ان نازک ہاتھوں کی کہانی جو جبر اور ظلم کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھے۔ انسانی لبادے میں ملبوس ایک شیطان صفت پیر فرتوت کا قصہ جو اپنی ابلیسانه خواہش کی تکمیل کی راہ میں حیوان ہو گیا۔
وہ جواب کیسے دیتا۔ اس کے ذہن میں تو انگارے سینچ رہے تھے۔
بابا سائیں ! طبیعت تو ٹھیک ہے ؟"
پیر سائیں نے لرزتا ہوا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ دیا۔ کی ہتھیلی اس پیشانی پر آنے والے پیسنے سے بھیگ گئی۔ راجی پریشان ہوگئی "سر میں درد ہے بابا سائیں؟ سر دبا دوں؟"
تب اچانک زور سے بجلی چمکی۔ بادل گرجے، آسمان میں گویا دراڑیں پڑ گئی۔
"یہ۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟" راجی چیخی "مم - میرا ہاتھ چھوڑیے بابا سائیں !"
بادلوں کی گھن گرج اور طوفان کی سیٹیوں میں حویلی کی آواز دب گئی۔ بجلی کی چمک میں سائے تڑپ اٹھے۔ گلی میں بچوں کا شور اٹھا " اللہ میاں بارش ہو۔ اللہ میاں بارش دو۔" اوطاق سے کسی نوکر کا نعرہ کو نجا " بھیج بھٹائی بھیج !"
راجی خود کو چھڑانے کے لیے چیختی رہی " میں آپ کی بچی ہوں بابا سائیں میں ! تمہاری بیٹی کے برابر ہوں چھوڑ دو مجھے۔خدا کے واسطے رسول کے واسطے۔ ۔ پیران پیر دستگیر کا واسطہ !" سائیں بادشاہ! آپ کو -
کمرے میں چررر کی آواز گونجی۔ راجی سینے پر دونوں ہاتھ باندھے سسکتی رہی۔ اچانک وہ آگے بڑھی اور پیر سائیں -کے پیروں میں گر گئی ” میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں۔ ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ رحم کرو۔"
اس نے جھک کر راجی کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے۔ تب اچانک حویلی کے پرنالے بہہ نکلے۔ گویا کسی دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ بارش ایک دم تیز ہو گئی تھی۔ اس نے راجی کا جوان ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد ہو تا محسوس کیا پھر اس نے اپنی قمیص پھٹنے کی آواز سنی۔ خوف چڑ اور اشتعال سے پیر سائیں نے دایاں ہاتھ بڑھا کر راجی کے لنمبے بالوں کو مضبوطی سے پکڑا اور زور دار جھٹکا دے کر اس کی گردن تکیے پر جھکادی اور اس کے گلے پر گھٹنا رکھ دیا۔ اس کا بایاں ہاتھ تیزی سے کیا گھوما اور ایک زور دار چانٹا راجی کے گال. پر پڑا۔
راجی تکلیف سے دہری ہوگئی۔ ہو گئی۔ ناک سے خون کی باریک لکیر بہ نکلی۔ کھٹی گھٹی آواز میں وہ منت کرنے لگی بخش دو مرشد سائیں ! بخش دو مجھ غریب کو ۔ مجھے معاف کردو سائیں!"
اس کے گلے پر گھٹنے کا دباؤ بڑھ گیا۔ بالوں کی ایک لٹ جڑ سے اکھڑ گئی۔ وہ تڑپی اور پورا زور لگا کر اٹھنے کی کوشش کی۔ پیر سائیں لڑکھڑایا اور سنبھلا اور ٹیبل پر رکھا ہوا شیشے کا
ا۔ گلدان اٹھا کر پوری قوت سے راجی کی کنپٹی پر دے مارا ۔ شیشہ تھا، چور چور ہو گیا۔ تازہ خون کے دو قطرے فرش ٹپکے راجی کے ہونٹوں سے نکلنے والا جھاگ تکیے پر پھیل گیا۔
تھوڑی دیر پہلے پیر سائیں کے گریبان پر اٹھنے والا ہاتھ ہے جان ہو کر پلنگ سے لٹک گیا۔
تیز ہوا کھڑکیوں سے سر پٹخ رہی تھی۔ کھڑکی کے دونوں پٹ ایک جھٹکے سے کھل گئے۔ بجلی کی چمک میں سائیں کو
راجی کی صرف پھٹی پھٹی آنکھیں نظر آئیں۔ وہ ہانپتا ہوا اٹھا اور ٹانگوں کی کپکپاہٹ کے باعث لڑکھڑا گیا۔ کچھ دیر تک وہ پلانگ کے پائے پر سر رکھ کر راجی کے بے جان جسم کو گھورتا
رہا۔ وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں، شیشے کی کرچیوں اور خون کی دو بوندوں کو دیکھتا رہا۔ ہوا کا شور بارش کی ٹپ ٹپ اور پر نالوں سے کرتے پانی کی آواز اس کے اعصاب پر ہتھوڑے
برسانے لگی۔ وہ جھر جھری لے کر اٹھا اور تھکے تھکے قدموں سے لڑکھڑاتا ہوا اوطاق کی طرف کھلنے والے دروازے کی
طرف بڑھا۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دروازے کی بالائی چوکھٹ پر رکھے اور خوف و ہراس اور بے یقینی سے لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
اچانک طوفان کے شور میں نورے کی آواز گونجی بھیج مولا کالا کر سولا"
اس کی جان میں جان آگئی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ کھول کر وہ لرزتی آواز میں چیخا "نورا !"
