![]() |
بوٹا سنگھ اور زینب – تقسیم ہند کی ایک ناقابل فراموش داستان |
شادی کے گیارہ مہینے بعد زینب ایک لڑکی کی ماں بنی۔ بوٹا سنگھ نے اس کا نام تنویر رکھا۔
جائیداد کی لالچ اور سازش
چند سال بعد بوٹا سنگھ کے رشتہ داروں نے ان افسروں کو اطلاع دے دی جو فسادات کے زمانے میں اغوا کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کی تلاش میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بوٹا سنگھ کے شادی کرنے سے اس کے رشتہ دار اس کی جائیداد کے وارث بننے سے محروم ہو گئے تھے۔
زینب کو بوٹا سنگھ سے چھین لیا گیا اور پاکستان میں اس کے رشتہ داروں کی تلاش شروع ہوئی۔ عارضی طور پر زینب کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ بوٹا سنگھ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی۔
بوٹا سنگھ کا اسلام قبول کرنا
بوٹا سنگھ فوراً دہلی چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے وہ کام کیا جو کسی سکھ کے لیے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔
اس نے اپنے لمبے بال کٹوا دئیے۔
جامع مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا۔
اس کا نیا نام جمیل احمد رکھا گیا۔
اس تبدیلی کے بعد بوٹا سنگھ پاکستان ہائی کمیشن پہنچا اور اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا، لیکن اس کا مطالبہ نامنظور کر دیا گیا کیونکہ دونوں ملک معاہدے کی سختی سے پابندی کر رہے تھے کہ:
> "اغوا شدہ عورت خواہ کسی مذہب کے آدمی کے پاس سے برآمد ہو، اور وہاں وہ خواہ کسی حیثیت سے رہ رہی ہو، اسے فوراً کیمپ پہنچا دیا جائے۔"
بوٹا سنگھ کا پاکستان آنا
چھ مہینے تک بوٹا سنگھ روز اپنی بیوی سے ملنے کیمپ جاتا رہا۔ آخر وہ دن آہی گیا جب زینب کے رشتہ داروں کا پتہ چل گیا۔
رخصت ہوتے وقت بوٹا سنگھ اور زینب ایک دوسرے سے رو رو کر ملے۔ زینب نے قسم کھائی کہ وہ اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ رہنے کے لیے بہت جلد واپس آئے گی۔
بوٹا سنگھ نے ایک مسلمان کی حیثیت سے پاکستان ہجرت کرنے کی اجازت مانگی، لیکن اس کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔ اس نے ویزا مانگا، جو اسے نہیں ملا۔ آخرکار ہار کر بوٹا سنگھ اپنی بچی "سلطانہ" کو لے کر غیر قانونی طور پر پاکستان آ گیا۔
لاہور میں اپنی بیٹی کو چھوڑ کر وہ زینب کے گاؤں پہنچا۔ مگر وہاں جا کر اسے انتہائی شدید صدمہ پہنچا۔
زینب کی شادی
ہندوستان سے ٹرک میں بیٹھ کر زینب پاکستان پہنچی ہی تھی کہ چند گھنٹوں کے اندر اس کی شادی ایک دور کے رشتہ دار سے کر دی گئی۔
بوٹا سنگھ روتا پیٹتا رہا:
> "میری بیوی مجھے واپس کر دو، میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔"
زینب کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے بوٹا سنگھ کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے عدالت میں پیش کر دیا کہ یہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا ہے۔
عدالت میں آخری امید
بوٹا سنگھ نے گڑگڑا کر کہا:
> "میں مسلمان ہوں، میری بیوی مجھے واپس کر دی جائے۔ اگر مجھے ایک بار بیوی سے ملنے کا موقع دیا جائے تو میں خود اس سے پوچھ کر تسلی کر لوں گا کہ وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں؟"
بوٹا سنگھ کی رقّت آمیز التجا سے متاثر ہو کر عدالت نے اس کی درخواست منظور کر لی۔ ایک ہفتہ بعد زینب کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دیا گیا۔
