شوہر نے کہا مجھے تم پسند نہیں… اور طلاق دے دی
تحریر ؛ فرزانہ خان
اس نے بولا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ وہ دروازے کے پیچھے بیٹھی تھی، دونوں بچے اس کے بازوؤں میں دبکے ہوئے تھے۔ شوہر نے ایک جملہ کہا: ’’مجھے تم پسند نہیں ہو‘‘ اور طلاق دے دی۔ یہ جملہ اس کے لیے موت کا اعلان تھا، سانس چل رہی تھی مگر زندگی دفن ہو گئی۔
یہ ہماری ایک جاننے والی خاتون کی کہانی ہے۔
ایک چند ماہ کا اور ایک دو سال کا بچہ، اکلوتی بہن، ڈھائی مرلے کا مکان، تین بھائی اور ان کی بیویاں۔ اسے اور اس کے بچوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں دھکیل دیا گیا۔ وہاں نہ روشنی تھی، نہ سکون—صرف طعنوں اور محرومیوں کا شور تھا۔
المیہ یہ ہے کے شوہر کو دو بچے پیدا کرنے کے بعد یاد آیا کہ خاتون خوبصورت نہیں، اور مزید یہ کہ اس بات پر طلاق؟ خدا کی پناہ!
بھائی کی بیویاں روز طعنے دیتیں: ’’یہ ہماری بجلی کھا رہی ہیں‘‘، ’’یہ ہمارے برتن توڑ رہی ہیں‘‘۔ وہ چپ رہتی، بچوں کو سینے سے لگاتی اور مسکرا کر کہتی: ’’میں ہوں نا‘‘۔ حالانکہ اندر سے وہ اتنی بار ٹوٹ چکی تھی کہ اگر چیختی تو دیواریں بھی لرز جاتیں۔
کچھ ماہ کھانا بھی ملتا رہا، پھر بھابیوں کے اعتراضات پر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم۔ بچے پالنے کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑی۔ لیکن مزدوریوں سے بچے پالنا مشکل ہوتے ہیں، لہذا ماں اور بچے کسمپرسی کی حالت میں جیتے رہے۔
رات کو جب بچے سو جاتے تو وہ چپکے سے کونے میں جا کر روتی۔ اس کے آنسو اتنے تھے کہ اگر الفاظ بنتے تو پوری کتاب ہو جاتی۔ مگر یہ کتاب وہ صرف اپنے رب کو سناتی تھی، کیونکہ انسانوں کے پاس اس کے لیے وقت نہیں تھا۔
اس خاتون نے پوری کی پوری زندگی اپنے بچوں کیلئے وقف کر دی، اور شوہر نے فرار حاصل کیا۔
اللہ رب العزت کے رحم و کرم سے تیرہ سال پہلے یہ بچے مجھے ملے اور میں نے بچوں کی کچھ راہنمائی کی اور بچوں نے شناختی کارڈ کی عمر سے پہلے پہلے ہی کچھ کمانا شروع کر دیا، وقت گزرتا گیا اور آمدن بڑھتی گئی۔
اب اس خاتون کے بچے بڑے ہوکر لاکھوں میں کمانے لگے تو باپ کو زندگی میں پہلی بار خیال آیا کے اسے اپنے بچوں سے بات کرنی چاہئے۔
یہ دونوں بچے اب جوان ہیں ابھی تک انہوں نے باپ کی شکل تک نہیں دیکھی۔ بسچند ماہ پہلے ایک بار باپ کی کال آئی تو، بچے نے پہچاننے سے انکار کر دیا، کیوں کہ وہ اپنی ماں کو درد دینے والے سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میرے مالک کا انصاف دیکھئے، وہ یقینا سب سے بڑا منصف ہے۔
یاد رکھئے، مرد اور عورت صرف برے یا اچھے نہیں ہوتے، یہ کہیں برے اور کہیں اچھے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اکثر بچے چاہے بوڑھے ہوجائیں، یہ اپنی ماں کو باپ پر فوقیت دیتے ہیں، ان میں سے اکثر اپنی بہنوں کی شادی سے پہلے اچھے بھائی بھی ہوتے ہیں، اور پھر!!!!