چھوٹے تھانے دار نے دودھ پتی چائے کا آخری گھونٹ لے کر کپ کو ٹیبل پر رکھی پرچ پر رکھا اور گولڈ لیف کی سگریٹ جلا کر تیلی کو ہوا میں لہرا کر بجھایا پھر اسے خالی کپ میں
پھینک کر نتھنوں سے دھواں نکالتا ہوا بولا ہاں اب بولو نورا کیسے آنا ہوا۔"
نو را دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا ”بابا سائیں نے آپ کو سلام کیا ہے۔"
چھوٹے تھانے دار نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ کپ میں جھاڑی اور بولا ”بابا سائیں کی چوکھٹ کے غلام ہیں۔ کیا حکم ہے ہمارے لیے؟"
نورے نے قریب کھڑے ساون کی طرف اشارہ کرکے کہا ” ساون کی گھر والی کل رات سے غائب ہے؟"
"نام؟"
راجی۔ "نورے نے جواب دیا۔
عمر
بیس سال۔"
چھوٹے تھانے دار کے چہرے پر شریر مسکراہٹ کھیل گئی "کسی پر شک ہے ؟"
نورے نے خود جواب نہیں دیا۔ ساون کی طرف دیکھ کر دھیرے سے بولا " صاحب پوچھ رہے ہیں کسی پر شک ہے ؟" ساون کی آنکھوں میں آنسو تیر آئے۔ اجرک سے آنسو پونچھ کر ہاتھ جوڑتا ہوا دکھی آواز میں بولا "حاکم ! ہم غریبوں کا کسی پر کیا شک ہو سکتا ہے۔"
پھر بھی۔ " چھوٹا تھانے دار مسکرا کر بولا ”پاس پڑوس کے کسی آدمی پر ؟ یا دو ر یا دوست کسی لچے لفنگے دشمن پر ؟" جی نہیں۔ "ساون نے جواب دیا۔
سوچ لو۔ " چھوٹے تھانے دار نے جواب دیا " تجربہ کہتا ہے کہ جوان بیوی خود اپنی دشمن ہوتی ہے۔"
نورے نے نے اپنائیت سے کہا "ساون! اگر کچھ معلوم بے تو بےخوف ہو کر بتا دو۔ آپس میں بیٹھے ہیں۔ پولیس کو بھی کوئی راہ نہ سمجھائی جائے تو ایسا ہی ہے جیسے پانی میں مندھانی چلانہ
ساون سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ نورے کی آواز پر چونکا شرماؤ مت عورت ذات پر کیا بھروسا۔ کچھ معلوم ہے تو بتادو
راجی ایسی نہیں ہے۔ ساون نے جواب دیا۔ چھوٹے تھانے دار نے قہقہہ لگایا ”مردوں کو یہی خوش فہمی مروا دیتی ہے۔ شوہر کے سامنے بیوی اپنے یار سے ملتی ہے اور وہ پھر بھی اسے ۔ اسے ستی ساوتری ہی سمجھتا ہے۔ " اس نے قہقہے کے درمیان کہا
ساون نے گردن اٹھا کر پہلی بار چھوٹے تھانے دار سے انکھیں ملائیں پھر وہ تقریباً ڈانٹنے کے انداز میں بولا "میری راجی ایسی نہیں ہے صاحب!"