جب عدالت میں زینب کو پیش کیا گیا تو وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ جج نے بوٹا سنگھ کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا:
> "کیا تم اسے جانتی ہو؟"
زینب نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا:
> "ہاں، یہ بوٹا سنگھ ہے۔ میرا پہلا شوہر۔"
اس سے پوچھا گیا:
> "کیا تم ان لوگوں کے ساتھ ہندوستان واپس جانا چاہتی ہو؟"
زینب کا فیصلہ
عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ایک طرف بوٹا سنگھ اور اس کی بچی، دوسری طرف اس کا موجودہ شوہر اور رشتہ دار۔
زینب نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا: "نہیں۔"
بوٹا سنگھ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ بری طرح لرز گیا۔ آخرکار اپنی بچی کو زینب کے سپرد کیا اور خود روتا ہوا عدالت سے نکل آیا۔
بوٹا سنگھ کی المناک موت
بوٹا سنگھ نے اپنی بیٹی کو بڑے پیار سے گود میں اٹھایا اور قریب کے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ جب ٹرین قریب آئی تو بوٹا سنگھ نے بچی کو زور سے پیچھے دھکیلا اور خود انجن کے نیچے چھلانگ لگا دی۔
بوٹا سنگھ مر گیا، مگر اس کی بچی معجزانہ طور پر بچ گئی۔
بوٹا سنگھ کے خون سے لت پت لاش کے پاس ایک خط ملا جو اس نے زینب کے نام لکھا تھا:
> "میری پیاری زینب، تم نے بھیڑ کی آواز سنی، لیکن ایسی آواز کبھی سچی نہیں ہوتی۔ میری آخری خواہش ہے کہ میں تمہارے ہی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوں۔ کبھی کبھار میری قبر پر پھول چڑھا دیا کرنا۔"
بوٹا سنگھ کا انجام
بوٹا سنگھ کی المناک موت کی خبر پورے لاہور میں پھیل گئی۔ ہزاروں مسلمان اس کے جنازے میں شریک ہوئے اور اسے "شہیدِ محبت" کا خطاب دیا۔ مگر زینب کے رشتہ داروں نے اس کی میت کو گاؤں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا۔
انتظامی افسروں نے ہدایت کی کہ جھگڑا فساد کرنے کے بجائے بوٹا سنگھ کو لاہور میں ہی دفن کر دیں۔ اسے لاہور میں میامی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا. لاہور میں اس کی قبر پر لوگوں نے اتنے پھول چڑھائے کہ پھولوں کے پہاڑ بن گئے۔ بوٹا سنگھ کو اتنی زیادہ عزت ملنا زینب کے خاندان والوں کو گوارا نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک گروہ لاہور بھیجا جس نے بوٹا سنگھ کی قبر کو نہ صرف توڑا پھوڑا بلکہ اسے ناپاک بھی کر دیا۔ اس وحشیانہ حرکت سے سارے لاہور کے لوگ سناٹے میں آگئے۔ لاہور والوں نے بوٹا سنگھ کو دوبارہ دفن کیا اور اس کی قبر کو ایک بار پھر اے پھولوں کے پہاڑ سے ڈھک دیا۔ اس بار سینکڑوں مسلمان اس کی قبر کی حفاظت کیلئے تعینات ہو گئے۔
بوٹا سنگھ کی بیٹی سلطانہ کو لاہور کے ایک خاندان نے منہ بولی بیٹی بنا کر پالا۔
آخری وقت تک وہ اپنے انجینئر شوہر اور تین بچوں کے ساتھ لیبیا میں رہ رہی تھی۔
(فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا مسودہ جون 1975ء میں پریس میں جا چکا تھا۔ اس لیے اس کے بعد کے واقعات کا اس میں احاطہ نہیں کیا گیا۔)
بحوالہ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ از لیری کولنز اینڈ ڈامینیق لیپیری
لاہور کے لوگوں نے بوٹا سنگھ کو "شہیدِ محبت" کا ٹائٹل دیا تھا. ایسی کئی داستانیں مٹی کی دھول میں دفن ہو
گئیں
---
اختتام
یہ کہانی محبت، قربانی اور بے
بسی کی ایسی دردناک داستان ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ بوٹا سنگھ کا المیہ محبت کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