بحر حال، درد دونوں طرف ہی ہو سکتا ہے، لیکن طلاق حلال کاموں میں سے سب سے ناپسندیدہ کام ہے۔
طلاق عورت کے لیے ایک بار کا زخم نہیں، یہ روز کا جلتا ہوا داغ ہے۔ صبح جب بچوں کی فیس دینا ہوتی ہے تو زخم تازہ ہو جاتا ہے، شام کو جب چولہا ٹھنڈا رہتا ہے تو زخم خون بہانے لگتا ہے۔ اور رات کو جب دل کہتا ہے غموں کے سفر میں کوئی ساتھ دے، تو زخم ناسور بن جاتا ہے۔
اگر وہ دوسری شادی کا سوچے تو طعنوں کا نیا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ مرد کو تین شادیاں معاف کر دیتا ہے، لیکن عورت اگر طلاق کے بعد دوسری شادی کرے تو لوگ اسے کردار کا طعنہ دیتے ہیں۔ اور اگر بچے ہوں تو اس کے دروازے ہی بند ہو جاتے ہیں۔
کئی عورتیں دوسری شادی کرتی ہیں تو نیا شوہر صاف کہتا ہے: ’’بچے میرے نہیں‘‘۔ یہ جملہ اس عورت کے دل کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتا ہے۔ وہ ماں جس نے بچوں کے لیے اپنی دنیا قربان کر دی تھی، وہ انہی بچوں کے سبب نئے رشتے سے محروم ہو جاتی ہے۔
اور اگر وہ شادی نہ کرے تو بھائیوں کے گھروں میں مہمان بن کر رہتی ہے۔ بھائی اپنی فیملی بناتے ہیں، بیویاں اپنی جگہ بناتی ہیں، لیکن وہ عورت اپنی ساری عمر پرائی دہلیز پر گزارتے گزارتے ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی چھت، کوئی بستر، کوئی سکون نہیں ہوتا۔
یہ عورت دو راہے پر کھڑی رہتی ہے۔ ایک طرف بچوں کی محبت ہے، دوسری طرف معاشرے کی نفرت۔ ایک طرف نئی زندگی کی خواہش، دوسری طرف طعنوں کی بارش۔ اور آخر میں وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتی کہ جئے یا مرے۔
کبھی سوچا ہے کہ ایک عورت کتنی بار مر جاتی ہے؟ طلاق کے کاغذ پر، سسرال کے طعنے پر، بھائی کے گھر کے طنز پر اور بچوں کی بھوک دیکھ کر۔ یہ وہ موتیں ہیں جن کے کفن نہیں ہوتے اور یہ وہ جنازے ہیں جن پر کوئی روتا نہیں۔
میں نے ایک پرانے کالم میں لکھا تھا کہ عورتوں کو جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہییں۔ کبھی کبھی طلاق نہ لینا بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف المیہ یہ بھی ہے کہ اکثر مرد طلاق دیتے ہی نہیں،عورت اور بچوں کا خرچہ بھی نہیں اٹھاتے۔ یوں عورت ایک ایسی قید میں جکڑی جاتی ہے جسے قانون بھی توڑ نہیں پاتا۔
حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ عورت کو صبر کی نہیں، ہنر اور خودمختاری کی تربیت دی جائے۔ اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو عزت کے ساتھ پال سکے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہو تو وہ کسی کے رحم و کرم پر زندہ نہیں رہتی۔
عورت معاشرے میں اس لئے بھی کمزور رہتی ہے کہ اکثریت میں خواتین نوکری یا کاروبار کرنا نہیں جانتیں یا انہیں کرنے نہیں دیا جاتا۔
بحر حال آج کے دور میں عورت اگر چاہے کے پردہ میں رہتے ہوئے کچھ ایسے ہنر سیکھے اور کمائے، تو انٹرنیٹ کے کاروباروں نے زیادہ تر مسلئے آسان کر دیئے ہیں۔
الحمد للہ میری دو بیٹیاں ہیں، میری یہ دلی خواہش ہے کے اپنی بیٹیوں کو گھر گھرہستی، بنیادی تعلیم، تمیز ، تمدن، حسن اخلاق اور عبادات کیساتھ ساتھ، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور سکھایا جائے تاکہ معاشی طور پر وہ کسی پر بوجھ محسوس نہ کریں۔
یاد رکھیے، عورت صرف ایک عورت نہیں، یہ نسلوں کی ماں ہے۔ اگر ہم نے عورت کو دبایا تو آنے والی نسلیں بھی اندھیروں میں پلیں گی۔ اور اگر آپ نے عورت کو جینے دیا تو پوری نسلیں روشنی میں جی اٹھیں گی۔
عورت کوبہتر حقوق کیساتھ جینے دو، ورنہ یہ معاشرہ روز مرتا رہے گا اور قبرستان صرف زمین پر نہیں، گھروں کے اندر بھی آباد ہوتے رہیں گے۔
یہ تحریر معاشرے کے درد سے آشنائی کیلئے لکھی گئی ہے، اگر آپ بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیں، تو اس تحری کو شئیر لازمی کیجیئے۔
(ختم شد )