چھوٹے تھانے دار کے چہرے پر سیاہی پھیل گئی۔ سگریٹ کو کپ میں مسلتے ہوئے وہ غصے سے بولا ” تم باہر جا کر بیٹھو غیرت مند ! مجھے نورے سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔" ساون اٹھا اور گردن جھکا کر با ہر نکل گیا۔
چھوٹے تھانے دار نے دوسری سگریٹ جلائی اور ناک سے دھواں نکالتے ہوئے نورے سے پوچھا اب بتاؤ حقیقت
کیا ہے؟"
نورا کرسی گھسیٹ کر چھوٹے تھانے دار کے کچھ اور قریب ہو کر بیٹھ گیا اور اپنائیت بھرے انداز میں بولا "حقیقت
اور کیا ہونی ہے جناب! ساون بابا سائیں کا آدمی ہے اور کھیتی باڑی کرتا ہے۔ راجی حویلی میں کام کرتی ہے۔ صبح کو یہ خود اسے حویلی میں چھوڑ جاتا ہے اور تقریباً عشا کے وقت لے جاتا ہے۔ بابا سائیں کا تو آپ کو معلوم ہے۔ اللہ لوک درویش انسان ہیں۔ کسی کو دکھی دیکھ ہی نہیں سکتے۔ کھانا پینا کپڑا لتا اور نقدی۔ جو بھی ان سے ہو سکتا ہے اللہ کی راہ میں غریب غربا میں بانٹتے رہتے ہیں۔ راجی تو چھوٹی بی بی کی خاص خدمت گار ہے۔"
شکل صورت کی کیسی ہے ؟"
غریب ہونے کے باوجود شکل صورت سے شہزادی لگتی ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ لاکھوں میں ایک ہے۔"
نوکر چاکر سے کچھ رابط ضبط کوئی واسطہ ؟"
۔ "نہیں جناب بالکل نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتی
چھوڑو یار۔ " چھوٹے تھانے دار نے مونچھوں کو بل دیتے ہوئے مسکرا کر کہا ” جو سچی بات ہے وہ بتاؤ۔"
آپ قسم لے لیں جناب جناب " نورے نے کہا ”قیامت کے دن منہ کالا ہو جو جھوٹ بولوں۔"
کسی کی طرف سے کوئی تحفہ کو کوئی پیغام و غیره ان گناہ گار کانوں اور آنکھوں نے سنا نہ دیکھا۔ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اسے حویلی میں "
اچھا آگے بڑھو پھر کیا ہوا؟" تھانے دار نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
کل حویلی کی تمام پاک خواتین ایک شادی میں غوث پور گئی تھیں۔ چھوٹی بی بی بھی بڑی اماں کے ساتھ تھیں۔ اس لیے سہ پہر کو ہی بابا سائیں نے مجھے حکم دیا کہ راجی کو گھر چھوڑ آؤں۔ میں نے پگڑی باندھی اور کلہاڑی اٹھا کر تیار ہوا لیکن راجی نے منع کر دیا اور کہا کہ میں اکیلی ہی چلی جاؤں گی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ موسم ٹھیک نہیں ہے کسی بھی وقت بارش شروع ہو سکتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور اکیلی ہی چلی گئی۔ عشا کے وقت ساون آیا اور اس نے بتایا کہ وہ گھر نہیں
پہنچی۔
میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہاں سے گئے تو اسے کافی وقت ہو گیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ پھر کہاں گئی؟ میں نے اسے تسلی دی کہ ہوگی کسی سکھی سہیلی کے گھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
جناب ! پوری رات بارش میں در در بھٹکتے رہے لیکن راجی کا کوئی پتا نہیں چلا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ صبح بابا سائیں کو پورا ماجرا بتایا تو وہ گویا بجھ کر رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے تھانے دار کو فورا جا کر میرا سلام کہو۔ بابا سائیں کے حکم پر ہم حاضر ہو گئے اور سب خیر ہے۔"
چھوٹا تھانے دار سوچ میں ڈوب گیا پھر بولا ” یہ سب کچھ
طوفان سے پہلے ہوا ؟"
"جی ہاں۔ بارش اور طوفان تو بہت بعد میں آیا ۔ "
"یقین سے کہتے ہو؟" تھانے دار نے اس کی آنکھوں
میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
سوفی صد یقین سے کہہ رہا ہوں جناب! علاقے کے کسی لچے لوفر پر شک جاتا ہے؟"
ملک بھرا پڑا ہے ایسے لوگوں سے ۔ " نورے نے کا "لیکن کسی کی مجال ہے کہ سائیں کے آدمی پر ہاتھ ڈالے۔" ہے کہ کوئی وڈیرا یا اس کا بگڑا ہوا بیٹا ، بھتیجا یا سالا جس نے۔یہ
