہ سکندر انکل ہیں بابا کے دوست ..... ہمارے بابا کے جیسے ہی ہیں اور یہ شازیہ آنٹی ہیں ہماری ماما کے جیسی ہی ہیں یہ بھی ۔ " اب کی بار مقدم نے گفتگو میں حصہ لیا اور بہت اپنایت سے کہا۔۔۔۔ شازیہ بیگم محبت سے مسکرائیں۔ " تو پھر آپ کے ماما با با؟" زین صاحب نے پوچھنا چاہا تو سب کے چہروں سےمسکراہٹ غائب ہو گئی۔ ان کی ڈیتھ ہو گئی ہے.... جب ہم چھوٹے تھے تب ہی وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے ۔ " بالاج نے جواب دیا تو سب کو ہی افسوس ہوا تھا۔ "کیسے؟۔۔۔۔" یا سر نے سوال کیا " پلین کریش " جواب مقدم کی طرف سے ملا۔ " یہ تین بھائی ہیں، یارم، بالاج اور مقدم ۔۔۔۔ رضوان میرے بیٹے سکندر " ساتھ ہی پاس بیٹھے سکندر صاحب کی طرف اشارہ کیا کا بہت اچھا دوست تھا دونوں نے بچپن ساتھ گزارا تھا پھر ایک دن اپنی بہن سے ملنے جانے کے لیے امریکہ کی فلائیٹ میں بیٹھے تو پہنچنے سے پہلے ہی جہاز تباہ ہو گیا اور ان کی اور آسیہ بیگم (رضوان صاحب کی بیوی ) کی موت ہو گئی .... اب بس یہ تین بھائی ہیں یارم اکتیس سال کا ہے ، بالاج تیس اور مقدم اٹھائیس سال کا ہے اور یہ تینوں رضوان کے بزنس کو بہت اچھے سے ڈیل کر رہے ہیں آپ کی بیٹی بہت خوش رہے گی۔" داجی نے سب بتایا تو زین صاحب پر سکون ہوئے۔۔۔۔ نگین بیگم تو راضی تھیں پھر بھی زین صاحب نے سوچ کر بتانے کا کہا تو داجی اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس جانے کے لیے اجازت چاہی۔ جب وہ سب ڈرائنگ روم سے باہر نکلے تولاریب جو ٹینشن میں اپنے دھیان کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور سب کے باہر آنے کے انتظار میں چکر کاٹ رہی تھی یارم کی اچانک اس پہ نظر پڑی دونوں کی نظریں ملی اور یارم رضوان خان کی دنیا بس وہیں ٹھہر گئی ۔۔۔۔ اس نے بہت خوبصورت لڑکیاں دیکھی تھیں لیکن اس لڑکی نے صرف ایک تصویر سے اس کا قرار لوٹ لیا تھا۔ غرور تھا خود پہ کہ عشق نہیں ہو ا کسی سے وہ نظر کیا ملی اس نظر سے سارا غرور چور چور ہو گیا" لاریب بھی یارم کو دیکھ کر ٹھہر گئی تھی اس نے اتنے وجیہہ مرد بس ناول میں پڑھے تھے لیکن آج جب حقیقت میں دیکھا تو اس کے دل کی دھڑکنیں بہت تیز رفتار سے چلنے لگیں تھی۔ بالاج نے لاریب کو دیکھا تو آگے بڑھ کر اس کے سر پہ پیار دیا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔ یارم جو اس کے چہرے کے نقوش میں بری طرح سے کھویا ہوا تھا مقدم کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے اس کی جانب متوجہ ہوا۔ داجی زین صاحب سے مل کر انھیں اپنے گھر کا پتہ بتا رہے تھے تا کہ وہ کوئی تفتیش وغیرہ کروانی ہو تو کروالیں۔ شازیہ بیگم لاریب کی طرف بڑھیں اور اسے محبت سے گلے لگا یا سکندر صاحب نے لاریب کے سر پہ پیار دیا اور وہ دونوں بھی باہر کی جانب بڑھ گئے۔ یارم نے مقدم کو دیکھا وہ اسے شرارتی نظروں سے دیکھ رہا تھا یارم کو خوشگوار حیرت ہوئی. " کہو تو ابھی ساتھ لے چلیں ؟" مقدم نے شرارت سے کہا تو یارم نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا۔۔۔۔ وہ مسکرایا اور لاریب کو دیکھا جو بالکل منت کے جیسی دکھتی تھی وہ اسے دیکھ ، مسکرادیا پھر یارم کو لے کر باہر نکل گیا۔ لاریب نے یارم کو باہر نکلتے دیکھا اور پھر نگین بیگم کو دیکھا یہ ہی تھا جس کے لئے تمہارا رشتہ آیا ہے ۔ " اتنا کہتے وہ کمرے میں داخل ہو گئیں ایزل کو تصویر دکھانے کے لئے جو واجی انھیں دے کر گئے تھے البتہ باہر کھڑی لاریب کے چہرے کو ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا تھا۔ " یہ ہے لڑکا " لاریب نے ان کے جانے کے بعد نگین بیگم سے یارم کی تصویر لی اور قدرے چھپ کے اپنے فون میں کلک کی اور منت کو بھیج دی۔ کیسا رہا ایکسپریس ؟۔۔۔۔" منت نے سب کو آتے دیکھا تو پوچھا بہت اچھا .... مجھے لگتا ہے ان کی ہاں ہے بس وہ ایک بار اپنی تسلی کے لئے سب پتہ کروانا چاہتے ہیں۔" مقدم نے منت کو جواب دیا اور پاس ہی صوفے پہ جگہ سنبھالی۔ منت نے اسے اگنور کیا جو کے مقدم نے بخوبی نوٹ کیا وہ جانتا تھا کہ وہ ناراض ہے۔ منت نے یارم کو دیکھا جو قدرے مطمئن لگ رہا تھا اچانک موبائل کی میسج ٹیون پر منت فون کی طرف متوجہ ہوئی تو لاریب کا یارم کی تصویر کے ساتھ بھیجا پیج دیکھ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ واہ یار یہ تو بہت اچھا ہے .... کیا کہا گھر والوں نے انھیں کیسا لگا ہے ؟... تو بتا تجھے کیسا لگا ہے ؟۔" منت نے انجان بنتے پوچھا۔ یار سب کو ہی اچھا لگا ہے بس اب پاپا کہہ رہے ہیں بیٹی کا معاملہ ہے تو تھوڑا پتہ کروالیں اگر سب صحیحنکلا تو ہاں کر دیں گے۔" یہ بات ہے۔ منت نے کہا اور موبائل رکھ کر سب کی جانب متوجہ ہوئی مبارک ہو یارم بھائی سب کی ہاں ہی ہے۔ " یارم تو پہلے ہی لاریب کو دیکھنے کے بعد خوشی سے پھولے نہیں سمار ہا تھا اس بات پر مزید کھل اٹھا آپ تیار رہو کبھی بھی آپ کو فون آ جاتا ہے۔" منت نے پر جوش ہو کر کہا تو یارم نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا آج اس کے چہرے سے مسکراہٹ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہاے ے ے.... میرے اللہ .... یہ کیا حال کر دیا میرے کچن کا۔۔۔۔" شازیہ بیگم جو سب کے لیے چائے کا انتظام کرنے کچن میں گئی تھیں وہاں کی حالت دیکھ بھونچکا رہ گئیں۔۔۔۔ کھائی ہوئی چیزوں کے ریپر فرش پر گرے ہوئے تھے، میئو نیز کھولا پڑا تھا، کیچپ جلدی جلدی میں شیلف پر گرادی گئی تھی اور انڈوں کے چھلکے فرش پہ پڑے تھے۔۔۔۔ کچن کی یہ حالت دیکھ وہ آگ بگولہ ہو تیں باہر آئی " کس نے کیا ہے یہ ؟۔۔۔۔" سب نے مل کر منت کی طرف انگلی اٹھادی جو ارد گرد کی حالت بھلائے بڑے مزے سے اپنے برگر کے ساتھ انصاف کر رہی تھی۔۔۔۔ خاموشی پہ جب اس نے سر اٹھایا تو اپنی طرف ساری انگلیاں دیکھ، بھونچکا رہ گئی اور فورا شازیہ بیگم کو دیکھا جو سب کو گھور رہیں تھی۔ مام .... آپ کو لگتا ہے میں ایسا کر سکتی ہوں ؟۔۔۔۔" منت نے معصومیت سے آنکھیں پیپٹاتے کہا تو مقدم کے چہرے پر ایک گہری خوبصورت مسکراہٹ بکھری باقی سب نے بھی چہرہ جھکا کر اپنی ہنسی دبانی چاہی۔ " جی بالکل .... مجھے لگتا نہیں یقین ہے کہ یہ میری ہی اولاد نے کیا ہے اور یہ معصوم چہرہ نا بناؤ شیطان کی نانی ہو تم۔" انھوں نے مصنوعی خفگی سے کہا تو مقدم چہرہ جھکائے گہرا مسکرایا۔۔۔۔ منت کا منہ بن گیا پھر ایک دم جوش سے بولی " مام میں نے نہیں کیا ارمغان نے بھی ساتھ میں کیا تھا۔" اس نے معصوم صورت بنا کر ان سے کہا۔ شازیہ بیگم جو غصے سے سب کو گھور رہی تھیں ارمغان کی طرف چپل پھینکی وہ ہڑ بڑا کر صوفے سے اٹھا ماما سب کی غلطی ہے میں نے اکیلے نے نہیں کیا" میں تم لوگوں کو کیا کہہ کے گئی تھی کہ گھر گندا نہ کرنا .... چکن دیکھو لگ رہا ہے جیسے بھوت ناچے ہوں۔ ہاں تو یہ تین بھوت ناچے ہی ہیں۔ " ضرغام نے منت نور اور ارمغان کی طرف اشارہ کیا تو تینوں نے خفا نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ضرغام نے کندھے اچکا دیئے۔ اب تم پانچوں اٹھو اور سارا کا سارا کچن صاف کر وا بھی ۔ " ان کا کہنا تھا کہ ان پانچوں کے منہ بن گئے لیکن انکار کر کے اپنی ڈرگت نہیں بنوانی تھی تو چپ چاپ کچن کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔ سب لوگوں کے کب سے رکے قہقہے گونجے تو ان پانچوں نے کچن کی جانب جاتے مڑ کے خفگی بھری نظروں سے سب کو دیکھا اور کچن میں داخل ہو گئے۔ اب منظر کچھ یوں تھا کہ وہ پانچوں ساتھ ساتھ کچن صاف کر رہے تھے اور ساتھ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا رہے تھے اور باقی سب باہر بیٹھے ان کی آوازیں سن محظوظ ہو رہے تھے۔ کچن صاف ہو ا تو سب ہی اپنی حالت سنوار نے اپنے کمروں میں چلے گئے شازیہ بیگم نے چائے کا انتظام کیا تو سب فریش ہو کر آگئے سب نے خوش گپیاں کرتے چائے پی اور اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ یارم، بالاج اور مقدم بھی خان ولا کے لیے روانہ ہو گئے ۔۔۔۔ مقدم دروازے پر رکا اور پلٹ کر دیکھا لیکن وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ " شاید زیادہ ہی ناراض ہیں مجھے دیکھا بھی نہیں آج .... کوئی بات نہیں میں منالوں گا۔" مقدم بڑ بڑا یا پھر سر جھٹکا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ یا سر یارم کے بارے میں سب پتہ کروا چکا تھا اور مطمئن بھی ہو گیا تھا تو انھوں نے ہاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ہفتے بعد داجی کو ان کی کال موصول ہوئی انھوں نے ہاں کر دی تھی راجی چاہتے تھے کہ کوئی بھی فضول رسم سے اچھا ہے منگنی ہو جائے اور منگنی کے ساتھ نکاح۔۔۔۔ خان مینشن کے مکین تو ان کا گھر وغیرہ اور بچی دیکھ چکے تھے اس لیے داجی نے بات وغیرہ پکی کرنے اور نکاح کی تاریخ فائنل کرنے کے لیے ان سب کو ڈنر پر مدعو کر لیا۔ ان کا فون بند ہوتے ہی داجی نے یارم اور باقی سب کو یہ خوشخبری سنائی اور ڈنر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔۔۔۔ منت ارمغان کے ساتھ باہر گئی تھی تو وہ اس سب سے بالکل انجان تھی۔ منت اور ارمغان اکثر بائیک یا کار ریسنگ کے لیے چلے جاتے تھے ارمغان نے اسے اچھا خاصہ ٹرین کر دیا تھا اب بھی دونوں وہیں گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔ شام سے پہلے ان کا واپس آنا نا ممکن تھا۔ ڈنر پر نگین بیگم ، زین صاحب، ایزل، عمار ایزل کا شوہر یاسر ، مرتسم اور عنایہ آئے تھے علیانہ ایزل پہ ، کی گود میں تھی۔ سب نے ان کا بہت خوش دلی سے استقبال کیا اور انھیں لے کے لاونج میں آگئے۔ شازیہ بیگم کے کہنے پہ سب ہی باری باری منت اور ارمغان کو فون کر رہے تھے لیکن مقدم چاہتا تھا کہ وہ ان کے جانے کے بعد ہی آئے کیونکہ پتہ نہیں تھا وہ کیسا رد عمل دیتی ہیں اگر وہ غصہ ہو گئیں تو ؟۔۔۔ ابھی مقدم اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب پورچ میں گاڑیاں رکنے کی آواز آئی اور پھر قہقہے گونجے ۔۔۔۔ لاونج سے پورچ نظر آتا تھا لیکن باہر سے اندر لاؤنج نظر نہیں آتا تھا۔ ارمغان اور منت ہنستے ہوئے آرہے تھے منت بار بار اسے اس کے ہار جانے پر چڑھارہی تھی اور وہ جو اسے خوش کرنے کے لیے خود اپنی مرضی سے ہارا تھا چڑھنے کی بھر پور ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اچانک منت کو دیکھ ، سب لوگ ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔ سب پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے اندر آتا دیکھ رہے تھے۔ ارمغان اور منت جب اندر داخل ہوئے تو غیر معمولی خاموشی محسوس کی اور لاونج میں چلے آئے لیکن لاونج میں داخل ہوتے ہی منت ٹھٹک کے رکی اور پھر اس کی آنکھیں آخری حد تک پھیل گئیں اس نے پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھا۔۔۔۔ نگین بیگم کے آنسو بہنے لگے ایزل کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے لیکن منت تو ایسے ہو گئی تھی جیسے پتھر کی ہو گئی ہو۔ نگین بیگم بے اختیار آگے بڑھیں اور اسے گلے لگا لیا پہلے تو وہ روتی رہیں منت کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا پھر پیچھے ہو کر اس سے غصے سے پوچھا کہاں تھی اتنا عرصہ ؟.... اور تم یہاں کیسے ؟۔" ابھی وہ سوال کر رہی تھیں جب ایزل نے آگے بڑھ کر منت کو گلے لگا لیا۔۔۔۔ ایک دم ہی ماحول افسردہ ہو گیا تھا۔ تھیں اندازہ بھی ہے کہ کتنا زیادہ ڈھونڈا ہے ہم نے تو تمھیں ؟" یاسر نے غصے سے کہا لیکن اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا وہ بس خاموشی سے سب کو دیکھ رہی تھی پھر نگین بیگم کے گلے لگ گئی۔ نگین بیگم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں کچھ دیر رونے کے بعد وہ اسے لیے، صوفے پر آگئیں۔ "ٹھیک ہو تم ؟.... تمھیں ایک بار بھی یاد نہیں آئی کہ میں واپس جاؤں .... سب پریشان ہوں "گے؟۔ نگین بیگم بول رہی تھیں اور وہ خالی نگاہوں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ کہاں تھی تم اور یہاں تک کیسے آئی؟" انھوں نے پوچھا لیکن منت بالکل خاموش۔۔۔۔ منت کو خاموش دیکھ ، مقدم نے گہر اسانس بھرا اور گاڑی سے ٹکرانے اور اس کے بعد کا سارا واقعہ ان سب کو سنا دیا ۔۔۔۔ انھوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور قدرے مطمئن ہو گئیں کیونکہ منت تھی محفوظ ہاتھوں میں تھی منت نے علیانہ کو دیکھا تو مسکرانے لگی پھر آہستہ آہستہ اس نے سب سے بات چیت شروع کی ایک نہ ایک دن تو اسے اس صورتحال کا سامنا کرنا ہی تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے کے لیے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھوڑی دیر بعد باہر آئی تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔ قسط نمبر 7 پڑھیں |
راز دل ناول قسط نمبر 6
0
February 21, 2025
Tags