حرکت کی ہو ؟" تھانے دار نے پوچھا۔
نورے نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا " صاحب ! آپ کو یہاں پورے دو سال ہو گئے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ہے سائیں کی مرضی کے خلاف پتا بھی نہیں ہلتا ۔ "
نورے کی بات درست تھی۔ پیربچل شاہ سرکار متولی پیر زمیندار ایم پی اے اور نہ جانے کیا کیا۔ ملک کے ! صدر اور وزیر اعظم تک براہِ راست رسائی وقت کے حاکم سے تعلق داری۔ صبح سے شام تک صرف دیدار کے لیے اور مداحوں کا جمگھٹا ۔ دعا اور تعویذ کے لیے الگ ڈی سی اور کمشنر کی کیا مجال کہ ان کی بھیجی ہوئی چٹھی کو نظر انداز کردیں۔ پیر سائیں کے ایک فون پر تبادلہ ایسے آدمی کے در سے اس کی خادمہ خادمہ اٹھ جائے۔ یہ بات چھوٹے تھانے دار کے حلق سے نہیں اترتی تھی۔ ۔
"میاں بیوی میں کوئی نا ناراضگی؟" چھوٹے تھانے دار نے
سوال کیا۔
بالکل نہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے
ہیں۔"
رشتے داروں میں کوئی دشمنی وغیرہ؟"
خدا جانے، ویسے ہم نے ایسی کوئی بات نہیں سنی۔" نورے نے جواب دیا۔
چھوٹا تھانے دار اٹھ کھڑا ہوا "ٹھیک ہے۔ " اس نے کہا " تم جاؤ فی الحال رپورٹ نہیں لکھتا۔ پیر سائیں کا معاملہ ہے خواہ مخواہ بدنامی ہوگی۔ علاقے میں اپنے آدمی دوڑاتا ہوں۔ امید ہے کہ اچھی خبر ملے گی۔ دوسری صورت میں بھی بات اپنے ہی ہاتھ میں ہے۔"
دوپہر کے وقت نورے کو طلب کیا گیا۔
وہ دروازے پر جوتے اتار کر ہاتھ جوڑتا ہوا کمرے میں
داخل ہوا۔ پیر سائیں صوفے پر نیم دراز تھا۔ نورے نے اس کے پاؤں چھو کر کہا ”سلام بابا سائیں! اور گردن جھکا کر کھڑا
ہو گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد پیر سائیں نے گردن اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اور کمزور آواز میں کہا "بیٹھو۔"
نو را زمین پر اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
پیر سائیں نے تسبیح اٹھائی اور دانے گھماتا ہوا بولا "کیا خبر ہے
خیر ہے بابا سائیں۔ "نورے نے جواب دیا "چھوٹے تھانے دار سے مل آئے ہیں۔"
کیا کہہ رہا تھا وہ ؟"
کیا کہنا تھا اس نے ؟ آپ کا سلام کہا تو بھیگی بلی بن گیا۔ اس نے کہا کہ بابا سائیں کے خاص آدمی کا معاملہ ہے اس لیے رپورٹ نہیں لکھتا۔ چھوری مل گئی تو ٹھیک ورنہ کاغزی کار روائی کرلیں گے۔"
ساون بھی تمہارے ساتھ تھا ؟ " پیر سائیں نے پوچھا۔ جی ہاں بابا سائیں ا چھوٹے تھانے دار نے اس سے سوال جو اب کیے تھے لیکن وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکا۔ نورے نے بتایا۔
تمہارا کیا خیال ہے ساون کچھ بک تو نہیں دے گا ؟" پیر سائیں کا خدشہ زبان پر آہی گیا۔
آپ کی دعا چاہیے مرشد ! رو پیت کے خاموش ہو جائے گا۔"
پیر سائیں کی تسبیح رک گئی۔ اس نے نورے سے سرگوشی میں پوچھا "لاش تو ٹھکانے ٹھکانے لگا دی تھی ا ؟
نورے نے مونچھ کو بل دیتے ہوئے کہا "بختاور آپ بے فکر ہو جا ئیں ۔ سو سال بعد بھی لاش ظاہر ہوگی تو آپ کی جوتی اور میرا سر"
کسی نے دیکھا تو نہیں ؟
نہیں بابا سائیں آپ آرام سے سوجا ئیں۔ سمجھیں کچھ ہوا ہی نھیں پولیس کی طرف سے بھی مطمئن رہیں ہم خود فریادی ہیں۔"
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ تسبیح دوبارہ گھومنے لگی ۔ چند منٹوں کی خاموشی کے بعد نورے نے کہا " بابا سائیں
کچھ اداس معلوم ہوتے ہیں "
"ہم نے ایسا ہرگز نہیں چاہا تھا نورا ، جس طرح ہو گیا ہے۔ چھوری مان جاتی تو
شاید
بھول جاؤ بابا سائیں جو کچھ ہوا ۔ اس میں بھلا آپ کا کیا قصور ہے وقوف عورت نے مرشد کو بھی رنج پہنچایا اور اپنی جان بھی گنوائی۔ عقل سے کام لیتی تو کندن بن جاتی۔ بہر حال آپ اپنے دل پر بوجھ نہ ڈالیں بابا!"
پیر صاحب نے بے دلی سے تسبیح ٹیبل پر رکھ دی۔ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے الجھن زدہ لینے میں بولا " ایک بات اور
بھی ہے نورا۔"
وہ کیا بابا سائیں ؟"
وہ چھوٹی بی بی کی خاص خدمت گار تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتی تھیں۔ ہم عمر تو تھیں ہیں۔ راجی چھوٹی بی بی کا خیال بھی بہت رکھتی تھی۔ کپڑا لتا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا۔ مطلب یہ کہ چھوٹی بی بی کا ہر کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی۔ وہ واپس آکر راجی کے بارے میں سنے گی تو اسے بہت دکھ پہنچے گا۔"
بابا سائیں ! آپ تو چھوٹی سی بات کو دل پر لے کر بیٹھہ گئے۔ نورے نے کہا " مرشد زادی کے لیے خادماؤں کی کیا کی۔ حکم ہو تو آج ہی دس لاکر حاضر کرتا ہوں۔"
ایسا نہیں ہے نورا۔ ہر انسان ایک سا نہیں ہوتا ۔ " کہہ دیجئے گا کہ وو یہاں سے چلے گئے امجبوری تھی۔"
نورے نے مشورہ دیا۔
راجی کے گم ہونے کی خبر بھلا چھپ سکتی ہے؟ پولیس شھر میں ڈنڈا گھمائے گی تو سب کو معلوم ہو جائے گا۔" پیر سائیں نے خدشہ ظاہر کیا۔
یہ بات تو ہے۔ "نورے نے سوچتے ہوئے کہا "پاک بیویوں کو آنے دیجیے تب تک کچھ سوچ لیں گے۔"
پیر سائیں نے دوبارہ تسبیح اٹھا لی نورے کو جانے کا اشارہ کیا اور خود گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب خاص خدمت گار نے آکر بتیاں جلا ہیں تو وہ بری طرح چونک گیا۔
کیا وقت ہوا ہے ؟ اس نے پوچھا۔ رات ہوگئی ہے بابا سائیں !"
اس نے صوفے پر نیم دراز ہو کر کلمہ پڑھا لیکن اٹھا نھیں
مرید باہر انتظار میں بیٹھے ہیں سرکار !"
انہیں کہہ دو کہ واپس چلے جائیں۔ آج میری طبیعت
ٹھیک نہیں ہے۔ "
بارش میں وہ دن بھر انتظار کرتے رہے ہیں ہاہا سائیں۔ کچھ تو بہت دور سے آئے ہیں۔ "خادم نے کہا۔ جو لوگ دور سے آئے ہیں۔ ان کی رہائش کا بندوبست
کردو۔ آج میں باہر نہیں نکل سکتا " پیر سائیں نے کہا۔
ساون کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ رات سے ایک طرف پڑا رو رہا ہے
اسے یہاں لے آؤ " پیر سائیں نے حکم دیا۔
یہاں حویلی میں بابا سائیں ؟ خادم نے حیرت سے
پو چھا۔
ہاں " پیر سائیں نے مختصر جواب دیا۔
ساون اجرک میں منہ سر لپیٹ زارو قطار روتا ہوا ۔ کمرے میں داخل ہوا۔ پیر سائیں کے دونوں پیر مضبوطی سے تھام کار ہچکیوں کے درمیان بولا " میری راجی کا کچھ پتا نہیں چلا "بابا
سائیں نے جلدی سے پیر کھینچ لیے اور بولا مل جائے گی بابا۔ اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو؟"
ساون نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ آٹھ پہر گزر گئے ہیں سائیں ! مجھ سے تو ایک پل بھی دور نہیں رہتی تھی۔ دل میں طرح طرح کے گمان آتے ہیں۔ وہ زندھ بھی ہے یا مرگئی ۔ یہ کہہ کر اس کی آواز رندھ گئی۔ پر سائیں اٹھ کر کھڑکی سے باہر برستی ہوئی بارش کو دیکھ کر بولا ایسا پانی پہلے کبھی نہ بر سا ہوگا۔"
ساون نے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اور رندھی ہوئی آواز میں بولا " وہ نہ جانے کہاں ہو گی ؟ کسی حال میں ہو گی ؟ بابا سائیں آپ کے ہاتھ لمبے ہیں۔ میری وارثی کرو
نہ جانے کیوں پیر سائیں نے گھور کر اپنے دونوں ہاتھوں کو دیکھا۔ کھڑکی بند کرکے وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
ساون نے روتے ہوئے کہا "تمہارے در کا کتا ہوں بابا سائیں۔ میری مالکی کرو۔ بے پہنچ ہوں۔ اللہ اور تم مرشد کے میرا اور ہے بھی کون؟
پر سائیں اسی طرح بیٹھا رہا سب ٹھیک ہو جائے گا ساون حوصلہ رکھو " آنکھیں کھول کر اس نے اپنا دایاںہاتھ
ساون کی طرف بڑھایا ۔ ساون نے ہاتھ چوم کر اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں پر رکھا۔ پیر سائیں کے پیروں پر دونوں ہاتھ رکھ
دیے سجدے کی حالت میں جھک گیا پھر اس نے اجرک کے پلو سے چہرہ پونچھا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اجرک کو بغل میں دبا کر دونوں ہاتھ باندھے الٹے پاؤں کمرے سے نکل گیا۔
طوفان رک گیا لیکن بارش جاری رہی۔ پرنالے بہتے رہے
وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ کمرے میں کسی کے انے کی آہٹ سن کر اسکی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورتا رہا لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔
دوبارہ اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ کسی کی سسکیوں کی آواز سن کر چونک کر اٹھ بیٹھا "کون ہے ؟"
کوئی جواب نہ ملا البتہ سسیکیوں کی آواز بند ہو گئی۔ لپک کر اس نے ٹیبل لیمپ جلایا ۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ وہ اٹھا اور کمرے کا کونا کونا چھان مارا لیکن کوئی ہوتا تو نظر آتا۔ وہ مایوس ہو کر دوبارہ پلنگ پر لیٹنے ہی والا تھا کہ سسکیاں دوبارہ جاگ اٹھیں۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ حوصلہ مجتمع کر کے وہ چیخا میں پوچھتا ہوں کون ہے ؟"
اسے جواب پھر بھی نہ ملا۔ اس نے سوچا۔ یہ میرا وہم ہے وسوسہ ہے میرا دل کا گمان ہے میرے اندر کا۔ بھلا میرے کمرے میں میرے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ سر تا پا لرز کر رہ گیا۔ اس نے پوری قوت مجتمع کر کے پوچھا کون ہو تم؟"
دروازہ کھلا اور نورا اندر داخل ہوا۔
تب گویا اس کی جان میں جان آگئی۔ ٹھنڈی سانس لے
کر بولا "نورا تم"
نورے نے ہاتھ باندھ کر کہا " چھوٹا تھانے دار آیا ہے
بابا سائیں۔"
وہ چند لمحوں تک کھڑا نورے کو گھورتا رہا پھر آہستہ سے
پوچھا کہاں دفنایا تھا اسے "
نو را زمین پر بیٹھ گیا۔ دائیں ہاتھ کی پشت کو مونچھ پر پھیر کر بولا " وہاں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔"
یقین سے کہتے ہو کہ تمہیں کسی نے نہیں دیکھا ؟" کوئی نورے کی دھول بھی پا سکے یہ کسی میں مجال ہےسائیں ؟"
گاڑی کے نشان؟"
بڑی کرامت والے مرشد ہو۔ بارش نے ہر جگہ
تالاب بنا دیے ہیں۔"
" پھر تھانے دار کیوں آیا ہے؟"
بابا سائیں کو سلام کرنے کے لیے۔ " نورے نے
جواب دیا۔
اسے شک تو نہیں ہوا ؟"
کتے میں سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ ہڈی
پھینکیےخاموش ہو جائے گا۔"
اگر میں اسے ہڈی نہ دو تو ؟"
پتھر مار دیجیے گا۔"
ٹیبل پر سے تسبیح اٹھا کر پیر سائیں نے کہا۔ " اندر بھیج دو اسے
چھوٹے تھانے دار نے چوکھٹ پر جوتے اتارے چھڑی کو بغل میں دبایا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا پھر بولا " بابا سائیں کی بادشاہی سلامت رہے۔ "
ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کا کہہ کر پیر صاحب نے تسبیح ٹیبل پر رکھ دی۔ تھانے دار احترام سے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا اور بولا " ایسی بارش میں نے زندگی میں پہلی بار و دیکھی ہے۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا ہے۔ "
پر سائیں نے مسکرا کر کہا " یہ سب مولا کے رنگ ہیں تھانے دار صاحب!
چھوٹے تھانے دار کی نظریں کمرے میں بھٹکنے لگیں۔ بے خیالی میں اس نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ جلانے ہی والا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ پیر سائیں کے سامنے بیٹھا ہے۔ وہ بغیر سلگائی سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر انگلیوں میں دبا کر بیٹھ گیا۔
راجی کا کچھ معلوم ہوا ؟ " پیر سائیں نے پوچھا ۔ آپ کے علاوہ اور کسے معلوم ہو گا بابا سائیں ۔ "
تھانے دار نے بغیر جلی سگریٹ ہونٹوں تک لاتے ہوئے کہا۔ اس کے جسم میں سنسناہت کی دوڑ گئی "کیا مطلب؟" تھانے دار نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی خیالی راکھ
جھاڑی۔ چھڑی کو دھیرے دھیرے اپنی ہتھیلی پر مارتے ہوئے بولا آپ دلوں کے حال جانتے ہیں، غیبی چیزوں کا مشاہدہ کر لیتے ہیں روحانیت کے مالک ہیں آپ سے بھلا آپ سے کوئی بات پوشیدو رہ سکتی ہے بابا سائیں ۔ "
پیر سائیں چند لمحئے تھانے دار کی بات پر غور کرتا رہا پھر بولا ساون بہت پریشان ہے。
تھانے دار اٹھ کر کھڑکی تک گیا پردہ ہٹاکر باہر دیکھا اور بولا ظاہر ہے وہ پریشان تو ہو گا۔"
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ اچانک تھانے دار نے
پوچھا " بہت خوب صورت تھی ؟"
پیر سائیں نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ جواب کا انتظار کیے بغیر تھانے دار بولا خیر آپ کے لیے تو اولاد کی طرح تھی خدمت گار بچوں کا درجہ رکھتے تھے ہیں نا بابا سا ئیں۔" جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے مزید کہا " لیکن نوکروں کا کیا بھروسہ
پیر سائیں سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ کیا جواب دے۔
تھانے دار پردہ برابر کر کے سیدھا پیر سائیں کے سامنے آکھڑا ہوا نورے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟"
نورا میرا خاص آدمی ہے۔"
خاص آدمی ہی تو جرم کر بیٹھتے ہیں بابا سائیں۔"
وہ ہمارے پاس بچپن سے رہ رہا ہے۔ میرے سامنے پل بڑھ کر جوان ہوا ہے۔ پیر سائیں نے کہا۔
کل شام بھی آپ کے ساتھ تھا؟" تھانے دارنے ساتھ سوال کیا۔
وہ میرے حکم کے بغیر کہیں نہیں جاتا۔"
آپ کو یقین ہے بابا سا ئیں ؟"
کیا تم اس پر شک کر رہے ہو جمعہ خان پیر سائیں نے پہلی بار تھانے دار کا نام لے کر پوچھا۔
نہیں بابا سائیں۔ " تھانے دار نے جلدی سے کہا آپ کے آدمی پر شک کر کے اپنی آخرت کالی کرانی ہے کیا۔ میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ "
پر سا ئیں کھڑا ہو گیا۔ مصافحے کے لیے دایاں ہاتھ بڑھا کر بولا "راجی کے بارے میں کچھ معلوم ہو تو مجھے فورا اطلاع کردینا خدا حافظ
چوڑیوں کی کھنک پر پیر سائیں کی آنکھ کھل گئی۔ وہ کروٹ بدلنے ہی والا تھا کہ اسے یاد آیا کہ وہ کمرے میں تنھا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اچھل کر بیٹھ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ
پائنتی کے پاس کوئی بیٹھا ہے ۔ مارے خوف. کے اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی اس سے پہلے راجی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی " بابا سا ئیں؟"
وہ اچھل کر پلنگ سے اٹھا اور دور کھڑا ہو گیا۔ سسکیاں اس کے قریب آنے لگیں "بابا سا ئیں۔"
کسی نے گویا اس کے سینے میں بھالا اتار دیا ہو۔ لڑکھڑاتے ہوئے اس نے پوچھا " ک ک کون ہے ؟"
راجی ہوں بابا سائیں۔ سسکیوں میں جواب ملا۔
وہ چیخ پڑا راجی!!
ہاں راجی بابا سا ئیں۔"
لیل لیکن "وہ اس سے زیادہ بول نہ سکا۔ اس کے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ پیشانی پر پسینہ دھاریں بنا کر بہنے لگا
بابا سائیں میں مری نہیں ہوں زندہ ہوں۔ "
یہ جھوٹ ہے۔"وہ چیخا
یہ سچ ہے بابا سائیں
تم مرچکی ہو۔ تم مر چکی ہو۔"
میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں۔ غور سے دیکھیے۔"
کہاں ہو تم؟ سامنے کیوں نہیں آتیں ؟ جواب دو۔" -سائیں کا پورا وجود کپکپانے لگا۔ سسکیاں قریب آنے لگیں وہ کھسکتا ہوا دیوار سے جالگا اور بری طرح ہاپنے لگا۔ کسی کے گرم سانس اس کے چہرے کو چھونے لگے۔ وہ حلق کے بل چیخا " میرے قریب مت آؤ۔ دور رہو مجھ سے۔ کسی کے وجود کی گرمی اس کے جسم کو جھلسانے لگی۔ پوری قوت مجتمع کرکے وہ چیخا " دور رہو مجھ سے دور رہو۔"
سسکیاں پھر بھی بند نہ ہوئیں۔ وہ بے بس ہو گیا۔ وہ منت کرنے لگا۔ "مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ خدا کے واسطے مجھے اکیلا چھوڑودو
کسی کا سرد ہاتھ اس کی پیشانی کو چھو گیا۔ اس نے چیخنا چاھا لیکن آواز نہ نکل سکی۔ وہ دیوار سے رگڑ کھاتا دھیرے دھیرے نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا۔
بابا سائیں ۔ " میلوں دور سے آتی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ بے ہوشی میں بھی چونک گیا۔ آنکھیں کھولیے بابا سائیں ۔ "
اس نے پوری قوت سے آنکھیں بھینچ لیں۔ اس کے ہونٹوں سے بڑبڑاہٹ سی نکلی " مجھے اکیلا چھوڑ دو۔"
میں آپ کی بیٹی ہوں بابا سائیں! آپ کی بیٹی۔ " اس نے آواز سنی لیکن اسے یقین نہ آیا۔
ہم واپس آگئے ہیں بابا سائیں۔ دیکھیے ہم سب آگئے ہیں
اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے پلنگ کے گرد گھر کے تمام افراد پریشان کھڑے نظر آئے۔ سرہانے کھڑی بڑی بی بی نے کہا سائیں ہوش میں آگئے ہیں۔ "
چھوٹی بی بی نے باپ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اسے محبت سے چوم کر کہا "شکر ہے پروردگار کا۔ ہم
تو بہت
مایوس ہو گئے تھے بابا سا ئیں۔"
اس نے دل میں کانٹا سا چُبھتا محسوس کیا " کیا ہو گیا تھا مجھے
بڑی بی بی نے خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا سائیں کو کئی بار کہا ہے کہ دوسروں کی مصیبتیں اپنے گلے میں نہ ڈالا
کریں لیکن سائیں مانتے ہی نہیں۔ دو ٹکے کی باندی کیا بھاگ گئی ہے سائیں نے اپنی طبیعت خراب کرلی ہے۔ بے حیا عورتوں کی خاطر کوئی اس قدر پریشان ہوتا ہے ؟"
یہ فرینڈز ہمارا چینل ہے جہاں پر بہترین سٹوریز اپلوڈ ہوتی ہیں اگر اپ یوٹیوب استعمال کرتے ہیں تو ہمارے چینل کو ضرور جا کے سبسکرائب کریں
نیچے نام دیا گیا ہے اپ اس کو کاپی کر کے یوٹیوب پر سرچ کر سکتے ہیں
@Urduanokhekhaniyan
